ہم کیا چاہتے ہیں ؟

تانیہ رحمان صاحبہ جو شاید ملک سے باہر رہائش پذیر ہیں نے حُب الوطنی کے زیرِ اثر اُڑتی خبروں سے پریشان ہو کر ایک تحریر لکھی ہے جس پر مختصر تبصرہ بھی طوالت کا متقاضی ہے اسلئے میں نے اسے اپنے بلاگ پر شائع کرنا مناب سمجھا ۔ اُمید ہے کہ اس سے دوسرے قارئین بھی مستفید ہو سکیں گے ۔

میری ہر لکھاری سے درخواست ہے کہ لکھنے سے قبل دوسروں کی دی ہوئی خبروں کی بجاۓ اپنے طور پر حاصل کردہ معلومات پر انحصار کیا کیجئے ۔ اس سے اپنی اور قومی صحت بُرے اثرات سے بچی رہے گی

ویسے تو ہر سکول ۔ مدرسہ ۔ جامعہ یا یونیورسٹی میں پڑھنے والے کو فارسی میں طالب کہتے ہیں جس کی جمع طالبان ہے لیکن جن کو پہلی بار سیاسی طور پر طالبان قرار دیا گیا ۔ ان کی ابتداء خواتین پر ظُلم بلکہ سنگین جرائم کے خلاف تحریک کے طور پر ہوئی چونکہ اس تحریک کو شروع کرنے والے لوگوں میں ایک مُلا عمر اُستاد تھا اور باقی آٹھ دس طالبان تھے اسلئے افغانستان کے لوگوں نے انہیں طالبان کا نام دے دیا ۔ ان طالبان کی نیک نیّتی کا نتیجہ تھا کہ افغانستان کے 85 فیصد علاقہ پر بغیر کسی مزاحمت کے ان کی حکومت قائم ہو گئی تھی ۔ افغانستان منشیات کا گڑھ تھا اور 1988ء میں سوویئٹ فوجوں کے انخلاء کے بعد سے بدترین خانہ جنگی کا شکار تھا ۔ حکومت سنبھالنے کے بعد مُلا عمر نے افغانستان میں امن قائم کیا اور منشیات کا خاتمہ کر دیا ۔ یہ وہ کام ہیں جو ان کے علاوہ آج تک اور کوئی نہ کر سکا

عام تآثر یہی دیا جا رہا ہے کہ طالبان ضیاء الحق نے بنائے ۔ ضیاء الحق 17 اگست 1988ء کو ہلاک ہو گئے تھے جبکہ طالبان ضیاء الحق کی وفات کے چھ سات سال بعد بینظیر بھٹو کے دوسرے دورِ حکومت [19 اکتوبر 1993ء تا 5 نومبر 1996ء] میں نمودار ہوۓ ۔ ضیاء الحق نے افغانستان میں انجنیئر گلبدین حکمت یار اور یُونس خالص وغیرہ کی مدد کی تھی جن کا مُلا عمر اور نام نہاد پاکستانی طالبان سے کوئی تعلق نہ ماضی میں تھا اور نہ اب ہے ۔ اصل طالبان اور نام نہاد پاکستانی طالبان میں ایک واضح فرق ہے ۔ اصل طالبان کی اکثریت کے پاس کوئی سواری نہیں ہے اور کچھ موٹر سائکل یا پک اُپ پر سفر کرتے ہیں جبکہ نام نہاد طالبان یعنی بیت اللہ محسود وغیرہ اور ان کے ساتھی قیمتی گاڑیوں پر گھومتے ہیں

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے کسی علاقے میں کوئی طالبان نہیں ہیں اور نہ پاکستان میں کی گئی کسی کاروائی سے طالبان کا تعلق ہے ۔ طالبان صرف افغانستان میں ہیں اور اُن کی تمام کاروائیاں افغانستان تک محدود ہیں اور وطن پر غیرمُلکی قابضوں کے خلاف ہیں ۔ پاکستان کے بیت اللہ محسود اور دیگر لوگ طالبان نہیں ہیں ۔ نہ اس بات کا کوئی ثبوت ہے کہ یہ لوگ کبھی مدرسہ میں گئے تھے اور یہ لوگ قرآن شریف پڑھنا جانتے بھی ہیں یا نہیں ۔ ان کو طالبان کا نام کسی طاقت نے اپنے کسی مزموم مقصد کیلئے دیا اور پھر ان کا بُت دیو ہیکل بنانے میں مصروف ہے ۔ اس سب کی آڑ میں نجانے کونسی گھناؤنی منصوبہ بندی ہے
دو وجوہ جو میری سمجھ میں آتی ہیں یہ ہیں
ایک ۔ اصل طالبان اور اسلام کو کو بدنام کرنا
دو ۔ پاکستان میں خانہ جنگی کی کیفیت پیدا کرنا تاکہ بڑی طاقت مداخلت کا جواز بنا کر پاکستان کے مغربی حصہ پر قبضہ کر لے تاکہ وسط ایشیائی ریاستوں کی معدنیات کی ترسیل کے راستہ پر اُس طاقت کا قبضہ ہو جائے

