میں کیا ہوں ؟

” میں کیا ہوں ” میرا دوسرا بلاگ ہے جو میں نے 5 مئی 2005ء کو شروع کیا جبکہ پہلا بلاگ میں نے 9 ستمبر 2004ء کو شروع کیا تھا ۔ میرا پہلا بلاگ سب کیلئے تھا اور ہے جبکہ یہ دوسرا بلاگ الگ موضوعات لئے بالخصوص ہموطنوں کیلئے شروع کیا تھا اور اُنہی کیلئے ہے ۔ شاید یہ حُب الوطنی کا جذبہ ہے کہ میں نے غیر محسوس طور پر اس بلاگ کو زیادہ وقت دینا شروع کر دیا ۔ میری خوش نصیبی کہ اسے ہمسایہ ممالک جیسے ایران ۔ افغانستان اور بھارت کے مسلمان بھائی بھی سعادت بخشتے ہیں ۔ کئی ایرانی اور افغانی بھائی اُردو پڑھ تو لیتے ہیں مگر لکھ نہیں سکتے ۔ اُن کی ای میلز مجھے فارسی میں آئیں ۔ مزید میرا یہ بلاگ پڑھا جاتا ہے چین ۔ امریکا ۔ افریقا ۔ فرانس ۔ جرمنی ۔ ہسپانیہ ۔ ہالینڈ ۔ اٹلی ۔ ڈنمارک ۔ سویڈن ۔ برطانیہ ۔ جاپان ۔ ملیشیا ۔ سنگاپور اور فلیپائن وغیرہ میں

میں 4 سال انتظار میں رہا کہ کو ئی مُتجسس قاری مجھے پوچھے کہ “یہ نام کیوں رکھا”۔ مگر ایسا نہ ہوا ۔ میرا مشاہدہ ہے کہ بہت کم قاری ایسے ہیں جو پوسٹ کے علاوہ کہیں اور نظر ڈالتے ہیں ۔ جہاں تنقید کا امکان ہو ۔ وہاں صفحات پُر ہو جاتے ہیں اور بعض اوقات بے معنی یا غیر متعلقہ تنقید کی جاتی ہے ۔ ایک بار میں نے تنگ آ کر ایک ناقد سے پوچھا کہ “جس پر آپ لکھے جا رہے ہیں وہ میں نے کہاں لکھا ہے ؟” میری سمجھ میں جو بات آئی ہے یہ ہے کہ عِلمی تجسس شاید اپنے وطن سے کوچ کر گیا ہے

اس بلاگ کی وجہ تسمیعہ یہ تھی کہ اپنے مطالعہ اور مشاہدہ کے اُن پہلوؤں کا اظہار کروں جو آئندہ نسل کیلئے سودمند ہو سکتے ہیں اور نئی نسل کو احساس ہو کہ “میں کیا ہوں” یعنی وہ جو کوئی بھی ہیں بحثیت انسان اُنہیں کیا کرنا چاہیئے

جہاں تک میری اپنی ذات کا تعلق ہے ۔ عام لوگوں نے مجھے سمجھا نہیں یا شاید لوگوں کے پاس کسی اور پر غور کرنے کا وقت ہی نہیں ہوتا ۔ جو مجھے سمجھے ان میں سے بھی اکثر نے لمبا وقت لگایا ۔ کبھی ایسا بھی ہوا کہ میری کہی ایک بات کی کسی کو تین چار سال بعد سمجھ آئی تو مجھے کہنا پڑا “مریض تو بغیر علاج کے مر کر دفن بھی ہو گیا ۔ اب کیا فائدہ ؟”

میری ایک عادت ہے کہ کوئی پوچھے “کیا ہو رہا ہے ؟” میں برملا کہتا ہوں ” اپنے دو کام ہیں کھانا اور سونا”۔ متعدد بار ایسا ہوا کہ سُننے والے نے سنجیدگی سے اسے سچ سمجھ لیا ۔ جبکہ میں کھانے سے پہلے ایک بڑا گلاس پانی پیتا ہوں اور کبھی پیٹ بھر کے نہیں کھایا خواہ کھانا کتنا ہی لذیز اور میرا دلپسند ہو ۔ 24 گھنٹوں میں کبھی 8 گھنٹے سے زیادہ نہیں سویا ۔ عام طور پر 6 گھنٹے سوتا ہوں ۔ شاید ۔ ۔ ۔ مجھے سمجھنا ہے ہی مشکل

