Monthly Archives: September 2009

فری میسن سے بلیک واٹر تک

”بلیک واٹر کا پاکستان میں کوئی وجود نہیں۔ بلیک واٹر کی موجودگی محض افواہ ہے۔ عوام ان افواہوں پر ہرگز کان نہ دھریں۔ اگر کسی کے پاس بلیک واٹر کی موجودگی کے ثبوت ہیں تو وہ فراہم کرے۔ حکومت پاکستان سخت کارروائی کرے گی۔“ یہ الفاظ امریکا میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی کے ہیں۔ چند روز قبل اسی قسم کے الفاظ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے بھی کہے تھے کہ بلیک واٹر کا پاکستان میں کوئی وجود نہیں ہے۔ اگر اس کی موجودگی کے کسی کے پاس ثبوت ہیں تو وہ پیش کرے، ہم کارروائی کریں گے۔“ حیرت کی بات ہے حکومت پاکستان بار بار تردید کررہی ہے کہ بلیک واٹر کا وجود نہیں ہے لیکن پاکستان کے بچے بچے کو معلوم ہے بلیک واٹر کی مشکوک سرگرمیاں بڑھ رہی ہیں۔ ”جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے“ والی بات ہے۔ ہماری ریسرچ، تحقیق اور معلومات کے مطابق اس وقت بلیک واٹر کا نہ صرف وجود ہے بلکہ وہ پاکستان کو افغانستان اور عراق سمجھ کر بڑے منظم اور مربوط طریقے سے اپنا مشن آگے بڑھارہے ہیں۔ یہ بالکل سچ ہے کہ افغانستان اور عراق کے بعد بلیک واٹر کا سب سے مضبوط گڑھ اب پاکستان میں ہے۔ پاکستان میں بلیک واٹر کی سرگرمیوں کا آغاز بہت پہلے کیا جاچکا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ وزارتِ داخلہ نے 2007ء کو خبردار کیا تھا کہ اس کی سرگرمیوں پر نظر رکھی جائے لیکن ہماری سیکیورٹی ایجنسیوں نے اس پر کوئی ایکشن نہیں لیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بلیک واٹر نے پاکستان میں اپنی جڑیں مضبوط کرلیں۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ بلیک واٹر کے آفسز اس وقت پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں موجود ہے۔ صرف اسلام آباد اور پشاور میں ہی اس کے 700 افراد موجود ہیں جن کی رہائش کے لیے 200 سے زائد گھر کرائے پر لیے گئے ہیں جس کی تصدیق امریکی سفیر بھی کرچکی ہیں۔ حکومت میں شامل اتحادی جماعت کے اہم ارکان کے ساتھ ان کی بات چیت ایک عرصے سے جاری ہے اور ان سے کرائے پر گھر لینے کے لیے بھاری رقوم کی پیشکشیں کی جارہی ہیں۔ مصدقہ رپورٹس ہیں کہ کراچی میں لسانی اور مذہبی فسادات کروانے کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ کراچی کے مختلف علاقوں میں 500 سے زائد امریکی موجود ہیں جن کو خفیہ طورپر ملک کے مختلف حصوں میں ٹرانسپورٹ کیا جاتا ہے۔ 19/ اگست کو اخبارات میں ہموی بکتر بند کے بارے میں رپورٹ چھپی۔ یہ گاڑیاں شہروں میں آپریشن کرنے کے لیے انتہائی کارآمد ہوتی ہیں۔ یہ جدید اسلحے سے لیس ہوتی ہیں۔ یہ پاکستانی کرنسی میں ایک کروڑ 40 لاکھ روپے کی ہوتی ہے۔ حاصل یہ کہ کراچی میں بلیک واٹر کی سرگرمیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ یہاں اس نے باقاعدہ اپنے دفاتر قائم کرلیے ہیں۔
جب سے محب وطن عوام اور دانشوروں نے واویلا شروع کیا ہے، بلیک واٹر نے اپنا نام تبدیل کرلیا ہے لیکن اب تک اس کا مونوگرام، طریقہ واردات اور لیٹر پیڈ تک وہی پرانا ہے۔ اس معنی میں یہ بات حسین حقانی، وزیراعظم کی درست ہے کہ اس وقت ”بلیک واٹر“ نام سے کسی تنظیم کا وجود نہیں، کیونکہ امریکی اخبار ”نیویارک ٹائمز“ کے مطابق ”بلیک واٹر“ نے افغانستان اور پاکستان میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کے لیے نام تبدیل کرلیے ہیں۔ اب یہ ایک امریکی نجی سیکیورٹی ایجنسی نہیں رہی بلکہ چار پانچ پرائیویٹ امریکی سیکیورٹی ایجنسیوں کا روپ دھار چکی ہیں۔ اب ان کی سرگرمیاں اور کارروائیاں بالکل اسی طرح ہیں جس طرح جب جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں یہودیوں کی بدنام زمانہ تنظیم ”فری میسن“ پر پاکستان میں پابندی عائد کی گئی۔ ان کے دفاتر سیل کردیے گئے۔ پشاور میں بڑی تعداد میں ان کے خلاف کارروائی ہوئی تو یہ پڑوسی ممالک میں جاچھپے لیکن کچھ ہی عرصے بعد یہ نام بدل کر پھر سرگرم ہوگئے اور زیر زمین ان کی سرگرمیاں تاحال جاری وساری ہیں۔ پاکستان میں فری میسن کے کارکنوں کے نام پڑھیں تو آپ حیران رہ جائیں گے کہ کیسے کیسے سفید پوشوں کے نام آتے ہیں؟ ماسوائے ایک صدر کے امریکا کے تمام صدور فری میسن سے وابستہ رہے ہیں۔ پشاور میں آج جس جگہ درویش مسجد قائم ہے یہ کسی زمانے میں فری میسن کا دفتر ہوا کرتا تھا۔ کراچی کے علاقے رنچھوڑ لائن میں ان کا ٹمپلر تھا، لیکن سرکاری سطح پر جب پابندی لگی تو پھر اس کا زور نہ رہا۔ اس سے پہلے فری میسن کے کارکن بالکل اسی طرح دندناتے پھرتے تھے جس طرح آج بلیک واٹر کے اہلکار اسلام آباد جیسے حساس علاقے میں پھر رہے ہیں۔ حتیٰ کہ پاکستان کے سیکیورٹی اہلکاروں کو کسی خاطر میں نہیں لاتے۔ اس سے زیادہ سنگین اور خطرناک بات کیا ہوسکتی ہے کہ سیکٹر ای 7 میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی رہائش کے قریب گھر کرائے پر لیے گئے ہیں۔ سیکٹر ای 7 میں 2، ایف 6 میں 37، جی 6 میں 43، ایف 7 میں 47، ایف 8 میں 45، ایف 10 میں 20، ایف 11 میں 25 اور آئی 18 میں 9 اور دیگر سیکٹروں میں گھر کرائے پر لیے گئے ہیں۔ اسی طرح اسلام آباد ہی کے سیکٹر ایف 6، ایف 7 اور ایف 8 کے باشندوں کے مطابق یہاں بلیک واٹر کی مشکوک سرگرمیاں عروج پر ہیں۔ صرف یہ نہیں بلکہ یہ اسلام آباد کی حساس ترین سڑکوں پر دندناتے پھررہے ہیں۔ اسلام آباد میں ایف آئی اے کے صدر دفتر کے قریب ایک سیاہ شیشوں والی گاڑی میں سوار چار مسلح امریکی تھے جب پاکستانی سیکیورٹی اہلکاروں نے پوچھ گچھ کی تو معلوم ہوا یہ بلیک واٹر سے منسلک ہیں۔لیکن پھر کچھ بھی نہیں ہوا۔
قارئین! میں صرف اسلام آباد خاص طورپر اس لیے ذکر کررہا ہوں کہ یہ پاکستان کا دارالحکومت ہے۔ یہاں اہم ترین اداروں کے دفاتر ہیں۔ اہم ترین شخصیات رہائش پذیر ہیں۔ پاکستان کا ایٹمی پلانٹ ہے۔ سب سے بڑھ کر پاکستانی قیادت ہے۔ خاکم بدہن اگر وفاق بھی امریکا کی سیکیورٹی اہلکاروں کی مشکوک سرگرمیوں سے محفوظ نہیں تو پھر کون ہوگا؟ امریکا کا کسی آزاد جمہوری ملک پر اس حد تک کنٹرول اقوام متحدہ کے قوانین کی بھی صریح خلاف ورزی ہے۔ لہٰذاحکومت کو چاہیے جس طرح فری میسن پر پابندی لگائی گئی تھی اسی طرح جرات کامظاہرہ کرتے ہوئے بلیک واٹر اور اس سے منسلکہ اداروں پر بھی پابندی عائد کرے تاکہ پاکستان اور اس کے باشندے محفوظ ہوسکیں۔ افسوس ناک خبریں یہ ہیں کہ ریٹائرڈ پاکستانی بیورو کریٹ، دانشور اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے افراد اس معرکے کے لیے بھرتی کرلیے گئے ہیں جو اس پلان کو عملی جامہ پہنانے میں دست وبازو بنیں گے۔ ایسے ماحول میں جب چاروں جانب سے مایوس یہ قوم جو کبھی ایک سمت دیکھتی ہے، کبھی دوسری سمت اور کبھی اسے منتخب سیاست دانوں کا خیال آتا ہے۔ ہمیں تو یوں لگتا ہے اس بار جو میدان جنگ سجنے جارہا ہے اس
میں ان بے سروسامان پاکستانی عوام کو شاید خود ہی اس سیلاب کے سامنے بند باندھنا پڑے گا۔

