Monthly Archives: June 2009

سرکار ۔ اذيّت کار

جن ممالک میں شناختی کارڈ رائج ہیں وہاں صرف غیر مُلکیوں کو جاری کردہ شناختی کارڈ محدود مدت کیلئے ہوتے ہیں اور مدت پوری ہونے پر تجدید کروانا پڑتی ہے لیکن اپنے لوگوں کیلئے ایک ہی بار شناختی کارڈ کا اجراء کیا جاتا ہے جو عمر بھر کیلئے کافی ہوتا ہے ۔ کچھ ممالک میں جن میں لبیا بھی شامل ہے بچے کے پیدا ہوتے ہی اُسے ایک شناختی نمبر دے دیا جاتا ہے ۔ یہ نمبر درسگاہ میں داخلہ سے لے کر علاج ، ملازمت اور پاسپورٹ حاصل کرنے وغیرہ کیلئے استعمال ہوتا ہے

وطنِ عزیز میں بھی شناختی کارڈ کا ایک بار ہی عمر بھر کیلئے اجراء ہوا کرتا تھا اور بآسانی مل بھی جایا کرتا تھا ۔ 2001ء میں حکومتی لال بجھکڑوں کو نمعلوم کیا سوجھی کہ ایک نئی قسم کا سلسلہ شروع کیا اور اس کیلئے جو سانچہ اور سافٹ ویئر خریدے گئے وہ 1970ء کی دہائی کے اوائل میں لبیا میں ڈرائیونگ لائسنس کے لئے استعمال ہوتے تھے اور 1980ء سے قبل ہی مسترد کر دیئے گئے تھے ۔ ڈرائیونگ لائسنس تو سمجھ میں آتا ہے کہ محدود مدت کیلئے ہونا چاہیئے لیکن قومی شناختی کارڈ کیوں ؟ مجھے لبیا میں جو ڈرائیونگ لائسنس 1976ء میں ملا اس کی معیاد 3 سال تھی ۔ 1979ء تک میرا کوئی چلان نہ ہوا تھا سو مجھے جو ڈرائیونگ لائسنس 1979ء میں دیا گیا اُس کی معیاد 10 سال تھی اور اس کا سانچہ اور سافٹ ویئر بدل چکی تھی ۔ اس کی خوبیوں میں سے ایک یہ تھی کہ اس کی نقل نہیں بنائی جا سکتی تھی

نادرا کا کمال یہ ہے کہ ابھی تک یعنی 8 سال گذرنے کے بعد بھی تمام بالغ پاکستانیوں کو شناختی کارڈ کا اجراء نہیں ہو سکا اور ايسے ہزاروں یا لاکھوں شناختی کارڈ جاری کئے گئے ہیں جن میں متعلقہ لوگوں کے کوائف درست نہیں لکھے گئے ۔ اس پر طرّہ یہ کہ جن شناختی کارڈوں کی صلاحیت 7 سال رکھی گئی تھی وہ قابلِ تجدید يعنی دوسرے لفظوں میں ناکارہ ہو چکے ہیں اور ان کی تعداد لاکھوں نہیں کروڑوں میں ہے

بطور نمونہ ملاحظہ ہو میرے خاندان کی صورتِ حال
ہم نے دسمبر 2001 میں 6 افراد کی درخوستیں جمع کرائیں
ہمیں 6 مارچ 2002ء کے اجراء کے ساتھ یہ شناختی کارڈ مارچ 2002ء کے آخر میں ملے
ان میں سے ايک کی مدت صلاحیت 28 فروری 2010ء کو ختم ہو گی
ايک کی 2011ء میں
ایک کی 2013ء میں
ايک کی 2014ء میں
اور 2 کی 2015ء میں
اپنے خاندان کے ساتویں فرد کا شناختی کارڈ 12 اگست 2003ء کو بنا تھا اور اس کی صلاحیت 31 جولائی 2010ء تک ہے
اس گورکھدندھے کی کیا منطق ہے وہ آج تک نادرا سمیت کسی کے علم میں نہیں ہے ۔ میں نے کچھ سال قبل نادرا کے ایک اعلٰی عہدیدار سے پوچھا تو اس نے جواب دیا “کچھ سال بعد لوگوں کی شکلیں بدل جاتی ہیں ۔ اسلئے تجدید ضروری ہے”
ميرا دوسرا سوال تھا کہ “آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا کہ میری شکل 8 سال بعد بدلے گی جبکہ میرے خاندان کے ایک فرد کی شکل 9 سال ، ایک کی 11 سال ، ایک کی 12 سال اور دو کی 13 سال بعد شکل بدلے گی؟”
اس سوال پر وہ پریشان تو ہوئے مگر خاموش رہے

