Monthly Archives: September 2010

چھوٹی چھوٹی باتيں ۔ غور كرنے کی

توكل پرندوں سے سيكھيئے كہ جب وہ شام كو اپنے گھونسلوں يا بسيروں کو واپس جاتے ہيں توان كی چونچ ميں اگلے دن كے لئے كوئی دانہ نہيں ہوتا

محنت کرنا شہد کی مکھيوں سے سيکھيئے کہ ہر وقت شہد اکٹھا کرتی رہتی ہيں اور اکٹھا کرتے نہيں سوچتيں کہ اس ميں سے اسے کتنا ملے گا

ہركوئی چاہتا ہے كہ اُسے كاميابی مل جائے ليكن جب مسجد سے دن ميں 5 مرتبہ آواز آتی ہے “حي علی الفلاح” “آؤ كاميابی كی طرف”
تو
اس طرف جانے كی زحمت نہيں كی جاتی
افسوس كہ جس چيز كو آدمی سارى زندگی ہر جگہ تلاش كركے بھی حاصل نہيں كرسكتا وہ تو خود اُسے اپنے پاس بلاتی رہتی ہے

جو ايمان اتنا كمزور ہو كہ چل كر مسجد تک نہ لے جائے
وہ بھلا قيامت كے دن جنت ميں كيسے لے كر جائيگا ؟

جب نماز نہ پڑھيں تو مت سوچئے كہ وقت نہيں ملا
بلكہ
يہ سوچئے كہ آپ سے كونسی غلطی ہوئی ہے كہ اللہ تبارک وتعالٰی نے آپ كو اپنے سامنے كھڑا كرنا پسند نہ كيا

Click here and see how West is ignoring crisis in Kashmir

اسلام میں وضع قطع کی اہمیت ۔ دوسری اور آخری قسط

پہلی قسط يہاں پر کلِک کر کے پڑھی جا سکتی ہے

تعریف تشبہ

اتنی معروضات کے بعد تشبہ کی تعریف ملاحظہ فرمائیں
1 ۔ اپنی شانِ امتیازی کو چھوڑ کر دوسری قوم کی شانِ امتیازی اختیار کرلینے کا نام تشبہ ہے۔
2 ۔ اپنی اور اپنوں کی صورت اور سیرت کو چھوڑ کر غیروں اور پرایوں کی صورت اور سیرت کو اپنا لینے کا نام تشبہ ہے۔
3 ۔ اپنی ہستی کو دوسرے کی ہستی میں فنا کردینے کا نام تشبہ ہے۔
اس لئے شریعت حکم دیتی ہے کہ مسلمان قوم ظاہری طور پر دوسری قوم سے ممتاز ہو‘ لباس میں بھی ممتاز اور وضع قطع میں بھی ممتاز ہونی چاہئے۔ مسلمان مرد کے چہرہ اور جسم پر کسی علامت کا ہونا ضروری ہے‘ جس سے پتہ چلے کہ یہ مسلمان ہے‘ سو وہ داڑھی اور لباس ہے۔ بغیر داڑھی کے ایک مسلمان شخص کی شناخت نہیں ہوسکتی۔ معلوم ہوا کہ اسلامی امتیاز کے لئے مسلمان مرد کے لئے داڑھی ضروری ہے۔ کافروں کی مشابہت سے ممانعت اور اسلامی خصوصیات وامتیازات کی حفاظت کا منشاء معاذ اللہ! تعصب اور تنگ نظری نہیں‘ بلکہ اسلامی غیرت وحمیت اور ملت اسلامیہ کو کفر والحاد اور زندقہ سے بچانا مطلوب ہے‘ ورنہ ملت اسلامیہ آزاد اور مستقل قوم کبھی نہیں کہلاسکتی

تشبہ کی اقسام اور ان کے احکام

1 ۔ اعتقادات اور عبادات میں کفارومشرکین کی مشابہت کفر اور ارتداد کا سبب ہے ‘ جیسے ہندو دو خدا اور عیسائی تین خدا کے قائل ہیں‘ اسی طرح خالق‘ مالک‘ مدبر اور عبادت کے لائق‘ انبیاء‘ اولیاء‘ ملائکہ اور جنوں وغیرہ کو سمجھنا