امریکا بغیر ہوا باز کے ہوائی جہازوں سے مزائل چلا کر پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ہزار سے زیادہ لوگوں کو ہلاک کر چکا ہے ۔ امریکا کا ہر بار یہ دعوٰی ہوتا ہے کہ وہاں فلاں فلاں ہائی ویلیو ٹارگٹ [high value target] تھا جسے ہلاک کیا گیا ۔ پھر کیا وجہ ہے کہ امریکا بقول اُمریکا ہی کے اتنے بڑے دہشتگرد بیت اللہ محسود پر مزائل حملہ نہیں کرتا جس کے سر کی قیمت امریکہ نے پچاس ملین ڈالر مقرر کر رکھی ہے ؟

بر سبیلِ تذکرہ ایک اور بات یاد آئی ۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ضیاء الحق نے پاکستان میں کلاشنکوف کلچر کو فروغ دیا ۔ ضیاء الحق نے ایسا کیا یا نہیں میں اس پر بات نہیں کروں گا ۔ میں صرف کلاشنکوف اور کلاشنکوف برداروں کی بات کروں گا ۔ کلاشنکوف [Kalashnikov Submachine Gun] ایک اسالٹ رائفل [Assault Rifle] ہے جو دنیا کی 50 افواج کے زیرِ استعمال ہے جن میں پاکستان شامل نہیں ہے ۔ یہ چیکوسلواکیا میں پہلی بار 1947ء میں تیار ہوئی اسلئے اسے اے کے 47 [A K 47] کہا جاتا ہے ۔ 1974ء میں اس میں کچھ ترامیم کے بعد اسے اے کے 74 کا نام دیا گیا ۔ اے کے 47 سوویٹ یونین کی فوج کے زیرِ استعمال تھی اور افغانستان پر قبضہ کرنے کے بعد اُنہوں نے اپنے زیرِ کمان آنے والے افغان فوجیوں کو بھی دی تھیں

رہے کلاشنکوف بردار تو پاکستان کے قبائلی علاقوں کی یہ ثقافت بہت پرانی ہے کہ ہر مرد اور بہت سی خواتین بھی بندوق یا دوسرا اسلحہ استعمال کرنا سیکھتے ہیں ۔ جب گھر سے باہر نکلیں تو مرد اور بعض اوقات خواتین بھی اپنے ساتھ اسلحہ رکھتے ہیں ۔ اس کی وجہ مختلف قبیلوں کے باہمی تنازعات بھی ہو سکتے ہیں اور باہر کے دُشمن بھی ۔ قبائلی علاقوں میں بہت سے گھر اسلحہ کے کارخانے بھی ہوتے تھے جن کا میں خود شاہد ہوں ۔ اللہ کے فضل سے پاکستان میں رائفل جی تھری اور مشین گن ایم جی فارٹی ٹُو [Rifle G 3 and Machine Gun MG 42 Model MG1A3P] نے میرے زیر نگرانی پرورش پائی لیکن میں آفرین کہہ اُٹھا تھا جب میں نے 1974ء میں ان قبائلیوں کے گھروں میں صرف مردوں کو ہی نہیں خواتین ۔ نابالغ لڑکوں اور نابالغ لڑکیوں کو لکڑی کی چارپائی کے پائے بنانے والی ہاتھ سے چلنے والی خراد پر بندوق کی نالی [Barrel] بناتے دیکھا تھا ۔ اب شاید یہ کارخانے ختم ہو چکے ہوں کیونکہ بڑی طاقتیں اپنے مزموم مقاصد کیلئے ہر قسم کا اسلحہ مُفت تقسیم کرتی رہتی ہیں جو کبھی کبھی اُن کے اپنے لئے مشکلات پیدا کرتا ہے

آج جسے دیکھو معاندانہ افواہ سازی کا شکار ہوا نظر آتا ہے کہ “وہ مدرسوں میں قرآن پڑھتے ہیں اور مدرسے اسلحہ کا گھڑ بن چکے ہیں”۔ کاش یہ افواہیں پھیلانے والے اور انہیں دہرانے والے کم از کم پاکستانی مسلمان کبھی ان مدرسوں میں سے کم از کم ایک کا چکر لگا کر خود اپنی آنکھوں سے دیکھیں کہ وہاں کیا ہوتا ہے اور وہاں اسلحہ ہوتا بھی ہے یا نہیں

اللہ مجھے اور میرے ہموطنوں کو سوچنے اور سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

This entry was posted in تجزیہ, روز و شب, معلومات on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

