Monthly Archives: July 2010

پاکستان کو تباہ کرنے کا منصوبہ

جو کھیل پرويز مشرف کی حکومت نا جانے کس مقصد کے لئے کھیل گئی پاکستان کے صرف ارباب اختیار کو اس کا ذاتی فائدہ اور بھارت کو سیاسی فائدہ ہوا ۔ نہ صرف جموں کشمیر کے لوگ بلکہ پاکستانی عوام بھی خسارے میں ہیں ۔ پرويز مشرف حکومت نے یک طرفہ جنگ بندی اختیار کی جس کے نتیجہ میں بھارت نے پوری جنگ بندی لائین پر جہاں دیوار بنانا آسان تھی وہاں دیوار بنا دی جس جگہ کانٹے دار تاریں بچھائی جاسکتی تھیں وہاں کانٹے دار تاریں بچھا دیں یعنی جو سرحد بین الاقوامی طور پر عارضی تھی اسے مستقل سرحد بنا دیا ۔ سرحدوں سے فارغ ہو کر بھارتی فوجیوں نے آواز اٹھانے والے کشمیری مسلمانوں کا تیزی سے قتل عام شروع کر دیا اور روزانہ دس بارہ افراد شہید کئے جاتے رہے ۔ معصوم خواتین کی عزتیں لوٹی جاتی رہیں اور گھروں کو جلا کر خاکستر کیا گيا ۔ کئی گاؤں کے گاؤں فصلوں سمیت جلا دیئے گئے ۔ بگلیہار ڈیم جس پر کام رُکا پڑا تھا جنگ بندی ہونے کے باعث بڑی تیزی سے مکمل کيا گيا اور تین اور ڈیموں کی بھی تعمیر شروع کر دی جو شايد اب تک مکمل ہو گئے ہوں

ستم بالائے ستم یہ ہے کہ اپنے آپ کو مسلمان اور انسانیت کا علمبردار کہنے والے جموں کشمیر کے ان ستم رسیدہ لوگوں کو دہشت گرد کہتے ہیں ۔ ان نام نہاد روشن خیال اور امن پسند لوگوں سے کوئی پوچھے کہ اگر ان کے بھائی یا جوان بیٹے کو اذیّتیں دے کر مار دیا جائے اور کچھ دن یا کچھ ہفتوں کے بعد اس کی مسخ شدہ لاش ملے يا کچھ سالوں بعد قبر ملے جس پر کتبہ لگا ہو کہ يہ پاکستانی دہشت گرد تھا ۔ اگر ان کی ماں ۔ بہن ۔ بیوی ۔ بیٹی یا بہو کی آبروریزی کی جائے اگر ان کا گھر ۔ کاروبار یا کھیت جلا د ئیے جائیں ۔ تو وہ کتنے زیادہ روشن خیال اور کتنے زیادہ امن پسند ہو جائیں گے ؟

بھارتی ردِ عمل اور حقیقت

کمال یہ ہے کہ پاکستان کی دوستی کی دعوت کے جواب میں بھارت کے وزیر اعظم منموہن سنگھ نے گلگت اور بلتستان پر بھی اپنی ملکیت کا دعوی کر دیا تھا جبکہ گلگت اور بلتستان کبھی بھی بھارت کا حصہ نہیں تھے اور نہ یہاں سے کوئی راستہ بھارت کو جاتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہاں کے لوگوں نے 27 اکتوبر 1947ء کو بھارتی فوج کے زبردستی جموں میں داخل ہونے سے بہت پہلے گلگت اور بلتستان میں اپنی آزادی اور پاکستان سے الحاق کا اعلان کردیا تھا ۔ اس کی تفصیل بعد میں آئے گی

