Monthly Archives: June 2010

خونخوار رشوت خور کون ؟

آج کے اخبارات ميں مندرجہ ذيل خبر سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ کونسا حکمران ہے جو رشوت نہ ملے تو بندے مروا ديتا ہے

فرانس میں کرپشن کے الزامات کی تحقیقات کرنے والے جج نے اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ پاکستان کو اگوسٹا آبدوزوں کی فروخت کے سودے میں رشوت دی گئی تھی ۔گزشتہ سال فرانس میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ 1995ء میں پاکستان کو آگوسٹا آبدوزوں کی فروخت کے سودے میں غیر قانونی طور پر کمیشن دیا گیا تھا اور 2002ء میں کراچی کے ایک ہوٹل کے باہر فرانسیسی انجینئروں پر خود کش بم حملہ پاکستان اور فرانس کے اعلیٰ حکام کے درمیان کمیشن کی ادائیگی پر اختلافات کے بعد کیا گیا تھا ۔ پیرس کی عدالت میں مقدمے کی سماعت کے بعد صحافیوں سے گفتگوکرتے ہوئے وکیل صفائی اولیور مورس نے کہا کہ جج نے اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ آبدوزوں کے سودے میں رشوت دی گئی تھی ۔ کراچی بم دھماکے کی تحقیقات کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ آبدوزوں کی خریداری میں رشوت کی 8کروڑ ڈالر سے زائد رقم مبینہ طور پرپاکستانی سیاستدانوں اور فوجی افسروں کو اداکی گئی

مسئلہ ويزے کا

پاکستان کے ايک چڑيا گھر ميں ايک شير کو روزانہ صرف 2 کلوگرام گوشت کھانے کو ديا جاتا تھا ۔ وہ دن بدن کمزور ہوتا جا رہا تھا ۔ حالات سے تنگ وہ دعا کرتا کہ مجھے کسی اور ملک بھيج ديا جائے ۔ ايک دن دبئی کا پاکستان کے دورے پر آيا ہوا ايک شیخ چڑيا گھر آيا اور ايک شير دبئی بھيجنے کی درخواست کی ۔ شير خوش ہوا کہ قسمت جاگ گئی دبئی ميں ايئرکنڈيشنڈ چڑيا گھر ميں رہوں گا اور کھانے ميں بھی دو نہيں تو ايک بکرا روزانہ ملے گا

دبئی کے چڑيا گھر پہنچنے پر پہلے دن ايک خوبصورت تھيلے ميں نفاست سے بند کی ہوئی اس کی خوراک آئی ۔ اُس نے تھلا کھولا تو اس ميں کيلے تھے مگر تھے بڑے بڑے اور عمدہ معيار کے ۔ شير نے خيال کيا کہ ہو سکتا ہے کہ چڑيا گھر کے مہتمم نے سوچا ہو کہ پاکستان سے آنے کے بعد ميرا پيٹ خراب نہ ہو جائے اور صبر شکر کر کے کيلے کھا لئے ۔ دوسرے دن تھيلا آيا تو اس ميں بھی کيلے نکلے ۔ غصہ آيا مگر کھا ليا ۔ جب تيسرے دن بھی کيلے آئے تو شير نے کيلوں کا تھيلا لانے والے ملازم کو روک کر کہا “تمہيں نظر نہيں آتا کہ ميں شير ہوں ؟ جا کر مہتمم کو بتاؤ کہ ميں شير ہوں”۔ ملازم جا کر واپس آيا اور بولا “تم ہو تو شير مگر سرکاری ريکارڈ ميں بندر لکھا ہے کيونکہ تم بندر کے ويزہ پر آئے تھے”

