مہاجر کون ؟

نقلِ مکانی تو آدمی ازل سے کرتا ہی آیا ہے لیکن جسے طاقت کے بل بوتے نقل مکانی کرنے پر مجبور کر دیا جائے اُسے تاریخ میں مہاجر کہا گیا ہے اور وہ بھی کسی جگہ قیام کر کے اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جائے تو مہاجر نہیں رہتا یا کم از کم اُس کی اگلی نسل مہاجر نہیں ہوتی ۔ 1947ء میں پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے سے قبل ہی ہندوستان میں ایک محتاط منصوبہ بندی کے تحت عسکری تربیت یافتہ ہندوؤں اور سکھوں نے مسلمانوں پر حملے شروع کر دیئے ۔ مسلمانوں کا قتل اور آگ لگانا روز کا معمول بن گیا ۔ جن علاقوں میں مسلمان اکثریت میں تھے وہاں بھی جن محلوں میں مسلمان اقلیت میں تھے یا جہاں کہیں اکیلا دوکیلا ملے اُن پر قاتلانہ حملے ہونا شروع ہو گئے

ان غیرمتوقع حالات نے بھارت کے زیرِ تسلط آنے والے علاقوں میں رہنے والے مسلمانوں کو ہجرت پر مجبور کیا اور اُنہوں نے پاکستان کا رُخ کیا جن میں سے بہت سے سفر کے دوران شہید کر ديئے گئے ۔ یہ لوگ بے سر و سامانی کی حالت میں پاکستان پہنچے ۔ انہیں فوری طور پر سرحدوں کے قریب ہی بنائے گئے عارضی ٹھکانوں میں رکھا گیا اور بعد میں مختلف شہروں یا دیہات میں بسایا گیا ۔ اِن لوگوں کو مہاجر یا پناگزیں یا پناہ گیر کہا گیا لیکن اپنی روزی آپ کمانا شروع کرتے ہی انہوں نے یہ تخلص ترک کر دیا ۔ پھر اگر کوئی انجان ان میں سے کسی کو مہاجر کہہ دیتا تو اس کا بہت بُرا منایا جاتا ۔ 1948ء میں بھی مہاجر پاکستان آتے رہے ۔ سوائے جموں کشمیر کے باقی علاقوں سے اس کے بعد آنے والوں کو مہاجر نہیں کہا گیا کیونکہ وہ اپنی تسلی کے ساتھ آئے تھے اُنہیں زبردستی گھروں سے نہیں نکالا گیا تھا ۔ بعد میں آنے والے لوگ سوائے معدودے چند کے اپنے پورے ساز و سامان کے ساتھ آئے تھے اور وہ مہاجر نہیں تھے بلکہ اپنی مرضی سے نقل مکانی کرنے والے تھے ۔ 1951ء میں قانون بنا جس کے تحت بھارت سے پاکستان میں قیام کی خاطر داخل ہونے والے مسلمان کو بھی حکومتِ پاکستان سے باقاعدہ اجازت حاصل کرنا قرار پایا

برطانیہ کے ذہنی غلاموں نے 16 اکتوبر 1951ء کو پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم اور بابائے قوم کے قریبی ساتھی لیاقت علی خان صاحب کو قتل کرا دیا اور اپنی چالاکیوں کے نتیجہ میں خواجہ ناظم الدین صاحب کو چکمہ دے کر ایک اوباش شخص غلام محمد کو پاکستان کا سربراہ بنا دیا گیا جس نے 17 اپریل 1953ء کو پاکستان کی پہلی مُنتخب اسمبلی کو توڑ دیا جبکہ وہ اسمبلی پاکستان کا آئین تیار کر چکی تھی اور اسمبلی میں پیش کر کے اس کی منظوری لینا تھی ۔ اس کے بعد برطانیہ کے ذہنی غلاموں اور انڈین سول سروس کے سابقہ افسروں نے ملک کا پورا نظم و نسق سنبھال لیا ۔ آئین کو پسِ پُشت ڈال دیا گیا اور 1951ء کا قانونِ شہریت تو کیا ہر قانون کی صریح خلاف ورزیاں حکمرانوں کے ایماء پر ہونے لگیں ۔ اس کے نتیجہ میں بہت سے ایسے لوگ پاکستان میں آ کر بس گئے جو 1951ء کے شہریت کے قانون کے تحت شاید کبھی پاکستان میں مستقل رہائش اختیار نہ کر سکتے ۔ نہ صرف یہ بلکہ کئی مشکوک لوگوں کو اچھے عہدے بھی دیئے جاتے رہے

