Monthly Archives: October 2010

انگریزوں کی عیّاری اور قتلِ عام کی ابتداء

انگریز حکمرانوں نے پاکستان کی سرحدوں کا اعلان 14 اگست 1947ء سے کچھ دن بعد کیا اور نہائت عیّاری سے گورداسپور جو کہ مسلم اکثریت والا ضلع تھا کو بھارت میں شامل کر دیا ۔ جس کے نتیجہ میں ایک تو گورداسپور میں تسلّی سے اپنے گھروں میں بیٹھے مسلمانوں کا قتل عام ہوا اور دوسرے بھارت کو جموں کشمیر جانے کے لئے راستہ مہیا ہو گیا ۔

مسلمانوں کے قتل عام کی ابتداء

جموں میں کرفیو لگا دیا گیا ۔ اس کرفیو میں ہندوؤں اور سکھوں کے مسلح دستے بغیر روک ٹوک پھرتے تھے مگر مسلمانوں کو گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہ تھی ۔ ہمارے گھر کے قریب ہندوؤں کے محلہ میں دو اونچی عمارتوں پر بھارتی فوج نے مشین گنیں نصب کر لیں ۔ آنے والی رات کو دونوں عمارتوں کی چھتوں سے ہمارے گھر کی سمت میں متواتر فائرنگ شروع ہو گئی اس کے جواب میں مسلمانوں کے پاس سوائے نعرہءِ تکبیر اللہ اکبر کے کچھ نہ تھا کیونکہ ان کے ہتھیار پہلے ہی تلاشی لے کر نکلوا لئے گئے تھے ۔ ہمارا گھر نشانہ بننے کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس پر پاکستان کا بہت بڑا جھنڈا بہت اُونچا لگا ہوا تھا اور دوسری یہ کہ میرے دادا جان مسلم کانفرنس کی مالی امداد کرتے تھے اور ہمارا خاندان اُس کی سیاسی حمائت ۔

اگلی صبح دس سال سے ہمارا کرائے دار برہمن جس پر میرے دادا جان کے کئی احسان بھی تھے بعد دوپہر ہمارے گھر آیا اور کہنے لگا میں نے سوچا کہ کرفیو کی وجہ سے آپ کی زمینوں سے دودھ نہیں آیا ہوگا اسلئے میں اپنی گاؤ ماتا کا دودھ بچوں کے لئے لے آیا ہوں ۔ دودھ اُبال کر ہمیں پینے کو کہا گیا مگر اُس وقت کسی کا کچھ کھانے پینے کو دل نہیں چاہ رہا تھا ۔ دوسرے دن صبح چائے بنانے لگے تو دیکھا کہ دودھ خراب ہو گیا تھا اسلئے باہر نالی میں پھینک دیا گیا ۔ تھوڑی دیر بعد باہر سے عجیب سی آواز آئی ۔ جا کر دیکھا تو ایک بلی تڑپ رہی تھی اور تڑپتے تڑپتے وہ مر گئی ۔ دراصل وہ برہمن ہمدرد بن کر ہم سب کو زہر والا دودھ پلا کر مارنے آیا تھا

جاری ہے

چھوٹی چھوٹی باتيں ۔ ايک سوچ

کبھی کبھی ميرے دل ميں يوں خيال آتا ہے
دنيا جسے ميں بسيرا انسانوں کا سمجھتا تھا

کہيں يہ اُس ہی جہنم کا ايک کونا تو نہيں
کہ دہکتے پتھر ہوں گے جس کے انگارے

جس الاؤ ميں انسان جلائے جائيں گے
بد اعماليوں بد فعليوں کے نتيجہ ميں

پر ميں کانپ اُٹھتا ہوں يہ سوچ آتے ہی
آنسو ميرے چہرے پہ ڈھلک جاتے ہيں

[فی البديع ٹوٹکا]