موجودہ شناختی کارڈ سے قبل جو شناختی کارڈ تھا اس میں میرے گھرانے کا ايک ہی خاندان نمبر تھا
اب میرا ، میری بیوی کا ، بیٹی کا اور چھوٹے بیٹے کا خاندان نمبر ايک ہے
بڑے بیٹے اور اس کی بیوی کا خاندان نمبر کچھ اور ہے
اور چھوٹے بیٹے کی بیوی کا خاندان نمبر کچھ اور
اس کا عملی پہلو یہ ہے کہ نادرا سے قبل جو رجسٹریشن کا دفتر تھا وہاں جا کر اپنے خاندان میں سے صرف ایک کے شناختی کارڈ کا نمبر بتائیں تو وہ پورے خاندان کا احوال بتا دیتے تھے ۔ اب اگر نادرا والوں کو کسی خاندان کے تمام افراد کی فہرست چاہیئے ہو تو کئی دن یا ہفتے یا مہینے لگ سکتے ہیں

شناختی کارڈ کی تجدید کا مسئلہ ملک بھر میں اس سال کے شروع ہونے کے ساتھ ہی عوام کے لئے شدید مشکلات اور ناقابل بیان دردسری کا سبب بنا ہوا ہے کیونکہ جن شہریوں کو اپنے شناختی کارڈوں کی تجدید کے لئے نادرا کے دفاتر جانا پڑتا ہے شدید گرمی اور لُو کے موسم میں انہیں اپنی باری کا صرف ٹوکن لینے کے لئے ہی کئی گھنٹے باہر دھوپ میں کھڑا ہونا پڑتا ہے اور جب وہ ٹوکن لے کر نادرا کے متعلقہ اہلکاروں کے پاس پہنچتے ہیں یا تو کھانے وغیرہ کا وقفہ ہو چکا ہوتا ہے یا بجلی بند ہونے یا کسی دوسری وجہ سے کمپیوٹر کام نہیں کر رہے ہوتے ۔ یہ مرحلہ بھی طے ہو جائے تو پھر تجدید کے لئے بھی اعتراضات لگا کر لوگوں کو نئی تاریخ دے دی جاتی ہے

جب شناختی کارڈ شروع ہی میں پوری تصدیق اور تائید کے بعد بنائے جاتے ہیں تو ہر چند سال کے بعد ان کی تجدید کا ڈرامہ رچا کر لوگوں کو بلاوجہ پریشان کیوں کیا جاتا ہے ؟ اگر تجدید کا عمل بھی امریکی امداد کا حصہ ہے کہ مُلک کا حاکمِ اعلٰی بھی جس کی نفی کرنے سے قاصر ہے تو شناختی کارڈ اور کمپیوٹر میں موجود ڈاٹا میں کوئی فرق نہ ہونے کی صورت میں نادرا کی موبائل ٹیمیں شہریوں کے گھروں پربھجوا کر ان کی رہائش اور ضروری کوائف کی تصدیق کر کے انہیں موقع پر تجدید شدہ شناختی کارڈ فراہم کیا جا نا چاہیئے

۔سب سے زیادہ بہتر اور اصولی طریقہ ایک ہی ہے کہ جب ایک مرتبہ تفتیش اور تصدیق کے بعد کسی پاکستانی شہری کو شناختی کارڈ جاری کر دیا جاتا ہے تو پوری عمر اس کی تجدید کی ضرورت نہیں ہونی چاہئے

اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے حُکمران عوام کو کسی نہ کسی بہانے سرکاری دفتروں کے سامنے قطاروں میں کھڑا کرکے ان کی بے بسی اور پریشانی کا نظارہ کرنے کی بے حد شوقین ہیں اور جب تک وہ عام شہریوں کو کسی نہ کسی اذیت یا مصیبت میں مبتلا نہ کر لیں انہیں چین نہیں آتا

اچھا کیسے بنیں ؟

ملامت يا شکائت کرنے سے معاملات نہیں سدھرتے

جس عمل کی کسی کو فکر ہو ، وہ اُس کی اپنی ذمہ داری ہوتا ہے

دوسروں میں اچھائی تلاش کرنے والا اپنے آپ کو بہتر بناتا ہے

کسی کو کچھ دینے سے دینے والے کا ظرف بڑھتا ہے

کسی کی خُوبی کی تعریف کرنا ایک اچھا تحفہ ہے

کسی کی تخلیقی صلاحیت کی تعریف خود میں یہ صلاحیت پیدا کرنے کا مُوجب بنتی ہے

سرکاری تابعداری یا غداری

حسرت موہانی صاحب نے کم از کم چھ سات دہائیاں قبل کہا تھا

خِرد کا نام جنُوں رکھ دیا ۔ جنُوں کا خِرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

