Monthly Archives: June 2010

قوتِ ارادی اور ماں کی دعا

سائنس نے بہت ترقی کی ۔ موت کی رفتار تو بڑھ گئی مگر زندگی بے آسرا ہی رہی
بنکر بسٹر بم [Bunker Buster Bomb] تو بہت بنا لئے گئے مگر ماں کی محبت کو پھيلانے والا آلہ کسی نے نہ بنايا
پستول ۔ بارود اور ہيروئين بھانپ لينے والے آلات تو بن گئے مگر ماں کے احساسات کو پڑھنے يا ناپنے والا کوئی آلہ ايجاد نہ ہوا
انسان نے بڑے پيمانے پر فنا اور کُشت و خون کے تيز رفتار طريقے تو ايجاد کر لئے مگر ماں کی قدر و منزلت اُجاگر کرنے کوئی آلہ نہ بن سکا

ميں اپنی ماں سے آج سے 30 سال قبل 29 جون 1980ء کو ہميشہ کيلئے جُدا ہو گيا تھا اور جيسے ساتھ ہی قبول ہونے والی پُرخلوص دعاؤں سے بھی محروم ہو گيا

اے جوانوں جن کی مائيں زندہ ہيں وقت کو ضائع مت کرو اور اپنی ماؤں کی اتنی خدمت کرو کہ ماں کے جسم کے ہر رونگٹے سے دعا نکلے
ماں کی دعا اللہ نہيں ٹھکراتا کيونکہ وہ ڈانٹتی ہے تو ہونٹوں سے ۔ دعا ديتی ہے تو دل کی گہرائيوں سے

اس حوالے سے ايک اچھوتا واقعہ

لانس آرام سٹرانگ 1971ء میں پیدا ہوا ۔ وہ دو ہی سال کا تھا کہ اس کا باپ اس کی ماں کو چھوڑ کر چلا گیا۔ اس کی ماں اس وقت بمشکل 19 برس کی تھی۔ اس نے مختلف جگہوں پر نوکریاں کرکے لانس آرم سٹرانگ کو پالا اوربچپن ہی میں اسے اتھلیٹ بننے کی تربیت دی۔ وہ اسے باقاعدہ اتھلیٹک کے مقابلوں میں حصہ لینے کیلئے لے جاتی اور اس کی حوصلہ افزائی کرتی۔ لانس آرم سٹرانگ نے سائیکلنگ کو اپنے لئے منتخب کیا اور 20 سال کی عمر میں امریکہ کی شوقیہ سائیکلنگ کا چمپئن بن گیا۔ 4 برس کے بعد سارے مقابلے جیت کر وہ سائیکلنگ کا عالمی چمپئن بن گیا

1996ء میں جب وہ عالمی چمپئن بن چکا تھا تو ڈاکٹروں نے تشخیص کی کہ اسے کینسر ہے اور یہ کینسر پھیپھڑوں اور دماغ تک پھیل چکا ہے۔ اس موذی مرض کا راز اس وقت کھلا جب آرام سٹرانگ ڈیڑھ ڈیڑھ سو کلو میٹر سائیکلنگ کے مقابلے جیت چکا تھا، وہ اپنے سائیکل پر پہاڑوں کے دل روند چکا تھا اور صرف 21 برس کی عمر میں امریکہ کے ہیرو کا درجہ حاصل کرچکا تھا ۔ ڈاکٹروں کی تشخیص کے مطابق آرم سٹرانگ کے زند ہ رہنے کے امکانات 40 فیصد سے زیادہ نہ تھے کیونکہ سرطان جسم کے اندر خطرناک مقامات تک پھیل چکا تھا۔ ڈاکٹروں کا فیصلہ تھا کہ اب آرم سٹرانگ کبھی سائیکلنگ کے مقابلوں میں حصہ نہیں لے سکے گا اور وہ جسمانی طور پر کسی بھی کھیل کے لئے فِٹ نہیں ہوگا۔ جب یہ ساری رپورٹیں آرم سٹرانگ کو دکھائی گئیں تو اس نے جان لیوا بیماری کے سامنے ہار ماننے سے انکارکردیا اور اعلان کیا کہ وہ ڈٹ کر اور مضبوط قوت ِ ارادی کے ساتھ اس بیماری کا مقابلہ کرے گا اور کھیل کے میدان کی مانند بیماری پر بھی فتح حاصل کرے گا۔ 1996ء میں اس کا علاج شروع ہوا اور اس کی شدید کیموتھراپی کی جانے لگی۔ کیموتھراپی سے کینسر کا مریض کمزور سے کمزور تر ہوتا چلا جاتا ہے، اکثر اوقات اس سے بال جھڑ جاتے ہیں اور چہرہ زرد پڑ جاتا ہے لیکن آرم سٹرانگ کی قوت ِ ارادی، بلند حوصلگی، جذبے اور یقین محکم نے رنگ دکھایا۔ اس کی ماں کی دعاؤں نے صحت یابی کی راہ ہموار کی اور 2سال کے اندر اندر آرم سٹرانگ نے بیماری کو شکست دے کر یہ ثابت کر دیا کہ سرطان جیسے مرض کو بھی مضبوط قوت ِ ارادی سے شکست دی جاسکتی ہے

