Monthly Archives: May 2010

اگر يہ حقيقت ہے ۔ ۔ ۔

بينظير بھٹو نے 24 ستمبر 1990ء کو ايک خط امريکی سنيٹر پیٹر گلبرائتھ کو بھيجا تھا جس کا اُردو ترجمہ اور عکس پيشِ خدمت ہے

عزیز پیٹر گلبرائتھ

مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ آپ کے اُن احسانات کا کس طرح شکریہ ادا کروں جو آپ نے مجھ پر اور میرے خاندان پر کرے ۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہوگا کہ میری حکومت کی برطرفی کے احکامات جی ایچ کیو میں لکھے گئے اور میرے لئے فوج سے ٹکر لینا ممکن نہیں تھا تو وہ میری حکومت کو گرانے میں کامیاب ہو گئے

میں پہلے ہی کانگریس میں موجود دوستوں بالخصوص اسٹیفن سولاران سے درخواست کر چکی ہوں کہ وہ صدر بش کہ ذریعے صدر اسحاق اور پاکستانی فوج پر بھرپور دباؤ ڈلوائیں کہ وہ لوگ مجھے نا اہل قرار نہ دیں کیونکہ یہ بہت ناانصافی ہو گی بلکہ جمہوری اُصولوں کی بھی منافی ہو گا جن کے لئۓ ہم نے بہت جدوجہد کری ہے

جب تک میں حکومت میں تھی تو میں نے نیوکلیَر ہھتیاروں پر کڑی نظر رکھی پر اب مجھے اس حکومت کے ارادوں کا اندازہ نہیں

یہ بہت بہتر ہو گا کہ پاکستان کو دی جانے والی دفاعی اور معاشی امداد روک دی جائے اور تمام عالمی ادارے جیسے ورلڈ بینک ، آئی ایم ایف کو ہدایت دی جائے کہ پاکستانی حکومت کو ہر طرف سے ڈرایا جائے اور اس کے ساتھ ہی پاکستان کو دی جانے والی تمام امداد روک دی جائے تاکہ عام پاکستانی کی زندگی مکمل طور پر رُک جائے

ایف ۔ 16 طیاروں اور اُن کے فاضل پرزہ جات کی رسد کی روک تھام بھی فوج کی عقل ٹھکانے لے آئے گی

عزیز پیٹر بھارتی وزیرِ اعظم پر بھی اپنا اثر استعمال کر کے پاکستانی فوج کو سرحد پر پھنسانے کی کوشش کریں تاکہ فوج میرے راستے میں رکاوٹ نہ ڈال سکے ۔ کاش راجیو گاندھی بھارت کے وزیرِاعظم ہوتے تو بہت سے کام آسان ہو جاتے

شکريہ ۔ پُرشوق تسليمات کے ساتھ

آپ کی مخلص

بے نظیر بھٹو

اظہارِ خيال کی آزادی کا ڈھونگ

کُفار تو ازل سے اسلام کے دُشمن ہيں اور رہيں گے ليکن وہ جو اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہيں ليکن مسلمانوں کے ردِ عمل کو کبھی جھوٹ کبھی منافقت اور کبھی انتہاء پسندی کہتے ہيں اور پھر بھی تسلی نہ ہو تو دہشتگرد قرار ديتے ہيں ۔ اگر حقائق اور اُن کے عمل پر غور کيا جائے تو وہ خود منافق ثابت ہو جاتے ہيں

فرنگيوں کے اظہارِ رائے کی آزادی کے دعووں کی قلعی حقيقی واقعات کی مثاليں دے کر چار پانچ سال قبل کھول چکا ہوں ليکن فرنگيوں کے اندھے پيروکاروں کو نہ سمجھ آئی ہے اور نہ سمجھ آنے کی توقع ہے کيونکہ سوئے ہوئے کو جگايا جا سکتا ہے مگر جاگتے کو نہيں

