Monthly Archives: March 2009

کیاواقعی ایساہے

میرا پاکستان والے صاحب نے میری تحریر سے آگے چلتے ہوئے کچھ ایسا استدلال اختیار کیا ہے جو منطق [Logic] اور تاریخی حقائق کی نفی کرتا ہے ۔ میں نہ تو عالِمِ دین ہوں نہ عالِمِ تاریخ ۔ طالب عِلم کی حیثیت سے جو میں اپنے 60 سالہ مطالعہ کی روشنی میں اُن کے مندرجہ ذیل بیانات کے متعلق اصل صورتِ حال کو مختصر طور پر واضح کرنے کی کوشش کروں گا ۔ اللہ میری مدد فرمائے

ناں مسلمان عربی سیکھ پائیں گے اور ناں انہیں قرآن میں کیا لکھا ہے اس کی سمجھ آئے گی۔ اس سازش کو کامیاب بنانے میں عام امام مسجدوں نے بنیادی کردار ادا کیا اور مسلمانوں کے بچوں کو قرآن عربی میں ہی ختم کرا کے سجمھا انہوں نے اسلام کی بہت بڑی خدمت کر لی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دوسری زبان سیکھنا بہت ہی مشکل تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم تو قرآن اور نماز اپنی اپنی علاقائی زبانوں میں پڑھنے کا حکم دے دیں تا کہ قرآن اور نماز پڑھتے ہوئے آدمی خدا سے براہ راست مخاطب ہو اور اسے پتہ چلے کہ وہ خدا سے کیا مانگ رہا ہے اور خدا اسے کیا حکم دے رہا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہمارا استدلال یہی ہے کہ نئی زبان سیکھنے کی کوفت میں کوئی بھی نہیں پڑے گا اور آسانی اسی میں ہے کہ دین کو اپنی علاقائی زبان میں پڑھا اور سیکھا جائے تا کہ ہر بات آسانی سے سمجھ میں آجائے۔ پندرہ بیس کروڑ کی آبادی کو عربی زبان سکھانے سے بہتر ہے کہ اسے اسی کی زبان میں دین کی تعلیم دی جائے۔ اس کی مثال دنیاوی تعلیم ہے اور مسلمانوں کے سوا دنیا کے باقی تمام ممالک میں ان کی علاقائی زبانوں میں تعلیم دی جاتی ہے

عربی زبان
عربی زبان سیکھنا مُشکل نہیں ہے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہموطن مسلمانوں کی اکثریت عربی زبان جس کے حروف اور رسم الخط جانے پہچانے ہیں اور جس کے کئی الفاظ ہماری اپنی زبان میں موجود ہیں کو کوئی اہمیت نہیں دیتی ۔ اس کے مقابلہ میں انگریزی جس کے حروف ۔ قوائدِ ترکیب ۔ صرفِ نحو اور رسمُ الخط سب کچھ بیگانے ہیں نہ صرف سیکھتے ہیں بلکہ اسے مادری زبان بنانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ سکولوں میں انگریزی پڑھانے والے کو اگر دس ہزار روپے ماہانہ معاوضہ دیا جاتا ہے تو عربی پڑھانے والے کو دو ہزار روپیہ دیا جاتا ہے ۔ انگریزی پڑھانے کیلئے اعلٰی سند یافتہ اُستاذ رکھا جاتا ہے اور عربی زبان پڑھانا کم خرچ کی خاطر کسی ایرے غیرے کے ذمہ لگا دیا جاتا ہے ۔ انگریزی پڑھانے والے کی عزت کی جاتی ہے اور عربی پڑھانے والے کا تمسخر اُڑایا جاتا ہے ۔ ایک بچے کو انگریزی گھر پر پڑھانے کا پانچ ہزار روپیہ ماہانہ دیا جاتا ہے ۔ گھر آ کر قرآن شریف پڑھانے والے کو ایک سو روپیہ ماہانہ دے کر احسان کیا جاتا ہے ۔ اِن حالات میں عربی زبان کیسے سیکھی جا سکتی ہے ؟

کیا عربی زبان سیکھنا مُشکل ہے ؟
ہمارے ہموطن انگریزی کے علاوہ جرمنی ۔ فرانس ۔ جاپان اور چین کی زبانیں ۔ علومِ کیمیاء طبعیات ریاضی بالخصوص کیلکُولس بلکہ ڈِفرینشل کیلکُولس سیکھنے کیلئے سالہا سال محنت کرتے ہیں تو اُنہیں قرآن شریف جس کے حروف اُردو کی طرح ہیں اور اُردو کی طرح ہی لکھی جاتی ہے کو ترجمہ کے ذریعہ سمجھنے میں کیونکر دقت درپیش ہے ؟ خاص کر جب کتابی صورت کے علاوہ انٹرنیٹ پر قرآن شریف کا ترجمہ سیکھنے اور عربی زبان سیکھنے اور بولنے کا طریقہ آسانی سے دستیاب ہے ۔ اس کے علاوہ وطنِ عزیز میں ایسے کئی مدارس یا جامعات ہیں جہاں قرآن شریف [تجوید ترجمہ تفسیر] ۔ علوم القرآن و حدیث ۔ تعارف ادیان ۔ دینی شخصیات کا احوال ۔ آدابِ زندگی [ذاتی ۔ معاشرتی ۔ کلام ۔ سلوک ۔ عدل] وغیرہ پڑھائے جاتے ہیں اور یہ گریجوئیٹ کیلئے ایک سالہ کورس ہے اور کورس کا خرچہ نہ ہونے کے برابر ہے ۔ جنہیں دین کی آرزو ہے وہ گھر بیٹھے بھی سیکھ سکتے ہیں مگر اوّل شوق ہی نہیں اور جو پڑھتے ہیں اُن کی اکثریت مادہ پرست ہونے کی وجہ سے اس پر عمل نہیں کرتی