آرم سٹرانگ 2 سال بعد میدان میں اُترا تو پتہ چلا کہ اس کا کنٹریکٹ ختم ہو چکا ہے اور کھیلوں کی دنیا اسے ہمیشہ کے لئے خدا حافظ کہہ چکی ہے ۔ آرم سٹرانگ حالات سے گھبرانے والا اور ہار ماننے والا انسان نہیں تھا چنانچہ اس نے 1999ء میں دوبارہ سائیکلنگ ریس میں حصہ لیااور پھیپھڑوں کی کمزوری کے باوجود چوتھی پوزیشن لے کر دنیاکو حیران کر دیا۔ اس تمام عرصے میں آرم سٹرانگ کا اپنی ماں سے گہرا تعلق قائم رہا۔ وہ ماں سے کتنی محبت کرتا تھا اور اسے کیا مقام دیتا تھا اس کا اندازہ اس ایک واقعے سے ہوتا ہے کہ آرم سٹرانگ نے 1992ء میں اوسلو ناروے میں منعقد ہونے والی عالمی ریس میں حصہ لیا اور دنیا بھر کے مشہور سائکلسٹوں کو شکست دے کر عالمی چمپئن بن گیا۔ اس کی شاندار کارکردگی سے متاثر ہو کر ناروے کے بادشا ہ نے اسے ملاقات کی دعوت کااعزاز بخشا ۔آرم سٹرانگ نے یہ کہہ کردعوت نامہ مسترد کر دیا کہ جب تک میری ماں کو دعوت نہیں دی جاتی میں یہ دعوت نامہ قبول نہیں کروں گا چنانچہ ناروے کے بادشاہ نے آرم سٹرانگ اور اس کی ماں دونوں کو دعوت نامے بھجوائے اور ان کی عزت افزائی کی

آرم سٹرانگ کی مضبوط قوت ِ ارادی کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ وہ کینسر کو پوری طرح شکست دینے کے لئے 1999ء میں فرانس پہنچ گیا جہاں ہر سال سائیکلنگ کا عالمی مقابلہ ہوتا ہے جسے ٹور دی فرانس [Tour De France] کے نام سے یاد کیاجاتا ہے۔ اس نے اس عالمی مقابلے میں حصہ لیا اور سب کو پیچھے چھوڑ کر ایک بار پھر مقابلہ جیت لیا ۔ اس کے بعد لانس آرم سٹرانگ مسلسل سات برس تک ٹور دی فرانس میں حصہ لیتا رہا اور عالمی چمپئن بنتا رہا اور مسلسل سات برس تک عالمی چمپئن بن کر ایک نیا ریکارڈ قائم کیا جسے ماہرین کے مطابق شاید ایک سو برس تک توڑا نہ جاسکے

اس طرح کے بے شمار واقعات ہیں جن پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اولاد ِ آدم… یعنی اشرف المخلوقات کو ایک ایسی بے بہا صلاحیت، ناقابل تسخیر قوت اور نادر تحفے سے نوازا ہے جس کی تربیت کرکے اور جس سے کام لے کر انسان ناممکن کو ممکن بنا سکتا ہے اور جس کی قوت سے وہ نہ ہی صرف کائنات کو سرنگوں کرسکتاہے بلکہ بڑی سے بڑی مشکلات پر قابو پاسکتا ہے، موذی سے موذی مرض کو شکست دے سکتا ہے، پہاڑوں کے دل روند سکتا ہے، بلند ترین چوٹیوں کو مسخر کرسکتا ہے، سمندروں کے رخ موڑ سکتا ہے اور زندگی میں وہ سب کچھ حاصل کرسکتا ہے جو بظاہر ناممکن نظر آتا ہے

