لبرٹی حملہ

لبرٹی حملہ کے مصدقہ واقعات مختصر طور پر لکھ دیتا ہوں ۔ قارئین سے التماس ہے کہ اپنے ذہنوں کو ہر خبر اور تبصرہ سے صاف کر کے اسے پڑھیں اور پھر نیچے درج شدہ میرے سوالات کا جواب دیں

1 ۔ جب بھارت سمیت تمام ممالک نے پاکستان میں آ کر کھیلنے سے انکار کر دیا تھا تو سری لنکا کی ٹیم نے پاکستان آ کر کھیلنے کا اعلان کیا ۔ بھارت نے سری لنکا پر بہت زور ڈالا کہ ٹیم پاکستان نہ بھیجے کیونکہ وہاں ان کی جان کو خطرہ ہو گا لیکن سری لنکا نے بھارت کا مشورہ نہ مانا

2 ۔ صدرِ پاکستان نے سری لنکا کو یقین دلایا کہ سری لنکا کی ٹیم کو وہ سکیورٹی مہیا کی جائے گی جو صدرِ پاکستان کو مہیا کی جاتی ہے

3 ۔ لاہور میں ایک روزہ میچ 25 جنوری کو تھا پھر ٹیسٹ میچ مارچ کے پہلے ہفتہ میں ہونا تھا

4 ۔ پاکستان کے ایک خفیہ ادارے کو اطلاع ملی کہ بھارت کی راء نے سری لنکا کی ٹیم پر حملہ کی منصوبہ بندی کی ہے اور حملہ ہوٹل سے سٹیڈیم جاتے ہوئے ہو گا چنانچہ اس ادارے کے سربراہ ایڈیشنل انسپیکٹر جنرل پولیس نے 22 جنوری کو تحریری طور پر مندرجہ ذیل اعلٰی عہدیداروں کو اس سے آگاہ کیا
مرکزی حکومت کے سیکریٹری داخلہ
پنجاب کے چیف سیکریٹری ۔ سیکریٹری داخلہ ۔ وزیرِاعلٰی کے سیکریٹری اور انسپیکٹر جنرل پولیس
لاہور کے کمشنر اور سی سی پی او

5 ۔ وزیرِ اعلٰی پنجاب نے 23 جنوری کو اعلٰی سطح کا اجلاس بُلایا جس میں اس صورتِ حال پر غور کر کے لائحہ عمل تیار کیا گیا اور متعلقہ عہدیداروں نے مجوزہ ہوٹل سے سٹیڈیم تک کا جائزہ لے کر مناسب انتظامات کئے

6 ۔ خاطر خواہ حفاظتی تدابیر کے باعث 25 جنوری کو سری لنکا کے ساتھ ایک روزہ میچ خیر خیریت سے ہوا

7 ۔ صدر نے 25 فروری کو پنجاب میں گورنر راج نافذ کر کے اسمبلی کی تالہ بندی کر دی جس سے پورے پنجاب اور سب سے زیادہ لاہور میں زبردست کھلبلی مچ گئی ۔ ارکان اسمبلی اور سینکڑوں دوسرے افرادکو گرفتار کرنے کے باعث بحران مزید بڑھ گیا

8 ۔ گورنر نے 27 فروری تک پنجاب بالخصوص لاہور کی انتظامیہ اور پولیس کے تمام اعلٰی افسران بشمول تھانیداروں کو تبدیل کر دیا جن میں سے کئی کو او ایس ڈی بنا دیا ۔ اس کے بعد پیپلز پارٹی کے لیڈر پنجاب اسمبلی کے 371 اراکان میں سے 250 ارکان کی حمائت کا دعوٰی کر کے گورنر پنجاب اور ایک گمنام قسم کے سینیٹر کی سربراہی میں ارکان پنجاب اسمبلی کے گھیراؤ ۔ ڈراؤ ۔ خرید اور جوڑ توڑ میں مشغول ہو گئے

9 ۔ پنجاب کا گورنر راج پورے انہماک اور جانفشانی سے مسلم لیگ ن کا ساتھ دینے والے ارکان پنجاب اسمبلی کو توڑنے کی ناکام کوشش میں گم تھا کہ لاہور میں سری لنکا اور پاکستان کے درمیان کرکٹ میچ شروع ہو گیا

10 ۔ بروز منگل بتاریخ 3 مارچ 2009ء سری لنکا کا پاکستان کے ساتھ میچ کا تیسرا دن تھا ۔ سری لنکا کی کرکٹ ٹیم ہوٹل سے روانہ ہوئی ۔ پچھلے دنوں کے بر عکس مقررہ راستہ کو نمعلوم کس کی ہدائت پر تبدیل کر دیا گیا اور بجائے تیز رفتار راستہ یعنی فیروز پور روڈ سے آنے کے ٹیم کو گلبرگ مین بلیوارڈ سے لایا گیا جس کے نتیجہ میں رفتار تیز نہ ہو سکی اور پھر لبرٹی چوک کے بہت بڑے دائرے [round-about] کے گرد بہت سُست ہونا لازمی تھا جہاں اُنہیں 90 درجے سے زیادہ کا زاویہ بناتے ہوئے مُڑنا بھی تھا