ہماری تاريخ کمزور ہے

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اٹھارویں آئینی ترمیم میں شہریوں کو معلومات تک رسائی دینے کے باوجود یہ رسائی عملی طور پر حاصل کرنا آسان کام نہیں ہے۔ مثلاً جب یہ دعویٰ داغا گیا کہ قائد اعظم نے9 اگست 1947ء کو جگن ناتھ آزاد کو بلا کر قومی ترانہ لکھنے کے لئے کہا تو مجاورین قائد اعظم کا فرض بنتا تھا کہ وہ اس بہتان کی تحقیق کرتے اور ریکارڈ کھنگال کر اس کی تصدیق یا تردید کرتے۔ آپ پوچھیں گے کہ مجاورین قائداعظم کون ہیں؟ میں قائد اعظم کے مجاور ان اداروں کوکہتا ہوں جو قائد اعظم کے نام پرغریب قوم کے ”تنگ دست“ خزانے سے کروڑوں روپے خرچ کررہے ہیں۔ کہنے کو قائد اعظم اکادمی بھی موجود ہے جہاں معروف سکالرز بیٹھے ہوئے ہیں ۔ قائد اعظم پیپرز سیل بھی قائم ہے جہاں ملازمت پیشہ حضرات کسی جذبے سے تہی دامن محض نوکری اور تنخواہ کے لئے بیٹھے عیش کررہے ہیں۔ ان کے پاس سرکاری ریکارڈ بھی موجود ہے اور قائد اعظم کے کاغذات بھی۔ لاہور میں نظریہ پاکستان فاؤنڈیشن میں بھی عاشقان قائد اعظم خطابت کے گل کھلاتے رہتے ہیں۔ تحقیق قدرے مشکل اور صبر آزما کام ہے اس میں وقت بھی لگتا ہے اور پیسہ بھی اس لئے میرے نزدیک یہ ان اداروں کا کام تھا کہ وہ اس موضوع پر تحقیق کرتے اور وضاحت کرتے کیونکہ یہ بالکل ایک انہونی بات تھی جس نے طالبعلموں اور نوجوانوں کو قائد اعظم کے حوالے سے گمراہ کرکے رکھ دیا

پنجاب یونیورسٹی کے ایک طالبعلم نے مجھے فون کیا اور غصے سے کہا ”اگر قائداعظم کو جگن ناتھ آزاد سے ہی قومی ترانہ لکھوانا تھا تو پاکستان بنانے کی کیا ضرورت تھی؟“ میں نے اسے پیار سے سمجھایا کہ آزاد پاکستان کا شہری تھا اس سے ترانہ لکھوانا کوئی قابل اعتراض بات نہیں لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ مجھے یہ ساری کہانی فرضی اور خیالی پلاؤ لگتی ہے کیونکہ جگن ناتھ آزاد نے خودکبھی یہ دعویٰ نہیں کیا۔ یہ شوشہ اس کے انتقال کے بعد اس کے بیٹے اور ہمارے نام نہاد سیکولر حضرات نے چھوڑا ہے۔ہاں مجھے یاد آیا جگن ناتھ آزاد پاکستان اکثر آتا رہا۔ ڈاکٹر انور سدید اور محترم رفیع الدین ہاشمی سے کئی بار ملا ان بزرگوں کا کہنا ہے کہ اس نے کبھی بھی قائد اعظم سے ملاقات یا قومی ترانہ لکھوانے کا ذکر نہیں کیا اگر جگن ناتھ آزاد کو یہ اعزاز حاصل ہوتا تو وہ اس کا ہر بار ذکر کرتا بلکہ بقول شخصے اچھل اچھل کر ذکرکرتا۔ ان دعویداروں کے مطابق جسے یہ اعزاز حاصل تھا اس نے تو کبھی اس کا ذکر نہیں کیا لیکن اس کے مرنے کے بعد اس کے بیٹے اور ہمارے دو تین لکھاریوں نے یہ ہوائی اڑا دی جس کی کسی ریکارڈ یا قائد اعظم کے سٹاف سے تصدیق نہیں ہوتی

میں جن دنوں حقائق جاننے کے لئے مضطرب تھا اور شواہد اکٹھے کرنے کے لئے بھاگ دوڑ کررہا تھا تو مجھے بعض دلچسپ تجربات ہوئے۔ مثلاً مجھے ریڈیو پروگراموں کی تفصیلات پڑھنے کے لئے اگست 1947ء کے اخبارات ڈھونڈھنے میں خاصی ”کھجل خواری“ہوئی تب مجھے اندازہ ہوا کہ پاکستان کی تاریخ پر تحقیق کرنے والے کن مصائب کا شکار ہیں۔ 1964۔65 میں جب میں مسلم لیگ کے دور حکومت 1947۔54 پر ریسرچ کررہا تھا تو پاکستان ٹائمز کی لائبریری میں اخبار کامکمل ریکارڈ موجود تھا جہاں میں نے ان سات برسوں کا ایک ایک اخبار پڑھا۔ پنجاب پبلک لائبریری میں اردو اخبارات کے علاوہ مشرقی پاکستان کے اخبارات کا ریکارڈ بھی موجود تھا۔ آج یہ سارا ریکارڈ ضائع ہوچکا ہم کس قدر علم دوست قوم ہیں؟؟