15 thoughts on “ہم کیا چاہتے ہیں ؟

  1. درویش

    آپ نے بہت عمدگی سے اس موضوع پر لکھا ہے۔
    جب تک کسی ایسے حساس موضوع پر آپ کا قلم گرفت کا حامل نہ ہو میرے خیال میں اس پر نہیں لکھنا چاہیے۔

  2. تانیہ رحمان

    پہلے تو بہت شکریہ جناب افتخار اجمل صاحب کا جھنوں نے میرے لکھے ہوئے پر اتنی نوازش فرما کر الگ بلاگ لکھا ۔ میں پاکستان سے دور ضرور ہوں لیکن میرا اکثر سال میں 2 دفعہ چکر لگتا ہے پاکستان کا ۔ میرا تعلق پشاور سے ہے اس لیے میں نے ان ابھی چند ماہ پہلے حیات آباد میں اپنی ان گناہگار انکھوں سے ایک بھری گاڑی میں نقاب پوش ہاتھ میں اسلحہ تھامے میری گاڑی کے قریب آ کر مجھے گاڑی روکنے کو کہا ۔ میرے ساتھ گھر کے باقی لوگ بھی تھے ۔ میں نے چادر سے اپنا منہ چھپا لیا ۔ اور گاڑی روک دی ۔ آپ یقین کریں مجھے کسی چیز کی پروہ نہیں تھی صرف اپنی عزت کا خیال تھا۔ جبکہ میں نے اپنے آپ کو مکمل پردے میں کیا ہوا تھا میرا قصور صرف اتنا تھا ۔ کہ میں گاڑی چلا رہی تھی ۔ انکی انکھوں میں ایک شطانی شرارت ، اور عجیب سا غصہ تھا۔ میرے ساتھ بیٹھے ہوئے میری فیملی کے افراد بھی خوفزادہ سانس روکے بیٹھے تھے۔ کہ اتنے میں فرنٹ سیٹ پر بیٹھے دو لوگ لمبی ڈاڑھی والے نے بند شیشے سے کچھ اشارہ کیا ۔ اور چل پڑے ۔شائد میری کوئی نیکی یا دعا کام آ گئی جو وہ چلتے بنے ۔طالبان جو بھی ہیں لیکن ہمارے سامنے جو نقشیہ پیش کیا جا رہا ھے یا جو میں نے اپنی انکھوں سے دیکھا ہے ۔ اگر وہ خدا نا کرئے کچھ کر جاتے تبمیں یقین کرتی کہ وہ طالبان ہیں ۔وہی بات جب اپنا پیٹ بھرا ہو تو کوئی بھوکا دکھائی نہیں دیتا ۔ جب تک ہم شخصی نظام سے نہیں نکلیں گئے ۔ ہم یہی کہیں گئے کہ طالبان کوئی نہیں ہیں ، میں تو ایک ایسے ملک میں بیٹھی ہوئی جہاں سکوں آرام ہے پھر میں لکھ لکھ کر کیوں اپنا وقت برباد کر رہی ہوں بے حسی کی چادر اوڑ کر سو جاوں ۔

  3. یاسرعمران مرزا

    طالبان کے افغانستان میں دور حکومت کے بارے میں میں پہلے بھی پڑھ چکا ہوں، طالبان کے دور میں افغانستان سے جرائم کا بڑی حد تک خاتمہ ہو گیا تھا اور امن و امان کی سی صورت حال تھی، پاکستان میں رہنے والے شدت پسند واقعی طالبان نیں ہیں، مگر جیسا کہ تانیہ صاحبہ بتا رہی ہیں، واقعی کچھ برے لوگ ضرور موجود ہیں ان علاقوں میں، جو شاید طالبان کا نام استعمال کر رہے ہیں یا کوئی اور طاقت ان کو یہ نام دے کر اپنا مقصد پورا کر رہی ہے
    بات دراصل یہ بھی ہے کہ دنیا کے میڈیا کے ایک بڑے حصے پر یہودی اور مغربی طاقتیں قابض ہیں ، اس لیے وہ کسی کو طالبان کہنا چاہیں یا کچھ اور، یہ کوئی مشکل کام نہیں، کوئی بھی جھوٹا واقعہ کہیں بھی ہوا ہو، اسے پاکستان سے منسوب کر دینا سب سے آسان ہے، اس سلسلے میں بھارت کی بھی یہی پالیسی ہے اور مغربی طاقتوں کی بھی، یہ ایک حقیقت ہے کہ آپ کا میڈیا جتنا طاقت ور ہو گا آپ دنیا کو کوئی بات بتا یا سمجھا سکیں گے

