راجہ داہر اور گاندھی کن کے ہيرو ہيں

پچھلے دنوں ايک نئے اُردو بلاگر اطہر ہاشمی صاحب نے حاجی عديل صاحب کے راجہ داہر کو ہيرو کہنے کا ذکر کيا ۔ اتفاق سے ميں اس کے متعلق ايک تاريخ دان کی تحرير نقل کرنے ہی والا تھا ۔ سو حاضر ہے

غزوہ بدر میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوچکی تو ایک روز حضرت ابوبکر کے صاحبزادے عبدالرحمن اپنے والد گرامی سے ملے اور کہنے لگے کہ بدر کے میدان میں ایک موقع پر آپ کی گردن میری تلوار کی عین زد میں آگئی تھی لیکن میں نے آپ سے رشتے کا احترام کرتے ہوئے تلوار کا رخ موڑ دیا ۔ ظاہر ہے کہ اس وقت تک عبدالرحمن نے اسلام قبول نہیں کیا تھا، چنانچہ وہ کفار کی جانب سے میدان میں اترے تھے ۔ یہ بات سن کر حضرت ابوبکر نے ایسا جواب دیا جس نے رشتوں کے درمیان حد فاصل کی وضاحت کردی ۔ آپ نے کہا کہ صاحبزدے اگر تمہاری گردن میری تلوار کی زد میں آجاتی تو خدا کی قسم میں اسے کاٹ کر تن سے جدا کردیتا

خون کے رشتے مذہب کے رشتوں کے مقابلے میں باطل ٹھہرے اور یہی وہ بات ہے جو ہمارے ان روشن خیال، سیکولر ازم پر فخر کرنے والے ا ور
نام کے مسلمان دانشوروں، لکھاریوں اور نام نہاد مؤرخین کو سمجھنی چاہيئے جو ہر وقت یہ رٹ لگاتے پائے جاتے ہیں کہ ہم اور ہندو اور سکھ ایک ہی نسل سے ہیں، اس لئے اختلافات اور علیحدگی چہ معنی ۔ ۔ ۔ ظاہر ہے کہ اگر قائد اعظم بھی ہمارے ان روشن خیال اور سیکولر دانشوروں کی مانند ہوتے تو وہ کبھی بھی اپنی صلاحیتوں کا بہترین حصہ اس موقف کی وضاحت پر صرف نہ کرتے کہ مسلمان ہر لحاظ، تعریف اور معیار کے مطابق ایک الگ قوم ہیں اس لئے وہ ایک الگ وطن چاہتے ہیں ۔ قائد اعظم اپنے مذہب اور عقیدے کی روح سے شناسا تھے اور یہی وجہ ہے کہ جب ان کی اکلوتی اور نہایت چہیتی بیٹی دینا جناح نے ایک پارسی نوجوان سے شادی کرنے کا ارادہ کیا تو بقول سیٹنلے والپرٹ (جناح آف پاکستان) قائد اعظم نے دینا کو بلایا، نہایت محبت سے اسے سمجھایا اور کہا کہ ہندوستان میں کروڑوں مسلمان نوجوان ہیں جو تم سے شادی کرنے پر فخر محسوس کریں گے ، تم کسی بھی مسلمان نوجوان کو اپنا جیون ساتھی منتخب کر لو میں اس پرراضی ہوں گا لیکن اگر تم نے کسی غیر مسلم نوجوان سے شادی کی تو میری اور تمہاری راہیں جداجدا ہوجائیں گی ۔ اولاد اور پھر اکلوتی اولاد کو چھوڑنا قیامت سے کم نہیں ہوتا ۔ کسی صاحب اولاد سے پوچھو کہ یہ کتنا کٹھن اور دردناک فیصلہ ہوتا ہے؟ جو قائد اعظم نے اپنے مذہب اور دین کی خاطر کیا ۔ یہ بھی نہیں کہ قائد اعظم انسانی کمزوریوں سے ماوراء تھے ۔ ان میں بھی کمزوریاں تھیں لیکن ان کی دیانت، حق گوئی اور اعلیٰ کردار ان کی زندگی کے ایسے شعبے ہیں جن کا اعتراف ان کے بدترین دشمن بھی کرتے ہیں اور جس کی تصدیق اب تاریخ نے بھی کردی ہے