2 ۔ مذہبی رسومات میں کفار کی مشابہت حرام ہے۔ جیسے نصاریٰ کی طرح سینہ پر صلیب لٹکانا یا ہندوؤں کی طرح زنار باندھنا یا پیشانی پر سندور لگانا۔ان چیزوں کے استعمال کی حرمت کے ساتھ ساتھ ان کے استعمال میں کفر کا اندیشہ بھی ہیں‘ کیونکہ علانیہ کفریہ شعائر کا اختیار کرنا قلبی تعلق اور رضا کی علامت سمجھاجاتا ہے۔ تشبہ کی یہ قسم اگرچہ قسم اول سے درجہ میں کم ہے‘ مگر پیشاب اور پاخانہ میں فرق ہونے سے کیا کوئی پیشاب کا پینا گوارا کرلے گا؟ ہرگز نہیں

3 ۔ معاشرتی عادات اور قومی شعائر میں کفار کا تشبہ مکروہ تحریمی ہے‘ مثلاً :کسی قوم کا مخصوص لباس استعمال کرنا جو خاص اس قوم کی طرف منسوب ہو‘ جس کا استعمال کرنے والا اسی قوم کا ایک فرد سمجھا جانے لگے‘ جیسے نصرانی ٹوپی یعنی ہیٹ ٹائی وغیرہ اور ہندوانہ دھوتی اور جوگیانہ جوتی یہ سب ناجائز ‘ ممنوع اور تشبہ میں داخل ہیں‘ جبکہ بطور تفاخر یا عیسائیوں‘ ہندوؤں اور دوسرے کافروں کی وضع بنانے کی نیت سے ہو تو اور بھی زیادہ گناہ ہے باقی کافروں کی زبان اور ان کے لب ولہجہ اور طرزِتکلم کو اس لئے اختیار کرنا کہ ہم بھی انگریزوں کے مشابہ بن جائیں اور ان کے زمرہ میں داخل ہوجائیں تو بلاشبہ یہ ممنوع ہوگا۔ ہاں اگر انگریزی زبان سیکھنے سے انگریزوں کی مشابہت مقصود نہ ہو‘ بلکہ محض زبان سیکھنا مقصود ہو‘ تاکہ کافروں کی غرض سے آگاہ ہوسکیں اور ان سے تجارتی اور دنیاوی امور میں خط وکتابت کرسکیں توپھر انگریزی زبان سیکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں

4 ۔ ایجادات ‘ اسلحہ اور سامانِ جنگ میں غیروں کے طریقے اپنانا جائز ہے‘ جیسے توپ‘ بندوق اور ہوائی جہاز‘ موٹر اور مشین گن وغیرہ‘ کیونکہ شریعتِ اسلامیہ نے ایجادات کے طریقے نہیں بتلائے ‘ ایجادات اور صنعت وحرفت کو لوگوں کی عقل‘ تجربہ اور ان کی ضرورت پرچھوڑ دیا‘ البتہ اس کے احکام بتلادیئے کہ کونسی صنعت وحرفت جائز ہے اور کس حد تک جائز ہے۔ اسلام میں مقاصد کی تعلیم دی گئی ہے‘ اسلام یہ بتاتا ہے کہ ایجادات ایسی نہ ہوں کہ جس سے تمہارے دین میں خلل آئے یا بلا سبب جان کا خطرہ ہو‘ اور وہ ایجادات ایسی ہوں کہ جن کابدل مسلمانوں کے پاس نہیں۔ اور اگر وہ ایجادات ایسی ہوں کہ جس کا بدل مسلمانوں کے پاس موجود ہے تو اس میں تشبہ مکروہ ہے‘ جیسے حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ا نے فارسی کمان کے استعمال سے منع فرمایا‘ اس لئے کہ اس کا بدل مسلمانوں کے پاس عربی کمان موجود تھی اور دونوں کی منفعت برابر تھی‘ صرف ساخت کا فرق تھا۔(سیرة المصطفی ۔ ج 3 ۔ ص 1۔4)۔

