Monthly Archives: December 2010

بدلہ جانوروں سے ؟ ؟ ؟

ميں پہلے بدلہ انسانوں سے لکھ چکا ہوں جس ميں اس سلسلہ ميں اللہ کا فرمان نقل کر چکا ہوں ۔ ہم لوگ اتنے خود پسند اور خود غرض ہو چکے ہيں کہ بے زبان جانوروں کو بھی معاف نہيں کرتے ۔ انسان بول سکتے ہيں بدلہ لے سکتے ہيں مگر جانور جو ايسا نہيں کر سکتے ہمارا رويّہ اُن کے ساتھ بہتر ہونے کی بجائے ظالمانہ ہوتا ہے

پرانے زمانہ ميں لوگ اپنے گھر کی چھتوں پر يا برآمدے ميں محراب کی چوٹی سے دو برتن لٹکا ديا کرتے تھے اور روزانہ ايک ميں دانہ اور ايک ميں پانی ڈالا کرتے تھے ۔ يہ کام صرف مالدار نہيں کم مايہ لوگ بھی کرتے تھے اور کئی اب بھی کرتے ہيں ۔ پرندے جو اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی حمد کرتے ہيں کيا وہ انسانوں کيلئے خير کی دعا نہيں کر سکتے ؟

ميں نے بچپن ميں چيوٹيوں کی لمبی قطار لگی ديکھی تو اپنے گھر والوں کو مطلع کيا ۔ کہا گيا “ديکھو چيونٹياں کہاں سے آ رہی ہيں ۔ وہاں ايک مُٹھی آٹا ڈال دو”۔ ميں نے تعميل کی اور چيونٹيوں کا جائزہ لينے لگا ۔ کچھ ہی دير ميں سب چيونٹياں آٹا اپنے بِل ميں ليجا رہی تھيں ۔ اس کے بعد گھر ميں کوئی چيونٹی نظر نہ آئی

اب اگر پرندوں کے گند ڈالنے يا چيونٹيوں کے گھر ميں کھانے کی چيز پر چڑھنے يا گھر ميں پھرنے سے ناراض ہو کر پرندوں کو ہلاک کرنا شروع کر ديا جائے يا چيونٹيوں کی نسل کُشی کر دی جائے تو کيا يہ ظلم نہ ہو گا ؟

ہم نے اساتذہ اور بزرگوں سے سنا تھا کہ ايک درخت کاٹا جائے يا فالتو پانی بہايا جائے تو اس کا بھی روزِ محشر حساب دينا ہو گا ۔ بدلہ لينے کے سلسلہ ميں اللہ کا فرمان ہے بے زبان سے کيا بدلہ لينا جسے اس بات کی سمجھ ہی نہيں کہ وہ اپنا رزق تلاش کرتے ہوئے کسی کی نازک طبع پر گراں گذر رہا ہے

سورت 16 النحل آيت 126 ۔ وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِهِ ۖ وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِلصَّابِرِينَ
اور اگر بدلہ لو بھی تو بالکل اتنا ہی جتنا صدمہ تمہیں پہنچایا گیا ہو اور اگر صبر کر لو تو بیشک صابروں کے لئے یہی بہتر ہے

سورت 42 الشورٰی آيات 40 تا 43 ۔ وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا ۖ فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ
اور برائی کا بدلہ اسی جیسی برائی ہے اور جو معاف کردے اور اصلاح کر لے اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے، (فی الواقع) اللہ تعالٰی ظالموں سے محبت نہیں کرتا

اے تے فير ہے

مسلم لیگ [نواز] کے سینیٹر ظفر علی شاہ نے عدالتِ عظمٰی ميں پٹیشن دائر کر دی ہے جس ميں مؤقف اختیار کیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 101 کے مطابق صدر نے وزیراعظم کی مشاورت سے گورنرز کا تقرر کرنا ہوتا ہے جبکہ موجودہ چاروں گورنرز کا تقرر مشرف دور میں ہوا جو اب غیرآئینی ہوچکا ہے لہٰذا چاروں گورنرز کو کام کرنے سے روکا جائے اور گورنرز کے تقرر کے احکامات غیر آئینی قرار دیئے جائیں ۔ ظفرعلی شاہ نے اپنی پٹیشن میں وفاق ۔ صوبائی حکومتوں اور گورنرز کو فریق بنایا ہے