تلاوت بغیر عربی زبان سیکھے
اگر کوئی اُردو پڑھنا جانتا ہو تو قرآن شریف کو سمجھے بغیر پڑھ سکتا اور پھر قرآن شریف میں ایسے الفاظ بھی ہیں جو اُردو میں موجود ہیں ۔ میرا نظریہ ہے کہ کوئی زیادہ وقت نہیں دے سکتا تو صرف روزانہ فجر کی نماز کے بعد قرآن شریف کا ایک رکوع اُردو ترجمہ کے ساتھ اس نیّت سے پڑھے کہ میں نے اسے ذہن نشین کرنا ہے اور اس میں دیئے گئے اللہ کے پیغام پر عمل کرنا ہے ۔ اِن شا اللہ وہ شخص قرآن شریف کو سمجھنے لگے گا اور اس پر عمل بھی کرنے لگ جائے گا ۔ رہی بات عربی زبان پڑھ کر خود قرآن شریف کا ترجمہ کرنا اور اس کو سمجھنا تو اس کیلئے لمبی عمر کے ساتھ انتہائی خشوع و خضوع درکار ہے ۔ اُن کیلئے بھی جن کی مادری زبان عربی ہے ۔ کُجا میرے جیسے کم عِلم جنہیں اپنی زبان کی بھی درست سمجھ نہیں ۔ اگلا سوال ہو گا کہ مختلف لوگوں نے مُختلف ترجمے کئے ہیں ۔ یہ ایک معاندانہ افواہ ہے جو مسلمانوں میں نفرت پیدا کرنے کیلئے پھیلائی گئی ہے ۔ حکومتِ پاکستان سے منظور شدہ اُردو تراجم سب ایک سے ہی ہیں ۔ الفاظ مختلف ہو سکتے ہیں مفہوم نہیں ۔ مستند عام فہم مختصر تفصیر کے ساتھ اُردو ترجمہ پڑھنے کیلئے دارالسلام پبلشرز کا احسن البیان ۔ مودودی صاحب کا تفہیم القرآن اور سعودی حکومت کا منظور شدہ قرآن مع اُردو ترجمہ اور تفسیر ۔ اولالذکر دونوں بازار میں عام ملتے ہیں اور تیسرا کسی سعودی سفارتخانہ کے تحت کام کرنے والے مکتب الدعوہ سے بغیر معاوضہ حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ تفہیم القرآن چھ عمدہ مجلد حصوں پر مشتمل 2500 روپے میں دستیاب ہے اور اس سے کم ہدیہ والے بھی ہیں ۔ احسن البیان کا ہدیہ اس سے کم ہے

مُلا کی تاریخ
جو قوم اپنی تاریخ میں ہی دلچسپی نہیں لیتی وہ بیچارے امام مسجد کی تاریخ کیسے جان سکتی ہے ؟ مُلا انگریزی کے پروفیسر [Professor] کا ہم وزن ہے ۔ وطنِ عزیز میں تو گیارہویں جماعت کو پڑھانے والے کو بھی پروفیسر کہتے ہیں لیکن میں اس کی نہیں بلکہ عمدہ جامعہ [university] کے پروفیسر کی بات کر رہا ہوں ۔ مُلا ایک ایسے شخص کو کہا جاتا تھا جو صرف عالِمِ دین نہیں بلکہ کئی علُوم کا عالِم ہوتا تھا ۔ زمانہ قدیم میں مساجد اور کلیسا عِلم کا گہوارہ تھے اور یہی جامعات تھے ۔ علمِ کیمیا کا ماہر ایواگیڈرو ایک پادری تھا ۔ یونانی ماہرِ کیمیا مارک ایک راہب تھا ۔ وہ مسلمان جنہوں نے ریاضی ۔ جغرافیہ ۔ فلکیات ۔ طب ۔ طبعیات ۔ کیمیا اور عِلمِ ہندسہ وغیرہ کو جدید ترقی کی پٹڑی پر چڑھایاسارے مُلا ہی تھے اور دین پر قائم رہتے ہوئے دنیاوی عِلم میں عروج حاصل کیا تھا ۔ جب عیسائیوں نے مذہب کو دنیا سے الگ کیا تو علِم کو کلیسا بدر کر دیا جس کے نتیجہ میں عیسائی اپنے مذہب سے دور ہوتے چلے گئے ۔ ہند وستان پر انگریزوں کا غلبہ ہو جانے کے بعد تمام عالِم خواہ وہ دین کے تھے یا دنیاوی عِلم کے سب کو تہہ تیغ کر دیا گیا اور مساجد جو کہ جامعات [universities] تھیں کا خرچ چلانے کیلئے مُختص جاگیریں ضبط کر لی گئیں ۔ پھر چھوٹے قصبوں اور دیہات سے کم پڑھے لکھے روٹی کے محتاج چند سو جوانوں کو چُن کر دین اسلام کی خاص تعلیم و تربیت کیلئے برطانیہ بھیجا گیا ۔ اس تعلیم و تربیت کے بعد انہيں واپس لا کر مساجد کے امام بنا دیا گیا اور ان کا نان و نفقہ متعلقہ علاقہ کے لوگوں کے ذمہ کر دیا گیا ۔ اس طرح مُلا جمعراتی کی پود لگا کر اُس کی آبیاری کی جاتی رہی ۔ حکومت ان مُلاؤں سے اپنی مرضی کے فتوے لیتی رہی ۔ دین کا کامل علم نہ رکھنے کی وجہ سے اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے ان انگریز غلام مُلاؤں نے اپنے مقتدیوں کو رسم و رواج میں اُلجھایا اور فرقوں میں بانٹ دیا ۔ بد قسمتی یہ ہے آج بھی امام مسجدوں کی بھاری اکثریت ایسے ہی مُلاؤں پر مشتمل ہے ۔ جبکہ نہ حکومت اور نہ مقتدی اسلام نافذ کرنا چاہتے ہوں تو ملاؤں کا کیا قصور ؟

قرآن شریف اپنی زبان میں
قرآن شریف کا ترجمہ رائج کرنا اسلئے بھی غلط ہے کہ کسی زبان کا ترجمہ کیا جائے تو مضمون کی اصل روح کا ترجمہ نہیں کیا جا سکتا اور بعض اوقات مترجم اصل عبارت کا مفہوم ہی بدل کے رکھ دیتا ہے ۔ اس وقت دنیا کی ہر بڑی زبان میں قرآن شریف کا ترجمہ موجود ہے ۔ اگر صرف دوسری زبانوں پر ہی انحصار شروع کر دیا جائے تو اللہ کا اصل پیغام لوگوں کے ذہنوں سے محو ہونا شروع ہو جائے گا ۔ مزید برآں پہلے سے کوشاں مخالف قوتوں کو اسے بدلنے میں سہولت ہو جائے گی اور قرآن شریف کے ساتھ وہی کچھ ہو گا جو تورات ۔ زبور اور انجیل کے ساتھ ہوا آج دنیا میں بائبل کے نام سے درجنوں مختلف کتابیں موجود ہیں ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے قرآن شریف میں کچھ ایسی تاثیر رکھی ہے کہ عربی نہ سمجھتے ہوئے بھی قرآن شریف کی تلاوت بہت اثر رکھتی ہے اور پورا قرآن شریف لوگ زبانی یاد کر لیتے ہیں ۔ لیکن یہ سب تو صرف بحث ہے ۔ آجکل قرآن شریف کے مستند بامحاوہ ترجمہ آسانی سے دست یاب ہے ۔ اسے پڑھ کر اپنے فراض و حقوق کو اچھی طرح سے ذہن نشین کیا جا سکتا ہے اس کے ساتھ ساتھ عربی میں تلاوت جاری رکھی جائے تو اللہ کے کلام کی برکت سے بہت کچھ سمجھ آنے لگ جاتا ہے ۔ آزمائش شرط ہے

