دوسرا ستون ۔ اخلاق یعنی سلوک برتاؤ

رُکن اور ستون “کے وضاحت کے بعد پہلا ستون ” ایمان ” کا بیان پہلے ہو چکا ہے

عصرِ حاضر میں ہمیں یہ سمجھانے کی کوشش کی جار رہی ہے کہ اسلام انتہاء پسندی اور دہشتگردی سکھاتا ہے اور عِلم سے محروم اسناد کے حامل مسلمان ہموطن اُن کی آواز میں آواز ملانے لگتے ہیں مگر اتنی زحمت گوارہ نہیں کرتے کہ جس دین کے وہ خود بھی نام لیوا ہیں کم از کم پڑھ تو لیں کہ وہ ہے کیا ؟

سورت ۔ 2 ۔ البقرۃ ۔ آیت 263 ۔ ایک میٹھا بول اور کسی ناگوار بات پر ذرا سی چشم پوشی اس خیرات سے بہتر ہے جس کے پیچھے دکھ ہو ۔ اللہ بے نیاز ہے اور بردباری اس کی صفت ہے

سورت ۔ 4 ۔ النسآء ۔ آیت 19 تا 21 ۔ مومنو! تم کو جائز نہیں کہ زبردستی عورتوں کے وارث بن جاؤ۔ اور (دیکھنا) اس نیت سے کہ جو کچھ تم نے ان کو دیا ہے اس میں سے کچھ لے لو انہیں (گھروں میں) میں مت روک رکھنا ہاں اگر وہ کھلے طور پر بدکاری کی مرتکب ہوں (تو روکنا مناسب نہیں) اور ان کے ساتھ اچھی طرح رہو سہو اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو عجب نہیں کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں بہت سی بھلائی پیدا کردے ۔ اور اگر تم ایک عورت کو چھوڑ کر دوسری عورت کرنی چاہو۔ اور پہلی عورت کو بہت سال مال دے چکے ہو تو اس میں سے کچھ مت لینا۔ بھلا تم ناجائز طور پر اور صریح ظلم سے اپنا مال اس سے واپس لے لوگے؟ اور تم دیا ہوا مال کیونکر واپس لے سکتے ہو جب کہ تم ایک دوسرے کے ساتھ صحبت کرچکے ہو۔ اور وہ تم سے عہد واثق بھی لے چکی ہے
سورت ۔ 4 ۔ النسآء ۔ آیت 34 ۔ مرد عورتوں پر ایک درجہ مقدم ہیں اس لئے کہ اللہ نے بعض کو بعض سے افضل بنایا ہے اور اس لئے بھی کہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں تو جو نیک بیبیاں ہیں وہ مردوں کے حکم پر چلتی ہیں اور ان کے پیٹھ پیچھے اللہ کی حفاظت میں (مال وآبرو کی) خبرداری کرتی ہیں اور جن عورتوں کی نسبت تمہیں معلوم ہو کہ سرکشی (اور بدخوئی) کرنے لگی ہیں تو (پہلے) ان کو (زبانی) سمجھاؤ (اگر نہ سمجھیں تو) پھر ان کے ساتھ سونا ترک کردو اگر اس پر بھی باز نہ آئیں تو زدوکوب کرو اور اگر فرمانبردار ہوجائیں تو پھر ان کو ایذا دینے کا کوئی بہانہ مت ڈھونڈو بےشک اللہ سب سے اعلیٰ (اور) جلیل القدر ہے
سورت ۔ 4 ۔ النسآء ۔ آیت 36 ۔ اور تم سب اللہ کی بندگی کرو ۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ ۔ ماں باپ کے ساتھ نیک برتاؤ کرو ۔ قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ ۔ اور پڑوسی رشتہ دار سے ۔اجنبی ہمسایہ سے ۔ پہلو کے ساتھی اور مسافر سے اور ان لونڈی غلاموں سے جو تمہارے قبضہ میں ہوں احسان کا معاملہ رکھو ۔ یقین جانو اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو اپنے پندار میں مغرور ہو اور اپنی بڑائی پر فخر کرے
سورت ۔ 4 ۔ النسآء ۔ آیت 86 ۔ اور جب تم کو کوئی سلام کرے تو (جواب میں) تم اس سے بہتر (کلمے) سے (اسے) سلام کرو یا انہیں لفظوں سے سلام کرو بےشک اللہ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے
سورت ۔ 4 ۔ النسآء ۔ آیت 148 ۔ اللہ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کوئی کسی کو اعلانیہ برا کہے مگر وہ جو مظلوم ہو۔ اور اللہ (سب کچھ) سنتا (اور) جانتا ہے