جو قارئین کافی عرسہ سے میرا بلاگ پڑھتے آ رہے ہیں ہو سکتا ہے وہ میری خصلت سے کچھ آگاہ ہو گئے ہوں ۔ میں نے 19 مئی 2005ء کو “ایسا کرنا”کے تحت اپنی خصلت کا صرف ایک رُخ پیش کیا تھا جس کی وجہ سے بیوقوف ہونے کی سند ملی تھی

میری قسمت میں شاید صرف محنت و کوشش اور دوسروں کی خدمت لکھی ہے جو میں بچپن سے اب تک کرتا آ رہا ہوں ۔ میں اس کیلئے اپنے خالق کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے کہ محنت کرنے والا آدمی کبھی دُکھی نہیں رہتا اور نہ کبھی بازی ہارتا ہے ۔ رہی خدمت تو “ہر کہ خدمت کرد او مخدوم شُد” پر میرا یقین ہے

This entry was posted in روز و شب on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

30 thoughts on “میں کیا ہوں ؟

  1. علمدار

    اجمل انکل! کچھ لوگ نہیں بلکہ بہت سارے لوگ آپ کے بلاگ کو بہت توجہ سے پڑھتے ہیں اور آپ کے تجربے سے مستفید ہوتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے پاس ایسے الفاظ نہیں ہوتے جن سے وہ اس چیز کا اظہار کر سکیں۔
    اللہ تعالیٰ آپ کو صحت و تندرستی عطا فرمائے۔

  2. ارسلان نعیم

    پیارے ماموں جان – آپ ماشااللہ بہت اچہے ھیں یور بھت اچھا لکھتے ھیں- میں آپ کے بلاگ کا نیا قاری ھوں مگرباقا یدگی سے آپ کے بلاگ کی مطالعہ کرتا ھوں- آپ کے علم سے میں کافی مصتفید ھوا ھوں – اللہ آپ کی زندگی میں مزید برکتیں عطا فرماے آمین- آپ کے دعاوں اور نیک تمناوں کا طالب- آپکا اپنا بھانجا – ارسلان-

  3. ڈفر

    علمدار صاحب نے بالکل صحیح لکھا ہے
    کبھی ایسا ہوتا ہو گا کہ آپ کی کسی بات سے اختلاف ہوتا ہو یا تبصرہ نا کیا جاتا ہو لیکن میں آپ کا بلاگ ضرور پڑھتا ہوں۔ دوسروں کے تجربے سے سیکھنا میرا مشغلہ ہے اور آپ کی ساری فرسٹ ہینڈ انفارمیشن کو تو میں بالکل ازبر کر لیتا ہوں۔
    اور بلاگ کی سالگرہ کی مبارکباد بھی قبول کیجئے :smile:

  4. افتخار اجمل بھوپال Post author

    ڈِفر صاحب
    مبارک کا شکریہ اور التفات کیلئے جزاک اللہ خیرٌ
    میں ستّر سال کا تو ہو گیا لیکن آپ کو
    ڈ ِ ف ر
    ہی لکھ رہا ہوں ۔ کیا فائدہ ہوا مجھے تجربہ کا

  5. شعیب صفدر

    جناب آپ جیسے بزرگ کا اردو بلاگنگ میں نوجوان ساتھوں کی اپنے تجربے و مشاہدے کے روشنی میں تربیت و دانائی کی باتیں سمجھانا ایک احسن اقدام ہے!
    یہ تو لازم نہیں ہر تحریر کو پڑھ کر اُس تبصرہ کیا جائے!
    دوسرا اختلاف رکھنا بھی ہمارا یا ہر کسی کا حق ہے! کسی بھی معاملے میں!

  6. HAKIM KHALID

    پیارے انکل اجمل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    میرے لئے آپ ایک فیملی ممبر کی طرح ہیں۔۔۔۔۔۔ آپ کی بیشتر تحریریں ازبر ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ حالانکہ ان پر تبصرہ نہیں کر سکا۔۔۔۔۔۔۔ آپ کی نصیحت آموز تحریریں۔۔۔۔۔۔۔ اس سائبر ورلڈ میں ۔۔۔۔۔۔۔۔ جہاں۔۔۔۔۔ اصل دنیا میں پانی کی مقدار جتنا۔۔۔۔۔۔ غیر اخلاقی مواد بھی موجود ہے ۔۔۔۔۔۔ کسی بڑے کا احساس دلاتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ بلاگ کی سالگرہ مبارک۔۔۔۔۔۔ اور۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ اسی طرح لکھتے رہیں۔۔۔۔۔۔۔ اور۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالٰی آپ کو ایمان اور صحت کی بہترین حالتوں میں رکھے۔۔۔۔۔۔ آمین۔۔۔۔۔