قدرت کی اس بے بہا صلاحیت اور نادر تحفے کا نام ہے قوت ِ ارادی

قدرت فیاض ہے اور قدرت یہ صلاحیت تمام انسانوں کو دیتی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ کچھ لوگ اس صلاحیت سے کام لے کر آسمان کی بلندیوں کو چھو لیتے ہیں، کامیابیوں کی داستانیں بن جاتے ہیں جبکہ اس صلاحیت سے فائدہ نہ اٹھانے والے کرہءِ ارض پر کیڑے مکوڑوں کی طرح رینگتے رینگتے زندگی گزار دیتے ہیں

طالبعلم 10 سال سےلاپتہ

” میرے بیٹے کی خطا یہ تھی کہ اس کے چہرے پر داڑھی تھی” یہ الفاظ ہیں مغلی کے جو پچھلے 10 سال سے اپنے بیٹے کی راہ تک رہی ہے۔ مغلی کا 23 سالہ بیٹا عاشق حسین ملک ساکنہ پیرباغ حیدر پورہ 12ویں جماعت کا طالب علم تھا اور ہائرسکنڈری سکول جواہر نگر میں زیر تعلیم تھا ۔ اپنی روئیداد بیان کرتے ہوئے عاشق کے بڑے بھائی محمد کمال نے کہا ”23 اور 24 مئی 1997ء کی درمیانی رات کو 20 گرینیڈرس جس کی قیادت کمانڈر اے اے ملک کررہے تھے اور ان کے ساتھ ایک نقاب پوش آدمی بھی تھا نے ہمارے گھر پر چھاپہ مارا اور عاشق کو یہ کہہ کر اپنے ساتھ لے گئے کہ محلہ کے ہی ایک اور نوجوان غلام قادر بٹ کا مکان دکھائے” ۔ محمد کمال کا مزید کہنا ہے کہ” بٹ کو فوج پہلے ہی حراست میں لے چکی تھی اور اسکا گھر دکھانے کابہانہ کرکے وہ عاشق کو گاڑی میں دھکیل کر بھاگ گئے”۔

محمد کمال نے بتایا کہ اگلے ہی دن وہ 20 گرینیڈرس کے کیمپ واقع گریند بڈگام پہنچ گئے لیکن وہاں فوج نے انہیں عاشق سے ملنے نہیں دیاجبکہ فوج نے یہ اعتراف کرلیا کہ عاشق اُن ہی کے پاس ہے۔ محمد کمال نے حیرت کا اظہارکرتے ہوئے کہا ”اپنادکھڑا سنانے کیلئے ہم پولیس کے پاس گئے مگرپولیس چوکی ہمہامہ نے ایف آئی آر درج کرنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ ایس پی بڈگام کے ہدایات ہیں کہ فوج کے خلاف کوئی شکایت درج نہ کریں ”۔

محمد کمال کے مطابق پانچ دن کے بعد غلام قادر بٹ کو رہا کیا گیا اور اذیتوں کی داستان سناتے ہوئے بٹ نے انہیں بتایا کہ پورے پانچ دن ان دونوں (عاشق اور بٹ) کو ننگا رکھا گیا اور شدید انٹروگیشن کیا گیا ۔ پانچویں دن کپڑے پہننے کی اجازت دیکر بٹ کو رہا کیا گیا ”۔ کسمپرسی کی دلخراش داستان سناتے ہوئے محمد کمال کہتے ہیں” ایک سال تک ہم متعلقہ فوجی کیمپ کی خاک چھانتے رہے یہاں تک کہ وہ کیمپ وہاں سے دوسری جگہ منتقل ہو گیا”۔ عاشق کے لواحقین نے فوج تو فوج سیاست دانوں اور ذمہ داروں تک کا دروازہ کٹھکھٹایا مگر کوئی نتیجہ حاصل نہ ہوا۔ کمال نے کہا ”ہم متعلقہ ضلع کمشنر سے لیکر وزیر اعلیٰ تک درخواست لے کر پہنچے لیکن وہاں سے خالی ہاتھ ہی لوٹنا پڑا ”۔

عاشق کی عمر رسیدہ ماں مغلی کا کہنا ہے ” انٹروگیشن سنٹروں سے لے کر سب جیل ، سب جیل سے لے کر ہرکسی جیل تک بیٹے کو ڈھونڈا لیکن کہیں کوئی اتہ پتہ نہیں ملا۔ یہاں تک کسی نے ایک بارافواہ پھیلائی کہ عاشق دلی کے تہاڑ جیل میں ہے، وہاں بھی پہنچے لیکن بے سود”۔