جب ایسی شخصیت پر حاجی عدیل آف اے این پی نے کیچڑ اچھالا تو مجھے نہایت صدمہ ہوا اور میں فقط یہی سمجھ سکا کہ گویا ابھی تک آنر بیل خان عبدالغفار خان کے سیاسی جانشینوں نے قائد اعظم کا پاکستان قائم کرنے کا جرم معاف نہیں کیا، گویا ابھی تک ان کے باطن میں نہرو اور گاندھی سے عقیدت و وفاداری کے بت موجود ہیں ۔ میں نے عمر بھر نیپ اور پھر اے این پی کی جمہوریت پسندی کی حمایت کی ہے اور عمر بھر یہ لکھتا رہا ہوں کہ ان علاقائی سیاسی قوتوں کو قومی دھارے میں شامل اور ضم کرکے ہی جمہوری عمل کو مضبوط بنایا جاسکتا ہے لیکن حاجی عدیل کے پے در پے قلبی انکشافات کے بعد مجھے تشویش ہے کہ کیا کبھی پاکستان اور قائد اعظم مخالف قوتیں قومی دھارے میں ضم ہوں گی ؟ کیا ان کی موجودہ نسلیں جو وقتاً فوقتاً قائد اعظم کے قائم کردہ پاکستان میں اقتدار کے ”لوشے“ لوٹتی رہتی ہیں اپنے ذہنوں اور دلوں کے چوکھٹوں میں گاندھی کی جگہ قائد اعظم کی تصویر سجائیں گی ؟ میرا خیال تھا کہ تقسیم ہند سے نفرت کا ورثہ سرحدی بزرگوں کے ساتھ دفن ہوچکا لیکن لگتا ہے کہ یہ محض ہمارا حسن ظن تھا

اس حوالے سے مجھے قائد اعظم کے وہ ا لفاظ یاد آتے ہیں جو انہوں نے 20 اپریل1948ء کو پشاور کے جلسہ عام میں کہے تھے ۔ ہماری نوجوان نسلوں کو علم نہیں کہ قائد اعظم نے بحیثیت گورنر جنرل پاکستان 18,17,16اپریل 1948ء کو صوبہ سرحد کا دورہ کیا تھا ۔ پشاور کے قیام کے دوران وہ مسلسل دو دن خان عبدالغفار خان سے ملے اور انہیں پاکستان کے قومی دھارے میں شریک کرنا چاہا اور پھر مایوس ہو کر 20 اپریل کو جلسہ عام میں یہ اعلان کیا کہ اے قوم یہ لوگ قابل اعتماد نہیں ۔ جو دوست اس موضوع پر تفصیل پڑھنے کی خواہش رکھتے ہوں وہ میری کتاب درد آگہی کا آخری باب ملاحظہ فرمائیں

قائد اعظم نے اپنے خیالات کا اظہار جن شخصیتوں کے بارے میں کیا تھا وہ اللہ کو پیاری ہوچکیں لیکن محسوس ہوتا ہے کہ ان کا سیاسی ورثہ حاجی عدیل جیسے وفاداروں کے ذہنوں پر آج تک چھایا ہوا ہے حاجی عدیل صاحب کے ذہنی رہنما اور سیاسی گرو کو اپنے سرحدی گاندھی ہونے پر فخر تھا اور گاندھی کی سوچ کیا تھی اس کا اندازہ اس سے کیجئے کہ وہ قائد اعظم سے خط و کتابت اور ملاقاتوں میں فرمایا کرتے تھے کہ میں کیسے مان لوں کہ کچھ مذہب تبدیل کرنے والے (Converts) علیحدہ قوم بن گئے ہیں

