جموں کشمير لہو لہان

جموں و کشمیر کے شمالی قصبہ سوپورمیں9سالہ بچے سمیت5معصوم نوجوانوںکی ہلاکتوں کے بعد بھارت کے بے لگام فورسز نے منگل کو جنوبی کشمیر کے اسلام آباد قصبے میں2 طالب علموں سمیت 3نوجوانوں کو جاں بحق اور3کو شدید طور پر زخمی کر دیا.ان تازہ واقعات کے بعد تشدد کی خوفناک لہر نے شمالی کشمیر کے بعد اب جنوبی کشمیر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے

تفصيلات پڑھنے کيلئے يہاں کلک کيجئے

This entry was posted in تحريک آزادی جموں کشمير, خبر, روز و شب on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

11 thoughts on “جموں کشمير لہو لہان

  1. Pingback: Tweets that mention What Am I میں کیا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ » Blog Archive » جموں کشمير لہو لہان -- Topsy.com

  2. عدنان مسعود

    اللہ تعالی ان ظالموں کے ظلم و جبر کے خلاف کشمیر کے مظلوم مسلمان بھائیوں اور بہنوں کی مدد فرمائے اور ان کو کفار کے چنگل سے آزادی دے۔آمین۔

  3. پھپھے کٹنی

    اب بس ہونا چائيے اس عکر کو يا تو کشميری آرام سے بيٹھ جائيں يا انڈيا و پاکستان دونوں کشمير کو آذاد کر کے خود بھی سکھ کا سانس ليں

  4. امتیاز

    اسماء بتول صاحبہ سلامت رہو
    کشمیری عوام کا بھی کہنا ہے کہ اب ‘بس’ ہونا چاہئے لیکن آپکی جانکاری کیلئے بتادوں کہ اس ‘بس’ کیلئے کشمیریوں نے بیش بہا قربانیاں دی ہیں ۔بس دعا کریں

  5. افتخار اجمل بھوپال Post author

    اسماء بتول صاحبہ
    کے لوگ پچھلی دو صديوں سے اپنے خون کا نذرانہ پيش کرتے آ رہے ہيں ۔ پچھلے 63ء سال ميں ظُلم انتہاء کو پہنچ چکا ہے ۔ جموں کشمير کو آزاد ديکھنے کی حسرت لئے ميرے دادا جان جون 1955ء ميں رُخصت ہوئے ۔ پھر ميرے والد صاحب جنہوں نے ويزہ لے کر جموں کشمير جانے کی کوشش کی مگر بھارت نے ويزا نہ ديا وہ بھی يہی حسرت لئے جولائی 1991ء ميں رُخصت ہوئے ۔ اب ميں رہ گيا ہوں مگر حسرت و ياس وہيں ہے ۔

  6. شازل

    اوپر والا تبصرہ میں نے کچھ سوچ کرکیا ہے
    کشمیر کی تحریک کو مشرف نے کافی نقصان پہنچایا ہے ورنہ یہی انڈیا جو ہمیں‌آنکھیں دکھلا رہا ہے کبھی بہت زچ تھا

  7. افتخار اجمل بھوپال Post author

    شازل صاحب
    درست ہے کہ کشمير مسئلہ کو سب سے زيادہ نقصان پرويز مشرف نے پہنچايا مگر اس سے پيشتر بينظير بھٹو اور اس سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو نے بھی بہت نقصان پہنچايا

  8. طالوت

    کشمیر یوں سے کوئی کسی اور حوالے سے ہمدردی نہ بھی رکھے تو بھی یہ پاکستان کی بقاء کا سوال ہے ۔ مطلب کی خاطر ہی سہی ، حکمرانوں کو پاکستان پر تو رحم کرنا چاہیے تھا ۔ مگر ہم ان “کُل عقلوں” کی عقلوں کے ایسے شکا ر ہوئے کہ انسانیت کے ناطے تو دور اپنی بقاء کی خاطر بھی ٹک نہ سکے ۔ کشمیر کا طاقتور بیل ہماری چوکھٹ پار کر چکا ہے ، رسی باقی ہے دیکھئے وہ ہمارے نام نہاد لیڈرران کب چھوڑتے ہیں ۔ غیر ت ملی نہ سہی ، غیرت قومی کا مظاہرہ تو کیجیئے ۔
    وسلام

  9. افتخار اجمل بھوپال Post author

    طالوت صاحب
    اگر ہمارے حکمرانوں نے اپنی جيبيں بھرنے کے ساتھ مُکل و قوم کا بھی خيال کيا ہوتا تو آج ہر طرف پانی پانی کا شور نہ ہوتا ۔ پاکستان کے دريا صحتمند بہہ رہے ہوتے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.