اب ویسٹ انڈیا کمپنی

بلیک واٹر کی سرگرمیاں اور ہم خوابیدہ

بلیک واٹر دنیا کی طاقتور امریکی سیکیورٹی کمپنی ہے جو 1997 میں قائم ہوئی تھی اس کا اصل نام بلیک واٹر یو ایس اے تھا اب اس کا نام XE-WORLD WIDEہے۔ یہ امریکی ریاست شمالی کیرولینا میں CIA کے تعاون سے ایک ٹریننگ کیمپ چلاتی ہے جس میں سالانہ 40 ہزار آدمیوں کو جن میں غیر ملکی اور پولیس والے جن کا تعلق امریکا سے ہوتا ہے ان کو سیکیورٹی ٹریننگ دیتی ہے۔ اس سیکیورٹی کمپنی کی بنیاد ایک امریکی ارب پتی پرنس ایرک نے رکھی تھی اور اس کا معاون Al Clock تھا جس نے 6000 ایکڑ زمین خریدی اور وہاں ایک بڑا ٹریننگ سینٹر قائم کیا اس کا تنظیمی ڈھانچہ 9 ڈویژن پر مشتمل ہے امریکن اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی تین بڑی سیکیورٹی کمپنیوں میں سے یہ سب سے بڑی ہے اس کا 90 فیصد سرمایہ امریکی حکومت کو سیکیورٹی فراہم کرنے سے حاصل ہوتا ہے سابق صدربش کی ان کو آشیرواد حاصل تھی یہی وجہ ہے کہ دو تہائی فیصد کنٹریکٹ بولی کے بغیر دیئے جاتے ۔ دنیا بھر میں 987 امریکی سیکیورٹی ٹھیکوں میں سے 788 بلیک واٹر کے پاس ہیں اس کمپنی کے پاس ڈالروں کے انبار لگے ہوئے ہیں ان کے اپنے جہاز، ہیلی کاپٹرز ہیں۔ جدید قسم کی ٹرانسپورٹ جن میں جدید قسم کے آلات نصب ہیں ان کے استعمال میں رہتے ہیں 2003 میں جب امریکہ نے عراق پر حملہ کیا تو بلیک واٹر بھی ان کے پیچھے آگئی 16 ستمبر 2007 کو جب 17 معصوم عراقیوں کو بلیک واٹر نے گولیوں سے بھون دیا تو اس کے نتیجے میں ان کی بڑی بدنامی ہوئی اور عراقی حکومت نے ان کا لائسنس کینسل کر دیا لیکن امریکی دباؤ کے نتیجے میں چند ہزار لوگوں کو ستمبر 2009 تک اجازت دی گئی۔ یاد رہے دنیا میں امریکہ کا سب سے بڑا سفارت خانہ عراق میں ہے اور اس کی سیکیورٹی بلیک واٹر کے سپرد ہے بدنامی سے بچنے کے لئے نیام نام XE ورلڈ وائڈ رکھا گیا تھا۔
ان چند بنیادی باتوں کے بعد اب ہم ان کی سرگرمیوں پر نظر ڈالتے ہیں ۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ چند روز پہلے اسلام آباد میں یو ایس میرینز اور ایک پولیس افسر کے درمیان تلخ کلامی ہوئی تھی لیکن حکومت نے ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا۔ میڈیا کے مطابق اب XE نے کھلے عام پاکستان میں اپنی سرگرمیوں کا آغاز کردیا ہے ان کا طریقہ واردات یہ ہے کہ جس ملک میں بھی جاتے ہیں وہاں سے ریٹائرڈ فوجی اور پولیس اور پیراملٹری فورس کے لوگوں کو بھرتی کرتے ہیں اوران کو منہ مانگی تنخواہ دیتے ہیں پاکستان جہاں غربت اور بے روزگاری عروج پر ہے لوگ آسانی سے مل جاتے ہیں اور پھر ان کو ٹریننگ دے کر ان سے ہر قسم کا کام کرواتے ہیں کہیں مسئلہ ہو جائے تو ان کو چھڑا کر لے جاتے ہیں ان کو پشاور اور اسلام آباد میں دیکھا گیا ہے پچھلے دنوں سینیٹر بخاری کے بھتیجے کے ساتھ بھی سفارتی انیکلیو میں واقع پیش آیا جب امریکی اہل کاروں کی اس سے توتکار ہوئی ۔ بقول امریکہ کے چوں کہ پاکستانی فورسز اپنے وزراء کو اسلام میں تحفظ نہیں دے سکتی اس لئے اپنا بندوبست کر رہے ہیں۔ سابق صدر نے امریکہ کو اپنی سرزمین دی اڈے دیئے، ایئرروٹ دیا، لینڈ روٹ دیا، ہر قسم کی لاجسٹک سپورٹ دی، اس پر قوم نے بڑا شور مچایا پھر ڈرون حملے شروع ہوگئے ہم ابھی ڈرون حملوں کو رو رہے تھے جنہیں ہم نے تقدیر مبرم کے طور پر قبول کرلیا ہے اس لئے احتجاج میں وہ شدت نہیں رہی لیکن اب معاملہ بہت آگے نکل گیا ہے، بلیک واٹر کی آمد، سفارت خانہ کی توسیع کے لئے 18 ایکڑ زمین کی فروخت یہ سب کچھ کیا ہے اصل میں امریکہ اسلام آباد میں ایک فوجی بیس بنانا چاہتا ہے جس طرح انہوں نے عراق اور افغانستان میں اپنی بیس بنائی ہیں اب ان کا رخ پاکستان کی طرف ہو گیا ہے سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ کسی بھی ملک کے سفارت خانہ کا کیا رول ہوتاہے ان کا رول دونوں ملکوں کے درمیان مختلف امور پر رابطہ کرنا ہوتا ہے منی فوجی اڈے تعمیر کرنا نہیں ہوتا۔ میڈیا میں کافی شور مچایا جا رہا ہے ٹاک شوز ہو رہے ہیں جماعت اسلامی کے امیر مسلسل اپنے تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں لیکن حکومت مکمل طور پر خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے اس کا پھر مطلب یہی نکلتا ہے کہ XE حکومت کی اجازت سے سرگرم ہے ہماری حکومت کو تو صرف ڈالر چاہئیں وہ ملتے رہیں باقی سب ٹھیک ہے ہماری پارلیمنٹ ٹس سے مس نہیں ہو رہی ہے ایسے موقعوں پر اپوزیشن کا کردار اہم بن جاتا ہے لیکن وہ کولیشن پارٹنر ہے اور منہ میں دانت ہی نہیں ہیں اس لئے وہ بول ہی نہیں سکتے۔ عوام کو اعتماد میں لینے کے بجائے وقفے وقفے سے مہنگائی کے انجکشن دیئے جا رہے ہیں تاکہ وہ بھی نہ بول سکیں اور حکومت اپنی مان مانی کرتی رہے اب یہ کوئی راز نہیں ہے کہ پشاور یونیورسٹی ٹاؤن میں بلیک واٹر یعنی XE نے اپنا ہیڈ کوارٹر بھی قائم کیا ہوا ہے۔
تازہ اطلاعات کے مطابق XE اپنے پوشیدہ اپریشن کیلئے سرحد اور پنجاب سے اردو اور پنجابی بولنے والے لوگوں کو بھرتی کر رہی ہے ان لوگوں میں بیشتر ریٹائرڈ فوجی، پولیس، بیورو کریٹس اور کچھ میڈیا کے لوگوں کو ملازمتیں فراہم کی گئی ہیں۔ آپ ویب سائٹ secure blackwatersa.com پر جائیں تو آپ کو ملازمت حاصل کرنے کیلئے فارم سامنے آجاتا ہے۔ بعض حالتوں میں کمپنی کا نام چھپانے کیلئے پوسٹ بکس کا سہارا لیا جاتا ہے ملک کے مختلف شہروں میں زمین حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ وہاں تربیتی مراکز قائم کئے جائیں میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ایسٹ انڈیا کمپنی چند لوگوں کے ساتھ تجارت کرنے آئی تھی اور ہندوستان پر قبضہ جما لیا تھا۔
پاکستان میں امریکہ کے سفیرنے (جو ہمارے کم اور امریکی مفادات کی نگرانی کرنے میں مشہور ہیں) ایک ماہ میں 360 امریکی ویزے بغیر سیکورٹی کلیئرنس کے اپنے صوابدیدی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے دیئے ہیں۔ اگر ہم نے اس پر دھیان نہ دیا تو یہ لوگ پورے پاکستان میں پھیل جائیں گے ۔ یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ ہماری حکومت نے امریکہ کے آگے ہاتھ پھیلائے ہوئے ہیں اور ہم یس سر یس سر کر رہے ہیں لیکن پاکستانی قوم یہ بات کبھی بھی گوارا نہیں کرے گی پاکستانی قوم پہلے ہی امریکہ کے رول کو پسند نہیں کرتی بہتر یہی ہو گا کہ حکومت اپنی پالیسی تبدیل کرے ورنہ عوام کا سمندر سب کچھ بہادے گا۔