مسلمانوں سے حقارت اس قدر کہ ایک بار مسلمانوں کے نام کھلی چھٹی لکھی کہ تمہارے ڈرپوک بزرگ اور نگزیب کی تلوار سے ڈر کر
مسلمان ہوگئے تھے ۔ تم واپس ہندو دھرم میں آجاؤ ۔ جمیل الرحمن نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ گاندھی نے اپنے رسالے میں لکھا
ہندوستان کے مسلمانوں سے نپٹنے کے دو طریقے ہیں ۔ اول ان کو واپس ہندو دھرم میں لایا جائے، دوم جو اس کے لئے تیار نہ ہوں انہیں ملک
بدر کردیا جائے ۔ جسونت سنگھ نے اپنی کتاب میں سرآغاخان کی آٹو بائیو گرافی کے حوالے سے لکھا ہے کہ گول میز کانفرنس لندن کے دوران
سر آغا خان نے گاندھی سے کہا کہ آپ ہندوستان کے باپو کہلاتے ہیں کیا آپ مسلمانوں کے باپو بھی بن سکتے ہیں ۔ گاندھی کا جواب نفی میں تھا ۔ وہ گاندھی جو مسلمانوں سے اتنی”محبت“ بہ وزن ”حقارت“ کرتا تھا اس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے آپ کو سرحدی گاندھی کہلوانا اور قیام پاکستان کی ڈٹ کر مخالفت کرنا بذات خود پاکستان اور قائد اعظم سے ”محبت“ کے واضح ثبوت ہیں لیکن اس کے باوجود ہم جیسوں کو خوش فہمی تھی کہ شاید قیام پاکستان کے وقت پیدا ہونے والی نسل اپنا قلبی و ذہنی قبلہ تبدیل کرکے ماضی کے سیاسی ورثے سے تائب ہوجائے کہ انہیں پاکستان نے بے حد عزت و احترام دیا ہے لیکن میرے ممدوح حاجی عدیل صاحب تو چند قدم مزید آگے چلے گئے اور یہ بیان دے کر اپنی”اصل“ آشکارا کردی کہ میرا ہیرو راجہ داہر ہے نہ کہ محمد بن قاسم ۔ بے شک انہوں نے گاندھی کے سچے پیروکار اور ذہنی چیلے ہونے کا ثبوت دے دیا اور ظاہر ہے کہ ان کا ہیرو راجہ داہر ہی ہونا چاہئے تھاکیونکہ وہ اسلامی مملکت کی بنیاد ڈالنے والے محمد بن قاسم کو کیسے اپنا ہیرو مان سکتے ہیں ؟ اسی طرح بانی پاکستان ان کا ہیر و کیسے ہوسکتا ہے کیونکہ راجہ داہر کے مریدوں کا ہیرو تو صرف گاندھی ہی ہوسکتا ہے

محمد بن قاسم کا اصل قصور کچھ اور تھا وہ 712 ء میں ہندوستان پر حملہ آور ہوا اور اسلامی مملکت کی بنیاد رکھ کر 715ء میں واپس چلا
گیا ۔ 997ء سے لے کر 1030ء تک محمود غزنوی نے ہندوستان پر تیرہ حملے کئے لیکن اس نے اسلامی مملکت کی بنیاد ہرگز نہیں رکھی ۔ اس کے باوجود 1192ء میں جب غوری اور پرتھوی راج کے درمیان جنگ ترائن ہوئی تو تاریخ فرشتہ کے مطابق شہاب الدین غوری نے پرتھوی راج کو جو خط لکھا اس میں واضح کیا کہ سندھ پنجاب اور سرحد میں مسلمان مقابلتاً اکثریت میں ہیں اس لئے یا تو یہ علاقے مجھے دے دو یا پھر جنگ کے لئے تیار ہوجاؤ

