Monthly Archives: February 2010

ایک قابلِ غور تبصرہ

جاوید گوندل صاحب سیر حاصل تبصرے کرنے والے کے طور جانے جاتے ہیں ۔ اُنہوں نے ایک بلاگ پر تبصرہ کیا تھا جسے میں اُن کی اجازت سے ایک عمومی مضمون کی صورت میں ڈھالنے کیلئے معمولی عبارتی ترامیم کے بعد نقل کر رہا ہوں ۔ مضمون کا مفہوم من و عن ویسا ہی ہے ۔ میں اسلام آباد چلا گيا تھا اسلئے لکھنے ميں دو ہفتے تاخير ہو گئی

نامعلوم کچھ لوگ کيوں جان بوجھ کر کسی بھی موضوع کو متنازع بنا دیتے ہیں تاکہ لوگ توجہ دیں اور وہ کامیاب مصنف بن جائیں یا نہائت سادگی اور انجانے میں اسلام بیزار طبقے کی نمائندگی میں بہہ جاتے ہیں ۔ موضوع کوئی بھی ہو کسی طرح گھسیٹ گھساٹ کر اُسے کچھ مشہور واقعات کو بیچ میں لاتے ہوئے پاکستان کے حوالہ سے اچانک جہاد اور دہشت گردی میں فرق بیان کئے بغیر ایسی تاویلات کو گھسیٹ لاتے ہیں جن کا کوئی سر پیر موضوع سے نہیں جڑتا اور پھر ایک ہی سانس میں ایک ہی پیرایہ میں حیات بعد از زندگی اور جہاد جیسی انتہائی حساس دینی اساس اور اسلام کے مطابق دنیا بھر کے مسلمانوں کے ایمان کے جزو لاینفک کو نشانہِ ستم بنایا جاتا ہے

حالانکہ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ حیات بعد از زندگی کے علاوہ جو کہ ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے دنیا میں زندہ رہنے اور ایک باوقار زندگی گزارنے کے لئے مزید لوازمات کے ساتھ تعلیم اور اعلٰی فکر بھی ضروری ہے اور اسلام بھی اسی بات کی دعوت فکر دیتا ہے ۔ نیز پاکستان میں جاری ننگی دہشت گردی سراسرغیر اسلامی ہے ۔ اس کا اسلام کے اہم فریضے جہاد سے کوئی تعلق نہیں

مناسب نہیں کہ پاکستان کا ایک مخصوص طبقہ ہر وقت اسلام کے نام لیواؤں پہ تنقید کرتا رہے کہ انہوں نے تعلیم کے لئے یہ نہیں کیا یا انہیں تعلیم کے لئیے یوں کرنا چاہئیے تھا ۔ جبکہ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو طبقہ پاکستان کے وسائل پہ بلا شرکت غیرے تصرف اور دسترس رکھتا ہے ہر دم اسلام کا نام لینے والوں کے خلاف چوکس رہتا ہے ۔ پاکستان میں یہ طبقہ پاکستان کے دوسروں شعبوں کی طرح پاکستانی تعلیمی شعبے میں بھی پاکستانی قوم کے تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے بدلے گرانقدر مشاہرے اور مراعات پاتا ہے یعنی اپنی قیمت پوری وصول کرتا ہے جبکہ یہ طبقہ پاکستان کے لئے کسی قابلِ عمل سرکاری تعلیمی پالیسی کو باسٹھ سالوں سے وضح کرنے میں ناکام رہا ہے اور اسی نسبت سے جن پہ پاکستانی قوم کو تعلیم یافتہ کرنے کی پالسیز بنانے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے خود انہوں نے پاکستان کی باسٹھ سالہ تاریخ میں کسی میدان میں کونسا کارنامہ انجام دیا ہے جسے بیان کیا جاسکےِ ؟

