Monthly Archives: July 2010

اہم معاشرتی اصول

يہ مردانہ باتيں ہيں خواتين نہ پڑھيں تو بہتر ہے

ملازمت کے صرف 2 اصول ہيں

1 ۔ باس [boss] کی بات درست ہوتی ہے
2 ۔ باس کی بات درست نہ ہونے کی صورت ميں ۔ پہلا اصول نافذ العمل ہو گا

ازدواجی زندگی کے صرف 2 اصول ہيں

1 ۔ بيوی کی بات ہميشہ درست ہوتی ہے
2 ۔ مياں بيوی کو آپس ميں مشورہ سے چلنا چاہيئے يعنی خاوند بات يا کام کرنے سے پہلے بيوی سے اجازت لے اور بيوی بات يا کام کرنے کے بعد اگر چاہے تو خاوند کو بتا دے

میرا دوسرا بلاگ ” حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter
” پچھلے ساڑھے پانچ سال سے معاشرے کے کچھ بھیانک پہلوؤں پر تحاریر سے بھر پور چلا آ رہا ہے ۔ اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے

جموں کشمير لہو لہان

جموں و کشمیر کے شمالی قصبہ سوپورمیں9سالہ بچے سمیت5معصوم نوجوانوںکی ہلاکتوں کے بعد بھارت کے بے لگام فورسز نے منگل کو جنوبی کشمیر کے اسلام آباد قصبے میں2 طالب علموں سمیت 3نوجوانوں کو جاں بحق اور3کو شدید طور پر زخمی کر دیا.ان تازہ واقعات کے بعد تشدد کی خوفناک لہر نے شمالی کشمیر کے بعد اب جنوبی کشمیر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے

تفصيلات پڑھنے کيلئے يہاں کلک کيجئے

کچھ اور جبريں

ميں نے پہلی بار جبريں يکم جولائی 2010ء کو لکھی تھيں ۔ آج 2 تازہ جبريں ہيں
“زنانہ قبضہ گروپ” اور “پاکستان اول نمبر پر”

زنانہ قبضہ گروپ
کراچی سے جاوید نامی ایک صاحب نے 1990ء میں اسلام آباد دامن کوہ کے قریب موضع تلہاڑ میں 22.5 کنال زمين خریدی ۔ اس میں 5کمرے بنوائے اور کنواں بھی کھدوایا ۔ وہ ہر سال گرمیوں میں ایک دوماہ قیام بھی کرتے رہے
گزشتہ آٹھ نو ماہ سے ان کی زمین پر ملتان سے پیپلز پارٹی کی رُکن قومی اسمبلی نے قبضہ کر کے وہاں اپنی بیٹی کے نام کا بورڈ لگا دیا ہے
اسلام آباد پولیس نے بتایا کہ وفاقی وزیر داخلہ نے اس کو منہ بولی بہن بنایا ہوا ہے بھلا پولیس کی مجال کہ کوئی کارروائی کرے
جاويد صاحب نے محکمہ مال کے پٹواری گرداور اور تحصیل دار سے داد رسی کی درخواست کی تو انہوں نے کہا کہ ملتان میں وہ ایم این اے اور یوسف رضا گیلانی ایک ہی گلی میں رہتے ہیں ۔ گیلانی صاحب جب ملتان میں ہوتے ہیں تو دوپہر کا کھانا اکثر اس خاتون کے گھر کھاتے ہیں ۔ ایوان صدر بھی اس کی پشت پر ہے
اسلام آباد کے قصبے سیدپور میں مقیم بعض ایسے لوگوں کو کوہسار پولیس نے 15 دن تک اپنی حراست میں رکھا کہ ان کا کسی نہ کسی طور پر کراچی میں جاوید صاحب سے رابطہ رہتا تھا۔ ان لوگوں میں ایک طالب علم نے بتایا کہ ” ہم لوگ اپنے گھروں میں بھی محفوظ نہیں ہیں ہمیں دھمکیاں دی جاتی ہیں”
جاوید صاحب نے مزید بتایا کہ ان کی زمین اور گھر پر چند ملیشیاء کے لباس میں ملبوس گن مین کھڑے کر دیئے گئے ہیں اور اسلام آباد انتظامیہ دباؤ ڈال رہی ہے کہ وہ ساری زمین اس خاتون کے نام منتقل کر ديں ورنہ عبرت ناک انجام کے لئے تیار ہو جائيں