یہ محمد بن قاسم سے لے کر محمود غزنوی اور غوری تک کا اعجاز تھا کہ ان علاقوں میں مسلمان مقابلتاً اکثریت میں ہوئے جس میں صوفیاء
اکرام اور اولیاء اکرام نے بے حد اہم کردار سرانجام دیا ۔ مشیت الٰہی یہ تھی کہ جغرافیائی حوالے سے ایک دوسرے میں پیوست علاقوں میں مسلمان اکثریت میں ہوئے جس کی بنیاد پر قائد اعظم نے پاکستان کا مطالبہ کیا ۔ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ ان ملحقہ علاقوں میں اسلام محمد بن قاسم، محمود غزنوی اور غوری اور مسلمان صوفیاء اکرام کے سبب پھیلا اور اسی لئے وہ ہمارے ہیرو ہیں جبکہ کچھ حضرات ان کے مخالفین کو اپنا ہیرو مانتے ہیں اور ہندو مؤرخین کی پیروی کرتے ہوئے ان کی کردار کشی کرتے ہیں ۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ مسلمان ہونے پر شرمندہ ہوں ؟

بشکريہ ۔ جنگ

This entry was posted in تاریخ on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

18 thoughts on “راجہ داہر اور گاندھی کن کے ہيرو ہيں

  1. احمد عرفان شفقت

    یہ جو آخری بات ہے یہ بالکل حقیقی بات ہے۔۔۔اس خطے کے بہت سے لوگ مسلمان ہونے پہ شرمندہ ہیں۔ اس ندامت کا اظہار کھلے، صاف الفاظ میں تو نہیں کر سکتے لیکن ان کے خیالات و نظریات ضرور ان کے اندر کی کیفیت کا پتا دیتے ہیں۔

  2. یاسرخوامخواہ جاپانی

    انکے قول وفعل سے تو یہی محسوس ھوتا ھے۔کہ یہ مسلمان ھونے سےشرمندہ ھیں۔جو پیسے کی پوجا پاٹ کریں گے انکے ہیرو بھی ویسے ہی ھوں گئے۔ضمیر کو مطمعئن کرنے کے لئے تاریخ سے من پسند ہیرو کا چناوکرنا اسی سوچ کی عکاسی ھے۔

  3. خاور

    ميرے خیال میں اپ تاریخ کو مسخ کررهے هیں
    تاریخ اس چیز کا نام ہے که جو جیسا تھا اس کو ایسا لکھا جائے
    ناں که جیسا اپ کے جذبات کہتے هیں
    مجھے اپنے مسلمان (توحید پرست) هونے پر فخر ہے لیکن جو لوگ ھند کو لوٹنے کے لیے ائے اور اسلام کے ٹھیکیدار بن بیٹھے اور ان کی اولادیں اسلام کی ڈسٹریبیوٹر بنی بیٹھی هیں
    ان کو ڈاکو هی لکھیں ناں که ھیرو
    ایک ترک کے اسلام سے پہلے کے ھیرو ایک ایرانی کے اسلام سے پہلے کے ھیرو اج بھی ان کے هیرو اور اسی لیے پاکستانیوں کے بھی وهی ترکی عربی اور ایرانی اور افغانی هیرو هیں ہیرو هیں
    تو جی همارے ابا همارے ہیرو کیوں نهیں هو سکتے؟؟
    اس لیے که هماری تاریخ کی ترتیب ان لوگوں نے دی ہے جو ان حمله اوروں کے ساتھ ائے تھے اور اس زمین کے نسلی لوگ بن بیٹھے هیں
    یه لوک خود ھندو بن گئے هیں کلمه پڑھنے والے ھندو ، سید اور برھمن میں کیا فرق ہے ؟
    ولی اور سادھو میں کیا فرق ہے؟؟
    بت اور قبر میں کیا فرق ہے؟؟
    گنگا جل اور اب زم زم میں کیا فرق ہے ؟؟
    اگر میں نے یه لسٹ لمبی کی تو نازک مزاج اسلام خطرے میں پڑجائے گا
    توھین اسلام چه معنی؟؟
    ایک نظریه اپنانے اور وضاحت کے لیے هوتا ہے اور اسلام واحد نظریه ہے جس کی توھین هو جاتی هے
    جس اسلام کی اپ بات کرتے هیں اس کے ماننے والے کس جگه معاشرھ بنا کر رهتے هیں ؟؟
    اور یه معاشرھ کیا ہے ؟؟
    کجھ کو حادثاً تیل کی دولت مل گئی اور باقی کے
    ویزے کی تلاش ميں هیں اور جن ممالک کے ویزے کی تلاش ہے ان کو کافر بھی کہتے هیں اور کل کو اگر ان ميں سے کسی کی اولاد کہے که وھ اسلام پھلانے امریکه ائے تھے تو کیا یه سچ هو گا؟؟