پاکستان میں عوام کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کی ذمہ داری مدراس یا ان لوگوں پہ نہیں آتی جو ریاست سے ایک پائی لئے بغیر اپنی سی سعی کر رہے ہیں بلکہ یہ ذمہ داری کسی بھی عام سے ملک کی طرح حکومت پاکستان اور ریاستی اداروں پہ عائد ہوتی ہے ۔ وفاقی اور صوبائی وزارتیں محض نمود نمائش یا من پسند افراد کا روزگار لگانے کے سہل طریقوں کے لئے نہیں بلکہ پاکستان کے شہریوں کو تعلیم و شعور سے روشناس کرنے کے لئے قائم کی گئی ہیں اور پچھلے باسٹھ سالوں سے پاکستانی حکومتوں نے زندگی کے باقی شعبوں کی طرح حصول تعلیم میں جو غفلت پاکستانی عوام کے بارے میں برتی ہے وہ ناقابل معافی اور ناقابلِ بیان ہے

یہاں یہ ذکر دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ لندن میں دہشت گردی کے سانحے میں ملوث افراد کا پاکستانی مدرسوں سے کوئی تعلق نہیں تھا ۔ حال میں پاکستان کے شہر سرگودھا سے جو پانچ امریکی گرفتار ہوئے وہ امریکن تھے اور امریکی اداروں میں تعلیم حاصل کر رہے تھے ۔ القاعدہ نامی دہشت گرد تنظیم سے وابستہ سرکردہ افراد کی ایک بڑی اکثریت مغربی یونیورسٹیز سے فارغ التحصیل ہے ۔ تو کیا ایسے افراد کو دہشت گردی پہ مائل کرنے میں مغربی یونیورسٹیز کو قصوروار گردانا جائے ؟ حکومت پاکستان اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کرنے والے امریکی اداروں کو بھی اس بات کا علم ہے کہ پاکستانی مدارس میں دہشت گردی کی تعلیم نہیں دی جاتی جبکہ پاکستان میں دہشت گردی کے لئے خام مال بکثرت ملنے کے اسباب میں ایک بڑا سبب غریبی ۔ مفلوک الحالی اور معاشرے میں پائی جانے والی شدید فرسٹریشن ہے ۔ اسکے باوجود تنظیم المدارس اور دوسری تنظیموں کا مؤقف یہ ہے اگر کسی ادارے کے کچھ افراد کا دہشت گردی میں ملوث ہونے کا شُبہ ہو تو ان کے خلاف ضرور کاروائی کی جائے مگر اسکا قصور پاکستان کے سب مدارس پہ مت ڈالا جائے

ان مدرسوں یا ان جیسے اداروں نے پاکستان کی غریب آبادی کی خاصی تعداد کو مفت رہائش اور مفت کھانے کے ساتھ تعلیم سے آراستہ کیا ہے جو کہ کُل خواندہ آبادی کا 35 فیصد بنتا ہے اور جو ریاست پاکستان کی ذمہ داری تھی ۔ کسی بھی معاشرے میں اگر ریاست کے اندر ریاست قائم ہوتی ہے یا لوگ قانون و عدلیہ پہ اعتماد کرنے کی بجائے اپنے فیصلے خود کرنے لگتے ہیں تو اس کا سبب ریاستی اداروں کی بدنظمی ، غفلت ، بد دیانتی اور نااہلی ہوتی ہے جس کے نتیجہ میں ریاست مطلوبہ فرائض پورے کرنے میں ناکام رہتی ہے اور پاکستان میں باسٹھ سالوں سے ریاستی اداروں اور انکے وسائل پہ قابض لوگ کون ہیں اس بارے میں سبھی جانتے ہیں کہ وہ کوئی بھی ہوں مگر پاکستان کی مسلمان اکثریت کی نمائیندگی نہیں کرتے مگر پاکستان کی اکثریت کے وسائل پہ بے جا تصرف رکھتے ہیں ۔ ہاں مدرسوں میں حصول تعلیم کے طریقہ کار پہ بحث کی جاسکتی ہے مگر مدرسوں کے منتظمیں کے خلوص نیت پہ شک نہیں کیا جاسکتا

