منافقت کا انجام

وار آن ٹیرر کی بنیادی طور پر دو متحارب قوتیں ہیں
ایک ۔ امریکہ (نیٹو )، پاکستان اورافغان حکومت
دوسرا ۔ القاعدہ ، افغان طالبان، پاکستانی طالبان اور پاکستان کی کالعدم فرقہ پرست تنظیمیں ۔ القاعدہ میں عرب، افریقی، ازبک، چیچن اور پاکستانیوں سمیت کئی دیگر ایشیائی ممالک کے جنگجو شامل ہیں ۔ ایک زمانہ تھا جب یہ لوگ گلبدین حکمتیار اور دیگر جہادی کمانڈروں کے ساتھی تھے اور ان کی صفوں میں شامل رہ کرطالبان کے خلاف لڑ رہے تھے
طالبان کٹر حنفی اور القاعدہ کے بیشتر رہنما وہابی تھے لیکن امریکہ دشمنی بنیاد بنی اور کچھ قوتوں نے ان کو ملا کر ایسا شیروشکر کردیا کہ طالبان نے القاعدہ کی خاطر اپنی حکومت تک قربان کردی
پاکستانی طالبان کسی ایک مسلک یا ایک پس منظر کے لوگ نہیں۔ سوات کے طالبان پر ایک رنگ، باجوڑ کے طالبان پر دوسرارنگ، مہند ایجنسی کے طالبان پر کوئی اور رنگ اور وزیرستان کے طالبان پر کوئی اور رنگ غالب رہا۔ مسلکی حوالو ں سے بھی فرق موجود تھا۔ لیکن القاعدہ اورافغان طالبان نے ان کو امریکہ اوراس کے اتحادیوں کے خلاف جنگ کے ایک نکاتی ایجنڈے پر جمع کیا۔ پاکستان کی کالعدم جہادی اور فرقہ پرست تنظیموں کی امریکہ دشمنی کے جذبے کو ایکسپلائٹ کراکر انہیں بھی پاکستانی طالبان سے منسلک کردیا گیا۔
ان چار عناصر کا آپس میں بھرپور کوآرڈینیشن ہے ۔ نعرہ ایک ،جذبہ ایک اور طریق کار ایک ۔ یہ باقاعدہ اور منظم فوج ہر گز نہیں۔ ہر جگہ سرگرمیوں میں مقامی رنگ بھی غالب نظر آتا ہے ۔ گاہے بگاہے سٹریٹجی بھی مختلف ہوتی ہے لیکن بنیادی طور پر سوچ اور فکر ایک ہی ہے ۔
افغان طالبان ، پاکستانی فورسز کے ساتھ لڑنے کے مخالف ہیں لیکن ایسے بھی نہیں کہ اس وجہ سے پاکستانی طالبان سے دشمنی مول لیں۔ جنوبی وزیرستان کے مولوی نذیر اور شمالی وزیرستان کے حافظ گل بہادر بھی پاکستان میں کاروائیوں کے مخالف ہیں لیکن اسامہ بن لادن کو ہیرو اور ملا محمد عمر کو امیرالمومنین سب ایک جیسا مانتے ہیں ۔ نسلی اور قبائلی اختلاف بھی گاہے گاہے نظر آتاہے ۔ احمد زئی وزیروں اورمحسود وں کا تناؤ صدیوں سے چلا آرہا ہے ۔ ہر قوم اور ہر قبیلے کا عسکریت پسند اپنی ہی قوم یا اپنے ہی قبیلے سے تعلق رکھنے والے کمانڈر کے زیرکمانڈ لڑتا ہے ۔ وسائل اور اختیارات بھی بسااوقات اختلاف اورجھگڑے کا موجب بن جاتے ہیں ، لیکن مشترکہ مقاصد، القاعدہ کی سرپرستی اور حکومتی اداروں کی پلاننگ نہ ہونے کی وجہ سے غیرمعمولی صورت اختیار نہیں کرتے ۔