اسلام تعصب کا درس نہیں دیتا‘ بلکہ حمیت وغیرت سکھاتا ہے۔ پس جو چیز مسلمانوں کے پاس موجود ہے اور وہی چیز کفار کے پاس بھی ہے‘ محض وضع قطع کا فرق ہے تو ایسی صورت میں اسلام نے تشبہ بالکفار سے منع فرمایاہے‘ کیونکہ اس صورت میں بلاوجہ مسلمانوں کا دوسری قوموں کا محتاج ہونا نظر آتا ہے۔ ایک کام جائز اور مباح ہے‘لیکن کافروں کی مشابہت کی نیت اور دشمنانِ دین سے تشبہ کے قصد سے ہو تو شریعت ا س کو بھی منع کرتی ہے‘ کیونکہ دشمنان دین کے ساتھ تشبہ کی نیت سے کوئی کام کرنا اس امر کی دلیل ہے کہ اس کے دل میں کا فروں کی طرف میلان اور رغبت ہے‘ پس جس طرح کسی کو اپنے دشمنوں کے ساتھ تشبہ اور مشابہت گوارا نہیں‘ اسی طرح خداوند قدوس کو یہ گوارا نہیں کہ اس کے دوست اور اس کے نام لیوا یعنی مسلمان اس کے دشمنوں یعنی کافروں کی مشابہت اختیار کریں۔ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے

”ولاترکنوا الی الذین ظلموا فتمسکم النار“۔ ( ہود ۔ 113)۔ ترجمہ: ”اور نہ جھکو ان کی طرف جو ظالم ہیں پھر تم کو لگے گی آگ“۔

اور کفار کی مشابہت سے یہ اندیشہ بھی ہے کہ تمہارے دل بھی ان کی دلوں کی طرح سخت نہ ہوجائیں اور کہیں قبولِ حق کی صلاحیت ہی نہ ختم ہوجائے۔ علامہ ابن حجر نے اپنی کتاب الزواجر عن افتراق الکبائر میں حضرت مالک بن دینار سے ایک نبی کی وحی نقل کی ہے:
”قال مالک ابن دینار: اوحی اللہ الی النبی من الانبیاء ان قل لقومک: لاتدخلوا مداخل اعدائی‘ ولایلبسوا ملابس اعدائی‘ ولایرکبوا مراکب اعدائی‘ ولایطعموا مطاعم اعدائی فیکونوا اعدائی کماہم اعدائی“۔ ( الزواجر عن افتراق الکبائر ج:۱‘ ص ۔ 11)
ترجمہ: ”مالک بن دینار کہتے ہیں کہ انبیاء سابقین میں سے ایک نبی کی طرف اللہ تعالیٰ نے وحی بھیجی کہ آپ اپنی قوم سے کہہ دیں کہ میرے دشمنوں کی جگہوں میں نہ داخل ہوں اور نہ میرے دشمنوں جیسا لباس پہنیں اور نہ میرے دشمنوں جیسے کھانے کھائیں اور نہ میرے دشمنوں جیسی سواریوں پر سوار ہوں (ہر چیز میں ان سے ممتاز اور جدا رہیں) ایسا نہ ہو کہ ان کا شمار بھی میرے دشمنوں میں ہونے لگے“۔
یہی مضمون قرآن کریم کی اس آیت میں بیان کیا گیاہے

ومن یتولہم منکم فانہ منہم“۔ (مائدہ ۔ 51)۔ یعنی جو کفار سے دوستی کرے گا وہ انہی میں شمار ہوگا

اور حدیث نبوی میں بھی ہے ۔ ۔من تشبہ بقوم فہو منہم“ ۔(ابوداؤد‘ج ۔ 2‘ص 559)۔ یعنی”جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ انہی میں سے ہوگا“۔

دعویٰ اسلام کا ہے‘ مگر لباس‘ طعام‘ معاشرت‘ تمدن‘ زبان اور طرزِ زندگی سب کا سب اسلام دشمنوں جیسا۔ جولوگ اسلام کے دشمنوں کی مشابہت کو موجب عزت اور باعث فخر سمجھتے ہوں‘ اسلام کو ایسے مسلمانوں کی نہ ضرورت ہے اور نہ کوئی پرواہ۔ بلاضرورت کافر قوم کا لباس اختیار کرنے کا مطلب تو یہ ہے کہ معاذ اللہ! ہم زبانِ حال سے یہ کہتے ہیں کہ لاؤ ہم بھی کافر بنیں‘ اگرچہ صورت ہی کے اعتبار سے کیوں نہ بن جائیں۔ میرے خیال میں لوگ انگریزی وضع قطع کو اس لئے اپناتے ہیں کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید یہ وضع قطع اہلِ حکومت اور اہل شوکت کی ہے اور جب ہم انگریزوں کے ہم شکل بنیں گے چاہے وہ لباس کے اعتبار سے ہی کیوں نہ ہو تو عزت ملے گی۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے‘ یہ عزت اور ذلت اللہ کے پاس ہے‘ جیساکہ ارشاد ہے

