فرق

مشرق اور مغرب کی دو منفرد تہذیبیں ہوا کرتی تھیں ۔ پچھلی تین دہائیوں میں ذرائع ابلاغ [جن کی اکثریت دين مخالف مادہ پرست لوگوں کے قبضہ میں ہے] کی تبليغ نقشہ نے بدلنے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ چند دن قبل میں ایک واقعہ کا حال پڑھ رہا تھا تو میری سوچ مجھے کئی دہائیاں پیچھے لے گئی جب میں پاکستان آرڈننس فیکٹریز میں ویپنز فیکٹری کا پروڈکشن منیجر اور دو بچوں کا باپ تھا ۔ ويپنز فیکٹری جس کا میں پروڈکشن منيجر تھا کے نئے سینئر انسپیکٹنگ آفيسر میجر منیر اکبر ملک تعینات ہوئے ۔ کچھ دن بعد وہ اپنی بیگم سمیت ہمارے گھر آئے ۔ گپ شپ ہوتی رہی ۔ جاتے ہوئے بولے “ہم نے ابتداء کر دی ہے ۔ اب یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیئے”

دو تین ہفتے بعد ہم رات کا کھانا کھا کر چلتے چلتے اُن کے ہاں پہنچ گئے ۔ اُن کی سرکاری رہائش گاہ ہماری سرکاری رہائش گاہ سے کوئی 500 میٹر کے فاصلہ پر تھی ۔ ميرا بڑا بیٹا زکریا تقریباً چار سال کا تھا اور بيٹی تقریباً دو سال کی ۔ ہم اُنہیں گھر ملازمہ کی نگرانی میں چھوڑ گئے کیونکہ میجر منیر اکبر کے ساتھ ہماری بے تکلفی نہ تھی ۔ جب ہم ميجر منیر اکبر کے گھر پہنچے تو اُن کا پہلا سوال تھا “بچے کہاں ہیں ؟” پھر کہا “آپ ڈيوٹی پر نہیں آئے کہ بچے گھر چھوڑ دیئے ۔ ابھی واپس جائیں اور بچے لے کر آئیں”۔ پھر اپنی کار میں مجھے لے کر گئے اور ہم بچوں کو لے کر آئے

دورِ حاضر میں بڑے شہروں میں رہنے والے والدین کی اکثریت معمول ہے کہ چھوٹے چھوٹے بچوں کو ملازمین پر چھوڑ کر شامیں اور راتیں موج میلے میں گذارتے ہیں ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ دورِ حاضر میں بہت کم بچے والدین کا مکمل احترام کرتے ہیں

This entry was posted in روز و شب, معاشرہ on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

8 thoughts on “فرق

  1. جعفر

    نظیر اکبر آبادی تو بہت دیر پہلے کہہ گئے تھے کہ
    کلجگ نہیں کرجگ ہے یہ
    یاں اس ہاتھ دے اور اس ہاتھ لے

  2. محمد سعد

    السلام علیکم۔
    جعفر بھائی کے تبصرے کو دیکھ کر ذرا اپنی “لیاقت” کا مظاہرہ کرنے کو جی چاہا۔ :)

    کلجگ نہیں کرجگ ہے یہ
    یاں دن کو دے اور رات لے
    کیا خوب سودا نقد ہے
    اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے

  3. عنیقہ ناز

    میں ایک پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں پیدا ہوئ۔ پلی بڑھی۔ اور اب ماشاللہ ایک سوا دوسال کی بیٹی کی ماں ہوں۔ میرے خاندان میں، میرے ماں باپ نے، میرے رشتےداروں نے اور خود میں نے آج تک ایک لمحے کے لئے اپنے بچوں کواکیلے یا ملازمین پہ نہیں چھوڑا۔ اس وقت جب میں یہ لائنیں لکھ رہی ہوں وہ میری گود میں ہے۔ آپ ان لوگوں کا کیوں تذکرہ کر کے شہر والوں پہ نافذ کردیتے ہیں جو پورے پاکستان کی آبادی کا ایک فی صد بھی نہیں اور جنہیں اس معاشرے کا طبقہ ء اشرافیہ یعنی سب سے دولتمند طبقہ ہونے کا شرف حاصل ہے یہ لوگ نہ اس ملک کی نماءندگی کرتے ہیں اور نہ اس نظام کی۔ فرمانبرداری کی تعریف ضروربتائیے گا۔