11 ۔ لبرٹی مارکیٹ صبح 10 بجے کے بعد کھُلنا شروع ہوتی ہے اور دوپہر 12 بجے تک پوری کھُلتی ہے ۔ یہاں دفاتر بھی 9 اور 10 بجے کے درمیان کھُلتے ہیں

12 ۔ صدر کے سری لنکا سے کئے ہوئے وعدے کے برعکس سری لنکا کے کھلاڑیوں کو عام بس پر لایا گیا جس کے آگے ایک موٹر سائکل سوار ٹریفک وارڈن تھا ۔ اس کے پیچھے بند گاڑی کے اندر اے ایس پی اور تین پولیس والے بیٹھے تھے ۔ بس کے پیچھے ایک اور پولیس کی بند گاڑی تھی جس میں پانچ پولیس والے بیٹھے تھے ۔

13 ۔ لبرٹی چوک پر صرف ایک ٹریفک وارڈن موجود تھا جو حملہ شروع ہوتے ہی زمین پر لیٹ گیا اور پھر ایک ستوپے کے پیچھے چھُپ کر جان بچائی ۔ اس کے علاوہ وہاں کوئی وردی والا یا بغیر وردی پولیس یا خُفیہ ادارے کا اہلکار موجود نہ تھا جبکہ ایسے مواقع پر درجنوں کی تعداد میں وردی اور بغیروردی والے اس جگہ موجود ہوتے ہیں

14 ۔ یہ قافلہ صبح 8 بج کر 42 منٹ پر چوک میں داخل ہوا تو لبرٹی چوک کے درمیانی دائرے میں اور سڑک کے دوسری طرف 8 حملہ آور جو تین تین اور دو کی ٹولیوں میں اپنی خودکار بندوقیں سنبھالے گھات لگائے بیٹھے تھے نے تین اطراف سے اس پر حملہ کر دیا جس کی ابتداء کھلاڑیوں کی بس پر دو گرینیڈ پھینک کر کی گئی لیکن یہ بس کو نہ لگے پھر گولیوں کی بوچھاڑ شروع ہو گئی ۔ پہلا شہید ٹریفک وارڈن تھا ۔ جو سب سے آگے تھا ۔ اُس کے پیچھے اے ایس پی کی گاڑی کے ٹائر میں گولی لگی لیکن گاڑی روکی نہ گئی ۔ بس پر ایک راکٹ چلایا گیا جو بس کو چھوتا ہوا ایک دکان کو جا لگا ۔ اتنی دیر میں بس کے پیچھے آنے والی پولیس کی گاڑی سامنے آ گئی ۔ ایک پولیس جوان جونہی باہر نکلا وہ گولیوں کا نشانہ بنا ۔ یہ پانچوں پولیس والے شہید ہو گئے

15 ۔ بس ڈرائیور نے پہلے بس روکی پھر اُس نے بس بھگائی اور سٹیڈیم کی طرف مُڑ گیا ۔ حملہ آوروں نے بس کا پیچھا کیا ۔ سٹیڈیم کی طرف سے پولیس کا ایگل سکواڈ آیا اور فائرنگ کا جواب دیا اور وہ بھی زخمی ہوئے ۔ حملہ آوروں میں سے کوئی زخمی تک نہ ہوا

16 ۔ فائرنگ کا سلسلہ 25 منٹ جاری رکھنے کے بعد حملہ آور لبرٹی چوک کے بازو والی ایک سڑک کی طرف گئے جہاں وہ بڑے اطمینان سے ٹہلتے ہوئے اپنے تین موٹر سائکلوں تک پہنچے اور یکے بعد دیگرے روانہ ہو گئے ۔ صرف دو نے اپنے تھیلے پھینک دیئے باقی نے نہیں پھنکے ۔ ہر موٹر سائکل پر ایک یا دو کے ہاتھوں میں خود کار بندوقیں موجود تھیں جو صاف نظر آ رہی تھیں ۔ جب تیسرا موٹر سائکل سٹارٹ ہوا تو صبح کے 9 بج کر 44 منٹ ہوئے تھے