ليکن اُن کی وفات [1951ء] کے دو دہائیاں بعد “وفا” کے معنی “خودغرضی” اور سرکاری احکام کی پاسداری کو افسر کی تابعداری سمجھ کر ميرے ہموطنوں نے تنزل کی طرف جو دوڑ لگائی وہ تھمنے میں نہیں آ رہی ۔ دورِ حاضر میں قوم و مُلک کے مفاد کی جگہ ذاتی مفاد اور خود غرضی نے لے لی ہے ۔ وقت سے 8 سال قبل ریٹائرمنٹ مانگنے پر جو لوگ مجھے کہتے تھے کہ میں نے عقلمندی نہیں کی وہی کچھ سال بعد مجھے دُور اندیش بتانے اور کہنے لگے کہ “آپ بہت اچھے وقت چلے گئے تھے ۔ اب تو حال بہت خراب ہو گیا ہے”۔ میری ملازمت کے دوران جو حال تھا اُس کے فقط دو نمونے ملاحظہ ہوں

میں ستمبر 1988ء سے بطور سربراہ ایم آئی ایس [Management Information Systems] کام کر رہا تھا ۔ فروری 1991ء میں کچھ مال آرڈر کرنے کا ایک کیس ادارے کے چیئرمین صاحب کی طرف سے میرے پاس سفارش کیلئے آیا ۔ مطالع اور ماتحت عہدیداروں سے مشورہ کے بعد سودا ناقص ، مہنگا اور محکمہ کی ضروریات پوری نہ کرنے والا ہونے کی وجہ سے میں نے سفارش نہ کی اور کیس واپس چیئرمین صاحب کو بھيج دیا ۔ مارچ 1991ء میں والد صاحب کے شدید علیل ہونے کی وجہ سے میں نے اچانک چھٹی لے لی ۔ دو تین ہفتے بعد کسی کام سے دفتر گیا تو جس جنرل منیجر کو میں قائم مقام سربراہ بنا آیا تھا اُس نے بتايا کہ متذکرہ بالا کیس والا مال آرڈر ہو گيا ہے”۔ میں نے اُسے کہا “بغیر آپ کی سفارش کے ؟” تو کہنے لگے “کیس دوبارہ آیا تھا تو میں نے سفارش کر دی”۔ میں نے کہا “جو کچھ میں نے فائل پر لکھا تھا وہ آپ کا نظریہ بھی تھا پھر ناقص مال کی آپ نے سفارش کیوں کر دی ؟” وہ صاحب بولے “چیئرمین صاحب نے مجھے بُلا کر کہا کہ یہ کر دو تو میں نے کر دیا”۔ اس پر مجھے غُصہ آگیا اور میں نے کہا ” آپ پانچ وقت کی نماز پڑھتے ہیں ۔ کیا آپ کو نماز یہی سکھاتی ہے کہ آپ وطن یا ادارے کے لئے مُضر چیز کی سفارش کر دیں اور وہ بھی مہنگے داموں پر ؟” وہ صاحب بولے “بڑے افسر سے متفق نہ ہونا بہت مشکل کام ہے ۔ آپ کر لیتے ہیں ۔ آپ کی اور بات ہے”

میں نے پاکستان آرڈننس فیکٹریز میں یکم مئی 1963ء کو ملازمت شروع کی ۔ اگست 1966ء میں ایک پروجیکٹ کی منصوبہ بندی اور بالیدگی [planning & development] سے فارغ ہوتے ہی وسط 1966ء میں مجھے ایک اور پروجیکٹ دے دیا گیا ۔ میں دوسرے پروجیکٹ کی ابتدائی منصوبہ بندی کر چکا تھا کہ 10 اکتوبر 1966ء کو اچانک دوسری فیکٹری کے ایک بہت سینئر عہدیرار کو جو اعلٰی عہدیداروں کا منظورِ نظر تھا میرا باس [boss] بنا دیا گیا جبکہ اُسے متعلقہ کام کا کوئی تجربہ نہ تھا ۔ ہفتہ عشرہ بعد میں اپنے دفتر میں پراجیکٹ کی مفصل منصوبہ بندی میں منہمک تھا کہ وہ صاحب میرے سامنے والی کرسی پر آ کر بیٹھ گئے اور انگریزی میں گویا ہوئے “مسٹر بھوپال ۔ ملازمت میں وفاداری اہم حیثیت رکھتی ہے ۔ آپ کو باس کا وفا دار ہونا چاہیئے [Mr Bhopal! Loyalty to service is important. You should be loyal to your boss]”

میں نے آہستگی سے سر اُٹھا کر باس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا “جی [Pardon!] ؟” باس بولے “میں کہتا ہوں تمہیں اپنے باس کا وفا دار ہونا چاہیئے [I say, you should be loyal to your boss]”۔ میری کیفیت ایسی تھی کہ بات مغز میں نہیں گھُسی ۔ میں نے لمحہ بھر اپنے ذہن کو مجتمع کیا ۔ پھر میرے پیارے اللہ نے میرے منہ سے بڑے پُر وقار طریقہ سے یہ الفاظ نکلوائے

