Monthly Archives: October 2009

احسان تیرا ہو گا

احسان تیرا ہو گا مجھ پر
دِل چاہتا ہے جو کہنے دے
اپنے دیس سے محبت ہے مجھ کو
مجھے اس کی چھاؤں میں رہنے دے

صورت حال کچھ یوں بن گئی ہے کہ اپنے ہی وطن میں ہمارا رہنا بھی لوگوں کو بھاری محسوس ہونے لگا ہے ۔ خود کو اس مُلک کا مالک سمجھنے والے ہمیں دھتکارنے لگے ہیں [یعنی اُن لوگوں کو جنہوں نے اس وطن کی خاطر اپنا مال و متاع گنوایا اور اپنے عزیزوں کی جانوں کا نذرانہ پیش کیا] مگر وہ نہیں جانتے کہ اب بھی ہمارا جذبہ مرا نہیں ہے گو جسم کمزور ہو گئے ہیں ۔ تاریخ گواہ ہے کہ جیت جاں نثاروں کی ہوتی ہے مالداروں کی نہیں ۔ ہم سے اپنے بھائی بہن اپنے بچے بلکتے نہیں دیکھے جاتے ۔ ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے ۔ ہم آج بھی اپنا سب کچھ اس وطن کی ناموس پر قربان کرنے کو تيار ہیں

نثار میں تیری گلیوں پر اے وطن کے جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے

ایک طرف میرے وطن کے دیرینہ دُشمنوں کی چالیں زوروں پر ہیں اور دوسری طرف ملک کے اندر بیٹھے حقوق اور ترقی کے نام نہاد ٹھیکیدار اس کی جڑیں کھوکھلی کرنے پر تُلے ہیں ۔ تیسری طرف دیکھیں تو دُشمن کے پروردہ کرائے کے قاتل میرے وطن کی زمین میرے ہی بھائي بہنوں اور بچوں کے خون سے رنگ رہے ہیں اور اس میں کامیابی کا سہرا میرے ہی وطن کی کالی بھیڑوں کے سر ہے ۔ چوتھی طرف دیکھیں تو جمہوریت کے ٹھیکیداروں کو اپنی تجوریاں بھرنے سے فرصت نہیں

اُٹھ اے پاکستانی ۔ اپنی نیند اور نشے سے کہ دُشمن ہے چال قیامت کی چل گیا اور تو نجانے کونسا نشہ پی کر مدہوش پڑا ہے ۔ کسی غلط فہمی میں نہ رہنا ۔ تیرا نام اس مُلک سے ہے اور اسی مُلک کے ساتھ تُو یا تیرا نام زندہ رہ سکتا ہے ۔ سُنا نہیں کہ اپنی گلی میں کُتا بھی شیر ہوتا ہے ۔ تُو تَو انسان ہے ۔ اشرف المخلوقات ۔ پر تیرے کرتوت کیا ہیں؟ بھائی کی بات تجھ سے برداشت نہیں ہوتی ۔ اُس کا منہ نوچنے کو پھرتا ہے اور دُشمن تُجھے چمک دھمک دکھا کر تیرے اُوپر سے گذرنے کو ہے اور تیرے کپڑے اُتارنے اور تجھے ایک وقت کی روٹی کا محتاج بنانے کی تدبیر کر رہا ہے

کب ہوش میں آئے گا تُو جب ہوش میں آنا بیکار ہو گا ؟

درُست کہ چاروں طرف دہشتگردی کے واقعات اور غیریقینی صورتِ حال پریشان کُن ہے ۔ لیکن اس سب سے تقریر سے نہیں تدبیر اور عمل سے جان چھڑائی جا سکتی ہے ۔کچھ لوگ شور مچاتے ہیں اور کچھ خاموشی سے برداشت کرتے ہیں ۔ جہاں تک میرا تعلق ہے موجودہ دہشتگردی اور پریشانی اُس کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں جو میرے جیسوں نے اور ہمارے بزرگوں نے دیکھی تھی ۔ میں مختصر طور پر صرف اپنی حالت بیان کرتا ہوں ۔ پاکستان بنا تو میری عمر 10 سال تھی ۔ میری دو بہنیں مجھ سے 3 اور 5 سال بڑی تھیں ۔ جب بھارت میں مسلمانوں پر حملے شروع ہوئے تو لاشیں گرنے لگیں اور جوان عورتیں اور نوجوان لڑکیاں اغواء ہونے لگیں ۔ کسی کو کچھ اندازہ نہ تھا کہ کب اور کس جگہ بلوائی حملہ کریں گے اور ہمارا کیا حشر کریں گے ۔ اشیاء خوردنی کم تھیں ۔ گھر سے باہر نکلنا محال تھا ۔کئی کئی دن فاقے کئے اور کچھ دن ایسے بھی تھے کہ پینے کو پانی بھی نہ ملا ۔ نہ دن کو چین تھا نہ رات کو آرام ۔ یہی کچھ کم نہ تھا کہ ایک ماہ بعد میں میری دونوں بہنیں اور تین نابالغ ساتھی [میرے والد کی چچازاد بہن اور چچازاد بھائی کی بیٹی اور بیٹا] اپنے گھر والوں سے بچھڑ گئے ۔ ستمبر سے دسمبر 1947ء کے تین ماہ اور بھی زیادہ بھیانک تھے ۔ سردی تھی اور رات کو ہم چھ لوگ ایک لحاف [رضائی] میں ایک 5 فٹ لمبے 4 فٹ چوڑے نمدے پر سمٹے رہتے ۔ سونا کس نے تھا ۔ رات کے وقت بلوائیوں کے جَتھے ست سِری اکال ۔ جئے مہا بھارت اور مُسلوں کا خون بہائیں گے کے نعرے لگاتے کہیں قریب ہی سے گذرتے تھے ۔ اللہ کے سوا کوئی بچانے والا نہ تھا ۔ یہ اللہ سُبحانُہُ تعالٰی کا کرم تھا کہ ہم 18 دسمبر 1947ء کو بخیریت پاکستان آ گئے

وہی اللہ آج بھی ہماری مدد کرے گا ۔ یہ وطن بھی تو اُسی نے دیا ہے ۔ اس کی حفاظت بھی وہ کرے گا لیکن اللہ نے کہہ رکھا ہے

لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَی ۔ انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی [سورت 53 ۔ النّجم ۔ آیت ۔ 39]

قوم کیلئے لمحہ فکریہ

تحریر ۔ مشتاق احمد قریشی ۔ بشکریہ جنگ
سوچنے سمجھنے کی بات ہے کہ جب کبھی قوم کو کوئی اہم مسئلہ درپیش ہوتا ہے اور قوم اپنی یکجہتی کا اظہار کرنے لگتی ہے تو قوم کسی نئے حادثے کسی نئی دہشت گردی سے دوچار کردی جاتی ہے۔ کیا صرف اس لئے یہ دہشت گردی ہورہی ہے کہ قوم یکجہت نہ ہوسکے‘ کسی بھی مسئلے پر زبان نہ کھول سکے‘ حکومت اور حکمرانوں کے خلاف اپنے سچے جذبات کا اظہار نہ کرسکے۔ جب جب ملک کسی قسم کے بحران سے دوچار ہوا یا کیا گیا‘ عوام کو دہشت گردی کے ذریعے خوف میں مبتلا کرکے جہاں ان کی توجہ کا مرکز تبدیل کردیا گیا وہیں انہیں ایک ان دیکھے‘ ان چاہے خوف کا بھی شکار کیا جاتا ہے۔ یہ کون لوگ ہیں اور ایسا کیوں کررہے ہیں؟