سورت ۔ 5 ۔ المآئدہ ۔ آیت 8 ۔ اے ایمان والوں! اللہ کے لیے انصاف کی گواہی دینے کے لیے کھڑے ہو جایا کرو۔ اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو۔ انصاف کیا کرو کہ یہی پرہیزگاری کی بات ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ کچھ شک نہیں کہ اللہ تمہارے سب اعمال سے خبردار ہے

سورت ۔ 6 ۔ الانعام ۔ آیت 152 ۔ اور یتیم کے مال کے پاس بھی نہ جانا مگر ایسے طریق سے کہ بہت ہی پسندیدہ ہو یہاں تک کہ وہ جوانی کو پہنچ جائے اور ناپ تول انصاف کے ساتھ پوری پوری کیا کرو ہم کسی کو تکلیف نہیں دیتے مگر اس کی طاقت کے مطابق اور جب (کسی کی نسبت) کوئی بات کہو تو انصاف سے کہو گو وہ (تمہارا) رشتہ دار ہی ہو اور اللہ کے عہد کو پورا کرو ان باتوں کا اللہ تمہیں حکم دیتا ہے تاکہ تم نصحیت پکڑو

سورت ۔ 16 ۔ النّحل۔ آیت 126 ۔ اور اگر تم بدلہ لو تو اُسی قدر لے لو جس قدر تم پر زیادتی کی گئی ہو لیکن اگر صبر کرو تو یقیناً یہ صبر کرنے والوں کے حق ہی میں بہتر ہے

سورت ۔ 17 ۔ الاسرآء یا بنی اسرآءیل ۔ آیت 23 ۔ اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرتے رہو۔ اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو اُن کو اُف تک نہ کہنا اور نہ انہیں جھڑکنا اور اُن سے بات ادب کے ساتھ کرنا

سورت ۔ 57 ۔ الحدید ۔ آیت 23 ۔ ” ۔ ۔ ۔ اور جو تم کو اس نے دیا ہو اس پر اترایا نہ کرو۔ اور اللہ کسی اترانے اور شیخی بگھارنے والے کو دوست نہیں رکھتا”

سورت ۔ 25 ۔ الفرقان ۔ آیت 68 ۔ جو اللہ کے سوا کسی اور کو معبود نہیں پکارتے ۔ اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق ہلاک نہیں کرتے اور نہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ یہ کام جو کوئی کرے وہ اپنے گناہ کا بدلہ پائے گا

سورت ۔ 31 ۔ لقمان ۔ آیت 14 ۔ اور ہم نے انسان کو جسے اُس کی ماں تکلیف پر تکلیف سہہ کر پیٹ میں اُٹھائے رکھتی ہے (پھر اس کو دودھ پلاتی ہے) اور( آخرکار) دو برس میں اس کا دودھ چھڑانا ہوتا ہے اس کے ماں باپ کے بارے میں تاکید کی ہے کہ میرا بھی شکر کرتا رہ اور اپنے ماں باپ کا بھی (کہ تم کو) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے
سورت ۔ 31 ۔ لقمان ۔ آیات 18 ، 19 ۔ اور لوگوں سے منہ پھیر کر بات نہ کر۔ نہ زمین میں اکڑ کر چل ۔ اللہ کسی خود پسند اور فخر جتانے والے شخص کو پسند نہیں کرتا ۔ اپنی چال میں اعتدال اختیار کر اور اپنی آواز ذرا پست رکھ ۔ سب آوازوں سے زیادہ بری آواز گدھوں کی آواز ہوتی ہے

سورت ۔ 33 ۔ الاحزاب ۔ آیت 58 ۔ اور جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ایسے کام (کی تہمت سے) جو انہوں نے نہ کیا ہو ایذا دیں تو انہوں نے بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اپنے سر پر رکھا

سورت ۔ 41 ۔ فُصلت یا حم السجدہ ۔ آیت 34 ۔ اور بھلائی اور برائی برابر نہیں ہوسکتی۔ تو (سخت کلامی کا) ایسے طریق سے جواب دو جو بہت اچھا ہو (ایسا کرنے سے تم دیکھو گے) کہ جس میں اور تم میں دشمنی تھی گویا وہ تمہارا گرم جوش دوست ہے