پاکستان کو بنجر کرنے کا منصوبہ

مقبوضہ جموں کشمیر میں متذکّرہ بالا ڈیمز مکمل ہو جانے کے بعد کسی بھی وقت بھارت دریائے چناب کا پورا پانی بھارت کی طرف منتقل کر کے پاکستان کے لئے چناب کو خشک کر سکتا ہےاور دریائے جہلم کا بھی کافی پانی روک سکتا ہے جس کا کچھ نمونہ ميری تحرير کے 5 سال بعد سامنے آ چکا ہے ۔ اس طرح پانی کے بغیر پاکستان کی زمینیں بنجر ہو جائیں گی اور زندہ رہنے کے لئے پاکستان کو بھارت کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑیں گے ۔ چنانچہ بغیر جنگ کے پاکستان بھارت کا غلام بن جائے گا ۔ اللہ نہ کرے کہ ايسا ہو ۔

قحط اور سیلاب

حقیقت یہ ہے کہ بھارت کا مقبوضہ جموں کشمیر میں 7 ڈیم بنانے کا منصوبہ ہے جن میں سے بھارت دریائے جہلم اور چناب پر 3 ڈیم 2005ء تک مکمل کر چکا تھا ۔ 2 دریاؤں پر 7 ڈیم بنانے کے 2 مقاصد ہیں ۔ اول یہ کہ دریاؤں کا سارا پانی نہروں کے ذریعہ بھارتی پنجاب اور دوسرے علاقوں تک لیجایا جائے اور پاکستان کو بوقت ضرورت پانی نہ دے کر قحط کا شکار بنا دیا جائے ۔ دوم جب برف پگلے اور بارشیں زیادہ ہوں تو اس وقت سارا پانی جہلم اور چناب میں چھوڑ دیا جائے تاکہ پاکستان میں تباہ کن سیلاب آئے ۔ ماضی ميں بھارت یہ حرکت دو بار کر چکا ہے ۔ بھارت کا اعلان کہ ڈیم بجلی کی پیداوار کے لئے بنائے جا رہے ہیں سفید جھوٹ اور دھوکا ہے ۔ کیونکہ جموں کشمیر پہاڑی علاقہ ہے ہر جگہ دریاؤں کے راستہ میں بجلی گھر بنائے جا سکتے ہیں اور بڑے ڈیم بنانے کی بالکل بھی ضرورت نہیں

قوم کو بیوقوف بنانے کے لئے پرويز مشرف کی حکومت نے منگلا ڈیم کو 10 میٹر اونچا کرنے کا ملٹی بلین پراجیکٹ شروع کیا جس پر موجودہ حکومت بھی عمل پيرا ہے ۔ چند سال بعد دریائے جہلم میں اتنا بھی پانی ہونے کی توقع نہیں کہ ڈیم کی موجودہ اُونچائی تک جھیل بھر جائے پھر یہ اتنا روپیہ ضائع کرنے کی منطق سمجھ میں نہیں آتی اور نہ اس کا جواز کسی کے پاس ہے

ایک ضمنی بات يہ ہے کہ پہلی پلاننگ کے مطابق منگلا ڈیم کی اونچائی موجودہ اونچائی سے 10 میٹر زیادہ تجویز کی گئی تھی 1962ء میں کا م شروع ہونے سے پہلے ڈیم کی محافظت اور پانی کی مماثل مقدار کی کم توقع کے مدنظر اونچائی 10 میٹر کم کر دی گئی تھی ۔ اس لئے اب اونچائی زیادہ کرنا پہلے سے بھی زیادہ خطرناک ہے ۔ اس سلسلہ میں میں اور کئی دوسرے حضرات جن میں زیادہ تر انجنیئر ہیں 2004ء سے 2006ء تک اخباروں میں خط اور مضامین لکھ چکے ہیں مگر ہماری حکومت کو عقل کی بات سمجھ ميں نہيں آتی

پرويز مشرف حکومت کا فارمولا

پہلے یہ جاننا ضرور ی ہے کہ ہمارے مُلک کا آئین کیا کہتا ہے ۔ آئین کی شق 257 کہتی ہے

Article 257. Provision relating to the State of Jammu and Kashmir
When the people of State Jammu and Kashmir decide to accede to Pakistan, the relationship between Pakistan and the State shall be determined in accordance with the wishes of the people of that State.