ذرا سوچئے! جب آٹے اور چینی کا بحران پیدا کیا گیا جس کا مقصد صرف اور صرف ان کی من چاہی قیمتوں کا نفاذ تھا جس میں مل مالکان اور حکمران دونوں کی ملی بھگت تھی اس وقت جب عوام سڑکوں پر نکلنا شروع ہی ہوئے تھے کہ پنجاب میں جہاں حزب اختلاف حکومت کررہی ہے کو بے چین کرنے کے لئے پے درپے دہشت گردی کے واقعات رونما کئے گئے۔ جواب میں عوام خوفزدہ ہوکر خاموش ہوگئے۔

بجلی کا بحران جس پر عوامی ردعمل جگہ جگہ سر ابھار رہا تھا وہ بھی اسی طرح نمٹایا گیا۔ اس کے پس پشت بھی بجلی مہنگی کرنا اور من چاہے دام وصول کرنا ہی ہے ۔ عوام بے چارے مجبور و بے بس جو ہوئے۔ اب جب کہ قوم کو ایک نیا مسئلہ کیری لوگر بِل (Bill) نہیں بلکہ بُل (Bull) سے واسطہ پڑا ہے اور قوم یک زبان ہوکر واویلا کرنے لگی تو اس بُل کی طرف سے توجہ ہٹانے کے لئے ایک بار پھر دہشت گردی کا بازار گرم کردیا گیا۔ اس بار افواج پاکستان کے ہیڈ کوارٹر GHQ کو نشانہ بنا کر انہیں بھی زبان بندی کا پیغام دے دیا گیا ہے کیونکہ وطن عزیز کی تاریخ میں شاید پہلی بار افواج پاکستان کی جانب سے کسی امداد کی کڑی شرائط کے بارے میں کھل کر اظہار خیال کیا گیا تھا جو نہ تو حکومت کو اور نہ ہی حکومتی افراد کے سرپرستوں کو پسند آیا۔ عوام بے چارے تو ویسے ہی خوف کے مارے ہوئے ہیں لیکن افواج پاکستان کی جانب سے ردعمل کے اظہار نے انہیں تقویت دی ہی تھی کہ ایک بار پھر دہشت گردی کا بازار گرم کردیا گیا۔

دوسرا مرحلہ جو قوم کو درپیش تھا جس کے لئے سپریم کورٹ آف پاکستان نے حکم بھی جاری کردیا تھا ‘ این آر او کو قومی اسمبلی سے پاس کرانے کا‘ وہ بھی حکومت نے بصد مجبوری قومی اسمبلی میں پیش تو کردیا لیکن ساتھ ہی کیری لوگر بُل اور این آر او پر کوئی فیصلہ ہونے سے قبل ہی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کردیا گیا تاکہ کورٹ کے حکم پر عملدرآمد بھی ہوجائے اور معاملہ وہیں کا وہیں پڑا رہے۔ کسی قسم کی کوئی پیشرفت نہ ہو۔ رات گئی بات گئی۔ اس سے پہلے کہ اسمبلی کا اجلاس دوبارہ طلب کیا جائے ملک میں کوئی نیا بحران آسکتا ہے‘ کوئی نیا مسئلہ جنم لے سکتا ہے‘ کوئی دہشت گردی کا بڑاواقعہ رونما ہوسکتا ہے۔ جب ملک کے طول و عرض میں کوئی نئی بے چینی پیدا ہوسکتی ہے اور یوں این آر او ہو یا کیری لوگر بُل ازخود سرد خانے میں پڑے رہیں گے۔

آخر ایسا کب تک ہوتا رہے گا۔ اس ساری کارروائیوں کے پیچھے امریکہ کی مضبوط منصوبہ بندی موجود ہے۔ ملک کے طول و عرض سے لے کر خود دارالحکومت اسلام آباد میں امریکی سی آئی اے کے لوگ حکومت پاکستان کی بجائے اپنی رٹ قائم کرنے میں سرگرم عمل ہیں۔ بلاروک ٹوک جب چاہتے ہیں‘ جسے چاہتے ہیں اٹھا کر لے جاتے ہیں‘ کوئی پرسان حال نہیں۔ جب سے کیری لوگر بل کا چرچا ہوا ہے اس وقت سے امریکی سی آئی اے بذات خود ناصرف اپنی کارروائیوں میں مصروف ہے بلکہ اپنے بھارتی اور اسرائیلی حلیفوں، مددگاروں کے ساتھ مل کر پاکستان میں دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر پوری طرح دہشت گردی میں ملوث ہے۔ ان کا بس نہیں چل رہا کہ کسی طرح وہ پاکستان کی ایٹمی توانائی کو تہس نہس کردیں۔

پاکستانی افواج کو خارجی جنگ کی جگہ داخلی جنگ میں الجھادیا گیا ہے کیونکہ اس میں بھی امریکہ کا ہی مفاد ہے کہ افواج پاکستان جو اسلحہ استعمال کرے گی اس کا بڑا حصہ امریکی اسلحہ سازوں سے ہی خریدا جاتا ہے کیونکہ پاکستان جو قرضے بھاری سود کے بدلے ان سے لیتا ہے وہ پاکستان کو لوز ڈالروں میں نہیں ملتے بلکہ اس قیمت کا سازوسامان مہیا کیا جاتا ہے یعنی اصل کے ساتھ دہرا منافع بھی ان کو ہی جاتا ہے اور وہ سامان بھی پاکستان کی مرضی و منشا کا نہیں، اپنی پسند کے مطابق سپلائی کرتے ہیں۔ پہلی بار ہے کہ کیری لوگر بل کے ذریعے پاکستان کو غیر فوجی امداد سے نوازا جارہا ہے لیکن اس میں بھی ایسی شرائط عائد کی گئیں کہ فوجی قیادت جس پر صحیح بول پڑی اور اپنے تحفظات کا اظہار کرنے پر مجبور ہوگئی۔