“میں سب سے پہلے اپنے دین اسلام کا وفادار ہوں ۔ پھر اپنے وطن پاکستان کا وفادار ہوں ۔ پھر میں اس ادارے پاکستان آرڈننس فیکٹریز کا وفادار ہوں کہ میری روزی کا بندوبست اس میں ہے ۔ میرا خیال ہے کہ آپ بھی اسی میں شامل ہیں ۔ اگر نہیں تو میں معذرت خواہ ہوں[I am loyal first to my religion “Islam”, then to my country “Pakistan”, and then to this organization “Pakistan Ordnance Factories” that is the source of my livelihood, and I think that you are fully covered, if not, then I am sorry] ”
میرے باس میز پر مُکا مار کر بلند آواز میں بولے “نہیں ۔ سب سے پہلے تمہیں اپنے باس کا وفادار ہونا چاہیئے [No, you should first be loyal to your boss]”

میں نے ایک نظر اپنے باس کی طرف دیکھا اور اُردو میں مؤدبانہ کہا “کیا میں نے کوئی گُستاخی کی ہے یا ایسی کوئی بات آپ کے عِلم میں آئی ہے جس کے باعث آپ یہ کہہ رہے ہیں؟”
میرے باس اُٹھ کر چلے گئے اور میں اپنے کام میں مشغول ہو گیا

میرے کچھ ساتھیوں نے اسے میری بیوقوفی قرار دیا تھا لیکن جو کچھ میں نے اپنے باس سے کہا تھا اور جو میرا ہمیشہ اصول رہا وہ حکومت پاکستان کی ملازمت کے اُن دِنوں رائج قوانین کے عین مطابق تھا ۔ ان کے متعلق میں 14 مارچ 2009ء کو تحریر کر چکا ہوں ۔ یہ قوانین قائد اعظم کی 25 مارچ 1948ء کی سرکاری ملازمین کو ہدائت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بنائے گئے تھے

اُس دن کے بعد میرے باس کے ریٹائر ہونے [1981ء] تک میرے باس نے مجھے ہر طرح سے زِک پہنچانے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی ۔ میرے باس کی مہربانیوں سے میری ترقی اسسٹنٹ ورکس منیجر سے ورکس منیجر ایک سال تا خیر کے ساتھ یکم جولائی 1969ء سے ہوئی جبکہ میں پونے تين سال سے قائم مقام ورکس منیجر کے طور پر کام کر رہا تھا ۔ شاید اور تاخیر ہوتی لیکن اتفاق سے میرے باس کا باس وہ شخص بن گیا تھا کہ ماضی میں جس کے ماتحت میں چھ ماہ کام کر چکا تھا ۔ اتفاق سے میری تعناتی لیبیا میں بطور “خبیر [Advisor]” ہو گئی جہاں میں مئی 1976ء سے مارچ 1983ء تک رہا ۔ میرے جانے کے بعد کچھ اعلٰی عہدیدار ملک سے باہر چلے جانے کی وجہ سے میرا متذکرہ باس ٹیکنیکل چیف بن گیا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ میرے لبیا ہونے کے دوران اِن صاحب کے 1981ء میں ریٹائر ہونے تک مجھ سے جونیئر 14 افسروں کو جنرل منیجر بنا دیا گیا اور پروموشن بورڈ میں میرے متعلق لکھا جاتا رہا کہ جب واپس آئے گا تو دیکھا جائے گا جو کہ قوانین کی صریح خلاف ورزی تھی اور کمال یہ کہ ہمارے ساتھ ایک اسسٹنٹ منیجر گیا تھا جو وہیں ہوتے ہوئے پہلے منیجر اور پھر جنرل منیجر بن گیا

میرے اُن باس کی ریٹائرمنٹ کے بعد اتفاق سے اُن کے بہترین دوست ٹیکنيکل چيف اور میرے باس بنے ۔ يہ دوسرے باس جب کسی کو ملتے تو لمبا چار لفظی سلام کرتے کہ جيسے اُن جيسا مُسلمان کوئی نہ ہو ۔ اوائل 1984ء میں جب میں پرنسپل ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹیٹوٹ تھا نئے تعلیمی نصاب مرتب کر کے منظوری کیلئے دوسرے باس صاحب کے پاس لے گیا ۔ اُنہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ کھیلوں کے 40 اور سوشل ورک کے 20 نمبر بھی شامل کروں ۔ اس طرح 1160 نمبر بنتے تھے ۔ میں نے 1200 پورے کرنے کیلئے 40 نمبر ایسے طالب علم کیلئے رکھ دیئے جو حافظِ قرآن اور قومی سطح کا قاری ہو ۔ دوسرے باس صاحب دیکھتے ہی بولے “ابھی سے ان کو مکّاری سِکھا دو”