  4. افتخار اجمل بھوپال Post author

    تانیہ رحمان صاحبہ ۔ السلام علیکم
    میں آپ کے احساسات کی قدر کرتا ہوں ۔ میری زندگی بطور عملی مہندس اور منتظم کے گذری ہے اور ساری عمر میں اطلاقی نفسیات کا طالب علم رہا ہوں ۔ ادراکِ حقیقت یا توضیعِ حقیقت اور حقیقت میں بعض اوقات بہت فرق ہوتا ہے ۔ حقیقت اپنی جگہ اٹل ہوتی ہے جبکہ ادراک یا توضیع ماحول ۔ موقع محل ۔ ارادتاً اور غیر ارادی طور پر محصول شُدہ تربیت اور وقتی نفسیاتی حالت سے متاءثر ہوتی ہے ہر چند کہ ایسی صورت میں متعلقہ فرد کی بنیادی نیت کچھ اور ہو ۔
    دو سادہ سی مثالیں پیش کرتا ہوں ۔
    پہلی مثال ۔ ایک شخص ہے جسے میں کسی وجہ سے اچھا نہیں سمجھتا ۔ وہ مجھے بازار میں کہیں مل جاتا ہے اور مجھے دیکھتے ہی برے تپاک سے کہتا ہے “اسلام علیکم حضور ۔ مزاج کیسے ہیں ؟”
    عام طور پر میرا پہلا ردِ عمل یہ ہو گا ” اللہ خیر کرے ۔ یہ آج اتنا مہربان بننے کی کیوں کوشش کر رہا ہے ؟”
    اس کے مقابلہ میں مجھے ایک دوسرا شخص ملتا ہے جسے میں اچھا خیال کرتا ہوں وہ سلام کئے بغیر کہتا ہے “کدھر آوارہ گردی ہو رہی ہے ؟”
    عمومی طور پر میں اُس کے اسے بُرے فقرے کو دوستانہ قُرب سمجھوں گا ۔

    اس سلسلہ میں میرا ردِ عمل یا ادراک یا توضیع حقیقت بھی ہو سکتا ہے اور حقیقت کا اُلٹ بھی

    دوسری مثال ۔ کچھ دہائیاں پیچھے کا واقعہ ہے کہ وطنِ عزیز کے کسی علاقے میں دو بھائی قتل کے الزام میں گرفتار ہو گئے ۔ اُن کی ایک بہن تھی جس کا اُن کے سوا اس دنیا میں کوئی نہ تھا ۔ وہ ایک پیر کے پاس گئی ۔ پیر کے نائب نے عورت کو اکیلا پیر کے کمرے میں بھیجا اور دروازہ بند کر دیا ۔ پیر نے عورت سے کہا ” شلوار اُتارو “۔ عورت جو پیر کی مداح تھی مگر تھی پاکباز ۔ اُس نے شلوار کا ایک پائنچہ اُتارا تو اسے خیال آیا کہ یہ میں کیا کر رہی ہوں ۔ اُس نے دوسرا پائنچہ اُتارے بغیر پہلا بھی واپس پہن لیا اور کمرے سے باہر نکل گئی ۔
    اتفاق کی بات کہ اس کے ایک بھائی کو پھانسی ہو گئی اور دوسرا رہا ہو گیا ۔
    جو شخص اُس عورت کو پیر کے پاس لے کر گیا تھا وہ کہتا تھا کہ اگر وہ شلوار کے دونوں پائینچے اُتار دیتی تو دونوں بھائی بچ جاتے
    میں نے اُسے کہا کہ ایک پائنچہ اُتارنے کی اللہ نے سزا دی کہ ایک بھائی مارا گیا ۔ اگر اس عورت کا اعتقاد اللہ پر پکا ہوتا تو وہ پیر کی بجائے اللہ کے حُکم کا خیال کرتی اور شلوار اُتارنے سے صاف انکار کر دیتی اور اس کے دونوں بھائی بچ جاتے

    اس واقعہ میں پیر کا حُکم اور عورت کا عمل حقیقت ہیں لیکن توضیعات یا ادراک دو ہیں

  5. افتخار اجمل بھوپال Post author

    یاسر عمران مرزا صاحب
    ہماری قوم کے کچھ لوگ اُن بُرے یا نیم اچھے یا اچھے قبائلیوں کے پیچھے تو پڑے ہوئے ہیں لیکن شہروں میں جو ظُلم مالدار اور پڑھے لکھے لوگ ڈھا رہے ہیں اُس پر کوئی احتجاج نہیں کرتا ۔ تانیہ رحمان کے تبصرہ کا جوان جو میں نے لکھا ہے آپ بھی پڑھ لیجئے