پاکستان میں غرباء کی مدد کرنے والے بجائے خود غریب مگر مسلمان لوگوں کے خلاف اگر کسی کے کوئی ذاتی یا خاص مقاصد نہیں تو ایسے میں پاکستان میں مفت تعلیمی ادارے چلانے والوں کو الزام دینے کی بجائے ایسے فلاحی اداروں کی ستائش کرنی چاہئیے جو حکومتی اداروں کی نااہلی کی وجہ سے حکومت کے فرائض پورے کرنے میں ریاست کا ہاتھ بٹاتے ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے اداروں کی حکومت مناسب رہنمائی اور مدد کرے تاکہ یہ ادارے اور مدرسے پاکستان کی قومی اور تعلیم کی جدید اسپرٹ میں شامل ہو سکیں

ساڈا چوہدری شیر اے

پاکستان کے وزیرِاعظم یوسف رضا گیلانی نے آج بدھ شام پونے سات بجے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ساتھ ایک طویل ملاقات کے بعد چیف جسٹس کی سفارشات کو منظور کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس ثاقب نثار کے علاوہ جسٹس آصف کھوسہ کو بھی سپریم کورٹ میں جج مقرر کیا جا رہا ہے ۔ اس کے علاہ جسٹس خلیل الرحمٰن رمدے کو جو حال ہی میں سپریم کورٹ سے ریٹائر ہوئے ہیں ایک سال کے لیے سپریم کورٹ کا ایڈہاک جج مقرر کیا جا رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ججوں کی تقرری کا وہ نوٹیفیکیشن جو پہلے جاری کیا گیا تھا اس کی جگہ ایک نیا نوٹیفیکیشن لے گا جو آج رات جاری ہو جائے گا ۔ وزیرِ اعظم نے یہ بھی کہا کہ ججوں کی خالی آسامیاں کو فوراً پر کیا جا رہا ہے

پابندی ختم

اوّل میں اپنے اللہ کا شکر گذار ہوں جو مالک و قادر ہونے کے ساتھ مہربان اور رحم و کرم کرنے والا ہے
پھر تاخير کی معذرت کے ساتھ ميں اپنے مہربانوں کا شکرگذار ہوں جنہوں نے ميری مدد کی جن میں بالخصوص محمد اظہرالحق ۔ حيدرآبادی ۔ خرم شہزاد خرم ۔ عمر احمد بنگش ۔ ڈاکٹر ارشاد علی اور محمد سعید پالن پوری صاحبان شامل ہيں

وسط دسمبر 2009ء میں ميرے اس بلاگ پر متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں پابندی لگا دی گئی تھی ۔ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ کسی بارسُوخ مہربان نے شکائت کی تھی کہ ميرا بلاگ پورنوگرافک ہے ۔ محمد اظہرالحق صاحب نے نہ صرف اُنہیں لکھا بلکہ ٹيليفون پر بھی متعلقہ اہلکار سے بات کی جو بے نتيجہ رہی ۔ اُنہوں نے مجھے لکھا تو میں نے کئی بار اتصالات متحدہ عرب امارات کو لکھا اور عمر احمد بنگش صاحب نے بھی لکھا مگر بے سود ۔ اسی دوران سعودی عرب سے حيدرآبادی صاحب نے مجھے اطلاع دی کہ ميرا بلاگ سعودی عرب میں نہیں کھُل رہا ۔ سعودی عرب کے ادارہ کو حيدرآبادی صاحب نے درخواست کی اور مجھے بھی ايسا کرنے کا مشورہ دیا پھر محمد سعید پالن پوری صاحب نے عربی میں سعودی عرب کے ادارہ کو درخواست لکھ بھیجی ۔ اللہ کے فضل سے سعودی عرب میں وسط جنوری میں پابندی ختم کر دی گئی مگر متحدہ عرب امارات میں پابندی قائم رہی ۔ ڈاکٹر ارشاد علی صاحب نے اتصالات متحدہ عرب امارات کا کام اپنے ذمہ ليا اور بھرپور کوشش کی ۔ بالآخر الحمدللہ کچھ روز قبل متحدہ عرب امارات میں بھی ميرے بلاگ پر پابندی ختم ہوئی ۔ ڈاکٹر ارشاد علی صاحب کا نام ہی ميں نے اُس وقت سُنا بلکہ پڑھا جب اُنہوں نے اس سلسہ میں ميری مدد کی پیشکش کی ۔ سُبحان اللہ