قرآن شریف سے قبل جتنے صحیفے اُتارے گئے وہ ایک مخصوص قوم کیلئے تھے ۔ جب اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے دین مکمل کرنا چاہا تو ایسی زبان میں قرآن شریف اُتارا جو اُس وقت کی آباد دنیا کے اکثر حصہ میں سمجھی جاتی تھی اور وہ زبان عربی تھی ۔ تاریخ پر غور کیا جائے تو عربی زبان نہ صرف جزیرہ نما عرب بلکہ ملحقہ علاقوں میں بھی بولی یا کم از کم سمجھی جاتی تھی ۔ مشہور واقع حبشہ کا ہے جو افریقہ میں واقع تھا اور مکہ سے سب سے پہلے ہجرت کرنے والے مسلمان حبشہ پہنچے تھے اور وہاں کے عیسائی بادشاہ کو سورت مریم سنانے پر بادشاہ نے اُنہیں اپنا مہمان بنا لیا تھا

اپنی اپنی زبان میں قرآن شریف کا ترجمہ کرنا بھی آسان نہیں ۔ پچھلے 55 سال کے دعووں کے برعکس اب تک نہ مُلک میں اُردو نافذ کی گئی ہے اور نہ تعلیم اُردو میں شروع ہوئی ہے وجہ صرف یہ ہے کہ عام پڑھی جانے والی آسان کتابوں کا بھی اُردو میں ترجمہ نہیں ہوا ۔ علاقائی زبانوں میں کون اور کیسے ترجمہ کرے گا ؟ پھر پاکستان میں درجن بھر زبانیں بولی جاتی ہیں اور ہر زبان ہر ضلع میں فرق بولی جاتی ہے اور کئی اضلاع میں ہر تحصیل میں فرق فرق بولی جاتی ہے ۔ پنجابی ہی دیکھ لیں ۔ ہر ضلع میں فرق فرق ہے ۔ راولپنڈی کی تو ہر تحصل کی پنجابی فرق ہے ۔ ایک تحصیل میں آؤں گا دوسری میں آ ریساں تیسری آساں نا چھوتھی میں اچھی ریساں ۔ ایک تحصیل میں شودا کا مطلب بدمعاش یا انگریزی والا شوئی [showy] ہے اور دوسری تحصیل میں شودا کا مطلب بیچارا ہے ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ بہت کم لوگ ہیں جو اپنی مادری یا علاقائی زبان کو ہی پڑھ ۔ لکھ یا درست طریقہ سے بول سکتے ہیں ۔ اصل مسئلہ ہماری قوم کا خواندگی ہے جو 31 فیصد ہے اور اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو معمولی اُردو لکھ اور پڑھ لیتے ہیں

قرآن شریف اپنی زبان میں پڑھنے کا نتیجہ
اپنی زبان میں قرآن شریف اور نماز پڑھنے سے لوگوں کے اللہ کے بتائے راستے پر چل پڑنے والی بات تاریخ کی صریح نفی ہے ۔ ترکی کے مصطفٰے کمال پاشا نے مئی 1881ء میں حکومت پر قبضہ کرنے کے بعد مولویوں کو جاہل قرار دے کر اُن سے دین چھین لیا ۔ مسجدوں کو تالے لگا دیئے ۔ اپنی قوم کا [بقول اُسکے] ترقی کی راہ میں حائل لباس اُتروا کر اُنہیں ترقی دلانے والا یورپی نیم عُریاں لباس پہنا دیا ۔ یہاں تک کہ اپنا رسم الخط بدل کر انگریزی رسم الخط رائج کیا ۔ قرآن شریف کا ترجمہ اپنی زبان میں کروایا اور حُکم دیا کہ قرآن شریف اور نماز صرف ترکی زبان میں پڑھی جائے گی ۔ مصطفٰے کمال پاشا 10 نومبر 1938ء تک حکمران رہا ۔ اس عرصہ میں مسلمانی زیادہ ہونے کی بجائے بہت کم ہو گئی اور ترکی میں مسلمانوں نے شراب اور سؤر کے گوشت کا کثرت سے استعمال شروع کر دیا اور دیگر غیراسلامی عادات اپنا لیں لیکن اس جدیدیت کو اپنانے کے ایک صدی بعد بھی ترکی کو یورپی یونین کی رُکنیت نہ مل سکی ۔ میں 1979ء میں بیوی بچوں سمیت استنبول گیا ۔ اتفاق سے رمضان کا مہینہ تھا ۔ میری بیگم کو فکر پڑی تھی کہ افطار میں دیر نہیں ہونا چاہیئے ۔ مجھے ہوٹل میں صرف ایک شخص ملا جسے معلوم تھا کہ روزہ کتنے بجے کھُلے گا ۔ مُسلمانوں کے اس بڑے شہر میں روزہ کب کھلے گا معلوم کرنا تو در کنار اکثریت کو روزے کا ہی معلوم نہ تھا ۔ اسے کہتے ہیں

نہ خُدا ہی ملا نہ وصالِ صنم
نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے

دوسرے ممالک میں اپنی اپنی زبان میں تعلیم
دوسرے ممالک میں اپنی زبان میں تعلیم کے حوالے پر میں مُسکرائے بغیر نہ رہ سکا ۔ درست ہے کہ جرمنی ۔ فرانس ۔ اطالیہ ۔ چین ۔ جاپان حتٰی کہ عرب ممالک میں بھی دنیاوی تعلیم اپنی اپنی زبانوں میں ہے لیکن وطنِ عزیز میں آج تک دنیاوی تعلیم کا علاقائی تو چھوڑ قومی زبان میں پڑھانے کا بندوبست ہو نہیں سکا یعنی اتنا بھی نہیں ہو سکا کہ انسان کی لکھی سائنس ۔ ریاضی وغیرہ کی کتابوں کا ترجمہ اُردو میں کر لیا جائے جو کوئی مُشکل کام نہیں اور ہم چلے ہیں اللہ کے کلام کا ترجمہ درجنوں علاقائی زبانوں میں کرنے جن کی سو سے زائد مقامی طرحیں ہیں ۔ وہ اللہ کا کلام جسے عام عربی پڑھنے والا بھی بغیر اُستاذ کے سمجھ نہیں سکتا ۔ جبکہ قرآن شریف کو سمجھنے کیلئے ہر سورت اور آیت کے شانِ نزول اور تاریخ کو بھی تحقیقی نگاہ سے پڑھنا پڑتا ہے

یہودی ریاست کا حق ؟

“غیر تو غیر ہوۓ اپنوں کا بھی یارا نہ ہوا” کے مصداق کچھ ہموطبن بھائیوں اور بہنوں کا بھی یہ خیال ہے کہ اسرائیل یہودیوں کا حق تھا یا یہ کہ چونکہ اسرائیل بن چکا ہے اس لئے اس حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہیئے ۔ جہاں تک ریاست کے حق کا معاملہ ہے تو اس کی کچھ تو زمینی بنیاد ہونا چاہیئے

