Daily Archives: March 18, 2009

پرچی پھر چل پڑی

میں نے گھر کا سودا سلف لانے کیلئے ہفتہ میں ایک دن مقرر کیا ہوتا ہے جو کہ سال بھر سے منگل کا دن ہے ۔ سبزی پھل میں ہفتہ وار بازار سے لاتا ہوں جو آجکل پشاور موڑ کے قریب سیکٹر ایچ 9 کے کونے میں واقع ہے ۔ آٹا چاول وغیرہ میں جی 9 مرکز المعروف کراچی کمپنی میں ایک پرانی دکان سے لیتا ہوں کیونکہ سودا ستھرا ہوتا ہے اور قیمتیں بھی مناسب ہوتی ہیں ۔ اس دکان پر عام طور پر گاہکوں کی بھیڑ ہوتی ہے ۔ منگل 10 مارچ کو میں سودا لینے گیا تو شائد میلادالنبیۖ کی چھُٹی کی وجہ سے ہفتہ وار بازار میں گاہکوں کی بھیڑ نہ تھی سو سبزی پھل خرید کر میں ساڑھے نو بجے جی 9 مرکز پہنچ گیا ۔ وہاں بھی صرف چار پانچ گاہک تھے ۔ دکاندار کو فارغ دیکھ کر سلام اور حال پوچھنے کے بعد کہہ دیا “اور کیا خبر ہے ؟” دکاندار نے مجھے قریب ہونے کا اشارہ کیا

میں اس کے قریب کاؤنٹر پر ہی بیٹھ گیا ۔ وہ بولا “دس باہ دن سے آٹا نہیں مل رہا تھا ۔پرسوں ایک پی پی پی کے کھڑپینچ سے شکائت کی تو کہنے لگا کہ ‘پرچی دِلا دوں گا فی تھیلا 5 روپے ہوں گے’ ۔ میں نے اُسے 500 روپے دیئے ۔ کل وہ مجھے ساتھ لے گیا ۔ وہاں اُنہوں نے پرچیاں تیار رکھی ہوئی تھیں ۔ اُنہوں نے مجھے دس کلو کے 100 تھیلوں کی پرچی دے دی ۔ میں نے مِل میں جاکر وہ پرچی اور آٹے کی قیمت ادا کی اور 10 کلو والے 100 تھیلے لے آیا۔ کیا کریں ۔ ہم آٹے میں منافع نہیں کمائیں گے لیکن آٹے کی وجہ سے باقی سامان بکے گا تو ہماری دکان چلتی رہے گی”

اس واقع نے مجھے ایک پرانا دلچسپ واقعہ یاد دلا دیا ۔ 1973ء میں جو ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا دوسرا سال تھا ہمارے خاندان میں شادی تھی ۔ لڑکے کے والد ہمارے گھر آئے اور میرے والد صاحب سے کہا “شادی کی تاریخ مقرر کروا دیں بیٹا مُلک سے باہر جانا چاہتا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ شادی کر لے اور بیوی کو ساتھ لے جائے”۔ پھر مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگے “آپ بھی میری سفارش کر دیں”۔ میں نے مسکرا کر کہا “بازار میں گھی ناپید ہے لڑکی والے بارات کا اور آپ ولیمہ کا کھانا کیسے پکائیں گے ؟” لڑکے کے والد بڑے اعتماد سے بولے “اُس نے کب کام آنا ہے ۔ کتنے کام اُس کے کئے ہوئے ہیں ۔ گھی کا بندوبست تین دن میں ہو جائے گا”۔ پی پی پی کا ایک رہنما اُن کا ہمسایہ تھا اور وہ رُکن صوبائی اسمبلی بھی تھا

اُن دنوں حال یہ تھا کہ دیسی گھی تو بالکل غائب تھا ۔ بناسپتی گھی بیچنے کیلئے راولپنڈی میں صرف چند دکانیں مقرر تھیں جن پر فی شخص ایک پاؤ بناسپتی گھی ملتا تھا اور ہر دکان پر ڈیڑھ دو سو گاہک قطار لگائے ہوتے تھے

دو دن بعد ہونے والا دُولہا آیا کہ چلیں گھی لے آئیں ۔ میں اُسی کی کار میں بیٹھ گیا اور ہم چل دیئے ۔ مری روڈ پر ایک جگہ پہنچے ۔ وہاں میرے ساتھی نے ایک پرچی جیب سے نکال کر دی ۔ وہ پرچی رکھ لی گئی اور اُسے ایک اور پرچی دے دی گئی اور کہا گیا کہ نیا محلہ کے چوک میں ایک کھوکھا ہے وہاں جائیں ۔ وہاں پہنچے تو کھوکھے والا ہم سے پرچی لے کر چلا گیا اور 10 منٹ بعد واپس آ کر کہا “وہ جو گیٹ نظر آ رہا ہے وہاں جا کر گیٹ کھٹکھٹاؤ”۔ ہم نے اُس کی ہدائت پر عمل کیا ۔ تھوڑی دیر بعد ایک آدمی نے باہر نکل کر کھوکھے کی طرف دیکھا اور ہمیں کہا “اندر آ جاؤ”۔ جونہی ہی ہم اندر داخل ہوئے ہم پریشان ہو کر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے ۔ یہ بہت بڑا گودام تھا جہاں ڈالڈا اور تلو بناسپتی گھی کے 5 کلو والے ہزاروں ڈبے پڑے تھے ۔ جو شخص ہمیں اندر لے گیا تھا بولا “فی ڈبہ اتنے روپے دے دو اور جتنے ڈبے چاہئیں اُٹھا لو”۔

اُس وقت ہمیں یہ خیال نہیں آیا کہ ہم سے سرکاری نرخ سے زیادہ نرخ وصول کیا جا رہا ہے بلکہ یہ افسوس ہوا کہ ہم اس فیئٹ 600 کار میں آنے کی بجائے بڑی گاڑی لے آتے تو دُگنی تعداد میں ڈبے لے جاتے اور عزیز و اقارب سے دعائیں لیتے

یہی وجہ ہے شاید کہ جو پیپلز پارٹی میں جاتا ہے پھر باہر نہیں نکلتا