    نہیں !!!!!-

  4. خورشیدآزاد

    خاور افتخار صاحب کا بلاگ پڑھنے کے بعد یقین کرو میرے ذہن بالکل کچھ اس قسم کے الفاظ گردش کررہے تھے۔۔آپ کا بہت شکریہ کہ میرے خیالات کو الفاظ دے دیے۔

    افتخار صاحب آپ عمر کے لحاظ سے بڑے ہیں اور میں آپ کی عزت کرتا ہوں۔ لیکن یہ دوسری دفعہ ہے کہ آپ کی تحریر سے مجھے پٹھان دشمنی کی بُو آرہی ہے، مجھے معاف کردیجیئے گا اگر میں غلط ہوں لیکن جناب عالی قیام پاکستان ایک صحیح فیصلہ تھا یا غلط اس پر بحث کی جاسکتی ہے کیونکہ قائداعظم رخمۃ اللہ علیہ کوئی پیغمبر نہیں تھے جس کے قول اور فعل سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا۔۔۔دوسری بات بلاشبہ محمود غزنوی اور محمد بن قاسم وغیرہ بیرونی حملہ آور تھے جونہ ہمارے کبھی ہیرو تھے اور نہ ہوسکتے ہیں۔۔۔دوسری اہم بات جو ہمیشہ میرے ذہن میں گردش کرتی ہے کہ ہم ہمیشہ عرب قوم کے کارناموں اور فتحوحات پر ہی فخر کرتےہیں حالانکہ اس قوم کی زبان، رہن سہن تہذیب و تمدن سب کچھ ہم سے الگ ہے لیکن ہم تلّے ہوئے ان میں زبردستی شامل ہونے کے لیے؟؟ معلوم نہیں اس کی کیا وجہ ہے؟؟ کیونکہ جہاں تک میں سمجھتا ہوں مسلمان ہونے کے لیے آپ کا عربی ہونا تو ضروری نہیں ہے۔

  5. افتخار اجمل بھوپال Post author

    خاور و خورشيد صاحبان
    گستاخی معاف ۔ کيا پٹھان صرف حاجی عديل يا اے اين پی کے سربراہان ہيں اور کوئی پٹھان نہيں ؟ ديگر يہ عمل ميری سمجھ سے باہر ہے کہ کچھ قارئين کسی تحرير کا بغور مطالعہ کئے بغير جذباتی ہو کر جو کچھ لکھتے ہيں وہ اُن کے اھنے ہی طرزِ عمل کی نفی کر رہا ہوتا ہے ۔ ايک بات جو آپ دونوں حضرات بھول رہے ہيں يہ ہے کہ يہ ميری تحرير نہيں ہے ۔اوقر آپ مجھ پر آنکھيں اور دماغ بند کر کے برسنا شروع ہو گئے ہيں ۔
    آپ کی اطلاع کيلئے عرض ہے کہ پاکستان ميں سب سے معروف تاريخ دان ڈاکٹر احمد حسن دانی تھے جو وفات پا چکے ہيں ۔ اُنہوں نے ابتداء تو تاريخ سے کی مگر پھر تاريخ کی شاخ آثارِ قديمہ ميں سرشار ہوگئے ۔ اُن کے بعد معروف تاريخ دان ڈاکٹر صفدر محمود ہيں جن کی تحرير ميں نے يہاں نقل کی اور تحرير کے نيچے اُن کی تحرير کا ربط ديا ہوا ہے ۔ اگر آپ سمجھتے ہيں کہ آپ ڈاکٹر صفدر محمود صاحب سے زيادہ علم رکھتے ہيں تو اُن سے رابطہ کر کے اُنہيں جھُٹلايئے
    دوسری بات يہ کہ اگر محمد بن قاسم لُٹيرا تھا تو پھر پٹھان محبِ وطن کيسے ہوئے ؟ وہ بھی تو ہندوستان پر حملہ آور ہوئے اور قابض ہوئے