پاکستان اول نمبر پر
آبادی کے اعتبار سے دنیا کے سب سے بڑے ملک چین کے وزیر ۔ 14
بھارت جس کی آبادی پاکستان کی آبادی کا 5 گنا ہے کے وزير ۔ 32
برطانیہ کے وزير ۔ 12
امریکا جو سپر پاور ہے کے وزیر ۔ 14

چین بھارت برطانیہ اور امریکا چاروں ملکوں کو ملا کے کُل وزير ۔ 72

پاکستان کے وزیر اور وزرائے مملکت ۔ 96
ان 96 ميں مشیر ۔ ايڈوئزر۔ پارلیمانی سیکرٹری اور قائمہ کمیٹیوں کے سربراہ شامل نہيں جنہیں وزراء جیسی سہولیات میسر ہیں

وزراء کو دی جانے والی مراعات میں بھی پاکستان نے اپنی انفرادیت برقرار رکھی ہوئی ہے
کشکول لے کر ملکوں ملکوں فرینڈز آف پاکستان کی تلاش کرنے میں بھی پاکستان کا ثانی کوئی نہیں ہے
دیوالیہ پن کے قریب پہنچے ہوئے ملکوں میں بھی پاکستان پہلی صف میں کھڑا دکھائی دے رہا ہے 
ناکام ریاست کا اعزاز کتنی بار ملتے ملتے رہ گیا ہے
جعلی ڈگری ہولڈرز ۔ جعلی ادویات سازی ۔ جعلی پولیس مقابلے

کونسا ایسا شعبہ ہے جس میں پاکستان پیش پیش نہیں ہے ؟
پھر کہتے ہيں کہ پاکستان نے ترقی نہيں کی

SJK کون ہيں ؟؟؟ اور مدد کی ضرورت

جب مجھے اپنے بلاگ پر کوئی پرانی تحرير تلاش کرنا ہوتی تھی تو اس کا عنوان گوگل ميں لکھ کر تلاش کرتا تو اس کا ربط مل جاتا تھا ۔ کچھ دن قبل مجھے ضرورت پڑی تو ميں نے اسی طرح تلاش کرنے کی کوشش کی مگر نہيں ملا ۔ پھر ميں نے بلاگ کا عنوان ” ميں کيا ہوں” لکھ کر تلاش کيا تو بھی کچھ نہ ملا ۔ آج ميں نے اپنا نام اُردو ميں لکھ کر تلاش کيا تو کچھ پوسٹس ظاہر ہوئيں

ميں اس وقت حيران ہوا جب ميرے نام کے ساتھ اُردو مجلس کا نام بھی آيا جبکہ عرصہ ہوا احتجاج کے طور پر ميں نے اُردو محفل چھوڑ کر اپنی ساری تحارير مٹا دی تھيں ۔ اس ربط کو کھولا تو SJK صاحب نے ميرے بلاگ سے وہاں کافی ساری تحارير ميرے نام سے نقل کی ہوئی تھیں ۔ يہ ميرے مہربان کون ہيں ؟

مدد چاہيئے
کوئی صاحب اس سلسلہ ميں ميری مدد فرمائيں کہ کيا ہوا ہے جس کی وجہ سے ميرا بلاگ گوگل سرچ سے باہر ہو گيا ہے اور يہ کہ ميں کيا کروں کہ مجھے پہلے کی طرح بلاگ پر اپنی تحارير کے ربط گوگل سرچ پر مل جايا کريں ؟

کشمير ميں موت کا سفّاکانہ رقص جاری

جموں و کشمیر کے شمالی قصبہ سوپور میں فورسز کے ہاتھوں معصوم نوجوانوں کی پے در پے ہلاکتوں کے خلاف تشدد اور زور دار احتجاجی مظاہروں کی تازہ لہر کے بیچ سوموار سی آر پی ایف نے سوپور کی طرف مارچ کررہے دو جلوسوں پر اندھادھند فائرنگ کرکے 9 سالہ کمسن بچے اور ایک 17 سالہ نوجوان کو موت کی ابدی نیند سلا دیا

تفصيلات پڑھنے کيلئے يہاں کلک کيجئے

سکھوں کی باتيں

محمد رياض شاہد صاحب نے سوہنا پاکستان کے عنوان کے تحت سکھوں کے متعلق لکھا تھا ۔ اُن کی تحرير پڑھتے پڑھتے مجھے کچھ پرانے واقعات ياد آئے ۔ ميں نے وعدہ کيا تھا لکھنے کا ۔ الحمدللہ آج وعدہ پورا ہونے جا رہا ہے