تحریر ۔ انور غازی ۔ بشکریہ جنگ 30 ستمبر 2009

اب ویسٹ انڈیا کمپنی

بلیک واٹر کی سرگرمیاں اور ہم خوابیدہ

بلیک واٹر دنیا کی طاقتور امریکی سیکیورٹی کمپنی ہے جو 1997 میں قائم ہوئی تھی اس کا اصل نام بلیک واٹر یو ایس اے تھا اب اس کا نام XE-WORLD WIDEہے۔ یہ امریکی ریاست شمالی کیرولینا میں CIA کے تعاون سے ایک ٹریننگ کیمپ چلاتی ہے جس میں سالانہ 40 ہزار آدمیوں کو جن میں غیر ملکی اور پولیس والے جن کا تعلق امریکا سے ہوتا ہے ان کو سیکیورٹی ٹریننگ دیتی ہے۔ اس سیکیورٹی کمپنی کی بنیاد ایک امریکی ارب پتی پرنس ایرک نے رکھی تھی اور اس کا معاون Al Clock تھا جس نے 6000 ایکڑ زمین خریدی اور وہاں ایک بڑا ٹریننگ سینٹر قائم کیا اس کا تنظیمی ڈھانچہ 9 ڈویژن پر مشتمل ہے امریکن اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی تین بڑی سیکیورٹی کمپنیوں میں سے یہ سب سے بڑی ہے اس کا 90 فیصد سرمایہ امریکی حکومت کو سیکیورٹی فراہم کرنے سے حاصل ہوتا ہے سابق صدربش کی ان کو آشیرواد حاصل تھی یہی وجہ ہے کہ دو تہائی فیصد کنٹریکٹ بولی کے بغیر دیئے جاتے ۔ دنیا بھر میں 987 امریکی سیکیورٹی ٹھیکوں میں سے 788 بلیک واٹر کے پاس ہیں اس کمپنی کے پاس ڈالروں کے انبار لگے ہوئے ہیں ان کے اپنے جہاز، ہیلی کاپٹرز ہیں۔ جدید قسم کی ٹرانسپورٹ جن میں جدید قسم کے آلات نصب ہیں ان کے استعمال میں رہتے ہیں 2003 میں جب امریکہ نے عراق پر حملہ کیا تو بلیک واٹر بھی ان کے پیچھے آگئی 16 ستمبر 2007 کو جب 17 معصوم عراقیوں کو بلیک واٹر نے گولیوں سے بھون دیا تو اس کے نتیجے میں ان کی بڑی بدنامی ہوئی اور عراقی حکومت نے ان کا لائسنس کینسل کر دیا لیکن امریکی دباؤ کے نتیجے میں چند ہزار لوگوں کو ستمبر 2009 تک اجازت دی گئی۔ یاد رہے دنیا میں امریکہ کا سب سے بڑا سفارت خانہ عراق میں ہے اور اس کی سیکیورٹی بلیک واٹر کے سپرد ہے بدنامی سے بچنے کے لئے نیام نام XE ورلڈ وائڈ رکھا گیا تھا۔
ان چند بنیادی باتوں کے بعد اب ہم ان کی سرگرمیوں پر نظر ڈالتے ہیں ۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ چند روز پہلے اسلام آباد میں یو ایس میرینز اور ایک پولیس افسر کے درمیان تلخ کلامی ہوئی تھی لیکن حکومت نے ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا۔ میڈیا کے مطابق اب XE نے کھلے عام پاکستان میں اپنی سرگرمیوں کا آغاز کردیا ہے ان کا طریقہ واردات یہ ہے کہ جس ملک میں بھی جاتے ہیں وہاں سے ریٹائرڈ فوجی اور پولیس اور پیراملٹری فورس کے لوگوں کو بھرتی کرتے ہیں اوران کو منہ مانگی تنخواہ دیتے ہیں پاکستان جہاں غربت اور بے روزگاری عروج پر ہے لوگ آسانی سے مل جاتے ہیں اور پھر ان کو ٹریننگ دے کر ان سے ہر قسم کا کام کرواتے ہیں کہیں مسئلہ ہو جائے تو ان کو چھڑا کر لے جاتے ہیں ان کو پشاور اور اسلام آباد میں دیکھا گیا ہے پچھلے دنوں سینیٹر بخاری کے بھتیجے کے ساتھ بھی سفارتی انیکلیو میں واقع پیش آیا جب امریکی اہل کاروں کی اس سے توتکار ہوئی ۔ بقول امریکہ کے چوں کہ پاکستانی فورسز اپنے وزراء کو اسلام میں تحفظ نہیں دے سکتی اس لئے اپنا بندوبست کر رہے ہیں۔ سابق صدر نے امریکہ کو اپنی سرزمین دی اڈے دیئے، ایئرروٹ دیا، لینڈ روٹ دیا، ہر قسم کی لاجسٹک سپورٹ دی، اس پر قوم نے بڑا شور مچایا پھر ڈرون حملے شروع ہوگئے ہم ابھی ڈرون حملوں کو رو رہے تھے جنہیں ہم نے تقدیر مبرم کے طور پر قبول کرلیا ہے اس لئے احتجاج میں وہ شدت نہیں رہی لیکن اب معاملہ بہت آگے نکل گیا ہے، بلیک واٹر کی آمد، سفارت خانہ کی توسیع کے لئے 18 ایکڑ زمین کی فروخت یہ سب کچھ کیا ہے اصل میں امریکہ اسلام آباد میں ایک فوجی بیس بنانا چاہتا ہے جس طرح انہوں نے عراق اور افغانستان میں اپنی بیس بنائی ہیں اب ان کا رخ پاکستان کی طرف ہو گیا ہے سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ کسی بھی ملک کے سفارت خانہ کا کیا رول ہوتاہے ان کا رول دونوں ملکوں کے درمیان مختلف امور پر رابطہ کرنا ہوتا ہے منی فوجی اڈے تعمیر کرنا نہیں ہوتا۔ میڈیا میں کافی شور مچایا جا رہا ہے ٹاک شوز ہو رہے ہیں جماعت اسلامی کے امیر مسلسل اپنے تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں لیکن حکومت مکمل طور پر خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے اس کا پھر مطلب یہی نکلتا ہے کہ XE حکومت کی اجازت سے سرگرم ہے ہماری حکومت کو تو صرف ڈالر چاہئیں وہ ملتے رہیں باقی سب ٹھیک ہے ہماری پارلیمنٹ ٹس سے مس نہیں ہو رہی ہے ایسے موقعوں پر اپوزیشن کا کردار اہم بن جاتا ہے لیکن وہ کولیشن پارٹنر ہے اور منہ میں دانت ہی نہیں ہیں اس لئے وہ بول ہی نہیں سکتے۔ عوام کو اعتماد میں لینے کے بجائے وقفے وقفے سے مہنگائی کے انجکشن دیئے جا رہے ہیں تاکہ وہ بھی نہ بول سکیں اور حکومت اپنی مان مانی کرتی رہے اب یہ کوئی راز نہیں ہے کہ پشاور یونیورسٹی ٹاؤن میں بلیک واٹر یعنی XE نے اپنا ہیڈ کوارٹر بھی قائم کیا ہوا ہے۔
تازہ اطلاعات کے مطابق XE اپنے پوشیدہ اپریشن کیلئے سرحد اور پنجاب سے اردو اور پنجابی بولنے والے لوگوں کو بھرتی کر رہی ہے ان لوگوں میں بیشتر ریٹائرڈ فوجی، پولیس، بیورو کریٹس اور کچھ میڈیا کے لوگوں کو ملازمتیں فراہم کی گئی ہیں۔ آپ ویب سائٹ secure blackwatersa.com پر جائیں تو آپ کو ملازمت حاصل کرنے کیلئے فارم سامنے آجاتا ہے۔ بعض حالتوں میں کمپنی کا نام چھپانے کیلئے پوسٹ بکس کا سہارا لیا جاتا ہے ملک کے مختلف شہروں میں زمین حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ وہاں تربیتی مراکز قائم کئے جائیں میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ایسٹ انڈیا کمپنی چند لوگوں کے ساتھ تجارت کرنے آئی تھی اور ہندوستان پر قبضہ جما لیا تھا۔
پاکستان میں امریکہ کے سفیرنے (جو ہمارے کم اور امریکی مفادات کی نگرانی کرنے میں مشہور ہیں) ایک ماہ میں 360 امریکی ویزے بغیر سیکورٹی کلیئرنس کے اپنے صوابدیدی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے دیئے ہیں۔ اگر ہم نے اس پر دھیان نہ دیا تو یہ لوگ پورے پاکستان میں پھیل جائیں گے ۔ یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ ہماری حکومت نے امریکہ کے آگے ہاتھ پھیلائے ہوئے ہیں اور ہم یس سر یس سر کر رہے ہیں لیکن پاکستانی قوم یہ بات کبھی بھی گوارا نہیں کرے گی پاکستانی قوم پہلے ہی امریکہ کے رول کو پسند نہیں کرتی بہتر یہی ہو گا کہ حکومت اپنی پالیسی تبدیل کرے ورنہ عوام کا سمندر سب کچھ بہادے گا۔