”ایبتغون عندہم العزة فان العزة للہ جمیعاً“۔(النساء ۔ 139)۔ ترجمہ: ”کیا ڈھونڈتے ہیں ان کے پاس عزت سو عزت تو اللہ ہی کے واسطے ہے ساری“۔

دوسری جگہ ارشاد ہے

وللہ العزة ولرسولہ وللمؤمنین ولکن المنافقین لایعلمون“۔(المافقون ۔ 8)۔ ترجمہ: ”اور زور تو اللہ کا ہے اور اس کے رسول کا اور ایمان والوں کا لیکن منافق نہیں جانتے“۔

الغرض جو کسی کا عاشق بنے گا اس کو معشوق کی چال ڈھال‘ وضع قطع‘سیرت وصورت اور لباس اپنانا پڑے گا‘ اب اختیار ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ا اور مؤمنین کے عاشق بن جاؤ یا یورپ کے عیاشوں اور اوباشوں کی معاشرت‘ تہذیب وتمدن اور رہن سہن کے طریقے اپنا کر اللہ اور اس کے رسول کو ناراض کردو

اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی
ہم نے تو دل جلا کے سرعام رکھ دیا

ماخذ ۔ ماہنامہ بينات

اللہ جسے چاہے عزت دے

برطانیہ کے شہر ڈربی [Derby] سے تعلق رکھنے والے چھ سالہ مصنف بچے ليو ہنٹر [Leo Hunter] کی لکھنے کی صلاحیتوں نے اسے کئی کتابوں کی پبلشنگ کا معاہدہ دلوادیا ۔ ليو ہنٹر کا اپنے پالتو کتے کے ساتھ دوستی پر لکھاگیا چھوٹا سا ناول ” Me & My Best Friend Alsatian Kugar ” ایک امریکی فرم ” Strategic Book Publishing ” کو اتنا پسند آیا کہ انہوں نے اس کے ساتھ مزید 23 ناول لکھوا کر پبلش کرنے کا معاہدہ کرلیا ہے ۔ اس معاہدے کے تحت ليو ہنٹر کو اپنے 10 سے 25 صفحات پر مشتمل کتابوں کی ابتدائی فروخت کا 20 فیصد حصہ دیا جائیگا لیکن اگر کتابیں 500 سے زائد فروخت ہوئیں تو منافع کا یہ حصہ 50 فیصد تک بڑھا دیا جائیگا

بشکريہ ۔ جنگ

اسلام میں وضع قطع کی اہمیت

جو لوگ مغربی تہذیب کے دلدادہ ‘ شیدائی اور اسلام کی حدود وقیود سے آزاد ہوناچاہتے ہیں‘ وہ سب سے پہلے عیسائیوں اور یہودیوں کی شکل و شباہت اپنانے‘ انہی جیسا لباس وپوشاک اختیار کرنے اور اپنی تمام ترسعی وکوشش دین اسلام کے تشخص کو مٹانے میں صرف کرتے ہیں‘ تاکہ آئندہ اقدامات کے لئے راہ ہموار اور راستہ صاف ہوجائے اور زبانی دعویٰ اسلام کے ساتھ مغربی تہذیب و تمدن اپنانے میں کوئی رکاوٹ حائل نہ رہے یعنی نام کے اعتبار سے تو مسلمان کہلائیں لیکن رہن سہن ‘ وضع قطع‘ ہیئت ولباس اور شکل وصورت میں انگریز بنے رہیں۔ حضرات فقہاء ومتکلمین نے مسئلہ تشبہ بالکفار کو باب الارتداد میں شمار کیا ہے یعنی ایک مسلمان جن چیزوں سے دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتاہے‘ ان میں سے ایک چیز تشبہ بالکفار بھی ہے‘ جس کے مختلف درجات و مراتب ہیں اور ہرایک کا حکم جدا گانہ ہے۔