میں نے اپنی اس سے قبل کی تحاریر میں جو تاریخی حقائق بیان کئے ہیں وہ یہودی ریاست کی نفی کرتے ہیں ۔ مزید میں دستاویزی حقیقت بیان کر چکا ہوں کہ حضرت اسحاق علیہ السّلام مسجد الاقصٰی میں عبادت کرتے رہے مگر حج کے لئے وہ مکّہ مکرّمہ میں خانہ کعبہ ہی جاتے تھے ۔ ان کے پوتے حضرت یوسف علیہ السّلام جب مصر کے بادشاہ بنے تو انہوں نے اپنے خاندان کے اکتیس اشخاص کو جن میں ان کے والد حضرت یعقوب علیہ السّلام اور سارے بھائی بھی شامل تھے مصر بلا لیا تھا ۔ بنی اسراءیل کے یہودی پہلے ہی دولت و ثروت کی خاطر فلسطین چھوڑ کر مصر میں آباد ہو گئے تھے اور مصریوں کے غلام ہونا قبول کر چکے تھے ۔ حضرت یعقوب علیہ السّلام نے جاتے ہوۓ مسجد الاقصٰی فلسطینی باشندوں کے سپرد کر دی تھی جو کہ نیک لوگ تھے مگر بنی اسراءیل میں سے نہیں تھے

حضرت یوسف علیہ السّلام کے 300 سال بعد حضرت موسی علیہ السّلام مصر میں پیدا ہوۓ ۔ جس سرزمین پر یہودی اپنی میراث ہونے کا دعوی کرتے ہیں اسے انہوں نے اپنی مرضی سے حضرت موسی علیہ السّلام سے 400 سال پیشتر خیر باد کہہ کر مصر میں دولت کی خاطر غلام بننا قبول کیا تھا

حضرت موسی علیہ السّلام کے 40 سال بعد تک بنی اسراءیل صحراۓ سینائی میں بھٹکتے رہے یہانتک کہ ان کی اگلی نسل آ گئی جس میں حضرت داؤد علیہ السّلام پیدا ہوۓ اور انہوں نے بھٹکی ہوئی بنی اسراءیل کو فلسطین جانے کو کہا ۔ میں لکھ چکا ہوں کہ کس طرح حضرت داؤد علیہ السّلام فلسطین کے بادشاہ بنے ۔ اول تو حضرت داؤد علیہ السّلام یہودی نہ تھے بلکہ قرآن شریف کے مطابق مُسلم تھے
لیکن اگر یہودیوں کی بات مان لی جاۓ تو بھی یہ حکومت اس وقت مکمل طور پر ختم ہو گئی تھی جب آج سے 2591 سال قبل بابل والوں نے اس پر قبضہ کر کے بمع عبادت گاہ سب کچھ مسمار کر دیا تھا اور بنی اسراءیل کو وہاں سے نکال کر اپنا غلام بنا لیا تھا ۔ [بابل عراق کے شمالی علاقہ میں تھا اور ہے]

اب پچھلی صدی کی صورت حال کا جائزہ لیتے ہیں ۔ اس کی مثال اس طرح ہے ۔ کہ میرے پاس 100 ایکڑ زمین تھی ایک جابر اور طاقتور
شخص نے اس میں سے 40 ایکڑ پر زبردستی قبضہ کر لیا ۔ اب صلح کرانے والے مجھے یہ مشورہ دیں کہ “میری 40 فیصد زمین پرظالم کا قبضہ ایک زمینی حقیقت ہے اس لئے میں اسے قبول کر لوں اور شکر کروں کہ 60 ایکڑ میرے پاس بچ گئی ہے ۔” کیا خُوب انصاف ہوگا یہ ؟ ؟ ؟ اور پھر اس کی کیا ضمانت ہو گی کہ وہ طاقتور شخص مجھ سے باقی زمین نہیں چھِینے گا ؟

اسرائیل کے تمام لیڈروں کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت کھُل کر سامنے آ جاتی ہے کہ ان میں سے کوئی بھی فلسطین تو کیا سرزمینِ عرب سے بھی تعلق نہیں رکھتا ۔ تھیوڈور ہرستل بڈاپسٹ [ہنگری] کا تھا ۔ بن گوریاں پولانسک [پولینڈ] کا ۔ گولڈا میئر کِیو [یوکرَین] کی ۔ مناخم بیگِن بریسٹ لِٹواسک [روس] کا ۔ یِتسہاک شمِیر رُوزینوف [پولینڈ] کا ۔ چائم وائسمَین جو اسرائیل کا پہلا صدر بنا وہ موٹول [پولینڈ] کا تھا

ثابت یہی ہوتا ہے کہ اسرائیل کے لیڈروں کا فلسطین سے نہ تو کوئی تعلق تھا اور نہ ہے اور نہ فلسطین یا اس کا کوئی حصہ کبھی بھی یہودیوں کی مملکت تھا ۔ ریاست اسرائیل کا وجود جور و جبر کا مرہون منت ہے ۔ اگر یہ اصول مان لیا جاۓ کہ چونکہ 1005 قبل مسیح میں حضرت داؤد علیہ السلام کی حکومت شروع ہونے سے وہاں بابل والوں کے قبضہ تک 400 سال یہودی فلسطین کے علاقہ میں رہے یعنی آج سے 2610 سے 3010 سال پہلے تک تو اس کی بنیاد پر یہودیوں کی ریاست وہاں ہونا چاہیئے ۔ پھر ہسپانیہ ۔ مشرقی یورپ ۔ مغربی چین ۔ مغربی روس اور ہندوستان پر 800 سال یا اس سے زیادہ عرصہ مسلمانوں کی حکومت رہی ہے چنانچہ یہ سارے ملک مسلمانوں کے حوالے کر دیئے جائیں ۔

اِسی طرح کئی اور ملکوں کا تنازع بھی کھڑا ہو سکتا ہے ۔ کوئی عجب نہيں کہ کل کو بھارت کے ہندو کہیں کہ موجودہ پاکستان کے کافی علاقہ پر تو ہمارے موریہ خاندان [چندر گپت اور اشوک کمار ۔322 سے 183 قبل مسیح] نے 129 سال حکومت کی تھی اور اسے واپس لینے کے لئے بھارت پاکستان پر حملہ کردے اور امریکہ وغیرہ اسرائیل کے متذکّرہ اصول پر بھارت کا ساتھ دیں ۔ اِسی طرح مسلمانوں کا بھی حق بنتا ہے کہ سارے مِل کر جنوبی اور مشرقی یورپ پر حملہ کردیں کہ یہاں کِسی زمانہ میں مسلمانوں کی حکومت تھی ۔ قدیم امریکی موجودہ سفید فام امریکیوں کو جو کہ دراصل انگریز ۔ جرمن ۔ ہسپانوی وغیرہ ہیں امریکہ سے نکل جانے کا کہیں ۔ آسٹریلیا کے اصل باشندوں کی خاطر سفید فام آسٹریلویوں کو نکل جانے کا حکم دیا جائے ۔

اگر یہ سب کچھ نہیں ہو سکتا تو پھر اِسرائیل بنانا کِس طرح جائز ہے ؟ ؟ ؟

علامہ اقبال کا ایک شعر ہے

ہے خاک فلسطین پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پہ حق نہیں کیوں اہل عرب کا

