غَیرت کہاں گئی

آج ہمارے ملک اور قوم کو مادی وسائل ، مالی امداد، قرضوں اور زرمبادلہ کے ذخائر سے کہیں بڑھ کر جس چیز کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے وہ غیرت کا جذبہ ہے اسی جذبہ سے کام لے کر ہم انفرادی اور اجتماعی خرابیوں اور ذلتوں سے چھٹکارا پا سکتے ہیں

غیرت عربی زبان کا لفظ ہے جس کا شاید دنیا کی کسی زبان میں کوئی مترادف نہیں ۔ اردو میں بھی ہم یہ لفظ ایک محدود مفہوم ہی میں استعمال کرتے ہیں جبکہ عربی زبان میں اس کا مفہوم بہت وسیع ہے ۔ اس میں عزتِ نفس ۔ وقار ۔ بہادری اور اعلٰی ترین اقدار سے وابستگی اور ان اقدار کی خاطر ہر قربانی دینے کے تصورات شامل ہیں

غیرت وہ جذبہ ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتا ہے ۔ تعلیم و تربیت اور عملی مثالوں کے ذریعہ ہمارے بزرگ یہ جذبات اگلی نسلوں میں منتقل کرتے ہیں لیکن اگر کسی کو تعلیم یا ماحول سے یا اپنے خاندان سے یہ جذبہ نہ ملا ہو تو وہ محض عقلی دلائل سے اس کا قائل نہیں ہو سکتا ۔ یا تو کوئی فرد غیرت مند ہوتا ہے یا نہیں ہوتا ۔ کچھ لوگ اس تحریر کو پڑھ کر شاید اس بات کی اہمیت کو سمجھنے میں مشکل محسوس کریں مگر بہت سے ایسے لوگ جن کی زندگی کی زندہ روایات ان اعلٰی اقدار کی حامل ہیں جو انہوں نے اپنے بڑوں سے ۔ اپنے اساتذہ سے اور مربیّوں سے اور دیگر قابلِ تقلید شخصیات سے حاصل کی ہیں ایسے لوگ یقینا اپنے قلب و روح میں ان خیالات کی صدائے بازگشت محسوس کریں گے

غیرت کا مطلب یہ نہیں کہ غیظ و غضب کا مظاہرہ کیا جائے یا غصہ کے ردِعمل میں غصہ اور طیش کا اظہار کیا جائے بلکہ غیرت ایک مثبت اور تعمیری جذبہ کا نام ہے ۔ اسی جذبہ سے کام لے کر انسان اپنے سفلی جذبات پر قابو پاتا ہے اور اپنے اعلٰی اور ارفع جذبات کو ابھارتا ہے ۔ اسی جذبہ کی مدد سے ہر انسان اور معاشرہ بیرونی خطرات کے مقابلہ میں سینہ سپر ہو جاتا ہے ۔ ایک معزز و باوقار اور ایک ذلیل و بے توقیر شخص کے درمیان بنیادی فرق یہی ہے کہ ایک غیرت مند اور دوسرا بے غیرت ہوتا ہے ۔ ایک طوائف اور پاکباز عورت میں اگر کوئی فرق ہے تو غیرت اور بے غیرتی کا ۔ ایک آزاد آدمی کسی قیمت پر اپنی آزادی کو قربان نہیں کرتا ۔ غلامانہ ذہنیت کا حامل شخص چند ٹکوں کے عوض آزادی سے دستبردار ہو جاتا ہے

جب غیرت کا جذبہ اجتماعی صورت اختیار کر لیتا ہے تو پورا معاشرہ ۔ قوم اور ریاست دنیا میں عزت اور عروج حاصل کر لیتے ہیں ۔ اس کام کو کرنے میں قوم کے قائدین ۔ رہنما ۔ اساتذہ ۔ شعراء ۔ مفکّرِین اور فلاسفہ اَن تھک محنت اور لا محدود کوشش کرتے ہیں لیکن بعض ناعاقبت اندیش رہنماؤں اور لالچی حکمرانوں کی بدولت معمولی لغزش اور غلطی برسوں کی قومی جدوجہد پر پانی پھیر دیتی ہے

پورا مضمون پڑھنے کیلئے یہاں کلِک کیجئے

This entry was posted in روز و شب on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

One thought on “غَیرت کہاں گئی

  1. خرم

    بات تو آپ کی درست ہے انکل۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول کے مطابق بے غیرتی ہی وہ وصف ہے جس کی وجہ سے خنزیر کو اس درجہ قابل نفرین قرار دیا گیا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.