سچ کيا ہے ؟

محترمات قاريات و محترمان قارئين ۔ السلام عليکم و رحمة اللہ و برکاة
ميں نے 28 ستمبر کو حادثہ پيش آنے سے چند روز پہلے ” يومِ يکجہتی جموں کشمير” کے حوالے سے ايک تحرير لکھ کر محفوظ کر لی تھی جو ايک کلک کے انتظار ميں تھی چنانچہ دن کے حوالے سے 24 اکتوبر 2010ء کو شائع کر دی تھی ۔ پھر 25 اکتوبر کو 3 مختصر سی تحارير شائع کرنا پڑيں ۔ اپنی غيرحاضری کا سبب پچھلے 3 دن سے تھوڑا تھوڑا لکھ کر محفوظ کرتا رہا جو آج پيشِ خدمت ہے

جو اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے فرما ديا اور قرآن شريف کی صورت ميں محفوظ ہے اس کے ساتھ جو آخری نبی اور رسول سيّدنا محمد صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم کی حديث ہے
وہ سچ ہے
جو اس کے مطابق نہيں وہ جھوٹ ہے
بے شک اللہ ہی ہے جس نے اس کائنات کو پيدا کيا اور اس کا نظام چلاتا ہے
ميں آج 28 دن کے بعد پھر لکھ رہا ہوں ۔ يہ بھی اللہ کی قدرت کا ايک بہت ہی معمولی سا کرشمہ ہے

ميں بہت احسانمند ہوں اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کا اور شکر گذار اُن تمام محترمات اور محترمان کا جو ميری غير حاضری سے متفکر ہوئے بالخصوص اُن کا جنہوں نے ميری صحت کيلئے دعا کی ۔ اللہ الرحمٰن الرحيم آپ سب کو سدا صحتمند خوش اور خوشحال رکھے ۔ اللہ کريم آپ کا اور اُن کا بھی بھلا کرے جنہوں نے ميرے بارے ميں سوچا بھی نہيں
ميری حقيقت صرف اتنی سی ہے کہ ميں ايک ادنٰی سا انسان ہوں
جس نے ميرے متعلق سوچا وہ اُس کی خُوبی ہے اور جس نے ميرے لئے دعا کی وہ اُس کی دريا دِلی ہے اور جس نے توجہ نہ دی وہ کسی اہم کام ميں مصروف رہا ہو گا

ميں 28 ستمبر 2010ء کو الرشيد ہسپتال ميں ناک گلا کان کے ڈاکٹر [ENT Specialist] سے معائنہ کے بعد شام 7 بج کر 5 منٹ پر دوہری سڑک جس کی ہر سُو دو دو لينز [lane] ہيں کے کنارے کھڑا ہو کر انتظار کرنے لگا کہ ٹريفک تھمے تو ميں سڑک پار کروں ۔ کوئی 5 منٹ بعد ميرے سامنے والی لين ميں ٹريفک بند ہو گيا ۔ ميں نے ديکھا کہ اس کے بعد والی لين ميں 4 کاريں آ رہی ہيں کہ ہر دو ميں کافی فاصلہ ہے ۔ ميں نے ايک لين عبور کی کہ دوسری لين ايک کار گذرنے کے بعد ميں آسانی سے پار کر لوں گا ۔ ايک لين پار کرنے کے بعد ميں نے ديکھا کہ اگلی کار تيز ہو گئی ہے ۔ ميں دوڑ کر جا سکتا تھا مگر خطرہ مول نہ ليا اور کھڑا ہو گيا ۔ اس کے بعد آنے والی دونوں کاريں بھی تيز ہو گئيں ۔ واپس جانا چاہا تو ميرے پيچھے بھی گاڑيا ں فر فر گذرنے لگيں ۔ ميں سفيد لکير پر کھڑا ہو کر داہنی طرف ديکھنے لگ گيا ۔ چھ سات منٹ بعد ميں نے ديکھا کہ 7 کاروں کے بعد فاصلہ دے کر ايک رکشا آ رہا ہے ۔ ميری گردن داہنے ديکھتے تھک گئی تھی ۔ گاڑياں ميرے سامنے اور پيچھے بھی ڈھائی تين فُٹ کا فاصلہ چھوڑ کر نکل رہی تھيں اسلئے کوئی خطرہ محسوس نہ کيا اور سامنے ديکھنے لگا ۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ مجھے کچھ ياد نہيں