بقول شخصے ہمارے ہموطنوں کی ہر چیز ہی نرالی ہے ۔ پاکستان بننے کے تین دہائیاں بعد ایک ایسا وقت بھی آیا جب پاکستان میں پیدا ہونے والوں نے اپنے آپ کو مہاجر کا نام دے دیا اور کراچی يونیورسٹی میں 11 جون 1978ء کو الطاف حسین نامی طالبعلم نے آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹس آرگنائیزیشن کی بنیاد رکھی ۔ بعد میں اس نے مہاجر قومی موومنٹ کے نام سے ایک سیاسی جماعت کی صورت اختیار کر لی ۔ اس میں شامل ہونے والوں میں اکثریت ان صاحبان کی اولاد ہے جو 1951ء کا قانون نافذ ہونے کے بعد اپنی مرضی سے نقل مکانی کر کے پاکستان آئے تھے ۔ کچھ اُن کی اولاد بھی شامل ہوئی جو مہاجر تھے لیکن اپنے آپ کو مہاجر کہنا پسند نہیں کرتے تھے اور چند ایسوں کی اولاد بھی جن کے آباؤ اجداد 14 اگست 1947ء سے پہلے اس علاقہ میں مقیم تھے جو پاکستان میں شامل ہوا ۔ اب گو حالات کے دباؤ کے تحت اس سیاسی جماعت کا نام بدل کر متحدہ قومی موومنٹ رکھ دیا گیا لیکن اس میں شامل لوگ ابھی بھی اپنی شناخت مہاجر کے طور پر ہی کراتے ہیں ۔ یہ رویہ کس حد تک مناسب ہے کوئی آنے والا مؤرخ ہی لکھے گا ۔ شروع میں میری ہمدردیاں مہاجر موومنٹ کے ساتھ تھیں کیونکہ میں اپنے بزرگوں کے ساتھ 1947ء میں ہجرت کر کے آیا تھا لیکن وقت گذرنے کے ساتھ جب مہاجر قومی موومنٹ کے کچھ رہنماؤں کو بہت قریب سے دیکھا تو دور ہونا ہی قرینِ حقیقت سمجھا

اللہ ہر اُس شخص کو جو اپنے آپ کو پاکستانی کہتا ہے اُسے حقیقی پاکستانی بننے اور اس مُلک پاکستان کی خدمت کی توفیق دے

This entry was posted in تاریخ, تجزیہ on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

39 thoughts on “مہاجر کون ؟

  1. فرحان دانش

    مہاجراپنے اپ کو مہاجر نہیں کہلواتے بلکہ یہ لفظ دوسری زبان بولنے والوں نے دیا ہے ۔اورجو پاکستان میں اردو بولے اس کو مہاجرکہا جاتا ہے۔

  2. فرحان دانش

    اہل اردوسندھ میں زیادہ رہتے ہیں۔ مگر وہ ثقافتی اور زبان کی حیثیت سے ابھی اُس مقام پر نہیں جہاں یہ دونوں ثقافتیں ایک دوسرے میں ضم ہو سکیں۔ چنانچہ یہ لوگ اپنی ثقافت و روایات کی شناخت چاہتے ہیں۔ چنانچہ جب تک یہ الگ ثقافت موجود ہے، اُس وقت تک یہ نام موجود رہے گا اور اس حقیقت کو ہمیں قبول کر لینا چاہیے۔

  3. افتخار اجمل بھوپال Post author

    فرحان دانش صاحب
    میرا نہیں خیال کہ رکاوٹ ثقافت ہے ۔ یہی لوگ جب برطانیہ یا امریکہ جاتے ہیں تو انگریز یا امریکن بن جاتے ہیں تو یہاں انہیں پاکستانی اور سندھی بننے میں کیا اعتراض ہے ؟

  4. فارغ

    جب ساری قومیتیں اپنی پہچان چھوڑنے کو تیار نہیں تو اردو اسپیکنگ کو بھی حق ہے کہ وہ اپنے آپ کو جو چاہے کہلوائے–کراچی میں رہنے والے مہاجر سندھی عوام سے کسی طرح مماثلت نہیں رکھتے۔ ان کو سندھی کہلوانے پر کیوں مجبور کرتے ہیں؟

  5. صبا سیّد

    اسلام و علیکم
    ہمارے دادا قریباً اسّی، نوّے سال پہلے انڈیا سے ہجرت کرکے سندھ آئے تھے۔ آج ہم سندھی ہیں، صرف زبانی نہیں، بول چال، رنگ ڈھنگ، اٹھنا بیٹھنا، طور طریقہ، ثقافت، لین دین، ہر لحاظ سے بھی، گویا ایسا لگتا ہے کہ ہم جدّی پشتی سندھی ہیں، حالانکہ میرا مانننا یہی کہ اب ہم جدٰ پشتی سندھی ہی کہلائیں جائیں گے۔ میرے بابا نے سندھ ڈیولپمنٹ اتھارٹی میں ایک عرصے تک کام کیا، میرے دادا کے سارے بچے سندھی بولتے ہیں۔
    بتانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ اگر آپ کسی جگہ مستقل ہجرت کرکے جا رہے ہیں تو اس کے رنگ ڈھنگ کو اپنا کر جائیں یا کم سے کم وہاں کی ثقافت کو اپنے مزاج کے مطابق بدلنے کی کوشش ایک بے وقوفی ہے۔ میرے بابا ے بتای کہ قیامِ پاکستان کے بعد جب مہاجروں کے کیمپ لگائے گئے تھے تب وہ اور دوسرے بھائی بہن اسکول سے آنے کے بعد ان کیمپوں میں کھانا دینے جاتے تھے (ماشاءاللہ سے دادا کافی امیر شخص تھے ) کئی لوگوں کی دادا نے معاشی طور پہ بھی مدد کی، اور ان لوگوں کا بھی رویّہ دوستانہ رہا۔ لیکن ناجانے کن ملک دشمن عناصروں نے سندھی مہاجر کی پھوٹ ڈلوائی اور پھر پنجابی سندھی، پٹھان مہاجر، شیعہ سنی، یہ وہ۔
    اور حقیقت تو یہی ہے کہ پھر ان مہاجرین نے بھی سندھ کے ساتھ احسان فراموشی ہی کی۔ یہ سندھ تھا جس نے ہر زبان بولنے والے مہاجر کو پناہ دی ورنہ پنجاب میں تو صرف پنجابی مہاجرین کی آمد کا فتویٰ جاری کیا گیا تھا۔ (یہ بات ڈھکی چھپی نہیں)۔
    اور آج یہی لوگ سندھو دیش کے ٹکڑے کرنے کے درپے ہیں، کیا حق ہے ان کو ایسا کرنےکا؟