امريکی امداد کہاں جاتی ہے ؟

يو ايس ايڈ کا نام عام سُنا جاتا ہے اور اخبارات ميں بھی اس کا بہت ذکر رہتا ہے ۔ ہوتی ہے
United States Agency for International Development
عام لوگ حيران ہوتے ہيں کہ يو ايس ايڈ کے تحت اربوں ڈالر پاکستان کو ملتے ہيں مگر ترقی [development] کہيں نظر نہيں آتی
1960ء کی دہائی کے اوائل ميں ميرے 200 سے زائد جوان انجنيئر ساتھيوں نے جو واپڈا کی ملازمت ميں تھے اسی يو ايس ايڈ کے اصل استعمال کو ديکھ کر لاہور واپڈا ہاؤس کے سامنے احتجاج کيا اور تمام صعوبتيں جھيلنے کے بعد اپنا مطالبہ منظور کرا کے اس موذی مرض سے واپڈا کو نجات دلانے ميں کامياب ہو گئے

اُنہی دنوں ميں پاکستان آرڈننس فيکٹريز ميں ميرے ساتھی آدھی درجن جوان انجيئروں نے اپنا خاموش احتجاج اربابِ اختيار تک پہنچايا اور اس وقت کے چيئرمين صاحب نے جراءت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اُس وقت کے حکمرانوں کو اس موذی بيماری کی توسيع روکنے پر قائل کر ليا ۔ چند ماہ کے اندر اس موذی مرض سے نجات مل گئی اور پاکستان آرڈننس فيکٹريز تيزی سے ترقی کرنے لگيں

پھر ناجانے کب يہ موذی مرض وطنِ عزيز ميں حملہ آور ہوا اور اب سرطان کی طرح پھيل کر ملک کو بُری طرح جکڑ چکا ہے

آخر يہ امداد جو ترقی کا نام لئے ہوئے ہے جاتی کہاں ہے ؟ نيچے ديئے ربط پر کلک کر کے اس کی نہائت مختصر داستان پڑھيئے
Where USAID Goes ???

اقوامِ متحدہ کی قرار دادیں

بنيادی طور پر ہند و پاکستان کی آزادی کا جو منصوبہ تھا اُس میں صوبوں کی بنياد پر تقسيم ہونا تھی مگر ہندو رہنماؤں کی ايماء پر صوبوں کی بجائے ضلعوں کی بنياد پر تقسيم کا فيصلہ کر ديا گيا اس طرح دو صوبے بنگال اور پنجاب کو تقسيم کر ديا گيا ۔ ہندو رہنماؤں نے کمال مکاری کرتے ہوئے لارڈ مؤنٹ بيٹن کو بننے والے بھارت کا پہلا گورنر جنرل مان ليا ۔ پھر جواہر لال نہرو کی ليڈی مؤنٹ بيٹن سے دوستی رنگ لائی اور حکومتِ برطانيہ کے منظور شدہ فيصلہ کی بھی خلاف ورزی کرتے ہوئے ریڈکلف اور ماؤنٹ بیٹن نے خفيہ طور پر بھاری مسلم اکثريت والے ضلع گورداسپور کو تقسيم کر ديا اور جس کا اعلان پاکستان بننے کے چند دن بعد کيا گيا