    خاور صاحب
    باقی جو کچھ آپ نے لکھا ہے اُس کی تشريح کل کلاں آپ خود ہی اپنے بلاگ پر کر ديجئے گا ۔ ميرا علم مجھے اس بات کی اجازت نہيں ديتا

  6. یاسرخوامخواہ جاپانی

    تاریخ کا ایک دوسرا رخ بھی ھے۔کہ حجاج بن یوسف کے ظلم وستم سے تنگ سادات نے ھند کی طرف ہجرت کی۔اور ان کی واپسی کے لئےحجاج بن یوسف نے راجہ داہر پر دباو ڈالا۔لیکن اس کی انکاری پر محمد بن قاسم سے پہلےبھی فوج کشی کی لیکن ناکامی کے بعد محمد بن قاسم کو ھند کی طرف بھیجا۔لیکن محمد بن قاسم نے جب سادات کو واپس نہ کیا تو محمد بن قاسم کا نام ھند سے واپسی کے بعد تاریخ سےغائب کر دیا گیا۔ایک طرف تو ھمارے تاریخ دان حجاج بن یوسف کوظالم و جابر کہتے ھیں حتی کہ وہ صحابہ کرام کا قاتل بھی ھے۔اور اس نے کعبہ کی بے حرمتی بھی کی۔اگر ہم سوچوں سے داروغہ جی کا پہرہ ھٹا کر سوچیں تو عقل یہ بات نہیں مانتی کہ ایسا شخص ایک عورت کی بے حرمتی پر جہاد کرےگا۔رہ گئے محمود غزنوی صاحب غوری صاحب حتی کہ ابدالی شاہ صاحب جن کے یہ ہیرو ھیں ان سے ایک بات پوچھنا چا ہوں گا۔یہ مرد مومن فاتحین مفتحوح مسلمانوں سے سالانہ لگان کس بات کی لیتے تھے؟فصل نہ ہونے پر دوبارہ چڑہائی کس بات کی کرتے تھے؟کتب کے حوالے یہاں پر نہیں دے سکتا۔لیکن کوئی بھی تاریخ کی کتاب اٹھایئں غور سے پڑہیں۔یہ چیزیں ملیں گئی۔وضاحت کرنا چاہوں گا کہ میں اہل تشیع نہیں ہوں۔اہلحدیث ھوں۔صرف مسلمان ہوں۔خاور صاحب برہمن اور سید، سادھو اور ولی میں فرق ایسا ہی ھے جیسے سکھ اور مسلمان کا۔سکھ بھی توحید پرست اور مسلمان بھی توحید پرست۔ میری کوشش تو یہی ھے کہ کسی بحث میں حصہ نہ لوں۔کہ قابلیت نام جس چیز کا ھے وہ ھم میں نہیں ھے۔یہاں پر سید اور برہمن والی بات پر ہماری شاھ جی والی رگ پھڑک اٹھی شاید :lol: :lol: :lol:

  7. راشد کامران

    اجمل صاحب مسئلہ یہ ہورہا ہے کہ ریفرنس سے نظر چوک جانے کے باعث یا مکمل مضمون کلی طور پر یہاں شائع ہوجانے کی وجہ سے لوگ اسے آپ کا ہی مضمون سمجھ رہے ہیں۔ میں‌ نے کسی اور بلاگ پر بھی تبصروں‌میں دیکھا ہے کہ کسی نے ‌ آپ کے نام سے یہ پورا مضمون لکھ دیا ہے۔