قصہ کوتاہ ۔ متذکرہ حضرات کی پوری کوششوں کے باوجود گو تاخیر سے لیکن میری ترقی ہوتی رہی ۔ 1976ء کی بجائے 1981ء میں مجھے جنرل منیجر (گریڈ 19) بنایا گیا ۔ 1983ء کی بجائے 1987ء میں مجھے گریڈ 20 ملا اور 1988ء میں ایم آئی ایس کا سربراہ بنا دیا گیا ۔ ترقی میں تاخیر کے نتیجہ میں مالی پریشانی ہوتی رہی لیکن اللہ کی کرم نوازی رہی کہ روکھی سوکھی کھا کر چلتے رہے ۔ الحمدللہ ۔ اللہ نے ہمیشہ میرے دل کو مطمئن رکھا اور باوقار اور باعزت زندگی عطا کی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ میرا ضمیر مجروح نہ ہوا ۔ میں 4 اگست 1992ء سے يعنی مقررہ وقت سے 7 سال قبل اپنی مرضی سے ريٹائر ہوا ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی کرم نوازی ہے کہ جب بھی میں پاکستان آرڈننس فيکٹریز جاتا ہوں تو لوگ مجھے بہت تپاک اور احترام سے ملتے ہیں

حَسۡبِیَ اللّٰہُ ۫٭ۖ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ھوَ ؕ عَلَیۡہِ تَوَکَّلۡتُ وَ ھوَ رَبُّ الۡعَرۡشِ الۡعَظِیۡمِ

مُحَبَت

محبت ہر شخص کی ضرورت ہے
محبت کرو تاکہ تم سے بھی محبت کی جائے
محبت ایک ایسی جنس ہے جو بانٹنے سے کم نہیں ہوتی
محبت سب سے کیجئے بالخصوص اُس سے جو اس کا مستحق نہ ہو
محبت نامساعد حالات میں مل کر چلنے سے مضبوط ہوتی ہے

میں محبت کی بات کر رہا ہوں عِشق کی نہیں
کہتے ہیں جسے عِشق وہ خلَلَ ہے دماغ کا

Click on “Comparison – Barack Hussein Obama of 21st Cencury with Napoleon Bonaparte of 18th century” or write the following URL in browser and open to read a thought provoking article
http://iabhopal.wordpress.com/2009/06/18/

نیا بادشاہ ۔ ايک لطيفہ

ايک اعلٰی تعلیم یافتہ اور اعلٰی عہدیدار نے حال ہی میں مجھے ایک لطیفہ سنایا تھا ۔ کل اخبار میں حکومتی کارستانی کی ایک رپورٹ پڑھ کر خیال آیا کہ قارئین کی نذز کروں

شہروں سے جمہوریت کا شور جنگل میں پہنچا ۔ جنگل کی تمام جمہور یعنی تمام جانوروں کے نمائندوں کا اجلاس بُلایا گیا ۔ شیر کی نامزدگی پر بیلوں اور ہرنوں نے شور مچایا ۔ اسی طرح نامزدگیاں ہوتی رہیں اور اعتراضات ہوتے رہے ۔ آخر بندر باقی رہ گیا اور اس کے خلاف کسی نے شکائت نہ کی چنانچہ جمہور کے نمائندوں نے متفقہ طور پر بندر کو اپنا بادشاہ بنا لیا ۔ بندر نے اپنی تقریر میں جمہور کا شکریہ ادا کرتے ہوئے یقین دلایا کہ اب کسی پر ظُلم نہیں ہو گا ۔ ہر ایک کی سُنی جائے گی اور اس کی مدد کی جائے گی

کچھ روز بعد ایک چڑیا درخت پر اپنے گھونسلے میں اپنے دو ننھے بچوں کو لئے بیٹھی تھی کہ ايک سانپ درخت پر چڑھتا نظر آیا ۔ چڑیا اُڑ کر بندر کے پاس گئی اور سانپ سے بچوں کو بچانے کی درخواست کی ۔ بندر نے اُسی وقت ایک درخت پر چھلانگ لگائی پھر اُچھل کر دوسرے درخت پر گیا پھر تیسرے پر اور اس طرح کئی درختوں چھلانگے لگا کر واپس آیا اور چڑیا کو بتایا کہ “دیکھا ہم نے آپ کیلئے کتنی محنت کی ہے”