تعلیمی ترقی عروج پر

مندرجہ ذیل خبر پڑھ کر قیافہ یہ ہے کہ فیصل کالونی پر الطاف حسین کے جان نثاروں کا راج ہے

کراچی کے علاقے شاہ فیصل کالونی میں واقع العمر فاونڈیشن نامی اسکول میں غیر قانونی امتحانی مرکز کی موجودگی کی اطلاع پر ڈسٹرک ایجوکیشن افسر احمد نواز نیازی کی سربراہی میں ایک اسپیشل وِجِیلَینس ٹیم نے اسکول پر چھاپہ مار ا جہاں مختلف کلاسوں میں درجنوں طلبہ و طالبات میٹرک سائنس گروپ کا انگریزی کا پرچہ کتابوں اور اساتذہ کی مدد سے حل کرنے میں مصروف تھے جبکہ ایک خاتون کسی اور کا پرچہ حل کررہی تھیں ۔ العمر فاونڈیشن کو اس سال میٹرک کے امتحانات کے لیے میٹرک بورڈ کی جانب سے امتحانی مرکز نہیں بنایا گیا تھاجبکہ العمر فاونڈیشن کے طلبہ کا امتحانی مرکز شاہ فیصل کالونی ہی میں واقع ایک اسکول ایگرو ٹیکنیکل میں تھا لیکن اسکول کے طلباء و طالبات ایگرو ٹیکنیکل کی بجائے اپنے ہی اسکول میں نہایت آرام سے پرچہ حل کرنے میں مصروف تھے ۔ چھاپہ پڑتے ہی اسکول میں افراتفری میچ گئی اور طلباء و اساتذہ اسکول کے عقبی راستے سے فرار ہوگئے

طلباء و اساتذہ کے فرار ہونے کے تھوڑی دیر بعد بعض مسلح افراد اسکول پہنچ گئے جس پر وِجِیلَینس ٹیم کو بھی اسکول کے عقبی راستے سے فرار ہونا پڑا

قرآن اور ہم

سیّدہ شگفتہ صاحبہ لکھتی ہیں کہ “قرآن پاک رٹ لینا ۔ آسان ۔ ۔ سمجھ لینا ۔ مشکل ۔ ۔ سمجھ کر عمل کرنا ۔ مشکل ترین ہے ۔ مزید لکھتی ہیں “حفاظِ قرآن کا تصور صرف مدارس سے ہی کیوں مختص ہے ۔ تمام معاشرے سے کیوں نہیں ؟”

سیّدہ شگفتہ صاحبہ کا سوال دعوت ہے کہ ہر مسلمان ہموطن اپنے آپ سے یہ سوال پوچھے
موضوع بھی بہت اہم چھیڑا ہے ۔ تبصرہ طویل ہو جانے اور اس سوچ کے تحت کہ عام قارئین مستفید ہو سکیں میں نے اس کا جواب اپنے بلاگ کے سرِ ورق رقم کرنا مناسب خیال کیا ۔ میرا تجربہ ہے کہ قرآن شریف رَٹ لینے سے سمجھ کر پڑھنا آسان ہے ۔ اگر سمجھ کر پڑھ لیا جائے تو عمل کرنا بہت مشکل نہیں رہتا ۔ صرف اتنا ہی مشکل ہوتا ہے جتنا دنیاوی قوانین پر عمل کرنا ۔ اصل مشکل صرف رویّئے اور نیّت کی ہے ۔ اگر اَن پڑھ خاندان کی ایک عورت جو ایک دن کیلئے بھی کسی مدرسہ یا سکول نہیں گئی محنت مزدوری کرنے کے ساتھ ساتھ دو سال کے اندر پہلے ناظرہ قرآن شریف پڑھ لیتی ہے اور پھر قرآن ترجمہ کے ساتھ ۔ تو پڑھے لکھے خاندانوں کے لوگ جو سکولوں اور کالجوں کے بھاری اخراجات ادا کر کے سائنس ۔ انگریزی ۔ سیاست ۔ وکالت وغیرہ پڑھتے ہیں وہ قرآن شریف کو سمجھ کر کیوں نہیں پڑھ سکتے ؟ جس عورت کا میں نے ذکر کیا ہے ہماری ملازمہ ہے جو اپنی شادی کے کئی سال بعد ہمارے پاس آئی اور سات آٹھ سال قبل میری بیوی سے پہلے ناظرہ اور پھر ترجمہ کے ساتھ قرآن شریف پڑھا ۔ پھر کچھ سال اپنے خاوند کے خاندانی معاملات کے سلسلہ میں اِدھر اُدھر رہی پھر میاں بیوی واپس ہمارے پاس آ گئے ہوئے ہیں

قرآن شریف کا نزول بطور آئینِ حیات ہوا تھا تاکہ اس پر عمل کیا جائے اور کسی چیز پر عمل پیرا ہونے کیلئے اسے سمجھ کر پڑھنا لازم ہوتا ہے ۔ قرآن شریف کی عزت یہ نہیں ہے کہ اسے مخمل کا غلاف چڑھا کر اُونچی جگہ پر رکھ دیا جائے بلکہ یہ ہے کہ اسے سمجھ کر پڑھا جائے اور اس پر عمل کیا جائے

سورت ۔ 73 ۔ المزمل ۔ آیت ۔ 4 ۔ ۔ ۔ ۔ وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا ۔ ترجمہ ۔ اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کرو

اللہ نے قرآن شریف ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے کا حُکم دیا ہے ۔ پڑھے لکھے لوگ جانتے ہیں کہ ٹھہر ٹھہر کر وہ چیز پڑھی جاتی ہے جسے ذہن نشین کرنا ہو ۔ ایک غلط نظریہ یہ بھی ہے کہ جو لوگ کچھ نہ کر سکیں وہ قرآن شریف کو طوطے کی طرح رَٹ لیں ۔ کچھ لوگوں نے قرآن شریف کو کسی کے مرنے پر فرفر پڑھنے کیلئے مُختص کر دیا ہے ۔ قرآن شریف کی تلاوت کارِ ثواب ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ طوطے کی طرح بغیر سمجھے پڑھا جائے ۔ شاید قرآن شریف کو بغیر سمجھے پڑھنے کا ہی نتیجہ ہے کہ ہماری نماز ہمیں بُرائی سے نہیں روک پاتی

سورت ۔ 29 ۔ العنکبوت ۔ آیت ۔ 45 ۔ ۔ کتاب جو تمہاری طرف وحی کی گئی ہے اس کو پڑھا کرو اور نماز کے پابند رہو ۔ کچھ شک نہیں کہ نماز بےحیائی اور بری باتوں سے روکتی ہے۔ اور اللہ کا ذکر بڑا [اچھا کام] ہے ۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اُسے جانتا ہے