  6. راشد کامران

    اجمل صاحب اردو بلاگنگ میں پہلے بھی اس مسئلے پر کافی بحث ہوچکی ہے کہ لفظ مہاجر لغوی معنوں میں استعمال نہیں‌ہوتا یہ ایک قوم کی شناخت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کے معاشرتی تانے بانے میں علاقائی، لسانی اور قبائلی شناخت سے جان چھڑانا اتنا آسان نہیں اس صورت میں ایسے لوگ جو ہجرت کرکے پاکستان آئے ان کے لیے ہندوستانی یا دہلی یا یوپی والا کہلانے سے بہتر معلوم ہوتا ہے کہ شناخت کے لیے مہاجر کا لفظ استعمال کیا جائے۔۔ آپ ایم کیو ایم کی مخالفت میں پوری مہاجر کمیونٹی کو رگڑا نا دیا کریں کہ تمام مہاجر ایم کیو ایم کے حمایتی نہیں‌ہیں اور اگر ہوں بھی تو ان کی سیاست سے اختلاف کیجیے ان کی شناخت سے نہیں۔

    دوسری بات یہ کہ ان خطوں میں جہاں کہ پاکستان بنا ہے جب وہاں کے لوگوں کے لیے آپ کا کلیہ یہ نہیں‌کہ وہ اپنی علاقائی اور لسانی شناخت [جو ہونا بھی نہیں چاہیے] چھوڑ دیں یا سندھی پنجابیوں میں ضم ہوجائیں اور پشتون تاجکوں میں ضم ہوجائیں‌تو پھر صرف مہاجر قوم کے لیے آپ کیوں یہ کلیہ استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ ہماری ایک بہن نے کہا کہ ہم آج صرف سندھی ہیں‌ تو آج وہ صرف سندھی کیوں ہیں؟

    پھر آپ نے فرمایا کہ “یہی لوگ جب برطانیہ یا امریکہ جاتے ہیں تو انگریز یا امریکن بن جاتے ہیں”‌۔ میں یہ ماننے کو تیار نہیں‌ کہ آپ معاملات کو اتنی سطحی طور پر دیکھتے ہیں‌ اور آپ کے خیال میں یورپی اور امریکی ممالک میں ہجرت کرنے والے امریکی یا یورپی کہلاتے ہیں۔۔ صورت حال یہ ہے کہ ان ممالک کو ہجرت کرنے والے اور ان کے پیدا ہونے والے بچے جو عموما ان ممالک کے شہری ہوتے ہیں اپنی پرانی شناخت کے ساتھ پاکستانی امریکن، انڈین امریکن یا افریقن امریکن ہی کہلاتے ہیں‌اور سب سے خاص بات یہ کہ اپنا ایک جداگانہ تشخص بھی برقرار رکھتے ہیں اس معاملے میں استثنائی کیسز کے بجائے مکمل تصویر پر دھیان دینا چاہیے۔

    یہ کلیہ اگر مہاجر قوم پر لاگو کیا جائے تو لفظ بنے گا انڈین پاکستانی اور برصغیر کی سیاسی صورتحال میں یہ ایک آکسی موران بن کر رہ جائے گا چناچہ لفظ‌مہاجر کی لغوی تشریح کرنا ترک کیجیے اور اسے ایک قوم کی شناخت سمجھیے اور قبول کیجیے۔

  7. افتخار اجمل بھوپال Post author

    فارغ صاحب
    ذات پات یا لسانیت کو قومیٹ کا نام نہیں دیا جا سکتا ۔ یہ لوگ جو اپنے آپ کو مہاجر کہتے ہیں اُس کی بنیاد ہی غلط ہے کیونکہ وہ مہاجر کسی صورت بھی نہیں ہیں ۔ دوسری حقیقت یہ ہے کہ اگر ان کا استدلال درست تسلیم کیا جائے تو ان جیسے ان سے دس گنا لوگوں کا کیا کریں گے جو اپنے آپ کو مہاجر نہیں کہتے ؟ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان جیسے کچھ لوگ جو دوسرے صوبوؤ مۓیں آباد ہیں وہ بھی اپنے اردگرد کے لوگوں سے مفاد تو حاصل کرتے ہیں لیکن اُنہیں اچھا نہیں سمجھتے ۔ یہ میرے اپنے کانوں سے سُنی باتیں ہیں کیونکہ ان میں سے جو لوگ مجھے اچھی طرح نہیں جانتے وہ اب بھی مجھے اپنے میں سے ہی سمجھتے ہیں اور میرے سامنے دوسرے پاکستانیوں کو نیچ اور جاہل تک کہتے ہیں ۔ آپ نے شاید وہ مقولہ نہیں پڑھا
    جیسا دیس ویسا بھیس ۔ ۔ ۔ While in Rome, do as the Romans do
    اپنے آپ کو اُردو سپیکنگ کہنے والوں کی بات ابھی میں نہیں کی ۔ اِن شاء اللہ اس پر بھی بات ہو گی