سچ کی تلاش کے اس سفر میں بعض مقامات پر عزت نفس بھی مجروح ہوئی اور ”جھڑکیاں“ بھی کھانی پڑیں لیکن میں نے قائد اعظم کی خاطر سب کچھ برداشت کیا کہ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔ میں ریڈیو پاکستان کے آرکائیوز اور ریکارڈ دیکھناچاہتا تھا۔ ایک عزیزی نے کہا تم سیکرٹری انفارمیشن رہے ہو تمہارے لئے یہ کام مشکل نہیں ہوگا۔ میں مسکرایا اور عرض کیا کہ یہ قوم بڑی کرسی پرست ہے ریٹائرڈ لوگوں کو ردی کی ٹوکری کا حصہ سمجھتی ہے۔ ایک بار پھرمیرے تجربے کی تصدیق ہوگئی جب میں نے ریڈیو پاکستان کے نو وارد ڈائریکٹر جنرل سے رابطہ کرنے کے لئے متعدد کوششیں کیں اور انہوں نے مجھے گھاس ڈالنا مناسب نہ سمجھا

مروت، اخلاق اور بزرگوں کا ادب والدین اور سکول کی تربیت کی دین ہوتا ہے نہ کہ عہددوں اور کرسی کی عطا، مدت ہوئی انور محمود مشرف کے سیکرٹری انفارمیشن تھے وہ میرے جونیئر رفیق کار اور چھوٹا بھائی ہونے کا دعویٰ کرتے تھے۔ میں مشرف کے دور میں زیر عتاب اوایس ڈی تھا چنانچہ انور صاحب نے میرا فون سننے سے انکار کردیا۔ بہرحال میں ریڈیو پاکستان(پی بی سی)کے کنٹرولر ہوم سروس علی منشا صاحب کا ممنون ہوں جنہوں نے آرکائیوز اور تاریخی ریکارڈ کے حوالے سے میری مدد کی اور علیحدہ سے ایک تصدیقی بیان بھی بھجوایا کہ جگن ناتھ آزاد کا قومی ترانہ ریڈیو پاکستان سے ہرگز نشر نہیں ہوا۔ یاد رہے کہ میری تحقیق کا دائرہ 1949تک محدود تھا کیونکہ اس کے بعد تو کمیٹی بنی اور بالآخر 1954میں حفیظ جالندھری کا لکھا ہوا قومی ترانہ پاکستان کا ترانہ بن گیا

دوران سفر بات یہاں آکر رک گئی کہ کس طرح قائد اعظم کے اے ڈی سی جناب عطا ربانی سے رابطہ کرکے یہ پوچھا جائے کہ کیا کبھی جگن ناتھ آزاد قائد اعظم سے ملے تھے کیونکہ اس سطح پر ملاقاتیں بہرحال اے ڈی سی کے ذریعہ ہی ہوتی ہیں۔ میں نے کہیں سے محترم عطاربانی صاحب کے صاحبزادے سینیٹر رضا ربانی کا سیل نمبر لیا ۔کئی کوششوں کے بعد ان تک پہنچا۔ اپنا تعارف کرایا اور التجا کی کہ قومی خدمت کے حوالے سے اور ریکارڈ کی تصحیح کے لئے مجھے یہ بات اپنے والد گرامی سے پوچھ دیں یا مجھے ان کا رابطہ عطا فرمادیں۔ انہوں نے مجھے جھڑک دیا اور میں نے قائد اعظم کی خاطر وہ جھڑک بھی برداشت کرلی۔ خدا کا شکر ہے کہ مجھے نظامی صاحب کے ذریعے محترم عطا ربانی صاحب سابق اے ڈی سی ٹُو قائد اعظم تک رسائی حاصل ہوئی اور میں نے ان سے براہ راست بات کرکے اپنی تسلی و تشفی کی کہ جگن ناتھ آزاد نہ کبھی قائد اعظم سے ملے اور نہ کبھی قائد اعظم کی زبان سے ان کا ذکر سنا

اس کے باوجود اگر ہمارے مہربان نہ مانیں اور اپنی ضد پہ قائم رہیں تو اسے ضد ہی کہا جاسکتا ہے اور ضد کا علاج تو لقمان حکیم کے پاس بھی نہیں تھا

بشکريہ ۔ جنگ

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ کامیابی کا راستہ

ہونا کیا چاہیئے
اپنا عِلم دوسروں میں بانٹيئے تو لافانی ہو جائيں گے
اپنی کامیابی کا اندازہ اس سے لگائيے کہ اسے حاصل کرنے کیلئے کیا کچھ چھوڑا
محبت اور کھانا پکانے کی طرف پورے اِنہماک سے بڑھيئے

