Monthly Archives: August 2010

کيا کريں ؟ کيسے کريں ؟

جب سے سيلاب زدگان کی مدد کے متعلق بات شروع ہوئی ہے ” کيا کريں ؟ کيسے کريں ؟ ” کافی سننے ميں آيا ۔ دريں اثنا مجھے ايک قول ياد آيا ” تعليمی سند اس بات کا اشارہ ہے کہ اب عملی زندگی ميں قدم رکھا جا سکتا ہے”

يہ ايک مسلمہ حقيقت ہے کہ تجربہ کا کوئی نعم البدل نہيں ۔ مثال کے طور پر ايک آدمی تيراکی کے جتنے بھی تحريری امتحان پاس کر لے جب تک پانی ميں ڈبکی نہيں لگائے گا تيرنا نہيں سيکھ سکتا ۔ آج ہم جن لوگوں کو سائنس کا اُستاد مانتے ہيں اُنہوں نے يہ مقام اسناد کی وجہ سے حاصل نہيں کيا تھا بلکہ يہ مقام اُنہوں نے محنت اور تجربے سے حاصل کيا

چنانچہ بجائے فلسفہ شروع کرنے کے بہتر ہو گا کہ جو تجربہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی دی ہوئی توفيق اور اللہ ہی کی رہنمائی سے ہميں اکتوبر 2005ء کے زلزلہ کے بعد امداد کے سلسلہ ميں حاصل ہوا اور اب سيلاب زدگان کی امداد کيلئے اسے اللہ کے فضل سے بخير و خُوبی استعمال کيا جا رہا ہے بيان کيا جائے

زلزلہ کی تباہی کے بعد ہم نے امداد کی پہلی کھيپ انجمن ہلالِ احمر کے حوالے کی ۔ دو دن گذرنے کے بعد بھی کچھ معلوم نہ ہو سکا کہ امداد بھيجی بھی گئی ہے کہ نہيں ۔ امداد کا حجم ايک ٹرک سے زيادہ ہونے کے باعث کسی کونے کھدرے ميں تو چھپ نہيں سکتی تھی

اس کے بعد ہمارے علم ميں آيا کہ جامعہ فريديہ اسلام آباد والے بندوبست کر رہے ہيں ۔ ميں نے لال مسجد جاکر حالات معلوم کئے ۔ اُنہوں نے کہا ” وہاں نہ چولہا ہے نہ ديگچی نہ رکابی نہ پيالہ ۔ اسلئے بھنے ہوئے چنے ۔ کھجوريں ۔ چھوہارے ۔ بسکٹ وغيرہ کا بندوبست کريں ۔ دوسرے دن مجھ سے چھوٹا بھائی ايک سوزوکی پک اپ بھر کر لال مسجد پہنچا ۔ ميں کار ميں براہِ راست وہاں پہنچا ۔ يک دم جامعہ فريديہ کے چند اساتذہ اور طلباء آ گئے اور بورياں اُٹھا کر لے گئے ۔ آخری بوری مرحوم عبدالرشيد غازی نے اٹھائی تھی ۔ يہ عبدالرشيد غازی صاحب سے ميری دوسری اور آخری ملاقات تھی

دوسرے دن معلوم کيا تو وہ لوگ خود سوچ ميں پڑے تھے کہ خالی ٹرک واپس کيوں نہ آيا ۔ انہوں نے تين ٹرک اور بھيجے اور ساتھ ايک ايسے آدمی کو بھيجا جس کے پاس موبائل فون تھا ۔ اس نے بھی رات تک رابطہ نہ کيا ۔ اگلے دن اس کا فون آيا کہ متاثرہ علاقے تک جا نہيں سکتے اور نہ وہاں موبائل کام کرتا ہے کيونکہ سب کچھ تباہ ہو چکا ہے ۔ وہ واپس مانسہرہ شہر آ کر ٹيليفون کر رہا ہے ۔ اس نے بتايا کہ ٹرک کھڑے کر کے سامان کندھوں پر لاد کر ميلوں پيدل چل کے پہنچايا جا رہا ہے

اس پر ہم لوگوں نے سوچا کہ کيوں نا ہم خود ايک ايسی جماعت تشکيل ديں جس ميں کندھوں پر سامان رکھ کر پہنچانے والے بھی ہوں اور کم از کم ايک آدمی ايسا شامل ہو جو علاقہ سے اچھی طرح واقف ہو ۔ مينجمنٹ ميرے سب سے چھوٹے بھائی جو راولپنڈی ميڈيکل کالج ميں پروفيسر اور ڈسٹرکٹ ہيڈکوارٹر ہسپتال راولپنڈی ميں سرجری يونٹ کا سربراہ ہے نے اپنے ذمہ لی ۔ تين دنوں ميں خيموں ۔ لوہے کی چادروں ۔ پينے کے پانی سے بھرے ہوئے پلاسٹک کے 10 لٹر والے کينوں اور کھانے کا خشک سامان سے لدے تين ٹرک تيار ہو گئے اور ميرا بھائی اپنی کار پر قافلے کی کمان کرتا ہوا روانہ ہوا ۔ ايک پک اپ ميں چند لوگ آگے بھيج ديئے کہ جا کر صورتِ حال کا جائزہ لے کر امدادی سامان کا خيال رکھتے ہوئے متاثرين کے ناموں کے ساتھ فہرست تيار کر ليں کہ کس کی کيا ضروت ہے ؟ اور انہيں بتا ديں کہ انہيں کوئی تکليف کرنے کی ضرورت نہيں ۔ جہاں وہ بيٹھے ہيں وہيں انہيں مطلوبہ چيزیں مل جائيں گی جو فی الحال تھوڑی ہيں بعد ميں اِن شاء اللہ اور آ جائيں گی