  7. افتخار اجمل بھوپال Post author

    شعیب صفدر صاحب
    آپ نے درست کہا ۔ ہر تحریر پر تبصرہ نہ صرف یہ کہ ضروری نہیں ہوتا بلکہ بلاوجہ تبصرہ اچھی عادت نہیں ہوتی ۔
    اختلاف کر ہر کسی کا حق ہے اگر اختلاف نہ ہو تو ترقی نہیں ہو سکتی لیکن اختلاف برائے اختلاف مُضر عادت ہے ۔میں نے اُن مضامین کا ذکر کیا تھا جو پوسٹ کا حصہ نہیں ۔ ان میں اختلاف اور ترمیم کی گنجائش ہو سکتی ہے بلکہ کچھ مضامین میں ہے بھی ۔ مثال کے طور پر میں نے اپنا رابطہ سرورق دیا ہوا ہے لیکن کئی کارئین تبصرہ میں مجھ سے میرا رابطہ پوچھتے ہیں

  8. سعود

    میں علمدار اور ڈفر بھائی کی بات سے بالکل متفق ہوں۔

  9. راشد کامران

    آپ کو بلاگ کا ایک اور سال مکمل ہونے پر میری طرف سے مبارک ہو۔ آپ احسن طور اپنا کام انجام دے رہے ہیں اور اردو بلاگنگ کی دنیا میں آپ کی موجودگی تمام بلاگرز کے لیے نہایت اہم ہے۔

  10. وھا ج الد ین ا حمد

    ًمحترم بھایئ اجمل صاحب
    آپ کا گلہ درست نھین
    در حقیقت آپ کا بلاگ پڑھنے والے آپ کے ٹائتٹل –مین کیا ھون سے– اتنی اچھی طرح واقف ھو چکے ھین کہ کسی کا دھیان ھی وجہ تسمیہ پوچھنے کی طرف نھین جا سکتا
    گو مین آپ سے عمر مین بڑا ھون لیکن یہ حقیقت ھے کہ مین بھی آپکا بلاگ جب تک پڑھ نہ لون لگتا ھے دن شروع نھین ھئوا-اور آپ کی نھایت آرگنائزڈ زندگی آپ کے تجربون کو چار چاند لگاتی ھے مین منہ پہ تعریف کرنے والون مین سے نھین ھون لیکن جو لکھ رھا ہون جانتا ھون کہ تمام قاری مجھ سے اتفاق کرین گے
    مین بھی آپ کے بلاگ سے بھت کچھ سیکھتا ھون اور آپکے مشورے پر ھی مین بھی بلاگ لکھتا ھون-کبھی کبھی اچھی بات ذھن مین آ جاتی ھے تو لکھ کر خوش بھی ھولیتا ھون
    آپ کی تحریرین آپ کی شخصیت کی ایسی غمازی کرتی ھین کھ کسی کو –مین کیا ھون– کے متعلق سوال کی حاجت نھین رہتی آللھ آپ کو اسی طرح لکھتے رہنے کے لیےآپکی صحت بھی قائم رکھے۔ ھاتھ ذھن پائون اور نظر ایسی بیش بہا نعمتین ھین جو انسان – ٹیکن فار گرانٹد سمجھ لیتا ھے مین اس عمر مین اور اپنےذاتی اور پروفشنل تجربے کو دیکھون تو ھر لمحہ پروردگار باری تعالا کے لیے سجدہ شکر بجا لاتا ھون کہ اس نے بغیر پوچھے مجھ گنہگار کو سب کچھ دے رکھاھےآپ کے لیئے اس دعا مین یھی میری نیت ھے

  11. جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین

    محترم اجمل صاحب!
    اللہ سبحان و تعالٰی آپ کو اور آپ کے بلاگ کو دن دونی رات چوگنی ترقی دے۔ اور اللہ سبحان و تعالٰی اور بھی زورِ قلم پیدا کرے۔آمین
    بر سبیلِ تذکرہ میں نے ہمیشہ سوچا ہے کہ What Am I کا اردو ترجمہ میں کیا ہوں کی بجائے “میں کون ہوں” ہونا چاھئیے تھا۔ اور اب جبکہ آپ نے What Am I کا ترجمہ “میں کیا ہوں” کیا ہے تو ظاہر ہے اس کے پیچھے بھی کوئی خاص وجہ ہوگی