17 ۔ جب حملہ آور اپنی 25 منٹ کی کاروائی کے بعد لبرٹی چوک سے روانہ ہو رہے تھے تو یکے بعد دیگرے پولیس کی دو گاڑیا لبرٹی چوک پہنچیں جن میں سے ایک لبرٹی مارکیٹ کی طرف مڑ گئی اور حملہ آوروں کے بالکل قریب سے گذرتی ہوئی گئی ۔ دوسری جدھر سے آئی تھی واپس مُڑ کر اُدھر ہی چلی گئی

سوال

1 ۔ ملکی حالات ٹھیک نہیں ہیں ۔ خفیہ ادارے کی رپورٹ بھی سامنے آ چکی تھی ۔ ایک غیر ملکی ٹیم آئی ہوئی تھی ۔ ویسے بھی سٹیڈیم میں اتنا ہجوم شائقین کا ہونا تھا تو اردگرد کے علاقہ میں پولیس اور خفیہ کے اہلکار کیوں تعینات نہ کئے گئے ؟

2 ۔ کھیل کے تیسرے دن کھلاڑیوں کو لیجانے کیلئے تیز رفتار راستہ چھوڑ کر اچانک سُست پُرہجوم ایسا راستہ کیوں اختیار کیا گیا جس میں ایک گلگوٹ [bottle neck] لبرٹی چوک کا دائرہ [round-about] بھی تھا ؟

3 ۔ کھلاڑیوں کے آگے اور پیچھے چلنے والی پولیس بند گاڑیوں میں بیٹھنے کی بجائے کھُلی گاڑیوں میں تیار حالت [ready to attack position] میں کیوں نہ تھی ؟

4 ۔ اس طرح کا حملہ ہونے کے بعد پولیس اور ایجنسیوں کے اہلکار 15 منٹ میں پورے علاقے کو چاروں طرف سے گھیر لیتے ہیں ۔ اس واقعہ میں حملہ آوروں نے 25 منٹ کاروائی جاری رکھی جس کے بعد اطمینان سے مزید 37 منٹ جائے واردات کے قریب رہے اور آسانی سے فرار ہو گئے جبکہ پولیس تھانہ بھی وہاں سے قریب ہی تھا اور یقینی طور پر تھانے میں فائرنگ کی آواز سُنی گئی ہو گی ۔ ایسا کیوں کر ہوا ؟

5 ۔ پولیس کی جو دو گاڑیاں حملہ آوروں کے فرار ہوتے وقت لبرٹی چوک میں پہنچیں اُن میں بیٹھی پولیس نے حملہ آوروں کو پکڑنے یا اُن کا تعاقب کرنے کی کوشش کیوں نہ کی ؟

This entry was posted in تجزیہ, خبر on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

11 thoughts on “لبرٹی حملہ

  1. دوست

    بہت سارے سوالوں کی طرح یہ سوال بھی فائلوں میں پڑے سڑ جائیں گے۔ اور ان کا جواب نہیں ملے گا۔

  2. ارسلان نعیم

    اسلام و علیکم
    محترم ممبران،
    جو حقاٰئق اوپر بیان ھوئے ھیں ان سے صاف ظاہر ہوتا ھے کہ ان حملوں میں حکومت کا بھی ہاتھ شامل ھے، جس کی سب سے اہم وجھ عوام کی لانگ مارچ سے توجھ ھٹانی تھی-
    گورنر راج مکمل طور پر فیل ھو چکا ہے، اگر شہباز شریف کی حکومت ہوتی تو حالات مختلف ھوتے اور یہ واقھ یا تو پیش نہ آتا یا پھر کم سے کم دھشت گرد گرفتار ضرور ہوتے-
    اللہ ھمارے ملک کو سلامت رکھے آمین-

  3. I Love Pakistan

    سرسری سی نظر دوڑانےپر تاریخ اور مہینوں کی بہت سی غلطیاں دیکھنے کے بعد اس وقت اس مضمون کو نہ پڑھنے کا فیصلہ کیا ہے۔والسلام۔

  4. جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین

    کسی زمانے میں ہمیں پنجابی زبان کی ایک فلم کا کچھ حصہ دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا، اس مووی کا نام غالباً ۔مولا جٹ۔ تھا ۔ فلم تو لُچر سی تھی مگر اس کا ایک ڈائیلاگ اتفاق سے یاد رہ گیا ۔ جس میں فلم کا ہیرو زمین پہ اچھل کود کر کہتا ہے “اُؤئے مولے نوں مولا نہ مارے تے مولا نییں مردا” یعنی فلم کے ہیرو جس کا نام بھی مولا ہے کہ اسے اگر مولا ( اللہ سبحان و تعالٰی) نہ مارے تو مولے کو دنیا کی کوئی طاقت بشمول اس کے دشمن نہیں مار سکتے ۔ اور بس اس ڈائیلاگ وغیرہ سنوانے کی خواہش میں میرے ایک جاننے نے بہ اصرار اس پرانی فلم کا مذکورہ حصہ دکھایا تھا۔ موصوف ہر وقت آتے جاتے ہر بات پہ جب بھی کوئی پریشانی آتی تو یہ ڈائیلاگ کہتے پھرتے۔ القصہ مختصر اس وجہ سے لاشعوری طور پہ یہ ڈائیلاگ کچھ عرصہ میرے ذہن سے بھی چپکا رہا اور جب بھی پاکستان کے ساتھ کسی غیر ملکی طاقت نے شرارت کی تو مجھے یہ یاد آگیا۔

