خفیہ کے ادارے ۔ خوبی یا قباحت

میں نے 20 اگست 2009ءکو جو طریقہ تفتیش کی جھلکیاں پیش کی تھیں ان سے یہ تاءثر پیدا ہو سکتا ہے کہ یہ خُفیہ ادارے نظامِ حکومت کا مُضر عضو ہیں ۔ حقیقت میں ایسا نہیں ہے ۔ تفتیش کرنے والے اداروں کا اصل کردار عوام سے مخفی رہتا ہے جو اندیشوں کا سبب بنتا ہے ۔ ان اداروں میں عام طور پر سب سے گھناؤنا کردار پولیس کا محسوس ہوتا ہے لیکن اس میں بھی اچھے یعنی مفید پہلو موجود ہیں ۔ ایسے بہت سے واقعات ہیں جن میں پولیس کے ملازمین نے وطن یا ہموطنوں کی خاطر اپنی جان تک قربان کر دی ۔ پولیس کی خرابی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ ادارہ قابض انگریز حکمرانوں نے ہندوستان کے شہریوں کی بہتری کی بجائے اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کیلئے بنایا تھا اور اسے آج تک عوام دوست بنانے کی کوشش نہیں کی گئی ۔ ان یا دوسرے اداروں کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے لوگ یہ بھُول جاتے ہیں کے ان میں کام کرنے والے لوگ بھی اسی معاشرہ کا حصہ ہیں جس کا نقاد خود ہے

پولیس کے تین خُفیہ ادارے ہیں ۔ فیڈرل انویسٹیگیشن اتھارٹی[ایف آئی اے] انٹیلی جینس بیورو [آئی بی] اور کرائم انویسٹی گیشن ڈیپارٹمنٹ [سی آئی ڈی] ۔ مسلحہ افواج کے ادارے ہیں ملٹری انٹیلی جنس [ایم آئی] انٹر سروسز انٹیلی جنس [آئی ایس آئی] ۔ سروسز انویسٹیگیشن بیورو [ایس آئی بی] اور فیلڈ انویسٹی گیشن یونٹ [ایف آئی یو] ۔ یہ سب ادارے قومی بہتری کیلئے بنائے گئے تھے اور انہوں نے عام طور پر خوش اسلوبی سے اپنے فرائض سرانجام دیئے ۔ حَکمرانوں نے ان اداروں کے افراد کو غلط کاموں پر لگا کر ان کا چہرہ مسخ کیا اور بعض اوقات ان سے قوم دُشمن کام بھی لئے ۔ پولیس کو تو عام طور پر اپنا کام نہیں کرنے دیا جاتا ۔ مسلحہ افواج کا ایک ادارہ جو ایف آئی یو کہلاتا ہے اسے بھی بعض اوقات غلط استعمال کیا گیا ۔ یہ بھولنا نہیں چاہیئے کہ معاشرہ بھی بتدریج بہت بگڑا اور یہ لوگ بھی معاشرے کا حصہ ہیں

میرا پہلا واسطہ ایک خفیہ ادارے سی آئی ڈی سے اُس وقت پڑا جب میں 1962ء میں پاکستان آرڈننس فیکٹری میں ملازمت اختیار کرنے کیلئے درخواست دی ۔ ایک دن سہ پہر کو میں گھر میں بیٹھا تھا کہ ایک پولیس والا آیا اور والد صاحب کا پوچھا وہ گھر پر نہیں تھے تو کہنے لگا “آپ اُن کے بیٹے ہیں ؟” میرے ہاں کہنے پر بولا “ایس ایس پی صاحب نے بُلایا ہے ۔ آپ سے کوئی بات کرنا ہے”۔ میں چلا گیا ۔ ایسی ایس پی صاحب کا گھر قریب ہی تھا ۔ میرا نام اور کام پوچھنے کے بعد کہنے لگے “تم انجنیئر ہو نا ؟” میرے ہاں کہنے پر بولے “آپ نے جو نوکری شروع کرنا ہے وہاں سے آپ کے متعلق انکوائری آئی ہے ۔ میں نے آپ کے متعلق اُس وقت انکوائری کی تھی جب آپ انجنیئرنگ کالج لاہور داخل ہوئے تھے ۔ کسی نے درخواست دی تھی کہ آپ جموں کشمیر کے رہنے والے نہیں ہیں بلکہ بھوپال کے رہنے والے ہیں اور آپ نے جموں کشمیر کی بنیاد پر داخلہ لیا تھا ۔ مجھے تفتیش کے بعد معلوم ہوا تھا کہ آپ جموں کشمیر کے رہنے والے ہیں اور داخلہ آپ نے میرٹ پر لیا تھا ۔ میرے پاس آپ اور آپ کے خاندان کی سب معلومات موجود ہیں اسلئے مزید کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ بھوپال صاحب کو بتا دینا کہ میں نے بُلایا تھا ۔ سب ٹھیک ہے”۔ میں واپس گھر آیا تو محلہ میں شور برپا تھا کہ اجمل بابو کو پولیس والا لے گیا