1 ۔ کرتے ہيں مجبور مجھے

2 ۔ آزادی اظہارِ خيال ہے کس مُلک ميں ؟

3 ۔ ہاتھی کے دانت ؟؟؟

4 ۔ تازہ ترين ثبوت

5 ۔ اظہارِ خيال کی آزادی کا بھانڈہ پھر پھوٹ گيا

بے چاری بيوی يا بے چارہ خاوند ؟

دفتر کی بَک بَک زيادہ رہی ۔ بھنايا ہوا خاوند شام کو گھر پہنچا
لٹکا چہرہ دیکھ کر بيوی بولی “کيا ہوا ؟ ”
خاوند “دفتر والے ۔ ۔ ۔ ”
بيوی بات کاٹ کر “يہ مرد ہوتے ہی بہت بُرے ہیں”
خاوند “کيوں ؟”
بيوی “يہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے ؟ عورتوں کو گھر میں بند رکھتے ہیں ۔ عورتوں پر ظُلم کرتے ہيں ۔ راہ جاتی عورتوں کو چھڑتے ہيں ۔ بدتميز”
خاوند “ميں ؟ بدتميز ؟ ”
بيوی ” تمہيں تو نہیں کہہ رہی ۔ یہ مردوئے”
خاوند “ميں بھی تو مرد ہوں ”
بيوی ” تم نے کونسا مجھے عرشں پہ بٹھا رکھا ہے ؟”
خاوند ” تمہاری ہر ضرورت پوری کرتا ہوں ۔ کبھی تو خيال کر ليا کرو کہ میں سارے دن کا کھپا ہوا آتا ہوں اورآتے ہی تم شروع ہو گئی ہو”
بيوی “ہاں ہاں ميں تو سارا دن يہاں سوئی رہتی ہوں ۔ گھر کا کام کاج تمہاری دوسری بيوی کرتی ہے کيا ؟”
خاوند ” کپڑے اور برتن دھونا اور گھر کی صفائی ملازمہ کرتی ہےاور سبزی بھی کاٹ ديتی ہیں ۔ تم نے صرف ہنڈيا پکانا ہوتی ہے”
بيوی “ميری تو قسمت ہی پھُوٹ گئی جو اس گھر میں آئی ۔ سارا دن کی کھپ کھپائی اور کوئی قدر ہی نہیں”
خاوند ” اور وہ جو تمہاری روزانہ کی روئيداد سنتا ہوں سب گھروں میں باری باری ہونے والی عورتوں کی محفلوں کی ؟”
بيوی ” ہاں ہاں ۔ قيد کردو ۔ گھر پہ پہرے بٹھا دو ۔ ميری قسمت میں ايک دن کی خوشی نہ ہوئی اس گھر میں ۔ اب ملنے واليوں پر بھی پابندی ۔ کل پتہ نہيں کيا ہو گا”

اور بيوی رونے لگتی ہے

خاوند جو اب تک اپنا بيگ اُٹھائے کھڑا تھا کمرے میں جا کر اپنے بستر پر گر جاتا ہے اور اُسی طرح سو جاتا ہے
اگلی صبح اُٹھتا ہے تو ناشتہ تيار نہ ہونے کی وجہ سے بغير ناشتے دفتر چلا جاتا ہے

دفتر سے واپس آتا ہے تو گھر میں جيسے کوئی ماتم ہو گيا ہو ۔ کچھ عورتیں جمع ہیں ۔ بيوی رو رہی ہے ۔ دو تين اور بسور رہی ہيں ۔ کوئی بيوی کو سمجھا رہی ہے اور کوئی مردوں کو کوسے جا رہی ہے

خاوند گبھرا کر “کيا ہوا ؟ يہ سب کيا ہے ؟ يہ ماتم کيسا ؟”
ایک بڑی بی بولتی ہيں ” اے نگوڑے کہاں چلا گيا تھا تُو ۔ بہو صبح سے بلک رہی ہے ۔ کيا حال ہو گيا ہے بيچاری کا”
خاوند ” میں ؟ ميں نے کہاں جانا ہے ؟ دفتر نہ جاؤں تو گھر کيسے چلاؤں ؟”

ايسا يا اس سے ملتا جلتا کھيل اکثر تعليميافتہ گھرانوں ميں ہوتا ديکھا گيا ہے

تعليم يافتہ دہشتگرد

گذشتہ شام کراچی کے مختلف علاقوں میں جاری ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں
23 افراد ہلاک
21 سے زائد زخمی
5 گاڑیاں اور کئی کھوکھے نذرآتش
تمام تعلیمی ادارے بند ۔ آج ہونے والے تمام پرچے بھی ملتوی
کاروبارزندگی مفلوج
مسلح افراد نے فائرنگ کرکے پولیس اہلکار کو ہلاک کردیا
دکانیں اور کاروبار بند کرا دیا
ابتداء مختلف جگہوں پر اے اين پی کے 3 کارکن ہلاک کرنے سے ہوئی