محمد کمال نے سٹیٹ ہیومن رائٹس کمیشن کی ساخت پر سوال کھڑا کرتے ہوئے کہا ”کمیشن میں مقدمہ دائر کرنا فضول ہی ثابت ہوا کیونکہ گواہوں کے بیانات قلم بند کرنے کے بعد کمیشن نے فیصلہ سنانے کے بجائے اُنہیں یہ مشورہ دیا کہ کیس واپس لیکر معاوضہ لیجئے ”۔ محمد کمال کے بقول ایس ایچ آر سی نے انہیں یہ کہہ کر اور زیادہ مایوس کیا کہ کمیشن کو فوج کے خلاف کارروائی کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔

محمد کمال نے اپنی مایوسی کا ذکر کرتے ہوئے کہا ”کہ جب ہر جگہ سے خالی ہاتھ ہی لوٹے تو بعد میں ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا یا اور 20 گرینیڈرس اور کمانڈر اے اے ملک کے خلاف مقدمہ زیر نمبر 145/97 دائر کیا۔ ہائی کورٹ نے سیشن جج بڈگام کو تحقیقات کرنے کیلئے حکم نامہ بھیجا ۔ سیشن جج بڈگام نے گواہوں کے بیانات بشمول بٹ کے قلمبند کئے اور پولیس کو ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا اور پولیس نے تب جاکے ایف آئی آرزیر نمبر 18/2005/342,365RPCمورخہ 3 فروری 2005ءکو درج کیا”۔ 2007ء میں منظر پر عام پر آئے زیر حراست ہلاکتوں کے واقعات کے حوالہ سے محمد کمال نے اپنے اندر کے ڈر کو الفاظ کا جامہ پہناتے ہوئے کہا ” گاندر بل اور سمبل کے قبرستانوں سے بے گناہ کشمیریوں کی لاشیں نکالے جانے کے بعد ہماری پریشانیوں میں اور زیادہ اضافہ ہوگیاہے”۔

تحرير ۔ امتياز خان ۔ سرينگر ۔ مقبوضہ جموں کشمير

مياں بيوی ميں جنگ کيسے شروع ہوتی ہے

ايک خاوند گھر ميں اکيلا چھوٹے موٹے کام کر کے فارغ ہو گيا تو سمجھ ميں نہيں آ رہا تھا کيا کرے ۔ ٹی وی آن کيا اور ريموٹ کنٹرول سے چينل تبديل کرنے لگ گيا ۔ اتنی دير ميں بيوی آ گئی اور خاوند کے ساتھ صوفے پر بيٹھ کر بولی

بيوی “جانی ۔ ٹی وی پر کيا ہے ؟”

خاوند “خاک”

اور پھر جنگ شروع ہو گئی

———— ——— ——— ——— ——— ——— ———

بيوی سج دھج کر کہيں جا رہی تھی ۔ خاوند کو خدا حافظ کہا تو وہ بولا

خاوند ” واپس کب آؤ گی ؟”

بيوی ” کيوں ؟ ”

خاوند ” ميرا مطلب ہے کل ہماری شادی کی سالگرہ ہے ۔ کيسے منانے کا ارادہ ہے ؟ ”

بيوی ” ميرا جی چاہتا ہے کہ اب کے شادی کی سالگرہ ايسی جگہ مناؤں جہاں گئے کافی عرصہ ہو گيا ہے ”

خاوند ” تو پھر کيا خيال ہے کل کا دن باورچی خانہ ميں گذاريں ؟ ”

پھر جنگ شروع ہو گئی

بچوں کو لکھنا کيسے سيکھائيں

عنيقہ ناز صاحبہ نے اچھا موضوع چُنا ہے ۔ طريقہ جو بتايا ہے اُس سے ميرے پوتے پوتياں مستفيد ہو سکتے ہيں ۔ ايسے بچے تو پہلے سے ہی اُونچے نام والے سکولوں ميں پڑھتے ہيں ۔ اگر ايسے بچوں ميں تعليم کی کمزوری پائی جاتی ہے تو اس ميں طريقہ تعليم کا کوئی دوش نہيں ۔ اُن کے والدين کی لاپرواہی يا غرور کا نتيجہ ہوتا ہے ۔ اس کے برعکس اصلاحِ طريقہ تعليم کی ضرورت اُن 60 سے 70 فيصد طلباء و طالبات کو ہے جن کے والدين ايسے سُلجھے ہوئے طريقوں پر عمل کرنے سے قاصر ہيں جس کی تين وجوہات ہيں