ميں نے آنکھ کھولی تو ميں ہسپتال کے انتہائی نگہداشت [I.C.U = Intensive Care Unit] کے کمرہ ميں تھا اور گلو کوز کی ڈرِپ لگی ہوئی تھی ۔ سر اُٹھانے کی کوشش کی تو ميری چارپائی اور کمرہ گھومنے لگے اور ميں پھر غائب ۔ کچھ دير بعد ہوش آيا ۔ ميں نے پوچھا کيا بجا ہے ؟ تو معلوم ہوا کہ پہلی بار ميں نے 20 گھنٹے بيہوش رہنے کے بعد آنکھ کھولی تھی ۔ 50 گھنٹے ہسپتال ميں رہنے کے بعد گھر آ گيا مگر اس ھدائت کے ساتھ کہ آرام سے ليٹے رہنا ہے اور سر کو بالکل نہيں ہلانا ۔ دوسرے مجھے اُٹھائيں اور لٹائيں گے اس طرح کہ سر کو کسی قسم کا ضعف نہ پہنچے ۔ آج 28 دن ہو گئے ہيں مگر سجدہ رکوع کرنے يا سر کو آگے پيچھے جھُکانے يا داہنے بائيں موڑنے کی ابھی اجاز ت نہيں ۔ نماز صرف اشاروں سے پڑھتا ہوں ۔ چکروں کو روکنے ۔ اعصاب کو مضبوط کرنے اور خون بڑھانے کيلئے دوائياں دی گئی ہيں جو کھا رہا ہوں ۔ خون کافی بہہ جانے کی وجہ سے ہيموگلوبن 10 گرام رہ گئی تھی ۔ اللہ کا شکر ہے کہ 6 دن سے کھانے والے کمرے ميں جا کر کھانا کھا رہا ہوں

حادثہ کے فوراً بعد چھوٹا بيٹا “فوزی” دبئی سے پہنچ گيا تھا ۔ وہ اپنی پوری چھٹی گذار کر ايک ہفتہ قبل ہی دبئی پہنچا تھا چنانچہ ايمر جنسی کی چھٹی پر آيا اور 6 دن بعد چلا گيا ۔ پھر بڑا بيٹا “زکريا” اٹلانٹا ۔ جارجيا ۔ امريکا سے آ گيا اور 2 ہفتے رہا ۔ ان سے بڑا سہارا رہا ۔ دن رات ميرا خيال رکھتے رہے چنانچہ ميری بيوی اور بيٹی کو بھی کچھ آرام مل گيا

حادثہ کے 11 دن بعد کوئی عزيز ميری بيمار پُرسی کيلئے آئے تو بيٹا “زکريا” اور بيوی دونوں مجھے چھوڑ کر گئے اور 10 منٹ اُن کے ساتھ مشغول رہے ۔ مجھے واش روم جانا تھا ۔ ميرا موبائل فون سيٹ حادثہ کے وقت گم ہو گيا تھا ۔ دوسرے ٹيليفون سے بيٹے يا بيوی کے موبائل فون پر بات کرنا چاہی تو ان کے نمبر ہی ياد نہ آ سکے ۔ احساس ہوا کہ ميری ياد داشت کھو چکی ہے ۔ اللہ کی نہائت کرم نوازی ہے کہ ميں بتدريج تندرست ہو رہا ہوں ۔ اب آہستہ آہستہ باتيں ياد آ رہی ہيں ليکن حادثہ سے کچھ منٹ پہلے سے لے کر حادثہ کے بعد کا مجھے کچھ ياد نہيں

مجھے بتايا گيا ہے کہ ايک تيز رفتار موٹر سائيکل اچانک کہيں سے نمودار ہوا اور مجھے زمين سے اُچھال ديا ۔ ميں موٹر سائيکل کے اُوپر سے ہوتا ہوا پيچھے چہرے کے بَل سڑک پر گرا ۔ ميری پتلون دائيں طرف کی جيب کے پيچھے سے پھٹ کر موٹر سائيکل کے ساتھ اٹک گئی تھی اور موٹر سائيکل گرنے تک ميرا سر سڑک سے اور ٹانگيں شايد موٹر سائيکل کے ساتھ ٹکراتی رہيں پھر لوگ مجھے اُٹھا کر الرشيد ہسپتال لے گئے ۔ 15 منٹ کے اندر ريسکيو 1122 کی ايمبولنس آ گئی اور مجھے لاہور جنرل ہسپتال لے گئی جہاں ميری بہت اچھی ديکھ بھال کی گئی ۔ سی ٹی سکين کے مطابق
1 . Basal Skull Fracture
2. Incident Cyst at posterior Fossa
3. Calcification along superior Sajital Sinus