آدھی صدی قبل جب ميں انجنيئرنگ کالج لاہور ميں زيرِ تعليم تھا ميں لاہور سے راولپنڈی روانہ ہونے کے کيلئے گورنمنٹ ٹرانسپورٹ کے اڈا پر پہنچا جو اُن دنوں ريلوے سٹيشن کے سامنے ہوتا تھا ۔ ميں نے پہلے سے نشست محفوظ کروائی ہوئی تھی مگر وہاں پہنچ کر مجھے کہا گيا “ذرا رُک جائيں”۔ بس چلنے کا وقت ہو گيا ۔ ميں نے دبے الفاظ ميں احتجاج کيا ۔ بس کے اندر سے آواز آئی “کيا بات ہے ؟” کنڈکٹر نے کہا ايک سواری ہے جس نے پہلے سے ٹکٹ ليا ہوا ہے”۔ پھر آواز آئی “کون ہے ؟” مجھے کنڈکٹر نے سامنے کيا ۔ ميں نے ديکھا کہ پوری بس سکھ عورتوں اور مردوں سے بھری ہے ۔ ايک بزرگ سکھ نے اپنے سے بڑے بزرگ سکھ سے کہا “کوئی گل نئيں جے اک سفر وچ تريمت نال وچھوڑا ہوے”۔ وہ صاحب اپنی بيوی کے ساتھ بيٹھے تھے ۔ مطلب تھا کہ اپنی بيوی کو پيچھے عورتوں ميں بھيج ديں مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئے پھر کسی اور بزرگ نے اُن کی محبت پر جملہ کسا مگر کوئی اثر نہ ہوا ۔ چند منٹ چہ مے گوئياں ہوئيں پھر ايک عورت نے کہا “کوئی گل نيئں اپنا وير اے “۔ پھر اپنے ساتھ والی عورت کو پيچھے بھيجتے ہوئے کہا ” آ وير ايتھے بہہ جا ۔ ساری واٹ کھلا تے نئيں رہنا”۔ ميں خاموش کھڑا رہا ۔ پھر بس ميں کافی ہلچل ہوئی ۔ ايک جوان نے اُٹھ کر کسی کو اِدھر سے اُدھر کسی کو اُدھر سے اِدھر کيا سوائے اُس بزرگ ترين جوڑے کے سب عورتوں کو اکٹھا کر کے آگے ايک نشست ايک مرد کے ساتھ خالی کرا دی جہاں ميں بيٹھ گيا ۔ وہ سفر بڑا ہی اچھا کٹا سارا راستہ لطيفے سنتے وقت کا پتہ ہی نہ چلا ۔ اُس زمانہ ميں لاہور سے اسلام آباد بس 7 گھنٹے ميں پہنچتی تھی

ميں پاکستان آرڈننس فيکٹری ميں اسسٹنٹ ورکس منيجر تھا اور واہ چھاؤنی ميں اپنی بہن بہنوئی کے ساتھ رہتا تھا ۔ 1964ء ميں سکھ ياتری پنجہ صاحب حسن ابدال آئے ۔ حسن ابدال کے ايک تاجر جو کسی زمانہ ميرے والد صاحب کے ملازم تھے سے رابطہ کيا کہ ہميں اس دوران پنجہ صاحب کی زيارت کا موقع مل جائے اُس نے ہم تينوں کيلئے اجازت نامہ حاصل کر ليا ۔ ہم پوليس کے ڈی ايس پی کی مدد سے پنجہ صاحب ميں داخل ہوئے تو اندر بہت اچھا گھريلو ماحول اور ميلے کا سا سماں پايا ۔ اندر داخل ہوتے ہی ہمارا تعارف سکھوں کے سربراہ سے کرايا گيا ۔ ميرے بہنوئی نے بتايا کہ ياتريوں کی موجودگی ميں آنے کا مقصد ان کے رسم و رواج سے واقف ہونا تھا ۔ اُس نے پہلے وہاں قريب موجود ايک خاندان سے ہمارا تعارف کرايا اور پھر ان سے کہا “کون جوان ان مہمانوں کو اچھی طرح سب کچھ دکھائے گا ؟” اُن ميں سے ايک راضی ہو گيا اور ہميں پوری قلعہ نما عمارت کے اندر پھرايا اور تمام سرگرميوں کی تفصيل بھی بتائی۔ آخر ميں ہمارے ساتھ اپنے پورے خاندان کی تصوير کچھوائی