اب دوسرے فریق کا جائزہ لے لیجئے ۔پرویز مشرف نے امریکہ کا ساتھ دیا تو اس التجا کے ساتھ دیا کہ ماڈریٹ طالبان کو ٹھکانے نہیں لگایا جائے گا لیکن امریکہ نے سب کو ایک لاٹھی سے ہانکنا شروع کیا۔
پھر مطالبہ کیا کہ پاکستان مخالف شمالی اتحاد کو کابل میں نہ آنے دیاجائے، لیکن اسے آنے دیا گیا۔
پھرانہوں نے امریکیوں سے درخواست کی گئی کہ ہندوستان کو افغانستان میں نہ گھسنے دو لیکن اسے گھسنے دیا گیا۔
پاکستان سمجھتا ہے کہ ہندوستان کو افغانستان میں پاکستان مخالف سرگرمیوں کی کھلی چوٹ دی گئی ہے ۔ بلوچستان کی آگ کو وہاں سے بھڑکایا جارہا ہے ۔
خوف کے مارے پاکستان امریکہ کا نام نہیں لے سکتا اور شکایت کرتے ہوئے حامد کرزئی کی حکومت کا نام لیتا ہے لیکن اسے بخوبی علم ہے کہ ہندوستان کی سازشیں امریکی شہہ پر ہی گرم ہیں۔ ریٹائرمنٹ یا حکومت سے فراغت کے بعد تو ہر کوئی بول دیتا ہے لیکن حکومت میں بیٹھے ہوئے پاکستانی ذمہ داروں کو بھی یقین ہے کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ کھیل رہا ہے ۔
دوسری طرف امریکہ پاکستان کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے ۔ وہ سمجھتا ہے کہ پاکستان ہنوز افغان طالبان کو سپورٹ کررہا ہے ۔ امریکہ کی نظروں میں پاکستان کا کردار کس قدر مشکوک ہے ، اس کا اندازہ کیری لوگر بل کی شرائط سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے ۔
جہاں تک پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کا تعلق ہے تو اتحادی ہو کر بھی دشمنوں جیسے تعلقات کا یہ ایک منفرد نمونہ ہے ۔ طورخم کے اس پارچلے جائیں تو عام افغانی سے لے کر دانشوروں ، سیاستدانوں اور حکمرانوں تک ہر افغانی کے ذہن میں یہ بات بیٹھی ہوئی ہے کہ ان کے ملک میں جو بدامنی ہے ، اس کا ذمہ دار پاکستان ہے ۔ اسی طرح پاکستانیوں کو یقین ہے کہ افغان حکومت کا اس کے ساتھ رویہ دوستوں کا نہیں بلکہ دشمنوں والا ہے ۔ سرحدی علاقوں میں پاکستانی حکام جس قدر ہندوستانی اینٹیلی جنس سے شاکی رہتے ہیں ، اسی طرح وہ افغان اینٹیلی جنس کی سرگرمیوں کے بارے میں بھی پریشان رہتے ہیں ۔کابل میں پاکستانی سفارت خانے کی وہ حیثیت ہے جو دہلی میں اس کی ہے اور پاکستان میں افغانستان کے سفارتخانے کی وہی حیثیت ہے جو یہاں ہندوستان کے سفارتخانے کی ہے ۔ اسلام آباد میں میں کبھی کسی ضرورت کے تحت افغان سفارتخانے جاتا ہوں تو پاکستانی اینٹیلی جنس کے لوگ اس طرح پیچھا کرتے ہیں جیسا کہ میں کسی دشمن ملک کے سفارت خانے میں گیا ہوں اور اسی طرح کابل میں جب میں پاکستانی سفارتخانے کی طرف چل پڑتا ہوں تو میرے افغانی دوست مجھ سے اجازت لے کر دور بھاگنے لگتے ہیں ، کیوں کہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ پاکستانی سفارتخانے میں جانے سے ان کی حب الوطنی مشکوک ہوگی ۔
اب تو حامد کرزئی اورامریکی بھی ایک دوسرے سے کھیلنے لگے ہیں۔ امریکیوں نے کرزئی کو ہروانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور اب بھی بھرپور کوشش کررہاہے کہ یا تو انتخابات کالعدم قرار دلوادے یا پھر کم ازکم نئے سیٹ اپ میں عبداللہ عبداللہ کوجگہ دلوا دے۔ گویا اس اتحاد میں شامل عناصر کے مقاصد مشترک ہیں اور نہ کوئی کوآرڈینیشن نظر آتی ہے۔وہ بیک وقت دوست بھی ہیں اور دشمن بھی ہیں۔