  12. غفران

    حقیقت تو یہ ہے کہ جب آپ کے بلاگ کا نام “میں کیا ہوں” پڑھا تھا تو پہلا خیال ذہن مین یہی آیا تھا کہ شاید یہ خود شناسی کے سفر میں نکلے کسی مسافر کی روداد ہو ،شاید زندگی کی حقیقت کے متعلق بلاگ ہو۔مگر جب پڑھنا شروع کیا تو پاکستان کے متعلق تھا۔آپکو تو اندازہ ہو گا ہی کہ اچھا خیال ذہن مین کم ہی ٹکتا ہے’ سو پڑھتے پڑھتے بھول ہی گیا کہ آپ کا بلاگ کھولا کس لیے تھا ، ورنہ شاید آپ سے پوچھ بھی لیتے۔

    یقین کیجیے،آپ کی زندگی کے تجربے سے ہم نوآموزوں کے سیکھنے کیلیے بہت کچھ ہے۔۔۔ روحانوی موضوعات پر کچھ لکھیے’ پڑھنے والے بہت ہوں گے۔

    واسلام

  13. ارسلان نعیم

    محترم جاوید گوندل صاحب-
    میرے خیال کے مطابق What Am I کا اردو میں ترجمہ “میں کیا ہوں” درست ھے-
    “میں کون ہوں” کا انگریزی میں ترجمہ بنتا ہے Who am I ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

  14. جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین

    میں کیا ہوں۔ میں آدمی کے اجزائے ترکیبی پہ بات ہوگی۔ اس کی سوچ۔ سمت۔ انداز۔اور ارداے وغیرہ پہ روژنی ڈالی جائے گی ۔ جبکہ آپ کا بلاگ معلوماتی بلاگ ہے نہ کہ آپ کا بلاگ آپ کی ذات کا احاطہ کرتا ہے ۔

    میں کون ہوں۔ میں آدمی کے تعارف اور شناخت و اہداف پہ بات ہوگی۔ اور ویسے بھی لازمی نہیں کہ انگلش کے اسلوب کو اردو اسلوب میں لفظ بہ لفظ ڈھالا جائے کہ بہت سی صورتیں ایسی ہوتی ہیں ہر زبان میں کہ ان کا لفظ بہ لفظ ترجمہ ناممکن ہوتا ہے ۔کیونکہ ایسا کرنے سے اصل مفہوم ختم ہوجاتا ہے۔

    میں کیا ہوں یا میں کون ہوں کو واضح کرنے کے لئیے اردو میں اس سے بہتر الفاظ ضرور ہونگے۔

  15. افتخار اجمل بھوپال Post author

    جاوید گوندل صاحب
    مجھ سے پہلے چِین میں رہائش پذیر میرے بھانجے نے آپ کے سوال کا جواب دیدیا ۔ “میں کون ہوں” اپنے متعلق ہر کوئی جانتا ہے ۔ کوئی مناسب اور کوئی ضرورت سے زیادہ ۔ لیکن میرا مشاہدہ ہے کہ “میں کیا ہوں” میرے بہت کم ہموطن جانتے ہیں ۔ اور میں نے یہی بتانا اپنے ذمہ لے رکھا ہے

  16. افتخار اجمل بھوپال Post author

    غفران صاحب
    تبصرہ کا شکریہ ۔ آپ نے تو بے نیازی میں لکھ دیا لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہماری قوم کی اکثریت کا یہ حال ہے کہ اُنہیں بھول جاتا ہے کہ چلے کہاں سے تھے اور یہی وجہ ہے قوم کے تنزل کی

  17. جعفر

    محترم ۔۔۔ آپ سے بہت کچھ سیکھا اور امید ہے کہ لمبے عرصے تک سیکھتے رہیں گے
    بلاگ کی سالگرہ مبارک ہو

  18. بلوُ

    آجمل صاحب آپ کا بلاگ واقعی بہت اچھا ہے اور ہم جیسوں کو آپ سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔
    اور ہماری یعنی بلو بلا کی طرف سے بلاگ کی سالگرہ کی مبارکباد قبول فرمائیں

  19. افتخار اجمل بھوپال Post author

    بِلُو صاحب
    آپ کا شکریہ ۔
    جان کی امان پاؤں اور آپ کے نام کا تجزیہ کیا جائے ۔ بِلُو یا بِلایا بِلُو بِِلا۔ بِلُو ہوتا ہے چھوٹا جو بڑا ہو کر بِلا ہو جاتا ہے تو بِلُو بِلا کا مطلب ہو چھوٹا بڑا یعنی سب ۔ کیا خیال ہے آپ کا اس تشریح کے بارے میں ؟