  8. افتخار اجمل بھوپال Post author

    سیّدہ صابا صاحبہ
    آپ نے بالکل درست لکھا ہے ۔ سیدھی سی بات ہے جیسا دیس ویسا بھیس ۔ ان میں ایسے بھی ہیں جو اپنے آپ کو خان لکھتے ہیں اور پھر خانوں ہی کو قتل کرتے پھرتے ہیں ۔
    پنجاب کے متعلق نجانے کس نے یہ بات مشہور کی کہ پنجاب صرف پنجابیوں کیلئے ۔ پنجاب میں بھارت کے ہر علاقے سے آئے ہوئے لوگ آباد ہیں ۔ شروع میں سندھ میں وہ لوگ گئے تھے جو کھوکھرا پار کے راستے آئے تھے ۔ جب پنجاب میں گنجائش نہ رہی تو بعد میں آنے والوں کو سندھ اور سرحد میں آباد کیا گیا ۔ مہاجرین بسانے کا کام ایک کمیٹی کر رہی تھی جس میں ہر صوبے کے مخیر لوگ شامل تھے اور ذاتی سطح پر بھی لوگ کامم کر رہے تھے جیسے آپ کے دادا محترم ۔ اُن دنوں سب پاکستانی تھے اور سب سگے بھائیوں کی طرح تھے ۔ میں نے 1966ء تک پورے پاکستان سے کسی سے سندھی ۔ پنجابی ۔ پٹھان بلوچ کا لفظ نہیں سنا تھا ۔ ستمبر 1965ء کی جنگ میں پوری قوم نے ایک خاندان ہونے کا مضبوط ثبوت دیا تھا ۔ یہ سارا فساد بعد میں کچھ مطلب پرست یا غیروں کے ہاتھ بکے ہوئے لوگوں نے شروع کیا

  9. افتخار اجمل بھوپال Post author

    راشد کامران صاحب
    میں صرف اتنا کہوں گا کہ میں تمام ہجرت کر کے آنے والوں یا ان کی اولاد کو رگڑا نہیں دے سکتا ۔ آپ تو پاکستان میں پیدا ہوئے ہوں گے مگر میں 1947ء میں ہجرت کر کے آیا تھا ۔ میں اپنے آپ اور اپنے ہی رشتہ داروں اور بزرگوں کو رگڑا کیسے دے سکتا ہوں ۔
    دیگر بات کہلائے جانے کی نہیں ہے بلکہ انفرادی سوچ کی ہے ۔ جو پاکستان میں رہتے ہوئے دوسرے پاکستانیوں کو کم تر اور اپنے آپ کو مہاجر کہنے پر مجبور کرتی ہے لیکن جب برطانیہ کی شہریت مل جائے تو اپنے آپ کو برطانوی بنا دیتی ہے

  10. عبداللہ

    جناب اجمل صاحب یہ کہانی تو اب ہوگئی پرانی اب توآپ نئی کی فکر کریں!
    بلوچستان ہاتھوں سے نکل جارہا ہے اگر اب بھی آپ اسی طرح آگ لگا کر پھونکوں سے بجھانے کی کوشش کرتے رہے تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خدا خیر کرے!
    http://ejang.jang.com.pk/11-26-2009/pic.asp?picname=07_03.gif

  11. افتخار اجمل بھوپال Post author

    عبداللہ صاحب
    میں آپ سے بحث نہیں کرنا چاہتا کیونکہ جو میں لکھتا ہوں اس پر عمل کرتا ہوں [حوالہ ۔ کچھ ہلکا پھُلکا اخبارات اور رسائل تو میں پڑھتا رہتا ہوں کاش آپ اپنے تجربہ یا تاریخی مطالع کی بات کرت ۔ ڈاکڑ صفدر محمود میرے پسندیدہ نہیں ہیں بلکہ معروف تاریخ دان ہیں ۔ جس طرف اُنہوں نے اشارہ کیا ہے اِن شاء اللہ عید کے بعد میں اس پر لکھوں گا ۔ انہوں نے محمد یوسف گوندل صاحب کا مراسلہ نقل کیا ہے جو میں نے صبح سویرے ہی پڑھ لیا تھا ۔ مجھے حیرت ہوئی کہ آپ مجھ پر اتنی تنقید کرتے رہتے ہیں اور آپ نہیں جانتے کہ میرا اس مراسلے کے ساتھ تعلق ہو سکتا ہے

  12. ڈفر - DuFFeR

    انکل جی میں تو سمجھتا ہوں کہ اس بیماری کی وجہ صرف لوگوں سے ہمدردی اور ترس کی وصولی ہوتا ہے جو بعد میں بھتے کی شکل اختیار کر لیتی ہے
    مزید یہ کہ
    بعض لوگوں کو لنک پر لنک پوسٹ کرنے کا اتنا شوق کیوں‌ہوتا ہے؟
    ایک ہی دفعہ جنگ کی سائیٹ کا پتا کیوں نہیں دے دیتے؟