بھارت کو جموں کشمیر سے ملانے والی واحد سڑک ضلع گورداس پور کے قصبہ پٹھانکوٹ سے جموں کے ضلع کٹھوعہ میں داخل ہوتی تھی جسے بھارت ميں شامل کر کے بھارت کو جموں کشمير جانے کا راستہ مہياء کر ديا گيا تھا ۔ پھر جب 24 اکتوبر 1947ء سے جموں کشمير کی آزادی کی جنگ لڑنے والے جموں کشمير کے باشندے جنوری 1948ء ميں ضلع جموں ميں اکھنور کے قريب پہنچ گئے تو بھارت نے خطرہ کو بھانپ لیا کہ مجاہدین نے اگر مزيد آگے بڑھ کر کٹھوعہ پر قبضہ کر لیا تو بھارت کے لاکھوں فوجی جو 27 اکتوبر 1947ء کو جموں کشمیر میں زبردستی داخل ہو گئےتھے محصور ہو جائیں گے ۔ چنانچہ بھارت کے وزیراعظم جواہر لال نہرو فوراِ امريکا پہنے اور اقوام متحدہ سے رحم کی بھیک مانگی

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس ہوا ۔ پنڈت نہرو نے اقوام متحدہ میں تقریر کرتے ہوئے یقین دہانی کرائی کہ امن قائم ہوتے ہی اقوامِ متحدہ کے زيرِ اہتمام عام رائے شماری کرائی جائے گی اور جو فیصلہ جموں کشمير کے عوام کریں گے اس پر عمل کیا جائے گا اور اس بناء پر فوری جنگ بندی کی درخواست کی ۔ اس معاملہ میں پاکستان کی رائے پوچھی گئی ۔ پاکستان کے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان جنگ بندی کے حق میں نہیں تھے مگر وزیرِ خارجہ سر ظفراللہ نے کسی طرح ان کو راضی کر لیا

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے جنوری 1948ء میں جنگ بندی کی قرارداد اس شرط کے ساتھ منظور کی کہ اس کے بعد جلد حالات بہتر کر کے رائے شماری کرائی جائے گی اور عوام کی خواہش کے مطابق پاکستان یا بھارت سے ریاست کا الحاق کیا جائے گا ۔ پھر یکے بعد دیگرے کئی قرار دادیں اس سلسلہ میں منظور کی گئیں ۔ مجاہدین جموں کشمیر نے پاکستان کی عزت کا خیال کرتے ہوئے جنگ بندی قبول کر لی ۔ بعد میں نہ تو بھارت نے یہ وعدہ پورا کیا نہ اقوام متحدہ کی اصل طاقتوں نے اس قرارداد پر عمل کرانے کی کوشش کی

اقوامِ متحدہ کی سکيوريٹی کونسل اور اقوامِ متحدہ کے کميشن کی قرارداديں جو چيخ چيخ کر دنيا سے انصاف کا تقاضہ کر رہيں ہيں مندرجہ ذيل ہيں ۔ متعلقہ قرارداد اس پر کلِک کر کے پڑھی جا سکتی ہے

اقوامِ متحدہ کی سکيوريٹی کونسل کی قرارداد 21 اپريل 1948ء

اقوامِ متحدہ کے کميشن کی قرارداد 13 اگست 1948ء

اقوامِ متحدہ کے کميشن کی قرارداد 5 جنوری 1949ء

اقوامِ متحدہ کی سکيوريٹی کونسل کی قرارداد 14 مارچ 1950ء

اقوامِ متحدہ کی سکيوريٹی کونسل کی قرارداد 30 مارچ 1951ء

اقوامِ متحدہ کی سکيوريٹی کونسل کی قرارداد 24 جنوری 1957ء

اقوامِ متحدہ کی سکيوريٹی کونسل کی قرارداد 20 ستمبر 1965ء

پھر شور اُٹھا ہے چرخِ کُہن سے

23 جمعرات 23 دسمبر 2010ء کے اخبار ميں وفاقی شرعی عدالت کا فيصلہ اور اس کے خلاف روشن خيال عورتوں کی ہاہاکار شائع ہوئی ہے ۔ حقوقِ نسواں آرديننس 2006ء شائع ہونے کے بعد ميں نے 23 جنوری کو ايک تقابلی جائزہ شائع کيا تھا جو وقت کی ضرورت کے مطابق دوبارہ شائع کر رہا ہوں