اس کے بعد ملازمت کے دوران مختلف خدمات انجام دیتے ہوئے آئی ایس آئی سے اتنا واسطہ پڑتا رہا کہ کئی فوجی افسران سے دوستی ہو گئی ۔ میں نے عام طور پر اُنہیں معقول پایا ۔ کبھی کبھی سرپھروں سے بھی واسطہ پڑا اور میرا خاصہ اُن کے ساتھ دنگل پڑا لیکن اللہ کی کرم نوازی کہ اخیر فتح سچ کی ہوتی رہی

جب ان اداروں میں سیاسی بلکہ ذاتی بنیاد پر عہدیدار ڈالے جاتے ہیں تو ظاہر ہے کہ وہ حُب الوطنی کی بجائے خودغرضی اپنا لیتے ہیں ۔ ایسے لوگ پھر اصل کی بجائے وہ معلومات اکٹھی کرتے ہیں جن سے وہ صاحب خوش ہوں جنہوں نے اُنہیں وہاں تعینات کیا ہے ۔ بدنامی کی بڑی وجہ ان اداروں کا سیاسی استعمال ہے ۔ ان اداروں سے یہ کام صرف ملک کے فوجی آمروں ہی نے نہیں بلکہ جمہوری طریقہ سے منتخب شدہ سربراہوں نے بھی لیا

میرے مشاہدہ کے مطابق مختلف ادوار میں کئی بار آئی ایس آئی کے عہدیداران نے بہت حُب الوطنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بڑی محنت اور عقلمندی سے معاملات نمٹائے اور غیرمحسوس طریقہ سے بڑے بڑے کام کئے ۔ اپنی تمام تر خرابیوں کے باوجود آئی ایس آئی کا ادارہ وطنِ عزیز کی صحت کیلئے ایک امرت دھارے کا کام کرتا ہے ۔ یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ اس ادارے میں خدمات انجام دینے والے سب فرشتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس ادارے میں کام کرنے والوں کی اکثریت محبِ وطن ہے ۔ یہ ملکی صحت کیلئے ایک فعال اور ضروری ادارہ ہے جو مختلف وجوہات کی بنا پر بدنام کیا جا رہا ہے ۔ اس ادارے نے نہ صرف ملک کے اندر بلکہ ملک سے باہر بھی متعدد بار اپنے ملک کی ساکھ کو مضبوط بنایا ہے اور کچھ ممالک میں پاکستان دُشمنی کو پاکستان دوستی میں بدلا ہے ۔ میں ہوائیاں نہیں چھوڑ رہا بلکہ ٹھوس حقائق کی بنیاد پر لکھ رہا ہوں

This entry was posted in پيغام, تجزیہ on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

5 thoughts on “خفیہ کے ادارے ۔ خوبی یا قباحت

  1. نازیہ

    اجمل انکل اس سیاست نے پورے ملک کا ہی بیڑا غرق کر دیا ہے۔ ہر ادارے میں ہر قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ لیکن جہاں برے لوگوں کی تعداد بڑھ جائے اس کی شہرت پھر بری ہی ہو گی ۔

  2. وھاج الدین احمد

    شکریہ بھائی
    میں نے سب “انیشلز” لکھ لئے ھیں سوائے سی آئی ڈی کے اور دوسرے مجھے معلوم نھیں تھے
    آپکا غیر جانبدارانہ تجزیہ (مبنی بہ حقیقت) آپکی دیش بھگتی کا غماز ھے

  3. تلخابہ

    افتخار بھی آپ نے مذاق ہی مذاق میں بہت کچھ کہہ دیا۔ ہم نے بھی آپ کی دیکھا دیکھی اردو میں بلاگنگ شروع کی۔ میرے بلاگ پر لنک موجود ہے۔ اصلاح کا طلب گار ہوں۔ دیگر دوستوں سے بھی یہی درخواست ہے۔ قبول فرما لیں۔اس کا لنک یہ ہے۔
    http://talkhaabau.wordpress.com/

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.