ڈائریکٹر پالیسی پلاننگ امریکی دفتر خارجہ ڈاکٹر سٹیفن ڈی کراسز اور آفیسر ڈاکٹر ڈینیل مارکسی 2005ء کی دوسری سہ ماہی ميں اسلام آباد کے دورہ پر آئےتھے ۔ انہوں نے جنرل پرویز مشرّف ۔ وزیر اعظم شوکت عزیز ۔ حریت کانفرنس کے سربراہ عباس انصاری اور آزاد کشمیر اور پاکستان شاخ کے کنوینر سیّد یوسف نسیم وغیرہ سے ملاقاتیں کيں ۔ با خبر ذرائع کے مطابق امریکی حکام یونائیٹڈ سٹیٹس آف کشمیر اور سرحدیں نرم کرنے وغیرہ کے منصوبہ می‍‍ں دلچسپی رکھتے تھے ۔ میر واعظ عمر فاروق کو پاکستان کے دورہ کے درمیان حریت کانفرنس کا سربراہ بنا دیا گیا اور انہوں نے سری نگر پہنچتے ہی یونائیٹڈ سٹیٹس آف کشمیر فارمولا کی بات کی تھی ۔ اس سے واضح ہو گیا کہ جموں کشمیر کو 7 ریاستوں میں تقسیم کر کے ان کی یونین بنانے کا جو فارمولا امریکہ کے دورہ سے واپس آ کر جنرل پرویز مشرف نے پیش کیا تھا وہ دراصل امریکی حکومت کی خواہش و تجویز تھی جبکہ تقسیم ہند کے فارمولا کے مطابق ریاست کے پاکستان یا بھارت سے الحاق کا فیصلہ ریاست کی مجموعی آبادی کی بنیاد پر ہونا تھا ۔ اس لئے امریکہ کی ایماء پر پرویز مشرف کا پیش کردہ 7 ریاستوں والا فارمولا ديگر وجوہات کے علاوہ بنیادی طور پر بھی غلط تھا ۔ مزید یہ کہ اس فارمولا کے نتیجہ میں جموں پورے کا پورا بھارت کو چلا جاتا اور دریاؤں کا کنٹرول بھارت کو حاصل ہوتا۔

آج اور کل

جو دن گذر گيا سو گذر گيا ۔ وہ تو واپس نہیں آ سکتا ۔
آنے والا دن آئے گا يا نہيں ؟ کسے کيا معلوم ۔
اور آئے گا تو کيا ميں اُسے ديکھنے کيلئے موجود ہوں گا ؟
اور اگر موجود ہوا تو اس قابل ہوں گا کہ کچھ کر سکوں ؟
کوئی نہيں بتا سکتا ۔

پھر يہ بھی تو ہے کہ ہر غُنچہ پھُول نہيں بنتا
اور نہ ہر کلی غُنچہ بنتی ہے

اگر کچھ کرنا ہے تو آج ہی کرنا ہے ۔
کل کی انتظار ميں بيٹھنا عقلمندی نہيں ہے

آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہيں
سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہيں

کسی نے کيا خوب کہا ہے

جوانی ہی ميں عدم کے واسطے سامان کر غافل
مسافر شب کو اُٹھتے ہيں جو جانا دور ہوتا ہے