حفظ کرنا بھی اچھی بات ہے ۔ اگر حفاظ نہ ہوتے تو قرآن شریف کے خلاف ہر دور میں کی گئی سازشوں کے باوجود اس کا مکمل درست حالت میں ہم تک پہنچنا بہت مُشکل تھا ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے قرآن شریف کی حفاظت کا ذمہ لیا تھا شاید اسی لئے ہزاروں مسلمانوں کو توفیق دی کہ اسے حفظ کر لیں ورنہ کوئی اور کتاب دنیا میں ایسی نہیں جسے کسی انسان نے ہُوبہُو یاد کیا ہو ۔ میرے ایک دوست ایم ایس سی انجنرنگ ہیں اور حافظ قرآن ہیں ۔ اُن کے بیٹے اچھے سکولوں اور کالجوں میں پڑھتے ہیں اور انہوں نے قرآن شریف بھی حفظ کیا ہوا ہے ۔ اللہ کے فضل سے وہ دین پر عمل پیرا ہیں اور دنیا کا کام بھی احسن طریقہ سے چلا رہے ہیں

مدرسوں کے متعلق بھی عام لوگوں کی معلومات بہت کم ہیں ۔ جو باقاعدہ مدرسے ہیں وہاں قرآن شریف کا رَٹا نہیں لگوایا جاتا البتہ کچھ طالب علم قرآن شریف حفظ کر لیتے ہیں ۔ ان مدرسوں میں قرآن ۔ حدیث ۔ اصولِ فقہ ۔ فقہ ۔ اُردو ۔ عربی ۔ انگریزی ۔ ریاضی ۔ سب کچھ پڑھایا جاتا ہے اور اب تو کئی مدارس میں کمپیوٹر کی تعلیم بھی دی جا رہی ہے ۔ عام لوگ مدرسہ شاید اُسے سمجھتے ہیں جو محلے کی مسجد کے ساتھ ہوتا ہے جہاں بچے اُونچی آواز میں قرآن شریف کے الفاظ رَٹ رہے ہوتے ہیں ۔ یہ دراصل مدرسے نہیں ہوتے ۔ دیگر بہت سی مساجد کے امام جو اس محلہ کے لوگوں نے مقرر کر رکھے ہیں یا جو لوگ ان مساجد میں بچوں کو پڑھاتے ہیں وہ دینی لحاظ سے تعلیم یافتہ نہیں ہوتے تو وہ بچوں کو سوائے اس کے اور کیا پڑھائیں گے ؟

سورت 2 ۔ البقرہ ۔ آیات 8 تا 13 ۔ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے ہیں حالانکہ درحقیقت وہ مؤمن نہیں ہیں ۔ وہ اللہ اور ایمان لانے والوں کے ساتھ دھوکہ بازی کر رہے ہیں ۔ مگر دراصل وہ خود اپنے آپ کو دھوکہ میں ڈال رہے ہیں اور انہیں اس کا شعور نہیں ہے ۔ ان کے دِلوں میں ایک بیماری ہے جسے اللہ نے اور زیادہ بڑھا دیا اور جو جھوٹ وہ بولتے ہیں اس کی پاداش میں ان کیلئے دردناک عذاب ہے ۔ جب کبھی ان سے کہا گیا کہ زمین میں فساد برپا نہ کرو تو انہوں نے یہی کہا کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں ۔ خبردار حقیقت میں یہی لوگ مفسد ہیں مگر انہیں شعور نہیں ہے ۔ اور جب ان سے کہا گیا کہ جس طرح دوسرے لوگ ایمان لائے ہیں اسی طرح تم بھی ایمان لاؤ تو انہوں نے یہی جواب دیا کیا ہم بیوقوفوں کی طرح ایمان لائیں ۔ خبردار حقیقت میں تو یہ خود بیوقوف ہیں مگر یہ جانتے نہیں ہیں

سورت 2 ۔ البقرہ ۔ آیت 120 ۔ یہودی اور عیسائی تم سے ہرگز راضی نہ ہوں گے جب تک تم ان کے طریقے پر نہ چلنے لگو ۔ صاف کہدو کہ راستہ بس وہی ہے جو اللہ نے بتایا ہے ۔ ورنہ اگر اُس علم کے بعد جو تمہارے پاس آ چکا ہے تم نے اُن کی خواہشات کی پیروی کی تو اللہ کی پکڑ سے بچانے والا نہ کوئی دوست ہوگا اور نہ کوئی مددگار

اللہ ہمیں سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے

اندرونِ خانہ

میں کسی شخص کے گھر کے اندر کی بات نہیں کرنے جا رہا بلکہ یہ ایک محاورہ ہے ۔ “اندروں خانہ” کی بجائے کچھ لوگ “اندر کھاتے” کہتے ہیں ۔ پنجابی میں “وِچلی گَل” یعنی اندر کی بات کہا جاتا ہے

پس منظر
لانگ کی مارچ 12 مارچ 2009ء کو ابتداء ہوئی تو پنجاب کی سلمان تاثیری حکومت نے تمام پنجاب میں دفعہ 144 کا نفاز کرنے پر ہی اکتفا نہ کیا تھا بلکہ مختلف قسم کی دیواریں کھڑی کر کے پنجاب کے تمام شہریوں کو اپنے اپنے شہروں میں محسور کر دیا پھر 14 مارچ کو شہر لاہور میں رائیونڈ ۔ ماڈل ٹاؤن اور مال روڈ بالخصوص جی پی اور چوک کی طرف جانے والے تمام راستوں پر جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کر کے احتجاج کیلئے اکٹھے ہونے کو اگر ناممکن نہیں تو بہت مشکل بنا دیا ۔ لاہور کا رہائشی ہوتے ہوئے سلمان تاثیر یہ بھول گئے کہ لاہوریئے جو کام کرنے پر تُل جائیں وہ جان پر کھیل کے کر ڈالتے ہیں

معرکہ جی پی او
جو کچھ 15 مارچ کو لاہور جی پی او چوک پر ہوا مستقبل میں لوگ اسے یاد رکھیں گے ۔ وہاں موجود مظاہرین سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق مظاہرہ کرنے کا ارادہ رکھنے والوں نے فیصلہ کیا کہ 15 مارچ کو صبح سویرے دو دو تین تین کر کے مختلف راستوں سے جی پی او چوک پہنچا جائے گا ۔ ان میں بھاری تعداد اسلام جمیعت طلباء کی تھی ۔ باقی زیادہ تحریکِ انصاف کے تھے ۔ ان کے علاوہ مسلم لیگ ن کے جوان بھی تھے ۔ ابھی کوئی 150 کے قریب لوگ جی پی اور چوک پہنچے تھے کہ پولیس نے اُن پر اشک آور گیس کے گولے بے تحاشہ پھینکنے شروع کر دیئے ۔ اس اچانگ یلغار سے پریشان ہو کر مظاہرین بھاگے تو وہاں موجود ایک ستر بہتر سالہ شخص نے بآواز بلند کہا “کہاں بھاگ رہے ہو ۔ یہ وقت مُلک کیلئے قربان ہونے کا ہے ۔ ڈٹ جاؤ”۔ اُس بزرگ کی آواز نے سب بھاگتے پاؤں روک دیئے اور مظاہرین اب کی بار نہائت جوش سے پولیس پر پل پڑے کسی نے پتھر مارے کسی نے اشک آور گیس کا شیل واپس پولیس پر پھینکا ۔ اسلامی جمیعت طلباء کے لڑکے جی پی اور کی چھت پر بھی موجود تھے اُن کی سنگ باری اور اشک آور گولوں کی واپسی نے پولیس کو بھاگنے پر مجبور کر دیا ۔ آدھے گھنٹے کے اندر مسلم لیگ ن ۔ تحریک انصاف ۔ جماعت اسلامی اور سول سوسائٹی کے کارکنوں کی کافی تعداد وہاں پہنچ گئی ۔ یہ مظاہرین گروہوں میں بٹ کر چاروں طرف پھیل گئے اور پولیس پر سامنے کے علاوہ پیچھے سے بھی سنگ باری شروع ہو گئی ۔ یہ جنگ مغرب کے بعد تک جاری رہی ۔ بالآخر پولیس پسپا ہونے پر مجبور ہو گئی