اَنت بھلا سو بھلا

میرا دوسرا بلاگ ” حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter
” پچھلے ساڑھے پانچ سال سے معاشرے کے کچھ بھیانک پہلوؤں پر تحاریر سے بھر پور چلا آ رہا ہے ۔ اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ احتساب

ہم دولت کی لوٹ مار اور احتساب [Corruption and Accountability] کے الفاظ روزانہ اخبارات میں پڑھتے اور ٹی وی سے سُنتے ہیں اور لوگوں کے منہ سے بھی یہ الفاظ عام طور پر سُنے جاتے ہیں ۔ ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو جانتے ہیں کہ لوٹ مار کے جو قصے ہم پڑھتے اور سُنتے ہیں یہ اصل کا عشرِ عشیر بھی نہیں ۔ لوٹ مار اور ہیرا پھیری تو ازل سے ہے لیکن چار دہائیاں قبل وطنِ عزیز میں اس میں اضافہ شروع ہوا جسے روکنے کی کوشش کرنا تو درکنار اُلٹا اس کی حوصلہ افزائی کی گئی ۔ عام آدمی کے ذہن کو درہم برہم [confuse] کرنے کیلئے بڑے پیمانے پر اُن لوگوں کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جاتا رہا جو اس جُرم میں ملوث نہ تھے

میرا یقین ہے کہ اگر آج بھی عوام میں سے 30 فیصد لوگ ہی دیانتدار اور معاشرے کو درست کرنے کی خواہاں ہوں تو کوئی وجہ نہیں کہ بڑے عہدیدار اور حکمران ہیرا پھیری کر سکیں ۔ ہماری قوم کا سانحہ [میں اسے سانحہ ہی کہتا ہوں] یہ ہے کہ عوام کی اکثریت بھی لوٹ مار میں ملوث ہے اور جو نہیں ہیں وہ اس سلسلہ میں کچھ کرنے کے روادار نہیں

رات میں ساڑھے دس بجے سونے کیلئے لیٹا ۔ میرا خیال ہے کہ گیارہ بجے تک میں سو گیا تھا ۔ آدھی رات پوَن بجے میری نیند کھُل گئی ۔ نمعلوم کیوں میرے ذہن میں کرپشن اور اکاؤنٹبِلیٹی آ گئی پھر میرے ذہن کے پردہ سیمیں پر ماضی کے نظارے گھومنے لگے ۔ سب نظارے گذرنے میں آدھا پونا گھنٹہ لگا ہو گا لیکن میرے ذہن کو اتنا مُنتشر کر گئے کہ میں پانچ بجے صبح تک جاگتا رہا اور نجانے کب نیند آئی کہ فجر کی نماز قضا ہو گئی ۔ سوچا ان میں سے چند واقعات لکھ دیئے جائیں ہو سکتا ہے اس سے کوئی نصیحت پکڑے ۔ نام سب فرضی لکھوں گا کیونکہ کسی کی تضحیک مقصود نہیں