آہ

اِنا للہِ و اِنا اِليہ راجعون

کل صبح ساڑھے نو [پاکستان کے ساڑھے دس] بجے يونہی ٹی وی ڈان نيوز لگايا تو سُرخ پٹی پر لکھا تھا اسلام آباد اور راولپنڈی کے ہسپتالوں ميں ايمرجنسی نافذ کر دی گئی ۔ دل دھک سے رہ گيا اور اس ميں سے التجائی آواز نکلی يا اللہ خیر ۔ اس کے بعد جو کچھ ديکھنے ميں آيا وہ آہوں اور آنسوؤں کا ايک سيلاب تھا ۔ سارا دن ٹی وی کے سامنے مبہوت بنا بيٹھا رہا ۔ بار بار کليجہ منہ کو آتا رہا اور آنکھيں آنسو برساتی رہيں ۔ چشم زدن ميں 152 افراد جن ميں 22 عورتيں 8 بچے جن ميں 2 شيرخوار تھے اس فانی دنيا کو چھوڑ گئے ۔ کسی کا بيٹا بيٹی کسی کا بھائی بہن کسی کا ماں باپ بچھڑ گيا ۔ ان ميں سے ہم کسی کو نہيں جانتے مگر يوں محسوس ہو رہا تھا کہ سب ہی اپنے ہيں ۔ ہاں 23 جولائی کو ايئر بليو کی پرواز سے دبئی آتے ہوئے جہاز ميں اعلان کرنے والی ايئر ہوسٹس ام حبيبہ تھيں جو کل کے حادثہ ميں چل بسيں

جس علاقہ ميں کل حادثہ پيش آيا اسی علاقہ ميں 48 سال قبل پاکستان ہوائی فوج کا ايک مال بردار طيارہ حادثہ کا شکار ہوا تھا جس ميں ميرا ايک دوست پرويز جہانگير اور اس کا ساتھی ہلاک ہوئے تھے ۔ ہوا يوں تھا کہ اُن کا طيارہ چکلالہ سے فضا ميں بلند ہوا تو اچانک طوفان آيا ۔ جب طيارہ اسی علاقہ ميں مارگلہ کی پہاڑيوں کے قريب پہنچا تو طوفانی ہوا نے بائيں جانب سے اُسے دھکيل کر داہنی جانب دُور اور نيچے کی طرف پھينکا ۔ طيارے کا داہنا پر پہاڑی کی چوٹی سے ٹکرا کر الگ ہو گيا پھر طيارہ ہوا ميں لٹو کی طرح گھومتا ہوا پہاڑی پر گرا اور اس کے ٹکڑے ميلوں ميں پھيل گئے ۔ حقيقت يہ ہے کہ طيارہ سامنے اور پيچھے کی طرف سے آنے والی تُند و تيز ہواؤں کو برداشت کر ليتا ہے ليکن اگر داہنے يا بائيں سے اچانک طوفانی ہوا طيارے سے ٹکرائے تو طيارے کو ساتھ اُڑا کر لے جاتی ہے اور ساتھ ہی طيارہ بہت نيچے چلا جاتا ہے ۔ ايک دفعہ ميں کراچی سے اسلام آباد جا رہا تھا تو اچانک طيارہ نيچے کی طرف گيا ۔ پائلٹ نے بعد ميں اعلان کيا کہ اللہ نے ہميں بچا ليا ۔ طيارہ بھنور ميں پھنس کر 2000 فٹ نيچے چلا گيا تھا

ميرا ذہن کہتا ہے کہ کل کا حادثہ ٥٨ سال قبل والے حادثہ سے مماثلت رکھتا ہے کيونکہ کل جب طيارہ چکلالہ اترنے لگا تو اسے نمبر 12 پر اترنے کا کہا گيا ۔ پائلٹ نے قبول کرنے کی اطلاع دے کر طيارہ اتارنا شروع کيا تو اسے کہا گيا کہ نمبر 30 پر اُترو ۔ نمبر 30 پر اترنے کيلئے اسے طيارہ کو دُور لے جا کر موڑ کر لانا تھا ۔ عين ممکن ہے طوفانی بارش کی وجہ سے پائلٹ طيارے کو جلد زيادہ اُوپر نہ اُٹھا سکا ہو اور مقررہ 6 ميل کی حد سے آگے نکل گيا ہو اور طيارے کو مڑتے ہوئے طوفانی ہوا نے پہاڑی کی طرف پھينک ديا ہو اور اس طرح طيارہ پہاڑی سے ٹکرا کر پاش پاش ہو گيا ہو

