اندوہناک واقعہ ۔ سوالات کے جواب

عنيقہ ناز صاحبہ نے سيالکوٹ ميں دو لڑکوں کو تشدّد سے ہلاک کرنے کے واقعہ سے متعلق سوال پوچھے ہيں ۔ ميں نے متعلقہ وڈيو نہيں ديکھی اور نہ ہی ايسی چيزوں کو ديکھنے کا حوصلہ رکھتا ہوں ۔ گو ماضی کا تجربہ بتاتا ہے کہ عنيقہ ناز صاحبہ کو ميری تحرير ميں وہ عنصر مل جاتا ہے جو ميرے وہم گمان ميں نہيں ہوتا اور پھر اُسی پر طويل تحرير آ جاتی ہے ۔ چونکہ سوال پوچھے جانے کے قابل ہيں اسلئے ميں اپنے تجربہ اور اپنے عِلم کے مطابق ان کے مختصر جوابات دينے کی کوشش کروں گا ۔ اللہ سُبحانُهُ و تعالٰی ميری مدد فرمائے

سوال ۔ کیا ایسے واقعات کی روک تھام ہونی چاہیئے یا مذمّت کرنے کے بعد چھوڑ دینا چاہیئے؟
جواب ۔ حديث کے مطابق مذمت کرنا ايمان کی کمزور ترين شکل ہے مگر اس کا يہ ہرگز مطلب نہيں کہ برائی کو روکا نہ جائے بلکہ مقصد يہ ہے کہ اگر کسی مسلمان ميں برائی کو روکنے کی کسی قسم کی کوئی طاقت نہيں ہے تو کم از کم مذمت کرے ۔ ليکن اوّل حُکم برائی کو سختی سے روکنے کا ہے جس کا يہ مطلب نہيں کہ برائی کرنے والے کی پٹائی شروع کر دی جائے ۔ چار دہائياں قبل تک لوگ بِيچ ميں آکے لڑائی ختم کرا ديتے تھے اور ايسا کرتے ہوئے خود بھی تشدد کا نشانہ بنتے مگر ہمت نہ ہارتے ۔ اب ہم لوگ ڈرامے کرنے اور ڈرامے ديکھنے کے عادی ہو گئے ہيں

سوال ۔ کيا بد دعائيں لوگوں کو ان کے انجام تک پہنچا دیں گی ؟ کیا ان واقعات کا سدِ باب بد دعاؤں سے کیا جا سکتا ہے ؟ کیا بد دعا دینے والے اپنی کم ہمتی کو ظاہر نہیں کرتے ؟
جواب ۔ بد دعا دينا بُزدِلی کی نشانی ہے ۔ ميرے يقين کے مطابق کسی کو بد دعا دينے سے اپنے اچھے اعمال ناقص ہو جاتے ہيں ۔ برائی کرنے والے کو دعا دينا چاہيئے کہ اللہ اس پر رحم کرے اور اسے برائی سے بچائے
موقع لطيفے کا نہيں ہے اسلئے معذرت ۔ دوسری جنگ عظيم ميں ہندوستان کے لوگوں کو بھی قابض انگريز حکومت نے فوج ميں بھرتی کر کے محاذ جنگ پر بھيج ديا ۔ کہا جاتا ہے کہ ايک جوان جو محاذ پر گيا تھا اُس کی ماں دعا کرتی تھی ” اللہ کرے جرمن کی توپوں ميں کيڑے پڑيں”۔

سوال ۔ کیا یہ واقعات محض معاشرے میں موجود کچھ لوگوں کی پُرتشَدّد فِطرت کی وجہ سے ظہور پذیر ہوتے ہیں یا ہم مِن حَیثُ القَوم ایک اخلاقی تنَزّلی کا شکار ہیں ؟ ہماری اس اخلاقی تنَزّلی کا باعث مذہب سے ہماری دوری یا تعلیم کی کمی یا ہماری ایک مہذب قوم کے طور پہ تربیت نہ ہونا ہے ؟
جواب ۔ يہ واقعات اس معاشرہ ميں ظہور پذير ہوتے ہيں جس کے اکثر ارکان انتہائی خود غرض ہو جانے کے بعد اخلاقيات کو چھٹی دے ديتے ہيں ۔
کوئی دين يا مذہب اس کی اجازت نہيں ديتا ۔ رياستی سطح پر اسرائيل اس کی مثال ہے کہ اُن کا عقيدہ ہے “اپنے لئے دوسروں پر ہر ظلم کارِ ثواب ہے”۔ يہی عقيدہ رياستہائے متحدہ امريکا ۔ برطانيہ اور کچھ يورپی رياستوں کا رہا ہے ۔ گوروں نے امريکا ۔ آسٹريليا ۔ اور افريقہ اور ايشيا کے کچھ حصوں کو اپنی ملکيت بنانے کيلئے کيا کچھ ظلم نہيں کيا ۔ ہندو برہمن ميں بھی يہ خيال کسی حد تک پايا جاتا ہے يہاں تک کہ وہ ہندوؤں کے ساتھ بھی ظلم کرتا ہے جہنيں وہ اپنے سے کم تر سمجھتا ہے
دين اسلام يا کوئی دوسرا مذہب اس کی اجازت نہيں ديتا اسلئے اس کی وجہ دين سے دوری بھی ہے ۔ مثال کے طور پر ديکھ ليجئے کہ اسرائيل جو ظلم فلسطين ميں کر رہا ہے بہت سے يہودی ربی (مذہبی پيشوا) اس کے خلاف ہيں ۔ کئی تو کہتے ہيں کہ اسرائيل کی رياست بنانا ہی اللہ کے حکم کی خلاف ورزی ہے