  20. افتخار اجمل بھوپال Post author

    جعفر صاحب
    شکریہ ۔ سیکھنا آپ کی خوبی ہے میری نہیں ۔ میرے دادا جان اللہ بخشے کہا کرتے تھے کہ جس نے سیکھنا ہوتا ہے وہ گندھی نالی کے کیڑے سے بھی کوئی اچھی بات سیکھ لیتا ہے اور جس نے نہ سیکھنا ہو اُسے عطار کی دکان میں رہ کر بھی خُوشبُو کا احساس نہیں ہوتا

  21. غفران

    محترم اجمل صاحب’ آپ نے اتنی اپنائیت سے تذکرہ کیا، اس کیلیے میں آپ کا مشکور ہوں۔

    قوم کے تنزل کی جو وجہ آپ نے بیان کی ‘ اس سے چنداں اختلاف نہیں کیا جا سکتا ۔ کیونکہ جب پتہ ہی نہ ہو کہ کرنا کیا ہے تو آدمی کرے گا کیا۔ کولہو کے بیل کی طرح محنت تو روز کرے گا مگر نتیجہ کچھ بھی نہیں۔ خود میرے ساتھ یہی معاملہ ہے ‘زندگی کی کوئی سمت نہیں، کسی چیز کا تعین ہی نہیں۔۔ یہ سوال کہ میں ہوں کیا۔ اکثر کو شاید بہت احمقانہ لگے ‘لیکن اگر یہ عقدہ کھل جائے تو شاید اس زندگی کا کوئی سر پیر نظر آئے۔ ابھی تو بس جاگتے ہیں، کھاتے ہیں ‘ سو جاتے ہیں۔ مگر پھر ڈرتا ہوں، کہ اگر جان لیا ‘ پھر اسکے ساتھ کوئی ذمہ داری بھی آ ئے گی، اور اگر جاننے کے باوجود غفلت کی ‘ تو کہیں زیادہ سزا نہ ملے/

    پتہ نہیں کیا لکھ گیا ہوں۔ معذرت

  22. افتخار اجمل بھوپال Post author

    غفران صاحب
    اپنی حقیقت کو پا لینا کچھ آسان کام نہیں ہے ۔ اس کیلئے اللہ کریم کی طرف سے رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے اور محنت بھی کرنا پڑتی ہے ۔ میں نے اپنے آپ کو جاننے کی ابتداء بہت چھوٹی عمر میں کی تھی ۔ یہ میرے اللہ کی خاص کرم نوازی کے بعد میرے بزرگوں بالخصوص میرے دادا اور میری والدہ اور اساتذہ کی تربیت کی وجہ سے ہوا ۔ میں اپنے آپ سے سوال کیا کرتا تھا جن میں اہم سوال تھا “میں کون ہوں کیا ہوں ؟” پھر خود ہی میں کہتا “یا اللہ مجھے تو کچھ پتہ نہیں میں کون ہوں کیا ہوں “۔
    مجھے چالیس سال کے بعد سمجھ آنا شروع ہوا کہ میں کیا ہوں اور مجھ پر اپنی خُوبیاں اور خامیاں عیاں ہونا شروع ہو گئیں ۔ جس سے مجھےبھرپور فائدہ اُٹھانے کا موقع میرے اللہ نے مہیا کیا

  23. صبا سیّد

    اسلامُ علیکم
    بلاگ کی سالگرہ مبارک ہوانکل۔ مبارکباد میں تاخیری کی وجہ، کچھ دنوں سے گھر کی شفٹنگ میں مصروف رہی، اور اس عرصے میں انٹرنیٹ بھی استعمال نہیں کیا، اب بھی وقت کم ہے، پاکستان بھی جانا ہے اس کی الگ تیاریاں۔
    خیر سے اب آپ کا بلوگ چار سال اور دو دن کا ہو چکا۔ بہت کچھ سیکھا آپ سے ۔ آپ کی کئی تحریروں سے مجھے (شاید ہم سب کو) فائدہ ہوا۔ لا تعداد اچھی باتیں سیکھیں، آپ کی مشکور اور ممنون ہوں۔ خدا آپ کا سایہ ہم پر ہمیشہ قائم رکھے اور ہم آپ کے تجربوں سے یوں ہی مستفید ہوتے رہیں۔ آمین۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.