  4. مسٹر کنفیوز

    میرا خیال ہے جو حضرات نئے نئے والدین کے درجے کو پہنچے ہیں مجھ سمیت انکے لئے یہ تحریر ایک نصیحت سے کم نہی میں کبھی زندگی میں اپنے بچوں کے ساتھ اس طرح کا سلوک نہیں کروں گا ۔شکریہ۔۔۔۔۔۔۔۔اجمل بھائی

  5. افتخار اجمل بھوپال Post author

    ڈاکٹر عنيقہ ناز صاحبہ
    پہلے تو اپنی پیاری بیٹی جو میری پوتی کے برابر ہوئیں کو میری طرف سے شفقت بھرا پیار کیجئے ۔ ۔
    بھولی بی بی ۔آپ ماشاء اللہ روائتی مشرقی خاتون ہیں ۔ اسلئے پورے شہر کا حال نہیں جانتی ۔ آپ کی تحریر سے میں متفق ہوں ۔ صرف معمولی سی ترمیم ۔ ان نام نہاد اشرافیہ کی نقل کرنے والے بھی بڑے شہروں میں کئی موجود ہیں ۔
    جو بات آپ سمجھ گئی ہیں اس کی تعریف مجھ سے کیوں پوچھ رہی ہیں ؟ اگر آپ میرے منہ ہی سے سننا چاہتی ہیں تو انتظار کرنا پڑے گا ۔ کمپیوٹر کی 12 روز کی گڑ بڑ کی وجہ سے مجھ پر کافی اُدھار چڑھا ہوا ہے ۔ پہلے اُسے اُتارنا ہے :smile:

  6. شاہدہ اکرم

    مُحترم اجمل انکل جی
    السلامُ عليکُم
    اُمّيد ہے انکل جی آپ بخير ہوں گے ايک ايسی بات کو انکل جی آپ نے آج موضُوع بنايا ہے جو واقعی کبھی کبھار دِل کو بہُت تکليف ديتا ہے ليکِن شايد اب دُنيا کے اصُولوں ميں تھوڑی تبديلی ہو گئ ہے جبھی تو صِرف بڑے گھروں ميں نہيں عام مُتوسط طبقے کی خواتين و حضرات بھی اب بچوں کو ساتھ لے جانا پسند نہيں کرتے مُجھے ياد ہے ايک دفعہ ميری بيٹی نے اپنے ابُو سے کہا ابُو ميں اب کافی بڑی ہو گئ ہُوں کيا ايسا ہو سکتا ہے کہ ميں اکيلی پاکِستان جا سکُوں تو اِتنے تحمل والے ہونے کے باوجُودکہا تو صِرف ايک جُملہ کہ بيٹا جی کم از کم ميری زِندگی ميں تو بِا لکُل نہيں اور ميں يہ جُملہ سُن کر سنّاٹے ميں آگئ ،ليکِن يہی وُہ حق اور فرض ہے جو ہم محسُوس کرتے ہيں کہ ہميں اپنے بچوں کو جو دينا ہے وُہی کل کو ہميں واپِس مِلے گا اور انکل يہی وجہ ہے کہ جو بات ہم کبھی اپنے والدين کے سامنے آنکھ اُٹھا کر کہنے کی جُراءت نہيں رکھتے تھے آج بچے بہُت آرام سے کہہ ديتے ہيں ليکِن ميں اِسے ماں باپ کی دی گئ نا جائِز ڈھيل ہی کہُوں گی کہ ہر رِشتے کا اپنا ايک مُقام ہوتا ہے جو حد مُقرر کی گئ ہے اُسے عبُور کرنا زيب نہيں ديتا ميری پياری بہن نے جو کہا وُہ اِنتہائ درُست ہے ليکِن بہن ايسا ايک ہی گھر ميں پلنے والے چار يا پانچ بہن بھائيوں کے بچوں ميں بھی مُختلِف طريقوں سے ہوتا ہے ميرے سامنے کی ايسی بہُت سی مِثاليں ہيں ليکِن وجہ وُہی ہے گھر کی تربيت اوّل و آخِر اور بس
    تبصرہ طويل ہوگيا خاصا جِس کے لِۓ معزرت خوہ ہُوں
    انکل جی اپنا خيال رکھيۓ گا
    دُعاگو

  7. افتخار اجمل بھوپال Post author

    شاہدہ اکرم صاحبہ ۔ السلام علیکم و رحمة اللہ
    آپ کا مشاہدہ درست ہے ۔ نیک اور تابع فرمان اولاد ہونا اللہ کی نعمت ہے لیکن اسے حاصل کرنے کیلئے والدین کو محنت کرنا پڑتی ہے

  8. Pingback: What Am I میں کیا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ » Blog Archive » ايک قاریہ کی فرمائش

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.