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ ٹھکانہ ؟

تین دہائیاں پیچھے کی بات ہے کہ میری خالہ زاد بہن کی بیٹی جو میری بیوی کی بھانجی ہے ہمارے ہاں راولپنڈی آئی ہوئی تھی ۔ وہ اپنی خالہ سے کہنے لگی “خالہ دیکھیں نا ۔ ہم نے یہاں سے کراچی جانا ہو راستہ میں وزیرآباد کے سٹیشن پر اُتریں تو وہاں کیا ہم اپنا گھر بنا لیں گے اور وہیں رہنا شروع کر دیں گے ؟”
میری بیوی نے جواب دیا “نہیں” اور حیرانی سے بھانجی کی طرف دیکھنے لگی
وہ بولی “جب ہماری منزلِ مقصود وہ ہمیشہ رہنے والی دنیا ہے جہاں جنت بھی ہے تو پھر لوگ اس دنیا کو پکا ٹھکانہ کیوں سمجھ لیتے ہیں ؟”

میرا دوسرا بلاگ ” حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter
کھول کر پڑھيئے کہ بھارت ميں دہشتگردی کون کرتا ہے جس کا الزام پاکستان يا مسلمانوں پر لگايا جاتا ہے

ہم سب دہشتگرد نہيں تو تماشبين ضرور ہيں

ہمارے ملک میں یہ سلسلہ چل نکلا ہے کہ سیکورٹی ادارے جب کسی کو گرفتار کرنے نکلتے ہیں تو میڈیا کی ٹیموں کو بھی ساتھ لے لیتے ہیں جس کے باعث جہاں ایک طرف ميڈيا کے اس ادارے کی شہرت میں اضافہ ہوتا ہے وہاں ان اہلکاروں کی ترقی کی راہ بھی ہموار ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ہمارے جديديت پسند ہموطن ايسی خبر کو لے اُڑتے ہيں اور بڑھ چڑھ کر کسی خاص کميونٹی کی مذمت شروع ہو جاتی ہے يہاں تک کہ دين اسلام کو بھی نہيں بخشا جاتا۔ ہونا تو يہ چاہيئے کہ پڑھے لکھے لوگ “کُتا کان لے گيا” سُنتے ہی کُتے کے پيچھے بھاگنا شروع کرنے سے پہلے يہ تو ديکھ ليں کہ کان اپنے سر کے ساتھ ہی لگا ہے يا واقعی کُتا اُتار کر لے گيا ہے ؟

اشتياق بيگ کے مضمون سے اقتباس
دنیا بھر میں قانون کا یہ اصول ہے کہ آپ اس وقت تک بے گناہ ہیں جب تک آپ مجرم ثابت نہ ہوجائیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ یہاں آپ اس وقت تک مجرم تصور کئے جاتے ہیں جب تک آپ اپنی بے گناہی ثابت نہ کردیں۔ کچھ اسی طرح کا واقعہ 9 مئی بروز اتوار صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے فیض محمد کے ساتھ ہوا جو مسقط میں سول انجینئر کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دے رہا تھا۔ سالانہ تعطیلات اپنی فیملی کے ساتھ کراچی میں گزارنے کے بعد وہ تھائی ایئر ویز کی ایک پرواز کے ذریعے مسقط جانے کے لئے کراچی ایئر پورٹ پہنچا ۔جسمانی تلاشی کے دوران جب وہ ا سکینرز سے گزرا تو ا سکینرز کے الارم بج اٹھے، فیض محمد کے جوتوں سے الیکٹرک سرکٹ برآمد ہوا۔