ٹرک جہاں تک جا سکتے تھے گئے ۔ وہاں پہلے بھيجے گئے نمائندوں ميں سے ايک آدمی اپنی پک اپ کی بجائے ايک بڑی پک اور اس کے ڈرائيور کے ساتھ کھڑا تھا جو علاقہ سے اچھی طرح واقف اور ماہر ڈرائيور تھا ۔ اس پک اپ والے نے کہا کہ “صرف ڈيزل آپ ڈلواتے رہيں ميں مزدوری نہيں لوں گا”۔ اسے جذبہ کہا جاتا ہے ۔ ميرا بھائی پک اپ پر پہلے پھيرے ميں گيا ۔ سامان پک اپ پر لاد کر دو دن ليجاتے رہے کيونکہ راستے ختم ہو چکے تھے پہاڑ کے اوپر نيچے جان ہتھيلی پر رکھے ہوئے سفر کرتے رہے

وہاں اپنا آدمی فہرست کے ساتھ موجود تھا وہ پک اپ کا سامان ديکھ کر بتاتا جاتا کہ يہ فلاں کو دے ديں يہ فلاں کو ۔ اگر کوئی از خود سامان لينے آگے بڑھتا تو اسے نہائت تحمل سے کہا جاتا کہ “جن کے نام لکھے گئے ہيں ان سب کو ملے گا ۔ صرف اپنا سامان اٹھانے ميں آپ ہماری مدد کر سکتے ہيں”

تيسرے دن ان کی واپسی ہوئی ۔ اس کے بعد ايک ايک ہفتہ کے وقفہ سے مزيد دو پھيرے لگائے گئے جن ميں ايک بار ميرا دوسرا بھائی بھی ساتھ گيا اور ايک بار ميری بھابھی بھی ساتھ گئيں تاکہ عورتوں کی مخصوص بيماريوں کے سلسلہ ميں ان کا معائنہ کر سکيں ۔ وہ ڈاکٹر ہيں ۔ مردوں اور عورتوں کی عام بيماريوں کے سلسہ ميں ميرا بھائی ہی انہيں ديکھتا رہا

اللہ کی مہربانی سے سيلاب کے سلسہ ميں بھی متذکرہ بالا تجربہ دہرايا گيا ہے اور کسی قسم کی بھيڑ چال نہيں ہوئی ۔ سب نے بڑے تحمل کے ساتھ سامان وصول کيا

زلزلہ کے سلسلہ ميں راستہ بہت دشوار گزار ہو گيا تھا اور وہاں فوری طور پر عارضی گھر بنانے کی ضرورت تھی کيونکہ ٹھنڈا علاقہ تھا اور موسم بھی سرد تھا ۔ سيلاب کے اثر سے راستہ زيرِ آب ہو گيا ہے اور پک اپ کی بجائے کشتی سے کام لينا پڑتا ہے

امدادی اداروں کے متعلق استفسار کيا جاتا ہے ۔ زلزلہ کے بعد سب سے زيادہ اور محنت سے امدادی کام ان لوگوں نے کيا جہنيں ہماری حکومت اور بہت سے ہموطن انتہاء پسند کہتے ہيں ۔سب سے آگے جماعت الدعوہ اس کے بعد جماعت اسلامی کا الخدمت ۔ چھوٹی چھوٹی جماعتيں مثال کے طور پر الشمس ۔ البدر ۔ اور ہم جيسے لوگوں نے بھی حصہ ڈالا

اب سيلاب ميں سب سے آگے پاکستان کے فوجی ہيں پھر وہی لوگ پيش پيش ہيں جنہيں انتہاء پسند کہا جاتا ہے اور ہم جيسے لوگ اپنی ہمت کے مطابق کام کر رہے ہيں ۔ رفاہی اداروں ميں جماعتِ اسلامی کا الخدمت اور فلاحِ انسانيت قابلِ ذکر ہيں

اگر لوگ باجماعت ہو کر مربوط طريقہ سے خود جا کر امداد کريں تو اس سے جو لُطف اور اطمينان حاصل ہو گا وہ کرنے کے بعد ہی پتہ چلے گا اور اس کا اجر بھی سب سے زيادہ ہے