تشبہ کی حقیقت

اللہ تعالیٰ شانہ نے زمین سے آسمان تک خواہ حیوانات ہوں یا نباتات و جمادات‘ سب کی صورت و شکل علیحدہ بنائی‘ تاکہ ان میں امتیاز رہے‘ کیونکہ امتیاز کا آسان ذریعہ ظاہری شکل وصورت اور ظاہری رنگ و روپ ہے‘ انسان اور جانور میں‘ شیر اور گدھے میں‘ گھاس اور زعفران میں‘ باورچی خانہ اور پاخانہ میں‘ جیل خانہ اور شفاء خانہ میں جو امتیاز ہے‘ وہ دوسری چیزوں کے علاوہ اس ظاہری شکل وصورت کی بنا پر بھی ہے‘ اگر کسی نوع کا کوئی فرد اپنی خصوصیات اور امتیازات چھوڑ کر دوسری نوع کی امتیازات وخصوصیات اختیار کرلے تو اس کو پہلی نوع کا فرد نہ کہیں گے‘ بلکہ وہ دوسری نوع کا فرد کہلائے گا۔مثلاً اگر کوئی مرد‘ مردانہ خصوصیات اور امتیازات چھوڑ کر زنانہ خصوصیات اختیار کرلے‘ عورتوں جیسا لباس ‘ انہی کی طرح بود وباش اور انہی کی طرح بولنے لگے‘ حتیٰ کہ اس مرد کی تمام حرکات وسکنات عورتوں جیسی ہوجائیں تو وہ شخص‘ مرد نہ کہلائے گا‘ بلکہ مخنث اورہیجڑا کہلائے گا ‘حالانکہ اس کی حقیقتِ رجولیت میں کوئی فرق نہیں آیا‘ اس نے صرف لباس وہیئت میں تبدیلی کی ہے۔ پس معلوم ہوا کہ اگر اس مادی عالم میں خصوصیات اور امتیازات کی حفاظت نہ کی جائے اور التباس واختلاط کا دروازہ کھول دیا جائے تو پھر کسی نوع کا اپنا علیحدہ تشخص اور وجود باقی نہ رہے گا۔ اسی طرح اقوام اور امم کے اختلاف کو سمجھنا چاہئے کہ مادی کائنات کی طرح دنیا کی قومیں اپنے معنوی خصائص اور باطنی امتیازات کے ذریعہ ایک دوسرے سے ممتاز اور جدا ہیں‘ مسلم قوم‘ ہندوقوم ‘ عیسائی قوم اور یہودی قوم باوجود ایک باپ کی اولاد ہونے کے مختلف قومیں کیوں اور کیسے بن گئیں؟ وجہ صرف یہی ہے کہ ہرقوم کا عقیدہ وعبادت‘ تہذیب وتمدن اور اس کا طرز لباس وپوشاک اور طریق خورد ونوش دوسری قوم سے جدا ہے‘ باوجود ایک خدا ماننے کے ہرایک کی عبادت کی شکل و صورت علیحدہ ہے‘ عبادات کی انہیں خاص خاص شکلوں اور صورتوں کی وجہ سے مسلم ‘ کافر سے اور موحد ‘ مشرک اور بت پرست سے علیحدہ جانا اور پہچانا جاتا ہے‘ اور ایک عیسائی ایک پارسی سے جدا ہے۔ جب تک ہرقوم اپنی مخصوص شکل اور ہیئت کی حفاظت نہ کرے‘ قوموں کا امتیاز باقی نہیں رہ سکتا‘ پس جب تک کسی قوم کی مذہبی اور معاشرتی خصوصیات باقی ہیں‘ اس وقت تک وہ قوم بھی باقی ہے اور جب کوئی قوم کسی دوسری قوم کی خصوصیات اختیار کرلے اور اس کے ساتھ خلط ملط اور مشتبہ ہو جائے تو یہ قوم اب فناء ہوگی اور صفحہٴ ہستی پر اس کا وجود باقی رہنا ناممکن ہوجائے گا۔

جاری ہے