  13. عبداللہ

    ڈفر صاحب یہ لنک آپ جیسے لوگوں کے لیئے ہوتے ہیں جو اخبار نہیں پڑھتے یا اس میں صرف اپنے مطلب کی باتیں ہی پڑھتے ہیں ;)

  14. عبداللہ

    اور یہ لنک اس لیئے بھی لگائے جاتے ہیں اور لگائے جاتے رہیں گے تاکہ آپ جیسے ڈفروں کو یہ پتہ چل سکے کہ دنیا کیا سوچ رہی ہے اور کہاں جارہی ہے اور آپ بھی کوئیں کے مینڈک بنے رہنے کے بجائے آنکھیں اور دماغ کھول کر کچھ سوچ سمجھ سکیں پپو لڑکوں کے علاوہ ;)

  15. افتخار اجمل بھوپال Post author

    عبداللہ صاحب
    آپ اپنی اخبار بینی کا رُعب دسروں کو جانے بغیر کیسے ڈال سکتے ہیں جبکہ آپ اپنے آپ کو حق پرست گردانتے ہیں ؟ کیا اسی کا نام آپ لوگوں نے حق پرستی رکيا ہے ؟

  16. افتخار اجمل بھوپال Post author

    عبداللہ صاحب
    آپ عام طور پر تہذیب کے دائرے سے باہر ہی کودتے پھرتے ہیں ۔ کیا اسی اقدار کا پرچار آپ کر رہے ہیں ؟ خود میاں فصیحت دیگراں را نصیحت

  17. عبداللہ

    اجمل صاحب اس کج بحثی سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں نان اشوز پر بحث سے بہتر ہے کہ بندہ کوئی کام کی بات کرلے!
    ویسے میرے اوپر کے تبصروں میں بد تہذیبی کی کیا بات ہے مجھے بھی بتائیے! ڈفر انکا خود کا رکھا ہوا نام ہے اور پپو لڑکوں کے ذکر سے جناب کی تحاریر اکثر مزین ہوتی ہیں!

  18. عبداللہ

    افتخار اجمل کی پوسٹ مہاجر کون پر صبا سید صاحبہ نے کچھ گل افشانیاں فرمائی تھیں جن پر آج نظر پڑی سوچا ان کی بھی غلط فہمیاں دور کردوں!
    صبا سید صاحبہ آپکی اطلاع کے لیئے عرض ہے کہ میرے خاندان میں عموما اور کراچی میں خصوصا سندھی ٹوپی اور اجرک آج بھی بے حد شوق سے پہنے جاتے ہیں اور سندھیوں سے نہ کوئی ناراضگی ہے نہ لڑائی پہلے سندھیوں کو پنجاب اسٹیبلشمنٹ نے یہ کہ کر بھڑکایا کہ یہ تمھاری زمینوں پر قبضہ کرنے آئے ہیں اور سندھ کے وڈیروں نے بھی اس جلتی پر خوب تیل چھڑکا!لڑاؤ اور حکومت کرو کی پالیسی کے تحت ،لیکن اب سندھیوں کو بھی عقل آگئی ہے اوربقول اجمل اردواسپیکنگ کو بھی کہ اگر ہم مل کر رہیں گے تو ہی استحصالی عناصر کا منہ توڑ سکتے ہیں!

  19. افتخار اجمل بھوپال Post author

    عبداللہ صاحب
    آپ کی علمی قابلیت قابلِ ماتم ہے ۔ آپ نے لکھا ہے “پنجاب اسٹیبلشمنٹ نے یہ کہ کر بھڑکایا کہ یہ تمھاری زمینوں پر قبضہ کرنے آئے ہیں”۔ کیا کیا صوبہ سندھ صوبہ پنجاب کی حکومت کے ماتحت تھا ؟ جس زمانے کا ذکر ہے پاکستان پر ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت تھی اور پنجاب پر بھی ٫پیپلز پارٹی کی حکومت تھی ۔ اس سے آپ نے مطلب نکالا کہ پنجاب کی حکومت نے پٹی پڑھائی تھی ۔ آپ اپنی عقل کو بین الاقوامی مقابلے میں کیوں نہیں رکھ دیتے ؟

  20. محمّد نعمان

    جناب بھوپال صاحب السلام و علیکم
    آپکا بلاگ پڑھا کافی اچھا لگا . کافی اچھی اور معلوماتی باتیں بیان کی ہیں آپ نے اپنے تجربہ کے حساب سے .
    لیکن ایک خاص جگہ آ کر آپ بھی چوک گے اور مجھے کافی حیرت ہوئی یہ دیکھ کر.
    آپ نے اپنے بلاگز میں جو اردو اور مہاجر کے بارے میں لکھا ہے وہ آپ کو ایک عام تعصب سے بھرا پنجابی ثابت کر رہا ہے .
    اور یہ بات میں اپنے ذاتی مشاھدے کی بنیاد پہ کہ رہا ہوں کے پاکستان میں پنجابی سے زیادہ تعصب کرنے والا کوئی نہیں ہے .
    میں سیکولر ، مذہبی ، پڑھے لکھے، جاہل ہر قسم کے پنجابیوں سے ملا . اور سب کو ایک ہی جیسا پایا .
    اور آپ بھی ان میں سے ایک ہی ہیں . مذہب کی سمجھ نے آپ کی مخصوص پنجابی شاونزم پر کوئی فرق نہیں ڈالا .
    آپ سیرت رسول صلی الله علیہ وسلم کا مطا لعہ کیا کریں . الله آپکے اس مرض میں افاقہ فرماۓ گا

