Monthly Archives: August 2009

عِلم والے

ایک عیسائی بادشاہ نے مندرجہ ذیل سوالات عمر رضی اللہ عنہ کو ارسال کئے اور ان کا جواب مانگا

1 ۔ ایک ماں کے شِکم سے دو بچے ایک ہی وقت ایک ہی دن پیدا ہوئے اور اُن کا ایک ہی روز انتقال ہوا ۔ ایک کی عمر سو سال بڑی اور دوسرے کی عمر سو سال چھوٹی ہے ۔ یہ کون تھے اور ایسا کیونکر ہو سکتا ہے ؟

2 ۔ وہ کون سی زمین ہے جہاں ابتدائے پیدائش سے قیامت تک صرف ایک وقت سورج نکلا ۔ نہ پہلے کبھی نکلا اور نہ آیئندہ کبھی نکلے گا ؟

3 ۔ وہ کونسی قبر ہے جس کا مدفون بھی زندہ تھا اور قبر بھی زندہ تھی ۔ قبر اپنے مدفون کو سیر کراتی رہی پھر مدفون قبر سے باہر آیا اور زندہ رہ کر فوت ہو گیا ؟

4 ۔ وہ کونسا قیدی ہے جس کے قیدخانے میں سانس لینے کی اجازت نہیں اور وہ بغیر سانس لئے زندہ ہے ؟

عمر رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا کہ جوابات لکھ دیں ۔

جوابات

1 ۔ دو بھائی عزیز علیہ السلام اور عزیر علیہ السلام ہیں ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے عزیر علیہ السلام پر ایک سو سال موت طاری رکھی پھر زندہ ہو کر گھر گئے ۔ کچھ دن زندہ رہ کر اپنے بھائی عزیز علیہ السلام کے ساتھ فوت ہوئے

2 ۔ وہ زمین دریائے قلزم کی تہہ ہے موسٰی علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو فرعون سے بچانے کیلئے اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے حُکم سے سورج نے بہت جلد خُشک کر دیا ۔ اس کے بعد پانی پھر بھر گیا اور فرعون مع اپنی فوج کے غرق ہو گیا

3 ۔ وہ مدفون اور قبر جو دونوں زندہ تھے یونس علیہ السلام اور مچھلی تھے ۔ مچھلی نے یونس علیہ السلام کو نگل لیا تھا اور سمندر یا دریا کی سیر کراتی رہی

4 ۔ جو قیدی سانس نہیں لیتا وہ ماں کے شِکم میں بچہ ہے ۔ اللہ نے ماں کے شکم میں بچے کے سانس لینے کا ذکر نہیں کیا

یہ جوابات پاکر عیسائی بادشاہ بولا “”شاید ابھی مسلمانوں میں کوئی نبی زندہ ہے کیونکہ یہ جوابات نبی کے علاوہ کوئی اور نہیں بتا سکتا” [احسن القصص صفحہ 262]

يکجہتی ؟

سیّد عدنان کاکا خیل نے مئی 2006ء کے سٹوڈنٹ کنوینشن میں جنرل پرویز مشرف کے سامنے پُراعتمادی کے ساتھ حقائق بیان کر ديئے تھے ۔ مجھے سیّد محمد حنیف شاہ صاحب نے عدنان خان جدون کی تقریر کا بتایا جو حالاتِ حاضرہ کے عین مطابق ہے اور بہت غور طلب ہے

رمضان کا احترام

ہم اگست 1964ء سے قبل جھنگی محلہ راولپنڈی رہتے تھے تو رمضان مبارک میں ایک میری عمر کا لڑکا کہا کرتا “یہ روجہ سے ہیں”۔ دراصل وہ کہتا تھا “يہ روز جیسے ہیں” یعنی روزہ رکھنے سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑا ۔ یہ بات آج تک اسلئے نہیں بھولی کہ ہر سال میں اس بات کو سچا پاتا ہوں ۔ اگر رمضان میں فرق دیکھتا ہوں تو کھانے پینے کی اشیاء کا ہوتا ہے ۔ روزہ رکھ کر لوگ سب اچھا بُرا اُسی طرح کر رہے ہوتے ہیں جس طرح عام دنوں میں کرتے ہیں