تحریر ۔ مختار احمد بٹ بشکریہ جنگ بتایخ 30 ستمبر 2009

This entry was posted in تجزیہ, خبر, روز و شب on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

5 thoughts on “اب ویسٹ انڈیا کمپنی

  1. خرم

    یہ ایک اور دور کی کوڑی لائے ہیں۔ اصل بات کیا ہے یہ نہ انہیں علم ہے اور نہ مجھے۔ ویسے بھی ان کی زیادہ تر باتیں سینہ گزٹ کی کاروائی لگتی ہیں۔

  2. راشد کامران

    “پاکستان میں امریکہ کے سفیرنے (جو ہمارے کم اور امریکی مفادات کی نگرانی کرنے میں مشہور ہیں) ایک ماہ میں 360 امریکی ویزے بغیر سیکورٹی کلیئرنس کے اپنے صوابدیدی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے دیئے ہیں۔”

    معافی چاہتا ہوں شاید پڑھنے میں غلطی ہوری ہے لیکن پاکستان میں امریکی سفیر امریکہ کے مفاد کا تحفظ نہیں کرے گا تو کس کے مفاد کا تحفظ‌کرے گا؟‌ ایک ماہ میں 360 امریکی ویزے دیں‌ تو یا 1000 امریکی ویزے انکا ملک ہے جسے چاہیں‌ امریکی ویزہ دیں۔

  3. صبا سیّد

    اسلامُ علیکم
    برطانیہ، ایسٹ انڈیا کمپنی کی آڑ میں برِصغیر پر قابض ہوا۔ یہ لوگ جانتے تھے کہ یہ وہ خطّہ ہے جہاں لوگ اپنی زمین کی حفاظت اپنی جان سے بڑھ کر کرتے ہیں۔ اور ممالک کی طرح یہاں تلوار سے قابض نہیں ہوا جا سکتا۔ اور امریکہ بھی یہ بات جنتا ہے کہ افغانستان کی طرح پاکستان پر قبضہ نہیں کیا جا سکتا۔ ایک عراق کی چوٹ ہی امریکہ کو کافی ہے، وہ یہ غلطی بار بار نہیں دہرائے گا۔ اس بار ایک نیا لائحہ عمل طے کرکے وہ کسی ملک کو زیر کرنا چاہتا ہے۔ یہ طریقہ بلیک واٹر سے شروع ہوتا ہے اورناجانے کہاں ختم ہوگا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.