ميں سرکاری کام سے 1966ء اور 1967ء ميں ڈوسل ڈورف جرمنی ميں تھا ۔ ميرے ساتھ ہمارے ادارے کے 3 اور انجنيئر بھی تھے ۔ ايک شام ميں اور ايک ساتھی انجيئر ڈوسل ڈارف کے مصروف علاقہ ميں جا رہے تھے کہ تين سکھ آتے ہوئے دکھائی ديئے ۔ ميرا ساتھی سُست رفتار تھا اور پيچھے رہ گيا تھا دوسرے ميں نے جرمنوں کی طرح کپڑے پہنے ہوئے تھے جبکہ ميرے ساتھی نے انگريزی سوٹ اور ٹائی پہن رکھی تھی اور رنگ بھی سانولا تھا ۔ سکھوں نے ميرے ساتھی کو روک کر پوچھا کہ کہاں سے آئے ہو ۔ اس نے پاکستان بتايا تو کہنے لگے کونسے شہر سے ؟ اس نے راولپنڈی بتايا تو اُنہوں نے اُسے گلے لگا ليا اور بولے “فير تے تُسی اپنے بھرا ہوئے”۔ بڑے خوش اُس سے پھر ملنے کا وعدہ لے کر چلے گئے ۔ وہ لوگ راولپنڈی سے 1947ء ميں جالندھر جا چکے تھے

سکھ اور ہندو ميں واضح فرق يہ ہے کہ سکھ ايک رب کو مانتے ہيں ۔ نہ تو بتوں کی پوجا کرتے ہيں اور نہ کسی ديوی ديوتا کو مانتے ہيں ۔ چند گورو ہيں جنہيں وہ اپنا رہبر سمجھتے ہيں ۔ گورو کا مطلب اُستاد يا رہبر ہوتا ہے ۔ اپنے مُردے جلاتے نہيں دفن کرتے ہيں ۔ ہمارے نبی سيّدنا محمد صلی اللہ عليہ و آلہ و سلم کی عزت کرتے ہيں ۔ ميں نے بچپن ميں سکھوں ميں ايک عجيب بات ديکھی کہ اپنے علاقہ ميں رہنے والے يا اپنے سکول ميں پڑھنے والے مسلمانوں کو بھائی کہہ ليں گے مگر ہندو کو نہيں

پاکستان بننے سے پہلے سکول ميں ميری جماعت ميں کُل 16 بچے تھے ۔ جن ميں 10 لڑکے اور 6 لڑکياں ۔ 4 لڑکے اور ايک لڑکی مسلمان ۔ ايک لڑکا سکھ ۔ 5 لڑکے ہندو تھے ۔ لڑکيوں ميں ايک سکھ ۔ ايک عيسائی اور 3 ہندو ۔ سکھ لڑکی کی مسلمان لڑکی کے ساتھ دوستی تھی اور سکھ لڑکے کی ہم 4 مسلمان لڑکوں کے ساتھ ۔ سکھ لڑکا صاف کہا کرتا تھا “يہ مٹی کے بتوں کو پوجنے والے کسی کے دوست نہيں”

سکھوں کو برہمنوں نے بيوقوف بنا کر 1947ء ميں مسلمانوں کا قتلِ عام کروايا تھا اس ڈر سے کہ سکھ اعتقاد کے لحاظ سے مسلمانوں کے قريب ہيں ۔ اگر مسلمانوں کے ساتھ مل گئے تو پورا پنجاب نہيں تو کم از کم امرتسر چندی گڑھ پاکستان ميں چلا جائے گا اور ساتھ جموں کشمير بھی ۔ بعد ميں سکھوں کو سمجھ آ گئی تھی اور اُنہوں نے پاکستان يا مسلمان دُشمنی چھوڑ دی تھی ۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ بينظير بھٹو کے دورِ حکومت ميں سکھ تحريکِ آزادی کے متعلق جو معلومات پاکستان کے خُفيہ والوں کے پاس تھيں وہ بھارت دوستی کی خاطر بھارت کو پہنچا دی گئيں جس کے نتيجہ ميں بھارتی حکومت نے سکھوں کا قتلِ عام کيا اور خالصہ تحريک کا زور ٹوٹ گيا جس کے نتيجہ ميں بھارت نے يکسُو ہو کر پوری قوت کے ساتھ تحريک آزادی جموں کشمير کو کُچلنا شروع کيا

سواری

ميں نے اپنے ملک ميں ايک دن مياں بيوی اور 3 بچوں کو ايک موٹرسائيکل پر جاتے ديکھا تو پہلے پريشان ہوا اور پھر اُن پر ترس آيا کہ بيچارے کيا کريں ۔ مگر مشرقِ بعيد ميں