عصرِ حاضر کی صورتِ حال
محنت کرو مگر دوسروں کو صرف اس وقت بتاؤ جب باس [Boss] سُن رہا ہو
باس پر توجہ رکھو کہ اُسے کیا پسند ہے ۔ وہی کرو
باس پر خُفیہ نظر رکھو اور پتہ چلاؤ کہ اُسے کس چیز کی ضرورت ہے ۔ وہ اُسے مہیا کرو

میرا دوسرا بلاگ ” حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter
” پچھلے ساڑھے پانچ سال سے معاشرے کے کچھ بھیانک پہلوؤں پر تحاریر سے بھر پور چلا آ رہا ہے ۔ اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے

کيا وِکی پِيڈيا اور آل تھِنگز پاکستان قابلِ اعتبار ہيں ؟

اس کالم کا مقصد صرف اور صرف سچ کی تلاش ہے نہ کہ کسی بحث میں الجھنا۔ میں اپنی حد تک کھُلے ذہن کے ساتھ سچ کی تلاش کے تقاضے پورے کرنے کے بعد یہ سطور لکھ رہا ہوں۔ پچھلے دنوں میڈیا (پرنٹ اور الیکٹرانک) پر یہ دعویٰ کیا گیا کہ قائداعظم نے قیام پاکستان سے قبل 9 اگست 1947ء کو جگن ناتھ آزاد کو بلاکر پاکستان کا ترانہ لکھنے کو کہا۔ انہوں نے پانچ دنوں میں ترانہ لکھ دیا جو قائداعظم کی منظوری کے بعد آزادی کے اعلان کے ساتھ ہی ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا اور پھر یہ ترانہ 18ماہ تک پاکستان میں بجتا رہا۔ جب 23 فروری 1949ء کو حکومتِ پاکستان نے قومی ترانے کے لئے کمیٹی بنائی تو یہ ترانہ بند کردیا گیا۔

اس انکشاف کے بعد مجھے بہت سے طلباء اور بزرگ شہریوں کے فون آئے جو حقیقت حال جاننا چاہتے تھے لیکن میرا جواب یہی تھا کہ بظاہر یہ بات قرین قیاس نہیں ہے لیکن میں تحقیق کے بغیر اس پر تبصرہ نہیں کروں گا۔ چنانچہ سب سے پہلے میں نے ان سکالروں سے رابطے کئے جنہوں نے قائداعظم پر تحقیق کرتے اور لکھتے عمر گزار دی ہے۔ ان سب کا کہنا تھا کہ یہ شوشہ ہے، بالکل بے بنیاد اور ناقابل یقین دعویٰ ہے لیکن میں ان کی بات بلاتحقیق ماننے کے لئے تیار نہیں تھا۔ قائداعظم اور جگن ناتھ کے حوالے سے یہ دعوے کرنے والے حضرات نے انٹرنیٹ پر کئی ”بلاگز“ (Blogs) میں اپنا نقطہ نظر اور من پسند معلومات فیڈ کرکے محفوظ کر دی تھیں تاکہ انٹرنیٹ کا استعمال کرنے والوں کوکنفیوز کیا جا سکے اور ان ساری معلومات کی بنیاد کوئی ٹھوس تحقیق نہیں تھی بلکہ سنی سنائی یا پھر جگن ناتھ آزاد کے صاحبزادے چندر کے آزاد کے انکشافات تھے جن کی حمایت میں چندر کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے

سچ کی تلاش میں، میں جن حقائق تک پہنچا ان کا ذکر بعد میں کروں گا۔ پہلے تمہید کے طور پر یہ ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ جگن ناتھ آزاد معروف شاعر تلوک چند کا بیٹا تھا ۔ وہ 1918ء میں عیسیٰ خیل میانوالی میں پیدا ہوا۔ اس نے 1937ء میں گارڈن کالج راولپنڈی سے بی اے اور 1944ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے فارسی کیا۔ تھوڑا سا عرصہ ”ادبی دنیا“ سے منسلک رہنے کے بعد اس نے لاہور میں ”جئے ہند“ نامی اخبار میں نوکری کرلی۔ قیام پاکستان کے بعد وہ ستمبر میں ہندوستان ہجرت کر گیا۔ اکتوبر میں ایک بار لاہور آیا اور فرقہ وارانہ فسادات کے خوف سے مستقل طور پر ہندوستان چلا گیا۔