چڑیا جب واپس اپنے گھونسلے پر گئی تو دیکھا کہ سانپ اس کے گھونسلے کے قریب پہنچ چکا ہے ۔ وہ ہانپتی کانپتی پھر بندر بادشاہ کے پاس پہنچی اور بتایا کہ سانپ اسکے بچوں کے بالکل قریب پہنچ چکا ہے ۔ بندر نے پھر ایک درخت سے دوسرے ۔ دوسرے سے تیسرے پر اور اس طرح کئی درختوں چھلانگے لگائیں اور واپس آ کر کہا ” دیکھا ہم نے آپ کیلئے کتنی محنت و کوشش کی ہے”۔ چڑیا اپنے گھونسلے پر پہنچی تو سانپ اُس کے بچوں کو کھا چکا تھا

پاکستانی قوم کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی نہیں ہو رہا ؟
:smile:

ايک قاریہ کی فرمائش

پاکستان کے سب سے بڑے اور انواع و اقسام کے باسیوں والے شہر میں پَلی بڑھی اور رہائش پذیر ايک تعليم یافتہ قاریہ [جن سے تعارف میری تحریر اور شاید مجھ پر اُن کی تنقید سے ہوا تھا] نے میری ايک حالیہ تحریر پر تبصرہ کرنے کے بعد فرمائش کی ” فرمانبرداری کی تعریف ضروربتائیے گا”

ہرچند میں سمجھتا ہوں کہ محترمہ فرمانبرداری يا تابعداری کی تعریف خُوب جانتی ہیں ۔ محسوس یوں ہوتا ہے کہ میرا نظریہ جاننا چاہتی ہیں ۔ اگر میں اُنہی کی عمر کا ہوتا تو شاید کہتا کہ “میرا امتحان لے رہی ہیں”۔ لیکن میں نے ايسا کبھی نہیں کہا ۔ اپنا تو نظریہ ہے کہ ہماری وجہ سے کوئی خوش ہو جائے تو سمجھیئے کہ ایک لمحہ اچھا گذر گیا

محترمہ نے بتایا نہیں کہ مُدعا والدین کی فرمانبرداری ہے یا مجموعی فرمابرداری ۔ بہر کیف میں اسے والدین کے حوالہ سے ہی لوں گا کیونکہ میری جس تحریر پر تبصرہ کیا گیا وہ والدین کے بارے میں تھی ۔ ویسے بھی اپنے سے اعلٰی عہدیدار کی فرماں برداری کے متعلق ايک دو واقعات کو میں اپنی ڈائری سے بلاگ پر منتقل کرنے کا فیصلہ کر چکا تھا ۔ یہ فرمائش نہ آتی تو آج اس جگہ وہی شائع ہوتا

میرے نزدیک والدین کی فرمانبرداری کا مطلب ہے

1 ۔ حُکم کی بجا آوری جس میں جُرم یا گناہ یعنی ظُلم یا خیانت یا منافقت وغیرہ کا ارتکاب نہ ہو
2 ۔ خدمت اپنے جائز وسائل کے اندر رہتے ہوئے یعنی نان و نفقہ ، لباس ، رہائش، وغیرہ مہیا کرنا
3 ۔ صحت کا خیال رکھنا اور اس کیلئے کوشش کرنا
4 ۔ مؤدبانہ طریقہ سے پیش آنا یا گفتگو کرنا
5 ۔ اگر غلط حُکم دیں تو ردِ عمل صرف خاموشی

اب ملاحظہ ہو اللہ کا حُکم ۔ متعلقہ آیات کئی ہیں لیکن میں صرف چار کا حوالہ دوں گا جن سے مطلب واضح ہو جاتا ہے

سورت ۔ 9 ۔ توبہ ۔ آیت ۔ 23 ۔ اے اہل ایمان ۔ اگر تمہارے [ماں] باپ اور [بہن] بھائی ایمان کے مقابل کفر کو پسند کریں تو اُن سے دوستی نہ رکھو ۔ اور جو اُن سے دوستی رکھیں گے وہ ظالم ہیں

سورت ۔ 17 ۔ بنی اسرآءيل ۔ آیت ۔ 23 و 24 ۔ اور تمہارے رب نے فيصلہ کر ديا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرتے رہو ۔ اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو اُن کو اُف تک نہ کہنا اور نہ انہیں جھڑکنا اور اُن سے بات ادب کے ساتھ کرنا 0 اور عجزو نیاز سے ان کے آگے جھُکے رہو اور ان کے حق میں دعا کرو کہ اے پروردگار جیسا انہوں نے مجھے بچپن میں [شفقت سے] پرورش کیا ہے تُو بھی اُن [کے حال] پر رحمت فرما

سورت ۔ 29 ۔ عنکبوت ۔ آیت ۔ 8 ۔ اور ہم نے انسان کو اس کے والدین سے نیک سلوک کا حکم دیا اور اگر وہ تجھ پر [یہ]کوشش کریں کہ تو میرے ساتھ اس چیز کو شریک ٹھہرائے جس کا تجھے کچھ بھی علم نہیں تو ان کی اطاعت مت کر ۔ میری ہی طرف تم [سب] کو پلٹنا ہے سو میں تمہیں ان [کاموں] سے آگاہ کردوں گا جو تم [دنیا میں] کیا کرتے تھے