  6. تانیہ رحمان

    جناب افتخار صاحب میرا علم نا ہونے کے برابر ہے ۔ یہ واقعہ میرے بچپن کا ھے ۔ اور ابیٹ آباد میں ایک پہاڑی کے اوپر اس پیر کا مزار ہے سننے میں آیا ھے کہ جب بھی پولیس اس کو پکڑ کر لے جاتی تو وہ جیل سے خوبخود رہا ہو جاتا ۔ اب وہ تو نہیں ہے اس کا بیٹا وہاں ہوتا ہے لیکن لوگ اب بھی جاتے ہیں ۔کیونکہ ایمان کی کمزوری ۔علم کی کمی ضیف العتقادی۔ یہ وہ باتیں ہیں جن پر ہم بہت فخر سے یقین رکھتے ہیں ۔خیر بات طالبان کی ہو رہی تھی ۔ اب تو سب کچھ صاف اور سامنے ہے ۔امن معائدے طے پا چکا بس اب اللہ سے دعا ہے ۔ کہ ملک میں امن ہو ۔چاہے وہ جو بھی لاتا ہے

  7. کامران اصغر کامی

    افتخار صاحب اسلام علیکم واقعی آپ بہت اچھی اور گہری بات لکھتے ہیں میرے جیسے آدمی کو آپ سے کافی کچھ سیکھنے کو ملے گا بہت شکریہ ۔۔۔

  8. جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ۔ اسپین

    محترم اجمل صاحب!

    آجکل جسے دیکھئیے۔ لٹھ لے کر اسلام کے پیچھے پڑا ہوا ہے۔ کسی کو اسلام کے بارے میں اپنی واجبی سی سوجھ بوجھ پہ اسقدر ناز ہے کہ وہ بڑے دھڑلے سے اسلام کو اپنے معیار کے مطابق ڈھالنے پہ لگا ہوا ہے۔ کوئی اپنے ذاتی تجرے کو اسلام جانچنے کا پیمانہ مقرر کرتا ہے ۔ ایسے بھی بھی ہیں جو اسلام سے سرے ہی سے نابلد ہیں مگر اسلام کی ایسی تشریح و تفضیل بیان کر تے ہیں کہ روح کانپ کر رہ جاتی ہے۔ اور اسلام کے خلاف لکھنے لکھانے اور دھڑلے سے مظاہرے کرنے والوں میں ایک بڑی اکثریت مغرب اور امریکہ کی تنخواہ دار این جی اوز کی ہے ۔ جنھیں پاکستان میں ہر قسم کی ناانصافی ، غربت اور مفلسی کے ہاتھوں اپنے بچے تک بیچنے والوں اور بھوک کے ہاتھوں اپنے معصوم بچوں سمیت خود کشیاں کرتی مظلوم عورتوں کے لئیے واجبی سا افسوس اور ایسے واقعات پہ مغرب نواز ، مغرب زدہ حکمران طبقے کی واجبی سی بھی مذمت کی تکلیف گوارہ نہیں ۔ مگر وہ کسی بھی موقعے پہ اسلام کے خلاف اپنا بغض نکالنے کو اپنا عین فرضِ منصبی سمجھتی ہیں ۔ خواہ ایسے کسی واقعہ پہ مسلمان چھوڑ امریکہ نواز حکومت اور ایسے واقعات کو سمجھنے والے لاھک دھائی دیں کہ یہ ویڈیو اصلی نہیں۔ اور اگر ہے بھی تو یہ ویڈیو اور اس میں اپنایا گیا اسلامی سزا کا طریقہ کار اسلام کے منافی ہے اور ہمارے ہر مسلک کے عالم نے ایسے ویڈیو واقعے کی ( اگر واقعتاً کوئی ایسا واقعہ ہوا ہو تو ایسی صورت میں) مذمت کی ہے اور اسے اسلام کے منافی قرار دیا ہے ۔ مگر صاحب اس کے باوجود میری قوم کی اسقدر ُ ہمدرد، اور اور پاکستانی قوم کا درد رکھنے والی این جی اوز ۔ اور خیر سے اس جتھے میں شامل انگلستان مقیم مافیا ہیڈ نما ایک سیاستدان ، اور پاکستان کے اند مغرب کے تکڑوں پہ پلنے والے ُ فکری بھکاریوں، چار چھ رکنوں پہ مبنی نام نہاد انسانی حقوق کی انجمنوں، اور میڈیا میں کچھ پیلی صحافت چمکانے والے ابن الوقتوں کے پیٹ میں اسلام کے خلاف اٹھنے والا مروڑ کم ہونے میں ہی نہیں آتا اور یہ طبقہ وطن عزیز میں ، ایک بعد دوسرے کسی ایسے واقعے کی تلاش میں رہتا جسے بنیاد بنا کر اپنے دلی بغض کا سارا ملبہ اسلام اور پاکستان میں ڈال دیا جائے۔