میں نے یکم مئی 1963ء میں پاکستان آرڈننس فیکٹریز میں ملازمت شروع کی ۔ اوائل 1965ء میں جب میں اسسٹنٹ ورکس منیجر سمال آرمز تھا میرے سینئر “ق” صاحب تھے جو بڑے رکھ رکھاؤ والے آدمی تھے ۔ تمباکو کا پائپ پیتے تھے ۔ اُن کا تعلق ایک کھاتے پیتے اور پڑھے لکھے گھرانے سے تھا ۔ جرمنی سے مال آیا تو اُس میں سے ایک چھوٹا سا بنڈل ہاتھ میں پکڑے ایک فورمین جا رہے تھے ۔ میں نے پوچھا “یہ چھوٹا سا بنڈل کیا ہے ؟” مسکرا کر کہنے لگے “سر ۔ ان کا نام ریئر سائٹ کلینر [Rear Sight Cleaner] رکھا گیا ہے ۔ یہ جرمنی سے جی تھری کے نام پر درآمد کئے گئے ہیں مگر یہ ہیں پائپ کلینر جو میں “ق” صاحب کو دینے جا رہا ہوں”

کچھ ماہ بعد مجھے کسی دوسری فیکٹری کے اسسٹنٹ ورکس منیجر نے کہا “سُنا ہے آپ کی فیکٹری میں جرمنی سے کوئی سامان آیا ہے اُس میں شراب کی بوتلیں نکلیں ہیں”۔ میں نے اُنہیں بتایا کہ میرے علم میں ایسی کوئی بات نہیں ۔ دوسرے دن میں نے اپنے ساتھی اسسٹنٹ ورکس منیجر سے ذکر کیا تو وہ کہنے لگے کہ بات درست ہے لیکن ہم چھوٹے لوگ ہیں بس خاموش رہیئے

کچھ سال بعد ایک سٹور ہولڈر میرے پاس گبھرائے ہوئے آئے ۔ وجہ پوچھی تو کہنے لگے “صاحب ۔ میرے ساتھ چلئے”۔ مجھے وہ اپنے سٹور میں لے گئے ۔ تالا کھولا اور میرے اندر داخل ہوتے ہی خود داخل ہو کر اندر سے کُنڈی لگا دی پھر ایک کریٹ [crate] کا اُوپر کا تختہ اُٹھایا ۔ اُس میں ایک ایلومینم کی فولڈنگ [folding] میز تھی ۔ سٹور ہولڈر نے بتایا کہ نیچے چار فولڈنگ کرسیاں بھی ہیں ۔ پھر بولا “صاحب ۔ میں غریب آدمی ہوں مُفت میں مارا جاؤں گا”۔ میں نے اُسے تسلی دی اور سیدھا جا کر اپنے سینیئر “ق” صاحب کو بتا دیا ۔ “ق” صاحب نے کہا “اچھا میں پتہ کرتا ہوں”۔ میری نظریں “ق” صاحب کے چہرے پر تھیں جس پر مکمل سکون رہا ۔ دو دن بعد میں کسی کام سے “ق” صاحب کے پاس گیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ بڑے صاحب کیلئے تھے

میں پروڈکشن منیجر تھا کہ 1969ء کے اواخر میں خبر نکلی کہ لکڑ خانے [Wood Working Factory] سے 2250 سی ایف ٹی [Cubic Foot] اول درجہ سیزنڈ [seasoned] دیودار کے سلِیپر کم ہو گئے ہیں اور انکوائری کا حکم دے دیا گیا ۔ بعد میں انکوائری کرنے والوں میں سے ایک نے مجھے بتایا کہ وہ لکڑی سالویج وُڈ [salvaged wood] کہہ کر سرکاری ٹرکوں پر راولپنڈی لیجائی گئی تھی جہاں ایک بڑے صاحب کا گھر بن رہا تھا ۔ میں نے کہا “پھر آپ نے کیا کیا ؟” جواب ملا بھائی غریب آدمی ہوں ۔ بچے ابھی چھوٹے ہیں ۔ اس عمر میں نکال دیا گیا تو کہیں اور نوکری بھی نہیں ملے گی”