ايک درخواست ہے کہ متاءثرين کی بھاری تعداد کھاتے پيتے لوگ تھے ۔ از راہِ کرم اُنہيں پرانے کپڑے دے کر ان کی عزتِ نفس کو مجروح نہ کيجئے ۔ زلزلہ کے بعد پرانے کپڑے پہنچانے سے نہ صرف متاءثرين کی عزتِ نفس اتنی مجروح ہوئی کہ زيادہ تر لوگوں نے آنسو بہاتے ہوئے لينے سے انکار کرديا بلکہ ڈھيروں کے ڈھير کپڑے ضائع ہوئے

قرآن شریف کا اَدَب

لوگ قرآن شریف کا اَدَب اِس طرح کرتے ہیں کہ اسے چُومتے ہیں آنکھوں سے لگاتے ہیں اور مخمل میں لپیٹ کر اُونچی جگہ پر رکھ دیتے ہیں تاکہ اُس کی بے اَدَبی نہ ہو ۔ کیا قرآن شریف یا حدیث میں اِس قسم کی کوئی ہدائت ہے ؟

بلاشُبہ قرآن شريف کا احترام کرنا چاہيئے اور اس کو پاک صاف ہو کر ہاتھ لگانا چاہيئے ليکن قرآن شریف کا اَدَب یہ ہے کہ ہم اسے اچھی طرح سمجھ کر اس پر صحیح طرح عمل کریں لیکن ہم میں سے زیادہ تر ایسے ہیں جنہوں نے قرآن شریف کو کبھی سمجھنے کی کوشش نہیں کی ۔ بہت کم ہیں جنہوں نے ترجمہ کے ساتھ پڑھا ہے اور اس سے بھی کم جو اس پر عمل کرنے کی کوشش کر تے ہیں ۔ ۔ پڑھے لکھوں ميں بھی ايسے مسلمان ہيں جنہوں نے قرآن شريف پڑھا ہی نہيں

لوگوں نے قرآن و حدیث سے مبرّا (بعض مخالف) اصُول خُود سے وُضع کر لئے ہوئے ہیں اور اُن کو اسلامی قرار دے کر اور اُن پر عمل کر کے جنّت کے خواہاں ہیں

کچھ سمجھتے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں اللہ رحمٰن و رحیم ہے انہیں بخش دے گا یا تھوڑی سی سزا کے بعد وہ جنت میں داخل کر دیئے جائیں گے

کچھ مسلمان کہلانے والے ایسے بھی ہیں جو 14 صدیاں پرانے دین کو آج کے ترقّی یافتہ دور میں ناقابلِ عمل قرار دیتے ہیں

فانی انسان کے بنائے ہوئے سائنس کے کسی فارمولے کو [جو قابلِ تغیّر ہیں] رَد کرنے کے لئے ہمیں سالہا سال محنت کرنا پڑتی ہے لیکن اللہ کے بنائے ہوئے دین کو رَد کرنے کے لئے ہمیں اتنی عُجلت ہوتی ہے کہ سمجھنے کی کوشش تو کُجا قرآن کو صحیح طرح سے پڑھتے بھی نہیں اور رَد کر دیتے ہیں

میرا سامنا ایسے لوگوں سے بھی ہوا جو خود تو عربی نہ جانتے ہیں اور نہ سیکھنا چاہتے ہیں مگر اُن کا استدلال ہے کہ قرآن شریف کے سب تراجم غلط ہیں کیونکہ وہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔ جب میں نے اُنہیں ایسے تراجم دکھانے کا کہا جو آپس میں مختلف ہیں تو جواب ندارد ۔ معلوم ہوا کہ کبھی قرآن شریف کا ترجمہ پڑھا ہی نہیں یا قرآن شریف ہی نہیں پڑھا

کچھ ایسے بھی ہیں جو قرآن شریف میں تبدیلی کا عندیہ دینے والوں کو عملی یا مفید راستہ [pragmatic approach] قرار دیتے ہیں لیکن قرآن شریف کو سمجھ کر پڑھنا گوارہ نہیں کرتے

میں یقین رکھتا ہوں کہ قرآن شریف کی عربی میں تلاوت ثواب بھی کا کام ہے اور روزانہ تلاوت برکت کا باعث ہے ۔ میرا خیال ہی نہیں تجربہ بھی ہے کہ اگر عربی میں تلاوت باقاعدہ جاری رکھی جائے تو مطلب سمجھنے میں ممِّد ثابت ہوتی ہے ۔ لیکن جو بات میری سمجھ میں آج تک نہیں آئی وہ یہ ہے کہ ویسے تو ہم قرآن شریف کو سمجھنا برطرف کبھی کھول کر پڑھیں بھی نہیں اور نہ اس میں لکھے کے مطابق عمل کریں مگر کسی کے مرنے پر یا محفل رچانے کے لئے فرفر ایک دو پارے پڑھ لیں اور سمجھ لیں کہ فرض پورا ہو گیا