    ہمارے دشن لاکھ کمینے، کم ظرف اور بے اصولے ہی سہی مگر ان میں اتنا دم نہیں کہ ہمارے گھٹنے زمین پہ لگا دیں۔ یہ ہمارے اپنے وہ بے وقوف دوست ہیں جن کے بھروسے میں ساری قوم انکھیں بند کر کے میٹھی نیند سوتی رہی ہے کہ “لو بھائی ہم تو سوتے ہیں یہ گھر اب تمھارا ہوا اس کی رات بھر اچھی طرح نگرانی کیجیئو،” جبکہ ہم حقیقت میں اس بات سے لاعلم ہوتے ہیں اور علم ہونے پہ سمجھنا نہیں چاہتے کہ جن کے بھروسے پہ ہم آنکھیں بند کرکے مطمئین ہوجاتے ہیں وہ لوگ دن کو ہی لٹیروں اورچوروں سے ساز باز کر چکے ہوتے ہیں اور چور لٹیروں کو یہ ھدایات کر چکے ہوتے ہیں کہ “رات کے اندھیرے میں آنا اور بھائی چٹ بھی تمھارا ہوگا اور پٹ بھی تمہارا ہوگا بس یہ بتا دو اس میں ہمارا حصہ کتنا ہوگا۔؟”

    احمق دوست، لالچی حصے دار، امانت میں خیانت کرنے والے خائن، نااہل حاکم ، جھوٹے امیر،اور دہوکے باز محافظ سے ہوشیار رہنے میں ہی عافیت ہوتی ہے مگر میرے دیس میں یہ چند خصوصیات بشمول دیگر خصوصیات کے وافر ملتی ہیں۔ آدمی کس کس کا گریبان پکڑے ، کس کس کا منہ سونگھے۔ ان پچھلے سالوں میں اس سے پہلے بھی بہت ہی سنگین نوعیت کے واقعات ہوچکے ہیں بلکہ ایسے سانحوں کی سنگینی کی مقدار اور تعداد کی رفتار اس قدر رہی ہے کہ ابھی ایک واقعہ کے لواحقین کے آنسو بھی نہیں تھمتے کہ ایک نیا خونچکاں سانحہ رُونما ہوجاتا ہے۔ مگر سابقہ سانحات میں اور سری لنکن کرکٹ ٹیم پہ حملے میں ایک واضح فرق ہے کہ سابقہ واقعات پہ ہر کوئی اپنی اپنی دلیل دوڑاتا تھا کہ کہ یہ لال مسجد کے واقعہ کا رد عمل ہوگا۔ یا یہ واقعہ یا فلاں حملہ یا دہماکہ یا پھر خودکش حملہ امریکہ کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کرنے کے بدلے ہوا ہوگا۔ یہ مشرف کی امریکن نواز پالیسیوں کا خمیازہ ہے ۔ فلاں رہنماء کی موت سے فلاں فلاں سیاسدان کو فائدہ ہوا ہے اسمیں فلاں ابن فلاں کا ہاتھ ہو گا۔ یہ جو آئے دن ہماری افواج اپنے ہی نہتے شہریوں کو فتح کر رہی ہیں تو یہ اسکا رد عمل ہوگا۔ الغرض دلیل اور قیاس آرائیوں کی کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتا تھا۔ تا وقتیکہ ایک نیا حادثہ رؤنما ہوجاتا۔ مگر سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پہ افسوسناک اور بزدلانہ حملہ اس لحاظ سے مختلف ہے کہ اس کے پیچھے عوامل اور وجوہات کا ابھی تک مکمل طور پہ پتہ نہیں چل سکا اور نہ ہی حکومتی ذمہ داران کی طرف سے کھل کر اس واقعے پہ بیان دیا گیا ہے کہ اس کے پیچھے کون سے عوامل اور پس پردہ کس ملک یا ممالک کا ہاتھ ہے ۔ اور نہ ہی ابھی تک کسی تنظیم نے اس کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ اور نہ ہی حملہ کرنے والوں کے اصل مقاصد ابھی تک سامنے آسکے ہیں کہ ان کے اصل مقاصد کیا تھے کیا وہ صرف بس کو اڑانا چاہتے تھے یا وہ بس کو اغواء کرنا چاہتے تھے اور اگر اغواء کرتے تو تو بس کدہر کرتے ۔ کہاں لے کر جاتے ۔ انکے مطالبات کیا ہوتے ۔؟ وغیرہ وغیرہ کیونکہ میڈیا پہ دکھائی گئی اسلحے کی تفضیلات بہت پریشان کن ہیں کہ اس طرح کی واقعات میں اگر دہشت گردوں کو بس اڑانا مقصود ہوتا تو وہ محفوظ فاصلے پہ رہتے ہوئے ٹیلی اسکوپ رائفلز یا دور مار جدید قسم کے رانچروں سے بھی یہ کام کر سکتے تھے اور دہشت گردوں کو اتنے لاؤ لشکر کی بھی ضرورت نہ پڑتی۔ یا تو یہ اسلحہ عوام کا منہ بند کرنے کے لیے کچھ ڈھیٹ اور گورنر کے خوشامدی قسم کے درباری اعلٰی اہلکاروں نے دہشت گردوں پہ ڈال دیا ہے جس طرح ایسے لوگوں کے مشورے پہ لال مسجد میں سینکڑوں کم سن اور معصوم بچوں کو فاسفورس اور کیمائی مادوں سے زندہ جلانے کے بعد ہر قسم کے اسلحے کے ڈھیر مسجد سے برآمد کر لیے تا کہ مشرف کو عوام کے غیظ و غضب سے بچایا جاسکے اور مشرف حکومت اس میں کسی حد تک کامیاب بھی رہی کہ آج تک بہت سے لوگ اس اسلحے کی وجہ سے لال مسجد کے واقعے کی سنگینی کو مشرف کی بجائے غازی برادران پہ ڈال دیتے ہیں ۔ جیسے ہر دہماکے کے بعد خود کش حملہ آور کا سر مل جاتا ہے اور دہماکے کو خود کش قرار دے کے تحقیق و تفتیش سے جان چھڑوا لی جاتی ہے اور اور عوام کو کبھی بھی ایسی تحقیق کا انجام نہیں بتایا جاتا کہ چلو چھڈو جی مٹی پاؤ اور بات ختم اور ہماری سول سوسائٹی میں اتنا دم خم ہی نہیں ہے کہ وہ اس بارے میں حکومت سے استفسار کر سکے۔