میں مارچ 1983 سے ستمبر 1985 تک جنرل منیجر اور پرنسپل پی او ایف ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ تھا ۔ ہر سال 200 بوائے آرٹیزن بھرتی کر کے اُنہین 3 سال تربیت دی جاتی تھی ۔ پہلے 2 سال ہر ایک کو 12 کاپیاں 96 صفحے یعنی 48 ورق والی دی جاتی تھیں ۔ 800 درجن کاپیاں خریدنا تھی ۔ میں اپنی ذاتی گاڑی پر واہ سے راولپنڈی گیا اور سٹیشنری کی دکانیں ديکھیں ۔ اُن سے بحث وغیرہ کر کے کوٹیشنز لیں ۔ سب سے سستی 26 روپے درجن ملی ۔ جب کاپیاں پہنچیں تو سٹاف اسسٹنٹ حيران ہوا ۔ وجہ پوچھی تو کہنے لگا “سر ۔ پچھلے سال 36 روپے درج خریدی تھیں”۔ میں نے متعلقہ سپلائر کو ٹیلیفون کر کے کہا کہ ریکارڈ چیک کر کے بتائے کہ پچھلے سال اُس نے کاپیاں کیا بھاؤ دی تھیں ۔ دوسرے دن اُس نے بتایا “28 روپے درجن”۔ گویا پچھلے سال خریدنے والے کی جیب میں 6400 روپے گئے تھے

خاص قسم کی خراد مشینوں کیلئے آفرز مانگیں ۔ ان میں ایک میں لکھا تھا کہ “ایک سال قبل اُنہوں نے 10 مشینیں فلاں فیکٹری کو 12 لاکھ روپے فی مشین کے حساب سے سپلائی کی تھیں ۔ اب گو قیمتیں 10 فیصد بڑھ چکی ہیں مگر پرانی قیمت پر ہی سپلائی کریں گے” ۔ میں نے آئی ہوئی 6 آفرز کا پہلے فنی موازنہ اور پھر مالی موازنہ [Technical and Financial comparison] تیار کیا ۔ ان کی مشین سب سے اچھی تھی مگر قیمت صرف ایک ادنٰی مشین سے تھوڑی سی زیادہ تھی ۔ میں نے ان کے مندوب کو بلایا اور کہا “چائے کے وقت آپ آئیں گے تو میں چائے پلاؤں گا کھانے کے وقت آئیں گے تو کھانا کھلاؤں گا لیکن آپ سے میں پانی بھی نہیں پیئوں گا ۔ دیگر آپ کے بِل جمع کرانے کے 5 ہفتے کے اندر آپ کا چیک جاری ہو جائے گا ۔ آپ قیمت 30 فیصد کم کریں”۔ مندوب اپنی کرسی میں اُچھل گیا ۔ میں نے اُسے کہا کہ “یہ آپ کے بس کی بات نہیں ہے ۔ کراچی میں ہیڈ آفس والوں سے کہیئے کہ آپ کے پرنسیپلز کو لکھیں”۔ دوہفتے بعد وہ نئی کوٹیشن لے کر آیا فی مشین ساڑھے 9 لاکھ اور لمبی چوڑی کہانی سنائی ۔ ایک سال قبل جو 10 مشینیں آرڈر ہوئی تھیں اُس سودے میں 25 لاکھ روپیہ کس کس کی جیب میں گیا ؟