تحریر ۔ مختار احمد بٹ بشکریہ جنگ بتایخ 30 ستمبر 2009

پریشان کن خبروں میں سے ایک

جن پریشان کن خبروں کا میں نے ذکر کیا تھا ان میں سے ایک اخبار مٰیں آگئی ہے ۔ ملاحظہ فرمایئے

یہ اس دن کی بات ہے جب صدر آصف علی زرداری امریکہ کے دورے پر روانہ ہوئے اور اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے کو سیکورٹی فراہم کرنے والے ایک پرائیویٹ ادارے کے دفتر پر چھاپہ مارا گیا۔ چھاپہ مارنے کا فیصلہ ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں کیا گیا جس میں تین بڑے خفیہ اداروں نے اسلام آباد میں امریکیوں کی پراسرار سرگرمیوں کے بارے میں اپنی اپنی رپورٹیں پیش کیں۔ یہ رپورٹیں سامنے آنے کے بعد اجلاس میں موجود وزیر داخلہ رحمٰن ملک کو پانی سر سے اوپر جاتا ہوا محسوس ہوا اور انہوں نے فوری طور پر انٹر رسک نامی پرائیویٹ سیکورٹی ایجنسی کے دفتر پر چھاپے مارنے کا حکم دیدیا کیونکہ اطلاعات کے مطابق اس ادارے سے وابستہ کچھ سابق فوجی افسران ایک امریکی ادارے کے ساتھ مل کر پاکستان میں جاسوسی کا ایک نیٹ ورک بنا رہے تھے۔ جس دن اسلام آباد میں انٹر رسک کے دفتر پر چھاپہ مارا گیا اس دن اسلام آباد کی سڑکوں پر ایسی درجنوں جیپیں نمودار ہوئیں جن میں مسلح گورے ہتھیاروں سمیت موجود تھے۔ ان جیپوں میں سوارگورے عام طور پر ٹریفک قوانین کی کوئی پروا نہیں کرتے اس وقت ایف سکس کے علاقے میں ایک چوراہے پر ریڈ سگنل کے باعث ٹریفک بند تھی لیکن ایک جیپ میں سوار گورے اپنے آگے موجود گاڑیوں کو ہٹانے کیلئے مسلسل ہارن بجائے جا رہے تھے۔ کچھ گاڑیاں ہٹ گئیں لیکن ایک گاڑی والے نے گوروں کو راستہ دینے سے انکار کردیا۔ اس گستاخی پر ایک مسلح گورا جیپ سے نیچے اترا اور اپنے آگے موجود گاڑی کے ڈرائیور کو باہر آنے کیلئے کہا۔ ڈرائیور نے شیشہ اوپرچڑھا دیا اور گورے کو نظر انداز کردیا۔ یہ دیکھ کر گورے نے اپنے ہتھیار سے گاڑی کے شیشے کو کھٹکھٹانا شروع کردیا۔ شاید پاکستانی ڈرائیور اس صورت حال کیلئے تیار تھا۔ اس نے اپنی گاڑی کے ڈیش بورڈ سے پستول نکالا اور گورے کو دکھا کر اپنی جھولی میں رکھ لیا۔ اس دوران ٹریفک سگنل کی لائٹ گرین ہوچکی تھی لیکن گوروں نے پاکستانی ڈرائیور کو گھیر لیا اور اپنے مزید ساتھی بلا لئے۔ موقع پر ہجوم اکٹھا ہوچکا تھا۔ یہ پاکستانی ڈرائیور پیپلز پارٹی کے ایک سینیٹر کا بھتیجا تھا اور لائسنس یافتہ ہتھیار کے ساتھ گوروں کو آنکھیں دکھا رہا تھا۔ مسلح گورے اسے اپنے ساتھ ”بیس کیمپ چلنے کیلئے کہہ رہے تھے لیکن پاکستانی نوجوان انکاری تھا۔ پولیس موقع پر پہنچ چکی تھی۔ پولیس نے گوروں سے ان کے ہتھیاروں کے لائسنس مانگے لیکن انہوں نے لائسنس دکھانے سے انکار کردیا جبکہ پاکستانی نوجوان نے فوراً اپنا لائسنس دکھا دیا۔ گورے مصر تھے کہ پاکستانی نوجوان کو تحقیقات کے لئے ان کے ساتھ جانا ہوگا لیکن اسلام آباد پولیس کے ایک افسر نے گوروں سے کہا کہ وہ ایسا نہیں کرسکتے اور یوں سینیٹر کا بھتیجا گمشدہ افراد کی فہرست میں شامل ہونے سے بال بال بچ گیا۔ مجبوراً گورے اس نوجوان کے بغیر ہی موقع سے چلے گئے۔