  8. افتخار اجمل بھوپال Post author

    راشد کامران صاحب
    ميں کيا کہہ سکتا ہوں ۔ حد تو يہ ہے کہ ميں نے دو سطری پيش لفظ ميں لکھا ہوا ہے “ميں اس کے متعلق ايک تاريخ دان کی تحرير نقل کرنے ہی والا تھا “۔

  9. خورشیدآزاد

    یہی تورونا ہے جناب کہ ہم سے ہماری تاریخ سمیت سب کچھ چھین لیاگیا اور جس کو ہماری تاریخ کا نام دیا جارہا ہے وہ ہماری ہے ہی نہیں۔۔۔کتنی ستم ظریفی ہے۔

    جہاں تک پٹھانوں کا محب وطن ہونے کی بات ہے تو یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی ۔۔۔آپ کس وطن کی بات کررہے ہیں؟؟ اگر آپ کا مطلب پاکستان سے ہے تو بلاشبہ اگر پاکستان سے محب وطنی پٹھانوں کواپنی قومیت دسبردار ہوکرثابت کرنا ہے تو وہ پٹھانوں کے لیے ناممکن ہے۔

  10. جاویداقبال

    السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
    یہ زندگی کی حقیقتیں ہیں لیکن ہم ان سےمنہ موڑلیں تواس کاکوئي بھی فائدہ نہیں۔ سورج کودیکھ کرکوئی یہ کہےکہ سورج نہیں ہےتوشایداس سےبڑابیوقوف نہیں ہوگا۔ ایسےلوگوں کی وجہ سےہی توہمارےمسلمانوں کی یہ حالت ہوئي ہے کہ ہم اتنی پستی میں گرگئےہیں اورسب سےتشویش کی بات یہ ہے کہ ہم اس پستی سےاوپراٹھنےکی کوشش بھی نہیں کرتےاوررب تعالی بھی اس وقت تک کوئی معجرۃ نہیں دکھاتےجب تک بندہ خودکوئی کوشش نہ کرے۔ اللہ تعالی میرےملک کوسداسلامت رکھےاوراس کوکوئی بھی میلی آنکھ سےنہ دیکھے۔ آمین ثم آمین

    والسلام
    جاویداقبال

  11. عدنان مسعود

    یہ تمام شکوک و شبہات صرف اسوقت پیدا ہوتے ہیں کہ جب اعلائے کلمتہ اللہ کی جدوجہد کے لئے کئے جانے والے جہاد فی سبیل اللہ سے معذرت خواہانہ رویہ اختیار کیا جائے۔ اسلاف کے کارناموں پر شرمندگی کا اظہار ہو اور مغربی افکار اور ادھار کی عقلیت کو معیار بنایا جائے ۔ میرے خیال میں حاجی عدیل صاحب کا بیان بہت بروقت ہے کہ ہمارئے یہاں کے بہت سے چھپے ہوئے مرعوب و شرمندہ اسلام لوگوں کو سامنے لے آیا ہے۔ یہ لوگ غلبہ اسلام اور اعلائے کلمتہ اللہ کی جدوجہد کو بھی دنیاوئی فتوحات کی طرح گردانتے ہیں اور شائد انکی نظر سے یہ اور اس جیسی بے شمار آیات نہیں گذری ہیں اور اگر گذری ہیں تو اسکی صداقت پر انہیں یقین نہیں اور اسے قرون اولی کی باتیں گردانتے ہیں۔ خود بدلتے نہیں قران کو بدل دیتے ہیں،

    قَاتِلُواْ الَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَلاَ بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلاَ يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَلاَ يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَابَ حَتَّى يُعْطُواْ الْجِزْيَةَ عَن يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ 9:29