  21. افتخار اجمل بھوپال Post author

    محترم جناب محمد نعمان صاحب ۔ و عليکم السلام و رحمة اللہ
    حيرت ہے کہ آپ جس عمل کا الزام مجھ پر لگا رہے ہيں اُس کے واضح طور پر آپ خود مرتکب ہورہے ہيں ۔ ميرا خيال ہے کہ آپ جوش ميں لکھ گئے ہيں اور لکھنے کے بعد پڑھا نہيں کہ آپ ہوش کھو چکے تھے ۔ کيا آپ بتا سکتے ہيں اُس آدمی کو مہاجر ماننے سے انکار کرنا جس نے سرے سے ہجرت کی ہی نہيں وہيں رہا جہاں پيدا ہوا تھا ۔ يہ تعصب کيسے بن گيا ۔ ويسے الطاف حسين تو پاکستان سے برطانيہ جا کر مہاجر بنا تھا مگر اُس نے برطانيہ کی شہريت لے کر اپناوہ مہاجر پن بھی ختم کر ديا ۔
    آپ کے تعصب کا جوش اس سے بھی واضح ہوا کہ آپ نے ہو بہو ايک ہی تحرير تين جگہوں پر نقل کی ۔ اللہ کے کرم سے ميں آپ کی پيدائش سے بھی پہلے سے تفسير ۔ ہديث اور سيرت النبی کا مطالعہ کرتا آ رہا ہوں اور يہ کتب ميرے پاس موجود رہتی ہيں ۔ آپ کی نصيحت کی ضرورت نہيں ہے

  22. محمّد نعمان

    جناب بھوپال صاحب السلام و علیکم
    آپ صرف اتنا بتائیں کہ اس کی کیا وجہ ہے کے سندھ اور بلوچستان ، سرحد کا مولوی ، سیکولر ہر کوئی ایک ہی بات کہتا ہے کے پنجاب تعصب کرتا ہے . یہ بات خود میں نے DR مولانا خالد محمود سومرو سے سنی ، جناب اسداللہ بھتو سے سنی اب ایسی ہی بات آجان منوّر حسن بھی کہ رہے ہیں . آپ یہ ڈھول بجانا بند کریں کے “پنجابی تعصب نہیں کرتا “.
    کیوں کے اک مکتبہ فکر کے لوگ غلط ہو سکتے ہیں سارے متبہ فکر کے نہیں . پاکستان میں ہر طبقه کا بندہ جو سندھ ، سرحد یا بولچستان میں رہتا ہے یہی کہ رہا ہے . آپ اپنی اکثریت کے زعم میں انکی سن ہی نہیں رہے.

    اور ایک بات مضمون سے ہٹ کے جب یہ بات واضح ہے کے پاکستان میں روز لوگ مر رہے ہیں سندھ میں سرحد میں ڈرون حملوں میں اور بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ میں لیکن وفاق اور ajencies کے کان پی جوں بھی نہیں رینگتی ذرا لاہور میں ایک حملہ ہوا . سب رونے لگتے ہیں کے حالات خراب ہو گے . جو باقی پاکستان میں مر رہے ہیں وو انسان نہیں نہیں اور آپ لوگ پنجابی مرے تو حالات خراب ہو گے. اتنا شدید ردے عمل پشاور اور بلوچستان میں لوگوں کے مرنے پہ کیوں نہیں ہوتا . رہی بات قرآن وار حدیث پڑھنے کی جناب اسکو پڑھنا ہی نہیں سمجھنا بھی پڑتا ہے .

    وسّلام

    لوگ آساں سجھتے ہیں مسلماں ہونا

  23. افتخار اجمل بھوپال Post author

    محمد نعمان صاحب
    آپ جو جی چاہے سمجھ ليجئے ۔ اس سے کوئی فرق نہيں پڑے گا ۔ حقائق اپنی جگہ موجود رہيں گے ۔ آپ بھی مسلمان بننے کی کوشش کيجئے ۔ اس ميں آپ ہی کا فائدہ ہو گا ۔ آپ کے تعصب کا مجھے کوئی نقصان نہيں ۔ آپ کے علم کا يہ حال ہے کہ آپ مجھے پنجابی سمجھ رہے ہيں جب کہ ميں پنجابی نہيں ہوں ۔ اسلام آباد ميں رہائش تو بہت سے آپ کے رشتہ داروں نے بھی رکھی ہے

