Monthly Archives: September 2009

افزائش کا اصول

جب تک گھوڑے کو پابندیوں کا عادی نہ بنایا جائے وہ ناکارہ ہوتا ہے
گیس یا بھاپ اس وقت تک انجن چلانے کے قابل نہیں ہوتی جب تک اسے دبایا نہ جائے
پانی سے بجلی پیدا نہیں کی جاسکتی جب تک اسے سرنگوں میں سے گذرنے پر مجبور نہ کیا جائے
زندگی اسی وقت سُدھر سکتی ہے جب اسے پابند ۔ مرکوز اور اچھے نظام کے تابع کیا جائے

تربیت

خاور صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں تعلیم و تربیت کی بات کرتے ہوئے لکھا کہ تعلیم کے فروخت مراکز تو کھُل چُکے ہیں اور والدین اپنی اولاد کیلئے تعلیم خرید رہے ہیں مگر تربیت کہاں سے آئے کہ تربیت کے فروخت مراکز ابھی نہیں کھُلے ۔ اس پر مجھے یاد آیا وہ وقت جسے عصرِ حاضر کے جدید تعلیم یافتہ لوگ شاید دورِ جاہلیت کہتے ہوں کہ روشن خیالی نام کی صفت اُس زمانے میں ایجاد نہ ہوئی تھی

ہر سکول و کالج میں خواہ وہ راولپنڈی میں تھا یا لاہور میں ۔ ملتان میں تھا یا اٹک میں روزانہ سکول یا کالج کی پڑھائی کا وقت شروع ہونے سے ایک گھنٹہ پہلے میدان میں جسمانی تربیت [P.T=Physical training] ہوتی تھی ۔ جس طالب علم کی جسمانی تربیت کی حاضریاں 70 فیصد سے کم ہو ں وہ سالانہ امتحان نہیں دے سکتا تھا ۔ اگر وہ روزانہ کی جسمانی تربیت سے بچنا چاہتا تو صرف ایک طریقہ تھا کہ روزانہ عصر کے بعد ایک گھنٹہ کیلئے ہاکی یا فٹ بال کھیلے اور اپنا نام متعلقہ ٹیم میں درج کرائے

ہر سکول یا کالج میں ہفتہ میں ایک بار اخلاقی تربیت کا سبق بھی ہوا کرتا تھا ۔ اس کے علاوہ بھی گاہے بگاہے اساتذہ موقع پا کر اخلاقی تربیت کا اہتمام کرتے رہتے تھے

پھر ایک دور آيا [عوامی دور] جس میں سب کچھ عوامی قرار دیا گیا مگر ہوتا وہ شاہی گیا ۔ تمام سکول و کالج قومیا لئے گئے اور وہاں پر اپنے من پسند لوگ تعینات کئے گئے ۔ مالدار لوگوں کے بچوں کی درسگاہیں الگ اور عام لوگوں کے بچوں کی الگ ہونا شروع ہوئیں ۔ پيسے والوں کے بچوں نے کلرکوں کچھ دے دلا کر اپنی حاضریاں لگوانی شروع کر دیں ۔ جسمانی تربیت صرف غریبوں کے بچوں کا مقدر بن کے رہ گئی ۔ ايک طرف بڑے لوگوں کے بچوں کیلئے انگریزی ناموں والے سکول کھلنے لگے جن میں میدان تھا ہی نہیں کہ جسمانی تربیت ہوتی ۔ کچھ میرے جیسے لوگوں نے شور مچایا تو جسمانی تربیت کو نصاب سے ہی باہر کر دیا گیا

اخلاقی تربیت ایسے غیرمحسوس طریقہ سے غائب کی گئی کہ کسی کو پتہ ہی نہ چلا

کیا مذاق صرف مسلمانوں کا اُڑانا جائز ہے ؟

نبیل نقوی صاحب لکھتے ہیں

یہ بات کافی اطمینان کا باعث ہے کہ پاکستان میں مسلمان ایمان کی روشنی سے سرشار ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ جذبہ ایمانی اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ مذہبی جوش و جذبے کا تحت دوسروں کو جلا کر راکھ کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کچھ مذہبی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ الطاف حسین کی اس بارے میں محض تردید کافی نہیں ہو گی بلکہ انہیں اپنے ایمان کی باقاعدہ تجدید کرنی پڑے گی۔ ان حضرت مولانا نے ایمان کی تجدید کا پروسیجر نہیں بتایا کہ آخر ایمان کی تجدید کیسے کی جاتی ہے۔ شاید ان ملاؤں کو نذرانے سمیت حلوے کی دیگ پکوا کر بھیجنی پڑتی ہوگی

