Monthly Archives: October 2009

جُرمِ غریبی کی سزا

”میرا نام احمد نور وزیری ہے ۔ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں بی اے آنرز کا طالب علم ہوں ۔ اس کے علاوہ میں کیا بتاؤں کہ میں کون ہوں او رکیا ہوں ۔ اس ملک کی ساٹھ سالہ تاریخ کے دوران میں اپنی شناخت کھوچکا ہوں ۔ ان ساٹھ سالوں میں مجھے کیا کیا نام نہیں ملے ۔ کبھی مجھے غیور قبائلی کے نام سے پکارا گیا ۔ کبھی مجھے مجاہد بنا کر غیروں کے ہتھیاروں سے غیروں کے مقاصد کے لئے لڑوایا اور استعمال کیا گیا ۔ کبھی مجھے سمگلر کہا گیا ۔ کبھی مجھے غدار کے لقب ملے جبکہ کبھی مجھے دہشت گرد بنا کر میرے معصوم خون کو کسی اور کیلئے بہایا گیا ۔ میں فاٹا کے ایک پسماندہ علاقہ جنوبی وزیرستان کے وانا نامی علاقے سے تعلق رکھتا ہوں جسے بعض لوگ علاقہ غیرکہتے ہیں بعض کے نزدیک یہ نومین لینڈ [No-man-land] ہے اور بعض کے نزدیک یہ ایک فیکٹری ہے جہاں کبھی مجاہد اور کبھی دہشت گرد تیار ہوتے ہیں ۔ قانون کی کتابوں میں وزیرستان اور پورا فاٹا پاکستان کا حصہ ہے لیکن وہاں کی فضاؤں میں امریکہ کے ڈرون طیاروں کاراج ہے ۔ وہ جب چاہیں اور جہاں چاہیں میزائل فائر کردیتے ہیں

میرے دوستو ۔ آج میں اپنی شناخت کی تلاش میں یہاں آیا ہوں ۔ آج میں ایف سی آر کی ستائی ہوئی غربت کی چکی میں پسی ہوئی وار آن ٹَیرر کی آگ میں لپٹی ہوئی اپنے ہی ملک میں مہاجر بنی ہوئی اور امریکہ کے ڈرون حملوں کے سائے تلے زندگی گزارنے والی پانچ ملین انسانوں پر مشتمل قوم [قبائل] کی طرف سے پیار محبت اور عشق کی سوغات لے کر آیا ہوں ۔ اسے قبول کیجئے ۔ میرے دوستو ۔ اسے قبول کیجئے“

یہ جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ہونہار طالب علم احمد نور وزیری کے افتتاحی کلمات تھے جو انہوں نے کچھ عرصہ قبل اسلام آباد میں ”یوتھ پارلیمنٹ“ کے افتتاحی اجلاس کے دوران اپنا تعارف کراتے ہوئے ملک بھر سے منتخب طلبہ اور اہم قومی شخصیات کی موجودگی میں ادا کئے