    بہر حال یہ سانحہ دیگر سانحات سے اس لئیے بھی مختلف ہے کہ سری لنکا کی حکومت اور سری لنکا کی کرکٹ ٹیم سے پاکستان کے اندر ناراض عناصر کو کوئی شکایت نہیں تھی بلکہ پاکستان میں حکومت سے ناراض عناصر میں بجائےخود کرکٹ کے شائقین پائے جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں نظریں بھارت پہ جا کر ٹکتی ہیں کیونکہ اسطرح کی منظم کاروائی پاکستان کے دشمنوں کے مفاد میں ہے اور اتنا لمبا چوڑا کھڑاگ بھی اسی لئیے کیا گیا ہے کہ پاکستان کی خوب خوب بدنامی ہو اور پاکستان کو ناکام اور دہشت گرد ریاست قرار دیا جاسکے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ بھارتی ادارے، میڈیا اور بھارتی سنجیدہ پڑھا لکھا طبقہ کسی بھی جگہ کسی بھی موقع پہ کسی بھی ملک میں کسی بھی حیثیت سے ، کسی بھی شناخت سے، کسی بھی فورم پہ پاکستان کے خلاف دہشت گرد اور ناکام ریاست کا زہریلا پراپگنڈہ کرنے کا موقع ہاتھ س نہیں جانے دیتے اور ہماری حکومتوں اور سول سوسائٹی نے کبھی اس کا توڑ نہیں کیا اور یہ سلسلہ کئی دہائیوں سے جاری ہے ۔ انٹر نیٹ اور الیکٹرانک میڈیا آجانے سے یہ اہتمام نہائیت سائنسی بنیادوں پہ کیا جارہا ہے اور اس وقت بھی کیا جارہا تھا جب مشرف کشمیر کا سودا کرتے ہوئے سو کال قومی مفاد میں اعتماد افزاء کے خوشنما الفاظ کے پردے میں بھارت سے پینگیں بڑہا رہے تھے اور یہ زہریلا پراوپگنڈہ اس وقت بھی جاری و ساری تھا جب زرداری نے صدر کا عہدہ ملتے ہی بھارت کی چاپلوسی کرتے ہوئے پاکستانی عوام کو دہوکہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہمیں ( پاکستان کو ) بھارت سے کوئی خطرہ نہیں۔ مقصد صرف پاکستان کو تنہا کرنا ہے اور پاکستان کے بارے میں پچہلی کئی دہائیوں سے بھارت کی خارجہ پالیسی کا دارو مدار ہی عالمی طور پہ پاکستان کو ایسولیٹ کرنا ہے۔ تنہا اور بے یارو مدد گار کرنا ہے۔ جبکہ ناچار عالمی تنہائی بھی پاکستان جیسے بڑے ملک کے لئیے اتنا بڑا مسئلہ نہیں کیونکہ پاکستان ہر لحاظ ہر قسم کے اپنے وسائل رکھتا ہے مسئلہ یہ ہے کہ شروع دن سے لیکر آج تک پاکستان کے بادشاہ حکمرانوں نے ہمیشہ اپنے ذاتی اور کراھت کی حد تک مالی مفادات کے لیے ہمیشہ بیرونی مالی امداد اور خارجہ مدد پہ بھروسہ کیا ہے۔ اس لئیے بجائے اس کے کہ ہم بھارت کا اصل چہرہ دنیا کو دکھاتے الٹا ہماری بھارت سے متعلق کوئی جامع خارجہ پالیسی ہی سرے سے ندارد ہے ماسوائے ڈھیٹوں کی طرح بھارت کی خوشامد کرنے کے کیونکہ ہماری حکومت اور ہماری خارجہ پالیسی میکرز پاکستان کی فرضی عالمی تنہائی سے بدکے ہوئے ہیں اور ان کا ہر اقدام بھارت کے جواب میں مدافعتی ہوتا ہے کہ عالمی تنہائی کی صورت میں عوام کو تو فائدہ ہوگا مگر خواص کی مراعات اور اللے تللے ، قرضے، کمیشن، بیوی بچوں کی امریکی اور یورپی شہریتیں اور یوروپ میں تعلیم اور قوم کے ہیسوں سے یوروپ و امریکہ میں خرید کی کوٹھیاں اور بنگلے ، بنکوں میں جمع کروائے ہوئے خطیر رقومات خطرے میں پڑ جائیں گی۔