ميں دو مواقع پر حيران و پريشان ہوا
جب ہم طربلس لبيا ميں تھے تو ايک ہموطن نے قرآن خوانی کيلئے بلايا ۔ ہمارے ايک دوست سے ان کی جان پہچان تھی وہ مجھے ساتھ لے گئے ۔ ہم کل 6 لوگ تھے جنہوں نے ايک قرآن شريف پڑھا ۔ جب ہم پڑھ چکے تر ايک ہموطن آئے اور گويا ہوئے “ميری طرف سے بھی ايک سپارہ کر ليجئے” ۔ کسی نے پوچھا ” کونسا ؟” جواب ديا “کوئی سا بھی کر ليں “۔ ہم ہکا بکا رہ گئے
ميں ملک سے باہر گيا ہوا تھا تو ايک رشتہ دار فوت ہو گئے ۔ واپس پہنچا تو معلوم ہوا ۔ ميں فاتحہ کہنے دوسرے شہر ان کے گھر گيا ۔ وہاں پہنچا توقرآن خوانی ہو رہی تھی معلوم ہوا کہ چاليسواں ہے ۔ قرآن خوانی کے بعد دعا شروع ہونے سے قبل صاحبِ خانہ نے کہا کہ اتنے قرآن شريف ختم ہوئے ہيں ۔ تعداد اتنی زيادہ بتائی کہ ميں بھونچکا رہ گيا ۔ قرآن شريف پڑھنے والے بيس بھی نہ تھے ۔ ميں نے بعد ميں پوچھا کہ” اتنی زيادہ بار قرآن شريف کس نے پڑھے ہيں ؟” جواب ملا ” وہ مسجد ميں لڑکے پڑھتے ہيں نا ۔ ان سے لے لئے ہيں”۔

اللہ ہمیں قرآن شریف کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور تمام خرافات سے بچائے ۔ آمین

اندوہناک واقعہ ۔ سوالات کے جواب

عنيقہ ناز صاحبہ نے سيالکوٹ ميں دو لڑکوں کو تشدّد سے ہلاک کرنے کے واقعہ سے متعلق سوال پوچھے ہيں ۔ ميں نے متعلقہ وڈيو نہيں ديکھی اور نہ ہی ايسی چيزوں کو ديکھنے کا حوصلہ رکھتا ہوں ۔ گو ماضی کا تجربہ بتاتا ہے کہ عنيقہ ناز صاحبہ کو ميری تحرير ميں وہ عنصر مل جاتا ہے جو ميرے وہم گمان ميں نہيں ہوتا اور پھر اُسی پر طويل تحرير آ جاتی ہے ۔ چونکہ سوال پوچھے جانے کے قابل ہيں اسلئے ميں اپنے تجربہ اور اپنے عِلم کے مطابق ان کے مختصر جوابات دينے کی کوشش کروں گا ۔ اللہ سُبحانُهُ و تعالٰی ميری مدد فرمائے

سوال ۔ کیا ایسے واقعات کی روک تھام ہونی چاہیئے یا مذمّت کرنے کے بعد چھوڑ دینا چاہیئے؟
جواب ۔ حديث کے مطابق مذمت کرنا ايمان کی کمزور ترين شکل ہے مگر اس کا يہ ہرگز مطلب نہيں کہ برائی کو روکا نہ جائے بلکہ مقصد يہ ہے کہ اگر کسی مسلمان ميں برائی کو روکنے کی کسی قسم کی کوئی طاقت نہيں ہے تو کم از کم مذمت کرے ۔ ليکن اوّل حُکم برائی کو سختی سے روکنے کا ہے جس کا يہ مطلب نہيں کہ برائی کرنے والے کی پٹائی شروع کر دی جائے ۔ چار دہائياں قبل تک لوگ بِيچ ميں آکے لڑائی ختم کرا ديتے تھے اور ايسا کرتے ہوئے خود بھی تشدد کا نشانہ بنتے مگر ہمت نہ ہارتے ۔ اب ہم لوگ ڈرامے کرنے اور ڈرامے ديکھنے کے عادی ہو گئے ہيں

سوال ۔ کيا بد دعائيں لوگوں کو ان کے انجام تک پہنچا دیں گی ؟ کیا ان واقعات کا سدِ باب بد دعاؤں سے کیا جا سکتا ہے ؟ کیا بد دعا دینے والے اپنی کم ہمتی کو ظاہر نہیں کرتے ؟
جواب ۔ بد دعا دينا بُزدِلی کی نشانی ہے ۔ ميرے يقين کے مطابق کسی کو بد دعا دينے سے اپنے اچھے اعمال ناقص ہو جاتے ہيں ۔ برائی کرنے والے کو دعا دينا چاہيئے کہ اللہ اس پر رحم کرے اور اسے برائی سے بچائے
موقع لطيفے کا نہيں ہے اسلئے معذرت ۔ دوسری جنگ عظيم ميں ہندوستان کے لوگوں کو بھی قابض انگريز حکومت نے فوج ميں بھرتی کر کے محاذ جنگ پر بھيج ديا ۔ کہا جاتا ہے کہ ايک جوان جو محاذ پر گيا تھا اُس کی ماں دعا کرتی تھی ” اللہ کرے جرمن کی توپوں ميں کيڑے پڑيں”۔