ایسی دیوانگی کو ایمان کی روشنی لکھنا تمام مسلمانوں کا ہی نہیں دین اسلام کا بھی مذاق اُرانے کے مترادف ہے لیکن اس پر کوئی اعتراض نہیں کرتا ۔ اگر مرتد المعروف مرزائیوں یا اسرائیل یا امریکہ کے خلاف کچھ لکھا جائے تو طوفان برپا ہو جاتا ہے ۔ کیا مسلمانی کا يہی شیوہ ہے ؟

تجدیدِ دین کا معروف طریقہ جو بہت سادہ ہے کُتب میں موجود ہے ۔ ہر وقت دوسروں پر طنز کرنا بالخصوص جب وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہوں کیا مسلمان ہونے کی نشانی ہے ؟

قباحتیں

کچھ ایسی قباحتیں ہیں جو شاید غیرمحسوس طور پر ہماری خصلت بنتی جا رہی ہیں ۔ اچھی بات ہے کہ کم از کم رمضان مبارک میں مسجدوں میں رونق زیادہ ہوتی ہے لیکن جتنا نظم و ضبط ہمارے دین کا خاصہ ہے اتنا ہی کم ہم لوگ اس کی طرف توجہ دیتے ہیں

کسی دعوت پر جانا ہو تو ہم سج دھج کر اچھے سے اچھے کپڑے پہن کر جاتے ہیں ۔ کائنات کے مالک کے حضور پیش ہونے کیلئے کچھ حضرات نے ایسے کپڑے پہن رکھے ہوتے ہیں جو پہن کر وہ شاید کسی اور جگہ جانا پسند نہ کریں ۔ پھر آجکل کے فیشن کے مطابق تصویر والی بنیان جسے آجکل شرٹ کہا جاتا ہے پہن کر آ جاتے ہیں جسے پہننا ہی غلط ہے کُجا کہ مسجد میں پہن کر جائیں

کچھ حضرات کو پچھلی صفوں میں بیٹھنے کا شوق ہے جس کے باعث بعد میں آنے والوں کو دقت ہوتی ہے ۔ جماعت کھڑے ہونے پر ان حضرات کو اگلی صفیں پُر کرنے پر مجبور کرنا پڑتا ہے

کچھ مساجد ایسی ہیں جہاں لاؤڈسپیکر پر اذان سے قبل کچھ پڑھا جاتا ہے ۔ بالخصوص رمضان میں مغرب کی اذان سے قبل اگر کچھ پڑھا جائے اور کوئی اذان سمجھ کر روزہ کھول لے تو اس روزہ ٹوٹنے کا گناہ کس کے سر ہو گا ؟

رکوع یا سجدہ میں جاتے ہوئے کوہنیاں پھیلانا نامعلوم کونسی کتاب میں لکھا ہے مگر جب کسی کے پیٹ یا چھاتی یا منہ پر کُہنی لگتی ہے تو اس فعل کو کیا کہا جائے گا ؟

گوشہ مار بندوق

گوشہ مار گن [Corner Shoot Gun] کے نام سے اسرائیل نے ایک ایسا جُگاڑ بنایا تھا جس میں ایک پستول نصب تھا ۔ یہ ایک ایسا ہتھیار ہے جس سے عمارت کے کونے کی اوٹ میں کھڑے ہو کر 90 درجے پر عمارت کے ساتھ ساتھ آنے والا جو عام حالت میں نظر نہیں آتا کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے ۔ جب اسرائیل نے اس ہتھیار کا اعلان کرتے ہو ئے کہا کہ اسرائیل واحد ملک ہے جس کے پاس ایسا ہتھیار ہے تو پاکستان آرڈننس فیکٹریز میں میری سابقہ فیکٹری جسے ویپنز فیکٹری کا نام اللہ کریم نے مجھ سے دلوایا تھا اور جس کی نشو و نما میں میری 13 سال کی دن رات کی محنت شامل ہے کے جوان انجنیئروں نے پیچھے رہنا گوارا نہ کیا اور صرف 6 ماہ کی محنت سے ایسی گوشہ مار گن بنائی جس میں پستول کی بجائے گن کو شامل کیا گیا ہے ۔ چنانچہ یہ پاکستانی گوشہ مار گن اسرائيل کی تیار کردہ گوشہ مار گن سے بدرجہا بہتر ہے ۔ دیکھئے اس گن کی وڈیو


مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ وہ فیکٹری جو پچھلی تقریباً دو دہائیوں سے خوابیدہ نظر آ رہی تھی اس نے اپنی ریت بحال کر لی ۔ وسط 1976ء میں میرے ملک سے باہر ایڈوائزر مقرر ہو جانے کے بعد ویپنز فیکٹری نے پہلے جرمن ایم پی 5 سب مشین گن اور پھر چائینیز ہیوی مشین گن 12.7 ایم ایم ڈویلوپ کی مؤخرالذکر اَینٹی ایئرکرفٹ رول میں بھی استعمال ہو سکتی ہے ۔ یہ دونوں پروجیکٹ 1976ء کے بعد 1984ء تک مکمل ہو چکے تھے

پاکستان آرڈننس فيکٹریز میں یکم مئی 1963ء کو ملازم ہونے پر مجھے سمال آرمز گروپ [Small Arms Group] میں بطور اسسٹنٹ ورکس منیجر تعینات کیا گیا اور میں جرمن رائفل جی ۔ 3 [Gewer G-3] کی منصوبہ بندی [planning] میں شریک ہو گیا ۔ ساتھ ساتھ مجھے بیرل ۔ بٹ ۔ فورآرم اور اسمبلی [Barrel, Butt, Fore-arm and Assembly] کی ڈویلوپمنٹ پيداوار اور شاپ [development, production and workshops] قائم [establish] کرنے کا کام دے دیا گیا ۔ جب وسط 1966ء میں جی ۔ 3 کی ڈویلوپمنٹ مکمل ہو کر ماس پروڈکشن [mass production] شروع ہو گئی تو جرمن مشین گن المعروف ایم جی 42 کا پروجیکٹ میرے ذمہ کر دیا گیا یعنی منصوبہ بندی ۔ ڈویلوپمنٹ اور پروڈکشن ۔ اس کی بیرل کے سوراخ کو اندر سے ہارڈ کروم پلیٹنگ [hard chrome plating] کی جاتی تھی جس سے اس کی کارآمد عمر 15000 راؤنڈ تک پہنچ جاتی تھی مگر یہ عمل خاصہ مہنگا تھا اور اس میں بنی بنائی بیرلز [Barrels] کا 15 سے 30 فیصد تک ضائع ہونے کا احتمال ہوتا تھا مگر مجبوری تھی کیونکہ بغیر کروم پلیٹنگ کے کارآمد عمر صرف 6000 راؤنڈ تھی ۔ جرمنی میں جو فرم پلیٹنگ کرتی تھی وہ ٹیکنالوجی بیچنے کیلئے تیار نہ تھی جو کسی صورت ہمارے وارے میں نہ تھا ۔ ہارڈ کروم پلیٹنگ سے جان چھڑانے کیلئے جرمن فرم جس سے ہم نے مشین گن 42 کا لائسنس لیا تھا وہ تین چار سال سے بیرل پر مختلف تجربات کر رہے تھے مگر کامیابی نہ ہو سکی تھی ۔ اللہ کی کرم فرمائی اور نصرت سے میں نے 1968ء میں پاکستان میں 2 ماہ کی محنت کے بعد بیرل کے سوراخ کا نیا ڈیزائن بنایا جسے پولی گون پروفائل بور [Polygon Profile Bore] کا نام دیا جس کے نتیجہ میں بیرل کی کارآمد عمر ہارڈ کروم پلیٹنگ کے بغير 18000 راؤنڈ ہو گئی ۔ ہم نے پولی گون بور والی کچھ بیرلز جرمن فرم کو بھیجیں ۔ جب انہوں نے اس کی ٹیسٹنگ کی تو ان کے ادارے کے سربراہ واہ چھاؤنی پہنچ گئے ۔ پاکستان آرڈننس فیکٹریز کے چیئرمین اُنہیں ساتھ لے کر ہماری فیکٹری میں پہنچے ۔ میں اس وقت ورکشاپ میں کام دیکھ رہا تھا ۔ وہ وہیں آ گئے اور جرمن سربراہ کے سامنے مجھے کہنے لگے “یہ آپ کو جرمنی لیجانے کیلئے آئے ہیں ۔ میں نے ان سے کہا ہے کہ آپ کے پاس تو مسٹر بھوپال جیسے کئی لوگ ہیں ۔ ہمارے پاس صرف ایک مسٹر اجمل بھوپال ہے اور آپ اُسے بھی چھیننا چاہتے ہیں ۔ آپ کا کیا خیال ہے ؟” میں نے ایکدم جواب دیا “آپ نے درست کہا ہے ان سے ۔ میں اپنا وطن چھوڑ کر نہیں جاؤں گا”۔ مجھے اس کام کا صلہ اپنے اطمینان کی صورت میں ملا ۔ نہ میں نے کوئی انعام لیا نہ کوئی سند ۔ البتہ میرا نام بابائے ویپنز رکھ دیا گیا