امریکی منصوبہ سازوں اور ان کے پاکستان دشمن حلیفوں کے پاکستان پر دو اعتراض ہیں۔ ایک تو پاکستان اسلامی مملکت ہے دوسرا اسلامی ملک ہونے کے باوجود ایٹمی قوت والا ملک بن گیا ہے جو نہ تو بھارت سے برداشت ہورہا ہے اور نہ اسرائیل سے برداشت ہورہا ہے۔ ان کا بس نہیں چل رہا کہ کس طرح جلد از جلد پاکستان، جسے وہ اپنی سازشوں سے پہلے ہی دولخت کرچکے ہیں‘ اب تک کیسے اپنے قدموں پر قائم ہے۔ امریکہ نے پاکستان کو دہشت گردی کے خاتمے کے چکر میں جو اپنے لوگوں پر فوج کشی پر ناصرف مجبور کردیا ہے بلکہ اس کی خواہش ہے ملک میں خانہ جنگی اس قدر بڑھ جائے کہ پاکستان کو توڑنے مروڑنے کی کسی بیرونی قوت کو ضرورت ہی نہ پڑے اور پاکستان کے دائیں بائیں کے پڑوسی بھارت اور افغانستان اطمینان سے محفوظ و مامون رہ سکیں اور وہ جو چاہے اپنی من مانی کارروائیوں سے پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجاتے رہیں۔

امریکہ سے ہمارے تعلقات نہ تو دوستانہ ہیں نہ برادرانہ بلکہ خالص کاروباری تعلقات ہیں۔ ہم چاہے انہیں کوئی نام کیوں نہ دیتے رہیں۔ پاکستانی عوام اور تمام اہل سیاست کے لئے یہ بڑا ہی نازک لمحہٴ فکر ہے کہ ہمیں بحیثیت قوم انگریز کی غلامی سے نکلنے کی سزا کے طور پر امریکہ کے دام غلامی کا شکار بنایا جارہا ہے۔

اگر اب بھی ہماری آنکھیں نہ کھلیں تو پھر ہمیں کسی شکوے کا بھی موقع نہیں ملے گا کیونکہ امریکی گھیرا جو پہلے بھی تنگ تھا اب مزید تنگ کیا جارہا ہے اور یہ سب کچھ خالص عوامی حکومت کے دورمیں ہورہا ہے۔ عوامی حکمران بہ رضا ورغبت اپنی گردنوں میں امریکی پھندے ڈلوانا اپنے لئے بڑے اعزاز کی بات سمجھ رہے ہیں لیکن جب یہ پھندے سخت ہونا شروع ہوجائیں گے تو پھر کون انہیں بچا سکے گا۔اب بھی وقت ہے گوکہ کمر کمر دلدل میں دھنس چکے ہیں۔ اگر کوشش کریں تو امریکی دلدل سے نکلا جاسکتا ہے لیکن اس کے لئے حب الوطنی‘ اخلاص اور ہمت و حوصلے کی ضرورت ہے جو فی الحال اہل سیاست چاہے وہ حزب اقتدار کے ہوں یا حزب اختلاف کے ناپید نظر آرہا ہے۔ کوئی ایک لیڈر ایسا نہیں نظر آرہا جو قوم کی درست رہنمائی پورے خلوص نیت سے کرسکے۔ سب کے سب اس حمام میں ننگے ہیں۔ سب کے اپنے اپنے مفادات ہیں۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کی‘ پاکستانی قوم کی‘ اس کے قیمتی اثاثوں کی حفاظت فرمائے‘ آمین۔

رنگ رنگیلی دُنیا

رنگ رنگیلی دُنیا میں ہیں رنگ رنگ کے دھوکے
سوچ کے قدم اُٹھانا ۔ بعد میں نہ پچھتانا دل والے

پچھلے سال جب پہلی بار مناواں میں قائم پولیس کے تربیتی مرکز پر حملہ ہوا تو میرا ماتھا ٹھنکا تھا کہ طالبان کا پردہ ہماری آنکھوں کے سامنے لٹکا دیا گیا ہے اور اس پر جو فلم چلائی جاتی ہے ہم اُسے دیکھ کر تالیاں بجا رہے ہیں لیکن پردے کے پیچھے کوئی ہولناک ڈرامہ چل رہا ہے ۔ میں نے اپنے ہموطنوں کی توجہ اس خطرے کی طرف مبذول کرنے کی کوشش کی ۔ بہت کم کو میری بات سمجھ آئی ۔ وجہ واضح تھی کہ جس نے ہاتھی نہ دیکھا ہو وہ سمجھ نہیں سکتا کہ ہاتھی کس بلا کا نام ہے ۔ حیرت یہ ہے کچھ لوگ جو بظاہر پڑھے لکھے اور بڑے ہوشیار تھے نامعلوم کیوں اس طرف نہ صرف طائرانہ نظر ڈالنے سے گریز کرتے رہے بلکہ شدت سے اس خیال کی مخالفت پر اُتر آئے ۔ مدعا بیان کرنے سے قبل میں ماضی کے کچھ واقعات کا مختصر حوالہ دینا چاہتا ہوں

لاہور کے قریب جو بی آر بی نہر ہے اس کی منصوبہ بندی پاکستان بننے سے قبل ہوئی تھی اور اس کی تمام تفصیل بھارت کے پاس موجود تھی ۔ ستمبر 1965ء کی جنگ میں پہلے ہی ہلّے میں بھارت کی فوج اور ٹینک بی آر بی نہر کے کنارے پہنچ گئے تھے وہ ٹینکوں سمیت بی آر بی نہر پار کر کے لاہور پر قبضہ کر سکتے تھے لیکن بی آر بی نہر کو پار کرنے کی جرآت نہ کی اور پاکستانی فوج کو ان کے مقابلہ کیلئے پہنچنے کا وقت مل گیا ۔ ظاہر ہے کہ نہر کی گہرائی کے متعلق وہ شک میں پڑ گئے تھے اور کوئی ان کا شک دور کرنے والا نہ تھا

ستمبر 1965ء کی جنگ جب بھارت نے شروع کی تو بھارتی فوج واہگہ چوکی پر بارڈر ملیشا کے جوانوں کو شہید کرتے ہوئے جلّو سے آگے نکل کر نہ صرف رُک گئی بلکہ کچھ پسپائی اختیار کی اس خیال سے کہ اُن کا کسی مضبوط فوج سے ٹکراؤ نہیں ہوا کہیں پاکستانی فوج نے اُنہیں گھیرے میں لینے کیلئے چال تو نہیں چلی ۔ اگر انہیں کوئی بتا دیتا کہ پاکستانی فوج تو موجود ہی نہیں تو نتیجہ ظاہر ہے کیا ہوتا

کوئی 40 سال پیچھے کی بات ہے کہ میں نے اپنے ایک اسسٹنٹ منیجر جو مینٹننس کا انچارج تھا کو سیکیورٹی کیموفلاج کورس کیلئے بھیجا ۔ واپس آنے پر اس نے مجھے حیرت کے ساتھ بتایا کہ اسے کہا گیا کہ جب آپ کو اپنی فیکٹری نظر آئے تو آپ نے بتانا ہے پھر ہیلی کاپٹر میں راولپنڈی سے حسن ابدال اور درمیانی علاقہ کے چکر لگوائے گئے ۔ سفر ختم ہو گیا مگر اسے اتنے بڑے رقبہ پر پھیلی ہوئی فیکٹری نظر نہ آئی حالانہ فیکٹری کا “لے آؤٹ” [layout] اس کے دفتر میں دیوار پر لٹکا رہتا تھا ۔ اگر زمین سے کوئی سگنل بھیج دیتا تو وہ فوراً بتا دیتے یہ ہے میری فیکٹری

