کيا فرنگی بھی ايسا ہی کرتے ؟

اگر خدا نخواستہ کوئی پاکستانی يورپ يا امريکہ ميں کوئی معمولی سی ايسی حرکت کر بيٹھتا جو کسی عيسائی يا يہودی کو پسند نہ ہوتی تو اُس پاکستانی کو اگر دہشتگرد قرار دے کر قيد نہ کر ديا جاتا تو ناپسنديدہ شخص قرار دے کر دو تين گھنٹوں ميں مُلک بدر کر ديا جاتا

ايک فرنگی ملک کی صحافی عورت جو اُس گُستاخ اخبارکيلئے کام کرتی ہے جس ميں رسولِ اکرم صلی اللہ عليہ و آلہ و سلم کے جعلی خاکے چھپے تھے اور اُس نے معافی مانگنے سے بھی انکار کيا تھا پاکستان آئی ہوئی ہے اور متذکرہ مطعون خاکوں کی نقول تقسيم کرتے ہوئے پکڑی گئی ۔ متعلقہ پاکستانی حکام نے قانون کے مطابق اُس کا ويزہ منسوخ کر ديا اور اُسے فوری طور پر پاکستان چھوڑنے کا حُکم ديا ۔ جمعہ 14 مئی 2010ء کو ايف آئی اے کے اہلکار اُسے ايئرپورٹ پہنچانے کيلئے اُس کی رہائش گاہ پر پہنچ گئے ليکن ۔ ۔ ۔

آخری لمحات ميں اسلام آباد پوليس کے ايک اعلٰی عہديدار کو کسی غيرملکی نے کہا کہ “صحافی عورت کو بے عزت نہ کيا جائے اور اُسے تين چار دن بعد باعزت طريقہ سے جانے ديا جائے”۔ اسلام آباد پوليس کے اُس اعلٰی عہديدار نے جو بڑا خوش اخلاق مشہور ہے اُس غيرمُلکی کی حُکم بجا آوری کرتے ہوئے اُس گُستاخ صحافی عورت کے خلاف کاروائی روک دی ۔ کيا خوش اخلاقی مُلکی قوانين سے زيادہ اہم ہے ؟
بشکريہ ۔ دی نيوز

مجھے 40 سال پرانا ايک واقعہ ياد آيا جب ميں پروڈکشن منيجر تھا ۔ ميں نے اپنے ماتحت ڈيزائن آفس کے فورمين کو ايک خاص تربيت کيلئے 3 ماہ کيلئے جرمنی بھجوايا ۔ 3 ہفتے گذرے تھے کہ ايک اعلٰی عہديدار نے بتايا کہ اُسے واپس بھيجا جا رہا ہے ۔ ميں نے فوری طور پر ايک خط جرمنی اپنے سفارتخانے کو تفصيل معلوم کرنے کيلئے بھيجا ۔ ہفتہ ميں ايک بار ڈپلوميٹک بيگ جاتا تھا جو کہ دو دن قبل جا چکا تھا اسلئے ميرا خط ايک ہفتہ بعد ملا اور اس وقت تک اُسے واپس بھيجا جا چکا تھا جو پيسے وہ خرچ کر چکا تھا واپس کرنا پڑے چنانچہ وہ مقروض ہو گيا

ہوا يوں کہ وہ فورمين اسلامی شرع کا پابند تھا ۔ وہ حرام سے بچنے کيلئے پھل انڈے مکھن ڈبل روٹی بند وغيرہ کھاتا تھا ۔ دفتری اوقات کے دوران ظہر اور عصر کی نمازوں کا وقت ختم ہو جاتا تھا ۔ يہ دونوں نمازيں وہ ڈيزائن آفس ميں پڑی ايک الماری کے پيچھے پڑھتا تھا تا کہ دوسرے ڈِسٹرب نہ ہوں ۔ اس کے باوجود اُس کو ناپسند کيا گيا اور اُسے پاکستان واپس بھيج ديا گيا ۔ بہانہ يہ بنايا گيا کہ وہ کچھ کھاتا پيتا نہيں ہے اسلئے مر جائے گا ۔ ميں اُس فورمين کا انچارج تھا اور ميں نے ہی اُسے حکومت سے منظوری لے کر بھجوايا تھا اور جس کمپنی ميں وہ تربيت لے رہا تھا وہ مجھے 4 سال سے جانتے تھے ۔ جرمنی ميں پاکستانی سفارتخانے ميں ايک ٹيکنيکل اتاشی بالخصوص ہمارے ادارے کے معاملات کو ديکھنے کيلئے موجود تھا ۔ کمال يہ ہے کہ نہ مجھ سے کسی نے بات کی اور نہ ٹيکنيکل اتاشی سے اور اُسے واپس بھيج ديا گيا