وِکی پیڈیا (Wikipedia) اور All things Pakistanکے بلاگز میں یہ دعویٰ موجود ہے کہ قائداعظم نے اپنے دوست جگن ناتھ آزاد کو 9 اگست کو بلا کر پاکستان کا ترانہ لکھنے کے لئے پانچ دن دیئے۔ قائداعظم نے اسے فوراً منظور کیا اور یہ ترانہ اعلان آزاد ی کے بعد ریڈیو پاکستان پر چلایا گیا۔ چندر نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ حکومت ِ پاکستان نے جگن ناتھ کو 1979ء میں صدارتی اقبال میڈل عطا کیا

میرا پہلا ردعمل کہ یہ بات قرین قیاس نہیں ہے ، کیوں تھا؟ ہر بڑے شخص کے بارے میں ہمارے ذہنوں میں ایک تصویر ہوتی ہے اور جو بات اس تصویر کے چوکھٹے میں فٹ نہ آئے انسان اسے بغیر ثبوت ماننے کو تیار نہیں ہوتا۔ قائداعظم سر تا پا قانونی اور آئینی شخصیت تھے۔ اس ضمن میں سینکڑوں واقعات کا حوالہ دے سکتا ہوں ۔ اس لئے یہ بات میری سمجھ سے بالا تر تھی کہ قائداعظم کسی کو ترانہ لکھنے کے لئے کہیں اور پھر کابینہ، حکومت یا ماہرین کی رائے لئے بغیر اسے خود ہی آمرانہ انداز میں منظور کر دیں جبکہ ان کا اردو، فارسی زبان اور اردو شاعری سے واجبی سا تعلق تھا

میرے لئے دوسری ناقابل یقین صورت یہ تھی کہ قائداعظم نے عمر کا معتد بہ حصہ بمبئی اور دہلی میں گزارا۔ ان کے سوشل سرکل میں زیادہ تر سیاسی شخصیات، مسلم لیگی سیاستدان، وکلا وغیرہ تھے۔ پاکستان بننے کے وقت ان کی عمر 71 سال کے لگ بھگ تھی۔ جگن ناتھ آزاد اس وقت 29 سال کے غیرمعروف نوجوان تھے اور لاہور میں قیام پذیر تھے پھر وہ پاکستان مخالف اخبار ”جئے ہند“ کے ملازم تھے۔ ان کی قائداعظم سے دوستی تو کجا تعارف بھی ممکن نظر نہیں آتا

پھر مجھے خیال آیا کہ یہ تو محض تخیلاتی باتیں ہیں جبکہ مجھے تحقیق کے تقاضے پورے کرنے اور سچ کا کھوج لگانے کے لئے ٹھوس شواہد کی ضرورت ہے۔ ذہنی جستجو نے رہنمائی کی اور کہا کہ قائداعظم کوئی عام شہری نہیں تھے جن سے جو چاہے دستک دے کر مل لے۔ وہ مسلمانان ہند و پاکستان کے قائداعظم اور جولائی 1947 سے پاکستان کے نامزد گورنر جنرل تھے۔ ان کے ملاقاتیوں کا کہیں نہ کہیں ریکارڈ موجود ہوگا۔ سچ کی تلاش کے اس سفر میں مجھے 1989ء میں چھپی ہوئی پروفیسر احمد سعید کی ایک کتاب مل گئی جس کا نام ہے Visitors of the Quaid-e-Azam
۔ احمد سعید نے بڑی محنت سے تاریخ وار قائداعظم کے ملاقاتیوں کی تفصیل جمع کی ہے جو 25 اپریل 1948ء تک کے عرصے کا احاطہ کرتی ہے۔ اس کتاب میں قائداعظم کے ملاقاتیوں میں جگن ناتھ آزاد کا کہیں بھی ذکر نہیں ہے۔

”پاکستان زندہ باد“ کے مصنف سید انصار ناصری نے بھی قائداعظم کی کراچی آمد 7 اگست شام سے لے کر 15 اگست تک کی مصروفیات کا جائزہ لیا ہے۔ اس میں بھی آزاد کا ذکر کہیں نہیں۔ سید انصار ناصری کو یہ تاریخی اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے قائداعظم کی 3 جون 1947ء والی تقریر کا اردو ترجمہ آل انڈیا ریڈیو سے نشر کیا تھا اور قائداعظم کی مانند آخر میں پاکستان زندہ باد کا نعرہ بھی بلند کیا تھا