دسمبر 1971ء کی جنگ کے دوران دن کے وقت بھارتی ہوائی فوج کا ایک سکوارڈن نیچی پرواز کرتا ہوا پاکستان آرڈننس فیکٹری کے کافی بڑے حصے کے اُوپر سے گذرا ۔ اُسی شام بھارتی ٹی وی اور ریڈیو پر اعلان ہوا کہ بھارتی ہوائی فوج نے پاکستان آرڈننس فیکٹری پر بم گرائے ۔ یہ بم پاکستان آرڈننس فیکٹری سے ہی نہیں ٹيکسلا سے بھی راولپنڈی کی طرف مرگلہ کی پہاڑیوں سے کچھ پہلے گرے تھے ۔ اگر زمین سے کوئی سگنل بھیج دیتا تو گئی تھی فیکٹری

دسمبر 1971ء کی جنگ کے دوران رات کے وقت بھارتی ہوائی فوج نے بالائی سندھ میں صادق آباد کے قریب مسافر ٹرین پر حملہ کیا تھا ۔ رات اندھیری تھی اور ٹرین کی بجلیاں بند تھیں ۔ اس میں دو عمل توجہ طلب تھے ۔ ایک ۔ ریلوے حکام کی ہدائت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے روہڑی سٹیشن پر ایک ٹرین روکے رکھی گئی اور دوسری ٹرین آنے پر مزید حُکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دونوں ٹرینوں کو جوڑ کر روانہ کیا گیا ۔ اور دوسرا ۔ جس علاقہ میں ٹرین پر حملہ ہوا اُس کے قریب ایک چاردیواری کے اندر سے طاقتور ٹارچ کے ذریعہ اشارے [signal] دیئے گئے جس کے بعد ہوائی جہاز ٹرین کی سیدھ میں آیا اور حملہ کیا ۔ اس چاردیواری میں کچھ سالوں سے ایک شخص رہتا تھا جسے علاقہ کے لوگ سائیں بابا کہتے تھے ۔ گذری شام تک وہ وہیں تھا لیکن اُس رات کے بعد وہ نظر نہیں آیا

ان واقعات کے مختصر بیان سے غرض یہ تھی کہ پچھلے ڈیڑھ سال میں متعدد دوسرے اہم حملوں کے علاوہ مناواں اور لاہور میں ایف آئی اے کے دفتر پر دو دو حملے ۔ بیدیاں روڈ پر ايلیٹ فورس کے تربیتی مرکز پر ایک اور جی ایچ کیو پر ایک حملہ ہو چکا ہے ۔ ان سب حملوں کے طریقہ کار سے ایک تو فوجی کمانڈوز جیسی مہارت کا پتہ چلتا ہے ۔ طالبان کا طریقہ کار بالخصوص شہروں میں ایسا ماہرانہ نہیں ہے ۔ دوسرے ۔ یہ کہ ان علاقوں کے اندر کے حالات طالبان کو کیسے معلوم ہو سکتے ہیں ؟ حملہ آوروں کو ایسے اشخاص کا تعاون حاصل تھا جو متعلقہ اداروں کے اندرونی حالات سے واقف ہیں یا تھے ۔ خدشہ ہے کہ بڑی خطرناک کھچڑی پک رہی ہے اور قوم سوئی ہوئی ہے

ایک اور بات جو دماغ کو کُریدے جا رہی ہے ۔ عقیل عُرف ڈاکٹر عثمان تين سال سے زائد قبل فوج سے بھگوڑا [absconder] ہو گیا تھا ۔ پچھلے سال میریئٹ ہوٹل پر حملے کے سلسلہ میں وہ اتفاق سے اکتوبر 2008ء میں گرفتار ہوا ۔ بعد میں اُسے چھوڑ دیا گیا ۔ اگر اس کا تعلق میریئٹ ہوٹل پر حملہ سے نہیں بھی تھا تو اُسے قید میں رکھنے اور تفتیش کرنے کیلئے اُس کا فوج سے بھگوڑا ہونا ہی کافی تھا ۔ اُسے کیوں اور کس کے کہنے پر چھوڑا گیا ؟؟؟ صاف ظاہر ہے کہ کوئی سرکار کا بارسوخ آدمی ہو گا جس کی ایماء پر چھوڑا گیا

اب وقت بہت کم رہ گیا ہے ۔ ہمیں اپنے دماغ سے غیرملکی چِپ [chip] نکال کر اپنے اصل دماغ سے سوچنا شروع کرنا ہو گا
اگر ہم اپنے آپ کو اور اپنی اگلی نسلوں کو بچانا چاہتے ہیں تو ہمیں ابھی سے خود محنت سے کام کرنا ہو گا ۔ اپنے دماغ سے سوچنا ہو گا اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا ہو گا

کیا یہی بارود خود کش دھماکوں میں استعمال ہو رہا ہے ؟

کمانڈنٹ پولیس کالج سہالہ ناصر خان درانی کی طرف سے آئی جی پولیس پنجاب کو بھیجے گئے میمورنڈم نمبر 12981 میں کہا گیا ہے کہ امریکی حکومت کے بیورو آف ڈپلومیٹک سکیوٹی نے پولیس کالج سہالہ میں انسداد دہشتگردی ریسپانس ٹیمز کی تربیت کیلئے 2003ء میں انسداد دہشتگردی کی مدد کا دفتر قائم کیا تھا ۔ وزارت داخلہ نے19جولائی 2003ء کو ایک میمورنڈم نمبر 1/41/2003 کے ذریعے اس آفس کے قیام میں اپنی رضا مندی ظاہر کی اور کہا کہ امریکی سفارتخانہ کو مذکورہ تربیتی مقاصد کیلئے پولیس کالج سہالہ کی حدود استعمال کرنے کی اجازت دی گئی ہے انہیں فائرنگ رینج ، آرمری اور دیگر متعلقہ سہولیات و انفراسٹرکچر کی تعمیر کی بھی اجازت دی گئی تھی ۔ اس علاقے کو نہ صرف پولیس کالج سہالہ کی انتظامیہ بلکہ زیر تربیت اہلکاروں کیلئے بھی نو گو ایریا قرار دیا گیا ہے ۔

اس خط میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ کالج کی حدود میں بھاری مقدار میں دھماکہ خیز مواد بھی ذخیرہ کیا گیا ہے جو کہ اس تربیتی ادارے کیلئے بہت بڑا سکیورٹی رسک ہے ۔

کمانڈنٹ سہالہ پولیس نے آئی جی پنجاب سے کہا ہے کہ وہ وزارت داخلہ اور انٹیلی جنس بیورو (آئی بی ) کو اس معاملے میں ملوث کریں تاکہ مناسب حفاظتی اقدامات کئے جاسکیں