    ہم نے اسلام کی مخالفت کا حوالہ دیا ہے اور بہت سے احباب کہیں گے کہ پاکستان میں اسلام کی مخالفت تو کوئی نہیں کرتا ۔ تو عرض ہے کہ میں پیشگی وضاحت کیے دیتا ہوں۔ کہ یہ طبقے اسلام سےشناخت پانے والی تمام روایات اور اسلام سے نسبت رکھنے والے تمام طرز عمل کو بطور خاص نشانہ بنا کر دراصل اسلام کے خلاف اپنا بغض نکال رہے ہوتے ہیں ۔ ان طبقات میں ابھی وہ جرآءت نہیں آئی کہ کھلے عام اسلام کا نام استعمال کر کے یہ لوگ اپنی حقیقت کا پول نہیں کھولنا چاہتے ۔ ان کا طریقہ کار وہی ہے جو ہم آپ آئے روز دیکھتے ہیں ۔ مثلاً داڑھی پہ یا باریش مسلمانوں ۔ اسلامی سزاؤں ، یا اسلامی شریعت پہ براراست تنقید مظاہرے ۔ پریس کانفرسز ۔ وغیرہ اور آجکل ہر قسم کے اسلام منافی کاموں کو طالبان کا نام دے کر مسلمانوں کے خلاف بے بنیاد پروپنگنڈاہ ۔ ایسے لوگوں کا ٹارگٹ طالبان نہیں بلکہ اسلام کے لیے اپنے دل میں عقیدت و محبت اور احترام رکھنے والے عام مسلمانوں کی دل آزاری ہے ۔

    یہ تو اس طبقے کی مجبوری ہے کیونکہ یہ طبقہ جس کا کھاتا ہے ان کے اشاروں پہ انھی کے گیت گاتا ہے ۔ جو سمجھ میں آنے والی بات ہے کیونکہ وطن عزیز پاکستان میں جہاں اسلام کی حرمت پہ مر مٹنے والوں کی کمی نہیں وہیں کچھ ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں ۔ جو نسبتاً بہت کم تعداد میں ہیں آٹے میں نمک سے بھی بہت کم ۔ مگر ہیں ضرور جو ملک کو ھی بیچ کر دام کھرے کرنے کے چکر میں ہیں اور جن میں ایک خاص اقلیت وہ بھی شامل ہے جس کا موجد ہی انگریز بادشاہ ہے تو پھر بھلا پاکستان اور پاکستان کے مسلمانوں کو بیرونی دشمنوں کی کیا ضرورت ہے ۔ اور انہی عناصر نے کمال سازشوں اور اپنے بیرونی آقاؤں کی ھدایات پہ آج تک پاکستان کو کوئی سمت نہیں پکڑنے دی اور ہم ساٹھ باسٹھ سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود، موسٰی علیۃ والسلام سے بد عہدی کی بناء پہ بنی اسرائیل کے گمشدہ قبیلے کی طرح نصف صدی سے زیادہ ایک ہی دائرے میں سفر کر رہے اور دائرے کا قطر ہر دن تنگ ہوتا جارہا ہے۔

    تانیہ بی بی!
    آپ نے تحریر کیا ہے ۔

    ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔میرا تعلق پشاور سے ہے اس لیے میں نے ان ابھی چند ماہ پہلے حیات آباد میں اپنی ان گناہگار انکھوں سے ایک بھری گاڑی میں نقاب پوش ہاتھ میں اسلحہ تھامے میری گاڑی کے قریب آ کر مجھے گاڑی روکنے کو کہا ۔ میرے ساتھ گھر کے باقی لوگ بھی تھے ۔ میں نے چادر سے اپنا منہ چھپا لیا ۔ اور گاڑی روک دی ۔ آپ یقین کریں مجھے کسی چیز کی پروہ نہیں تھی صرف اپنی عزت کا خیال تھا۔ جبکہ میں نے اپنے آپ کو مکمل پردے میں کیا ہوا تھا میرا قصور صرف اتنا تھا ۔ کہ میں گاڑی چلا رہی تھی ۔ انکی انکھوں میں ایک شطانی شرارت ، اور عجیب سا غصہ تھا۔ میرے ساتھ بیٹھے ہوئے میری فیملی کے افراد بھی خوفزادہ سانس روکے بیٹھے تھے۔ کہ اتنے میں فرنٹ سیٹ پر بیٹھے دو لوگ لمبی ڈاڑھی والے نے بند شیشے سے کچھ اشارہ کیا ۔ اور چل پڑے ۔شائد میری کوئی نیکی یا دعا کام آ گئی جو وہ چلتے بنے ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

    بی بی!
    آپ سے کس نے کہہ دیا کہ مذکورہ بالا افراد آپ کو خدا نخواستہ اٹھا کر لے جانا چاہتے تھے کیونکہ کہ آپ حیات آباد پشاور میں گاڑی چلا رہی تھیں۔؟