” یہ خط وانا [جنوبی وزیرستان ایجنسی] سے لکھا جارہا ہے۔ وانا میں تقریبا ساڑھے سات سال سے خانہ جنگی جاری ہے اور یہاں زندگی بس صرف سانس کے آنے اور جانے کا نام ہے ۔ ۔ ۔ دسمبر 2001ء میں ایک طرف افغانستان سے طالبان کے اور دوسری طرف پاکستان سے افواج کے دستے وانا آنا شروع ہوگئے۔ 26 جون 2002ء کو وانا کے گاؤں کژہ پنگہ میں پہلا فوجی آپریشن ہوا۔ تب سے لے کر اب تک کشت و خون کا بازار گرم ہے ۔ ہمارے اوپر الزام تھا کہ ہم سب دہشت گرد ہیں چنانچہ سرکار نے پورے وانا سب ڈویژن میں اقتصادی پابندیاں لگادیں۔ اس دوران ہمارے قبائلی مشران میں سے جس نے بھی زبان کھولی اسے موت کی نیند سلا دیا گیا۔ 2004ء میں ایک اور انتہائی بے رحم آپریشن کیا گیاجس میں ہوائی جہاز بھی استعمال ہوئے ۔ لوگوں نے وانا سے ہجرت کی لیکن کسی شہر کی جانب نہیں بلکہ قرب و جوار کے ویرانوں کی طرف۔ اس دوران گھر مسمار ہوئے ، بازار لٹ گئے ۔ واحد ذریعہ معاش یعنی سیبوں کے باغات برباد ہوگئے۔ اس وقت تک وانا کے لوگ اغواء برائے تاوان کے جرم سے ناآشنا تھے لیکن آئے ہوئے ازبک ، چیچن اور دیگر جابر مہمانوں نے نہ صرف انہیں اس سے آشنا کیا بلکہ قتل و غارت ، سرکاری املاک کو نقصان پہنچانا اور سرکاری سکولوں کو دھماکہ خیز مواد سے اڑانا بھی روز کا معمول بن گیا۔ اس کے بعد تاحال ہم اس کیفیت سے گزر رہے ہیں ۔ ڈرون حملے ہیں ۔ فوجی کانوائے کا تمام راستوں پر نہ صرف آنا جانا ہے بلکہ اس کے خیریت سے گزرنے کی خبر ہم بطور خوشخبری ایک دوسرے کو سناتے ہیں۔ وانا ڈی آئی خان سڑک بند ہے اور ہم 150روپے فی سواری کی بجائے 1500روپے فی سواری کرایہ دے کر ژوپ بلوچستان کے راستے وانا اور ڈی آئی خان کے مابین سفر کرتے ہیں ۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ معمول ہے لیکن آپ کے ہاں گھنٹوں کے حساب سے جبکہ ہمارے ہاں مہینوں کے حساب سے لوڈشیڈنگ ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ گذشتہ چھ ماہ سے بجلی بند ہے ”

مکمل مضمون یہاں کلِک کر کے پڑھیئے

اس سے کیا اشارہ ملتا ہے ؟

کالعدم تحریک طالبان کی جانب سے میڈیا کو بھیجی گئی ایک ای میل میں دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ تحریک طالبان مینا بازار میں ہونیوالے اس دھماکے میں ملوث نہیں ہے
طالبان اورالقاعدہ نے پشاور بم دھماکوں میں ملوث ہونے کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم بازاروں اور مساجد میں کبھی بم دھماکے نہیں کرتے
القاعدہ کے بیان کے مطابق وہ بے گناہوں کے قتل عام میں ملوث نہیں ہے
القاعدہ ذرائع کے مطابق پشاور دھماکے میں وہ عناصر ملوث ہیں جو جہاد اور مہاجرین کو بدنام کرنا چاہتے ہیں
القاعدہ کے ذرائع کے مطابق القاعدہ امریکا اور اس کے ایجنٹوں کے خلاف دنیا بھر میں جہاد جاری رکھے گی
خبر جنگ میں شائع ہوئی

روندی یاراں نوں

پنجابی کی ایک کہاوت ہے
روندی یاراں نوں ناں لَے کے بھراواں دے
اس کا مطلب ہے کہ رو رہی ہے آشنا کی جدائی میں لیکن نام بھائیوں کے لے کر رو رہی ہے

altafhussainbritishpassport2

ایسی ہی مثال اس شخص کی ہے جس نے اپنی قومیت چھوڑ کر دوسری قومیت اختیار کر لی اور اس پر پھُولا نہیں سمائے ۔ اور اس کے بعد اپنے آپ کو اُس قوم کا خیرخواہ جتانے کی کوشش کرے جسے اُس نے تج دیا ۔ کیا یہ منافقت نہیں ہے ؟

