شيطان کے بندے

جسے عيش ميں يادِ خدا نہ رہی
جسے طيش ميں خوفِ خدا نہ رہا

ايک عينی شاہد کی تحرير سے اقتباس

صبح کے پانچ بج رہے تھے جب ہم سکھر سے کندھ کوٹ کی طرف روانہ ہوئے۔ سندھ پولیس کے دو اہل کار بڑی عاجزی سے گویا ہوئے “سائیں لگتا ہے کہ آپ شکار پور کی طرف جا رہے ہیں”۔ میں نے بتایا کہ ہم شکار پور سے آگے کندھ کوٹ جائیں گے۔ یہ سنتے ہی دونوں پولیس والوں نے کانوں کو ہاتھ لگانے شروع کر دیئے۔ پھر ان میں سے ایک نے بڑی عاجزی سے کہا “سائیں شکار پور کی طرف مت جاؤ آپ کو ڈاکو لوٹ لیں گے”۔ پولیس والے نے کہا کہ وہ مجھے نوشہرہ کی گلیوں میں کشتی پر سفر کرتے ہوئے دیکھ چکا ہے لیکن نوشہرہ اور سکھر سے شکار پور جانے والی سڑک میں بڑا فرق ہے اس لئے ہم سکھر سے باہر نہ جائیں۔

جیسے ہی ہم شکار پور روڈ پر آئے تو لاتعداد ٹریکٹر ٹرالیاں اور ٹرک متاثرین سے بھرے نظر آئے جو سکھر اور حیدر آباد کی طرف جا رہے تھے۔ جن کے ساتھ مویشی تھے وہ پیدل سفر کر رہے تھے اور پیدل سفر کرنے والے اکثر افراد نے بارہ بور کی بندوقیں یا کلاشنکوفیں اٹھا رکھی تھیں۔ ہم نے جگہ جگہ اپنی گاڑی روک کر ان متاثرین سے ان کی بربادی کی داستانیں سننی شروع کیں تو اکثرکو سیلابی پانی سے کم اور سندھ کے ڈاکوؤں سے زیادہ شکوہ تھا ۔ کندھ کوٹ، خان پور، عفرت پور اور کرم پور کے کئی متاثرین نے بتایا کہ ڈاکوؤں نے ان کی عورتوں کے زیورات چھین لئے ، نقدی لوٹ لی اور جن کے پاس اپنے دفاع کیلئے اسلحہ نہ تھا ان سے ان کی گائے بھینسیں بھی چھین لیں۔

کندھ کوٹ کے قریب پانی میں ڈوبے ہوئے شہر غوث پور پہنچے تو یہاں بھی فوجی افسران کی زبانی ڈاکووؤں کی لوٹ مار کی کہانیاں سنیں۔

اگلے دن ہم نے شکار پور کی طرف سے جیکب آباد اور وہاں سے جعفر آباد پہنچنے کی کوشش کی اور جگہ جگہ بہت سے لوگوں سے بات کی۔ جیکب آباد کے ایک تباہ حال اسکول ٹیچر نے بڑی خوبصورت بات کی۔ اس نے کہا کہ دریائے سندھ کی لہروں کو غور سے سنو۔ دریا غصے میں پھنکار رہا ہے کیونکہ ہم نے 24 جنوری 2010ء کو ”سندھو دریا ڈے “ تو منایا لیکن دریا کے کناروں پر آباد جنگلوں کو کاٹنا بند نہ کیا، ہم نے دریا کی مٹی چُرا کر اس کے کناروں کو کمزور کر دیا لہٰذا دریا ہمارے گھروں میں گھس گیا ہے۔

پچھلے دو ہفتے سے میں سفر میں ہوں نوشہرہ، چارسدہ، کالا باغ، عیسیٰ خیل، میانوالی ، ملتان، لیہ، مظفر گڑھ، رحیم یار خان، کندھ کوٹ ، شکار پور، جیکب آباد اور سکھر سمیت لاتعداد سیلاب زدہ علاقوں میں بہت تباہی دیکھی اور بہت کچھ سیکھا لیکن متاثرین سیلاب کے ساتھ جو سلوک سندھ کے ڈاکو کر رہے ہیں وہ کچھ خیبر پختونخوا اور پنجاب میں نہیں ہو رہا۔ یہاں پر متاثرین کے خالی گھروں میں چوریاں ضرور ہو رہی ہیں لیکن متاثرین کے قافلوں کو بے دردی سے لُوٹا نہیں جا رہا۔

صدر آصف علی زرداری متاثرین سیلاب کے ساتھ تصویریں کھنچوانے والے کچھ سیاسی اداکاروں سے کافی ناراض نظر آتے ہیں۔ وہ سیاسی اداکاروں کو چھوڑ دیں اور سندھ والوں کی فکر کریں۔ شکار پور بائی پاس اور سکھر بائی پاس پر آسمان تلے بیٹھے متاثرین سیلاب سے جا کر ان کا حال پوچھیں تو شاید یہ لُٹے پُٹے لوگ سیلاب سے اپنی تباہی کا شکوہ نہ کریں لیکن تباہی کے بعد ڈاکوؤں نے جو لوٹ مار کی اس پر ان متاثرین کی اکثریت کسی سے ناراض ہے وہ صدر زرداری، وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ اور صوبائی وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا ہیں۔

سب مسلمانوں کو چاہيئے کہ استغفار اور آيت کريمہ کا باری باری جتنا ہو سکے ورد کريں
اَستَغفُـرُ اللہ الْعَظِيْم وآتُوبُ اَلَيہ
لَا اِلہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحَنَکَ اِنِّی کُنْتُ مِنَ الْظَآلَمِين

This entry was posted in روز و شب, معاشرہ on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

