Monthly Archives: February 2010

صدر زرداری کا حُکم معطل

صدر آصف علی زرداری نے چیف جسٹس پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سمری مسترد کرتے ہو ئے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ،جسٹس خواجہ شریف کو سپریم کورٹ کا جج مقرر کردیا ہے جبکہ لاہور ہائی کورٹ کے سینئر جج جسٹس ثاقب نثار کو لاہور ہائی کورٹ کاقائم مقام چیف جسٹس مقرر کردیا

صدارتی تر جمان نے خبر کی تصدیق یا تر دید کرنے سے انکار کرتے ہو ئے کہا ہے کہ نوٹیفکیشن وزارت قانون جاری کرتی ہے اس حوالے سے وہ ہی بہتر بتاسکتے ہیں

لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس خواجہ محمد شریف اور جسٹس ثاقب نثار نے حکومتی فیصلہ ماننے سے انکار کردیا ہے۔ جسٹس خواجہ شریف اور جسٹس ثاقب نثار کا کہنا ہے کہ وہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری کے حکم کے خلاف کوئی کام نہیں کریں گے۔ جیو نیوز کے سینئر رپورٹر عبدالقیوم صدیقی سے بات چیت کرتے ہوئے جسٹس ثاقب نثار نے یہ بات زور دے کر کہی کہ وہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے احکامات کے پابند ہیں اور ان کے خلاف کوئی کام نہیں کرینگے۔ جسٹس میاں ثاقب نثار کے قریبی ذرائع نے بتایا کہ گورنر پنجاب سلمان تاثیر نے انہیں کل صبح حلف برداری کیلئے بلایا تھا، تاہم انہوں نے حلف اٹھانے سے انکار کردیا ہے
صدرِ پاکستان کی جانب سے ججوں کی تقرری کے معاملے کی سماعت کرنے والے تین رکنی سپیشل بینچ نے لاہور ہائی کورٹ کے سربراہ جسٹس خواجہ شریف کو سپریم کورٹ کا جج اور جسٹس ثاقب نثار کو لاہور ہائیکورٹ کا قائم مقام چیف جسٹس مقرر کرنے کا صدارتی حکم معطل کر دیا ہے

جسٹس شاکر اللہ جان کو اس سپیشل بینچ کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا جبکہ جسٹس راجہ فیاض اور جسٹس جواد ایس خواجہ اس بینچ کے رکن تھے۔ اس بینچ نے معاملے کی سماعت سنیچر کی شام ہی شروع کر دی اور مختصر سماعت کے بعد اپنے عبوری حکم میں تقرری کے حکم ناموں کو معطل کر دیا

سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ اس فیصلے میں آئین کے آرٹیکل ایک سو ستّتر کی خلاف ورزی کی گئی ہے اور جسٹس خواجہ شریف اور جسٹس ثاقب نثار تا حکمِ ثانی اپنے پرانے عہدوں پر ہی کام کرتے رہیں گے

میرے وطن کی سیاست

” میں ایوب خان کے دور میں تعلیم مکمل کر کے کالج سے نکلا تو دل میں ایک شدید آرزو تھی کہ اس نظام کو بدلا جائے، آمریت سے نجات حاصل کی جائے اور جمہوریت کے ذریعے ایسا نظام لایا جائے جو غریب عوام کے مسائل حل کرے، قومی دولت کو معاشرے کے تمام طبقوں میں منصفانہ انداز سے تقسیم کرے اور پسے ہوئے عوام میں زندگی کی لہر پیدا کرے۔ میں اور میرے دوست رات دن اسی موضوع پر بحث کرتے اور نئے راستے تلاش کرنے میں مصروف رہتے تھے۔ اچانک بھٹو نے ایوبی آمریت کو للکارا اور غریبوں کا مسیحا بن کر ملکی اُفق پر ابھرا۔ ہمیں بھٹو کی شخصیت میں اپنی امیدوں اور توقعات کا سورج طلوع ہوتا ہوا نظر آیا چنانچہ ہم من تن دھن کی بازی لگا کر دل و جان سے بھٹو صاحب کے ساتھ وابستہ ہو گئے اور ان کے کارکن بن گئے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے دن رات بھٹو صاحب کے لئے دیوانوں کی مانند کام کیا۔ بھٹو صاحب انتخابی میدان میں اترے تو پی پی پی نے الیکشن جیتا اور بھٹو صاحب کے ساتھ نظریاتی کارکنوں کی ایک بڑی تعداد اسمبلیوں میں پہنچ گئی