غور طلب حُکم “اُف نہ کرنے” کا ہے ۔ اُف انسان کہتا ہے جب اُسے تکلیف پہنچتی ہے ۔ سو مطلب یہ ہوا کہ والدین سے اگر تکلیف بھی پہنچے تو بُرا نہ مناؤ

ايسا کيوں ہوا ؟

ميری تحرير ” جنہوں نے مجھے انسان بنایا” پڑھ کر کچھ قارئین کرام نے تقاضہ کیا ہے کہ میں اپنے تاریخی مشاہدات کے حوالے سے وجوہات لکھوں کہ “ہم بحیثیت قوم اخلاق اور کردار کے بحران میں کیوں مبتلا ہیں؟”

وقتاً فوقتاً مُختلف موضوعات کے تحت میں قومی انحطاط کی وجوہات لکھتا رہا ہوں ۔ سب تحاریر تلاش کرنا بہت وقت مانگتا ہے ۔ جو تلاش کر سکا ہوں مندرجہ ذیل ہیں ۔ وقت ملے تو انہیں بھی پڑھ لیجئے
کچھ بات تنزّل کی
کسوٹی
معاشرہ ۔ ماضی اور حال
نیا سال ۔ معاشرے کی ترقی
اِرد گِرد کا ماحول اور ہماری مجبوریاں
اِنتخابات سے پہلے [اگر سب اِس اصول پر عمل کریں]

اب صرف اساتذہ کے تعلق سے لکھنا مقصود ہے ۔ جب میری تعلیم کا آغاز ہوا تو اُستاذ خواہ وہ پہلی جماعت کا ہو بڑے سے بڑا عہديدار بھی اس کا احترام کرتا تھا ۔ اس کی بہت سی مثالیں میرے مشاہدہ میں آئیں ۔ میں صرف اپنے ساتھ پیش آنے والا ايک واقعہ بیان کرتا ہوں ۔ میں نے 1962ء میں بی ایس سی انجیئرنگ کرنے کے بعد تدریس کا پیشہ اختیار کیا ۔ کچھ دن بعد میں بائیسائکل پر جا رہا تھا کہ پولیس والے نے میرا چالان کر دیا ۔ دوسرے دن میں ضلع کچہری پہنچا ۔ کسی نے بتایا کہ اے ڈی ایم صاحب کے پاس جاؤں ۔ میں ان کے دفتر گیا تو پتہ چلا کہ ڈی سی صاحب کے دفتر گئے ہیں ۔ میں ڈی سی صاحب کے دفتر چلا گيا ۔ چپڑاسی نے کہا “چِٹ پر اپنا نام اور کيا کام کرتے ہيں لکھ ديں”۔ چپڑاسی نے واپس آ کر اندر جانے کا کہا ۔ ڈی سی اور اے ڈی ایم صاحبان نے کھڑے ہو کر میرا استقبال کیا اور آنے کا سبب پوچھا ۔ میرے بتانے پر ڈی سی صاحب بولے “جناب ۔ آپ اُستاذ ہیں ۔ ہم آپ سے شرمندہ ہیں کہ آپ کو یہاں آنے کی زحمت کرنا پڑی ۔ آئیندہ کوئی کام ہو تو ٹیلیفون کر دیں یا کسی کو بھیج دیں ۔ ويسے آپ تشریف لائیں ہمیں آپ سے مل کر خوشی ہو گی”

ایک اس سے بھی پرانہ واقعہ ہے 1953ء کا جب میں دسویں جماعت میں پڑھتا تھا ۔ ہمارے سيکشن میں غلام مرتضٰے نامی ایک لڑکا بہت شرارتی تھا اور پڑھائی کی طرف بھی بہت کم توجہ دیتا تھا ۔ اس کے متعلق عام خیال یہی تھا کہ وہ کسی اُستاذ کی عزت نہیں کرتا ۔ ایک دن کوئی باہر کا آدمی سکول میں پرائمری کے ایک اُستاذ سے ملنے آیا اور اس کے ساتھ جھگڑنے لگا اور نوبت ہاتھا پائی تک پہنچی ۔ غلام مرتضٰے گولی کی طرح کمرے سے نکلا اور باہر سے آنے والے آدمی کو دبوچ کر دھکے دیتے ہوئے سکول سے باہر لے گیا ۔ اتنی دیر میں کچھ اساتذہ پہنچ گئے ۔ غلام مرتضٰے نے جو دیکھا تھا بیان کیا تو ہیڈ ماسٹر صاحب نے پوچھا کہ “تم نے ایسا کیوں کیا”۔ غلام مرتضٰے بولا “اُستاذ پر کوئی ہاتھ اُٹھائے ۔ میں بے غيرت نہیں ہوں کہ دیکھتا رہوں”