لیکن سچی بات یہ ہے کہ پھر بھی میر ی تسلی نہیں ہوئی۔ دل نے کہا کہ جب 7 اگست 1947ء کو قائداعظم بطور نامزد گورنر جنرل دلی سے کراچی آئے تو ان کے ساتھ ان کے اے ڈی سی بھی تھے۔ اے ڈی سی ہی ملاقاتوں کا سارا اہتمام کرتا اور اہم ترین عینی شاہد ہوتا ہے اور صرف وہی اس سچائی کی تلاش پر مہر ثبت کرسکتا ہے۔ جب قائداعظم کراچی اترے تو جناب عطا ربانی بطور اے ڈی سی ان کے ساتھ تھے اور پھر ساتھ ہی رہے۔ خدا کا شکر ہے کہ وہ زندہ ہیں لیکن ان تک رسائی ایک کٹھن کام تھا۔ خاصی جدوجہد کے بعد میں بذریعہ نظامی صاحب ان تک پہنچا۔ جناب عطا ربانی صاحب کا جچا تلا جواب تھا کہ جگن ناتھ آزاد نامی شخص نہ کبھی قائداعظم سے ملا اور نہ ہی میں نے کبھی ان کا نام قائداعظم سے سنا۔

اب اس کے بعد اس بحث کا دروازہ بند ہوجانا چاہئے تھا کہ جگن ناتھ آزا د کو قائداعظم نے بلایا۔ اگست 1947ء میں شدید فرقہ وارانہ فسادات کے سبب جگن ناتھ آزاد لاہور میں مسلمان دوستوں کے ہاں پناہ لیتے پھر رہے تھے اور ان کو جان کے لالے پڑے ہوئے تھے۔ ان حالات میں ان کی کراچی میں قائداعظم سے ملاقات کا تصو ر بھی محال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خود جگن ناتھ آزاد نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا حالانکہ وہ پاکستان میں کئی دفعہ آئے حتیٰ کہ وہ علامہ اقبال کی صد سالہ کانفرنس کی تقریبات میں بھی مدعو تھے جہاں انہوں نے مقالات بھی پیش کئے جو اس حوالے سے چھپنے والی کتاب میں بھی شامل ہیں

عادل انجم نے جگن ناتھ آزاد کے ترانے کا شوشہ چھوڑا تھا۔ انہوں نے چندر آزاد کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ جگن ناتھ آزاد کو 1979ء میں صدارتی اقبال ایوارڈ دیا گیا۔ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ میں نے صدارتی اقبال ایوارڈ کی ساری فہرست دیکھی ہے اس میں جگن ناتھ آزاد کا نام نہیں۔ پھر میں کابینہ ڈویژن پہنچا اور قومی ایوارڈ یافتگان کا ریکارڈ کھنگالا۔ اس میں بھی جگن ناتھ آزاد کا نام نہیں ہے۔

وہ جھوٹ بول کر سچ کوبھی پیار آ جائے۔ اب آیئے اس بحث کے دوسرے حصے کی طرف… ریڈیو پاکستان کے آرکائیوز گواہ ہیں کہ جگن ناتھ آزاد کا کوئی ترانہ یا ملی نغمہ یا کلام 1949ء تک ریڈیو پاکستان سے نشر نہیں ہوا اور 14 اور 15 اگست کی درمیانی شب جب آزادی کے اعلان کے ساتھ پہلی بار ریڈیو پاکستان کی صداگونجی تو اس کے بعد احمد ندیم قاسمی کا یہ ملی نغمہ نشر ہوا۔

پاکستان بنانے والے، پاکستان مبارک ہو

ان دنوں قاسمی صاحب ریڈیو میں سکرپٹ رائٹر تھے۔ 15 اگست کو پہلا ملی نغمہ مولانا ظفر علی خان کا نشر ہوا جس کا مصرعہ تھا

”توحید کے ترانے کی تانیں اڑانے والے“

میں نے یہیں تک اکتفا نہیں کیا۔ اس زمانے میں ریڈیو کے پروگرام اخبارات میں چھپتے تھے۔ میں نے 14 اگست سے لے کر اواخر اگست تک اخبارات دیکھے۔ جگن ناتھ آزاد کا نام کسی پروگرام میں بھی نہیں ہے۔ سچ کی تلاش میں، میں ریڈیو پاکستان آرکائیوز سے ہوتے ہوئے ریڈیو کے سینئر ریٹائرڈ لوگوں تک پہنچا۔ ان میں خالد شیرازی بھی تھے جنہوں نے 14 اگست سے 21 اگست 1947ء تک کے ریڈیو پروگراموں کا چارٹ بنایا تھا۔ انہوں نے سختی سے اس دعویٰ کی نفی کی۔ پھر میں نے ریڈیو پاکستان کا رسالہ ”آہنگ“ ملاحظہ کروایا جس میں سارے پروگراموں کی تفصیلات شائع ہوتی ہیں۔ یہ رسالہ باقاعدگی سے 1948 سے چھپنا شروع ہوا۔