بشکریہ ۔ جنگ

منافقت کا انجام

وار آن ٹیرر کی بنیادی طور پر دو متحارب قوتیں ہیں
ایک ۔ امریکہ (نیٹو )، پاکستان اورافغان حکومت
دوسرا ۔ القاعدہ ، افغان طالبان، پاکستانی طالبان اور پاکستان کی کالعدم فرقہ پرست تنظیمیں ۔ القاعدہ میں عرب، افریقی، ازبک، چیچن اور پاکستانیوں سمیت کئی دیگر ایشیائی ممالک کے جنگجو شامل ہیں ۔ ایک زمانہ تھا جب یہ لوگ گلبدین حکمتیار اور دیگر جہادی کمانڈروں کے ساتھی تھے اور ان کی صفوں میں شامل رہ کرطالبان کے خلاف لڑ رہے تھے
طالبان کٹر حنفی اور القاعدہ کے بیشتر رہنما وہابی تھے لیکن امریکہ دشمنی بنیاد بنی اور کچھ قوتوں نے ان کو ملا کر ایسا شیروشکر کردیا کہ طالبان نے القاعدہ کی خاطر اپنی حکومت تک قربان کردی
پاکستانی طالبان کسی ایک مسلک یا ایک پس منظر کے لوگ نہیں۔ سوات کے طالبان پر ایک رنگ، باجوڑ کے طالبان پر دوسرارنگ، مہند ایجنسی کے طالبان پر کوئی اور رنگ اور وزیرستان کے طالبان پر کوئی اور رنگ غالب رہا۔ مسلکی حوالو ں سے بھی فرق موجود تھا۔ لیکن القاعدہ اورافغان طالبان نے ان کو امریکہ اوراس کے اتحادیوں کے خلاف جنگ کے ایک نکاتی ایجنڈے پر جمع کیا۔ پاکستان کی کالعدم جہادی اور فرقہ پرست تنظیموں کی امریکہ دشمنی کے جذبے کو ایکسپلائٹ کراکر انہیں بھی پاکستانی طالبان سے منسلک کردیا گیا۔
ان چار عناصر کا آپس میں بھرپور کوآرڈینیشن ہے ۔ نعرہ ایک ،جذبہ ایک اور طریق کار ایک ۔ یہ باقاعدہ اور منظم فوج ہر گز نہیں۔ ہر جگہ سرگرمیوں میں مقامی رنگ بھی غالب نظر آتا ہے ۔ گاہے بگاہے سٹریٹجی بھی مختلف ہوتی ہے لیکن بنیادی طور پر سوچ اور فکر ایک ہی ہے ۔
افغان طالبان ، پاکستانی فورسز کے ساتھ لڑنے کے مخالف ہیں لیکن ایسے بھی نہیں کہ اس وجہ سے پاکستانی طالبان سے دشمنی مول لیں۔ جنوبی وزیرستان کے مولوی نذیر اور شمالی وزیرستان کے حافظ گل بہادر بھی پاکستان میں کاروائیوں کے مخالف ہیں لیکن اسامہ بن لادن کو ہیرو اور ملا محمد عمر کو امیرالمومنین سب ایک جیسا مانتے ہیں ۔ نسلی اور قبائلی اختلاف بھی گاہے گاہے نظر آتاہے ۔ احمد زئی وزیروں اورمحسود وں کا تناؤ صدیوں سے چلا آرہا ہے ۔ ہر قوم اور ہر قبیلے کا عسکریت پسند اپنی ہی قوم یا اپنے ہی قبیلے سے تعلق رکھنے والے کمانڈر کے زیرکمانڈ لڑتا ہے ۔ وسائل اور اختیارات بھی بسااوقات اختلاف اورجھگڑے کا موجب بن جاتے ہیں ، لیکن مشترکہ مقاصد، القاعدہ کی سرپرستی اور حکومتی اداروں کی پلاننگ نہ ہونے کی وجہ سے غیرمعمولی صورت اختیار نہیں کرتے ۔

اب دوسرے فریق کا جائزہ لے لیجئے ۔پرویز مشرف نے امریکہ کا ساتھ دیا تو اس التجا کے ساتھ دیا کہ ماڈریٹ طالبان کو ٹھکانے نہیں لگایا جائے گا لیکن امریکہ نے سب کو ایک لاٹھی سے ہانکنا شروع کیا۔
پھر مطالبہ کیا کہ پاکستان مخالف شمالی اتحاد کو کابل میں نہ آنے دیاجائے، لیکن اسے آنے دیا گیا۔
پھرانہوں نے امریکیوں سے درخواست کی گئی کہ ہندوستان کو افغانستان میں نہ گھسنے دو لیکن اسے گھسنے دیا گیا۔
پاکستان سمجھتا ہے کہ ہندوستان کو افغانستان میں پاکستان مخالف سرگرمیوں کی کھلی چوٹ دی گئی ہے ۔ بلوچستان کی آگ کو وہاں سے بھڑکایا جارہا ہے ۔
خوف کے مارے پاکستان امریکہ کا نام نہیں لے سکتا اور شکایت کرتے ہوئے حامد کرزئی کی حکومت کا نام لیتا ہے لیکن اسے بخوبی علم ہے کہ ہندوستان کی سازشیں امریکی شہہ پر ہی گرم ہیں۔ ریٹائرمنٹ یا حکومت سے فراغت کے بعد تو ہر کوئی بول دیتا ہے لیکن حکومت میں بیٹھے ہوئے پاکستانی ذمہ داروں کو بھی یقین ہے کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ کھیل رہا ہے ۔
دوسری طرف امریکہ پاکستان کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے ۔ وہ سمجھتا ہے کہ پاکستان ہنوز افغان طالبان کو سپورٹ کررہا ہے ۔ امریکہ کی نظروں میں پاکستان کا کردار کس قدر مشکوک ہے ، اس کا اندازہ کیری لوگر بل کی شرائط سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے ۔
جہاں تک پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کا تعلق ہے تو اتحادی ہو کر بھی دشمنوں جیسے تعلقات کا یہ ایک منفرد نمونہ ہے ۔ طورخم کے اس پارچلے جائیں تو عام افغانی سے لے کر دانشوروں ، سیاستدانوں اور حکمرانوں تک ہر افغانی کے ذہن میں یہ بات بیٹھی ہوئی ہے کہ ان کے ملک میں جو بدامنی ہے ، اس کا ذمہ دار پاکستان ہے ۔ اسی طرح پاکستانیوں کو یقین ہے کہ افغان حکومت کا اس کے ساتھ رویہ دوستوں کا نہیں بلکہ دشمنوں والا ہے ۔ سرحدی علاقوں میں پاکستانی حکام جس قدر ہندوستانی اینٹیلی جنس سے شاکی رہتے ہیں ، اسی طرح وہ افغان اینٹیلی جنس کی سرگرمیوں کے بارے میں بھی پریشان رہتے ہیں ۔کابل میں پاکستانی سفارت خانے کی وہ حیثیت ہے جو دہلی میں اس کی ہے اور پاکستان میں افغانستان کے سفارتخانے کی وہی حیثیت ہے جو یہاں ہندوستان کے سفارتخانے کی ہے ۔ اسلام آباد میں میں کبھی کسی ضرورت کے تحت افغان سفارتخانے جاتا ہوں تو پاکستانی اینٹیلی جنس کے لوگ اس طرح پیچھا کرتے ہیں جیسا کہ میں کسی دشمن ملک کے سفارت خانے میں گیا ہوں اور اسی طرح کابل میں جب میں پاکستانی سفارتخانے کی طرف چل پڑتا ہوں تو میرے افغانی دوست مجھ سے اجازت لے کر دور بھاگنے لگتے ہیں ، کیوں کہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ پاکستانی سفارتخانے میں جانے سے ان کی حب الوطنی مشکوک ہوگی ۔
اب تو حامد کرزئی اورامریکی بھی ایک دوسرے سے کھیلنے لگے ہیں۔ امریکیوں نے کرزئی کو ہروانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور اب بھی بھرپور کوشش کررہاہے کہ یا تو انتخابات کالعدم قرار دلوادے یا پھر کم ازکم نئے سیٹ اپ میں عبداللہ عبداللہ کوجگہ دلوا دے۔ گویا اس اتحاد میں شامل عناصر کے مقاصد مشترک ہیں اور نہ کوئی کوآرڈینیشن نظر آتی ہے۔وہ بیک وقت دوست بھی ہیں اور دشمن بھی ہیں۔