خواتين کے حقوق محفوظ ہو گئے ؟ ؟ ؟ بتاريخ 23 جنوری 2007ء

ميں شعيب صفدر صاحب کا مشکور ہوں کہ نئے قانون تحفظِ حقوق خواتين کے ويب پر شائع ہوتے ہی اس کا لِنک مجھے بھيج ديا ۔ اس کا مطالعہ سکون سے کرنا ضروری تھا ۔ ميں کچھ ذاتی کاموں ميں مصروف تھا ۔

زنا زبردستی سے کيا جائے يا باہمی رضامندی سے قرآن شريف اور سنّتِ رسول اللہ سيّدنا محمد صلی اللہُ عَلَيہِ وَ سَلَّم کے مطابق زانی اور زانيہ کی سزا ميں کوئی فرق نہيں ہے اور سزاسو کوڑے يا رجم ہے البتہ زنا بالجبر کی صورت ميں عورت کو باعزت بری کر ديا جاتا ہے اور زانی مرد کو سزا دی جاتی ہے

تحفظِ حقوق خواتين کا قانون منظور کرانے کا مقصد خواتين کے حقوق محفوظ کرنا ہے يا بے راہ روی کو محفوظ کرنا ۔ يہ نئے قانون کی مندرجہ ذيل صرف تين دفعات پڑھنے سے ہی واضح ہو جاتا ہے ۔

376 ۔ زنا بالجبر کے لئے سزا
[1] جو کوئی زنا بالجبر کا ارتکاب کرتا ہے اسے سزائے موت یا کسی ایک قسم کی سزائے قید جو کم سے کم پانچ سال یا زیادہ سے زیادہ پچیس سال تک ہو سکتی ہے دی جائے گی اور جرمانے کی سزا کا بھی مستوجب ہو گا

496 ۔ ب ۔ باہمی رضا مندی سے زنا کی سزا
[2] اگر عورت اور مرد باہمی رضامندی سے زنا کے مرتکب ہوں تو انہيں قيد کی سزا دی جا سکتی ہے جس کی معياد پانچ سال تک بڑھائی جا سکتی ہے ۔ اس کے علاوہ جرمانہ بھی کيا جا سکتا ہے جو دس ہزار روپے سے زيادہ نہ ہو

203 ۔ الف ۔ زنا کی صورت ميں نالش

[1] کوئی عدالت زناء کے جرم (نفاظ حدود) آرڈیننس کے تحت کسی جرم کی سماعت نہیں کرے گی ماسوائے اس نالش کے جو کسی اختیار سماعت رکھنے والی مجاز عدالت میں دائر کی جائے

[2] کسی نالش جرم کا اختیار سماعت رکھنے والی عدالت کا افسر صدارت کنندہ فوری طور پر مستغیث اور زنا کے فعل کے کم از کم چار چشم دید بالغ گواہوں کی حلف پر جرم کے لئے ضروری جانچ پڑتال کرے گا۔

[3] مستغیث اور عینی گواہوں کی جانچ پڑتال کرنے کے لئے مواد کو تحریر تک محدود کر دیا جائے گا اور اس پر مستغیث اور عینی گواہوں کے علاوہ عدالت کے افسر صدارت کنندہ کے بھی دستخط ہوں گے۔

[4] اگر عدالت کے افسر صدارت کنندہ کی یہ رائے ہو کہ کاروائی کے لئے کافی وجہ موجود ہے تو عدالت ملزم کی اصالتاَ حاضری کے لئے سمن جاری کرے گا۔

[5] کسی عدالت کا افسر صدارت کنندہ جس کے روبرو نالش دائر کی گئی ہو یا جس کو یہ منتقل کی گئی ہو اگر وہ مستغیث اور چار یا زائد عینی گواہوں کے حلفیہ بیانات کے بعد یہ فیصلہ دے کہ کاروائی کے لئے کافی وجہ موجود نہیں ہے، نالش کو خارج کر سکے گا اور ایسی صورت میں وہ اس کی وجوہات قلمبند کرے گا۔