سوال ۔ کیا یہ واقعات محض معاشرے میں موجود کچھ لوگوں کی پُرتشَدّد فِطرت کی وجہ سے ظہور پذیر ہوتے ہیں یا ہم مِن حَیثُ القَوم ایک اخلاقی تنَزّلی کا شکار ہیں ؟ ہماری اس اخلاقی تنَزّلی کا باعث مذہب سے ہماری دوری یا تعلیم کی کمی یا ہماری ایک مہذب قوم کے طور پہ تربیت نہ ہونا ہے ؟
جواب ۔ يہ واقعات اس معاشرہ ميں ظہور پذير ہوتے ہيں جس کے اکثر ارکان انتہائی خود غرض ہو جانے کے بعد اخلاقيات کو چھٹی دے ديتے ہيں ۔
کوئی دين يا مذہب اس کی اجازت نہيں ديتا ۔ رياستی سطح پر اسرائيل اس کی مثال ہے کہ اُن کا عقيدہ ہے “اپنے لئے دوسروں پر ہر ظلم کارِ ثواب ہے”۔ يہی عقيدہ رياستہائے متحدہ امريکا ۔ برطانيہ اور کچھ يورپی رياستوں کا رہا ہے ۔ گوروں نے امريکا ۔ آسٹريليا ۔ اور افريقہ اور ايشيا کے کچھ حصوں کو اپنی ملکيت بنانے کيلئے کيا کچھ ظلم نہيں کيا ۔ ہندو برہمن ميں بھی يہ خيال کسی حد تک پايا جاتا ہے يہاں تک کہ وہ ہندوؤں کے ساتھ بھی ظلم کرتا ہے جہنيں وہ اپنے سے کم تر سمجھتا ہے
دين اسلام يا کوئی دوسرا مذہب اس کی اجازت نہيں ديتا اسلئے اس کی وجہ دين سے دوری بھی ہے ۔ مثال کے طور پر ديکھ ليجئے کہ اسرائيل جو ظلم فلسطين ميں کر رہا ہے بہت سے يہودی ربی (مذہبی پيشوا) اس کے خلاف ہيں ۔ کئی تو کہتے ہيں کہ اسرائيل کی رياست بنانا ہی اللہ کے حکم کی خلاف ورزی ہے

سوال ۔ ہماری مذہب سے ظاہراً گہری وابستگی بھی ہمیں کیوں تشدد سے دور نہیں رکھ پاتی؟
جواب ۔ کونسی وابستگی ؟ گہری وابستگی کہنا تو بہت دور کی بات ہے ۔ بظاہر ہماری قوم ميں مسلمان نام رکھنے والے سب کے سب
کیسے مسلمان ہيں ؟ آدھا جسم ننگا کر کے شہوانی ناچ ناچنے والی بھی کہتی ہے ”اللہ نے مجھے کاميابی دی“۔
ہماری اکثريت زندہ لوگوں کی پيروی کرنے کی بجائے مر جانے والوں کی قبروں سے اميديں وابستہ رکھتی ہے ۔ پانچ وقت کی نماز نہ پڑھنے والے ايک حج کر کےسمجھ ليتے ہيں کہ سارے گناہ دھل گئے پھر بطور سند اپنے نام کے ساتھ حاجی اور الحاج لکھنا شروع کر ديتے ہيں مگر مسجد جانے کيلئے ان کے پاس وقت نہيں ہوتا
نماز روزے کی کوئی پابندی نہيں مگر گيارہويں شريف کا ختم دلانے کی پابندی کرتے ہيں
لمبی داڑھی ماتھے پر محراب اور رشوت دے کر کام کرواتے ہيں ۔ اعتراض کيا جائے تو جواب ملتا ہے ” کيا کريں جی ۔ رشوت ديئے کے بغير کام نہيں ہوتا”۔ يہ نہيں کہتے کہ اللہ پر بھروسہ نہيں پيسے پر بھروسہ ہے ؟

سوال ۔ کچھ لوگوں کے خیال میں مذہب سے دوری ان واقعات کا باعث ہے ۔ تو وہ ممالک جو بالکل سَیکُولَر ہیں وہاں ایسے واقعات کیوں اس تسلسل سے پیش نہیں آتے ؟
جواب ۔ يہ سوال ہر وہ شخص پوچھتا ہے جو مذہب کی پابندی ميں نہيں آنا چاہتا ۔ حقيقت تو يہی ہے کہ ايسے واقعات کا ظہور پذير ہونا مذہب سے دوری کا نتيجہ ہے ۔ ”وہ ممالک جو بالکل سَیکُولَر ہیں وہاں ایسے واقعات کیوں اس تسلسل سے پیش نہیں آتے؟“ کہنا ان علاقوں کے حالات کا علم نہ ہونا ہے ۔ ميں صرف ايک مشہور زمانہ بہت بڑے واقعہ کی طرف اشارہ کروں گا ۔ امريکا ميں ايک بار 40 منٹ کيلئے بجلی بند ہو گئی تھی ۔ اس دوران کتنے گھر اور کتنے لوگ لوٹے گئے کتنی عورتوں کی عزت لوٹی گئی مزيد کيا کچھ ہوا اسے لکھنے کيلئے نہ يہاں جگہ ہے نہ ميرے پاس وقت ۔ اسی سے اندازہ لگايا جا سکتا ہے کہ وہاں کے لوگوں کا مزاج کيسا ہے ؟ اور وہاں کيا کچھ نہيں ہوتا ہو گا
صرف ملک کے اندر ہی نہيں غير ممالک ميں جا کر ميرے اکثر ہموطن اپنی قوم کو رگيدنا اپنا فرضِ اَوّلِيں سمجھتے ہيں ۔ ہماری بدقسمتی يہ ہے کہ ہمارے ملک کے بادشاہ جنرل پرويز مشرف نے ساری دنيا کے سامنے کہا تھا ” ہمارے ملک کی عورتيں کينيڈا کا ويزہ لينے کيلئے اپنے آپ کو ريپ کروا لتی ہيں”۔