کچھ غور طلب باتیں

1 ۔ رمضان کوئی تہوار نہیں بلکہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے ہمیں اپنی تطہیر کا موقع دیا ہے ۔ روزہ اسلئے نہیں رکھنا چاہیئے کہ اردگر سب کا روزہ ہے یا نہ رکھوں گا تو لوگ کیا کہیں گے بلکہ یہ حدیث یاد رکھنا چاہیئے ۔ جبریل علیہ السلام نے کہا “تباہی ہو اُس پر جس نے ماہِ رمضان پایا اور اُس کی بخشش نہ ہوئی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس پر آمین کہا”
2 ۔ رمضان میں ویسا ہی کھانا پینا چاہیئے جیسا سارا سال کھاتے پیتے ہیں ۔ رمضان اچھی ماکولات کھانے یا اچھے مشروب پینے کا نام نہیں ہے اور نہ ہی بہت زیادہ کھانے پینے کا نام ہے
3 ۔ رمضان کے دوران کوشش کرنا چاہیئے کہ زیادہ وقت نماز اور تلاوت پر لگایا جائے نہ کہ ماکولات اور مشروب تیار کرنے میں ۔ اگر ساری نمازیں نہ پڑھی جائیں تو صرف ستائیسویں رات کی نماز کوئی فائدہ نہیں دے گی
4 ۔ سونے کیلئے گیارہ ماہ کافی ہیں ۔ رمضان میں فرض نمازوں کے ساتھ ساتھ نماز تراویح اور تہجد بھی پڑھنا چاہیئے اور جتنا ہو سکے تلاوتِ قرآن شریف بھی کرنا چاہیئے ۔ یہ برکات کا مہینہ ہے اس کا ایک پل ضائع نہیں ہونا چاہیئے
5 ۔ رمضان کا روزہ فاقہ کشی نہیں ہے کہ کھایا پیا کچھ نہیں اور وہ سب کچھ کرتے رہے جس سے اللہ نے منع فرمایا ہے
6 ۔ سحری کھانا چاہیئے ۔ اگر کسی وجہ سے دیر ہو جائے تو پانی کا ایک گھونٹ ہی پی لیا جائے ۔ اور اگر سحری کے وقت آنکھ نہ کھلے تو بھی روزہ پورا کرنا چاہیئے ۔ اگر روزہ نہ رکھا تو کفارہ لازم ہو گا
7 ۔ مغرب کا وقت ہوتے ہی روزہ افطار کر لینا چاہیئے ۔ تاخیر سے روزہ مکروہ ہو جاتا ہے ۔ اگر گھر سے باہر ہوں اور ڈر ہو کہ روزہ ایسی جگہ افطار ہو جائے گا جہاں افطار نہ کیا جا سکے تو اپنے پاس افطار کیلئے کچھ رکھ لینا چاہیئے
8 ۔ افطار کے وقت اتنی دیر تک نہیں کھاتے رہنا چاہیئے کہ مغرب کی نماز ہی قضا ہو جائے ۔ افطاری پارٹیوں میں ایسا دیکھنے میں آیا ہے
9 ۔ روزہ اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے رکھنا چاہیئے ۔ اس خیال کو دل میں جگہ نہیں دینا چاہیئے کہ سلِمِنگ ہو جائے گی
10 ۔ کسی کا روزہ افطار کرانا خواہ وہ رشتہ دار یا دوست ہو ثواب کا کام ہے لیکن شان و شوکت کیلئے افطاری پارٹی کرنا گناہ بن سکتا ہے کیونکہ اللہ نے نمائش اور اسراف دونوں سے منع فرمایا ہے