    آپ کو کیسے علم ہے کہ جیسا کہ آپ نے لکھا کہ آپ کی گناہگار آنکھوں نے دیکھا۔۔۔ انکی آنکھوں میں ایک مخصوص شیطانی شرارت تھی؟ کیا آپ کو اس مخصوص شیطانی شرارت جانچنے یا بھانپنے کا کوئی تجربہ ہے۔۔؟ میرے اس سوال پہ مجھے لعنت ملامت مت کی جیے گا ۔ کیونکہ آپ نے اپنے تجربے کو بنیاد بنا ایسی شیطانی شرارت کو پرکھنے کی بات دھڑلے سے لکھی ہے اور اس حوالے سے طالبان کو بنیاد بناتے ہوئے برا راست عام لوگوں کو اپنے نشانے پہ لیا ہے جو اسلام سے محبت رکھتے ہیں ۔

    اور میرا آخری سوال آپ سے یہ ہے آپ کو کیسے علم تھا کہ وہ طالبان ہی تھے اور لمبی لمبی داڑھیوں والے اگلی سیٹوں پہ بیٹھے انکو گاڑی چلاتی لڑکیوں کو اپنی مذموم شیطانی خواہشات کی تکمیل کے لیے روکنے یا نا روکنے کے لیے بیٹھے ہوئے تھے ۔ کیونکہ سب قارئین اکرام کی طرح میرے علم میں کوئی ایسا واقعہ کم از کم پشاور جیسے شہر سے متعلقہ نہیں کہ گاڑی چلاتی کسی لڑکی کو طالبان اتنی دیدہ دلیری سے اپنی مذموم شیطانی خواہشات کی تکمیل کے لیے محض اس لئیے اٹھا کر لے گیے ہوں کہ وہ پردے میں ہونے کے باوجود پشاور جیسے شہر میں گاڑی چلا رہی تھی ۔ ؟ وہ کوئی بھی ہوسکتا تھا ۔طالبان کی بجائے کسی جرائم پیشہ گروہ کے افراد بھی ہوسکتے تھے تو پھر آپ نے سارا نزلہ طالبان پہ ہی کیوں اتارا؟

    تانیہ بی بی!
    آپس کی بات ہے۔ ویسےکہ جب کچھ نقاب پوش آپ کی گاڑی روک رہے تھے ۔ انکے ھاتھ میں اسلحہ تھا ۔ افراد خانہ کی خیریت گاڑی کے چھن جانے کا خوف اور آپ کو اپنی عزت کی بھی فکر تھی ۔ ایسے میں جب کہ بڑے بڑوں کا پتا پانی ہوجاتا ہے آپ نے کمال بہادری مظاہرہ کیا کہ جب انسان کو محض اپنی جان بچانے کی سوجھتی ہے آپ نے ان کے بارے میں اسقدر جزئیات بھی جان لیں بلکہ انکی آنکھوں کی شیطانی شرارت بھی پرکھ لی آپ کے حوصلے کی داد نہ دینا کم ظرفی ہوگی –

    تانیہ بی بی!
    میں عرض کر چکا ہوں کہ ایک مخصوص طبقے کو پاکستان اور اسلام سے اپنا بغض نکالنے کی اپنی مالی و دیگر مجبوریاں ہیں ۔ مگر آپ کی کونسی ایسی مجبوری ہے جو آپ نے آؤ دیکھا نا تاؤ اور مسلمانوں پہ چڑھائی کر دی ہے؟

    بی بی! وہ پاکستان ہے ۔ اور وہاں خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت ہے۔ پاکستان کے اکثر بڑے شہروں میں خواتین گاڑی چلاتی نظر آتی ہیں ۔

    اللہ سبحان و تعالٰی ہم سب کو ھدایت دے۔آمین

    نوٹ:۔ یہ رائے تانیہ بی بی کے بلاگ پہ بھی لکھ رہا ہوں ۔

    جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ۔ اسپین

  9. افتخار اجمل بھوپال Post author

    ثانیہ رحمان صاحب
    دورِ حاضر میں ذرائع ابلاغ نے عام لوگون کو حق اور سچ سے بہت دُور کر دیا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ جو کچھ سوات میں نئے قانون کے بارے میں ذرائع ابلاغ اور نام نہاد سول سوسائٹی مع ایم کیو ایم کہتے رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ۔ سوات میں شریعتِ محمدی نافذکرنے کا کوئی معاہدہ نہیں ہوا ۔ کاش ایسا ہوتا ۔ وہاں ایک پرانے نظامِ عدل ریگولیشن کو کچھ ترمیم کے ساتھ نافذ کیا گیا ہے جو ظاہری صورت میں شریعی نظامِ عدل سے متشابہ ہے اور سوات کے لوگ اُسے اسلامی نظام سمجھتے ہیں ۔ اور یہ کوئی نیا مطالبہ نہیں ۔ پہلے 1994ء میں معاہدہ ہوا اور عمل نہ ہوا ۔ پھر 1999ء میں معاہدہ ہوا اور عمل نہ ہوا ۔ کیونکہ نیت نیک نہ تھی ۔ اللہ کرے اب اس پر درست طور پر عمل ہو جائے ۔ وہاں کا امن پاکستان کی حکومت نے امریکہ کے کہنے پر اپنے لوگوں پر بم برسا کر تباہ کیا جب معاملہ ہاتھ سے نکلتا محسوس ہوا تو معاہدہ کرنا پڑا ۔
    پیر کی جو بات آپ نے کی ہے ۔ میں اتنا کہوں گا کہ اللہ ہمیں سیدھی راہ پر قائم کرے ۔ ہمارے ملک میں تو جیل سے کئی بڑے مجرم بھی خود بخود باہر نکل آتے ہیں