بچے

یونہی ماضی پر نظر ڈالتے ہوئے کچھ بچوں کی باتوں نے ذہن میں آ کر مسکرانے پر مجبور کر دیا ۔ سوچا شاید قارئین بھی محظوظ ہوں

ایک خاتون نے اپنے بھائی سے کہا “دیکھو کوئی ایسی بات نہ کہنا کہ میرا دل بیٹھ جائے “۔ پاس تین چارسالہ بچہ بیٹھا تھا بولا “ماموں ۔ نہ ۔ امی کا دل سویا ہے اُٹھ کے بیٹھ جائے گا”

ایک خاتون سے اس کا ایک بیٹا کچھ مانگ رہا تھا اُس نہ کہا “تنگ نہ کرو”۔ چھوٹا بیٹا جو 3 سال کا تھا بولا “امی کو تنگ نہیں کرو ۔ کھُلا کرو ۔ کھُلا کرو”

ایک خاتون کا بھائی کئی سال بعد اسکے گھر آیا ۔ وہ باورچی خانہ سے آ کر بھائی کے ساتھ گپ لگانے لگ گئی ۔ کچھ دیر بعد باورچی خانہ سے پٹاخ پٹاخ کی آوازیں آنے لگیں ۔ وہ باورچی خانہ میں گئی تو اس کا ساڑھے تین سالہ بیٹا بڑی چھُری پکڑے چوکی پر مار رہا تھا ۔ اس نے اسے کہا “آؤ ماموں کو سلام کرو”۔ مگر بچہ باز نہ آیا ۔ اس نے بچے سے چھُری لینے کی کوشش میں کہا “یہ مجھے دو ۔ کس کو ذبح کرنا ہے”۔ بچہ بلا توقف بولا “ماموں کو”

میرا بڑا بیٹا زکریا ابھی تين سال سے چھوٹا تھا تو میں نے اُسے ایک لیگو سیٹ [Lego] لا کر دیا ۔ وہ اسے لے کر ڈرائنگ روم میں چلا گیا ۔ کوئی پندرہ منٹ بعد ڈرائنگ روم سے پٹاخ پٹاخ کی آوازوں کے ساتھ زکریا کی آواز آئی “گندھا بچہ ۔ میں نہیں کھيلتا”۔ میں ڈرائنگ روم میں پہنچا تو دیکھا کہ زکریا بہت غُصے میں ہے اور لیگو اِدھر اُدھر پھينک رہا ہے ۔ میرے پوچھنے پر کہنے لگا “میں بناتا ہوں ۔ یہ گندھا ٹوٹ جاتا ہے”۔ میں نے کہا “اچھا میرے سامنے بناؤ” ۔ وہ کیا کرتا تھا کہ ايک گوٹ نيچے رکھتا اس پر کراس دوسری پھر کراس تیسری ۔ اونچا مینار بنانے کیلئے اس طرح لگاتا جاتا ۔ جب وہ اونچا ہوتا تو اور گوٹ لگاتے ہوئے ٹوٹ جاتا ۔ میں نے طریقہ سمجھایا کہ نيچے زیادہ گوٹیں لگائے پھر کم کرتا جائے ۔ اس طرح جب مینار بن کر کھڑا رہا تو زکریا خوش ہو گیا