خفیہ کے ادارے ۔ خوبی یا قباحت

میں نے 20 اگست 2009ءکو جو طریقہ تفتیش کی جھلکیاں پیش کی تھیں ان سے یہ تاءثر پیدا ہو سکتا ہے کہ یہ خُفیہ ادارے نظامِ حکومت کا مُضر عضو ہیں ۔ حقیقت میں ایسا نہیں ہے ۔ تفتیش کرنے والے اداروں کا اصل کردار عوام سے مخفی رہتا ہے جو اندیشوں کا سبب بنتا ہے ۔ ان اداروں میں عام طور پر سب سے گھناؤنا کردار پولیس کا محسوس ہوتا ہے لیکن اس میں بھی اچھے یعنی مفید پہلو موجود ہیں ۔ ایسے بہت سے واقعات ہیں جن میں پولیس کے ملازمین نے وطن یا ہموطنوں کی خاطر اپنی جان تک قربان کر دی ۔ پولیس کی خرابی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ ادارہ قابض انگریز حکمرانوں نے ہندوستان کے شہریوں کی بہتری کی بجائے اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کیلئے بنایا تھا اور اسے آج تک عوام دوست بنانے کی کوشش نہیں کی گئی ۔ ان یا دوسرے اداروں کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے لوگ یہ بھُول جاتے ہیں کے ان میں کام کرنے والے لوگ بھی اسی معاشرہ کا حصہ ہیں جس کا نقاد خود ہے

پولیس کے تین خُفیہ ادارے ہیں ۔ فیڈرل انویسٹیگیشن اتھارٹی[ایف آئی اے] انٹیلی جینس بیورو [آئی بی] اور کرائم انویسٹی گیشن ڈیپارٹمنٹ [سی آئی ڈی] ۔ مسلحہ افواج کے ادارے ہیں ملٹری انٹیلی جنس [ایم آئی] انٹر سروسز انٹیلی جنس [آئی ایس آئی] ۔ سروسز انویسٹیگیشن بیورو [ایس آئی بی] اور فیلڈ انویسٹی گیشن یونٹ [ایف آئی یو] ۔ یہ سب ادارے قومی بہتری کیلئے بنائے گئے تھے اور انہوں نے عام طور پر خوش اسلوبی سے اپنے فرائض سرانجام دیئے ۔ حَکمرانوں نے ان اداروں کے افراد کو غلط کاموں پر لگا کر ان کا چہرہ مسخ کیا اور بعض اوقات ان سے قوم دُشمن کام بھی لئے ۔ پولیس کو تو عام طور پر اپنا کام نہیں کرنے دیا جاتا ۔ مسلحہ افواج کا ایک ادارہ جو ایف آئی یو کہلاتا ہے اسے بھی بعض اوقات غلط استعمال کیا گیا ۔ یہ بھولنا نہیں چاہیئے کہ معاشرہ بھی بتدریج بہت بگڑا اور یہ لوگ بھی معاشرے کا حصہ ہیں

میرا پہلا واسطہ ایک خفیہ ادارے سی آئی ڈی سے اُس وقت پڑا جب میں 1962ء میں پاکستان آرڈننس فیکٹری میں ملازمت اختیار کرنے کیلئے درخواست دی ۔ ایک دن سہ پہر کو میں گھر میں بیٹھا تھا کہ ایک پولیس والا آیا اور والد صاحب کا پوچھا وہ گھر پر نہیں تھے تو کہنے لگا “آپ اُن کے بیٹے ہیں ؟” میرے ہاں کہنے پر بولا “ایس ایس پی صاحب نے بُلایا ہے ۔ آپ سے کوئی بات کرنا ہے”۔ میں چلا گیا ۔ ایسی ایس پی صاحب کا گھر قریب ہی تھا ۔ میرا نام اور کام پوچھنے کے بعد کہنے لگے “تم انجنیئر ہو نا ؟” میرے ہاں کہنے پر بولے “آپ نے جو نوکری شروع کرنا ہے وہاں سے آپ کے متعلق انکوائری آئی ہے ۔ میں نے آپ کے متعلق اُس وقت انکوائری کی تھی جب آپ انجنیئرنگ کالج لاہور داخل ہوئے تھے ۔ کسی نے درخواست دی تھی کہ آپ جموں کشمیر کے رہنے والے نہیں ہیں بلکہ بھوپال کے رہنے والے ہیں اور آپ نے جموں کشمیر کی بنیاد پر داخلہ لیا تھا ۔ مجھے تفتیش کے بعد معلوم ہوا تھا کہ آپ جموں کشمیر کے رہنے والے ہیں اور داخلہ آپ نے میرٹ پر لیا تھا ۔ میرے پاس آپ اور آپ کے خاندان کی سب معلومات موجود ہیں اسلئے مزید کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ بھوپال صاحب کو بتا دینا کہ میں نے بُلایا تھا ۔ سب ٹھیک ہے”۔ میں واپس گھر آیا تو محلہ میں شور برپا تھا کہ اجمل بابو کو پولیس والا لے گیا

