Monthly Archives: June 2009

حکومت کی پسند کا اسلام کیوں ؟

امریکی تھِنک ٹَینک پاکستان میں حکومت کی پسند کا اسلام کیوں لانا چاہتے ہیں ؟
یہاں کلِک کر کے یا درج ذیل ربط کو براؤزر میں لکھ کر پڑھیئے ایک ہوشرُبا تجزیہ
http://iabhopal.wordpress.com/2009/06/30/state-sponsored-sufism-the-power-to-salve-why-are-u-s-think-tanks-pushing-for-state-sponsored-islam-in-pakistan/#respond

محترمہ بینظیر بھٹو منہاج القرآن کی رُکن کیوں بنیں ؟

اِک مُٹھ چک تے دوجی تیار

اُٹھ پاکستانی ہو جا تیار
منگلا ڈیم تمام مشینیں فنی خرابی کے باعث بند ہو گئیں ۔ اس سے ملک میں بجلی کا مجموعی شارٹ فال 4000 میگاواٹ تک پہنچ گیا ہے جس سے گجرات ، سیالکوٹ، گوجرانوالہ ، جہلم اور آزاد کشمیر سمیت کئی علاقوں میں شام تک بجلی معطل رہے گی

ماں

وقت کی رفتار اتنی تیز ہے کہ پتہ ہی نہیں چلتا ۔ آج میری محترمہ والدہ صاحبہ کو اس دارِ فانی سے رُخصت ہوئے 29 سال ہو گئےہیں ۔”وہ زمین پر ایک فرشتہ تھیں” یہ میں نہیں اُن سے ملنے والا ہر شخص کہتا ہے اور اُن کی زندگی میں بھی کہتا تھا ۔ میں اُن کیلئے کیا تھا اور وہ میرے لئے کیا تھیں اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے علاوہ ہم دونوں جانتے تھے یا شاید میری سب سے بڑی بہن کچھ جانتی ہوں گی ۔ جب محترمہ والدہ صاحبہ مجھے کچھ کہنے لگتیں میری تمام تر توجہ اُن کے چہرے کی طرف ہوتی تھی اور قبل اس کے کہ وہ منہ کھولتیں میں وہ کر دیتا یا کرنے لگ جاتا جو محترمہ والدہ صاحبہ کہنا چاہتی تھیں ۔ ایک بار محترمہ والدہ صاحبہ نے مجھ سے پوچھ ہی لیا “تمہیں کیسے معلوم ہو جاتا ہے کہ میں کیا چاہتی ہوں ؟” اس کا جواب آج بھی میرے پاس نہیں ہے ۔ یہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی کوئی خاص کرم نوازی ہی ہو سکتی ہے جو میرے عِلم میں نہیں

اللہ الرحمٰن الرحیم میری محترمہ والدہ صاحبہ کو جنت میں بلند مقام عطا فرمائے

ایک سوال

قائد اعظم کی تصاویر ايوانِ صدر اور ایوانِ وزیر اعظم سے ہٹا نا صرف اخلاقی پستی کا مظہر ہے بلکہ مُلک کے قانون کی خلاف ورزی بھی ہے مگر سوال یہ ہے کہ ایوانِ صدر اور ایوانِ وزیر اعظم میں بلاول زرداری کی تصویر کس قانون یا اصول کے تحت لگائی گئی ہے ۔ نہ تو بلاول حُکمران ہے اور نہ ایوانِ صدر اور ایوانِ وزیر اعظم آصف زرداری اور یوسف رضا گیلانی کے ذاتی گھر ہیں کہ جس کی چاہیں تصویر لگا دیں ۔ یہ جاہلیت اور کمینگی کی انتہاء ہے

عوام کے اعمال کا نتیجہ ہے کہ ان پر ایسے خود غرض ، کوتاہ اندیش اور گھٹیا سوچ کے مالک حکمران مسلط کر دیئے گئے ہیں
یا اللہ ہمیں سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرما

کیا واقعی قوم تباہ ہونے کو ہے ؟

میں دکھے دِل اور وزنی ہاتھوں سے لکھ رہا ہوں کہ جس قوم نے قوم کے باپ کی عزت نہ کی تاریخ گواہ ہے کہ اس قوم کا انجام عبرتناک ہوا
اب پڑھیئے اور بیٹھ کے رويئے اپنی قسمت کو

ایوان صدر اور وزیر اعظم ہاؤس میں ہونے والی تقریبات میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی تصاویر ہٹادی گئی ہیں۔دو روز قبل صدر آصف علی زرداری نے ایوان صدر میں ٹوئنٹی 20 ورلڈ کپ جیتنے والی کرکٹ ٹیم کے اعزاز میں ایک استقبالیہ دیا، اس موقع پر کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں نے صدرآصف علی زرداری، اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے ساتھ ایک گروپ فوٹو بنوایا۔ اسے موقع پر گروپ فوٹو کے پس منظر میں ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، بلاول بھٹو اور خود صدر زرداری کی تصاویر دیوار پرلگی ہوئی ہیں اسی طرح جمعے کے روز اسلام آباد میں انٹرن شپ ایوارڈ دینے کی تقریب میں وزیر اعظم مہمان خصوصی ہیں۔ اس موقع پر اسٹیج پر ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، صدر زرداری اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی تصاویر تو ہیں لیکن بانی پاکستان کی تصویر کہیں نظر نہیں آئی۔ایسی ایک تصویر میں صدر زردرای ڈاکٹر شعیب سڈل سے وفاقی محتسب کے عہدے کا حلف لے رہے ہیں لیکن پس منظر میں قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کی تصویر تو آویزاں نظر آرہی ہے لیکن قائد اعظم محمد علی جناح کی تصویر غائب ہے۔اسی طرح امریکی وفد سے ملاقات کے دوران بھی قائد اعظم کی تصویر کہیں نظر نہیں آرہی۔قانون کے تحت سرکاری افسران اور صدر اور وزیر اعظم کے دفاتر میں قائد اعظم کی تصاویر آویزاں کرنا لازمی ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

پڑھے لکھے راتوں رات اَن پڑھ ہو گئے

میکالے نے فارسی کو قتل کیا اور ہماری خواندہ آبادی راتوں رات اَن پڑھ قرار دے دی گئی ۔ اُس وقت مدرسے بقا کی جنگ نہ لڑتے تو جانے ہمارا کیا حال ہوتا ۔ تنقید کرنا آسان ہے اور نَکٹائی کی گِرہ ٹھیک کرکے ، ناک سکوڑ کر باریش نوجوانوں کو نگاہ غلط انداز سے دیکھنا چنداں مشکل نہیں ۔ لیکن جو جنگ مدارس نے لڑی ہے وہ ایک طویل جنگ تھی ۔ انہیں پیٹ پر پتھر باندھنا پڑے اور سفید چمڑی والوں اور اُن کے گندمی رنگ کے حواریوں کی بہت باتیں سننا پڑیں لیکن وہ ثابت قدم رہے اور تقسیم ہند تک اپنا کردار نبھاتے آئے

وہ جو مدارس میں پڑھ رہے ہیں کیا وہ ہمارے ہی لخت ہائے جگر نہیں؟ کیا وہ ہماری آنکھوں کی پتلیاں نہیں؟ کیا وہ پرائے ہیں اور ہمارے صرف وہ ہیں جو آکسفورڈ اور کیمبرج کے نصاب ازبر کر رہے ہیں؟ نہیں ۔ ہرگز نہیں ۔ یہ باریش نوجوان ہمارے اپنے ہیں ۔ ہمارے جسم کا حصہ ہیں ۔ ہمار ے دِلوں کے ٹکڑے اور ہماری آنکھوں کی روشنی ہیں ۔