روپیہ سب کچھ ہے

“بس جی ۔ روپیہ ہونا چاہیئے”
“روپے کے بغیر زندگی مشکل ہے”
“روپے کو روپیہ کھینچتا ہے”
“روپیہ ہو تو سب کام ہو جاتے ہیں” ۔ وغیرہ وغیرہ

یہ سب کج فہمی یا کم عقلی ہے ۔ اگر ایسا ہوتا تو مالدار ہمیشہ مالدار اور بے مایہ ہمیشہ بے مایہ رہتا

حقیقت يہ ہے کہ طاقت روپیہ نہیں ہے بلکہ اصل طاقت انسان کے اندر ہوتی ہے

روپے سے بہترین بستر تو خریدا جا سکتا ہے مگر نیند نہیں
روپے سے کسی کی زبان تو خریدی جا سکتی ہے مگر دل نہیں
روپے سے جسم تو خریدا جا سکتا ہے مگر محبت نہیں
روپے سے ایئر کنڈیشنر تو خریدا جا سکتا ہے مگر دل کی ٹھنڈک نہیں
روپے سے مقویات تو خریدی جا سکتی ہیں مگر صحت نہیں
ساری دنیا کی دولت لگا کر بھی دل کا اطمینان نہیں خریدا جا سکتا

روپے کا ایک کارِ منصبی ایسا ہے جو انسان کو بہت کچھ دے جاتا ہے
وہ ہے خود غرضی سے باہر نکل کر روپے کا ضروتمندوں پر استعمال

اللہ ہمیں اپنی دولت کے درست استعمال کی توفیق عطا فرمائے

بُوجھیئے وہ کون ہے ؟

مندرجہ ذیل عبارت میں تھری ملین ڈالر مین [Three Million Dollar Man] کون ہے ؟ بوجھیئے تو جانیں

امریکہ اور برطانیہ میں گزارے گئے ان چند دنوں میں مجھے شدت کے ساتھ احساس ہوا کہ ہمیں اپنے مسائل خود حل کرنے ہوں گے ۔ غیرملکی امدادکسی مسئلے کا حل نہیں ۔ ہمیں صرف دہشت گردی کے خلاف نہیں بلکہ کرپشن اور بدانتظامی کے خلاف بھی متحد ہونا ہوگا ۔ لندن میں ایک انتہائی قابل اعتماد شخصیت نے مجھے بتایا کہ پچھلے دنوں ایک عرب ملک کی فضائی کمپنی نے پاکستان میں اپنی پروازوں کی تعداد میں اضافے کی کوشش کی ۔ جب کامیابی نہ ہوئی تو مذکورہ فضائی کمپنی نے ایک مقتدر شخصیت کو تین ملین ڈالر دے کر اپنا کام کروا لیا

یہ مقتدر شخصیت صرف خود کھانے کی شوقین ہے اور بدقسمتی سے ڈالر کھانے کی شوقین ہے ۔ اس شخصیت کو نجانے یہ احساس کیوں نہیں ہو پا رہا کہ زیادہ کھانے سے ناصرف بدہضمی ہوجاتی ہے ۔ بلکہ بدنامی بھی ہوتی ہے ۔ وقت آگیا ہے کہ اس قسم کی بے حس مقتدر شخصیات کو اقتدار کے ایوانوں سے اٹھا کر باہر پھینک دیا جائے کیونکہ یہ شخصیات صرف جمہوریت نہیں بلکہ پاکستان کیلئے بھی خطرہ بنتی جارہی ہیں ۔ اور کوئی جانے نہ جانے لیکن جناب نواز شریف اس ”تھری ملین ڈالر مین“ کا نام ضرور جانتے ہیں ۔ ان سے گزارش ہے کہ ”تھری ملین ڈالر مین“ کو بے نقاب کریں اور اسے بھی پرویز مشرف کے پاس لندن بھیج دیں