This entry was posted in خبر, روز و شب on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

9 thoughts on “کيا فرنگی بھی ايسا ہی کرتے ؟

  1. arifkarim

    ہاہاہا۔ اچھا واقعہ ہے۔ دیکھ لیں، یہی فرنگی ہمارے ملک میں جب بلیک واٹر کی ٹکٹ پر آتے ہیں تو ہمارے باشندوں کو ہمارے ہی ملک میں ذلیل و خوار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔
    مگر جو ہم انکے ملک میں‌جاتے ہیں تو ایک چھوٹا سا قانون بھی ٹوٹ جائے، یا انکے ضابطہ زندگی سے بیزاری کا اظہار کیا جائے تو ملک سے دفع ہوجانے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں :(

  2. یاسر خوامخواہ جاپانی

    قانون پر اس وقت عمل ھو گا۔ جب رگوں میں دینی و قومی غریت کو بیدار رکھنے والا خون دوڑ رھا ھو۔جن کا دین ایمان پیسہ ھو۔اور چٹی چمڑی کی پوجا جن کی شست ھو۔ان سے ھم کیا امید کر سکتے ھیں۔یہی حرافہ اگر انڈین ھوتی تو پھر دیکھتے آپ ان غلیظ افسران کی آنیاں جانیاں طیعت مکدر ھوئی اور زبان تھوڑی ترش ھوگئی آپ سے اس کی معذرت

  3. جاویداقبال

    السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
    واقعی یہ توبہت افسوس کی بات ہے۔ دراصل ہم لوگ نظرتوآزادآتےلیکن لیکن ہم بنیادی طورپران امریکیوں کےغلام ہیں۔ اورجوذہنی طورپرغلام ہوں توان کایہی حال ہوتاہے۔

    والسلام
    جاویداقبال

  4. فکر پاکستان

    وہ وہاں سے بیٹھ کر ہم پر حکومت کرتے ہیں ۔۔ اور ہم ان کی غلامی کرنے پر مجبور ہیں ۔۔ کیونکہ ہم اس قابل نہیں کہ ان کا مقابلہ کر سکیں ۔۔ ہم نے اپنی کشتیاں اپنے ہاتھوں سے جلائی ہیں ۔۔ اور اب ہم ان کے رحم و کرم پر ہیں ۔۔ یہ تلخ حقیقت ہے ہم جلنے کڑھنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے ۔۔۔

  5. افتخار اجمل بھوپال Post author

    جاويد اقبال ۔ سعد اور فکرِ پاکستان والے صاحبان
    السلام عليکم و رحمة اللہ و برکاة
    آپ کا خيال درست ہے ليکن ہم ميں سے ہر ايک کو اپنی سی کوشش کرنا چاہيئے

  6. فرحت کیانی

    السلام علیکم
    یہ کوئی نئی بات تو نہیں ہے۔ ہم لوگ اس وقت جس بے حسی کے دور سے گزر رہے ہیں ایسے واقعات تواتر سے رونما ہوں گے۔
    ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات

    اجمل انکل آپ کا بلاگ میرے پاس کافی دنوں سے نہیں کُھل رہا۔ بلکہ یوں کہنا چاہئیے کہ لائبریری میں نہیں کُھلتا جبکہ میں اپنا وائرلیس انٹرنیٹ استعمال کر رہی ہوں تو کُھل جاتا ہے۔ کہیں اپنی جمہوریت پسند حکومت نے سرکاری طور پر بھی تو بلاگ پر کوئی پابندی تو نہیں لگا دی؟ :(

  7. فرحت کیانی

    شاید ایسا ہی ہو۔ کافی دنوں سے ایسا ہو رہا تھا تو میں پریشان ہو گئی۔
    انکل میرے نام کے ساتھ صاحبہ نہیں لکھا کریں پلیز۔ اجنبی سا لگتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.