ڈسٹرکٹ اينڈ سيشن جج کو مجاز جج قرار ديا گيا ہے

تبصرہ

زنا بالجبر ثابت ہو جانے پر بھی موت کی سزا دينا ضروری نہيں رہا بلکہ پانچ سال قيد کی سزا دے کر بھی فارغ کيا جا سکتا ہے ۔ سو کوڑے يا رجم
کی سزا ختم کر دی گئی ہے جو اللہ تعالٰی کے حکم کی صريح خلاف ورزی ہے

اگر باہمی رضامندی سے زنا کا ارتکاب ثابت ہو جائے تو زيادہ سے زيادہ پانچ سال قيد کی سزا دی جا سکتی ہے ۔ اس ميں بھی سو کوڑے يا رجم کی سزا ختم کر دی گئی ہے جو اللہ تعالٰی کے حکم کی صريح خلاف ورزی ہے

چار تزکيۂِ نفس رکھنے والے چشم ديد گواہ کہاں سے آئيں گے جن پر مجاز جج کو بھی اعتبار ہو ؟

کيا متذکّرہ تخفيف شدہ سزا بھی صرف کھُلے عام زنا کرنے والوں کيلئے ہے ؟ قانون کی شِقوں سے تو ايسا ہی ظاہر ہوتا ہے

ڈسٹرکٹ اينڈ سيشن جج کو مجاز جج قرار ديا گيا ہے ۔ نہ پوليس اور نہ کسی اور جج کو زنا کے سلسلہ ميں کسی قسم کی کاروائی کا کوئی اختيار ہو گا اور نہ کوئی جج از خود نوٹس لے کر کاروائی کر نے کا مجاز ہو گا ۔ چنانچہ کسی دُور دراز علاقہ ميں بھی کوئی زنا کا مرتکب ہو گا تو مستغيث اور چار چشم ديد گواہوں کو ڈسٹرکٹ ہيڈکوارٹر جا کر ڈسٹرکٹ اينڈ سيشن جج کے سامنے پيش ہو کر اپنے بيانات قلمبند کرانا ہوں گے جبکہ ہمارے ملک ميں تو اپنے ہی شہر ميں مقدمہ درج کروانا مشکل ہوتا ہے

اس قانون سے تو يہی اخذ کيا جا سکتا ہے کہ زنا کے مرتکب مرد اور عورت کو صرف اسی وقت سزا ملے گی جب کوئی بااثر شخص اُنہيں سزا دينا چاہے گا اور وہ سچے يا جھوٹے گواہ مہيّا کر دے گا ۔ جہاں تک بااثر لوگوں کا تعلق ہے وہ اب بغير خطرے کے پہلے سے زيادہ رنگ رلياں منائيں گے

کہاں گئے مغرب زدہ اين جی اوز اور دوسرے روشن خيالوں کے جديد طريقوں کے وہ بلند بانگ دعوے جن کو قرآن شريف پر ترجيح دی جا رہی تھی ؟ حقيقت يہ ہے کہ اُن کی عياشی پر قدغن تھی سو اب وہ مکمل طور پر آزاد ہو گئے ہيں ۔ جس دن يہ قانون منظور ہوا لاہور کے بازارِ حُسن ميں جشن منايا گيا تھا اور مٹھائی بانٹی گئی تھی ۔ چند مادر پدر آزاد اين جی اوز نے بھی مٹھائی بانٹی اور ايک دوسرے کو مبارکباد دی ۔ يہ ہے وہ تاريک اور گھناؤنا غار جس ميں ہمارے روشن خيال حکمران ہماری قوم کو دھکيل رہے ہيں

اور اب پیشِ خدمت ہے تعلیم یافتہ معروف اساتذہ کا تیار کردہ تقابلی جائزہ مابين احکامِ الٰہی و حقوقِ نسواں آرڈيننس 2006ء جو ميں 25 مارچ 2007ء کو شائع کر چکا ہوں