    اسلئیے سری لنکن ٹیم پہ حملے کے چند گھنٹوں میں ہی گورنر پنجاب اور دوسرے سرکاری عہدیداروں اور وزراء نے بجائے بھارت کی طرف اشارہ کرنے کے اس سانحے کے ڈاھنڈے ممبئی میں دہماکے کر نے والوں سے جا ملائے ( ممبئی دہماکوں کی بہر حال ہم مزمت کرتے ہیں ) اور طرف تماشہ ہے کہ اسی حکومت نے کما بزدلی سے ممبئی دہماکوں میں پاکستانیوں کے کردار کو تسلیم کر رکھا ہے یعنی دوسرے لفظوں میں یہ حملہ بھی پاکستانی تنظیموں کا تھا۔ سبحان اللہ ۔ قربان جاؤں ایسے زیرک گورنر کے ۔

    اتنا بڑا واقعہ ہو گیا اور کوئی ایک آدمی نہیں پکڑا گیا نہ زندہ نہ مردہ اور نہ ان کے بارے میں ہماری ایجنیسیوں کو کچھ علم ہے نہ پولیس کو پتہ چلا کہ وہ کون لوگ تھے آیا بھارتی ایجنسی را کے مقامی ایجنٹ تھے یا بھارت سے خصوصی طور پہ بلوائے گے بھارتی پیشہ ور قاتل تھے۔ ایسی وارداتوں میں دس بارہ افراد تو سامنے آئے ہیں مگر انہیں لاجسٹک سپورٹ دینے والے۔ اسلحہ فراہم کرنے والے۔ لاہور شہر تک لانے۔ اور لے جانےوالے۔ گھروں یا محفوظ مقامات پہ چھپانے والے۔ لبرٹی چوک تک رہنمائی کرنے والے۔ پولیس اور ٹیم کانوائے کے متعلق درست درست اطلاعات فراہم کرنے والے۔ درجنوں نہیں سینکڑوں لوگ ہونگے مگر یوں لگتا ہے کہ انھیں زمین کھا گئی یا آسمان اور واردات کسی پہاڑی علاقے کے جنگل میں نہیں ہوئی بلکہ ایک پر رونق اور پر امن شہر کے قلب میں ہوئی ہے۔