معرکہ ایوانِ صدر
صدر صاحب چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے خائف تھے ۔ فاروق حمید نائیک نے آئین کی غلط تشریح کر کے حوصلہ افزائی کی اور صدر سے غلط حرکات کرواتے رہے ۔ باقی کسر رحمان ملک اور سلمان تاثیر نے پوری کی بمِصداق “چڑھ جا بچہ سولی رام بھلی کرے گا”۔ اس بنا پر کہ شریف برادران کے سیاست سے باہر ہوتے ہی مسلم لیگ ن کے ارکان اسمبلی پی پی پی کی گود میں آ گریں گے ان کو نااہل قرار دلوا کر غیر آئینی طور پر پنجاب اسملبی کا اجلاس نہ ہونے دیا پھر جو چھوٹا موٹا احتجاج ہو گا اُسے سنبھال لیا جائے گا ۔ جب 25 فروری کو ناگہانی احتجاج ہوا اور 15 مارچ کو جمِ غفیر کی صورت اختیار کر گیا تو رحمان ملک کی ایف آئی اے نے صدر صاحب کو بتایا کہ صرف چند ہزار لوگ ہیں جن سے آسانی سے نبٹا جا سکتا ہے ۔ صورتِ حال کی خبروں نے باہر کی دنیا پر اتنا اثر کیا کہ امریکہ اور برطانیہ سے ٹیلیفون آنے شروع ہو گئے اور ان کے سفیروں کے علاوہ سعودی عرب کے سفیر بھی متحرک ہو گئے ۔ وزیر اعظم جو دو دن قبل تھک ہار کر بیٹھ گئے تھے فوج کے سربراہ کی حوصلہ افزائی سے 15 مارچ کو پھر کو متحرک ہو گئے ۔ امریکہ نے بہت کوشش کی کہ نواز شریف لانگ مارچ سے علیحدہ ہو جائے لیکن نوازشریف ججوں کی بحالی کے بغیر لانگ مارچ سے علیحدہ ہونے پر راضی نہ ہوا ۔ ان مذاکرات کے دوران صدر کو بین الاقوامی طور پر شریف برادران کی نااہلی ختم کرنے کا وعدہ بھی کرنا پڑا ۔ رحمان ملک کی ایف آئی اے نے صدر کو بتایا تھا کہ صرف چند ہزار لوگ احتجاج کر رہے ہی جن پر بآسانی قابو پایا جا سکتا ہے ۔ یہی بات جب صدر نے فوج کے سربراہ اور وزیرِ اعظم کے سامنے کہی تو دوسرے خفیہ اداروں سے صورتِ حال کا پتہ کیا گیا جنہوں نے لانگ مارچ میں شامل ہونے والوں کی تعداد لاکھ سے اوپر بتائی اور کہا کہ جوں جوں وقت گذر رہا ہے تعداد بڑھتی جا رہی ہے اور راولپنڈی پہنچنے سے بہت پہلے ہی قافلہ قابو سے باہر ہو جائے گا ۔ جب اس پر بھی صدر صاحب راضی نہ ہوئے تو بات دھمکی تک پہنچی جو پورے زور دار طریقہ سے اُس نے دی جس کے پاس ہمارے مُلک کی اصل صاقت ہے ۔ اپنی کرسی جاتے اور جیل کی کوٹھری سامنے آتے دیکھ کر صدر صاحب کی “نہ” بمُشکل “ہاں” میں تبدیل ہوئی اور وزیرِ اعظم صاحب اعلان کا مسؤدہ تیار کرنے میں مصروف ہو گئے جو بار بار درست کیا گیا یہاں تک کہ تقریر ریکارڈ ہو جانے کے بعد دوبارا ریکارڈ کی گئی

معرکہ ڈوگر جو کامیاب نہ ہو سکا
جج صاحبان کی بحالی کا نوٹیفیکیشن ہوتے ہی صدر صاحب کے کاسہ لیسوں [نام نہاد مولوی اقبال حیدر اور شاہد اورکزئی] نے ججوں کی بحالی کے نوٹیفیکیشن پر عمل درآمد کو روکنے کیلئے عدالتِ عظمٰی میں دو درخواستیں دائر کر دیں جن میں فوری حُکمِ امتناعی جاری کرنے کی بھی درخواست کی تھی ۔ یہ دونوں درخواستیں عدالتِ عُظمٰی کے اس بینچ کے سامنے بروز جمعہ بتاریخ 20 مارچ 2009ء فیصلہ کیلئے رکھی گئیں جس کے سربراہ عبدالحمید ڈوگر تھے ۔ 20 مارچ کو اس بینچ کے سامنے 6 یا 7 کیس آنا تھے ۔ احمد رضا قصوری نے حکومتی سفارش سے اپنی 6 یا 7 درخواستیں ان میں شامل کروا دیں ۔ سابق اٹارنی جنرل ملک محمد قیوم نے اپنی 24 درخواستیں بھی اسی بینچ کے سامنے 20 مارچ کیلئے لگوا دیں یعنی کل 36 درخواستیں ہو گئیں جن میں 30 سے زائد کے متعلق خدشہ تھا کہ عبدالحمید ڈوگر کے جانے کے بعد ان پر دائر کرنے والوں کی پسند کا فیصلہ نہیں آئے گا ۔ عدالت بیٹھی تو بینچ میں شامل ایک بہت سینیئر جج نے بنچ کے سربراہ عبدالحمید ڈوگر سے کہا “ایک دن میں تین چار درخواستیں درست طریقہ سے نمٹائی جا سکتی ہیں اور یہ ؟” عبدالحمید ڈوگر جنہوں نے عدالتِ عظمٰی کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑتے ہوئے جمعرات 19 مارچ کو 19 درخواستیں نمٹائیں تھیں کہنے لگے انہیں آج نمٹانا ہے ۔ اس پر وہ جج یہ کہہ کر اُٹھ گئے کہ “میں تو یہ نہیں کر سکتا ۔ آپ میری جگہ کسی اور کو بُلا لیجئے”۔ باقی تمام جج اپنی اپنی عدالتوں میں مصروف تھے اسلئے تمام 36 درخواستیں التوء میں چلی گئیں اور عبدالحمید ڈوگر صاحب نے ایک دن قبل ہی آخری ملاقاتیں شروع کر دیں