میرے بہنوئی ہمیں ملنے واہ آئے ۔ میں گھر پر نہ تھا تو انہوں نے سوچا کہ میری بڑی بہن کو مل لیتے ہیں ۔ وہ زکریا کو جو اس وقت تقریباً تین سال کا تھا ساتھ لے گئے ۔ گھر قریب ہی تھا اسلئے پيدل ہی گئے ۔ زکریا سارا راستہ خاموش رہا ۔ واپس آتے ہوئے میرے بہنوئی نے زکریا سے کہا “آپ باتیں نہیں کرتے ۔ کیا بات ہے ؟” تھوڑی دیر بعد زکریا نے اُوپر کی طرف اشارہ کر کے کہا “وہ دیکھیں”۔ انہوں نے اُوپر دیکھا تو بجلی کی تاروں کے سوا کچھ نطر نہ آیا تو انہوں نے کہا “زکریا ۔ اُوپر کیا ہے ؟” زکریا بولا “تار پر مچھر بیٹھا ہے”

اُن دنوں ہم لبیا کے شہر طرابلس میں تھے ۔ میرا چھوٹا بیٹا تقریباً 3 سال کا تھا ۔ کہنے لگا “مجھے چاکلیٹ لینا ہے”۔ میں نے کہا “مجھے نہیں معلوم چکلیٹ کہا ملتی ہے”۔ کہنے لگا “فلاں سٹور میں”۔ میں نے کہا “مجھے معلوم نہیں یہ سٹور کہاں ہے”۔ جا کر پنسل اور کاغذ لے آیا اور ایک خانہ بنا کر کہنے لگا “یہ ہمارا گھر ہے نا”۔ پھر لکیریں لگاتا گیا اور بولتا گیا “یہاں سے باہر نکلیں پھر بائیں مُڑیں پھر داہنے مُڑیں پھر بڑی سڑک پار کریں پھر تھوڑا سا داہنی طرف جائیں ۔ یہ سٹور ہے ۔ اس کے اندر چلے جائیں پھر اِدھر جائیں پھر اُدھر تو یہاں پر چکلیٹ ہوتی ہے ۔ جا کر لے آئیں”۔ بیٹے نے میرے لئے کوئی گنجائش نہ چھوڑی تھی ۔ میں گیا تو چاکلیٹ عین اُسی جگہ تھی

میں 1964ء میں لاہور آیا تھا تو ایک دوست سے ملنے اسکے گھر گیا ۔ وہ کہنے لگا “کہیں باہر چلتے ہیں ۔ میری بہن آئی ہوئی ہے ۔ اس کے دو طوفان میل بچے ہیں وہ ہمیں سکھ سے نہیں بيٹھنے دیں گے” ۔ میں نے کہیں جانے سے انکار کر دیا اور اسے اپنے بھانجوں سے ملوانے کا کہا ۔ چند منٹ بعد وہ یہ کہہ کر باہر نکل گیا “میں ابھی آتا ہوں ۔ وہ ابھی کمرے میں ہیں تھوڑی دیر میں آ کر تمہاری طبیعت صاف کر دیں گے”۔ میں صحن میں چارپائی پر بیٹھ گیا ۔ تھوڑی دیر بعد کمرے کا دروازہ کھُلا اور ایک چار پانچ سالہ بچے نے جھانکا ۔ اس کے بعد ایک تین چار سالہ بچے نے جھانکا ۔ یہ عمل چند بار دہرایا گیا تو میں نےمسکرا کر بچے کو ہاتھ کے اشارے سے بُلایا ۔ وہ آیا نہیں مگر واپس جانے کی بجائے دروازے میں کھڑا رہا ۔ پھر دوسرا بھی آ کر کھڑا ہو گیا ۔ پھر وہ ايک دوسرے سے دھکم پیل کرنے لگے ۔ اتنے میں میرا دوست واپس آ گیا ۔ میں نے اسے کہا “مجھے دو چار کاغذ دے دو” ۔ وہ مجھے ایک کاپی دے گیا ۔ میں نے اس میں سے ایک ورق نکال کر اس کی چڑیا بنائی اور ان بچوں کو دکھا کر کہا “میرے پاس آؤ ۔ میں یہ چڑیا آپ کو دوں گا”۔ مگر کوئی نہ آیا ۔ میں نے چڑیا چارپائی پر رکھ کر ایک اور چڑيا بنانا شروع کر دی ۔ ایک بچہ بھاگ کر آیا اور چارپائی پر پڑی چڑیا لے گیا ۔ دوسرے نے اس سے چھين کر مچوڑ دی ۔ وہ لڑنے لگے تو میں نے ہاتھ کے اشارے سے منع کیا اور کہا “میں اور چڑیا بنا دیتا ہوں ۔ آپ دونوں کو بنا کر دوں گا”۔ جب میں نے دو چڑیاں بنا کر انہیں دکھائیں تو دونوں میرے پاس آ کر لے گئے اور کمرے میں چلے گئے ۔ تھوڑی دیر بعد میرے پاس آئے تو ایک تھوڑی مُچڑی ہوئی چڑیا مجھے دی ۔ میں نے اسے ٹھیک کر دیا ۔ اس کے بعد ان سے باتیں شروع کیں ۔ بعد میں اپنی کتابیں لانے کو کہا ۔ وہ دونوں قاعدے لے کر آ گئے ۔ مجھے اپنا سبق سنایا ۔ پھر میں آگے پڑھا رہا تھا کہ میرا دوست کھانے پینے کا سامان لئے نمودار ہوا ۔ دیکھتے ہی کہنے لگا “واہ شنا اجمل ۔ تم نے تو شیطانوں انسان بنا دیا”