اسی دوران کی بات ہے کہ سی این سی مشینز [Computerised Numerical Control Machines] ٹریننگ سینٹر کیلئے آفرز منگوائی گئیں ۔ میں موازنہ تیار کر چکا تھا کہ بڑے باس کی طرف سے تجویز آ گئی کہ اس کمپنی کو آرڈر دوں ۔ میں نے آفر کا معائنہ کیا تو دُگنی قیمت ہونے کے علاوہ وہ آفر ہماری ضروریات پر پوری نہ اُترتی تھی اور مکمل بھی نہ تھی ۔ مین نے لکھ بھیجا ۔ پھر مشورہ آیا کہ اسے ہی آرڈر کروں ۔ میں نے خامیوں کی تفصیل کے ساتھ یہ بھی لکھ بھیجا کہ قیمت بہت زیادہ ہے اور ساتھ موزوں ترین آفر بھی لگا کر بھیج دی ۔ کچھ دن بعد میرا تبادلہ ہو گیا اور میری سالانہ رپورٹس اوسط ہونا شروع ہو گئیں جس کے باعث میری ترقی رُک گئی ۔ میرے بعد میں آنے والے صاحب نے اُس آفر کی سفارشات بنا کر بھیج دیں ۔ باس خوش ہو گئے اور اگلے سال اُن صاحب کی ترقی ہو گئی

فيصلے

لاہورہائی کورٹ کے الیکشن ٹریبونل نے این اے123سے مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف کی اہلیت کے خلاف شاہد اورکزئی کی جانب سے دائر درخواست کو مسترد کرتے ہوئے انہیں الیکشن لڑنے کیلئے اہل قرار دے دیا ہے ۔ درخواست میں موٴقف اختیار کیا گیا تھا کہ نواز شریف نادہندہ ہیں اور ان پر سپریم کورٹ پر حملے کا بھی الزام ہے ۔ نواز شریف کے وکیل کا کہنا تھا کہ نواز شریف سپریم کورٹ حملے پرملوث نہیں تھے اور مدعی کی درخواست مفروضوں اور بدنیتی پر مبنی ہے

مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف نے این اے 123 سے کاغذات نامزدگی واپس لے لیے اور مسلم لیگ(ن) کی جانب سے پرویز ملک ضمنی انتخابات میں حصہ لیں گے ،نوازشریف کے دستبردار ہونے کے بعد اب اس حلقے سے الیکشن لڑنے والے امیدواروں کی تعداد 8 ہوگئی ہے

آزاد دہشتگرد

دبئی میں گزشتہ مہینے حماس کے اہم کمانڈر کو قتل کرنے والے افراد کی سی سی ٹی وی فوٹیج جاری کردی گئی ۔ Killersپولیس کا کہنا ہے کہ گیارہ رکنی قاتل اسکواڈ یورپی تھا اور انہوں نے بھیس بدل کر انتہائی منظم انداز میں کارروائی کی۔دبئی میں نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پولیس چیف لیفٹیننٹ جنرل داہی خلفان تمیم نے بتایا کہ حماس کے کمانڈر محمود المبحوح کو مبینہ طور پر قتل کرنیوالے یورپی پاسپورٹ کے حامل تھے۔ جنہوں نے بھیس بدلنے کیلئے وِگ، نقلی داڑھی اور ٹینس کے کھلاڑیوں جیسے لباس استعمال کیے۔ قاتل اسکواڈ میں ایک خاتون بھی شامل تھی۔پولیس سربراہ کاکہنا تھا کہ ممکن ہے بعض ممالک نے اپنی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو حماس رہنما کے قتل کا حکم دیا ہو۔ اس موقع پر مبینہ قاتلوں کی جاری کی گئی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی دکھائی گئیں اوران کی تصاویر اور پاسپورٹ کی تفصیلات بتائی گئیں جن کے مطابق ڈیتھ اسکواڈ میں شامل گیارہ افراد میں سے چھ برطانیہ، تین آئرلینڈ اور ایک ایک جرمنی اور فرانس کے پاسپورٹ پر دبئی پہنچے تھے۔ حماس نے بیس جنوری کو دبئی کے ہوٹل میں مردہ پائے گئے اپنے کمانڈر محمود المبحوح کے قتل کا ذمہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کو ٹھہراتے ہوئے بدلہ لینے کا اعلان کیا ہے