ايک ۔ والدين اَن پڑھ ہيں يا کم پڑھے لکھے ہيں
دو ۔ والدين گھر کے اخراجات مہيا کرنے ميں اتنے مصروف ہوتے ہيں کہ بچوں کو وقت نہيں دے سکتے

تين ۔ سب سے بڑی وجہ يہ ہے کہ اس طريقہ پر چلنے کيلئے اُن کے پاس وسائل نہيں ہيں

اس کا حل ميں بعد ميں بتاؤں گا پہلے ميری آپ بيتی

اللہ کی کرم نوازی ہے کہ ميں نے بلامعاوضہ پہلی جماعت سے لے کر ايم ايس سی تک کے بچوں کو پڑھايا ہے اور ملازمت کے طور پر 3 سال ايسوسيئيٹ انجنيئر ڈپلومہ کلاسز اور 5 سال بی ايس سی انجنيئرنگ کلاسز کو پڑھايا ہے

ميں نے درجن بھر ننھے بچوں کو سکول داخل ہونے سے پہلے پڑھنا لکھنا سکھايا ۔ ان ميں 4 ميرے مجھ سے 10 سے 15 سال چھوٹے بھائی بہن اور 3 ميرے بچے ہيں ۔ ان سب پر ميں نے بڑے حِلم کے ساتھ محنت کی مگر ميری مجھ سے 15 سال چھوٹی بہن کو پڑھانا اور لکھانا ميرے لئے سب سے بڑا امتحان تھا ۔ ميں نے کہا پڑھو “الف” تو اس نے کہا “پڑھو الف”۔ خير اس سے تو جلدی جان چھوٹ گئی ميں نے صرف الف کہنا شروع کيا ۔ ميں نے کہا “ب”۔ تو بہن نے کہا “نہيں آتا” ۔ ميں نے کہا ” A ” تو اس نے کہا ” A “۔ ميں نے کہا ” B “۔ تو اُس نے کہا “نہيں آتا”۔ ميں نے کہا “ايک” تو اُس نے کہا “ايک”۔ ميں نے کہا “دو”۔ تو اس نے کہا “نہيں آتا”

ميں انجنئرنگ کالج سے گرميوں کی چھٹيوں ميں گھر آيا ہوا اپنا فرض نبھا رہا تھا۔ تين دن ميں پوری کوشش کرتا رہا مگر ميری پياری بہن کا جواب نہ بدل سکا ۔ پھر اس کا ايک حل ذہن ميں آيا ۔ ميں بازار سے اچھے معيار کا سفيد کاغذ اور رنگدار پنسليں لايا اور ايک کاغذ پر رنگدار سيب بنايا اور ساتھ لکھا ” A for Apple “۔ پھر بہن کو دکھا کر کہا ” A for Apple “۔ اُس نے کہا ” A for Apple “۔ ميں نے دوسرے کاغذ پر کرکٹ کا بلا بنايا اور اسے کہا ” B for Bat “۔ تو بلا توقف بہن نے کہا ” B for Bat “۔ اسی طرح انگور کا گچھا بنا کر لکھا الف سے انگور اور بلّی بنا کر لکھا ب سے بلّی اور وہ پڑھتی گئی ۔ گنتی کيلئے بنايا ايک سيب دو ناشپاتی تين آلو بخارے وغيرہ وغيرہ ۔ ميرا نُسخہ کامياب ہو گيا ۔ اس طرح ميں نے اُسے حروفِ ابجد اور Alphabet صرف ايک ماہ ميں پڑھا دی البتہ ميری ڈرائينگ بنانے کی اچھی مشق ہو گئی ۔ لکھنے کيلئے چار لکيری کاپی لايا اُس پر ہلکی پنسل سے ميں لکھ ديتا اور بہن سے کہتا کہ ان لکيروں پر لکيريں لگاؤ مگر ديکھو اگر آپ کی لکير ميری لکير سے باہر نہ گئی تو آپ بادشاہ بنو گی ميں وزير اور اگر آپ کی لکير باہر چلی گئی تو آپ وزير بنو گی اور ميں بادشاہ

ميں نے اس طرح 2 ماہ ميں اپنی اس بہن کو پڑھنا اور لکھنا سکھا ديا تو اُس نے ايسی رفتار پکڑی کہ ہر جماعت ميں شاباش ليتی بڑھتی گئی اور ايم ايس سی بوٹنی کے بعد ايم فِل کيا ۔ ايک سال بعد پی ايچ ڈی بھی کر ليتی اگر اُس کی شادی نہ کر دی جاتی