سورت ۔ 42 ۔ الشورٰی ۔ آیات 40 ، 41 ۔ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے۔ مگر جو درگزر کرے اور (معاملے کو) درست کردے تو اس کا بدلہ اللہ کے ذمے ہے۔ اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔ اور جس پر ظلم ہوا ہو اگر وہ اس کے بعد انتقام لے تو ایسے لوگوں پر کچھ الزام نہیں

سورت ۔ 49 ۔ الحجرات ۔ آیات 11 ، 12 ۔ اے لوگو جو ایمان لاۓ ہو ۔ نہ مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں ۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں ۔ اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں ۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں ۔ آپس میں ایک دوسرے پہ طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد کرو ۔ ایمان لانے کے بعد فسق میں نام پیدا کرنا بہت بری بات ہے ۔ جو لوگ اس روش سے باز نہ آئیں وہ ظالم ہیں ۔ اے اہل ایمان! بہت گمان کرنے سے احتراز کرو کہ بعض گمان گناہ ہیں۔ اور ایک دوسرے کے حال کا تجسس نہ کیا کرو اور نہ کوئی کسی کی غیبت کرے۔ کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے؟ اس سے تو تم ضرور نفرت کرو گے۔ (تو غیبت نہ کرو) اور اللہ کا ڈر رکھو بےشک اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے

سورت ۔ 61 ۔ الصّف ۔ آیات 2 ، 3 ۔ اے لوگو جو ایمان لاۓ ہو ۔ تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو ؟ اللہ کے نزدیک یہ سَخت نا پسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں ۔

This entry was posted in دین, معلومات on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

10 thoughts on “دوسرا ستون ۔ اخلاق یعنی سلوک برتاؤ

  1. راشد کامران

    اقتباس:
    عصرِ حاضر میں ہمیں یہ سمجھانے کی کوشش کی جار رہی ہے کہ اسلام انتہاء پسندی اور دہشتگردی سکھاتا ہے اور عِلم سے محروم اسناد کے حامل مسلمان ہموطن اُن کی آواز میں آواز ملانے لگتے ہیں مگر اتنی زحمت گوارہ نہیں کرتے کہ جس دین کے وہ خود بھی نام لیوا ہیں کم از کم پڑھ تو لیں کہ وہ ہے کیا ؟

    تبصرہ:
    میں تبصرہ نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن یہ ضروری ہے کہ اس بات کو بھی سامنے لایا جائے کہ صرف یہ سمجھانے کی کوشش نہیں‌کی جاریہ بلکہ اسلام کا نام لے کر “علم و اسناد” دونوں‌سے محروم اور “علم و اسناد” دونوں‌ سے آراستہ بہت سے لوگ کھلی دہشت گردی میں مصروف ہیں اور اسناد کے حامل اسناد سے محروم بہت سے لوگ اسے ڈائیلیوٹ کرنے کے عمل میں بھی مشغول ہیں۔۔ جس منظم انداز میں آپ مستقل پڑھے لکھے لوگوں کو نشانہ بنا رہے ہیں وہ کوئی قابل تحسین بات نہیں ہے۔۔ جتنی عمومیت آپ اس بات میں استعمال کررہے ہیں بلکہ اسی کے مخالف عمومیت کو پر تنقید بھی کررہے ہیں۔۔ یعنی آکسی موران۔

  2. افتخار اجمل بھوپال Post author

    راشد کامران صاحب
    پڑھے لکھے اور تعلیم یافتہ میں فرق ہوتا ہے ۔ رہا آپکا تبصرہ تو آپ مجھے ایک ایسی مستند مثال بتا دیجئے کہ کسی منظور شدہ مدرسہ سے باقاعدہ فارغ التحصیل شخص نے دہشتگردی میں حصہ لیا ہو ۔ مثال کے طور پر جامعہ علوم الاسلامیہ العالمیہ بنوری ٹاؤن کراچی ۔ جامعہ فریدیہ اسلام آباد ۔ جامعہ دارالفرقان لاہور ۔ جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک صوبہ سرحد اور اسی طرح کے دوسرے مدرسے ۔ اسلام کا نام تو سب ہی لیتے ہیں وہ بھی جو برملا شراب پیتے ہیں وہ بھی جنہوں نے نماز بھی کم ہی پڑھی مگر دیکھنا یہ ہے کہ جو اپنے پاس دوسرے علم کی اسناد رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ سب کچھ جانتے ہیں اُن کا اپنا عمل کیا ہے ۔ جب نعمان یعقوب اور راشد کامران صاحبان اور عنیقہ ناز صاحبہ جیسے پڑھے لکھے لوگ بھارت کے زیرِ استبداد جموں کشمیر میں اقوامِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل اور جنرل اسمبلی کی قرادادوں میں منظور شدہ جد و جہد آزادی کو دہشتگردی قرار دیتے ہیں ۔ عورت کے سر پر دوپٹہ رکھنے کو جاہلیت کہتے ہیں لڑکی کا گھر سے بھاگ کر کسی لڑکے سے شادی کرنا جائز قرار دیتے ہیں تو پڑھے لکھے اور تعلیم یافتہ کا فرق واضح ہو جاتا ہے

