کیا یاد کرا دیا

میرے وطن کے عضوء عضوء میں زخم لگانے والے سنگ دلوں نے ذہن اتنا پراگندہ کر دیا ہے کہ دعا کیلئے ہاتھ اُٹھا تا ہوں تو الفاظ ہی کوسوں دُور بھاگ جاتے ہیں اور ذہن اُن کو کھینچنے میں معذور دکھائی دیتا ہے کہاں بچپن ۔ لڑکپن اور جوانی کی باتیں اور ولولے ۔ وہ تو قصہ پارینہ بن کر رہ گئے ہیں ۔ تانیہ رحمان صاحبہ نے میرے لڑکپن کی محبوب غزل یاد دلا دی ۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ تانیہ رحمان صاحبہ کا شکریہ ادا کروں یا عرض کروں کہ مجھے یادِ ماضی دِلا کر تڑپایا کیوں ؟

اے جذبہ دل گر ميں چاہوں ہر چيز مقابل آجائے
منزل کیلئے دو گام چلوں اور سامنے منزل آجائے

اے دل کی خلِش چل يوں ہی سہی چلتا تو ہوں انکی محفل ميں
اس وقت مجھے چونکا دينا ۔ جب رنگ پہ محفل آجائے

اے رہبرِ کامل چلنے کو تيار تو ہوں ۔ پر ياد رہے
اس وقت مجھے بھٹکا دينا جب سامنے منزل آجائے

ہاں ياد مجھے تم کر لينا ۔ آواز مجھے تم دے لينا
اس راہِ محبت ميں کوئی درپيش جو مشکل آجائے

اب کيوں ڈھونڈوں وہ چشم کرم ہونے دے ستم بالائے ستم
ميں چاہتا ہوں اے جذبہ غم ۔ مشکل پہ مشکل آجائے

شاعر ۔ بہزاد لکھنوی

This entry was posted in یادیں on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

23 thoughts on “کیا یاد کرا دیا

  1. جعفر

    عمر کا تقاضا ہے سر ۔۔۔۔
    اور کیا زبردست غزل لکھی ہے۔۔۔ شاعر کا نام بھی لکھ دیتے ۔۔۔ میرے ذہن میں تو شاید عبیداللہ علیم کا نام آرہا ہے ۔۔ تصحیح کر دیں اگر غلط ہو تو ۔۔۔

  2. ڈفر

    میرے ذہن میں تو نیرہ نور آرہی ہے :mrgreen: لکھنے والے کا نام شائد بہزاد لکھنوی ہے
    لکھنے والے نے لکھا خوب اور گانے والی نے گایا خوب
    عزیز بھٹی پر بننے والے ڈرامے سے پتا چلا تھا کہ عزیز بھٹی کی بھی بسندیدہ ترین غزل/نظم تھی یہ

  3. ارسلان نعیم

    پیارے ماموں جان، اس میں کوّی شک نہیں کہ آپکا ذوک عالا پاے کا ہے-

    یہ غزل واقعی ایک انمول غزل ہے، جس کی تہریر اپنی مثال آپ ہے-
    آپ سے ایک چھوٹی سی درخواست تھی کہ درجہ زیل شعرکے مطلب کی وظاہت فرماں دئنے

    اے رہبرِ کامل چلنے کو تيار تو ہوں ۔ پر ياد رہے
    اس وقت مجھے بھٹکا دينا جب سامنے منزل آجائے

  4. ارسلان نعیم

    مھترم ممبران، جھاں تک میری عقل میرا ساتھ دیتی ھے، یہ غزل جناب احمد فراض، نے لکھی ھے، وسے اس کی تصدیق محترم اجمل ماموں ھی کرئیں گے-

  5. ارسلان نعیم

    احمد فراض، نے نہیں بلکہ ”فیض احمد فیض“ نےلکھی ھے، پہلی بھیجی ھوی تحریر کو منسوخ قرار دئجیے-

    تقلیف کے لیے معزرت-
    ّ
    اس کی تصدیق بھی محترم اجمل ماموں ھی کرئیں گے-

  6. افتخار اجمل بھوپال Post author

    ڈِفر صاحب
    اس غزل کو اس زمانہ کے ہر سنجیدہ شخص نے پسند کیا تھا اور نیرہ نور نے گایا بھی پورے شوق سے تھا ۔ لکھنے والے کا ابی سوچ رہا ہوں شاید یاد آ جائے ۔
    :mad:
    ہوںںںں ۔ ۔ ۔ بہزاد لکھنوی ہی ہے

  7. ارسلان نعیم

    شاعر کا نام ”فیض احمد فیض“ میرے خیال میں-

  8. افتخار اجمل بھوپال Post author

    اسلان بیٹے
    شاعر نے رہبرِ کامل سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کو کہا ہے ۔ شاعر نے عجیب تخیل پیش کیا ہے ۔ کسی جیز کے پا نے کی جدوجہد کو وہ اس چیز کے پالینے سے زیادہ پُرلُطف قرار دیتا ہے اسلئے کہتا ہے کہ جب میں آپ کو پا لوں تو مجھے پھر بھٹکا دیں تاکہ میں پھر پانے کی جدوجہد کا مزا حاصل کروں