معاملہ یہیں ختم نہیں ہوا۔ اگلے دن اس نوجوان کو ایف ایٹ کے ایک پٹرول پمپ پر انہی گوروں نے دوبارہ گھیر لیا اور اس کی تصاویر بنا کر موقع سے غائب ہوگئے۔ اس قسم کے واقعات آئے دن اسلام آباد میں پیش آ رہے ہیں۔ اسلام آباد پولیس شدید دباؤ میں ہے۔ دہشت گردوں کی کارروائی روکنے کیلئے اسلام آباد پولیس نے شہر میں جگہ جگہ ناکے لگا رکھے ہیں ان ناکوں پر جب عام پاکستانی یہ دیکھتے ہیں کہ ان کی گاڑیوں کی تلاشی تو لی جاتی ہے لیکن کالے شیشوں والی بڑی جیپوں کو چھوڑ دیا جاتا ہے تو وہ اپنی پولیس پر برسنے لگتے ہیں۔ ایک طرف اسلام آباد میں ایک پرائیویٹ سیکورٹی ایجنسی کے دفتر پر چھاپہ مار کر بڑی تعداد میں ناجائز اسلحہ برآمد کیا جاتا ہے اور ایجنسی کا این او سی منسوخ کردیا جاتا ہے لیکن دوسری طرف اسی شہر میں جیپوں پر ہتھیار لیکر گھومنے والے گوروں کو روکنے والا کوئی نہیں۔
کیا اسلام آباد میں غیر ملکیوں کیلئے قانون کی پابندی ختم ہوچکی ہے؟ اگر ہم واشنگٹن یا لندن جا کر وہاں کے قانون کی پابندی کرتے ہیں تو وہاں کے رہنے والے ہمارے ملک میں آ کر پاکستانی قوانین کی پابندی کیوں نہیں کرتے؟ امریکی حکومت بار بار تردید کررہی ہے کہ پاکستان میں بلیک واٹر کا کوئی وجود نہیں لیکن پاکستان کے بچے بچے کو پتہ چل چکا ہے کہ بلیک واٹر کا نام بدل دیا گیا ہے اور اب ایک امریکی پرائیویٹ سیکورٹی ایجنسی نہیں بلکہ کم از کم تین امریکی پرائیویٹ سیکورٹی ایجنسیاں پاکستان میں سرگرم ہیں۔ امریکی حکام دراصل پاکستان کو افغانستان سمجھ بیٹھے ہیں۔ امریکیوں کا خیال ہے کہ جس طرح ان کے اہلکار کابل میں اسلحہ کے ساتھ جیپوں میں بلاروک ٹوک گھوم سکتے ہیں اسی طرح اسلام آباد میں گھومنا ان کا حق ہے۔ انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ وہ افغانستان میں اقوام متحدہ کی ایک قرارداد کی آڑ لیکر داخل ہوئے تھے اور شمالی اتحاد نے انہیں خوش آمدید کہا تھا۔ پاکستان میں امریکی فوج کے داخلے کو جائز ثابت کرنے کے لئے نہ تو اقوام متحدہ کی کوئی قرارداد موجود ہے اور نہ ہی پاکستان میں امریکیوں کو خوش آمدید کہنے کے لئے کوئی شمالی اتحاد موجود ہے۔ اسلام آباد میں امریکیوں کی مشکوک سرگرمیاں امریکہ کے اپنے مفاد کیلئے خطرات پیدا کررہی ہیں کیونکہ اسلام آباد کے پڑھے لکھے اور معتدل مزاج طبقے میں امریکیوں کے خلاف بڑھتی ہوئی بے چینی نہ تو امریکہ کے فائدے میں ہے اور نہ ہی نئی جمہوری حکومت کے فائدے میں ہے جس کے گلے میں کیری لوگر بل کا پھندا ڈال دیا گیا ہے۔ سچی بات ہمیشہ کڑوی ہوتی ہے اور سچائی یہ ہے کہ کیری لوگر بل کے باعث پاکستان میں ایک طرف امریکہ کے خلاف منفی جذبات میں مزید اضافہ ہوگا اور دوسری طرف صدر آصف علی زرداری کی ساکھ کو بھی مزید نقصان پہنچے گا۔ اس بل کے تحت پاکستانی سیاست میں فوج کی مداخلت کو روکنے کی کوشش بالکل درست ہے کیونکہ ماضی میں امریکہ نے ہر پاکستانی فوجی ڈکٹیٹر کی حمایت کی لیکن اس بل کے ذریعہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان تک رسائی کی کوششوں کو پاکستان میں پذیرائی نہیں مل سکتی۔ امریکہ نے اس بل کے ذریعہ افغانستان میں اتحادی افواج پر حملوں میں ملوث عناصر کے خلاف پاکستان میں کارروائی کا تقاضا کیا ہے لیکن کیا پاکستان نے افغانستان میں بھارت کے ان تربیتی کیمپوں کو بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے جو امریکہ کی ناک کے نیچے چلائے جا رہے ہیں؟ عام پاکستانی یہ سمجھتا ہے کہ امریکہ کی پالیسیاں ان کی سلامتی کیلئے خطرہ بنتی جارہی ہیں۔ پاکستانیوں کو امریکہ کے ساتھ دوستانہ تعلقات پر کوئی اعتراض نہیں لیکن امریکہ کی غلامی ننانوے اعشاریہ نو فیصد پاکستانیوں کو کسی قیمت پر قبول نہیں۔ کیری لوگر بل دوستی کی نہیں غلامی کی دستاویز ہے اور پاکستان کی پارلیمینٹ کو یہ دستاویز مسترد کردینی چاہئے