    اس سانحے کا ایک اور بھی قابل افسوس پہلو یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کی حکومت کے کسی اہلکار یا وزیر شزیر نے اس سانحے میں سیکورٹی لیپس کی ذمہ داری قبول نہیں کی اور کسی کے ضمیر پہ جوں تک نہیں رینگی مشیر باتدبیر رحمٰن ملک سے لیکر ہیارے سلیمان تاثیر جیالے گورنر پنجاب تک سب ہی ایک دوسرے کو سیکورٹی کا ذمہ دار ٹہراتے ہوئے اپنا دامن جھٹک دیتے ہیں۔ ۔ پاکستان کے دوست اور مہمان ملک کی کرکٹ ٹیم جس نے پاکستان اور پاکستانی کرکٹ کو عالمی تنہائی کی طرف دھکیلنے کی بھارتی سازش کو ناکام کرتے ہوئے پاکستان کا دورہ کیا کیونکہ بھارت جیسے ہمارے ازلی دشمن کی کرکٹ ٹیم نے سیکورٹی کا بہانہ کر کر پاکستان کا طے شدہ دورہ منسوخ کر دیا تھا اور بھارت بڑے زور شور سے پاکستان میں سیکورٹی رسک کا شور مچا رہا تھا۔ اور آخر اس نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعیے یہ ثابت بھی کر دیا اور اتنے المناک واقعے کے بعد جسمیں پولیس کے پانچ چھ اہلکار شہید ہو چکے تھے۔ مہمان ٹیم کے دو کھلاڑی کو گولیاں لگ چکی تھیں اور بھارت ساری دنیا میں پاکستان کے خلاف پراپگنڈے کا زہریلا کاروبار شد و مد سے کر رہا تھا اور پوری پاکستانی قوم پہ سکتہ طاری تھا، دنیا کے دارالخلافوں پہ واقعے کی نوعیت سے بے یقینی سی طاری تھی۔ تو اپنے پیارے جیالے گورنر پنجاب اس سانحے کے بعد اپنی پہلی پریس کانفرنس میں بھی حلوائی کی دوکان پہ دادا جی کی فاتحہ کے مصداق نواز شریف اور سابق وزیر اعلٰی پنجاب شہباز شریف پر برس رہے تھے اور زرداری کے اشارے پہ نوٹ بھرے ٹوکروں اور اٹیچیوں سے گھوڑوں کی خریداری کا مکروہ کاروبار گورنر ہاؤس میں جاری و ساری تھا اور ابھی تک جاری ہے۔

    خلق خدا یہ سوال کرتی ہے یہ کیسی جمہوریت ہے جس میں ھارس ٹریڈنگ کے ذریعے لوٹوں، لفافوں اور گھوڑوں کو کروڑوں روپے میں خریدا جارہا ہے اور جس کی تفضیلات سر عام میڈیا اور اخبارات میں جاری کی جارہی ہیں اور کوئی تردید کرنے کا تردد تک کرنے کی تکلیف نہیں کر رہا کہ دوسرے لفظوں میں سب ہی ایسی خبروں کو سچ تسلیم کررہے ہیں خود زرداری کے ساتھ مرکزی حکومت میں حصے دار اور مرکز میں زرداری کے اتحادی مولانا فضل الرحمٰان جن بزرگ کو اپنی بات کہنے میں کمال ملکہ حاصل ہے مولانا موصوف نے سینٹ کے حالیہ انتخابات میں پیپلز پارٹی پہ ھارس ٹریدنگ کا الزام لگاتے ہوئے اسے ہارس ٹریڈنگ کی بجائے اسے اصطبل ٹریڈنگ کا نام دیا ہے۔ تو ایسے اقدامات کے نتیجے میں وجود مٰں آئی حکومت کو جمہوری کہنا اور ملک میں جاری بندوبست کو جمہوری کہنا خود جمہوریت کی توہین ہے۔ ایسے بندوبست کو سول آمریت سے لیکر امریکن وائسرائے سسٹم تک کچھ بھی کہا جاسکتا ہے مگر جمہوریت نہیں کہا جاسکتا یا کم از کم یہ وہ جمہوریت نہیں جس سے قوموں کی تقدیر بدلنے کے انقلابات ظہور پزیر ہوتے ہیں کہ کہ جمہور کا حقیقی نظام عوام کو اپنے فیصلے کرنے کا اختیار بخشتا ہے نہ کہ امریکہ کے منظور نظر اور قوم ملک کے مفاد کے خلاف کام کرنے والوں کو تو مسند اقتدار اور خرقہ شاہی بخشتا ہے اور ہر قسم کے این آر او کے بد بودار بندو بست جن سے کسی بھی نفیس شخص کو گھن آئے،نافذ کرتا ہے اور نہ ہی پی سی او زدہ ڈوگر کے تین پی سی او جج جن کی اپنی نوکری غیر آئینی اقدامات کی وجہ سے ہے اور جو بمع پی سی او اختیارات کے صدارت کے بُرج پہ براجمان صدر کی عین خواہشات کے مطابق اپنا فیصلہ دیتے ہوئے چھ کروڑ لوگوں کے مینڈٹ کی توہین کرتے ہوئے ایک منتخب وزیر اعٰلی کو اور اسکے سیاستدان بھائی کو ( ہمیں شریف بردران سے بھی بہت شکوے ہیں میں ےہاں ان کی حمایت نہیں کر رہا) نا ہل قرار دیے دیتا ہے اور صدر موصوف عدلیہ کا فیصلہ ماننے کا درس دیتے پھرتے ہیں یہ جمہوریت کا کونسا انداز ہے اور جو امریکہ اور دیگر کی دہلیز پہ نہ جھکنے والوں کو پابند سلاسل کر دیتا ہے۔