سوال ۔ ہماری مذہب سے ظاہراً گہری وابستگی بھی ہمیں کیوں تشدد سے دور نہیں رکھ پاتی؟
جواب ۔ کونسی وابستگی ؟ گہری وابستگی کہنا تو بہت دور کی بات ہے ۔ بظاہر ہماری قوم ميں مسلمان نام رکھنے والے سب کے سب
کیسے مسلمان ہيں ؟ آدھا جسم ننگا کر کے شہوانی ناچ ناچنے والی بھی کہتی ہے ”اللہ نے مجھے کاميابی دی“۔
ہماری اکثريت زندہ لوگوں کی پيروی کرنے کی بجائے مر جانے والوں کی قبروں سے اميديں وابستہ رکھتی ہے ۔ پانچ وقت کی نماز نہ پڑھنے والے ايک حج کر کےسمجھ ليتے ہيں کہ سارے گناہ دھل گئے پھر بطور سند اپنے نام کے ساتھ حاجی اور الحاج لکھنا شروع کر ديتے ہيں مگر مسجد جانے کيلئے ان کے پاس وقت نہيں ہوتا
نماز روزے کی کوئی پابندی نہيں مگر گيارہويں شريف کا ختم دلانے کی پابندی کرتے ہيں
لمبی داڑھی ماتھے پر محراب اور رشوت دے کر کام کرواتے ہيں ۔ اعتراض کيا جائے تو جواب ملتا ہے ” کيا کريں جی ۔ رشوت ديئے کے بغير کام نہيں ہوتا”۔ يہ نہيں کہتے کہ اللہ پر بھروسہ نہيں پيسے پر بھروسہ ہے ؟

سوال ۔ کچھ لوگوں کے خیال میں مذہب سے دوری ان واقعات کا باعث ہے ۔ تو وہ ممالک جو بالکل سَیکُولَر ہیں وہاں ایسے واقعات کیوں اس تسلسل سے پیش نہیں آتے ؟
جواب ۔ يہ سوال ہر وہ شخص پوچھتا ہے جو مذہب کی پابندی ميں نہيں آنا چاہتا ۔ حقيقت تو يہی ہے کہ ايسے واقعات کا ظہور پذير ہونا مذہب سے دوری کا نتيجہ ہے ۔ ”وہ ممالک جو بالکل سَیکُولَر ہیں وہاں ایسے واقعات کیوں اس تسلسل سے پیش نہیں آتے؟“ کہنا ان علاقوں کے حالات کا علم نہ ہونا ہے ۔ ميں صرف ايک مشہور زمانہ بہت بڑے واقعہ کی طرف اشارہ کروں گا ۔ امريکا ميں ايک بار 40 منٹ کيلئے بجلی بند ہو گئی تھی ۔ اس دوران کتنے گھر اور کتنے لوگ لوٹے گئے کتنی عورتوں کی عزت لوٹی گئی مزيد کيا کچھ ہوا اسے لکھنے کيلئے نہ يہاں جگہ ہے نہ ميرے پاس وقت ۔ اسی سے اندازہ لگايا جا سکتا ہے کہ وہاں کے لوگوں کا مزاج کيسا ہے ؟ اور وہاں کيا کچھ نہيں ہوتا ہو گا
صرف ملک کے اندر ہی نہيں غير ممالک ميں جا کر ميرے اکثر ہموطن اپنی قوم کو رگيدنا اپنا فرضِ اَوّلِيں سمجھتے ہيں ۔ ہماری بدقسمتی يہ ہے کہ ہمارے ملک کے بادشاہ جنرل پرويز مشرف نے ساری دنيا کے سامنے کہا تھا ” ہمارے ملک کی عورتيں کينيڈا کا ويزہ لينے کيلئے اپنے آپ کو ريپ کروا لتی ہيں”۔