پاکستانی طالبان ، اپنی حکومت کے ساتھ ، دشمنی کی بنیاد، ہمارا ثانی الذکر اتحاد میں شمولیت بتاتے ہیں ۔ میری گذارش فقط یہ ہے کہ معاہدوں اور آپریشنوں کی بجائے ، ثانی الذکر اتحاد کو حقیقی معنوں میں اتحاد بنادیجئے ۔ امریکہ اور افغانستان کو مجبور کر دیجئے کہ وہ دشمنوں والا رویہ چھوڑ دے اور اگر ایسا نہیں کرسکتے ہو تو پھر اس اتحاد کو اللہ حافظ کہہ دیجئے ۔امریکہ سے دشمنی شاید زیادہ خسارے کا سودہ ہے تو دشمنی نہ کیجئے لیکن کم از کم اس کے اتحاد سے تو نکل جائیے۔ یہ کیا ہم نے اپنے آپ کو ، اپنے بھی خفا ہم سے ہیں ، بیگانے بھی ناخوش ، والی صورت حال سے دوچار کردیا ہے ۔
سچی بات یہ ہے کہ امریکی ہمارے ساتھ منافقت کررہے تھے ، جو ان کے گلے پڑگئی ہے اور ہم نے جواب میں گذشتہ سالوں کے دوران منافقت سے کام لیا ،جو ہمارے لئے مصیبت بن گئی۔
اللہ کا قانون تو اٹل ہے اور اللہ نے منافقین کی سزا کافروں سے بھی بڑھ کر بیان کی ہے۔ منافقت کا وقتی نتیجہ تو فائدے والا نظر آتا ہے لیکن منطقی نتیجے کے طور پر اس کا انجام بہت برا ہوتا ہے ۔شاید اس وقت امریکی اپنی منافقت کی سزا بھگت رہے ہیں اور ہم اپنی منافقت کی۔

تحریر ۔ سلیم صافی ۔ بشکریہ جنگ

زرداری افتخار چوہدری اور ڈوگر ۔ ہوشیار کون ؟ آخری قسط

15 فروری 2008ء کو آصف زرداری نے اپنی آئینی پٹیشن سندھ ہائی کورٹ میں پیش کی جس میں وفاقی حکومت اور نیب سے کہا گیا تھا کہ این آر او کے تحت ان کے خلاف درج تمام کیسز واپس لیے جانے کے احکامات کا فائدہ انہیں دیا جائے۔ 18 فروری کو انتخابات منعقد ہوئے اور27 فروری کو ڈوگر نے تمام ماتحت عدالتوں کو احکامات جاری کیے کہ این آر اوکے تحت انہیں یہ فوائد فراہم کیے جائیں۔ 28 فروری کو سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے سندھ ہائی کورٹ نے متعلقہ ہدایت نیب اور وفاقی حکومت کو جاری کردی۔اسی دوران زرداری نے نواز شریف سے کئی ملاقاتیں کیں اور محض پی سی او ججزکو دباؤ میں رکھنے کے لیے9 مارچ 2008ء کو مشہور زمانہ معاہدہٴ مری کیا۔ اس معاہدے کے تحت چیف جسٹس آف پاکستان کو تیس روز میں بحال کرنے کا وعدہ کیا گیا۔ درحقیقت تیس روزکے اندر بحالی کا مطالبہ قوم سے وعدہ نہیں بلکہ پی سی او ججزکے لیے ایک ڈیڈ لائن تھی

میثاقِ مری ہونے کے چار روز بعد12 مارچ 2008ء کو ایس جی ایس کوٹیکناکیس ختم کردیا گیا۔ یہ وہی کیس تھا جس میں سپریم کورٹ نے 6 اپریل2001ء کو جسٹس ملک قیوم نے آصف زرداری اور بے نظیر بھٹو پر فرد جرم عائدکی تھی اورکیس دوبارہ سماعت کے لیے احتساب عدالت نمبر 3 راولپنڈی میں چلاگیا تھا۔میثاق مری پر دستخط کے چھ روز بعد 14 مارچ 2008ء کو احتساب عدالت نمبر 3 راولپنڈی نے آصف زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائک اور وکیل استغاثہ دانشور ملک کی رضا مندی سے آصف علی زرداری کو بی ایم ڈبلیوکیس سے بری کردیا

پریزائیڈنگ جج صغیر احمد قادری نے اپنے حکم میں یہ بات زور دے کرکہی کہ چوں کہ یہ کیس این آر او کے دائرہ کار سے باہر ہے اس لیے بری کرنے کا یہ فیصلہ عام قانون کے مطابق کیا جاتا ہے۔دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ وہی کیس ہے جس کی سماعت کے بعد آصف زرداری کے وکیل اعتزاز احسن نے اعتراضات اٹھائے تھے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری پر مشتمل سپریم کورٹ کی فل بنچ نے آصف زرداری کی ضمانت منظورکی تھی جس کے نتیجے میں ان کی رہائی عمل میں آئی تھی۔ رہائی کے بعد وہ پاکستان سے چلے گئے تھے اور جب وہ واپس لوٹے تو افتخار محمد چوہدری معزول ہوچکے تھے اور اپنے بچوں کے ساتھ گھر میں نظربند تھے

پی سی او ججز اور ان کے ماتحت ججز کی تعیناتی کے دوران ہی میثاق مری کے چند روز بعد ہی آصف زرداری کے وکیل شہادت اعوان نے سندھ ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائرکی جس میں استدعا کی گئی تھی کہ آصف زرداری کو جسٹس نظام اور ان کے بیٹے کے دہرے قتل کے مقدمے میں رہا کیا جائے۔24 مارچ 2008ء کو ایک اور پی سی او جج صوفیہ لطیف نے اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر نعمت علی رندھاوا کی رضا مندی سے آصف زرداری کو بری کردیا۔ اس بار بھی اس فیصلے کا تعلق این آر او سے نہیں تھا