اب آتے ہيں وجہ پر ۔ دوسرے ممالک ميں قانون ہے اور اس کی پاسداری بھی ہے ۔ ہمارے ملک ميں قانون صرف غلط استعمال کيلئے ہے

سوال ۔ جب ہم اس چیز پہ یقین رکھتے ہیں کہ ہمارے ایسے افعال ہمارے اُوپر عذاب کا باعث بنتے ہیں تو پھر بھی ہم کیوں ان کو کرنے میں ذرا تامل نہیں کرتے؟
جواب ۔ کتنے لوگ ہيں جو يہ يقين رکھتے ہيں ہمارے بُرے افعال ہمارے اُوپر عذاب کا باعث بنتے ہیں ؟ ايسا کہنے والوں کی اکثريت بھی اپنے عمل پر غور نہيں کرتی مگر ایسے لوگ ہيں جو ايسے واقعات ديکھ اپنے اعمال کو مزيد درست کرتے ہيں
اسے صرف ايک سيالکوٹ کے واقعہ کے پس منظر ميں نہيں ديکھنا چاہيئے ۔ ٹارگٹ کلنگ ۔ عام قتل ۔ ڈاکے ۔ چوری ۔ زنا ۔ جھوٹا مقدمہ قائم کرنا ۔ کسی بہن بھائی کے حق کی جائيداد پر قبضہ کرنا ۔ رشوت کھانا ۔ سود کھانا ۔ سب کچھ پورے ملک ميں ہو رہا ہے ۔ اللہ کے احکامات کی کھُلم کھُلا خلاف وَرزی کر کے عذاب کو دعوت تو ديتے ہيں ۔ آئے نہ آئے وہ اللہ کی مرضی ہے ۔ اللہ رحمٰن رحيم کريم ہے جبار و قہار بھی اور بے نياز بھی ۔ اگر ہمارے ہر گناہ کی سزا ہميں دينے لگے تو آج شايد ميں بھی يہ تحرير لکھنے کے قابل نہ ہوتا ۔ سچ يہ ہے کہ ميں اللہ کی عطا کردہ توفيق سے ہی لکھ رہا ہوں

سوال ۔ کیا کچھ لوگ موقع سے فائدہ اٹھا کر اپنی بالا دستی کے جَذبے کو کمزوروں پہ ظلم کر کے تسکین دیتے ہیں اس لئے یہ واقعات ہو پاتے ہیں ؟ کیا تشدد پسند فطرت فیوڈل نظام کی دین ہے ؟
جواب ۔ موقع سے فائدہ بھی اٹھايا جاتا ہے ۔ پرانی دشمنی اور قدورتوں کا حساب بھی چکايا جاتا ہے
معاشرہ کا يہ حال انتہائی خود غرضی اور اذيت پسندی کا نتيجہ ہے ۔ فیوڈل نظام بھی اسی طرز عمل کی دين ہے

سوال ۔ کیا ایسا اجتماعی بہیمانہ تشدد، معاشرتی نا انصافیوں کا حصہ ہے ؟ تو پھر ہم اسے اپنے اوپر ظلم کرنے والے طاقتور طبقے کے خلاف کیوں استعمال نہیں کرتے ؟
جواب ۔ کچھ واقعات نا انصافيوں کا نتيجہ ميں حواس کھو بيٹھنے سے ہوتے ہيں مگر اکثر نہيں ۔ ورنہ اپنے غصہ کو ظالم کے خلاف استعمال کيا جاتا

سوال ۔ کیا تشدد انسانی فطرت ہے ؟ اگر ایسا ہے تو کیا اسے سدھار کر کسی مثبت جذبے میں تبدیل کیا جا سکتا ہے؟
جواب ۔ تشدد درندگی ہے ۔ انسانی فطرت نہيں

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ پہچان

ایک صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کسی شخص کی سفارش کی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پوچھا “تم اُس کے ساتھ کبھی اکٹھے رہے ہو ؟”
صحابی نے کہا “نہیں”
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پوچھا “تم نے اُس کے ساتھ کبھی سفر کیا ہے ؟”
صحابی نے کہا “نہیں”
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کہا “پھر تم اُسے نہیں جانتے”

میرا دوسرا بلاگ ” حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter
” پچھلے ساڑھے پونے چھ سال سے معاشرے کے کچھ بھیانک پہلوؤں پر تحاریر سے بھر پور چلا آ رہا ہے ۔ اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے

زندگی کا مقصد

استدعا ۔ دو نظموں کی صورت ميں

اپنے لئے تو سب جيتے ہيں اس جہاں ميں ۔ ۔ ۔ ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا
سب سے بڑی عبادت ۔ انساں سے پيار کرنا ۔ ۔ ۔ اپنا لہو بہا کر دوسروں کی مانگ بھرنا
انساں وہی بڑا ہے ۔ جس نے يہ راز جانا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا
آئے جو کوئی مُشکل ۔ ہمت سے کام لينا ۔ ۔ ۔ گِرنے لگے جو کوئی ۔ تم بڑھ کے تھام لينا
انساں وہی بڑا ہے ۔ جس نے يہ راز جانا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا

‘ = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = =

کوشاں سبھی ہیں رات دن اک پل نہیں قرار ۔ ۔ ۔ ۔ پھرتے ہیں جیسے ہو گرسنہ گُرگِ خونخوار
اور نام کو نہیں انہیں انسانیت سے پیار ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کچھ بات کیا جو اپنے لئے جاں پہ کھیل جانا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
سیرت نہ ہو تو صورتِ سُرخ و سفید کیا ہے ۔ ۔ دل میں خلوص نہ ہو تو بندگی ریا ہے
جس سے مٹے نہ تیرگی وہ بھی کوئی ضیاء ہے ۔ ِضد قول و فعل میں ہو تو چاہيئے مٹانا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بھڑ کی طرح جِئے تو جینا تيرا حرام ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جینا ہے یہ کہ ہو تيرا ہر دل میں احترام
مرنے کے بعد بھی تيرا رہ جائے نیک نام ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور تجھ کو یاد رکھے صدیوں تلک زمانہ
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وعدہ ترا کسی سے ہر حال میں وفا ہو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایسا نہ ہو کہ تجھ سے انساں کوئی خفا ہو
سب ہمنوا ہوں تیرے تُو سب کا ہمنوا ہو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ جان لے ہے بیشک گناہ “دل ستانا”
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تو زبردست ہے تو قہرِ خدا سے ڈرنا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور زیردست پر کبھی ظلم و ستم نہ کرنا
ایسا نہ ہو کہ اک دن گر جائے تو بھی ورنہ ۔ ۔ ۔ ۔۔ پھر تجھ کو روند ڈالے پائوں تلے زمانہ
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مل جائے کوئی بھوکا کھانا اسے کھلانا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مل جائے کوئی پیاسا پانی اسے پلانا
آفت زدہ ملے ۔ نہ آنکھیں کبھی چرانا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مضروبِ غم ہو کوئی مرہم اسے لگانا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
دل میں ہے جو غرور و تکبر نکال دے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور نیک کام کرنے میں اپنی مثال دے
جو آج کا ہو کام وہ کل پر نہ ڈال دے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دنیا نہیں کسی کو دیتی سدا ٹھکانا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ایمان و دِین یہی ہے اور بندگی یہی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ قول ہے بڑوں کا ہر شُبہ سے تہی ہے
اسلاف کی یہی روشِ اولیں رہی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ تجھ سے بھی ہو جہاں تک اپنے عمل میں لانا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
نفرت رہے نہ باقی ۔ نہ ظلم و ستم کہیں ہو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اقدام ہر بشر کا اُمید آفریں ہو
کہتے ہیں جس کو جنت کیوں نہ یہی زمیں ہو ۔ اقرار سب کریں کہ تہِ دل سے ہم نے مانا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

‘ = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = =

شاعر ۔ دونوں کے نامعلوم
پہلی نظم آدھی صدی قبل ريڈيو پاکستان سے سُنی تھی ۔ يہ شايد فلمائی بھی گئی تھی اور شايد پوری ياد بھی نہيں
دوسری نظم کہيں پڑھی اور اپنے پاس لکھ لی تھی

بلاگرز سے التماس

بلاگسپاٹ [Blogspot] استعمال کرنے والے بلاگرز [bloggers] بالخصوص اپنا ڈيرہ والے صاحب سے التماس ہے کہ تبصرہ کرنے کيلئے مندرجہ ذيل آپشن [option] فعال کر ديں
NAME / URL

چند ورڈپريس [Wordpress] کے بلاگز [blogs] ميں صرف ورڈپريس بلاگ والوں کو ہی تبصرہ کرنے کی اجازت ہے
ان سے بھی التماس ہے کہ دوسرے بلاگز والوں کو بھی تبصرہ کی سہولت مہياء کريں