اب آتے ہيں وجہ پر ۔ دوسرے ممالک ميں قانون ہے اور اس کی پاسداری بھی ہے ۔ ہمارے ملک ميں قانون صرف غلط استعمال کيلئے ہے

سوال ۔ جب ہم اس چیز پہ یقین رکھتے ہیں کہ ہمارے ایسے افعال ہمارے اُوپر عذاب کا باعث بنتے ہیں تو پھر بھی ہم کیوں ان کو کرنے میں ذرا تامل نہیں کرتے؟
جواب ۔ کتنے لوگ ہيں جو يہ يقين رکھتے ہيں ہمارے بُرے افعال ہمارے اُوپر عذاب کا باعث بنتے ہیں ؟ ايسا کہنے والوں کی اکثريت بھی اپنے عمل پر غور نہيں کرتی مگر ایسے لوگ ہيں جو ايسے واقعات ديکھ اپنے اعمال کو مزيد درست کرتے ہيں
اسے صرف ايک سيالکوٹ کے واقعہ کے پس منظر ميں نہيں ديکھنا چاہيئے ۔ ٹارگٹ کلنگ ۔ عام قتل ۔ ڈاکے ۔ چوری ۔ زنا ۔ جھوٹا مقدمہ قائم کرنا ۔ کسی بہن بھائی کے حق کی جائيداد پر قبضہ کرنا ۔ رشوت کھانا ۔ سود کھانا ۔ سب کچھ پورے ملک ميں ہو رہا ہے ۔ اللہ کے احکامات کی کھُلم کھُلا خلاف وَرزی کر کے عذاب کو دعوت تو ديتے ہيں ۔ آئے نہ آئے وہ اللہ کی مرضی ہے ۔ اللہ رحمٰن رحيم کريم ہے جبار و قہار بھی اور بے نياز بھی ۔ اگر ہمارے ہر گناہ کی سزا ہميں دينے لگے تو آج شايد ميں بھی يہ تحرير لکھنے کے قابل نہ ہوتا ۔ سچ يہ ہے کہ ميں اللہ کی عطا کردہ توفيق سے ہی لکھ رہا ہوں

سوال ۔ کیا کچھ لوگ موقع سے فائدہ اٹھا کر اپنی بالا دستی کے جَذبے کو کمزوروں پہ ظلم کر کے تسکین دیتے ہیں اس لئے یہ واقعات ہو پاتے ہیں ؟ کیا تشدد پسند فطرت فیوڈل نظام کی دین ہے ؟
جواب ۔ موقع سے فائدہ بھی اٹھايا جاتا ہے ۔ پرانی دشمنی اور قدورتوں کا حساب بھی چکايا جاتا ہے
معاشرہ کا يہ حال انتہائی خود غرضی اور اذيت پسندی کا نتيجہ ہے ۔ فیوڈل نظام بھی اسی طرز عمل کی دين ہے

سوال ۔ کیا ایسا اجتماعی بہیمانہ تشدد، معاشرتی نا انصافیوں کا حصہ ہے ؟ تو پھر ہم اسے اپنے اوپر ظلم کرنے والے طاقتور طبقے کے خلاف کیوں استعمال نہیں کرتے ؟
جواب ۔ کچھ واقعات نا انصافيوں کا نتيجہ ميں حواس کھو بيٹھنے سے ہوتے ہيں مگر اکثر نہيں ۔ ورنہ اپنے غصہ کو ظالم کے خلاف استعمال کيا جاتا

سوال ۔ کیا تشدد انسانی فطرت ہے ؟ اگر ایسا ہے تو کیا اسے سدھار کر کسی مثبت جذبے میں تبدیل کیا جا سکتا ہے؟
جواب ۔ تشدد درندگی ہے ۔ انسانی فطرت نہيں

This entry was posted in روز و شب, معاشرہ on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

14 thoughts on “اندوہناک واقعہ ۔ سوالات کے جواب

  1. میرا پاکستان

    ان سوالات کے جوابات تو عنیقہ ناز صاحبہ کو بھی معلوم ہوں گے مگر پتہ نہیں انہوں نے جانتے بوجھتے ہوئے پھر بھی کیوں‌پوچھے۔
    یہ کیوں ہے کہ ہم ہر برائی کو اسلام کی کمزوری سے جوڑ دیتے ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ جو شخص برائی کر رہا ہے وہ واقعی مسلمان کی شرائط پوری کرتا ہے کہ نہیں۔

  2. یاسر خوامخواہ جاپانی

    احمد عرفان شفقت سے متفق ہوں۔
    لیکن میرے خیال میں عنیقہ جی نے اگر سوالات اٹھائے ہیں تو کوئی منفی پہلو نہیں ہو گا۔
    اچھا مباحثہ ہے۔اگر تبصروں میں بات کہیں اور نہ نکل جائے تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    مجھے تو سیکولر معاشرے کو اچھا ہونے یا نہ ہونے کی پوسٹ محسوس ہوئی۔
    معلوماتی بحث ہوگی اگر سب مثبت سوچ سے حصہ لیں۔

