Daily Archives: November 25, 2009

مہاجر کون ؟

نقلِ مکانی تو آدمی ازل سے کرتا ہی آیا ہے لیکن جسے طاقت کے بل بوتے نقل مکانی کرنے پر مجبور کر دیا جائے اُسے تاریخ میں مہاجر کہا گیا ہے اور وہ بھی کسی جگہ قیام کر کے اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جائے تو مہاجر نہیں رہتا یا کم از کم اُس کی اگلی نسل مہاجر نہیں ہوتی ۔ 1947ء میں پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے سے قبل ہی ہندوستان میں ایک محتاط منصوبہ بندی کے تحت عسکری تربیت یافتہ ہندوؤں اور سکھوں نے مسلمانوں پر حملے شروع کر دیئے ۔ مسلمانوں کا قتل اور آگ لگانا روز کا معمول بن گیا ۔ جن علاقوں میں مسلمان اکثریت میں تھے وہاں بھی جن محلوں میں مسلمان اقلیت میں تھے یا جہاں کہیں اکیلا دوکیلا ملے اُن پر قاتلانہ حملے ہونا شروع ہو گئے

ان غیرمتوقع حالات نے بھارت کے زیرِ تسلط آنے والے علاقوں میں رہنے والے مسلمانوں کو ہجرت پر مجبور کیا اور اُنہوں نے پاکستان کا رُخ کیا جن میں سے بہت سے سفر کے دوران شہید کر ديئے گئے ۔ یہ لوگ بے سر و سامانی کی حالت میں پاکستان پہنچے ۔ انہیں فوری طور پر سرحدوں کے قریب ہی بنائے گئے عارضی ٹھکانوں میں رکھا گیا اور بعد میں مختلف شہروں یا دیہات میں بسایا گیا ۔ اِن لوگوں کو مہاجر یا پناگزیں یا پناہ گیر کہا گیا لیکن اپنی روزی آپ کمانا شروع کرتے ہی انہوں نے یہ تخلص ترک کر دیا ۔ پھر اگر کوئی انجان ان میں سے کسی کو مہاجر کہہ دیتا تو اس کا بہت بُرا منایا جاتا ۔ 1948ء میں بھی مہاجر پاکستان آتے رہے ۔ سوائے جموں کشمیر کے باقی علاقوں سے اس کے بعد آنے والوں کو مہاجر نہیں کہا گیا کیونکہ وہ اپنی تسلی کے ساتھ آئے تھے اُنہیں زبردستی گھروں سے نہیں نکالا گیا تھا ۔ بعد میں آنے والے لوگ سوائے معدودے چند کے اپنے پورے ساز و سامان کے ساتھ آئے تھے اور وہ مہاجر نہیں تھے بلکہ اپنی مرضی سے نقل مکانی کرنے والے تھے ۔ 1951ء میں قانون بنا جس کے تحت بھارت سے پاکستان میں قیام کی خاطر داخل ہونے والے مسلمان کو بھی حکومتِ پاکستان سے باقاعدہ اجازت حاصل کرنا قرار پایا

برطانیہ کے ذہنی غلاموں نے 16 اکتوبر 1951ء کو پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم اور بابائے قوم کے قریبی ساتھی لیاقت علی خان صاحب کو قتل کرا دیا اور اپنی چالاکیوں کے نتیجہ میں خواجہ ناظم الدین صاحب کو چکمہ دے کر ایک اوباش شخص غلام محمد کو پاکستان کا سربراہ بنا دیا گیا جس نے 17 اپریل 1953ء کو پاکستان کی پہلی مُنتخب اسمبلی کو توڑ دیا جبکہ وہ اسمبلی پاکستان کا آئین تیار کر چکی تھی اور اسمبلی میں پیش کر کے اس کی منظوری لینا تھی ۔ اس کے بعد برطانیہ کے ذہنی غلاموں اور انڈین سول سروس کے سابقہ افسروں نے ملک کا پورا نظم و نسق سنبھال لیا ۔ آئین کو پسِ پُشت ڈال دیا گیا اور 1951ء کا قانونِ شہریت تو کیا ہر قانون کی صریح خلاف ورزیاں حکمرانوں کے ایماء پر ہونے لگیں ۔ اس کے نتیجہ میں بہت سے ایسے لوگ پاکستان میں آ کر بس گئے جو 1951ء کے شہریت کے قانون کے تحت شاید کبھی پاکستان میں مستقل رہائش اختیار نہ کر سکتے ۔ نہ صرف یہ بلکہ کئی مشکوک لوگوں کو اچھے عہدے بھی دیئے جاتے رہے

بقول شخصے ہمارے ہموطنوں کی ہر چیز ہی نرالی ہے ۔ پاکستان بننے کے تین دہائیاں بعد ایک ایسا وقت بھی آیا جب پاکستان میں پیدا ہونے والوں نے اپنے آپ کو مہاجر کا نام دے دیا اور کراچی يونیورسٹی میں 11 جون 1978ء کو الطاف حسین نامی طالبعلم نے آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹس آرگنائیزیشن کی بنیاد رکھی ۔ بعد میں اس نے مہاجر قومی موومنٹ کے نام سے ایک سیاسی جماعت کی صورت اختیار کر لی ۔ اس میں شامل ہونے والوں میں اکثریت ان صاحبان کی اولاد ہے جو 1951ء کا قانون نافذ ہونے کے بعد اپنی مرضی سے نقل مکانی کر کے پاکستان آئے تھے ۔ کچھ اُن کی اولاد بھی شامل ہوئی جو مہاجر تھے لیکن اپنے آپ کو مہاجر کہنا پسند نہیں کرتے تھے اور چند ایسوں کی اولاد بھی جن کے آباؤ اجداد 14 اگست 1947ء سے پہلے اس علاقہ میں مقیم تھے جو پاکستان میں شامل ہوا ۔ اب گو حالات کے دباؤ کے تحت اس سیاسی جماعت کا نام بدل کر متحدہ قومی موومنٹ رکھ دیا گیا لیکن اس میں شامل لوگ ابھی بھی اپنی شناخت مہاجر کے طور پر ہی کراتے ہیں ۔ یہ رویہ کس حد تک مناسب ہے کوئی آنے والا مؤرخ ہی لکھے گا ۔ شروع میں میری ہمدردیاں مہاجر موومنٹ کے ساتھ تھیں کیونکہ میں اپنے بزرگوں کے ساتھ 1947ء میں ہجرت کر کے آیا تھا لیکن وقت گذرنے کے ساتھ جب مہاجر قومی موومنٹ کے کچھ رہنماؤں کو بہت قریب سے دیکھا تو دور ہونا ہی قرینِ حقیقت سمجھا

اللہ ہر اُس شخص کو جو اپنے آپ کو پاکستانی کہتا ہے اُسے حقیقی پاکستانی بننے اور اس مُلک پاکستان کی خدمت کی توفیق دے