18 ماہ تک آزاد کے ترانے کے بجنے کی خبردینے والے براہ کرم ریڈیو پاکستان اکادمی کی لائبریری میں موجود آہنگ کی جلدیں دیکھ لیں اور اپنے موقف سے تائب ہوجائیں۔ میں اس بحث میں الجھنا نہیں چاہتا کہ اگر آزادی کا ترانہ ہمارا قومی ترانہ تھا اور وہ 1949ء تک نشر ہوتا رہا تو پھر اس کا کسی پاکستانی کتاب، کسی سرکاری ریکارڈ میں بھی ذکر کیوں نہیں ہے اور اس کے سننے والے کہاں چلے گئے؟ اگر جگن ناتھ آزاد نے قائداعظم کے کہنے پر ترانہ لکھا تھا تو انہوں نے اس منفرد اعزاز کا کبھی ذکرکیو ں نہ کیا؟ جگن ناتھ آزاد نے اپنی کتاب ”آنکھیں ترستیں ہیں“ (1982ء) میں ضمناً یہ ذکر کیا ہے کہ اس نے ریڈیو لاہور سے اپنا ملی نغمہ سنا۔ کب سنا ؟ اس کا ذکر موجود نہیں۔ اگر یہ قائداعظم کے فرمان پر لکھا گیا ہوتا تو وہ یقینا اس کتاب میں اس کا ذکر کرتا

جگن ناتھ آزاد کے والد تلوک چند نے نعتیں لکھیں۔ جگن ناتھ آزاد نے پاکستان کے لئے ملی نغمہ لکھا جو ہوسکتا ہے کہ پہلے کسی وقت ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا ہو لیکن یہ بات طے ہے کہ جگن ناتھ آزاد نہ کبھی قائداعظم سے ملے، نہ انہوں نے پاکستان کا قومی ترانہ لکھا اور نہ ہی ان کا قومی ترانہ اٹھارہ ماہ تک نشر ہوتا رہا یا قومی تقریبات میں بجتا رہا

قائداعظم بانی پاکستان اور ہمارے عظیم محسن ہیں۔ ان کے احترام کا تقاضا ہے کہ بلاتحقیق اور بغیر ٹھوس شواہد ان سے کوئی بات منسوب نہ کی جائے

تحریر ۔ ڈاکٹر صفدر محمود ۔ بشکريہ ۔ جنگ

اسرائیل ۔ حقائق کیا ہیں ؟

دورِ حاضر پروپیگنڈہ کا دور ہے اور صریح جھوٹ پر مبنی معاندانہ پروپیگنڈہ اس قدر اور اتنے شد و مد کے ساتھ کیا جاتا ہے کہ حقائق ذہنوں سے محو ہو جاتے ہیں ۔ ایسے مسلمان اور پاکستانی بھی ہیں جو اسرائیل کی دہشتگردی کو اُس کے دفاع کی جنگ کہتے ہیں

حُسنِ اتفاق کہ آدھی صدی سے زائد عرصہ سے ظُلم اور دہشتگردی کا شکار رہنے والی دونوں ریاستوں فلسطین اور جموں کشمیر سے میرے خاندان کا گہرا تعلق رہا ہے ۔ مختصر یہ کہ میں ۔ میری دو بہنیں دادا دادی اور پھوپھی جموں کشمیر سے نومبر دسمبر 1947ء میں نکالے جانے پر ہجرت کر کے پاکستان آئے اور میرے والدین مع میرے دو چھوٹے بھائیوں جن میں سے ایک 8 ماہ کا تھا نے مجبور ہو کر فلسطین سے ہجرت کی اور جنوری 1948ء میں پاکستان پہنچے ۔ چنانچہ ان دونوں علاقوں کی تاریخ کا مطالع اور ان میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات پر گہری نظر رکھنا میرے لئے ایک فطری عمل تھا ۔ میں نے اس سلسلہ میں سالہا سال مطالعہ کیا ۔ جو حقائق سامنے آئے ان کو مختصر طور پر انشاء اللہ قسط وار قارئین کی نذر کرنے کا ارادہ ہے ۔ آجکل چونکہ فلسطین میں اسرائیلی حکومت کی بے مثال دہشتگردی جاری ہے اسلئے پہلی ترجیح فلسطین کو ۔ میری اس سلسلہ وار تحریر کا ماخذ موجود تاریخی و دیگر دستاویزات ۔ انٹرنیٹ پر موجود درجن سے زائد تاریخی دستاویزات اور آدھی صدی پر محیط عرصہ میں اکٹھی کی ہوئی میری ذاتی معلومات ہیں