  24. محمّد نعمان

    عزت مآب اجمل صاحب السلام و علیکم و رحمة اللہ
    . مجھ سے آپ کی دل آزاری کی خطا ہی اس کے لئے میں معذرت خواہ ہوں .
    یہ بات تو واضح ہے کہ آپ پنجابی نہیں ہیں لہذا ہو سکتا ہے کے آپ زیادہ سمجھ میں آنے والا جواب دیں. جو مجھ جیسے کم عقل کو بھی سمجھ آ سکے .
    میں آپ سے کچھ سوال پوچھنا چاہتا ہوں .
    چلیں مان لیا کے عام پنجابی تعصب نہیں کرتا (حالانکہ میرا تجربہ کچھ اور کہتا ہے ) لیکن اس کی کیا وجہ ہے کے پاکستان میں ہر کوئی پنجاب یا پنجابی کو برا کہنے میں لگا ہوا ہے ؟
    غلط کون ہے ؟
    پچھلے سوال میں کچھ مثالیں بھی دیں تھیں .
    خیر الله ہمیں عافیت نصیب فرماۓ
    اگر آپ کے پاس کچھ وقت ہو تو ہم کچھ email کا بھی تبادلہ کر سکتے ہیں
    email کی میں اسس لئے درخواست کر رہا ہوں کہ ہو سکتا ہے کے میں آپ سے کچھ سیکھ لوں

    وسّلام

  25. افتخار اجمل بھوپال Post author

    محمد نعمان صاحب
    يہ مسئلہ بہت گھمبير ہے اور اسے سمجھنے ميں مجھے بھی کئی دہائياں لگی ہيں ۔ پاکستان بننے کے بعد مشرقی پاکستان ميں اُردو کے خلاف پروپيگنڈہ کيا گيا جو ظاہر ہے غيرملکی امداد اور کوشش کا نتيجہ تھا کيونکہ پاکستان کی قومی زبان بنگالی رہنماؤں کے کہنے پر اُردو رکھی گئی تھی ۔ جب اس سے نہ بن پڑی تو پنجابی کھا گيا کا شوشہ چھوڑا گيا اور وہ کامياب ہوا اور مشرقی پاکستان ميں بغاوت ہوئی ۔ بنگاليوں کا استحصال کرنے والے ہندو ساہوکار تھے اور اُن کا ساتھ بہاری مسلمانوں نے ديا تھا ۔ فوج جس ميں پنجابيوں کی تعداد زيادہ تھی اُس کی باری تو بہت بعد ميں آئی تھی ۔ اس ميں کوئی شک نہيں کہ اُس فوج نے بھی ظُلم کيا تھا اور اس ميں پختون بھی شامل تھے اور اُردو بولنے والے مہاجر بھی ۔ بجلی چلی گئی ہے ۔ باقی پھر

  26. نرم و مہربان

    ایم کیو ایم کی سرپرستی کرنے والا ضیاء الحق تھا تاکہ سندھ اور بالخصوص کراچی میں پیپلز پارٹی کا مقابلہ کیا جا سکے۔ اس مقصد کے لئے الطاف حسین کو آگے لایا گیا۔ بعد میں مہاجرین کے حقوق کا علم بلند کئے الطاف حسین میدان میں آیا اور حکومتی سرپرستی کے باعث ہر حربہ استعمال کر کے لیڈر بن گیا۔ آج تیس پینتیس سال بعد بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ جن پاکستانیوں کو مہاجر کہ کر ان کے جذبات سے کھیلا گیا، کیا حقوق ملےہیں۔ کراچی کے حالات دیکھ لیجئے، جو روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا کیا بن چکا ہے۔ یہ ہے ایم کیو ایم کے دکھائے گئے خوابوں کی تعبیر۔۔۔۔ حکومت کوئی بھی آئے ایم کیو ایم اقتدار میں شریک ہوتی ہے، اس کا گورنر ہر دور میں گورتر رہتا ہے۔ اس کے باوجود سندھ خصوصا” کراچی میں امن قائم نہیں ہو پاتا، اپنی طاقت دکھا کر سوائے حکومت کو بلیک میل کرنے کے کوئی اور کام نہیں کیا جاتا۔ کیا یہ ہے مہاجرین کے حقوق کا تحفظ۔ ۔ ۔ ۔
    تعصب کی کیا بات کرتے ہیں آپ لوگ۔ ۔ ۔ یہ تو ابھارا ہی اس لئے جاتا ہے کہ اپنے سفلی مقاصد کی تکمیل کی جا سکے۔

    حیرت ان لوگوں پر ہوتی ہے جو انصاف حق اور غیر جانبداری کی بجائے صرف جذباتیت اور ذاتی مفادات کے تحت سوچتے اور کام کرتے ہیں۔ ۔ ۔

    حیرت ہی حیرت ہے ۔ ۔ ۔ یہ رویئے تو قوموں کو تباہ کر دیتے ہیں اور ایسا ہی ہو رہا ہے لیکن ہمیں کوئی احساس نہیں ہے ہم کوئی سبق حاصل نہیں کرتے۔