بشکریہ ۔ جنگ

پھر نتھی کر دیا گیا

میں راشد کامران صاحب کے بلاگ پر کسی اور کام سے گیا تھا اور وہاں اپنے آپ کو بندھا ہوا پایا
سوال ۔ 1 ۔ انٹرنیٹ پر آپ روزانہ کتنا وقت صرف کرتے ہیں؟
جواب ۔ کچھ مقرر نہیں ۔ صفر سے لے کر 8 گھنٹے تک لیکن لگاتار نہیں اور اس کا انحصار مہیاء وقت اور ضرورت پر ہے ۔ مطلب ہے کہ کوئی اور کام ہو تو پھر کمپیوٹر میرے انتظار میں چلتا رہتا ہے ۔ اسی لئے کئی حضرات کو شکائت ہے کہ میں ان کی بات کا جواب نہیں دیتا

سوال ۔2 ۔ انٹرنیٹ آپ کے رہن سہن میں کیا تبدیلی لایا ہے؟
جواب ۔ وہی چالِ بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے ۔ بقول کچھ جوانوں کے میں جدید دنیا میں نہ آ سکا ہوں نہ اسے سمجھ سکا ہوں ۔ یہ الگ بات ہے کہ جب میں نے کپيوٹر پر کام شروع کیا اور میراتھان قسم کے پروگرام ڈویلوپ کئے [1985ء تا 1988ء] اس وقت وہ لوگ بوتل میں دودھ پیتے ہوں گے یا پرائمری سکول میں پڑھتے ہوں گے ۔ جو جوان امریکہ کینڈا یا یورپ میں ہیں ان کی بات نہیں کر رہا کیونکہ وہ مجھے عرصہ سے جانتے ہیں ۔ خیال رہے کہ سب سے پہلے اسلام آباد میں انٹر نیٹ شروع ہوا تھا اور میں پہلے چند دنوں میں یہ سہولت حاصل کرنے والوں میں تھا ۔ مین ان سب سے پہلے چند پاکستانیوں میں تھا جنہوں نے کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے ذریعہ صوتی پیغام بھیجے
فائدے یہ ہوئے
میرا بڑا بیٹا زکریا اعلٰی تعلیم کیلئے ستمبر 1997ء میں امریکا چلا گیا ۔ تو ای میل کے ذریعہ جلد خیر خیریت معلوم ہو جاتے تھی ۔ لیکن تسلی نہ ہوتی تھی ۔ اسلئے ٹیلیفون کرتے تھے اور فی کال 700 سے 1050 روپے ادا کرتے تھے جس میں کبھی کبھار آٹھ نو منٹ بات ہوتی تھی عام طور پر آپریٹر کی لاپرواہی کی وجہ سے تین منٹ بات ہوتی تھی ۔ اب تو مسئلہ نہیں رہا ۔ کمپیوٹر پر ٹیلیفون سے بہتر آواز میں بات ہوتی ہے پہلے خط لکھ کر ڈاکخانے کے ذریعہ بھیجتے اور پھر ہفتوں انتظار کرتے جواب کا ۔ اب فٹا فٹ ہو جاتا ہے ۔
پہلے کتابیں ڈھونے اور صفحے اُلٹنے میں کافی وقت ضائع ہوتا تھا ۔ پھر ہاتھ سے لکھنا پڑتا تھا ۔ اب چند منٹوں میں سب کچھ ہو جاتا ہے ۔ چنانچہ عِلم حاصل کرنا آسان ہو گیا ہے ۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ کچھ بلاگر اور قاری مجھ سے پریشان رہتے ہیں