اِن باريش جوانوں کے بھی کچھ حقوق ہیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان کے حقوق انہیں دئیے جا رہے ہیں؟ … ان کا پہلا حق… سب سے بڑا حق… یہ ہے کہ اِنہیں وہ تعلیم دی جائے جو انہیں آج کی دنیا میں کسی احساس کم تری کا شکار نہ ہونے دے اور انہیں بیچ میدان میں کھڑا ہونا پڑے تو ان میں سے ہر شخص احمد دیدات سے کم نہ ثابت ہو

مغلوں کے زمانے میں اور اس سے پہلے بھی مدارس کا نصاب اپنے وقت کے حوالے سے جدید ترین تھا ۔ سلطان سکندر لودھی کے زمانے میں ملتان کے دو بھائیوں [شیخ عبداللہ اور شیخ عزیز اللہ] نے اپنے زمانے کے جدید علوم… منطق ، ریاضی ، ادب فلسفہ اور ہیئت کو مدارس کے نصاب میں داخل کيا ۔ اورنگ زیب عالمگیر نے فتاویٰ عالمگیری مرتب کروایا تو مُلا قطب الدین سہالوی نے اس میں بہت کام کیا۔ اُن کے قتل کے بعد اُن کے بیٹے مُلا نظام الدین نے لکھنؤ میں طلبہ کیلئے جو نصاب مرتب کیا… وہی آج درس نظامی کہلاتا ہے ۔ انہوں نے یہ نصاب اپنے وقت کے حوالے سے جدید ترین بنایا تھا اور اس کے فارغ التحصیل طلبہ کا سرکاری ملازمتوں میں وہی مقام و مرتبہ تھا ۔ جو آج کل سی ایس ایس کا ہے ۔ منطق ، فلسفہ ، ریاضی ، تاریخ ، طب اور ہندسہ [انجینئرنگ] اس نصاب کا اہم حصہ تھا ۔ کل 79 کتابیں تھیں

ملا نظام الدین نے 1748ء میں وفات پائی۔ 261 سال ہو گئے ہیں کہ درس نظامی میں کوئی قابل ذکر تبدیلی نہیں ہوئی۔ بیرسٹر ظفر اللہ خاں نے جنہوں نے لندن میں قانون کی تعلیم حاصل کرنے سے پہلے سول سروس میں شمولیت اختیار کی اور اس سے بھی پہلے درس نظامی کے کنویں سے پانی پیا‘ ایک کتاب تصنیف کی۔ ’’اور زمانے کا خواب‘‘ اگر مالی استطاعت ہوتی تو ہر مدرسے کے ہر طالب علم اور ہر استاد کو اس کتاب کا ایک ایک نسخہ فراہم کرتا۔ بیرسٹر ظفر اللہ خان دل سوزی سے بتاتے ہیں کہ ’’تازہ ترین‘‘ کتاب بھی تین سو سال پرانی ہے جو درس نظامی میں پڑھائی جا رہی ہے۔ علم البلاغہ میں تلخیص المفتاح پڑھائی جا رہی ہے جو سات سو سال پہلے لکھی گئی ۔ عربی ادب میں مقامات [حریری اور ہمدانی] پڑھائے جاتے ہیں اور شاعری میں سبع معلقات‘ حماسہ اور متنبی! یہ سب کلاسیکی ادب ہے جدید کا تو ذکر ہی کیا ۔ متوسطین کی تخلیقات بھی نہیں پڑھائی جا رہیں۔ یہ ایسے ہی ہے۔ جیسے اردو ادب کے طلبہ کو ولی دکنی اور میر کے بعد کوئی اور شاعر کو نہ پڑھایا جائے۔

یہ اقتباس ہے اظہار الحق صاحب کے معلوماتی مضمون “مدارس ہمارے قلعے ہیں” سے جس میں وہ تاريخی حقائق مُختصر بیان کئے گئے ہیں جن سے دورِ حاضر کے پڑھے لکھوں کی اکثریت واقف نہیں ۔ بشکریہ ۔ نوائے وقت