  9. سعدیہ سحر

    زبردست ۔۔۔۔۔ بہت بار سنی ھے سنتے ھوئے دھیان میوزک اور اواز کی طرف ھو جاتا ھے پڑھتے ھوئے ھر مصرعے کو غور سے پڑھا تو اور بھی خوبصورت لگی جس نے بھی لکھی ھے کمال کی شاعری ھے میں اسے فیض احمد فیض کی سمجھی تھی

  10. تانیہ رحمان

    اجمل جی اگر یاد ماضی عذاب ہے تو پھر شکریہ ادا کرنا مشکل ہو جاتا ہے ۔ کبھی کبھی یاد ماضی عذاب ہونے کے باوجود دل کرتا ہے کہ یاد رکھا جائے یا پھر یاد آنے پر جہاں کسک سی محسوس ہوتی ھے وہاں ہلکی سی مسکراہٹ بھی آجاتی ہے لبوں پر ۔ مجھے یہ غزل خود بھی پسند ہے ،شکریہ میں ادا کرتی ہوں

  11. افتخار اجمل بھوپال Post author

    سعدیہ سحر صاحبہ
    آپ نے غور کیا ہے کہ مخاطب کون ہے اور شاعر نے کیا فلسفہ بیان کیا ہے ۔ معذرت کہ لکھتے وقت شاعر کا نام ذہن سے نکل گیا تھا ۔ اب لکھ دیا ہے

  12. افتخار اجمل بھوپال Post author

    تانیہ رحمان صاحبہ
    میرا ماضی آزاد ماحول میں گذرا ۔اب وہ خوشگواریاں کہاں ۔گو اب بھی میں ذاتی لحاظ سے تو آسودہ ہوں لیکن وہ حلقہ احباب نہیں رہا ۔ اب ہرطرف نفسا نفسی ہے

  13. محمد وارث

    اجمل صاحب، بہزاد لکھنؤی کہ یہ غزل میری بھی پسندیدہ ترین غزلوں‌ میں سے ہے، غزل کاہے کو ہے موتی پروئے ہیں‌ شاعر نے۔ آپ اس غزل کو یاد کر کے نیم بسمل ہو گئے افسوس تو ہوا لیکن خوشی اس بات کی کہ یہ غزل اب بھی آپ کے رگ و پے میں سمائی ہے اور یقیناً مزید بھی ہونگی۔ ہم قتیلانِ شعر و شاعری کیلیے کچھ اور بھی گاہے گاہے :smile:

  14. عمر احمد بنگش

    واہ، جی نیرہ نور نے تو کمال انصاف کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔
    یہ غزل میں نے اگر لاکھوں نہیں، ہزاروں بار سنی ہو گی ضرور، لیکن ہفتہ دس دن پہلے یہاں ایک لوکل ایف ایم چینل پر کسی لائیو پروگرام سے ریکارڈ کی ہوئی یہی غزل نیرہ نور کی آواز میں نشر کی، تو اس میں عام طور پر گائے گئے شعروں، جو کہ اجمل صاحب نے یہاں لکھے بھی ہیں، سے دو شعر زیادہ تھے، میں نے انٹر نیٹ پر وہ ریکارڈنگ بہت ڈھونڈی، لیکن ملی نہیں، اگر کسی صاحب کو اس بارے کوئی معلومات ہوں تو براہ مہربانی پوری غزل اگر لکھ بھیجیں تو مہربانی ہو گی۔
    اور اجمل صاحب، آپ کی پسند کا جواب نہیں۔۔۔۔۔۔۔ واقعی !!!!!۔

  15. ارسلان نعیم

    پیارے ماموں جان، جزاکللّھ، آپ نے جو شعر کی وضاحت کی ہے، اس کے بعد غزل پڑھنے کا مزید لطف آیا-

  16. افتخار اجمل بھوپال Post author

    محمد وارث اور عمر احمد بنگش صاحبان
    اس غزل میں شعر زیادہ ہیں جو اب مجھے یاد نہیں آ رہے ۔ پرانے زمانے کے شاعروں اور حالیہ دور کے شاعروں میں فرق یہ ہے کہ پرانے لوگ نظر انسانی بہتری کی طرف رکھتے تھے اور حقیقت کو پالینا چاہتے تھے یا دوسروں کو اس کی ترغیب دیتے تھے جبکہ پچھلی آدھی صدی میں مشہور ہونے والے شاعر مادیت پر نظر رکھتے ہیں ۔ بہزاد لکھنوی صاحب نے کمال فلسفہ پیش کیا ہے ۔ چاہت ہے نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی قربت کی اور اظہار ہے اس لذت کا جو اس قربت کو حاصل کرنے والی جد و جہد میں ہے کہ شاعر قریب پہنچنے کے بعد بھٹکنا چاہتا ہے تاکہ اس جد و جہد کی لذت ختم نہ ہو

  17. Gohar Behzad

    یہ غزل میرے دادا حضور نے لکھی. یہ غزل خالییصتاً معرفت ہے. بہزاد لکھنوی نہ صرف شاعر اور ادیب تھے بلکہ سچے عاشقِ رسول بھی ہیں. بہزاد لکھنوی کا ایک شعر آپ سب احباب کی نظر..

    اُس کا بندہ ہوں جسے قبلہ نما کہتے ہیں
    جس کو الفاظِ محبت میں خُدا کہتے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.