سوال ۔ 3 ۔ کیا انٹرنیٹ نے آپ کی سوشل یا فیملی لائف کو متاثر کیا ہے اور کس طرح؟
جواب ۔ میری سماجی زندگی پر کوئی اثر نہیں پڑا ۔ سماجی سرگرمیاں جاری ہیں البتہ چند سالوں سے باہر کا ماحول بدلنے کی وجہ سے کم ہو گئی ہوئی ہیں ۔ میں بم دھماکوں کی نہیں قوم کے افراد کے رویے کی بات کر رہا ہوں جو میرے جیسے انسان کو پسند نہیں کرتے
گھر میں صرف اتنا فرق پڑا ہے کہ میری بیگم مجھے اور عزیز و اقارب کو کہتی رہتی ہیں ” ہر وقت کمپیوٹر پر بیٹھے رہتے ہیں “۔ میں کہتا ہوں ” مجھ سے قسم کرا لو جو میں کبھی کمپیوٹر پر بیٹھا ہوں ”

سوال ۔ 4 ۔ اس علت سے جان چھڑانے کی کبھی کوشش کی اور کیسے؟
جواب ۔ میں نے اپنی زندگی میں صرف ایک علت پالی تھی ” چائے ” اور اُس سے میں نے اُس وقت پیچھا چھُڑا لیا جب میں گیارہویں جماعت میں پڑھتا تھا

سوال ۔ 5 ۔ کیا انٹرنیٹ آپ کی آؤٹ ڈور کھیلوں میں رکاوٹ بن چکا ہے؟
جواب ۔ کھیلیں تو میری انٹر نیٹ پاکستان میں آنے سے بہت پہلے بند ہو گئی تھیں کیونکہ کھیلنے کی بجائے کھلانے کے دن شروع ہو گئے تھے

پاکستان امریکی گیم پلان کے شکنجے میں

ڈاکٹر شیریں مزاری کا یہ مضمون اُن گھمبیر حقائق سے پردہ اُٹھاتا ہے جو عوام کے عِلم میں نہیں ہیں اور جن سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے حکام کس قدر قوم دُشمن واقع ہوئے ہیں

پاکستان کے اندر اور اردگرد جس تواتر کے ساتھ واقعات رونما ہو رہے ہیں وہ ایک انتہائی خطرناک صورت حال کی نشاندہی کرتے ہیں جب تک ہم اس وسیع تر منظر کو دیکھیں گے نہیں ۔ ہم اس کا شکار ہوسکتے ہیں اور امریکہ جیسے ہمارے بدخواہ ایٹمی صلاحیت رکھنے والے اس ملک کیخلاف اپنا ایجنڈا پورا کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں ۔ اس امریکی ایجنڈے کی جڑیں مشرف کی جانب سے امریکہ کی دہشتگردی کیخلاف جنگ کو انتہائی جلد بازی میں گلے لگانے سے جا ملتی ہیں

اُس وقت جس بات کا ادراک نہیں کیاگیا وہ یہ تھی کہ نائن الیون کے نتیجے میں امریکہ نفسیاتی ٹراما میں جاچکا تھا جس نے عالم اسلام کے بارے میں امریکہ کے پہلے سے شُبہات پر مبنی امریکی نقطہ نظر کو مزید تقویت دی تھی۔ بلاشبہ بعض نرم خُو مسلم رہنمائوں کو قدرے پس و پیش کے بعد اتحادی بننا پڑا لیکن قوم پرست مسلم رہنماؤں اور ملکوں کے ساتھ تعلقات کو امریکیوں نے کبھی اطمینان بخش محسوس نہیں کیا۔ اگر یہ قومیں فوجی اور اقتصادی طور پر زیادہ مضبوط نہیں تو امریکہ نے ان کے ساتھ تعلقات میں کہیں زیادہ بے اطمینانی محسوس کی