ہمارے اس جذبے کو پہلی ٹھیس اس وقت لگی جب ہمارے مشوروں کے خلاف بھٹو صاحب نے 1977ء میں نظریاتی کارکنوں کو اِگنور کر کے وڈیروں، گدی نشینوں اور روایتی سیاستدانوں کو ٹکٹ دے دیئے۔ اس کے باوجود جب بھٹو صاحب جیل گئے تو ہم نے ضیاء آمریت کے خلاف مزاحمتی تحریک چلائی، پولیس کی لاٹھیاں کھائیں، جیلیں اور قلعے دیکھے اور کوڑے کھائے

پھر ہم نے نہایت خلوص اور لگن کے ساتھ بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کا ساتھ دیا اور پی پی پی کا چراغ روشن رکھا۔ ضیاء الحق کے انتقال کے بعد پی پی پی 1988ء کے انتخابات کے لئے میدان میں اتری تو ہمیں توقع تھی کہ بی بی پرانے نظریاتی کارکنوں کو ٹکٹ دیں گی لیکن ۔ ۔ ۔ بی بی نے نظریاتی کارکنوں پر دولت مندوں اور پارٹی کو اور پارٹی قیادت کو بڑی رقمیں دینے والوں کو ترجیح دی۔ نتیجے کے طور پر دولت کے ذریعے ٹکٹ خریدنے والے ابن الوقت پارٹی پر حاوی ہو گئے اور نظریاتی کارکن بددل ہو کر سیاسی منظر سے غائب ہو گئے

آج یہ عالم ہے کہ صدر صاحب سے لے کر ان کے وزراء اور حواریوں تک ہر کوئی کرپشن کے الزامات میں ڈوبا ہوا ہے اور ایسے نئے چہرے پارٹی پر قابض ہو گئے ہیں جن کا ہم نے کبھی نام سنا تھا نہ چہرہ دیکھا تھا۔ ۔ ۔ یہ جھوٹ اور دکانداری کی سیاست ہے۔ آپ نے وہ شعر تو یقینا سن رکھا ہو گا
میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں”

پورا انٹرویو پڑھنے کیلئے یہاں کلِک کیجئے

کہانی شیخ جی کے زخمی ہونے کی

پچھلے دنوں شیخ رشید احمد صاحب پر بقول ان کے حواریوں کے قاتلانہ حملہ ہوا جس میں وہ زندہ بچ گئے مگر زخمی ہوئے ۔ میں سیاسیات میں جائے بغیر صرف شیخ صاحب کے مجروح ہونے کی تفصیل بیان کرنا چاہتا ہوں ۔ یہ حقیقت راولپنڈی ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کے ایک پروفیسر ڈاکٹر کی زبانی ہے ۔

شیخ رشید کو سٹریچر پر ہسپتال لایا گیا ۔ وہ ہائے اف وغیرہ کر رہے تھے ۔ معائنہ کیلئے ٹانگ اوپر کی تو شیخ صاحب نے شور مچا دیا اف ہائے میری ٹانگ ۔ اچھی طرح معائنہ کرنے کے بعد دریافت ہوا کہ شیخ صاحب کے گھٹنے پر خراش آئی ہے جس سے خون بہا نہیں

البتہ شیخ صاحب کے حواریوں اور سیکیورٹی والوں کی مہربانیوں کے نتیجہ میں ہستال کے دوسرے مریض پانچ گھنٹے علاج سے محروم رہے

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ پردہ ؟

دیکھا گیا ہے کہ کچھ عورتیں عام طور پر سر پر دوپٹہ نہیں رکھتیں اور نہ نماز پڑھنے کا شوق رکھتی ہیں لیکن اذان ہو رہی ہو تو دوپٹہ سر پر رکھ لیتی ہیں اور اذان ختم ہوتے ہی اُتار دیتی ہیں

کیا اذان کا یہی مقصد ہوتا ہے ؟

تلاشِ گُمشُدہ

میں ہوں اجنبی اپنے ہی شہر میں
ڈھُونڈتا پھر رہا ہوں تُجھے
مجھ کو آواز دے ۔ مجھ کو آواز دے