واللہ اعلم

بيوی ڈانٹتی ہے

خواتين اسے پڑھيں تو اپنے اُوپر لينے کی بجائے اس کی ساخت پر غور کريں بالآخر يہ مذاح ہے

جس خاوند کو بيوی ڈانٹتی ہے وہ شريف مرد ہے
جو خاوند بيوی کو ڈانٹے وہ ظالم ہے

بيوی کے خاوند کو ڈانٹنے کا مطلب ہے کہ وہ خاوند سے پيار کرتی ہے
بيوی کے خاوند کو نہ ڈانٹنے کا مطلب ہے کہ خاوند بيوی سے پيار نہيں کرتا

عربی ميں مذکر کی جمع بھی مؤنث ہوتی ہے اسلئے حقوق صرف عورتوں کے ہوتے ہيں
مرد کا صرف ايک حق ہوتا ہے جو وہ نکاح کے وقت بيوی کے حوالے کر ديتا ہے

کيا حريت کانفرنس ميں تفرقہ ہے ؟

ميں نے تحريک آزادی جموں کشمير ۔ تاريخی پس منظر اور قراداد الحاق پاکستان کا خلاصہ تحرير کيا تو کئی مہربانوں نے خواہش ظاہر کی ہے کہ ميں بتاؤں کہ 1989ء ميں تحريک نے کيوں زور پکڑا اور آج کی صورتِ حال کا پس منظر کيا ہے ؟ سوالات کا جواب دينے سے جوابات ايک مرتب تحرير نہيں بنيں گےاسلئے سوچا ہے کہ تاريخی پس منظر اور قراداد الحاق پاکستان کو چھوڑ کر سلسلہ وار خلاصہ پيش کروں

ميں نے کئی دہائيوں کے مشاہدے اور مطالعہ کے بعد تحريک آزادی جموں کشمير کا مختصر خاکہ 2005ء ميں اپنے انگريزی بلاگ پر درجن بھر اقساط ميں کيا تھا جسے ضروری ترميم کے ساتھ اب اس بلاگ پر پيش کرنے کا ارادہ ہے ۔ اللہ اس کوشش ميں ميری مدد فرمائے

ميری پيدائش شہر جموں ضلع جموں رياست جموں کشمير ميں ہوئی ۔ اس لئے مجھے جموں کشمير کی ہر چيز ميں دلچسپی تھی اور ہے ۔ ميں نے نہ صرف جموں کشمير کی تاريخ اور جغرافيہ کا مطالعہ کيا بلکہ اس سے متعلقہ تمام واقعات پر بچپن ہی سے نظر رکھتا رہا ۔ جموں کشمیر کا مسئلہ لاکھوں انسانوں کی 2 صديوں پر محيط جدّ و جہد اور 63 سالوں پر محیط وحشیانہ اذیّتوں کی روئیداد ہے اور اس مسئلہ کو پچھلی آدھی صدی میں گُما پھِرا کر ایسا پیچیدہ بنا دیا گیا ہے کہ عام آدمی تو ایک طرف خود جموں کشمیر کے رہنے والوں کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونے والا ہے ۔ 2005ء کے شروع ميں حریّت کانفرنس کے چند ارکان کے دورہءِ پاکستان کی بہت دھوم تھی ۔ یہ تحریر 64 سال پر محیط میرے ذاتی مشاہدہ متعلقہ اشخاص سے حاصل کردہ معلومات اور میر ے سالہا سال کے مطالعہ کا نچوڑ ہے ۔ مضمون کی طوالت کے مدِنظر کافی اختصار سے کام ليا ہے