ایٹم بم بنانے کا بنیادی کام کس نے کیا ؟

تعلیم یافتہ لوگوں نے تو انشقاق یا انفجار [Fission] کا نام سنا ہو گا اور کچھ ایٹمی ہتھیار بنانے میں اس عمل کی اہمیت سے واقف ہوں گے لیکن عوام اس کی تاریخ یا اہمیت سے زیادہ واقف نہیں

1932ء میں انگریز سائنسدان جیمز چیڈوِک [James Chadwick] نے ایٹم کے قلب [Nucleus] میں ایک نیوٹرل یعنی غیر برقی چارج والا ذرّہ [Neutron] دریافت کیا تھا یہ پہلے سے وہاں مثبت چارج والے ذرّہ پروٹون [Proton] کے علاوہ تھا۔اس ذرّہ کی موجودگی کی پیشگوئی دوسرے انگریز سائنسدان رَدرَفورڈ [Rutherford] نے 1920ء میں کر دی تھی لیکن اسی رَدرَفورڈ نے ایٹمی قوت کے سول مقاصد کے استعمال کے نظریہ کو احمقانہ خیال قرار دیا تھا

اس دریافت کے بعد یورپ و امریکہ میں سائنسدانوں نے مختلف اقسام کے ایٹموں پر نیوٹران مارنے اور اس کے اثرات کا مطالعہ کرنا شروع کر دیا

اٹلی کے مشہور نوبل انعام یافتہ فرمی[Fermi]نے یورینیم کے ایٹم پر جب نیوٹران مارے تو معلوم ہوا کہ کئی دوسرے اقسام کے ایٹم [دھات] بن جاتے ہیں اس نے غلطی سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یورینیم خود سے زیادہ بھاری دھات میں تبدیل ہو گیا ہے لیکن اسی وقت برلن میں اْوٹوہان [Otto Hahn]جس کو 1944ء میں نوبل انعام ملا تھا اور اس کے ساتھی شٹراسمن [Strassmann]نے نہایت جامع اور صحیح کیمیائی طریقے سے معلوم کیا کہ بیریم [Barium] دھات بن گئی تھی اور فرانس میں ایرینے جولیو کیوری [Irene Joliot-Curie] نے ایسے ہی تجربہ میں لنتھالم [Lanthalum] دھات دریافت کی

اسی دوران اْوٹوہان کی پرانی طویل رفیقہءِ کار لیزے مائٹنر [Lize Meitner] اور اس کا بھانجا اْوٹو فِرِش [Otto Frisch] ہٹلر کی یہود نسل کشی پالیسی سے ڈر کرسوئیڈن اور ڈنمارک بھاگ گئے تھے

اْوٹوہان نے اپنے تجربوں کے نتائج سے لیزے مائٹنر کو آگاہ کیا ۔ چند دن بعد ہی کرسمس کی تعطیل میں اْوٹوفِرِش اپنی خالہ کے پاس گیا تو دونوں نے ان نتائج پر غور شروع کر دیا اور فوراً اس اہم نتیجے پر پہنچے کہ نیوٹران کے ٹکراؤ سے یورینیم کا قلب تقریباً دو برابر ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا تھا [جو مختلف دھاتیں تھیں] اور ان کا مجموعی وزن یورینیم کے قلب کے اصل وزن سے 20 فیصد کم تھا دونوں نے نہایت اہم نتیجہ اخذ کیا کہ یہ غائب شدہ وزن قوت یعنی انرجی میں تبدیل ہو گیا تھا جو بہت زیادہ تھی ۔ لیزے مائٹنر نے یہ بھی فوراً حساب لگا کر معلوم کر لیا کہ یہ تقریباً دو سو ملین الیکٹران وولٹ [Mev 200]کے برابر ہوتی ہے

بس یوں سمجھ لیں کہ یہیں سے ایٹمی دور شروع ہوا تھا۔ اْوٹوہان اور شٹراسمن کے تجربے اور نتائج سے واقف ہو کر ایک اور مشہور جرمن خاتون سائنسدان ایڈانوڈک[Ida Noddak] نے فوراً یہ تشریح پیش کی کہ ہان اور شٹراسمن نے غالباً یورینیم کے قلب کو نیوٹران سے دولخت کر دیا ہے یہ 1934ء کی بات ہے