ہمارا معاشرہ جس ميں 40 فيصد آبادی غربت کی لکير سے نيچے زندگی بسر کر رہی ہے اور مزيد 20 فيصد بمشکل گذارہ کر رہے ہيں وہ اپنے بچوں کيلئے ايسی کاپياں جو عام کاپيوں سے خاصی مہنگی ملتی ہيں کيسے مہيا کر سکتے ہيں ۔ اس مسئلے کا حل تختی اور سليٹ ہے جس کا استعمال دو تين دہائيوں سے ترک کر ديا گيا ہے ۔ تختی پر استاذ پنسل سے لکھ ديتے تھے اور بچے قلم سے لکھتے تھے ۔ اب تو وہ قلميں عجائب گھر ميں بھی نظر نہيں آتيں ۔ سليٹ پر استاذ گنتی سکھاتے ۔ اگر کہيں غلطی ہو جاتی تو مٹا کر درست کرتے اور ساتھ سمجھاتے بھی ۔ ايک تختی اور ايک سليٹ گھر کے سب بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا سکتی ہيں اور اس کے بعد کسی اور کے بھی کام آ سکتی ہيں

تختی پر قلم سے لکھنے کيلئے قلم کو ايک خاص طريقے سے پکڑا اور چلايا جاتا تھا اور دباؤ کا بھی خاص دھيان رکھنا پڑتا تھا ۔ يہ سب کام استاذ سکھاتے تھے ۔ اس سے انگليوں ہتھيلی اور کلائی کے پٹھے موذوں طور پر نشو و نما پاتے تھے اور بعد ميں پنسل يا پين سے لکھنا آسان ہوتا تھا

بچوں کو لکيريں لگانے کا شوق 2 سے 3 سال کی عمر کے درميان شروع ہو جاتا ہے ۔ ايک طرف سے استعمال شدہ کاغذ خاصی تعداد ميں سنبھال رکھيئے ورنہ بازار سے نيا سفيد کاغذ لے آيئے اور آدھی لمبائی والی رنگدار پنسليں بھی ۔ بچے کو رنگدار پنسليں ديجئے اور ايک ايک کر کے کاغذ ديتے جايئے ۔ اس بات کا خاص خيال رکھيئے کہ بچہ پنسل يا کاغذ منہ کی طرف نہ ليجائے ۔ پنسل کی صورت ميں وہ اُسے کاٹے گا اور اس کي نوک ٹوٹ کر بچے کے حلق ميں اٹک سکتی ہے جو پريشانی کا باعث بنے گی ۔ کاغذ بچہ تيزی سے منہ ميں ڈال کر کھينچتا ہے ۔ اس صورت ميں کاغذ کا چھوٹا ساٹکڑا منہ ميں رہ سکتا ہے جس کا اُس وقت پتہ چلتا ہے جب تالو يا حلق سے چپک کر مصيبت کھڑی کر ديتاہے ۔ بچے کو محدود وقت کيلئے پنسليں ديجئے اور پھر لے کر چھپا ديجئے ورنہ آپ کے گھر کی ديواريں آپ کے کپڑے بچے کا جسم يا جو کچھ اُسے مل جائے اُس پر ابسٹريکٹ آرٹ [abstract art] کے نمونے بن جائيں گے

اِس کا ديرپا حل کيا ہے؟

ميں جانتا ہوں کہ مندرجہ ذيل خبر پڑھنے پر انٹرنيٹ صارف اس عمل کو جاہليت بھی قرار دے سکتے ہيں ليکن ميرا صرف ايک سوال ہے کہ اِس کا حل کيا ہے ؟ کيا اپنے دين کی توہين اور قرآن شريف ميں تحريف برداشت کر لی جائے ؟