اس حوالے سے مہاتیر کا ملائیشیا انقلابی ایران اور ایٹمی پاکستان یقینی طور پر کسی ایک یا دوسری طرح امریکی راستے میں رکاوٹ بنے
رہے ہیں لہٰذا جب نائن الیون کا واقعہ ہوا تو اگرچہ اس واقعہ میں سعودی شہری ملوث تھے لیکن پاکستان کو مرکزی طور پر نشانہ بنایا گیا اور امریکہ نے دیکھا کہ پاکستان کو توڑنے اور بالآخر اس کے ایٹمی اثاثوں پر تنقید کرنے کا سنہری موقع ہے ۔ مشرف نے ابتداء میں ہی جس طرح بڑھ چڑھ کر امریکہ کے سامنے سرتسلیم خم کیا وہ خود بُش انتظامیہ کیلئے حیران کن بات تھی تاہم انہیں اس بات کا بخوبی احساس تھا کہ حربی سطح پر مطالبات ماننے کے حوالے سے مشرف کی بعض حدود ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ فوج عموماً پاکستان کیلئے امریکی ایجنڈے کے راستے میں رکاوٹ بنتی رہی ہے لہٰذا پاک فوج اور اسکے انٹیلی جنس ادارے مسلسل تنقید کا نشانہ بنتے رہے ہیں خصوصاً ایک بار تو سی آئی اے دو سال قبل آئی ایس آئی سے اس بات پر الجھ پڑی کہ فاٹا میں کس کو نشانہ بنایا جائے

آخر پاکستان کیلئے بدشگونی پر مبنی امریکی ایجنڈا ہے کیا؟ امریکی فوج کے جریدے میں ’’بلڈ بارڈوز‘‘ کے عنوان سے چند سال قبل ایک مضمون شائع ہوا تھا جس میں اس کا وسیع خاکہ پیش کیاگیا تھا اس میں شامل اہم عناصر کی اب اس طرح نشاندہی کی جاسکتی ہے

1۔ پاکستان اور اسکے ریاستی اداروں کی امریکی خواہشات کے مطابق تشکیل نو کی جائے
2 ۔ ایٹمی اثاثوں پر کنٹرول حاصل کیاجائے تا وقتیکہ یہ یقینی طور پر باہرنہ لے جائے جا سکیں
3 ۔ پاکستان کو خطے میں بھارتی بالادستی تسلیم کرنے اور چین کے ساتھ سٹرٹیجک پارٹنر شپ ختم کرنے پر مجبور کیا جائے

اس ایجنڈے پر عملدرآمد کی حکمت عملی کیا ہے؟
یہ کہ پاکستان میں اسقدر تشدد اور افراتفری پھیلائی جائے کہ پاکستان میں آنے اور اس کے ایٹمی اثاثوں پر کنٹرول کا جواز پیدا ہوسکے ۔ ملک کیلئے ایک نئے ٹیسٹ ماڈل کی تشکیل کی جائے جس میں اسے بھارتی بالادستی کے تحت لانا بھی شامل ہے ۔ اس امریکی ایجنڈے پر کس طرح عملدرآمد کیا جائے گا ۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے جنگ کا مرکز افغانستان سے پاکستان منتقل کیاجائے گا ۔ یہ مختلف دلچسپ حربوں کے ذریعے بالآخر مکمل کرلیا گیا ہے ۔ اس کا آغاز تورا بورا پربمباری کے دوران القاعدہ اور طالبان کو بچ نکلنے کا راستہ دے کر کیا گیا اس کے بعد پاکستان کو داخلی طور پر غیر مستحکم کرنے کیلئے ڈرون حملے شروع کئے گئے ۔ ان حملوں کے باعث فاٹا کی انتہائی محب وطن آبادی بتدریج سٹیٹ کیخلاف ہوتی گئی خصوصی طور پر ایسا اس وقت ہوا جب امریکہ نے دباؤ ڈال کر فوج کو اس علاقے میں جانے پر مجبور کیا ۔ اس کے ساتھ ہی بھارت کو افغانستان میں آزادانہ سرگرمیوں کی اجازت دی گئی ۔ اس طرح افغانستان سے دہشت گردوں کیلئے بلوچستان فاٹا اور صوبہ سرحد میں سرمائے اور ہتھیاروں کی آمد شروع ہوگئی