حریت کانفرنس کے جو لوگ 2005ء ميں پاکستان آئے تھے ان میں سے سوائے ایک دو کے باقی سب حکومتوں کے بنائے ہوئے لیڈر ہیں اور مقبوضہ جموں کشمیر کے مسلمانوں میں کوئی خاص نمائندگی نہیں رکھتے ۔ پاکستان میں جے کے ایل ایف یعنی جموں کشمیر لبریشن فرنٹ 1988ء کے آخر میں حکومتِ وقت کی پشت پناہی سے معرض وجود میں آئی ۔ جے کے ایل ایف (پاکستان) کے سربراہ امان اللہ خان نے 25 جون 2005ء کو اپنی کتاب جہد مُسَلْسَلْ حصہ دوم کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے 1988ء میں آئی ایس آئی کی مدد سے مقبوضہ کشمیر میں مسلح تحریک شروع کی تھی ۔ اس بيان کا ثبوت اور کسی بھی ذريعہ سے سامنے نہ آ سکا ۔ امان اللہ خان کے مقبوضہ جموں کشمیر میں کوئی خاص پیروکار نہیں تھے ۔ متذکّرہ بالا وجوہ کی بناء پر یہ نمائندے پاکستان کے دورہ کے دوران زیادہ تر پاکستان کی حکومت کی ہی تعریفیں کرتے رہے ۔ پاکستان کا دورہ کرنے والوں میں ایک دو کے کچھ پیروکار ہیں ۔ لیکن جو مقبوضہ جموں کشمیر کے مسلمانوں کے اصل نمائندے ہیں وہ پاکستان نہیں آئے کیونکہ وہ جنگ بندی لائن جسے 1972ء میں حکومتِ وقت نے لائن آف کنٹرول مان لیا تھا کو نہیں مانتے اور بھارتی بس میں اسے عبور کرنے کو وہ اسے مستقل سرحد قبول کرنے کے مترادف سمجھتے ہیں ۔ پاکستان میں قیام کے دوران یاسین ملک نے کہا تھا “ہم سے کوئی مذاکرات نہیں ہو رہے ۔ 2 سال سے پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت ہو رہی ہے ۔ نارائن اور طارق عزیز بڑے فیصلے کر رہے ہیں ۔ سی بی ایمز ہو رہے ہیں ۔ ہمیں کسی نے پوچھا ؟”

واپس جا کر عباس انصاری (پاکستان کی اس وقت کی حکومت کے نمائندہ) نے جو بیان دیا تھا اس کے مطابق جموں کشمیر کا فیصلہ وہاں کے باشندوں کے نمائندوں کی مذاکرات میں شمولیت کے بغیر ہو سکتا ہے ۔ یہ بات کیسے مانی جاسکتی ہے کہ جن کی قسمت کا فیصلہ ہونا ہے اور جنہوں نے اس کے لئے صرف پچھلے پندرہ سال میں لاتعداد اذیّتیں سہیں ۔ جن کے سینکڑوں گھر جلا دیئے گئے ۔ جن کے ایک لاکھ کے قریب پیاروں کو شہید کر دیا گیا اور جن کی ہزاروں ماؤں بہنوں بیویوں بیٹیوں اور بہوؤں کی عزتیں لوٹی گئیں ۔ ان کو شامل کئے بغیر ان کی قسمت کا فیصلہ ایک کافر دشمن اور دوسرا ملٹری جنرل مل کے کر دیں ؟

کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ جنرل پرويز مشرف کی حکومت کی خفیہ نے حریّت کانفرنس کو کمزور کرنے کے لئے عباس انصاری کو لیڈر بنا کر حریّت کانفرنس میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش کی تھی ؟ اور پھر مقصد حاصل ہو جانے کے بعد پاکستان بلا کر عمر فاروق کو حرّیت کانفرنس کا سربراہ بنا دیا۔ اسی سے ثابت ہو جاتا ہے کہ جو لوگ آئے تھے ان کا اصلی لیڈر کون ہے