    اجمل صاحب!
    اس طرح کی دہشت گردی میں دشمن کی خفیہ ایجنسیاں عمومی طور پہ دوسرے ملکوں اور خاص کر حریف ممالک کے اندر دور تک نقب لگائے رکھتی ہیں انھیں ایک ایک پل کی خبر ہوتی ہے جبکہ انھہیں یہ بھی علم ہے کہ پنجاب کے گورنر بادشاہ سلیمان تاثیر دن کے بارہ بجے سے پہلے نہیں اٹھتے اور جب بھارتی ٹینکوں پہ بیٹھ کر پاکستان آنے کی باتیں کرنے والے قسم کے لوگ ہمارے کرتا دھرتا ہوں اور بھارت کے اندر بلاواسطہ یا بالواسطہ پاکستان کے مفادات کے لیے کام کرنے والے لوگوں کی فہرستیں ماضی میں خود سے بھارت کو دے چکے ہوں اور قومی بصیرت سے عاری ہوں جن کے نزدیک جمہوریت کا بڑا فائدہ صرف اپنے مالی مفادات ہوں ۔ جو جمہوریت کو این آر او قسم کی بہن سمجھتے ہوں جو پی سی او ججوں کو عدالت عالیہ سمجھتے ہوں اور اس کے فیصلوں کا احترام کرنے کا درس دیتے ہوں ۔ یقین مانیے ایسے لوگوں کے اندر تک ہمارے اداروں کے بہت دور اندر تک دشمن ملکوں نے نقیبیں لگا رکھی ہیں انھیں تو یہ تک پتہ ہوتا ہے کہ رات گورنر یا صدر کس طرح کی مشغولیات میں مصروف رہے اور کوئی عجب نہیں انھیں گورنر ھاؤس کے اندر تک رسائی ہو کہ یہ سائنس اور ٹکنالوجی کی دنیا ہے اور اس واردات کے بعد دہشت گردوں کا اطمینان سے ٹہلتے ہوئے جانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ انھیں لمحہ لمحہ اپنے تحفظ کا احساس تھااور ان کے اس اطمینان اور تحفظ کی بنیاد کیا تھی اس کا بھی پتہ چلانا بہت ضروری ہے کہ اس بار پاکستان کی کریڈیبلٹی داؤ پہ لگی ہے اور یہ واردات بے شک را کی کارستانی ہو سکتی ہے مگر اندر کی سپورٹ اور حکومت کا ایسی سازش کے ہونے اور بعد میں ایسی سازش کے کرداروں سے لاعلم رہنا اور بھارت کی خوشامد کرتے چلے جانا بجائے خود ایک واردات ہے جو پورے پاکستان سے کی جاری ہے ۔ مولے نو مولا نا مارے تے مولا نییں مردا ۔

    خیر اندیش
    جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین

  5. افتخار اجمل بھوپال Post author

    محب پاکستان صاحب
    معذرت خواہ ہوں کہ میری غلطی آپ کی طبیعت پر گراں گذری ۔ مارچ کے مہینہ میں ہوتے ہوئے جنوری کو مارچ غیر ارادی طور پر لکھا گیا ۔ توجہ مبزول کرانے کا شکریہ

  6. ڈفر

    جاوید گوندل صاحب نے اچھا نکتہ اٹھایا ہے
    دل خوش ہو گیا
    شائد قائد کو بھی کچھ ایسا ہی نظر آتا تھا جو کہہ گئے ہیں”پاکستان کو دنیا کی کوئی طاقت ختم نہیں کر سکتی“۔ لیکن ہم دنیا کی طاقتوں کی بجائے غیبی طاقت کو دعوت دے رہے ہیں کہ ہمیں ختم کر

  7. فیصل

    آپ نے پولیس کی اس وین کے بارے میں‌نہیں بتایا جس میں اے ایس پی سوار تھا کہ اسکا کیا ہوا؟ کیا وہ موقع سے غائب ہو گئی تھی یا وہ سب بھی مارے گئے؟

  8. افتخار اجمل بھوپال Post author

    فیصل صاحب
    اے ایس پی کی گاڑی کے بارے میں مجھے اتنا ہی معلوم ہے جتنا لکھا ہے کہ اس کے ٹائر میں گولی لگی اور وہ فلیٹ ٹائر کے ساتھ چلتی رہی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.