  3. فیصل

    میں‌نے عنیقہ صاحبہ کے بلاگ پر کمنٹ‌کیا ہے۔ کم و بیش وہی بات ہے جو آپ نے تفصیل سے بیان کی ہے۔

  4. محمودالحق

    آپ نے درست انداز میں جوابات کے زریعے معاشرہ کی عکاسی کی ہے ۔ واقعات تو بہت زیادہ ہیں مگر اس وقت خاص طور پر دو کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔ کافی سال پہلے لاہور میں پپو نامی غنڈے نے انگلینڈ سے آئے معصوم بچے کو قتل کیا تو اسے سرعام پھانسی دی گئی ۔ دوسرا واقعہ میں مغلپورہ میں ایک تاجر کے ایسے ہی دو کم عمر بیٹوں کو پولیس نے تھانہ کی حوالات میں بند کر دیا ۔ تو باپ کے مخالفین غنڈوں نے تھانہ کی حالات کے اندر انہیں قتل کر دیا ۔ اور فرار ہو گئے ۔ چند روز جلوس نکلے اخبارات میں انصاف کی دہائی دی گئی ۔ پھر خاموشی چھا گئی ۔ اس کیس کا کیا بنا میں نہیں جانتا ۔ کیونکہ اخبارات میں تازہ خبریں ہی صفحہ اول پر رہتی ہیں ۔ پیش رفت کے بارے میں تو اندر کے صفحات میں جگہ پاتی ہیں ۔ جنہیں میں کم ہی پڑھتا ہوں ۔ اب اس کا فیصلہ کیا ہوتا ہے ۔ سبھی کو انتظار ہے ۔ مگر ضروری یہ ہے کہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے کیا سدباب کیا جاتاہے ۔ بنیادی مسئلہ انصاف کے تقاضے پورے کرنا ہے ۔ اور قانون کی بالادستی کا قیام بہت ضروری ہے ۔ تاکہ لوگوں بشمول حکمرانوں کو اگر خوف خدا نہ بھی ہو کم از کم قانون کا ڈر تو ہو ۔ جس کی سزا سے وہ بچ نہ سکیں ۔

  5. سیفی

    “””بد دعا دينا بزدلی کی نشانی ہے ۔ ميرے يقين کے مطابق کسی کو بد دعا دينے سے اپنے اچھے اعمال ناقص ہو جاتے ہيں ۔ برائی کرنے والے کو دعا دينا چاہيئے کہ اللہ اس پر رحم کرے اور اسے برائی سے بچائے””””

    اس ایک بات سے اختلاف کروں گا۔ بددعا اصل میں مظلوم کا اللہ کے دربار میں استغاثہ ہوتا ہے۔ وہ کائنات کی سب سے بڑی عدالت میں دہائی دے رہا ہوتا ہے کہ باری تعالیٰ اس ظلم کا بدلہ توُ ظالم سے لے۔

    انبیاء کرام نے ظالم کفار کے لئے بددعا کی۔ حضرت نوح علیہ السلام کی کفار کے لئے بددعا کو قرآن نے نقل کیا ہے سورہ نوح کے اندر۔ نیز ہمارے پیارے نبی علیہ السلام ، جو رحمتہ للعالمین تھے انھوں نے بیرمعونہ کے واقعہ کے بعد (شاید( چالیس روز تک کفار کے حق میں بددعا فرمائی ( یاد رہے کہ نبی علیہ السلام نے اپنا ذاتی انتقام کبھی نہ لیا اور طائف کے ظلم پر بھی بددعا کی جگہ دعا دی مگر بیر معونہ کے معصوم حفاظ کی شہادت پر آپ نے (شاید(چالیس روز تک قنوت نازلہ پڑھی۔

  6. محمد طارق راحیل

    دعا کے ساتھ دوا بھی ضروری ہے
    ہمیں یعنی عوام کو با شعور ہونا ہوگا
    جو لوگ شعور رہکھتے ہیں انہیں دوسروں کو اس کا علم دینا ہوگا

    اور شعور علم سے تعلق رکھتا ہے
    عوام کو تعلیم دی جائے
    اخبار پڑھنے والے کو تعلیم یافتہ نہ سمجھا جائے

    دنیا کے ساتھ دینی تعلیم کا بھی بندوبست کیا جائے

    تعلیمی نصاب یکساں ہو امیری غریبی کا نصاب فرق جدا نہ ہو

    یہ وہی دقیانوسی باتیں ہیں

    جو عرصہ دراز سے ہوتی آرہی ہین
    پر یہی واحد حل ہے

    کاش کہ ہم سمجھ سکییں۔۔۔ :roll:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.