8 اپریل2008ء کو میثاق مری میں دی گئی تیس روزہ ڈیڈ لائن سے صرف ایک روز قبل سندھ ہائی کورٹ کے ایک اور پی سی او جج پیر علی شاہ نے آصف زرداری کو مرتضیٰ بھٹو قتل کیس سے بھی بری کردیا، اس بار بھی اس فیصلے کا این آر او سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
9 اپریل2008ء کو میثاق مری میں دی گئی تیس روزہ ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد آصف زرداری نے نواز شریف سے معاہدے پر عمل درآمدکے لیے مزید10 روزکا وقت حاصل کیا۔نواز شریف اور ان کے وکلا نے جب اس تاخیرکی وجوہات جاننے کی کوشش کی تو15 اپریل2008ء کو زرداری کے وکیل یوسف لغاری نے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج حیدر آباد کی عدالت میں ایک درخواست پیش کی جس میں کہا گیا تھا کہ ان کے موکل کو مشہور زمانہ عالم بلوچ قتل کیس سے بری کیا جائے۔ درخواست پیش کرنے کے صرف ایک روز بعد 16 اپریل2008ء کو عدالت نے آصف زرداری کو بری کردیا

آصف زرداری نے ججوں کی بحالی کے لیے دس روزکا جو مزید وقت طلب کیا تھا اس کے ختم ہونے کے بعد نواز شریف نے جو اسلام آباد میں انتظار کر رہے تھے، انہوں نے عدلیہ کی بحالی کے لیے دبئی میں بات چیت کا ایک اور دور مکمل کرلیا۔ اس وقت تک پاکستان میں ہر شخص زرداری کی جانب سے ججوں کی بحالی کے حوالے سے تاخیر کی اصل وجوہات کے حوالے سے کنفیوز تھا۔ دبئی میں کئی طویل اجلاسوں کے بعد جن کی خبریں اخبارات میں بھی شائع ہوتی رہیں، 9 اور 10 مئی 2008ء کو نواز شریف اور زرداری کے درمیان لندن میں مزید مذاکرات ہوئے۔ اس دوران پیپلزپارٹی کے رہنماؤں نے ہر قسم کی تاویلات کا سلسلہ شروع کردیا تھا، کیوں کہ جو عدلیہ بحال نہیں ہوئی تھی اس کے حوالے سے دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ آئین میں ترمیم کی جائے تاکہ اس دستاویز (پی سی او) کے قانونی اثر و رسوخ کی راہ ہموارکی جائے جو عوام کے ایک حقیقی خادم کے دستخط کے ساتھ جاری ہوئی تھی

13 مئی2008ء کو سندھ ہائی کورٹ کے ایک اور پی سی او جج بن یامین نے آصف زرداری اور برطانیہ میں پاکستان کے موجودہ ہائی کمشنر واجد شمس الحسن کو اس کرمنل کیس سے بری کردیا جس میں ان پر نادر تصاویر‘ نوادرات اور دیگر ممنوعہ اشیاء کے آٹھ کریٹ کسی بھی قسم کی کسٹمز ڈیوٹی ادا کیے بغیر پی آئی اے کے ذریعے سرے محل اسمگل کرنے کا الزام لگایا گیا تھا اور اس حکم کی بنیاد بھی این آر او پر نہیں تھی۔ جہاں تک ملک قیوم کے اٹارنی جنرل کے عہدے پر برقرار رہنے کا تعلق ہے تو اس موقع پر اس بات کا ذکر مناسب لگتا ہے کہ ملزم کے دونوں وکلا اور اٹارنی جنرل کا تعلق پاکستان پیپلزپارٹی سے تھا۔ ملک قیوم اور ان کے ماتحت ڈپٹی اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ نے جب اپنے موکل کو تمام درخواستوں میں بری کرنے کا فریضہ انجام دے لیا تو ملک قیوم کو فوری طور پر تبدیل کرکے لطیف کھوسہ کو نیا اٹارنی جنرل مقررکردیا گیا۔ اس وقت تک این آر اوکی بنیاد پر یا غیرمحفوظ اور پریشان پی سی او ججزکے ذریعے جو بھی فوائد حاصل کیے گئے اس کے نتیجے میں آصف زرداری اب تمام کرمنل کیسسز سے آزاد تھے مگر اب بھی ایک مشکل درپیش تھی۔ آصف زرداری کے استاد جنرل مشرف کرسی ٴ صدارت پر براجمان تھے ان کے این آر او اور مدد اور آشیرواد کے بغیر زرداری تمام کرمنل کیسز سے بری نہیں ہوسکتے تھے۔ آخری کیس میں بری ہونے تک آصف زرداری نے مشرف کی مذمت نہیں کی لیکن اب انہیں ایک خالی ایوان صدرکی ضرورت تھی۔ یہی وجہ تھی کہ7 اگست 2008ء کو آصف زرداری نے نواز شریف کے ساتھ ایک اور معاہدہ کیا کہ اگر نواز شریف ڈکٹیٹرکو ہٹانے میں تعاون کرتے ہیں تو پیپلزپارٹی عدلیہ کو مشرف کے محاسبے کے 72 گھنٹے کے اندر بحال کردے گی۔ نواز شریف ایک بار پھر جال میں پھنس گئے اور اپنے آپ کو استعمال کرنے کی اجازت دے دی۔ معاہدے پر دستخط ہوگئے مگر 18 اگست 2008ء کے بعد جبکہ جنرل مشرف دونوں فریقوں کی جانب سے دی گئی ڈیڈ لائن کی وجہ سے زبردست دباؤ میں تھے، انہوں نے اپنا استعفیٰ پیش کردیا۔ زرداری نے اپنے وعدے پورے کرنے سے انحراف کیا اور اس کی بجائے پاکستان کا صدر بننے کی کوششیں شروع کردیں‘ اب پاکستان مسلم لیگ (ن) نے محسوس کیا کہ انہیں کس طرح استعمال کیا گیا ہے۔ دوسری جانب زرداری نے یہ کہہ کر الزام تراشیوں کا سلسلہ شروع کردیا کہ وعدے اور معاہدے کوئی قرآن و حدیث نہیں ہیں۔ اس کے بعدکیا ہوا، اس سے سب واقف ہیں