  3. خرم

    دو سانڈھوں کی لڑائی میں مینڈک بننے سے بچنے کی کوشش کرتے ہوئے صرف ایک عرض کرنا چاہوں گا کہ اگر کسی لڑکی کو اس کا شرعی حق دے دیا جائے تو اسے گھر سے بھاگ کر شادی کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔ اور یقیناً آپ نے درست فرمایا کہ تعلیم یافتہ اور پڑھے لکھے میں فرق ہے۔ دراصل ہم لوگ (مجھ سمیت) بات کو عمومی نہیں ذاتی انداز میں پڑھتے ہیں اور کچھ جذباتی ہوجاتے ہیں۔ :lol:

  4. فرحان دانش

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
    قیامت والے دن مومن بندے کی میزان میں حسن اخلاق سے زیادہ بھاری چیز کوئی نہیں ہوگی
    اور یقیناََ اللہ تعالیٰ بدزبان اور بےہودہ گوئی کرنے والے کو ناپسند کرتا ہے ۔
    ترمذی
    كتاب البر والصلة عن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم
    باب : ما جاء في حسن الخلق

  5. محمد سعيد البالنبوري

    قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : المسلم من سلم “الناس” من لسانه و يده. رواه ابن جبان.
    musalman wo hay jis ki zubam‎_‎‎___QAUL ‎‎_‎‎_‎‎_aur hath____ FE’AL ____se” log”___ bshumol kafir, k hadis may “annas” hay____ mahfoz rhen.

  6. افتخار اجمل بھوپال Post author

    خرم صاحب
    اس حق کے باوجود لڑکیاں بھاگتی ہیں جس کی وجہ جذباتیت ہے ۔ بہت سی شادیاں ایسی ہوتی آئی ہیں کہ لڑکے لڑکی نے آپس میں پسند کیا اور اپنے اپنے والدین تک براہِ راست یالواسطہ خبر پہنچائی اور باقاعدہ طریقہ سے شادی ہو گئی

  7. خرم

    انکل اگر لڑکے اور لڑکی کو اعتماد ہو کہ ان کے والدین معقولیت کا برتاؤ کریں گے تو کیوں کوئی گھر سے بھاگے۔ یقینآ ایسے دانشمند والدین موجود ہیں جو اپنی اولاد کی خوشی اور معقولیت کو بے بنیاد تعصبات پر فوقیت دیتے ہیں لیکن بدقسمتی سے اکثر گھرانے ایسے ہیں جہاں بچوں کی خوشی سے زیادہ جھوٹی آن بان کی اہمیت ہے۔

  8. افتخار اجمل بھوپال Post author

    خرم صاحب
    یہ دانشمند لوگ زیادہ تر درمیانے طبقہ میں پائے جاتے ہیں ۔ مشکلات اُن لڑکیوں کیلئے ہوتی ہیں جو وڈیروں اور جاہل لوگوں کے گھر پیدا ہوتی ہیں ۔
    پرانی بات ہے ہمارے گھر مین ملازمہ کے بیٹے اور اُس کی کزن کی شادی ہوئی وہ دونوں شاید مڈل تک پڑھے تھے ۔ جوانی قریب آئی تو محبت نامے شروع ہو گئے ۔ ماں نے بیٹے کی مرضی سے شادی کر دی ۔ شادی کو سال بھی نہ گذرا تھا کہ اس لڑکے کی ایک دوسری کزن نے محبت نامے بھیجنے شروع کر دیئے ۔ نتیجہ یہ کہ اس نے بیوی کو طلاق دے دی اور دوسری سے شادی کر لی ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.