9 thoughts on “شيطان کے بندے

  1. ابوزرقاوی بلوچ

    امریکہ کے آخری فوجی دستے نے عراق چھوڑ دیا ہے۔

    گزشتہ رات تقریبا ً دو ہزار فوجیوں نے بکتر بند گاڑیوں کے قافلے کی ہمراہی میں عراق کویت سرحد کو پار کر لیا۔

    امریکہ کا منصوبہ ہے کہ اگست کے آخر تک عراق میں فوجی مشن مکمل کیا جائے۔

    تاہم پچاس ہزار کے قریب امریکی فوجی عراق میں متعین رہیں گے۔

    امریکی حکام کا کہنا ہے کہ انہیں کوئی فوجی مقصد حاصل نہیں کرنا ہوگا بلکہ وہ ایک سول مشن سرانجام دیں گے۔

    عراق سے تمام امریکی فوجیوں کا انخلا اگلے سال کے آخر تک مکمل کئے جانے کا منصوبہ ہے۔

    پنٹاگون کے مطابق مارچ 2003 میں عراق میں فوجی مداخلت کے بعد اس ملک میں چار ہزار چار سو سے زیادہ امریکی ہلاک ہو چکے ہیں۔

  2. افتخار اجمل بھوپال Post author

    ابوزرقاوی بلوچ صاحب
    ميرے بلاگ پر آنے کا شکريہ ۔ يہ خبر ميں نے اخبار ميں پڑھ لی تھی ۔ کيا آپ کا خيال ہ کہ امريکا عراق کی دولت پر قبضہ مضبوط کئے بغير چلا جائے گا ؟
    ميں نے آپ ا بلاگ بھی ديکھا ہے مگر تبصر نہيں کر سکا کينکہ مندرج ذيل آپشن نہيں ہے
    Name/URL

  3. کاشف نصیر

    ہاں میں آج صبح ہی حامد میر کا یہ مضون پڑھا۔ میرے خیال سے سندھ میں لاقانونیت سرکاری کو زرداری سرکار کی سرپرستی حاصل ہے۔
    آج لبرل انتہاپسندوں کو دیکھنا چاہئے کہ سیلاب کی وجہ سےطالبان اور دوسری جہادی و مذہبی تنظیمیں امدادی کام میں پیش پیش ہیں اور لبرل لوگ غائب ہیں۔

  4. فارغ

    شہر غوث پور پہنچے تو یہاں بھی فوجی افسران کی زبانی ڈاکووؤں کی لوٹ مار کی کہانیاں سنیں
    فوجی افسران کا یہ حال ہے۔۔جہاں ٹھکائی ہوتی ہے وہاں کچھ نہیں کرتے۔ ڈاکووں سے بھی نہیں نبٹ سکتے اور نعرے لگا تے ھہں انڈیا سے جنگ جیتنے کے ۔۔ :-?

  5. افتخار اجمل بھوپال Post author

    کاشف نصير صاحب
    پونے پانچ سال قبل زلزلہ مں جس ادارے نے سب سے زيادہ اور محنت سے کام کيا وہ جماعت الدعوہ ہے ۔ باقی بھی زيادہ تر وہی تھے جنہيں انتہاء پسند کہا جاتا ہے

  6. افتخار اجمل بھوپال Post author

    فارغ صاحب
    بچارے فوجی کيا کيں انہيں جو حُکم ملتا ہے جا لاتے ہيں ۔ جس ملک کا صدر سب سےبڑا لُٹيرا ہو وہاں کسی نے کيا اچھا کام کرنا ہے

  7. یاسر خوامخواہ جاپانی

    جاپان میں بھی ایک لاکھ امریکی بحری و بری فوج موجود ھے۔ لیکن بس ایویں ہی بیٹھی ہوئی ھے۔
    ان کا فوجی مقصد حاصل کرنا نہیں ھے بلکہ وہ سول مشن سرانجام دے رہیں ہے۔
    سول مشن کیسا؟ ہمیں تو معصوم بچیوں سے زبردستی جنسی زیادتی کرنے کے علاوہ تو کچھ نظر نہیں آیا۔یا پھرٹریفک ایکسیڈنٹ کر کے بھاگ جانا یا ڈکیتی وغیرہ۔
    ان سب جرائم کو میڈیا میں نہ آنے دینا بھی ایک سول مشن ھے۔
    فوج ایک دوسرے ملک میں بیٹھی ہو اور صرف سول مشن کیلئے تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    عراقیوں کو اب جشن آزادی منانا چاھئے۔

  8. وھاج الدین احمد

    بہت افسوس کے ساتھ کہ رہا ہوں کہ مجھے پہلے ہی معلوم تھا ایسا ہوگا لیکن لٹیرے اس طرح دندناتے پھریں گے یہ نہیں سوچ سکتا تھا
    مجھے یاد ہے جب 48 یا 50 میں جب پنجاب میں سیلاب آنے شروع ہوئے تو لوگ لوٹ مار شروع ہو جاتی تھی
    انسان کتنے بے حس ہو جاتے ہیں مسلمانون پہ اسلام کی تعلیم کوئ اثر نہں دکھاتی افسوس صد افسوس استغفار ہی کرنا چاھیئے

  9. افتخار اجمل بھوپال Post author

    ياسر صاحب
    آپ نے درست سمجھا امريکی فوجيوں کو ۔ بغداد ميں انہوں نے عراقی عوتو کے ساتھ انہاء کا ظةلم کيا اور اپنی فوجی ساتھيوں کو بھی نيں چھوڑا ۔ پھر اپنی فوجيوں کے سلسلے ميں قانون بنايا گيا کہ بچہ پيدا نہيں ہونا چاہيئے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.