اس کے بعد ملازمت کے دوران مختلف خدمات انجام دیتے ہوئے آئی ایس آئی سے اتنا واسطہ پڑتا رہا کہ کئی فوجی افسران سے دوستی ہو گئی ۔ میں نے عام طور پر اُنہیں معقول پایا ۔ کبھی کبھی سرپھروں سے بھی واسطہ پڑا اور میرا خاصہ اُن کے ساتھ دنگل پڑا لیکن اللہ کی کرم نوازی کہ اخیر فتح سچ کی ہوتی رہی

جب ان اداروں میں سیاسی بلکہ ذاتی بنیاد پر عہدیدار ڈالے جاتے ہیں تو ظاہر ہے کہ وہ حُب الوطنی کی بجائے خودغرضی اپنا لیتے ہیں ۔ ایسے لوگ پھر اصل کی بجائے وہ معلومات اکٹھی کرتے ہیں جن سے وہ صاحب خوش ہوں جنہوں نے اُنہیں وہاں تعینات کیا ہے ۔ بدنامی کی بڑی وجہ ان اداروں کا سیاسی استعمال ہے ۔ ان اداروں سے یہ کام صرف ملک کے فوجی آمروں ہی نے نہیں بلکہ جمہوری طریقہ سے منتخب شدہ سربراہوں نے بھی لیا

میرے مشاہدہ کے مطابق مختلف ادوار میں کئی بار آئی ایس آئی کے عہدیداران نے بہت حُب الوطنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بڑی محنت اور عقلمندی سے معاملات نمٹائے اور غیرمحسوس طریقہ سے بڑے بڑے کام کئے ۔ اپنی تمام تر خرابیوں کے باوجود آئی ایس آئی کا ادارہ وطنِ عزیز کی صحت کیلئے ایک امرت دھارے کا کام کرتا ہے ۔ یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ اس ادارے میں خدمات انجام دینے والے سب فرشتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس ادارے میں کام کرنے والوں کی اکثریت محبِ وطن ہے ۔ یہ ملکی صحت کیلئے ایک فعال اور ضروری ادارہ ہے جو مختلف وجوہات کی بنا پر بدنام کیا جا رہا ہے ۔ اس ادارے نے نہ صرف ملک کے اندر بلکہ ملک سے باہر بھی متعدد بار اپنے ملک کی ساکھ کو مضبوط بنایا ہے اور کچھ ممالک میں پاکستان دُشمنی کو پاکستان دوستی میں بدلا ہے ۔ میں ہوائیاں نہیں چھوڑ رہا بلکہ ٹھوس حقائق کی بنیاد پر لکھ رہا ہوں