بشکریہ جنگ ۔ قلم کمان از حامد میر بتاریخ 28 ستمبر 2009

آخر کرنا ہی پڑا

میں 15 ستمبر کو اسلام آباد پہنچا اور دو تین دنوں میں اخبارات میں نہ چھپنے والی کچہ ایسی خبریں سنیں جو ہر محب وطن پاکستانی کیلئے پریشان کن تھیں ۔ ان کا ذکر مناسب سمجھا تو پھر کبھی کروں گا فی الحال آج کے اخبار سے ایک متعلقہ اقتباس

امریکی سفارتخانے کی حمایت یافتہ پاکستانی نجی سیکورٹی ایجنسی انٹر رسک جسے گذشتہ ہفتے پولیس کے چھاپوں اور مجرمانہ الزامات کا سامنا کرنا پڑا اسے وزارت داخلہ کی جانب سے توڑ دیا گیا ہے۔اس ضمن میں جب ”دی نیوز“نے وزارت داخلہ کے ترجمان اور ایڈیشنل سیکریٹری راجہ محمد احسن سے رابطہ کیا تو انہوں نے تصدیق کی کہ انٹر رسک کو جاری کیا گیا این او سی منسوخ کر دیا گیا ہے۔ ذرائع نے بتایاکہ حکومت امریکی سفارتخانے اور قونصل خانوں سے منسلک نجی سیکورٹی ایجنسیوں کے کردار اور ضابطہ اخلاق کا تفصیلی جائزہ لے رہی ہے اور آنے والے چند روز میں مزید ایجنسیوں پر پابندی لگنے کا امکان ہے ۔انٹر رسک کی بندش اور این او سی کی تنسیخ نے اس کی شراکت دار امریکی پارٹنر ڈین کورپ کے کردار اور ضابطہ اخلاق کے بارے میں مزید شکوک و شبہات پیدا کر دیئے ہیں، ذرائع نے امکان ظاہر کیا کہ اب اس کو پاکستان سے اپنی سرگرمیاں سمیٹنے کا حکم دے دیا جائیگا۔حال ہی میں دی نیوز میں امریکی سفیر این ڈبلیو پیٹرسن کی جانب سے رواں سال کے تیسرے مہینے کی 30تاریخ کو رحمن ملک کو لکھے گئے خط کے متن کی اشاعت سے امریکی حکومت کے ڈین کورپ سے سیکورٹی کنٹریکٹ اور اس کے پاکستانی شراکت دار انٹر رسک پرائیویٹ لمیٹڈ اور اسپیڈ فلو فلٹر انڈسٹریز کی تصدیق ہو گئی ہے۔ این پیٹر سن حکومت پاکستان پرانٹر رسک کیلئے ممنوعہ بور کے اسلحہ لائسنس کے حصول کیلئے دباؤ ڈالتی بھی پائی گئی ہیں ، جبکہ انٹر رسک کے مالک نے دی نیوز کو تصدیق کر دی تھی کہ کمپنی کے پاس جدید ممنوعہ اسلحہ موجود تھا جو کہ امریکی سفارتخانے کی جانب سے انٹر رسک کے نام پردر آمد کیا گیا تھا۔انٹر رسک کا مالک ایک ریٹائرڈ ملٹر ی کمانڈوکیپٹن (ر) سید علی جعفر زیدی ہے جو کہ ابھی تک پویس کے ہتھے نہیں چڑھا۔ بہر حال پولیس نے اس کی رہائشگاہ اور ایک سرونٹ کوارٹر (جس پر ایک حاضر سروس آئی بی انسپکٹرکا قبضہ تھا) سے بڑی مقدار میں مدفون اسلحہ بر آمد کر لیا ہے۔