  12. افتخار اجمل بھوپال Post author

    خورشيد آزاد صاحب
    آپ قوميت سے کيا مطلب ليتے ہيں ؟ اگر پٹھان کو آپ قوم کہتے ہيں تو پھر پٹھانوں کی بھی درجنوں قسميں ہيں ۔ کل کو وہ سب بھی عليحدہ قوميت کا نعرہ لگائيں گے
    آپ کی اطلاع کيلئے عرض کر دوں کہ جن کو ايک عليحدہ قوميت آپ کہہ رہے ہيں اُنہوں نے ريفرينڈم ميں پاکستان کے حق ميں بھاری اکثريت ميں رائے دی تھی جبکہ آپ کو پاکستان بُرا لگتا ہے ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ عبدالغفار خان کے پيرو کار ہيں جسے مسلمانوں سے نفرت اور ہندوؤں سے پيار تھا

  13. افتخار اجمل بھوپال Post author

    عدنان مسعود صاحب
    آپ نے درست کہا ۔ جو لوگ اللہ کی غلامی چھوڑ کڑ کر اپنی خواہشات کے غلام بن چکے ہيں ۔ اُنہيں قرآن شريف اور رسول کے فرمان سے کيا غرض

  14. محمد سعد

    اے این پی پر تنقید بھلا پشتون دشمنی کیسے ہو گئی جبکہ پشتونوں میں اے این پی اور اس کے نظریات کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ انہیں حکومت بنانے کا موقع بھی تب ملتا ہے جب دوسرے حریف مقابلہ چھوڑ دیں۔
    اور پھر جب اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) نے بتا دیا کہ میرے پٹھان ہونے کی اہمیت صرف اسی حد تک ہے کہ مجھے پہچاننے میں آسانی ہو تو پھر اس سے زیادہ اہمیت اسے کیوں دی جائے؟ اور جب اللہ کا حکم آ گیا کہ سب مسلمان آپس میں بھائیوں جیسے ہیں تو پھر نسلی تعصبات کی کیا گنجائش بنتی ہے؟
    عدنان مسعود صاحب کی بات سے میں بھی پوری طرح اتفاق کرتا ہوں کہ لوگوں کو اعلائے کلمۃ اللہ کی جد و جہد اور دنیاوی فتوحات کے درمیان فرق کرنا نہیں آتا۔
    محمد بن قاسم یا حجاج بن یوسف جیسا بھی ہو، مجھ سے اس بارے میں سوال نہیں کیا جائے گا۔ مجھے بس یہ معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ذریعے یہاں دینِ اسلام کی تبلیغ کو آسان کیا اور ہم تک اپنا پیغام پہنچایا جس کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے۔ اوپر سے یہ انعام اضافی ہے کہ اللہ کے غلام بننے کے بعد پٹھان کسی اور کے غلام نہیں رہے۔ جن کو ان نعمتوں پر اعتراض ہے، ان کی ذہنی حالت پر بھلا کیا تبصرہ کیا جائے۔۔۔
    ویسے جو لوگ محمد بن قاسم پر بے سر و پا اعتراضات کی بوچھاڑ کر رہے ہیں، انہیں یہ بھی بتانا چاہیے کہ انہوں نے یہ رائے کس “تحقیق” کی بنیاد پر قائم کی۔ ہم بات کریں تو حوالے طلب کیے جاتے ہیں اور کوئی گورا صاحب یا ہندو یا کوئی اور اسلام سے بغض رکھنے والا جو بھی کہہ دے وہ مستند ہو جاتا ہے۔

  15. افتخار اجمل بھوپال Post author

    محمد سعد صاحب
    آپ نے درست سمت کی طرف اشارہ کيا ہے ۔ کاش لوگ نفسا نفسی چھوڑ کر ايک قوم بننے کی کوشش کريں ورنہ انجام ظاہر ہے تباہی ہی ہو گا

  16. Pingback: بول کہ لب آزاد ہیں تیرے: پاکستانی قوم کا المیہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.