لاہور ہائی کورٹ بہاولپور بنچ نے گستاخانہ مواد کی اشاعت اور قرآن پاک میں تحریف کے الزامات پر 9 ویب سائٹس یاہو، ایم ایس این، ہاٹ میل، یو ٹیوب ، گوگل ، اسلام ایکسپوزڈ، ان دا نیم آف اللہ ، امیزون اور بنگ کو فوری طور پر بلاک کرنے کا حکم دیا ہے۔ عدالت عالیہ بہاولپور بنچ نے بہاولپور کے ایک شہری محمد صدیق کی طرف سے دائر کردہ رٹ پٹیشن نمبر3246/2010 پر چیئرمین پی ٹی اے کو ہدایت جاری کی اور 28 جون کو ریکارڈ سمیت پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔ وفاق کی طرف سے ڈپٹی اٹارنی جنرل محمد حسین آزاد نے بھی رٹ پٹیشنر کے مؤقف کی تائید کی۔ جسٹس مظہر اقبال کی عدالت میں مدعی کے وکیل لطیف الرحمن ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اِن ویب سائٹس پر توہین آمیز موادموجود ہے، عدالت کو اس حوالے سے سی ڈی اور ریکارڈ بھی پیش کیا گیا، جس پر عدالت نے مذکورہ ویب سائٹس کو بلاک کرنے کا حکم دیا، ڈپٹی اٹارنی جنرل محمد حسین آزاد نے بتایا کہ انہوں نے پٹیشنر کی پٹیشن اور اس کا مطالبہ دیکھتے ہوئے عدالت میں خود استدعا کی کہ ان ویب سائٹس جن پر گستاخانہ مواد شائع کیا جارہا ہے کو فوری بلاک کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ان ویب سائٹس پر اس قسم کے مواد کا شائع ہونا نہایت قابل مذمت ہے اور مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ ہم اس کی جتنی مذمت کریں اتنا کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت نے پٹیشنر اور میری استدعا پر ان ویب سائٹس کو بلاک کرنے کا حکم دیا۔ بعد ازاں صدر ہائیکورٹ بار اسلم دھکڑ نے کہا کہ عدالت نے تاریخی فیصلہ دیا ہے ، انہوں نے کہا کہ بہاو لپور کے وکلا آج مکمل ہڑتال کریں گے اوراس سلسلہ میں خصوصی اجلاس بھی طلب کر لیا ہے۔

عسکريت پسندی ۔ وجہ ۔ مدرسے يا پبلک سکول ؟

امریکی تھنک ٹینک کی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں دینی مدرسے نہیں بلکہ سرکاری تعلیم کا ناقص نظام عسکریت پسندی کے فروغ کی وجہ بن رہا ہے ۔ بروکنگز انسٹيٹیوٹ کی رپورٹ جو آج جاری کی جارہی ہے میں عسکریت پسندی اور تعلیم کے درمیان تعلق کا جائزہ لیا گیا ہے ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سکولوں ميں اندراج کی کم شرح تشدد کا رجحان بڑھانے کا خطرہ پیدا کررہی ہے جبکہ تعلیم کے مواقع فراہم کرنے کے بارے میں پاکستان کی صلاحیت طلب سے بہت کم ہے

پاکستان کا سرکاری تعلیمی نظام بہت زیادہ کرپٹ ہے اور محکمے میں عہدے سیاسی بنیادوں پر دیئے جاتے ہیں جبکہ اساتذہ چاہے کلاسیں لیں یا نہ لیں انہیں تنخواہ ملتی رہتی ہے ۔ پاکستان میں ہر آنے والی حکومت تعلیم کو اپنے سیاسی عزائم پورا کرنے کیلئے آلے کے طور پر استعمال کرتی رہی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق سرکاری اسکولوں کا نصاب اور طریقہ تدریس عدم برداشت کو جنم دینے کا سبب بننے کے علاوہ طلباء کو لیبر مارکیٹ کے مطابق تیار کرنے میں بھی ناکام ثابت ہورہا ہے ۔ جس سے نوجوان مایوسی کا شکارہورہے ہیں اور نتیجتاً عسکریت پسندوں کی بھرتی کا دائرہ بڑھ رہا ہے

بروکنگز کے ماہرین کے مطابق دینی مدارس کے بارے مغرب میں پایا جانے والا یہ تصور غلط ہے کہ وہ عسکریت پسندی کو فروغ دے رہے ہیں کیونکہ صرف اسکول جانے کی عمر کے بچوں کا 10 فیصد سے بھی کم مدرسوں میں جاتا ہے ۔ اس لئے انہیں اچھی تعلیم اور استحکام میں رکاوٹ سمجھنا غلط ہے جبکہ سیکیورٹی کیلئے چیلنج سمجھتے ہوئے صرف مدرسوں پر توجہ مرکوز کرنے کی غلطی کی بھی تصحیح ہونی چاہیئے ۔ ماہرین کے مطابق پاکستان میں صرف 54 فیصد آبادی پڑھ سکتی ہے اور 5 سے 9 سال کی عمر کے 68 لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے جبکہ ایک چوتھائی سے بھی کم لڑکیاں ابتدائی اسکول کی تعلیم مکمل کرپاتی ہیں ۔ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ اسکولوں تک رسائی کی کمی تنازعات اور عسکریت پسندی کے فروغ کا سبب بنتی ہے