اللہ کرے ہماری قوم میں صبر کا مادہ پیدا ہو جائے تو سارے شیطان انسان بن جائیں

انکشافات

پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل ریٹائرڈ مرزا اسلم بیگ نے کہا ہے کہ

* بریگیڈیئر امتیاز کے انکشافات کا مقصد مشرف کے ٹرائل کو روکنا ہے
* آئی جے آئی غلام اسحق خان اور اس وقت کی نگراں حکومت نے بنائی تھی
* ضیاء الحق نے سندھی نیشنل ازم کو کاؤنٹر کرنے کیلئے ایم کیو ایم بنائی تھی
* این آر او کا فائدہ زرداری، ایم کیو ایم اور بریگیڈیئر امتیاز کو ہوا
* نوازشریف کا لانگ مارچ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ بڑا ہنگامہ جو ہونے والا تھا وہ رُک گیا ۔ اس کے نتیجے میں نواز شریف کا قد اُونچا ہوگیا جو کہ حکومت کو پسند نہیں آیا ۔ جو سلسلہ ابھی شروع ہوا ہے یہ اس کا ردِ عمل ہے ۔ حکومت حزب اختلاف کو اپنی جگہ پر رکھنا چاہتی ہے
* حکومت نے کوئی فیصلہ کرلیا ہے کہ مشرف کا ٹرائل نہیں ہوگا اور آپ نے دیکھا ہے ایسی شرطیں لگادیں اسمبلی میں جائے گا جب پاپولر ورڈکٹ آئے گا اسمبلی کی طرف سے تو ان کا ٹرائل ہوگا اور آئین میں دوسری یہ بھی شق لگی ہوئی ہے، کسی کو مشرف کے ٹرائل کے لئے مقدمہ چلانے کے لئے حکومت کی مرضی کی ضرورت ہوتی ہے
* بریگیڈیئر امتیاز کے انکشافات والے معاملے کے پیچھے کون ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حکومت وقت اور ایم کیو ایم ہے ۔ ان کے ساتھ بریگڈیئر (ر) امتیاز جیسے لوگ ہیں ۔ ان کا صرف ایک مقصد ہے کہ اتنا دباؤ ڈالو کہ نواز شریف اینڈ کمپنی کو ٹرائل کی بات کرنے کی ہمت نہ ہو
* سیاسی جماعتوں میں پیسے تقسیم کرنا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ سلسلہ تو ہمیشہ ہوتا رہا ہے ۔ آئی ایس آئی کو یہ کام بھٹو صاحب نے 1975ء میں دیا تھا ۔ اُس وقت سے یہ کام ہو رہا ہے، پیسے بانٹے جاتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پیسوں کی تقسیم میں صرف ایک جماعت کے لوگ نہیں ۔ آٹھ نو جماعتوں کے لوگوں کو پیسے دیئے گئے تھے ۔ یہاں تک کہ اس وقت کے الیکشن سیل کو بھی پیسے دیئے گئے تھے اور میڈیا مینجمنٹ بھی اس کے اندر موجود ہے
* سانحہ بہالپور حادثہ نہیں تھایہ سبوتاژ کی کارروائی تھی۔ اس میں اندرونی اور بیرونی ہاتھ ملوث ہوسکتا ہے
* بینظیر بھٹو کے قتل میں وہی لوگ ملوث ہیں جو ضیاء الحق کے قتل میں ملوث تھے

تفصیل روزنامہ جنگ میں پڑھیئے