ميرے جسم پر 24 زخم اور 10 چوٹيں آئی تھيں جن ميں سے سر کی چوٹ سب سے شديد اور خطرناک کہی گئی جس کا نتيجہ مندرجہ ذيل ہو سکتا تھا
1 ۔ موت يا
2 ۔ مستقل بيہوشی [Coma] يا
3 ۔ بينائی ضائع يا
4 ۔ دماغی توازن بگڑنا [پاگل پن] یا
5. یاد داشت ختم ہو جائے گی

ميرے ماتھے پر تين گہرے اور لمبے زخم تھے جن پر کافی ٹانکے لگے
ناک پر شديد ضرب کی وجہ سے زيادہ خون نکلا جو پيٹ ميں جاتا رہا ۔ ميں نے بعد ميں خون کی 4 قے کيں
اُوپر والا جبڑا پيچھے چلا گيا تھا جس کی وجہ سے منہ نہيں کھُلتا تھا ۔ اب اللہ کے فضل سے ٹھيک ہے مگر سامنے کے دانتوں ميں ابھی بھی درد ہے ۔ زخم سارے تقريباً ٹھيک ہو گئے ہيں ۔ جہاں جہاں چوٹوں کی وجہ سے گلٹياں پڑی ہيں وہ موجود ہيں اور ہاتھ لگانے سے درد ہوتا ہے
۔ ناک ابھی تک سُن [Numb] ہے اور خوشبُو يا بدبُو کی حِس معطل ہے ۔ کان بند ہو گئے تھے ۔ کچھ دنوں سے تھوڑا سنائی دينے لگ گيا مگر عام آواز سنائی نہيں ديتی اور زيادہ اونچا کوئی بولے تو آواز پھٹ جاتی ہے اور کچھ سمجھ ميں نہيں آتا ۔ ايک خاص سطح پر بات سمجھ آتی ہے ۔ ڈاکٹر کہتے ہيں سر کو شديد چوٹ لگنے کی وجہ سے ايسا ہوا ۔ درست ہونے ميں مزيد چار پانچ ماہ لگيں گے

آئی سی يو کے انچارج ڈاکٹر ۔ سرجری کے پروفيسر ۔ ہسپتال ميں پروفيسر نيورولوجِسٹ [Neurologist] اور جس پروفيسر نيورولوجِسٹ کا ميں اب علاج کروا رہا ہوں [لاہور کا بہترين نيورولوجِسٹ] سب نے بار بار کہا “سر کی چوٹ بہت خطر ناک ہے مگر بچت ہو گئی ہے

مہربان قاريات اور قارئين سے دعا کی درخواست ہے کہ جب تلک زندگی ہے اللہ مجھے بقائمیءِ ہوش و حواس چلتا پھرتا رکھے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حادثہ سے پہلے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حادثہ کے 20 دن بعد

يہ کون ہے ؟ ؟ ؟

کوئی صاحب ” اُردو بلاگ کی دنيا ” کے نام سے ميری ساری اور کچھ اور لوگوں کی تحارير بغير ميرے يا اُن کے حوالہ يا ربط کے شائع کر رہے ہيں
مثال کے طور پر ميری آج کی تحرير “معذرت” اور “ہم کیا چاہتے ہیں ؟ ؟؟ ۔ ۔ ۔ آزادی ۔ آزادی ۔ آزادیيہاں اور يہاں کلک کر کے ديکھی جا سکتی ہيں ۔ اور تبصرہ کی سہولت بھی وہاں ميسّر نہيں
ہے کوئی جو مجھے بتائے کہ ميں کيا کروں ؟