مزید برآں اپنے پُرتشدد ایجنڈے کی تکمیل کیلئے ایک نئی تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے نام سے وجود میں آئی جسے واضح طور پر سرحد پار سے بڑی تعداد میں ہتھیار فراہم کئے گئے اوران میں سے بعض امریکی ساختہ تھے ۔ اس دوران امریکہ پاکستان میں اپنی خفیہ موجودگی میں بتدریج اضافہ کرتارہا جس کا آغاز اس نے تربیلامیں نام نہاد ٹرینرز اور پرائیویٹ امریکی سکیورٹی ایجنسیوں سے کیا جو عراق جیسے علاقوں میں امریکی حکومت کیلئے کرائے کے فوجیوں کی حیثیت سے کام کرتے رہے ہیں

بلوچستان میں بھی امریکی موجودگی میں اضافہ دیکھا گیا ہے خصوصاً جبکہ امریکہ اس صوبے کے ذریعے ایران کیخلاف اپنے خفیہ آپریشنز پر عملدرآمد کرنا چاہتا ہے جبکہ مشرف نے بڑی فیاضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اڈے امریکہ کے حوالے کردیئے تھے ۔ ان میں بغداد میں ایئربیس بھی شامل ہے جو خاران سے 78 کلو میٹر کے علاقے میں ہے اسے شَمسی نہیں شِمسی ایئربیس کہا جاتا ہے اور بدوالبندین کے قریب ایرانی سرحد پر واقع ہے جہاں سے ڈرون پروازیں کر رہے ہیں یہ واحد ہوائی اڈہ ہے جو سول ایوی ایشن کے زیرکنٹرول فہرست میں شامل نہیں ہے ۔ اس کے ساتھ امریکہ سفارتی اور سیاسی سطح پر ” ڈو مور” کی گردان جاری رکھے ہوئے ہے اور فوج کی ساکھ کو انتہا پسندی اور دہشت گردی کیخلاف لڑنے کے اسکے عزم کے حوالے سے نقصان پہنچا رہا ہے۔ آئی ایس آئی کو خصوصی طور پر نشانہ بنانے کیلئے چنا گیا ہے جبکہ امریکی میڈیا کے ذریعے ایٹمی اثاثوں کو وقتاً فوقتاً نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ افغانستان میں امریکہ کو جس قدر ہزیمت اٹھانی پڑ رہی ہے کہ کسی قدر وہ اپنی ناکامیوں کو پاکستان کے سر تھونپنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ لوگ یہ سوچنے لگیں کہ یہ وجہ تھی جس نے امریکہ کو یہ جنگ پاکستان منتقل کرنے پر مجبور کردیا ہے

مشرف امریکہ اتحاد جاری رہتا لیکن انصاف اور آزادی کیلئے پاکستانی عوام کی خواہش نے مشرف کی جانب سے عدلیہ کا ہاتھ مروڑنے پر جوڈیشل تحریک کو متحرک کیا لیکن قوم ایک بار پھر کسی تبدیلی سے محروم رہی کیونکہ امریکہ نے بڑی ہوشیاری کے ساتھ این آر او کے ذریعے اپنا ایک نیا پارٹنر تلاش کرلیا ۔ زرداری کی صورت میں انہیں ایک زیادہ تعاون کرنے والا رہنما مل گیا جس کے پاس جمہوری سند بھی ہے ۔ اگر مشرف نے امریکہ کو کھُلی رسائی دینے کا آغاز کیا تھا تو دوسری طرف زرداری حکومت تمام حدود کو پار کر گئی ہے