بشکريہ ۔ جنگ

میں معافی مانگتا ہوں

ایک ساتھی کا ٹیلیفون آیا ۔ اطلاع دی کہ فلاں صاحب انتقال کر گئے ہیں ۔ اِنّا لِلہِ وَ اِنّا اِلَیہِ رَجِعُون کہنے کے بعد میں ٹیلیفون بند کر کے لیٹ گیا ۔ میری آنکھوں سے برسات شروع ہو گئی ساتھ دِل بھی گریہ و زاری کرنے لگا ۔ اُن کی وفات پر کم کیونکہ مرنا ہر ایک نے ہے ۔ اپنے رب کے حضور معافی مانگنے کیلئے زیادہ کیونکہ کسی کی موت یا تکلیف دوسروں کیلئے عبرت کا نشان ہوتی ہے

سدا نہ مانِیئے حُسن جوانی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ [ہمیشہ حُسن اور جوانی نہیں رہتے]
سدا نہ صُحبت یاراں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ [ہمیشہ دوستوں کی صحبت نہیں ملتی]
سدا نہ باغ وِچ بُلبُل بولے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ [ہمیشہ باغ میں بُلبُل نہیں بوتا ]
سدا نہ رَہن بہاراں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ [اور نہ ہمیشہ بہا رہتی ہے]
دُشمن مرے تے خُوشی نہ کریئے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ [دُشمن کے مرنے پر خوش نہ ہو ]
سجناں وِی ٹُر جانا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ [کہ پیارے بھی ایک دن مر جائیں گے]

نمعلوم کیوں میرے ذہن میں ماضی گھومنے لگا ۔ 1976ء میں ایک بڑے افسر کو اپنے کرتوت کی بناء پر ایک غیرمُلک سے ناپسندیدہ شخصیت [Persona non grata] قرار دے کر نکالا گیا ۔ میں اور دیگر تین ساتھی بھی اُسی مُلک میں تھے ۔ ایک ساتھی نے کہا “یہ ہمارے لئے مقامِ عبرت ہے ۔ ہمیں کیا کرنا چاہیئے ؟” میرے منہ سے نکلا “اپنے اللہ کے سامنے جھُک کر اپنے گناہوں کی معافی مانگنا چاہيئے”۔ چاروں نے وضو کیا اور باجماعت نوافل ادا کرنے کے بعد رو اور گڑگڑا کر اپنے مالک و خالق سے معافی مانگی ۔جمعرات کو فوت ہونے والے صاحب کے قلم کے استعمال کی وجہ سے کئی محنتی اور دیانتدار افسران مشکلات کا شکار ہوئے اور کئی نااہل موج میلہ کرتے رہے ۔ چنانچہ اب بھی یہی صورتِ حال ہے

میرے اللہ ۔ میرے خالق و مالک ۔ آپ قادر و کریم اور رحمٰن و رحیم ہو
میں جو کچھ بھی ہوں صرف آپ کی دی ہوئی توفیق سے ہوں
میں آپ سے انتہائی عِجز و اِنکساری کے ساتھ التجا کرتا ہوں کہ میری دانستہ اور نادانستہ غلطیاں معاف فرما
میری رہنمائی فرما اور مجھے توفیق عطا فرما کہ میں آپ کے بتائے ہوئے راستہ پر چل سکوں جس کی آج تک میں نے کوشش کی ہے
میرے مالک مجھے مزید کوشش کیلئے ہمت و استقلال عطا فرما اور میری نیک کوششوں کو کامیابی عطا فرما
میں سب کے سامنے آپ کے حضور حاضر ہوا ہوں کہ آپ کے بندے گواہ رہیں کہ میں حاضر ہوا

قارئین سے درخواست ہے کہ جب اپنے لئے دعا کریں تو میرے لئے بھی دعا کریں