  10. افتخار اجمل بھوپال Post author

    جاوید گوندل صاحب ۔ السلام علیکم
    آپ نے درست لکھا ہے ۔ میں نے تانیہ صاحبہ کا جواب لکھ دیا تھا مگر کسی اور طریقہ سے ۔ شاید آپ نے پڑھا ہو ۔ میں نے جان بوجھ کر نہیں لکھا تھا کہ میری بیٹی جو مناسب پردہ کرتی ہے عرصہ سے گاڑی چلاتی ہے اور اکیلی ہی ۔ وہ بذریعہ موبائل فون ہم سے ساتھ رابطہ رکھتی ہے تاکہ کہ ہمیں تسلی رہے مگر طالبان کی وجہ سے نہیں بلکہ اُن لفنگوں کی وجہ سے جو پورے پاکستان میں دندناتے پھرتے ہیں
    مجھے یاد آیا کہ بہت پہلے میں نے آپ سے درخواست کی تھی کہ آپ مجھے ہسپانیہ کے حالات لکھ کر بھیجا کریں ۔ آپ ضرور بھیجیں اور ساتھ تصاویر بھی بھیجیں ۔ میں ان شاء اللہ آپ کے نام کے ساتھ انہیں قسط وار اپنے بلاگ پر شائع کرتا رہوں گا

  11. جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ۔ اسپین

    محترم اجمل صاحب!
    آپکے خلوص کا بہت شکریہ۔
    میں آپ کی بات درست طور پہ نہیں سمجھ سکا۔ھسپانیہ کے حالات سے مراد کونسے حالات لکھوں۔؟ عصر حاضر یا مسلم اندلس کے حالات ۔؟ سچی بات تو یہ کہ ابھی میں کسی قسم کے حالات لکھنے کی فرصت نہیں۔ میں آپ کو ایک کتاب تجویز کرتا ہوں یہ ڈاکٹر حقی حق کی لکھی ہوئی ایک کتاب ہے۔ ہوئے تم دوست جس کے:
    حقی حق کی یہ کتاب تین حصوں، دو سقوط، ایک پڑاءو اور ڈھیر ساری سقیم الحالی کے درمیان نظریاتی تسلسل کی تلاش اور یکسانیت کی نشاندہی پر مبنی ہے۔ یہ سقوط اندلس اور امریکہ کی تاریخ سے زیادہ اُمہ اور امریکہ کا مقدمہ ہے، ایسا مقدمہ جس کا فیصلہ ہنوز باقی ہے۔

    امید ہے یہ کتاب آپ کو اور دیگر قارئین اکرام کو مسلم اندلس کے سقوط پہ اچھی خاصی چونکا اور رلا دینے والی معلومات مہیا کرے گی۔ اور میں اسپین کے عام حالات کی بجائے اُن باتوں کی کھوج میں ہوں اور میری خواہش ہے کہ ان عوامل پہ تحقیق کر سکوں جو اندلسی مسلم ثقافت اور عدل و گسترانہ نظام پہ روشنی ڈال سکیں اور خاص کر اس سقوط کے دوران اور صدیوں بعد تک کیتھولک چرچ کے اثرو رسوخ اور اسلامی اقدار کے متوازی کردار پہ تحقیق کر سکوں جس کی بنیاد دستاویزی ہو ۔ اور انشاءاللہ معاملات دیگر سے فراغت کے بعد شاید کچھ کیا جاسکے ۔ کیونکہ اس کے لیے بہت سا وقت درکار ہے جو پورے اسپین کی مختلف جگہوں اور لائبریرز میں محفوظ ریکارڈ کو کھنگالنے کے لئیے چاھیے ہے۔

  12. تانیہ رحمان

    بہت احترام کے ساتھ جناب افتخار اجمل صاحب ، ایک گزارش ہے ۔ یہاں بلاگ کی دنیا مین ہر ایک کو اپنی رائے کا اختیار ہے ۔ جو کوئی میری بات سے اتفاق نہیں کرتا نا کرئے۔ میرے بلاگ پر آکر مجھے اس قسم کی فضول باتیں کرنے والوں پر بھی آپ کو کچھ نا کچھ کہنا چاہئے ۔ میں کہیں جا کر کچھ کہوں تو میں گناہگار ہوں ۔ لیکن پلیز آئندہ اس بات کا خیال رکھا جائے۔ بہت شکریہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.