فیض محمد نے سیکورٹی اہلکاروں کو بتایا کہ اس نے یہ جوتے لائٹ ہاؤس میں واقع استعمال شدہ جوتوں کی ایک دکان سے خریدے تھے اور ان جوتوں کے اندر اور باہر وائبریٹرزتحریر تھا۔ دکاندار نے اسے بتایا تھا کہ انہیں پہننے سے آرام ملتا ہے چونکہ مسقط میں اسکا کام زیادہ تر کھڑے رہنے کا تھا اسلئے اس نے یہ جوتے خرید لئے اور اس سے پہلے بھی وہ ان جوتوں میں مسقط جا چکا ہے۔ مگر کسی نے اس کی باتوں پر یقین نہ کیا اور اسے ہتھکڑی لگاکر ایک ”دہشت گرد“ کے طور پر میڈیا کے سامنے پیش کیا گیا ۔ اے ایس ایف کا دعویٰ تھا کہ ملزم کے جوتوں میں چھپا سرکٹ دھماکہ خیز مواد میں نصب کرکے دھماکہ کرنے میں استعمال ہوتا ہے۔ تھوڑی ہی دیر میں ملک بھر کے ٹی وی چینلز ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کیلئے فیض محمد کو ایک ”دہشت گرد“ کے طور پر پیش کررہے تھے اور اس کا بھرپور میڈیا ٹرائل کیا جارہا تھا۔ ملکی اور غیر ملکی تمام ٹی وی چینلز اس کی گرفتاری کی خبریں نمایاں طور پر نشر کررہے تھے۔ پرنٹ میڈیا بھی الیکٹرونک میڈیا سے پیچھے نہ تھا

اس واقعہ سے پورے ملک کی بدنامی ہوئی اور ملک بھر میں موجود پاکستانیوں کی تشویش میں اضافہ ہوا جو پاکستانیوں اور دیگر مسلمانوں پر مسلسل دہشت گردی کے الزامات سے پہلے ہی پریشان تھے۔ فیض محمد کو مزید تفتیش کے لئے ایئر پورٹ پولیس کے حوالے کردیا گیا جہاں محکمہ داخلہ کے حساس اداروں، سی آئی ڈی، ایس آئی یو اور انویسٹی گیشن پولیس پر مشتمل ایک جوائنٹ انٹروگیشن ٹیم تشکیل دی گئی۔ دو دن کی تفتیش کے دوران انویسٹی گیشن پولیس ٹیم شہر کی مختلف مارکیٹوں سے ویسے ہی جوتے خرید کر لے آئی جیسے فیض محمد نے پہن رکھے تھے اور ان جوتوں میں ویسا ہی سرکٹ نصب تھا

بعد میں اخباروں نے ایک چھوٹی سی خبر شائع کی جس میں تحریر تھا ”مشتبہ جوتے رکھنے والا زیر حراست نوجوان فیض محمد بے گناہ قرار پایا ہے اور اسے رہا کردیا گیا ہے۔“اخبارات میں شائع اس کی بے گناہی اور اس کے دہشت گرد سے متعلق ایک چھوٹی سی تردید اس پر لگا ہوا ”دہشت گرد“ کالیبل اور اس کی تکالیف و مشکلات کا ازالہ نہیں کرسکی۔ فیض محمد کی ”دہشت گرد“ کے طور پر گرفتاری کی خبریں مسقط میں اس کی کمپنی تک بھی پہنچ چکی تھیں جس کے باعث اسے ملازمت سے برطرف کردیا گیا اور وہ روزگار سے محروم ہوگیا۔

اس طرح بے گناہ شخص کو شدید ذہنی کوفت اور بے پناہ مشکلات سے دوچار کردیا اور اس کی سزا فیض محمد کے ساتھ اس کے والدین، بیوی اور بچوں کو بھگتنا پڑی۔اگر اس طرح کا واقعہ امریکہ اور یورپ میں پیش آتا تو متاثرہ شخص ان اداروں کے خلاف ہرجانے کا دعویٰ دائر کرکے کروڑ پتی بن سکتا تھا لیکن افسوس کہ ہمارے ملک میں اس طرح کی کوئی روایت یا قانون نہیں۔

بہترين خاوند

مغربی دنيا ميں عورتوں کا بہت احترام کیا جاتا ہے ۔ اس حوالے سے مغربی دنيا کے ايک رسالے نے مقابلہ منعقد کيا اور کچھ نمائندہ تصاوير شائع کيں جو حاضر ہيں

برطانيہ

رياستہائے متحدہ امريکہ

پولينڈ

يونان

دوسرے نمبر پر آنے والا سربيا

بہترين خاوند آئر لينڈ ۔ جہاں خاوند اپنی محبت کے اظہار ميں اپنی بيوی کا ہاتھ تھامے رکھتے ہيں