” اے بھائی ۔ کس کو ڈُھونڈے ہے”
” بھائی ۔ مسلمان کو ڈھونڈوں ہوں”
” پاگل ہے کیا رے ؟ یہاں تو سب مسلمان ہوویں”
” چل ایک سے ملا دے”
” اس سے ملو ۔ یہ بڑا اچھا دکاندار ہے”
“یہ تو کم تولے ہے ۔ مسلمان تو پورا تولیں”
“چل اس سے بات کر ۔ یہ تو نہیں تولے ہے”
“یہ تو نقلی مال اصلی کہہ کے بیچے ہے ۔ مسلمان تو دھوکہ نہیں دیوے”
“اچھا چل اس سے مل لے ۔ یہ صاف ستھرا آدمی ہے دفتر میں کام کرے ہے”
“یہ تو بغیر پیسے کام نہ کرے ۔ پار سال اپنے بھائی بھی کا مال کھا گیا ۔ مسلمان تو نہ رشوت لیوے اور نہ کسی کا مال کھائے”
“تجھے کوئی پسند ہی نہ آوے ۔ اچھا لے اس سے مل۔ یہ سوشل ورکر ہے”
“کل اس کے گھر میں گیا تو اس نے بچے کو کہہ بھیجا کہ گھر میں نہیں ۔ مسلمان تو کبھی جھوٹ نہ بولے”
“اچھا ۔ دیکھ اُس دکان پر گاہکوں کی بہت بھیڑ ہے ۔ یہ آڑھتی ہے ضرور اچھا آدمی ہو گا ”
“ارے اس نے تو گئے سال 5000 کلو گرام چینی 18 روپے کے حساب خرید کر چھُپا دی ۔ اب 65 روپے بیچے ہے ۔ مسلمان تو زیادہ منافع کمانے کیلئے ذخیرہ نہیں کرے”
” جا جا تیری پسند کا مسلمان ادھر نہیں ہے ۔ کہیں اور جا کے تلاش کر”

میں ہوں اجنبی اپنے ہی شہر میں
ڈھُونڈتا پھر رہا ہوں تُجھے
مجھ کو آواز دے ۔ مجھ کو آوااااز دےےےےے

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ فاتح

انجنیئرنگ کالج لاہور میں ہمارا ہمجماعت ” ز ” تھا ۔ اُس کا خاندان 1947ء میں یوپی سے ہجرت کر کے آیا تھا اور کراچی میں رہائش اختیار کی تھی ۔ لڑکا شریف اور محنتی تھا ۔ اُس کے متعلق مشہور تھا کہ اُس سے بحث میں سب ہار جاتے ہیں

ہمارا آخری سال شروع ہونے والا تھا گرمیوں کی چھٹیاں گذار کر واپس ہوسٹل پہنچے تھے ۔ پڑھائی دو دن بعد شروع ہونا تھی ۔ میرے کمرے میں دس بارہ ہمجماعت کرسی میز اور چارپائی پر بیٹھے تھے اور خوش گپیاں ہو رہی تھیں
ایک بولا ” ‘ ز ‘ یار اب آخری سال شروع ہو رہا ہے ۔ راز تو بتاؤ تم سب کو بحث میں کیسے مات دیتے ہو ؟”
پھر کيا تھا سب باری باری مطالبہ کرنے لگے ۔ ایک ساتھی بولا ” یہ کراچی کی ٹریننگ ہے ”
آخر ” ز ” کہنے لگا ” سُنو ۔ اس کا کراچی سے کوئی تعلق نہیں ۔ تم سب بیوقوف ہو ”
اس پر شور مچ گیا ۔ میں نے سب کو چُپ کرایا اور کہا ” یار پوچھتے ہو تو پھر سُنو بھی ”
سب خاموش ہو گئے تو ” ز ” نے کہا ” میں یہ کہا چاہ رہا تھا کہ سب کو بیوقوف سمجھو اور بولتے جاؤ ۔ دوسرے کو بولنے کا موقع نہ دو ۔ اگر کوئی لاہور کی بات کرے کراچی کی بات کرو ۔ کراچی کی بات شروع کرے تو پشاور کی بات شروع کر دو ”

پچھلے دو تین ماہ سے مجھے ” ز ” بہت یاد آ رہا ہے ۔ کیسی پتے کی بات کی تھی اُس نے