شيطان کے بندے

جسے عيش ميں يادِ خدا نہ رہی
جسے طيش ميں خوفِ خدا نہ رہا

ايک عينی شاہد کی تحرير سے اقتباس

صبح کے پانچ بج رہے تھے جب ہم سکھر سے کندھ کوٹ کی طرف روانہ ہوئے۔ سندھ پولیس کے دو اہل کار بڑی عاجزی سے گویا ہوئے “سائیں لگتا ہے کہ آپ شکار پور کی طرف جا رہے ہیں”۔ میں نے بتایا کہ ہم شکار پور سے آگے کندھ کوٹ جائیں گے۔ یہ سنتے ہی دونوں پولیس والوں نے کانوں کو ہاتھ لگانے شروع کر دیئے۔ پھر ان میں سے ایک نے بڑی عاجزی سے کہا “سائیں شکار پور کی طرف مت جاؤ آپ کو ڈاکو لوٹ لیں گے”۔ پولیس والے نے کہا کہ وہ مجھے نوشہرہ کی گلیوں میں کشتی پر سفر کرتے ہوئے دیکھ چکا ہے لیکن نوشہرہ اور سکھر سے شکار پور جانے والی سڑک میں بڑا فرق ہے اس لئے ہم سکھر سے باہر نہ جائیں۔

جیسے ہی ہم شکار پور روڈ پر آئے تو لاتعداد ٹریکٹر ٹرالیاں اور ٹرک متاثرین سے بھرے نظر آئے جو سکھر اور حیدر آباد کی طرف جا رہے تھے۔ جن کے ساتھ مویشی تھے وہ پیدل سفر کر رہے تھے اور پیدل سفر کرنے والے اکثر افراد نے بارہ بور کی بندوقیں یا کلاشنکوفیں اٹھا رکھی تھیں۔ ہم نے جگہ جگہ اپنی گاڑی روک کر ان متاثرین سے ان کی بربادی کی داستانیں سننی شروع کیں تو اکثرکو سیلابی پانی سے کم اور سندھ کے ڈاکوؤں سے زیادہ شکوہ تھا ۔ کندھ کوٹ، خان پور، عفرت پور اور کرم پور کے کئی متاثرین نے بتایا کہ ڈاکوؤں نے ان کی عورتوں کے زیورات چھین لئے ، نقدی لوٹ لی اور جن کے پاس اپنے دفاع کیلئے اسلحہ نہ تھا ان سے ان کی گائے بھینسیں بھی چھین لیں۔

کندھ کوٹ کے قریب پانی میں ڈوبے ہوئے شہر غوث پور پہنچے تو یہاں بھی فوجی افسران کی زبانی ڈاکووؤں کی لوٹ مار کی کہانیاں سنیں۔

اگلے دن ہم نے شکار پور کی طرف سے جیکب آباد اور وہاں سے جعفر آباد پہنچنے کی کوشش کی اور جگہ جگہ بہت سے لوگوں سے بات کی۔ جیکب آباد کے ایک تباہ حال اسکول ٹیچر نے بڑی خوبصورت بات کی۔ اس نے کہا کہ دریائے سندھ کی لہروں کو غور سے سنو۔ دریا غصے میں پھنکار رہا ہے کیونکہ ہم نے 24 جنوری 2010ء کو ”سندھو دریا ڈے “ تو منایا لیکن دریا کے کناروں پر آباد جنگلوں کو کاٹنا بند نہ کیا، ہم نے دریا کی مٹی چُرا کر اس کے کناروں کو کمزور کر دیا لہٰذا دریا ہمارے گھروں میں گھس گیا ہے۔

پچھلے دو ہفتے سے میں سفر میں ہوں نوشہرہ، چارسدہ، کالا باغ، عیسیٰ خیل، میانوالی ، ملتان، لیہ، مظفر گڑھ، رحیم یار خان، کندھ کوٹ ، شکار پور، جیکب آباد اور سکھر سمیت لاتعداد سیلاب زدہ علاقوں میں بہت تباہی دیکھی اور بہت کچھ سیکھا لیکن متاثرین سیلاب کے ساتھ جو سلوک سندھ کے ڈاکو کر رہے ہیں وہ کچھ خیبر پختونخوا اور پنجاب میں نہیں ہو رہا۔ یہاں پر متاثرین کے خالی گھروں میں چوریاں ضرور ہو رہی ہیں لیکن متاثرین کے قافلوں کو بے دردی سے لُوٹا نہیں جا رہا۔

صدر آصف علی زرداری متاثرین سیلاب کے ساتھ تصویریں کھنچوانے والے کچھ سیاسی اداکاروں سے کافی ناراض نظر آتے ہیں۔ وہ سیاسی اداکاروں کو چھوڑ دیں اور سندھ والوں کی فکر کریں۔ شکار پور بائی پاس اور سکھر بائی پاس پر آسمان تلے بیٹھے متاثرین سیلاب سے جا کر ان کا حال پوچھیں تو شاید یہ لُٹے پُٹے لوگ سیلاب سے اپنی تباہی کا شکوہ نہ کریں لیکن تباہی کے بعد ڈاکوؤں نے جو لوٹ مار کی اس پر ان متاثرین کی اکثریت کسی سے ناراض ہے وہ صدر زرداری، وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ اور صوبائی وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا ہیں۔

سب مسلمانوں کو چاہيئے کہ استغفار اور آيت کريمہ کا باری باری جتنا ہو سکے ورد کريں
اَستَغفُـرُ اللہ الْعَظِيْم وآتُوبُ اَلَيہ
لَا اِلہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحَنَکَ اِنِّی کُنْتُ مِنَ الْظَآلَمِين