معذرت

گذشتہ کل يعنی 24 اکتوبر کو ميں اپنا احوال غير حاضری کا لکھ رہا تھا کہ حادثاتی طور پر “شائع کرو” کے خانہ پر کلِک ہو گيا
پھُرتی ملاحظہ ہو کہ قبل اس کے کہ ميں اپنی غلطی کی تصحيح کرتا وہ ادھوری تحرير “سچ کيا ہے ؟” کے عنوان سے ” اُردو سيّارہ” پر بھی شائع ہو گئی ۔ ميں نے اپنے بلاگ سے اسی وقت حذف کر دی

اس سلسلہ ميں جن قارئين و قاريات کو کوفت کا سامنا ہوا ميں ان سے معذرت کا طلبگار ہوں

اِن شاء اللہ ميں آئيندہ کل اپنی طويل غير حاضری کا احوال شائع کروں گا

ہم کیا چاہتے ہیں ؟ ؟؟ ۔ ۔ ۔ آزادی ۔ آزادی ۔ آزادی

بہشت گوش تھے نغمات آبشاروں کے
نظر نواز تھے نظارے مرغزاروں کے
بھلاؤں کیسے مناظر تری بہاروں کے
ستم شعاروں سےتجھ کو چھڑائیں گے اِک دن
ميرے وطن تری جنت میں آئیں گے اِک دن
ميرے وطن ميرے وطن ميرے وطن ميرے وطن

جموں کشمیر کے مسلماں يہ کہتے ہیں ہر دم
وطن تیری آزادی تک نہ چین سے بیٹھیں گے ہم

ميں مسلم ہائی سکول راولپنڈی ميں دسويں جماعت کا طالب عِلم تھا ۔ اکتوبر 1952ء کے شروع ميں اعلان کيا گيا کہ 24 اکتوبر کو يومِ اقوامِ متحدہ منايا جائے گا ۔ ميں نے چند ہمجماعت لڑکوں سے بات کی کہ اقوامِ متحدہ جموں کشمير کے مسلمانوں سے کيا ہوا وعدہ تو پورا کرتا نہيں تو ہم کس لئے اقوامِ متحدہ کا دن منائيں ؟ اُنہوں نے بھی ہاں ميں ہاں ملائی اور پھر ہماری جماعت کے سب لڑکے ہمخيال ہو گئے ۔ کچھ لڑکوں نے جا کر پرنسيپل صاحب سے بات کی مگر وہ نہ مانے

24 اکتوبر کو صبح سويرے سارے سکول کے طلباء کے سامنے ہمارے ايک اُستاذ صاحب نے اقوامِ متحدہ کی خوبياں بيان کرنا شروع ہی کی تھيں کہ سکول کے باہر سے آواز آئی ۔ ہم منائيں گے يومِ کشمير ۔ اُن کی آواز ميں ہماری جماعت کے طلباء نے آواز ملائی ۔ پھر کيا تھا پورا سکول نعروں سے گونج اُٹھا ۔ کرائيں گے آزاد ۔ جموں کشمير ۔ اقوامِ متحدہ مردہ باد ۔ سکول کے باہر گورنمنٹ کالج راولپنڈی کے طلباء جلوس کی شکل ميں آئے تھے ۔ پرنسيپل صاحب ہمارے ساتھ اتنے ناراض ہو گئے کہ اگلے سال ہماری الوداعی دعوت ميں مہمانِ خصوصی بننے سے انکار کر ديا

آج سے 63 سال قبل جموں کشمیر کے مسلمانوں نے اپنے وطن پر بھارت کے طاقت کے بل پر ناجائز قبضہ کے خلاف اعلانِ جہاد کیا جو کہ ایک لاکھ سے زائد جانوں کی قربانی دینے کے باوجود آج تک جاری ہے ۔ انشاء اللہ یہ قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی

جمعہ 24 اکتوبر 1947ء کو جس دن سعودی عرب میں حج ہو رہا تھا جموں کشمیر کے مسلمانوں نے انسانوں سے مايوس ہو کر اپنے اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے جہاد کا اعلان کر دیا اور مسلح تحریک آزادی ایک جنگ کی صورت اختیار کر گئی ۔ بے سروسامانی کی حالت میں صرف اللہ پر بھروسہ کر کے شہادت کی تمنا دل میں لئے آزادی کے متوالے اللہ کی نُصرت سے آگے بڑھتے رہے ڈوگرہ اور بھارتی فوجیں پسپا ہوتی گئیں یہاں تک کہ مجاہدین مظفرآباد ۔ میرپور ۔ کوٹلی ۔ بھمبر اور پونچھ کے کافی علاقہ کو آزاد کرا کے پاکستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ جنوب کی طرف پیشقدمی کرتے ہوئے کٹھوعہ کے قریب پہنچ گئے

بھارت کو جموں کشمیر سے ملانے والا واحد راستہ پٹھانکوٹ سے جموں کے ضلع کٹھوعہ میں داخل ہوتا تھا جو ریڈکلف اور ماؤنٹ بیٹن نے گورداسپور کو بھارت میں شامل کر کے بھارت کو مہیا کیا تھا ۔ بھارت نے خطرہ کو بھانپ لیا کہ مجاہدین نے کٹھوعہ پر قبضہ کر لیا تو بھارت کے لاکھوں فوجی جو جموں کشمیر میں داخل ہو چکے ہیں محصور ہو جائیں گے ۔ چنانچہ بھارت کے وزیراعظم جواہر لال نہرو نے اقوام متحدہ سے رحم کی بھیک مانگی ۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس ہوا ۔ پنڈت نہرو نے اقوام متحدہ میں تقریر کرتے ہوئے یقین دہانی کرائی کہ امن قائم ہوتے ہی رائے شماری کرائی جائے گی پھر جو فیصلہ عوام کریں گے اس پر عمل کیا جائے گا اور فوری جنگ بندی کی درخواست کی

اس معاملہ میں پاکستان کی رائے پوچھی گئی ۔ پاکستان کے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان جنگ بندی کے حق میں نہ تھے مگر وزیرِ خارجہ ظفراللہ نے کسی طرح ان کو راضی کر لیا ۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے جنوری 1948ء میں جنگ بندی کی قرارداد اس شرط کے ساتھ منظور کی کہ اس کے بعد رائے شماری کرائی جائے گی اور عوام کی خواہش کے مطابق پاکستان یا بھارت سے ریاست کا الحاق کیا جائے گا ۔ پھر یکے بعد دیگرے کئی قرار دادیں اس سلسلہ میں منظور کی گئیں ۔ مجاہدین جموں کشمیر نے پاکستان کی عزت کا خیال کرتے ہوئے جنگ بندی قبول کر لی ۔ بعد میں نہ تو بھارت نے یہ وعدہ پورا کیا نہ اقوام متحدہ کی اصل طاقتوں نے اس قرارداد پر عمل کرانے کی کوشش کی

آجکل پاکستان کی حکومت بھی پاکستان دُشمن قوتوں کے نِرغے ميں ہے اورجموں کشمير کے مسلمانوں کے قاتلوں کے ساتھ محبت کی پينگيں بڑھا رہی ہے ۔ يوں محسوس ہوتا ہے کہ اندر کھاتے امريکا کے دباؤ کے تحت بھارت کی ہر بات ماننے بلکہ ہر خواہش پوری کرنے کا وعدہ ہمارے روشن خيال حکمران امريکا کو دے کر اُن کی زبانی شاباشوں پر پھولے نہيں سماتے ۔ ليکن تاريخ پڑھنے والے جانتے ہيں کہ نيک مقصد کيلئے ديا ہوا خون کبھی رائيگاں نہيں جاتا اور غاصب و ظالم حکمران کے خلاف آزادی کی جدوجہد سے بڑھ کر نيک مقصد اور کيا ہو سکتا ہے ؟ جموں کشمير کے مسلمان پچھلے 63 برس ميں پانچ لاکھ کے قریب جانيں ظُلم کی بھينٹ چڑھا چکے ہيں ۔ انشاء اللہ يہ بيش بہا قربانياں ضائع نہيں جائيں گی اور رياست جموں کشمير آزاد ہو کر رہے گی