رائٹرز کی رپورٹ

لطيفے شعبہ انجنئرنگ کے

شعيب صفدر صاحب نے وکالت کا لطيفہ لکھ کر سب کو صلاح دی ہے کہ اپنے اپنے پيشہ سے متعلق لطيفہ لکھيں ۔ مجھے تين واقعات ياد آئے ہيں جو لطيفے کی مد ميں آتے ہيں ۔ ايک انجنيئرنگ کالج ميں تعليم کے زمانہ کا ۔ ايک ملازمت کے زمانہ کا اور ايک اُن کا جو سب کچھ جانتے ہيں

ڈاکٹر مبشر حسن جو ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے دور ميں وزير ماليات تھے نے پڑھاتے ہوئے بتايا کہ “نہر ميں مٹی يا ريت پانی کی سطحی تہہ ميں سب سے کم اور سب سے نچلی تہہ ميں سب سے زيادہ ہوتی ہے ۔ يہ مٹی يا ريت نہر ميں بيٹھ جاتی ہے جس سے بہنے والے پانی کا راستہ کم سے کم ہوتا چلا جاتا ہے” ۔ [In canal, silt is minimum in the upper most layer of water and maximum in the lowest layer. This silt settles down at bottom of the channel thus reducing flow channelاچانک اُنہوں نے پوچھا کہ “اس کا حل کيا ہونا چاہيئے ؟” ايک طالب علم بولا “سب سے نچلی تہہ کو ہٹا ديا جائے” [Lowest layer of water should be removed]

پاکستان آرڈننس فيکٹری ميں نئے چيئرمين آئے فيکٹری کے دورے کے بعد اُنہوں نے سٹورز کا بھی دورہ کيا ۔ ايک سٹور ميں انہوں نے ديکھا کہ کچھ ميٹيريل[material] زنگ آلود [rusty] ہے ۔ وجہ پوچھی تو بتايا گيا کہ گريس [greese] نہيں لگائی اسلئے زنگ لگ گيا ۔ چيئرمين صاحب نے حکم ديا کہ “سب ميٹيريل کو گريس لگائی جائے”۔ اگلے ماہ چيئرمين صاحب کے پاس گرائنڈنگ وہيلز [grinding wheels] کی درآمد کی منظوری کيلئے ايک بہت بڑا مطالبہ پہنچا ۔ چيئرمين صاحب نے پريشان ہو کر پوچھا کہ “سٹور ميں اتنے زيادہ گرائنڈنگ وہيلز ميں نے خود ديکھے تھے ۔ وہ کيا ہوئے ؟” جواب ملا کہ “ان کو گريس لگی ہوئی ہے اسلئے وہ گرائندنگ کا کام نہيں کرتے”

واہ کے دورہ پر آئے ہوئے کراچی کے ايک وفد کو اُن کی خواہش پر پاکستان آرڈننس فيکٹريز فيکٹری کی سير کرائی گئی جس ميں اُنہيں صرف بندوق کے کارتوسوں کے خول [cartridge cases] بنتے دکھائے گئے تھے ۔ ميں کراچی گيا اور اپنے ماموں کے پاس قيام کيا جو اُن دنوں پی ای سی ايچ ايس ميں رہتے تھا ۔ شام کو اُن کے ساتھ سنٹرل ہوٹل کے مالک اپنے ايک عزيز بزرگ مرحوم عبدالکريم صاحب سے ملنے گئے ۔ اُنہيں ميں چچا کہتا تھا ۔ چچا کے پاس کچھ اُن کے مقامی دوست بيٹھے تھے ۔ جب چچا نے ميرا تعارف کرايا تو ايک صاحب بولے “آپ کی فيکٹری لِپ سٹِک پاؤڈر کے علاوہ اور تو کچھ بنا نہ سکی”۔ ميں نے پہلے اُن کی طرف پھر چچا کی طرف ديکھا تو چچا مُسکرا کر بولے “ہاں ۔ ان کے سوال کا جواب دو”۔ ميں نے کہا “جناب پی او ايف اسلحہ بنانے کا کارخانہ ہے آپ کو کس نے بتايا ہے کہ وہاں لِپ سٹِک پاؤڈر بنتا ہے ؟” بولے “ميرے گھر پر ثبوت موجود ہے ۔ ميں وہاں گيا تھا اور لِپ سٹِک کا ايک خول اُٹھا لايا تھا”۔ اُس زمانہ ميں لِپ سٹِک کا خول بھی پيتل کا ہوتا تھا ۔ موصوف نے کارتوس کے خول کو لِپ سٹِک کا خول سمجھ ليا تھا