پورا مضمون یہاں کلک کر کے پڑھیئے

غیر معمولی دن

آج کا دن غیر معمولی ہے کیونکہ

یہ دن ہماری زندگی میں پہلے کبھی نہیں آیا
اور نہ ہی یہ دن پھر کبھی آئے گا
سو يہی دن ہے ہمارے پاس
ہمارے لئے بہتر يہی ہے کہ اس دن کو بہترین طریقہ سے گذاریں
نہ کسی کی بد دعا لیں نہ کسی کی خفگی کا سامنا کریں
محنت سے اپنا کام کریں اور دوسروں کو اپنا کام کرنے دیں

ہمارے بے بس حکمران

نمائندہ جنگ کو خصوصی ذرائع سے یہ بات معلوم ہوئی ، اطلاعات کے مطابق بلیک واٹر کراچی، حیدرآباد لاہور، ملتان جھنگ، سرگودھا، فیصل آباد میں بڑے پیمانے پر قتل عام کا پروگرام رکھتی ہے اوراس مقصدکیلئے بلیک واٹر کے ہیڈ کواٹر نے 12 ارب ڈالر کا بجٹ مختص کردیاہے،یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ عید کے دنوں میں بلیک واٹر کے ارکان نے جنوبی پنجاب اور اندرون سندھ کے بعض شہروں جن میں کبیر والا باگڑ سرگانہ چھ کسی، جہانیاں، سمہ سٹہ، دینا پور جنگل منڈیالہ، بہاول پور، حمد پور، لودھراں، جام پور، مکیسی سیفن، خانیوال، ملتان، راجن پور، بدین، سکرنڈ، باندی، رانی پور، تلہار، حیدرآباد اور کوٹری کے بہت ہی خفیہ انداز میں دورے کئے ہیں، کہا جارہا ہے کہ جنوبی پنجاب اور اندرون سندھ کے ان علاقوں میں بلیک واٹر کے کارکنوں کو مقامی اور با اثر افراد ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کے لسانی گروپوں کے ارکان کی اعانت حاصل رہی ہے۔ اطلاعات کے مطابق پاکستان میں بلیک واٹر کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں سے اہم شخصیات بھی خوفزدہ ہیں ایسا معلوم ہورہا ہے کہ سیکورٹی ایجنسی کے نام پر قائم کیا گیا یہ امریکی ادارہ کراچی سے پشاور اور کوئٹہ سے سکھر تک خون ریزی کرانا چاہتا ہے تاکہ امریکی حکمرانوں کیلئے پاکستان پر گرفت کرنے میں مزید آسانیاں ہوں۔

عید الفطر مبارک


کُلُ عام انتم بخیر
سب قارئین اور ان کے اہلِ خانہ کو عید الفطر کی خوشیاں مبارک

آیئے ہم سب مل کر مکمل خلوص اور یکسوئی کے ساتھ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیم کے حضور عاجزی سے اپنی دانستہ اور نادانستہ غلطیوں کی معافی مانگیں اور استدعا کریں کہ
مالک و خالق و قادر و کریم رمضان المبارک میں ہمارے روزے اور دیگر عبادتیں قبول فرمائے
اپنا خاص کرم فرماتے ہوئے ہمارے ہموطنوں کو آپس کا نفاق ختم کر کے ایک قوم بننے کی توفیق عطا فرمائے
ہمارے ملک کو اندرونی اور بیرونی سازشوں سے محفوظ رکھے
ہمارے ملک کو امن کا گہوارہ بنا دے
اور اسے صحیح طور مُسلم ریاست بنا دے
آمین ثم آمین