میرے طالب علمی کے زمانہ میں صورتِ حال ایسے تھی کہ نہ صرف میرے بلکہ سب طلباء کے والدین اساتذہ کا بہت احترام کرتے تھے ۔ اُستاذ کسی طالب علم کی پٹائی کرے تو طالب علم کی پوری کوشش ہوتی تھی کہ اسکے گھر والوں تک بات نہ پہنچے کيونکہ اسکی مزید پٹائی والدین سے ہونے کا خدشہ ہوتا تھا کہ اُستاذ نے کسی غلط حرکت کی وجہ ہی سے پٹائی کی ہو گی ۔ نہ صرف طلباء بلکہ اُن کے والدین بھی ساری عمر اپنے اور اپنے بچوں کے اساتذہ کی عزت و احترام کرتے تھے

پھر ايک دور آیا جسے “عوامی” کا نام دیا گیا ۔ اُس دور میں سب کو یہ سکھایا گیا کہ مُلکی نظامِ تعلیم کے پیروکار تعلیمی اداروں کے اساتذہ نیچ ہیں اور قابلِ سرزنش ہیں ۔ اساتذہ کے ساتھ گستاخی کے واقعات ہونے لگے ۔ کسی غلط عمل پر طالب علم کی سرزنش کرنا اساتذہ کے لئے مُشکل ہو گیا ۔ اسی پر بس نہ ہوا ۔ تعلیمی ترقی کے نام پر غیرسرکاری درسگاہیں ماسوائے غیرمُلکیوں کی ملکیت کے قومی تحویل میں لے کر اکثر اساتذہ کو کم تعلیم یافتہ ہونے کے بہانے سے چلتا کیا گیا ۔ اُن دنوں سرکاری درسگاہیں بہت کم تھیں مگر اکثر غير سرکاری درسگاہوں میں تعلیم کا معیار بلند تھا ۔ قومی تحویل میں لی گئی درسگاہوں میں حکومت کے منظورِ نظر تعینات ہوئے جن کو حکومت سے وفاداری کا زیادہ اور بچوں کی تعلیم کا کم خیال تھا جس کے نتیجہ میں تعلیمی انحطاط شروع ہوا

عوامی حکومت کی منصوبہ بندی کے نتیجہ میں مہنگائی یکدم بڑھی تو حکومت کے منظورِ نظر اساتذہ نے ٹیوشن سینٹر کھول لئے اور درسگاہوں ہی میں ان ٹیوشن سینٹروں کی اشتہار بازی کرنے لگے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے او اور اے لیول کے جھنڈے بلند ہونا شروع ہوئے ۔ ذرائع ابلاغ نے اپنی کمائی کے لئے اُن کی بھرپور اشتہاربازی کی ۔ ان او لیول والوں کی قابلیت کا مُختصر ذکر میں نے اپنی 16 مئی 2007ء کی تحریر میں کیا تھا

حکومت نے جلسوں اور جلوسوں کو بھرنے کے لئے درسگاہوں میں سیاست کو عام کیا اور درسگاہیں سياسی کٹھپتلیاں بن کر رہ گئے ۔ طُلباء اور طالبات میں محنت کا رحجان کم ہوا تو اسناد بکنے لگیں ۔ پرانے زمانہ میں دوران امتحان کبھی کبھار کوئی نقل کرتا پکڑا جاتا تو منہ چھپاتا پھرتا پھر برسرِعام نقل ہونے لگی اور امتحانی مراکز بکنے لگے ۔ سفید پوش والدین کے محنتی اور دیانتدار بچے مُشکلات کا شکار ہونے لگے مگر مجبور تھے کہ ان کے پاس بھاری فیسوں کیلئے رقوم نہ تھیں

کسی زمانہ میں خاندان کی بڑھائی کا نشان تعليمی قابلیت ۔ شرافت اور دیانتداری ہوتے تھے پھر بڑھائی یہ ہونے لگی کہ “ميرا بيٹا امریکن سکول یا سِٹی سکول ۔ یا گرامر سکول یا بيکن ہاؤس میں پڑھتا ہے۔ اور او لیول یا اے لیول کر رہا ہے”۔ استاذ کی خُوبیوں کی بجائے دولت اور اعلٰی عہديداروں سے تعلق کی عزت ہونے لگی

جس استاذ نے مجھے آٹھویں جماعت میں انگریزی پڑھائی تھی وہ خود دس جماعت پاس تھے مگر جیسا اُنہوں نے پڑھایا ويسا پڑھانا تو کُجا دورِ حاضر کا ایم اے انگلش ويسا لکھ بھی نہیں سکتا