31 جولائی 2009ء کو اپنے تفیصیلی فیصلے میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے ان تمام قانونی نکات پر مکمل اور جامع اظہار خیال کیا ہے جو میں نے ریویو پٹیشنز اور اپنے عزیز دوست ایڈووکیٹ ندیم احمدکی جانب سے اٹھائے تھے۔ معزز عدالت نے اس حوالے سے شک و شبہے کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی کہ پی سی او ایک غیر اہم اور بے مقصد معاملہ ہے اور اس کے کوئی قانونی اثرات بھی مرتب نہیں ہوئے اور یہ کہ سپریم کورٹ سمیت کسی بھی ادارے کو یہ اختیار نہیں کہ وہ 120 دن سے زیادہ کی توسیع کرکے ایک آرڈیننس کو آئین کے آرٹیکل89 کے تحت اسے مستقل حیثیت دے سکے۔ دیگر الفاظ میں سپریم کورٹ کسی قانونی ادرے کو یہ حق دینے کو تیار نہیں کہ این آر اوکو 120 دن سے زیادہ مستقل حیثیت دینے کوتیار نہیں، اس کے بعد آئین کے آرٹیکل89 کے تحت اسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہوگی۔ آزاد پارلیمنٹ کو یہ قانونی خلا پُرکرنے کا موقع دیاجانا چاہیے۔ انہیں اپنے رہنماؤں کو مقدمات سے بچانے کا انتظام کرنا چاہیے اور اس حوالے سے قوم کو فیصلہ کرنے کا حق ملنا چاہیے ۔دریں اثناء سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کے نتیجے میں خاص طو ر پر پیرا نمبر 179‘ 184‘185‘ 186‘ 187اور 188 کے مطابق این آر اوکو اس کے اجراء کی تاریخ 2 فروری 2008ء کے 120 دن بعدکالعدم سمجھا جانا چاہیے۔ اس تاریخ کے بعدکوئی بھی شخص اس سے فائدہ حاصل نہیں کرسکتا، تاہم سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق اب جب کہ این آر او 2 فروری 2008ء کے بعد موٴثر نہیں رہا تو پاکستان کی تمام عدالتوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ بری کیے جانے والے تمام مقدمات کا ازسر نو جائزہ لیں، خاص طور پر وہ مقدمات جن کی بنیاد این آر او پر ہے

مندرجہ بالا تمام حقائق حیرت ناک اور افسوسناک ہیں۔ ان کی روشنی میں ہماری قوم اور ملک کے حوالے سے کئی سنگین نوعیت کے سوالات جنم لیتے ہیں۔ ان سوالات کے جوابات ہمارے موجودہ جمہوری اداروں کو تلاش کرنے چاہئیں آخر ایک شخص واحد جس کی ترجیحات ڈھکی چھپی نہیں ہیں، آخر وہ پاکستان کی سب سے مقبول رہنما کی شہادت کے دہرے قومی سانحہ سے فائدہ اٹھانے میں کس طرح کامیاب ہوا اور اس نے ججوں پرکس طرح مسلسل دباؤ ڈالے رکھا جب کہ وہ قومی اسمبلی کی صرف ایک نشست سے کامیاب ہوا تھا۔ اس نے کتنی آسانی سے جنرل مشرف، نام نہاد اسٹیبلشمنٹ، سب سے بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو بے وقوف بنایا، ا نہیں اپنے مقاصدکے سامنے جھکنے اور صرف اپنے ذاتی مقاصد اور فوائد کے لیے اندھا دھند اپنی تقلیدکرنے پر مجبورکیا

برناڈ شا نے بادشاہوں کی تقلید کرنے کے حوالے سے وارننگ دی تھی جو آخرکار عدم تحفظ کی وجہ سے نقصان نہیں اٹھاتے اور جو عام طور پر اچھے اوصاف رکھنے والے اور نقصان نہ پہنچانے والے لوگ ہوتے ہیں اور جو ایک ایسی جمہوریت کے خواب دیکھتے رہتے ہیں جن میں معاشرے کو دیگر بااثر افرادکے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ برناڈ شا نے ایسے افراد کو ترغیب دینے والے قرار دیا ہے اس کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ فاتح ولیم انگلستان میں ایک بے اصول شخص تھا، وہ پورے انگلستان کو ہضم کرنا چاہتا تھا اس نے اپنی ذاتی صلاحیتوں کی بنیاد پر انگلستان کے عوام کی خواہش کے برخلاف اپنا یہ مقصد حاصل کیا کیوں کہ اس میں وہ تمام صفات موجود تھیں جو ایک شخص کو بے اصول ثابت کرتی ہیں،کیوں کہ اس میں ایک وحشی حکمراں کی تمام خوبیاں موجود تھیں۔ وہ ایک سیاسی جینئس تھا اسے اس بات کی کوئی پروا نہیں تھی کہ فرانس اور انگلستان میں کوئی کیا کہتا ہے۔ ہم ایسے شخص کوکیا کہہ سکتے ہیں

آصف علی زرداری جن طور طریقوں سے اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں کہ صرف چھ ماہ کے عرصے میں پاکستان سے باہر مقیم سب سے بڑا ملزم انتخاب لڑتا ہے اور 6 ستمبر 2008ء کے انتخابات میں کامیابی کے بعد پاکستان کے سب سے باوقار عہدے پر فائز ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں صدر پاکستان کی حیثیت سے ان کے انتخاب کے حوالے سے کئی سنجیدہ سوالات بھی جنم لیتے ہیں

تحریر ۔ اکرم شیخ ۔ ایڈووکیٹ سپریم کورٹ ۔ بشکریہ ۔ جنگ

انگریزی نہیں آتی

ایک جنگل میں یہ قانون منظور ہوگیا کہ آئندہ کوئی جانور کسی دوسرے جانور کو نہیں کھائے گا۔ دوسرے دن جانوروں نے دیکھا کہ ایک خرگوش بھاگا چلا جارہا ہے ایک گیدڑ نے اس کو آواز دی اور پوچھا ” کیوں بھاگے چلے جارہے ہو ؟”
خرگوش نے کہا ” ایک بھیڑیا میری طرف آرہا ہے “

اس نے کہا۔”تم کو معلوم نہیں کہ قانون جاری ہوگیا ہے؟ اب کوئی جانور دوسرے جانور کو نہیں کھائے گا۔“
خرگوش بولا”ہاں قانون تو جاری ہوگیا ہے۔ لیکن بھیڑیئے کو پڑھنا نہیں آتا۔!!
اب خرگوش پریشان ہیں کہ قانون بن گیا ہے اور جو طاقتور ہیں اور با اثر ہیں ان کو پڑھنا نہیں آتا ایسے میں ہمارا کیا بنے گا……؟

کہتے ہیں کیری لوگر بل کے تخلیق کاروں کو کوئی سمجھا رہا تھا کہ ” لکھ دو ۔ جو مرضی لکھ دو ۔ پاکستانیوں کو انگلش نہیں آتی ۔“ واقعی پاکستانی لوگ انگلش تحریروں کو پڑھ بھی نہیں سکتے۔ اگر پڑھ سکتے تو 2005ء میں شائع ہونے والی کتاب کے مصنف کو اپنا سفیر مقرر کیوں کرتے ؟ اور پاکستان کے حکمرانوں کو بھی انگلش پڑھنی نہیں آتی۔ اگر آتی تو وہ امریکی شہریت کا وہ حلف نامہ تو پڑھ لیتے جس کے تحت حلف اٹھاکر جناب حسین حقانی امریکی شہری بنے تھے ۔ اس میں لکھا ہے

”میں حلف اٹھا کر کہتا ہوں کہ میں ہر حال میں امریکہ کا وفادار رہوں گا اور ہمیشہ ہر کام امریکہ کے مفاد میں کروں گا “

پورا مضمون پڑھنے کیلئے یہاں کلِک کیجئے