بلاگستان مانگے لطیفہ

کہا جاتا ہے کہ بقلم خود فدوی افتخار اجمل لطیفہ باز ہوا کرتا تھا یعنی لطیفے تیار کیا کرتا تھا ۔ جب کبھی فارغ بیٹھوں میرے گرد لڑکے لڑکیوں کا جھرمٹ بن جاتا اور لطیفے کا تقاضہ ہوتا ۔ لیکن زمانے کے تھپیڑوں نے ایسا لتاڑا ہے کہ اب مرثیہ کہوں تو کہوں لطیفہ وارد ہونا مشکل ہے ۔ البتہ ایک واقعہ یاد آیا ۔ 1987ء میں واہ چھاؤنی میں ویلفیئر کمپیوٹر سنٹر بنا تو اخبارات میں اشتہار بھیجا گیا ۔ ایک مشہور اُردو اخبار میں وہ اشتہار شائع ہوا

واہ کینٹ میں ویلفیئر کمپوٹر ٹریننگ سینٹر میں مندرجہ ذیل کورسز کا انتظام ہے ۔ الیکٹرانک ڈاٹا پروسیسنگ ۔ بیسک ۔ کوبول ۔ اور دیگر کمپیوٹر درخواستیں

انگریزی میں تھا

Electronic data processing, BASIC, COBOL and other computer applications

برکتوں کا مہینہ

سب بزرگوں ۔ بہنوں ۔ بھائیوں ۔ بھتیجیوں ۔ بھتیجوں ۔ بھانجیوں ۔ بھانجوں کو اور جو اپنے آپ کو اِن میں شامل نہیں سمجھتے اُنہیں بھی رمضان مبارک

اللہ آپ سب کو اور مجھے بلکہ تمام مسلمانوں کو رمضان کا صحیح اہتمام اور احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

آج پاکستان میں پہلا روزہ ہے ۔ روزہ صبح صادق سے غروبِ آفتاب تک بھوکا رہنے کا نام نہیں ہے بلکہ اللہ کے احکام پر مکمل عمل کا نام ہے

مہنگائی کیوں ؟

بچپن میں یعنی چار دہائیاں قبل تک ہم سُنا کرتے تھے کہ رزق کی قدر کرنا چاہیئے یعنی اسے ضائع نہیں کرنا چاہيۓ ۔ پانی ضائع کرنے پر بھی سرزنش ہوتی تھی گو اس زمانہ میں آج کی طرح پانی کی قلت نہ تھی ۔ عام دعوت ہوتی یا شادی کی دعوت ، لوگ اس طرح کھاتے کہ پلیٹ یا پیالے میں کچھ باقی نہ چھوڑتے کئی لوگ پلیٹ کو بھی اچھی طرح صاف کر لیتے جیسے اس میں کچھ ڈالا ہی نہ گیا تھا ۔ ہڈی پر کوئی گوشت کا ریشہ نہ چھوڑتا ۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اس زمانہ میں تھوڑے میں بھی بہت برکت ہوتی تھی اور لوگ خوشحال نظر آتے تھے

دورِ حاضر میں کسی دعوت کے بعد پلیٹوں میں گوشت ۔ چاول یا روٹی اتنی زیادہ پڑی پائی جاتی ہے کہ انہیں اکٹھا کرنا دوبھر ہو جاتا ہے ۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ تھوڑا کھانا ہو تو زیادہ ڈالا ہی کیوں جاتا ہے ۔ اگر اپنے پیٹ کا ہی اندازہ نہیں تو پہلے تھوڑا لیا جائے پھر اگر مزید بھوک ہو تو اور ڈال لے لیا جائے

عام سی بات ہے کہ جس کی عزت یا احترام نہ کیا جائے وہ دُور ہو جاتا ہے ۔ یہی حال اناج کا ہے ۔ آجکل اس کی قدر نہیں کی جاتی اسلئے یہ عوام سے دور ہوتا جا رہا ہے ۔ پانی کی بات کریں تو اس کی بہت قلت ہے لیکن جہاں پینے کا صاف پانی ہے وہاں سڑکوں پر بہتا نظر آتا ہے

بجائے اپنے آپ کو سُدھارنے کے دھواں دار تقاریر معمول بن چکا ہے ۔ ہر دم دوسروں احتساب کرنے والے کب اپنا احتساب کر کے اپنے اندر موجود برائیوں کے خلاف برسرِ پیکار ہوں گے ؟