اسرائیلی فوج کی دہشتگردی کی چند مثالیں
اسرائیل کا موقف ہے کہ حماس اسرائیل پر حملے کرتی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ دسمبر 2008ء کو ختم ہونے والے 10 سال میں غزہ یا اس کے ارد گرد صرف 20 اسرائیلی ہلاک ہوئے جبکہ اسرائیلی فوج جو بیہیمانہ قتلِ عام کیا ان میں سے چند مشہور واقعات یہ ہیں

پچھلے دو ہفتوں میں 800 سے زیادہ فلسطینی جن میں بھاری اکثریت بچوں اور عورتوں کی تھی ہلاک ہو چکے ہیں اور زخمیوں کی تعداد 3250 سے تجاوز کر چکی ہے ۔ اسرائیل نے اقوامِ متحدہ کے قائم کردہ سکول پر بمباری کی جس میں 40 مہاجرین ہلاک ہوئے ۔ اس کے بعد اسرائیلی بری فوج نے 100 فلسطینی ایک شیلٹر میں اکٹھے کئے اور پھر ان پر گولہ باری کر کے سب کو ہلاک کر دیا

سن 2006ء میں اس بنیاد پر کہ میں حذب اللہ نے 2 دو اسرائیلی پکڑ لئے تھے اسرائیلی نے بمباری کر کے 1000 شہری ہلاک کر دیئے ۔ اسی سال میں اسرائیلی فوجیوں نے ایک گاؤں مرواہن کے رہنے والوں کو حُکم دیا کہ وہ گاؤں خالی کر دیں ۔ جب لوگ گھروں سے باہر نکل آئے تو اسرائیلی ہیلی کاپٹر نے قریب آ کر اُن کو براہِ راست نشانہ بنایا جس کے نتیجہ میں 1000 میں سوائے دو کے باقی سب ہلاک ہو گئے ۔ دو اس وجہ سے بچ گئے کہ وہ زمین پر گر کر مردہ بن گئے تھے

اسرائیل نے 1996ء میں اقوامِ متحدہ کی بیس [Base] قانا پر گولہ باری کی جس میں 106 مہاجرین ہلاک ہوئے

لبنان پر 1982ء میں حملہ کر کے 17500 فلسطینی مہاجرین ہلاک کیا جن میں زیادہ تعداد بچوں اور عورتوں کی تھی
اسرائیلی فوج نے 1982ء میں فلسطینی مہاجرین کے دو کیمپوں صابرا اور شتیلا کو گھیرے میں لے کر اپنے مسلحہ حواریوں فلینجسٹس کی مدد سے دو تین دنوں میں وہاں مقیم 4000 نہتے فلسطینی مہاجرین کو قتل کروا دیا جن میں عورتیں بچے اور بوڑھے شامل تھے ۔ یہ کاروائی ایرئل شیرون کے حُکم پر کی گئی تھی جو اُن دنوں اسرائیل کا وزیر دفاع تھا

يہ تحرير ميں نے 10 جنوری 2009ء کو لکھی تھی ۔ اس کے بعد آج تک يعنی 17 ماہ ميں جو کچھ ہوا وہ شايد سب کے ذہنوں پر ہو گا

عيسائی برطانوی شہزادہ اور ہم مسلمان

نیو یارک میں ہونے والی بین الاقوامی ماحولیاتی کانفرنس میں برطانوی شہزادے چارلس نے گلوبل وارمنگ کے باعث ہونے والی تبدیلیوں اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل سے نمٹنے کے لئے عالمی ماہرین پر زور دیا ہے کہ قرآن میں بتائے گئے احکامات پر عمل کر کے دنیا کو کسی بڑے نقصان سے محفوظ رکھا جاسکتا ہے

ہمارے ہموطن مسلمانوں ميں اونچا بولنے والے کہتے ہيں کہ
اسلام کے قوانين 14 سو سال پرانے ہيں اسلئے موجودہ ترقی يافتہ دور ميں نافذ العمل نہيں
اسلام پر عمل انتہاء پسندی کو جنم ديتا ہے