یومِ پاکستان۔حقائق

flag-1بروز ہفتہ 12 صفر 1359ھ اور گریگورین جنتری کے مطابق 23 مارچ 1940ء لاہور میں بادشاہی مسجد اور شاہی قلعہ کی شمال کی طرف اُس وقت کے منٹو پارک میں جو پاکستان بننے کے بعد علامہ اقبال پارک کہلایا مسلمانانِ ہِند کے نمائندوں نے ایک متفقہ قرارداد منظور کی جس کا عنوان “قراردادِ مقاصد” تھا لیکن وہ minar-i-pakistanقرارداد اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے فضل و کرم سے قراردادِ پاکستان ثابت ہوئی ۔ مینارِ پاکستان علامہ اقبال پارک میں ہی کھڑا ہے ۔ مینار پاکستان بطور یادگار قراردادِ پاکستان تعمیر کیا گیا تھا ۔ عوام نے اسے یادگارِ پاکستان کہنا شروع کر دیا جو کہ مناسب نہ تھا ۔ چنانچہ اسے مینارِ پاکستان کا نام دے دیا گیا

مندرجہ بالا واقعہ ثابت کرتا ہے کہ اتحاد و یکجہتی کامیابی کا پیش خیمہ ہوتی ہے جو 55 سال سے زائد ہمارے ملک سے غائب رہنے کے بعد اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی مہربانی سے مارچ 2009ء میں کافی حد تک بحال ہوئی ہے ۔ اللہ قادر و کریم کے حضور میں دعا ہے کہ یہ ملی یکجہتی نہ صرف قائم رہے بلکہ مزید بڑھے اور قوم کا ہر فرد اپنے ذاتی مفاد کو بھُول کر باہمی اور قومی مفاد کیلئے جد و جہد کرے اور مستقبل کی دنیا ہماری قوم کی مثال بطور بہترین قوم کے دے ۔ آمین ۔

میرے مشاہدے کے مطابق بہت سے ہموطن نہیں جانتے کہ 23 مارچ 1940ء کو کیا ہوا تھا ۔ متعلقہ حقائق کا مختصر ذکر یہاں ضروری سمجھتا ہوں

آل اِنڈیا مسلم لیگ نے اپنا سالانہ اجتماع منٹو پارک لاہور میں 22 تا 24 مارچ 1940ء کو منعقد کیا ۔ پہلے دن قائد اعظم محمد علی جناح نے خطاب کرتے ہوئے کہا “ہندوستان کا مسئلہ راہ و رسم کا مقامی معاملہ نہیں بلکہ صاف صاف ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے اور اس کے ساتھ اسی طرز سے سلوک کرنا لازم ہے ۔ مسلمانوں اور ہندوؤں میں اختلافات اتنے بشدید اور تلخ ہیں کہ ان دونوں کو ایک مرکزی حکومت کے تحت اکٹھے کرنا بہت بڑے خطرے کا حامل ہے ۔ ہندو اور مسلمان واضح طور پر علیحدہ قومیں ہیں اسلئے ایک ہی راستہ ہے کہ انہوں اپنی علیحدہ علیحدہ ریاستیں بنانے دی جائیں ۔ کسی بھی تصریح کے مطابق مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں ۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے لوگ اپنے عقیدہ اور فہم کے مطابق جس طریقے سے ہم بہترین سمجھیں بھرپور طریقے سے روحانی ۔ ثقافتی ۔ معاشی ۔ معاشرتی اور سیاسی لحاظ سے ترقی کریں

قائد اعظم کے تصورات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اے کے فضل الحق جو اُن دنوں بنگال کے وزیرِ اعلٰی تھے نے تاریخی قرارداد مقاصد پیش کی جس کا خلاصہ یہ ہے

کوئی دستوری منصوبہ قابل عمل یا مسلمانوں کو منظور نہیں ہو گا جب تک جغرافیائی طور پر منسلک مسلم اکثریتی علاقے قائم نہیں کئے جاتے ۔ جو مسلم اکثریتی علاقے شمال مغربی اور مشرقی ہندوستان میں ہیں کو مسلم ریاستیں بنایا جائے جو ہر لحاظ سے خود مختار ہوں ۔ ان ریاستوں میں غیرمسلم اقلیت کو مناسب مؤثر تحفظات خاص طور پر مہیا کئے جائیں گے اور اسی طرح جن دوسرے علاقوں میں مسلمان اقلیت میں ہیں اُن کو تحفظات مہیا کئے جائیں

اس قراداد کی تائید پنجاب سے مولانا ظفر علی خان ۔ سرحد سے سردار اورنگزیب ۔ سندھ سے سر عبداللہ ہارون اور بلوچستان سے قاضی عیسٰی ۔ یونائیٹڈ پراونس [اب اُتر پردیش] سے چوہدری خلیق الزمان کے علاوہ اور بہت سے رہنماؤں نے کی ۔ اس قراداد کے مطابق مغرب میں پنجاب ۔ سندھ ۔ سرحد اور بلوچستان اور مشرق میں بنگال muslim-majority-map
اور آسام پاکستان کا حصہ بنتے ۔ یہ قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی گئی اور اس کی تفصیلات طے کرنے کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دے دی گئی ۔ یہ قراداد 1941ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے دستور کا حصہ بنا دی گئی

مندرجہ بالا اصول کو برطانوی حکومت نے مان لیا مگر بعد میں کانگرس اور لارڈ مؤنٹ بیٹن کی ملی بھگت سے پنجاب اور بنگال کے صوبوں کو تقسیم کر دیا گیا اور آسام کی صورتِ حال بھی بدل دی گئی ۔ بگال اور پنجاب کے صوبوں کو نہ صرف ضلعی بنیاد پر تقسیم کیا گیا بلکہ پنجاب کے ایک ضلع گورداسپور کو تقسیم کر کے بھارت کو جموں کشمیر میں داخل ہونے کیلئے راستہ مہیا کیا گیا

مسلم اکثریتی علاقے ۔ اس نقشے میں جو نام لکھے ہیں یہ چوہدری رحمت علی کی تجویز تھی ۔ وہ لندن [برطانیہ] میں مقیم تھے اور مسلم لیگ کی کسی مجلس میں شریک نہیں ہوئے
m-l-working-committee

مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی

۔

۔

۔
welcome-addr-22-march-1940
شاہنواز ممدوٹ سپاسنامہ پیش کر رہے ہیں

۔

۔

چوہدری خلیق الزمان قرارداد کی تائید کر رہے ہیں

seconding-reson-march-1940

۔

۔

۔

quaid-liaquat-mamdot 
قائدِ ملت لیاقت علی خان اور افتخار حسین خان ممدوٹ وغیرہ قائد اعظم کے ساتھ