گناہ کی تعريف

عام طور پر يہی سمجھا جاتا ہے کہ اللہ کی نافرمانی گناہ ہوتی ہے ۔ پچھلے دنوں عذرا شفيع صاحبہ پروفيسر گورنمنٹ کالج برائے خواتين ۔ اوکاڑہ کی لکھی گناہ کی تعريف نظر پڑی تو پسند آئی

انسان کا اپنے رب کی اطاعت اور فرماں برداری ميں قدرت و استطاعت کے باوجود کوتاہی کرنا
اور
اس کی رضا حاصل کرنے ميں جان بوجھ کر قصور دکھانا گناہ کہلاتا ہے

ماؤنٹ بیٹن کی بھارت نوازی اور قراداد الحاق پاکستان

ماؤنٹ بیٹن کی بھارت نوازی

وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے 3 جون 1947 کو نیم خود مختار ریاستوں کے متعلق یہ فیصلہ دیا کہ وہاں کے حاکم جغرافیائی اور آبادی کی اکثریت کے لحاظ سے پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق کر سکتے ہیں ۔ یہ فیصلہ مبہم تھا اور بھارت اپنی طاقت کے بل بوتے پر بھارت کے اندر یا بھارت کی سرحد پر واقع تمام ریاستوں پر قبضہ کر سکتا تھا اور ہوا بھی ایسے ہی

بھارت نے فوجی طاقت استعمال کر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کرنے والی ریاستوں یعنی حیدر آباد دکن ۔گجرات کاٹھیا واڑ اور مناوادور پر حملہ کر کے قبضہ کر لیا ۔ وجہ یہ بتائی کہ وہاں مسلمان اکثریت میں نہیں تھے ۔ مگر پھر مسلم اکثریت والی ریاستوں کپورتھلہ اور جموں کشمیر پر بھی فوج کشی کر کے قبضہ کر لیا

قراداد الحاق پاکستان

مسلم کانفرنس کے لیڈروں نے باؤنڈری کمیشن کی ایماء پر دیئے گئے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے ریاستوں کے متعلق فیصلہ میں چھپی عیّاری کو بھانپ لیا ۔ اس وقت مسلم کانفرنس کے صدر چوہدری غلام عباس جیل میں تھے ۔ چنانچہ قائم مقام صدر چوہدری حمیداللہ نے مسلم کانفرنس کی مجلس عاملہ کا اجلاس بلایا جس نے یہ قرار داد منظور کر کے مہاراجہ ہری سنگھ کو بھیجی کہ اگر مہاراجہ نے تقسیم ہند کے اصولوں کے مطابق ریاست جموں کشمیر کا الحاق پاکستان کے ساتھ نہ کیا تو مسلمان مسلح تحریک آزادی شروع کر دیں گے ۔

جب جیل میں چوہدری غلام عباس کو اس کا علم ہوا تو وہ ناراض ہوئے ۔ انہوں نے ہدائت کی کہ مسلم کانفرنس کی جنرل کونسل کا اجلاس بلا کر قرارداد الحاق پاکستان پیش کی جائے ۔ چنانچہ 19 جولائی 1947 کو جنرل کونسل کا اجلاس ہوا جس میں یہ قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی کہ “3 جون 1947 کے باؤنڈری کمیشن کے اعلان سے خود مختار ریاستوں کا مستقبل مخدوش ہو گیا ہے لہذا جموں کشمیر کی سواد اعظم اور واحد پارلیمانی جماعت آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس کی جنرل کونسل بڑے غور و خوض کے بعد اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ جغرافیائی ۔ اقتصادی ۔ ثقافتی اور مذہبی لحاظ سے ریاست جموں کشمیر کا الحاق پاکستان سے ہونا ناگزیر ہے لہذا یہ اجلاس یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہے کہ داخلی معاملات ریاست کے عوام ایک منتخب حکومت کے ذریعہ چلائیں گے جب کہ دفاع ۔ خارجی امور اور کرنسی پاکستان کے ماتحت ہوں گے”