    افسوس ہے۔ ۔ ۔ حد درجہ افسوس ۔ ۔ ۔

  27. افتخار اجمل بھوپال Post author

    نرم و مہربان صاحب
    آپ نے درست لکھا ہے ۔ میں نے الطاف حسین کی جماعت کی حقیقت واضح کرنے کی کوشش کی تھی ۔ اللہ مجھے ایسی جماعت یا ایسے شخص سے بچائے جو اندر سے کچھ اور باہر سے کچھ اور ہو ۔ میں 1976ء سے 1983ء تک ملک میں نہیں تھا اسلئے اُس زمانہ کی پوری صورتِ حال براہِ راست میرے علم میں نہ آئی ۔ رہی بات ہمارے ہموطنوں کی تو اگر انہیں کچھ عقل آ جائے تو ایک ہی سوراخ سے بار بار نہ ڈسے جائیں

  28. Vishal Nain

    یہ تعصب ہی نہیں بلکہ بدترین تعصب ہے اور اس سے بڑھ کر نفرت ہے جس کا پرچار نہ صرف بلاگ لکھنے والے نے کیا ہے بلکہ اور بھی کئی لوگ جوابات میں کررہے ہیں ۔ الطاف حسین کیلئے انتہائی ناشائستہ اور تضحیک آمیز انداز تخاطب ان لوگوں کے اندر کی نفرت کو باہر لاتا ہے ۔ ہمیں اس سے کوئی مطلب نہیں کہ کوئی ہمیں مہاجر کہتا ہے اور کون نہیں ۔ ہم مہاجر ہیں اور ہم نے اپنی خوشی سے اس شناخت کو قبول کیا ہے ۔ جس ملک میں کسی سے سوال کرو کہ آپ کون ہیں تو وہ کبھی یہ جواب نہیں دیتا کہ وہ پاکستانی ہے ۔ وہاں ہم اکیلے پاکستانی بن کر اکتیس برس ذلیل اور خوار ہوتے رہے ۔ ہم کہتے تھے کہ پاکستانی ہیں تو ہمیں مخاطب کرنے والے ہمیں ہندوستانی کہتے تھے ۔ تو کیا ہم پھر اپنے آپ کو ہندوستانی کہلانا شروع کردیتے؟
    لہذا ہم جو ہیں وہ ٹھیک ہیں ۔ کسی کو ہمارے نام سے یا ہماری شناخت سے کوئی تکلیف ہے تو وہ اپنے گھر جاکر دو روٹی اور کھالے ۔

  29. افتخار اجمل بھوپال Post author

    ویشال نین صاحب
    آپ کی آنکھوں ہی نہیں دل پر بھی جو پردہ ہے وہ آپ کے اس تبصرے سے واضح ہے ۔ ویسے اب آپ کے قائد مہاجر سے اُردو سپیکنگ بن گئے ہیں ۔ اللہ جانے اس اُردو سپیکنگ سے اُن کی کیا مراد ہے

  30. سیما آفتاب

    نہایت معلوماتی تحریر ۔۔۔ جو کہ بھڑ کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے والی بات ہو گئی :)

    جن ذہنوں پر تالے پڑے ہوں اور وہ کھولنا بھی نہ چاہیں تو ان کا کوئی علاج نہیں ۔۔۔ لا علاج مرض کی طرح ان کے لئے صرف دعا ہی کی جا سکتی ہے ۔۔۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور ہم ابھی تک یہ طے نہیں کرسکے کہ “میں کون اور تو کون” ۔۔۔

  31. افتخار اجمل بھوپال Post author

    زبیر احمد مدنی صاحب
    محترم ۔ قرآن شریف کا جو جواز آپ نے پیش کیا ہے وہ جغرافیائی نہیں نسلی ہے یعنی قبیلہ ۔ ایک ہی شہر میں کئی قبیلے ہوتے ہیں اور ایک قبیلہ کئی شہروں میں بھی ہوتا ہے ۔ مثال کے طور پر ہمارے ہاں راجپوت ۔ جاٹ ۔ آرائیں ۔ وغیرہ ۔ لسانی لحاظ سے نہ سندھی کوئی زبان ہے اور نہ پنجابی ۔ سندھ میں کئی زبانیں بولی جاتی ہیں اور پنجاب میں بھی کئی زبانیں بولی جاتی ہیں ۔ میں نے اس سلسلے میں مختلف پہلوں سے لکھا ہے ملاحظہ ہو
    پنجابی کوئی زبان نہیں https://theajmals.com/blog/2009/11/05
    پنجابی قوم نہیں https://theajmals.com/blog/2009/11/17
    اُردو اِسپیکنگ https://theajmals.com/blog/2009/12/03
    ڈرتے ڈرتے https://theajmals.com/blog/2012/06/22
    اُردو کی ابتداء اور ارتقاء https://theajmals.com/blog/2014/05/01

  32. Amjad Mehmood

    الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی حمایت کرنے والے مہاجر دوست صرف اتنا بتا دیں کہ گذشتہ تیس سال سے ہر حکومت میں شامل رہ کے ایم کیو ایم نے مہاجروں کا وہ کون سا ایک بھی بنیادی مسئلہ حل کروا یا ہے جن مسائل اور حقوق کے نام پر ایم کیو ایم وجود میں آئی تھی۔ کوٹہ سسٹم ،،بہاریوں کی واپسی وغیرہ وغیرہ ۔ تیس سال سے ووٹ اور نوٹ لینے کے باوجود گول دائرے میں گھومایا جا رہا ہے پوری قوم کو اور قوم خوشی سے گھوم رہی ہے۔ اور ہم آپ کی خوشی میں خوش ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.