احساسِ ذمہ داری

دورِ حاضر میں بڑی بڑی باتیں بڑے بڑے دعوے کئے جاتے ہیں مگر زمینی حقائق چُغلی کھا جاتے ہیں کہ یہ سب لاف بازی ہے ۔ ایک دور تھا جب حُکمران تقریروں کی بجائے اپنے عمل سے لوگوں کے دِلوں پر حُکمرانی کرتے تھے ۔ میں نے 17 مئی 2009ء کو جس کتاب کا ذکر کیا تھا ۔ اُس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے کردار اور رسول اللہ سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم سے اُن کی عقیدت کے واقعات درج تھے ۔ اُن میں سے ایک واقع جو بہت کم منظرِ عام پر آیا ہو گا

نظام الملک طوسی جو سلجوقی سلطان جلال الدین ملک شاہ کے وزیراعظم تھے نہایت دیندار ۔ ذہین اور حکومتی انتظامات کے ماہر تھے ۔ انہوں نے حکومتی انتظامات پر ایک نہایت بیش قیمت کتاب ”سیاست نامہ“ کے نام سے ترتیب دی تھی اس میں اچھی حکومت کرنے کے اعلیٰ طریقے اور حکمران کو وہ تمام اعمال کرنے کی ہدایت جو اس کو عوام میں ہر دل عزیز کر دیں بیان کئے گئے ہیں ۔ اپنے اس سیاست نامہ میں نظام الملک طوسی نے کئی دلچسپ واقعات بیان کئے ہیں جو ایک طرح سے ہدایت ہیں ۔ لکھتے ہیں

کہاوت ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے والد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے بوقتِ وفات دریافت کیا کہ اب ان کی ملاقات ان سے کب اور کہاں ہو گی ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگلی دنیا میں تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ وہ ان سے جلد ملاقات چاہتے ہیں ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ وہ ان کو خواب میں اسی رات یا دوسری رات کو یا تیسری رات کو ملنے آئیں گے لیکن بارہ سال تک عمر رضی اللہ عنہ بیٹے کے خواب میں نہیں آئے اور جب بارہ سال بعد آپ خواب میں تشریف لائے تو بیٹے نے شکایت کی کہ آپ نے تو فرمایا تھا کہ تین راتوں کے اندر اندر تشریف لائیں گے لیکن یہ تو بارہ سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے

عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ وہ بے حد مصروف تھے کیونکہ بغداد کے قرب میں ایک پل خستہ ہو گیا جو اُن کے زمانہ میں تعمیر ہوا تھا اور ذمہ دار لوگوں نے اس کی مرمت نہیں کی تھی ۔ ایک بکری کی اگلی ٹانگ ایک سوراخ میں پھنس کر ٹوٹ گئی تھی اور میں اس تمام عرصہ میں اس کی جواب دہی کرتا رہا ہوں

اس واقعے کا اخلاقی پہلو سب پر عیاں ہو جانا چاہیئے خواہ کارندے ہوں یا حُکمران یا عوام ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس مملکت خداداد پاکستان میں ہر شخص اپنی مرضی کا مالک ہے نہ کسی کا احتساب ہوتا ہے اور نہ ہی کسی کو سزا دی جاتی ہے ۔ سب بھُولے بیٹھے ہیں کہ روزِ محشر جو حساب ہو گا اور بہت سخت ہو سکتا ہے

This entry was posted in روز و شب on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

4 thoughts on “احساسِ ذمہ داری

  1. جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین

    اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے۔ ریاست میں خواہ وہ ایک معمولی بکری کی نا جائز طور پہ ٹانگ ٹوٹنے کا واقعہ ہو۔ یا ریاست کے کسی ایک فرد کی بھوک میں کاٹی ایک رات ہو۔ جوابدہ حکومت کے اکابرین اور سربراہ ہوتے ہیں۔ اس دنیا میں تو مفر ہو سکتا ہے ۔ مگر اللہ و سبحان تعالٰی سے کسی صورت مفر نہیں۔

  2. DuFFeR - ڈفر

    انکل یہ روشن آئینے ہمارے سیاد دلوں پر کیا اثر کریں گے؟
    جن پر اللہ کے کلام اور نبوت کا نور اثر نہیں کر سکا
    جیسے بگٹی وگٹی کہتا تھا کہ مر جانا ہے کیڑوں نے کھا لینا ہے بات ختم
    ویسے ہی ہمارے حکمران بھی سوچتے ہیں
    کہتے نہیں یہ الگ بات ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.