اب امریکی حکمت عملی پر عملدرآمد کا دوسرا مرحلہ شروع ہو چکا ہے جو یہ ہے کہ انتہائی تربیت یافتہ اور جدید ہتھیاروں سے مسلح تحریک طالبان پاکستان اور دیگر گروپوں کے ذریعے پاکستانی شہروں میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں اضافہ کرکے پاکستان کو اندر سے غیر مستحکم کیا جائے جبکہ کیری لوگر بل میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے ۔ اس کے ساتھ فوج کو پہلے سوات اوراب جنوبی وزیرستان میں آپریشنوں میں الجھا دیا گیا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو ہمسایہ ملکوں سے الگ تھلک کرنا بھی ضروری ہے ۔ اس مقصد کیلئے پاکستانی بلوچوں سے ملحقہ ایرانی صوبے تفتان میں ایرانی سکیورٹی فورسز پر بڑے پیمانے پر دہشت گردانہ حملے کرائے گئے تاکہ ایران پاکستان تعلقات تباہ کئے جائیں ۔ چین کے بعد ایران پاکستان کا واحد ہمسایہ دوست ہے

پاکستان میں امریکہ کی پوشیدہ موجودگی اب ایک جال کی شکل اختیار کر گئی ہے جو جنوب میں سندھ اور بلوچستان اور جنوب مغرب میں پنجاب سے اسلام آباد اور پشاور تک پھیلا ہوا ہے ۔ اب امریکہ کے خفیہ مسلح لوگ امریکی میرینز کے ساتھ مل کر پاکستانیوں اور ان کے ایٹمی اثاثوں کو گھیرے میں لے رہے ہیں۔ کیری لوگر ایکٹ اس بات کو محض رسمی طور پر تسلیم کرنا ہے جو عملی طور پر پہلے ہی وقوع پذیر ہو چکی ہے یعنی امریکی حُکم کے سامنے سر تسلیم خم کرکے اب امریکی ایجنڈے کے آخری مرحلے پر عملدرآمد ہونا ہے لیکن یہ بہت مشکل ہوگا ۔ اس مرحلے میں کوئٹہ جنوبی پنجاب اور مریدکے کو ہدف بنانے کی دھمکیوں سے ملک کو خانہ جنگی جیسی صورتحال میں دھکیلنا ہے

پہلے فوج پر سوات میں آپریشن کیلئے دبائو ڈالا گیا اور اب فوج جنوبی وزیرستان میں آپریشن کر رہی ہے جبکہ نئے اقدام کیلئے فوج نے جنوبی پنجاب کی جانب پہلے ہی پیشقدمی شروع کردی ہے ۔ مقصود فوج کو پھیلا کر اور سول، ملٹری اختلافات پیدا کرکے ملک کومکمل طور پر غیر مستحکم کرنا ہے ۔ جب ملک میں مکمل افراتفری پھیل جائے گی تو امریکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر دبائو ڈالے گا کہ اسے پاکستان کے ایٹمی اثاثے کنٹرول میں لینے کی اجازت دی جائے جسے شائستہ زبان میں ” بین الاقوامی کنٹرول‘‘ میں دینا کہا جاتا ہے لیکن اب بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں اقتدارکی راہداریوں میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جنہوں نے روشنی کو دیکھنا شروع کردیا ہے جبکہ اس مہلک امریکی ایجنڈے کیخلاف پاکستانی عوام بھی بیدار ہوگئے ہیں جب تک ہم امریکہ کی اس پوری گیم پلان کو نہیں دیکھیں گے اور تمام نقطوں کونہیں ملائیں گے ہمارے اس تباہ کن منصوبے کا شکار بننے کا سلسلہ جاری رہے گا

ڈاکٹر شیریں مزاری جو سابق سربراہ ۔ انسٹیٹیوٹ کا ڈیفَینس اینڈ سٹریٹیجِک پلاننگ ۔ قائد اعظم يونیورسٹی ہیں اپنے مضمون کی ماہر ترین پاکستانی سمجھی جاتی ہیں ۔ ان کا یہ مضمون جمعہ 23 اکتوبر 2009ء کو نوائے وقت میں شائع ہوا