جرمنوں کی بدقسمتی اور مغربی ممالک کی خوش قسمتی تھی کہ ہان اور شٹراسمن اور دوسرے جرمنوں نے اس صحیح تشخیص پر دھیان نہیں دیا اگر وہ اس کو سمجھ کر کام شروع کرتے تو دوسری جنگ عظیم سے پہلے یا اس کے شروع ہونے تک جرمن سائنسدان ہائزین برگ [Heisinberg] اور اس کے ساتھی ایٹم بم بنا لیتے

یہاں یہ بات زيرِنظر رہے کہ اْوٹو فِرِش نے ایٹم کے دو حصوں میں تقسیم ہونے کو انشقاق [Fission] کا نام دیا تھا انہوں نے یہ تشبیہ بیالوجی میں ایک سیل [Cell] کے دو حصوں میں بٹ جانے سے مستعار لی تھی۔ اوٹو فِرِش نے امریکہ میں ایٹم بم کی تیاری میں نمایاں کردار ادا کیا اور بعد میں انگلینڈ میں پروفیسر کے فرائض انجام دیئے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ اسی اوٹو فِرِش اور ایک اور جرمن مہاجر سائنسدان پروفیسر روڈولف پائیرلس[Rudolf Peierls] نے حساب لگا کر سب سے پہلے ایٹم بم کی تیاری کے امکان پر ایک رپورٹ حکومت برطانیہ کو کوڈ نام [Maud Report] سے پیش کی تھی جس کے بعد ہی حکومت نے سنجیدگی سے اس اہم کام پر کام شروع کر دیا تھا۔

اوٹوفِرِش 1933ء میں بذریعہ ٹرین برلن سے ماسکو جا رہے تھے جہاں انہیں ایک کانفرنس میں شرکت کرنا تھی ۔ اسی ڈبہ میں ہومی بھا بھا جو بعد میں انڈین اٹامک کمیشن کے چیئرمین بنے، بھی بیٹھے تھے ۔ راستے میں جان پہچان ہو گئی اور انہوں نے ماسکو میں ایک ہی ہوٹل میں قیام کیا۔ ایک روز بھا بھا نے اوٹو فِرِش کو بتلایا کہ وہ واپس لندن جا کر ہندوستان روانہ ہو جائے گا جہاں وہ ٹاٹا ریسرچ انسٹیٹیوٹ کا سربراہ بنے گا، ساتھ ہی اس نے پوچھا کہ کیا فِرِش

اس کو گائگر کاؤنٹر [Geiger Counter] استعمال کرنا سکھا سکتا ہے ؟ فِرِش کے تعجب کی انتہا نہ رہی کہ کیمبرج یونیورسٹی سے فزکس میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری والا

ایک چھوٹا سا آلہ استعمال کرنا نہیں جانتا ۔ یہ آلہ تابکار شعاعوں [Radioactivity] یا ذرات کی موجودگی کا پتہ دیتا ہے اور کوٹ کی جیب میں رکھا جا سکتا ہے۔

خاموش سازش ؟

مُجرم جُرم کرتا ہے ۔ مُجرم کا تو کام ہی جُرم کرنا ہے ۔ مُجرم سازش نہيں کرتا
سازشی وہ ہيں جو جُرم کی منصوبہ بندی کرتے ہيں
يا
وہ ہيں جو جُرم ہوتے ديکھتے ہيں اور جُرم کو روکتے نہيں

طالب علمی کے زمانہ ميں ايک استاذ نے بتايا تھا کہ کہ اگر کوئی جُرم ہوتا ديکھے اور اسے نہ روکے تو وہ جُرم ميں 10 فيصد حصہ دار بن جاتا ہے
آج سوچتا ہوں کيا فلسفہ تھا اس فقرے ميں ۔ ۔ ۔

اسی سلسلہ ميں مندرجہ ذيل ربط پر کلک کر کے ايک سير حاصل مضمون پڑھيئے

A Conspiracy of Silence