پاکستانی طالبان ، اپنی حکومت کے ساتھ ، دشمنی کی بنیاد، ہمارا ثانی الذکر اتحاد میں شمولیت بتاتے ہیں ۔ میری گذارش فقط یہ ہے کہ معاہدوں اور آپریشنوں کی بجائے ، ثانی الذکر اتحاد کو حقیقی معنوں میں اتحاد بنادیجئے ۔ امریکہ اور افغانستان کو مجبور کر دیجئے کہ وہ دشمنوں والا رویہ چھوڑ دے اور اگر ایسا نہیں کرسکتے ہو تو پھر اس اتحاد کو اللہ حافظ کہہ دیجئے ۔امریکہ سے دشمنی شاید زیادہ خسارے کا سودہ ہے تو دشمنی نہ کیجئے لیکن کم از کم اس کے اتحاد سے تو نکل جائیے۔ یہ کیا ہم نے اپنے آپ کو ، اپنے بھی خفا ہم سے ہیں ، بیگانے بھی ناخوش ، والی صورت حال سے دوچار کردیا ہے ۔
سچی بات یہ ہے کہ امریکی ہمارے ساتھ منافقت کررہے تھے ، جو ان کے گلے پڑگئی ہے اور ہم نے جواب میں گذشتہ سالوں کے دوران منافقت سے کام لیا ،جو ہمارے لئے مصیبت بن گئی۔
اللہ کا قانون تو اٹل ہے اور اللہ نے منافقین کی سزا کافروں سے بھی بڑھ کر بیان کی ہے۔ منافقت کا وقتی نتیجہ تو فائدے والا نظر آتا ہے لیکن منطقی نتیجے کے طور پر اس کا انجام بہت برا ہوتا ہے ۔شاید اس وقت امریکی اپنی منافقت کی سزا بھگت رہے ہیں اور ہم اپنی منافقت کی۔

تحریر ۔ سلیم صافی ۔ بشکریہ جنگ

This entry was posted in تجزیہ on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

7 thoughts on “منافقت کا انجام

  1. سعود

    میری رائے کے مطابق مصنف نے حالات کا ایک نہایت جامع اور متوازن جائزہ پیش کیا ہے۔

  2. دوست

    اسی سلسلے میں ایکسپریس نیوز میں عامر ہاشم خاکوانی کا کالم زنگار( پچھلے ایک ہفتے کے کالم) پڑھنے کے لائق ہے۔

  3. افتخار اجمل بھوپال Post author

    سعود و دوست صاحبان
    لیکن میرے ساتھ تو زیادتی ہو گئی ہے ۔ میں نے کئی ہفتوں کی محنت سے ایک مضمون لکھا تھا ۔ صرف کچھ ٹھوس حوالوں کے ربط تلاش کر رہا تھا کہ میرے مضمون سے ملتا جُلتا مضمون چھپ گیا ۔ ۔ اگر آپ میری پچھلے دنوں قارئین کے ساتھ ہونے والی بحث پڑھیں تو میں اُن کو اسی طرف لانے کی کوشش کر رہا تھا

  4. سعود

    افتخار انکل ! میں تو آپ کا بلاگ ہر روز بلکہ روزانہ کئی دفعہ کھول کر دیکھتا ہوں۔
    ( اب زیادہ بینڈوڈتھ استعمال کرنے کی سزا میں میری آئی۔پی بلاک مت کیجیئے گا(

  5. افتخار اجمل بھوپال Post author

    سعود صاحب
    میں نے کچھ بلاک نہیں کیا ہوا ۔ کچھ ہفتوں سے اچھے بھلے کئی تبصرے سپیم میں چلے جاتے ہیں ۔ اب میں روزانہ سپیم فولدر دیکھتا ہوں

  6. خرم

    بہت اچھا تجزیہ ہے انکل اور فکر نہ کیجئے جب آپ نے اپنے بلاگ پر لگایا تو ہم نے آپ کا ہی سمجھ کر پڑھا ہے :)

  7. arifkarim

    منافقت کون نہیں کر رہا؟ ہر اک کے ہاں ڈبل مورال ہے اور ہر کوئی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانا چاہتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.