Yearly Archives: 2008

زرداری جی ۔ ہور چُوپَو

کراچی میں 25 نومبر 2008ء کو دفاعی نمائش آئیڈِیاز 2008ء کے دوران میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پاک فضائیہ کے سربراہ ایئرمارشل تنویرمحمود احمد نے کہا کہ پاک فضائیہ جاسوس طیاروں اور میزائل حملوں کو روکنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ یہ فیصلہ حکومت کو کرنا ہے کہ وہ کب ہماری [پاک فضائیہ کی] صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاتی ہے یا حملہ کرنے والوں سے جنگ کیلئے تیار ہوتی ہے ۔

اُنہوں نے مزید کہا کہ آئیندہ چند سالوں میں پاک فضائیہ کے اکثر لڑاکا طیارے اپنی طبعی عمر پوری کرلیں گے جس کے بعد اس کمی کو جے ایف 17تھنڈر طیاروں [PAC JF-17 Thunder, also known as the Chengdu FC-1 Fierce Dragon] سے پورا کیا جائے گا ۔ پاک فضائیہ کے لڑاکا طیارے ہر قسم کے وار ہیڈ لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

لو بولو کر لو بات

آج کا اخبار لکھتا ہے

ملک بھر کے ہزاروں طلبہ کے حقوق کو بڑے پیمانے پر رد کرتے ہوئے وفاقی بورڈ برائے ثانوی اور اعلی ثانوی تعلیمی بورڈ نے ملک کے سب سے بڑے [پی سی او] جج کی صاحبزادی کو غیر قانونی طور پر اضافی نمبر دیکر ان کے امتحانی نتیجے کو بہتر بنا دیا ہے ۔ چیئرمین فیڈرل بورڈ آف اِنٹرمِیڈِیئٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کے تحریری احکامات ۔ نامناسب عُجلت میں تمام قواعد کی خلاف ورزی اور ان میں نرمی ۔ یہاں تک کہ اعلٰی عدالت کے کچھ فیصلوں کی بھی خلاف ورزی کرتے ہوئے فرح حمید ڈوگر کے ایف ایس سی کے نتیجے کو اس طرح بہتر بنایا کہ 640 نمبر میں گریڈ ” سی “ کو بڑھا کر اسے ” بی “ گریڈ 661 نمبر میں تبدیل کر دیا اور اس طرح انہیں ملک میں کسی بھی میڈیکل کالج میں داخلے کی درخواست دینے کیلئے اہل بنا دیا ۔ اسلام آباد بورڈ نے فرح حمید ڈوگر کے معاملے میں اپنے معمول سے ہٹ کر دوبارہ چیکنگ ۔ دوبارہ جائزہ لینے اور یہاں تک کہ ان کے امتحان کی جوابی کاپیوں پر ان کو فائدہ پہنچانے کیلئے اور 642 سے 660 کے درمیان نمبر لینے والے ہزاروں طالب علموں سے انہیں آگے کرتے ہوئے دوبارہ نمبر دینے کے پورے عمل کو نہایت تیزی سے مکمل کیا ۔

سپریم کورٹ نے اکتوبر 1995 ء ۔ جنوری1996 اور نومبر 2001 ء میں اپنے فیصلوں میں کسی بھی امیدوار کو خواہ وہ کتنا ہی بااثر یا طاقتور کیوں نہ ہوامتحانی نظام میں اس طرح کی گڑبڑ کی خاص طور پر ممانعت کی تھی۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ امتحا ن کے عمل کو مصلحت کی بنیاد پر قربان کرنے نہیں دیا جا سکتا اور اس عمل کی اجازت نہیں دی جا سکتی ۔

امتحانی نظام کے ماہرین کا اصرار ہے کہ قواعد چیئر مین کو یا کسی بھی بااختیار اہلکار کو اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ وہ حاصل کردہ نمبروں کو بڑھانے کیلئے پہلے سے مارک کردہ پیپرز کا دوبارہ جائزہ لے یا دوبارہ امتحان لے یا ان پر دوبارہ نمبر لگائے ۔ درحقیقت 24 جولائی 2007 کی تاریخ کے ایف بی آئی ایس ای کے جاری کردہ اعلامیہ کے تحت طلبہ کو بتایا گیا تھا کہ گریڈ یا نمبر بہتر بنانے کی سہولت کو امیدواروں کیلئے اس طرح توسیع دی گئی ہے کہ وہ اپنی پسند کے دو مضامین یا پرچوں میں دوبارہ بیٹھ سکتے ہیں اور اسی دوران وہ پالیسی بھی برقرار رہے گی کہ وہ متعلقہ امتحان پاس کرنے کے ایک سال کے اندر پارٹ ون یا پارٹ ٹو یا دونوں پارٹس یا پورے امتحان میں بھی بیٹھ سکتے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ فرح حمید ڈوگر جو اسلام آباد کالج برائے خواتین سے ایف ایس سی [پری میڈیکل] کے پرچے دے چکی تھیں ۔ قواعد کے مطابق اپنی بعض امتحانی کاپیاں دوبارہ چیک کرنے کی درخواست دے چکی تھیں ۔ ان کی کاپیاں دوبارہ چیک کرنے پر ان کے نمبروں میں صرف ایک نمبر کے اضافے سے ان کے مجموعی نمبر 640 سے 641 ہوگئے تھے۔ لیکن بعد میں بورڈ کے چیئرمین نے حکم دیا کہ ان کے پرچوں کی دوبارہ پڑتال کی جائے جس کے لئے وہ 4 ممتحن طلب کئے گئے جنہوں نے پہلے انکی کاپیاں چیک کی تھیں اور ان سے کہا گیا کہ وہ دوبارہ نمبر دیں ۔ اس مشق کے نتیجے میں فرح حمید ڈوگر کو مزید 20 زائد نمبر دیئے گئے

ہائر سیکنڈری اسکول سرٹیفکیٹ پارٹ ٹو سالانہ امتحان برائے 2008ء کے رزلٹ گزیٹ بتاریخ 4 اگست 2008ء کے صفحہ نمبر 350 پر واضح طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ فرح حمید ڈوگر [رول نمبر 545207] بنت عبدالحمید ڈوگر نے 640 نمبر یعنی گریڈ سی حاصل کیا ہے ۔ 20 اگست کو امیدوار نے رسمی طور پر 4 مضامین انگریزی ۔ اردو ۔ مطالعہ پاکستان اور فزکس کی کاپیاں دوبارہ چیک کرانے کی درخواست دی اور اس مقصد کیلئے 300 روپے فی پرچہ کے حساب سے 1200 روپے کی ادائیگی کی ۔ 29 اگست کو انہوں نے فیڈرل بورڈ کو ایک اور درخواست دی جس میں کیمسٹری اور بائیولوجی کی کاپیاں چیک کرنے کیلئے کہا گیا ۔ دوسری درخواست کے ساتھ 600 روپے کی بینک رسید اور رزلٹ کارڈ [مارکس شیٹ] بھی منسلک کی ۔

درخواست فارم کی پشت پر واضح طور پر درج تھا کہ ”کسی بھی امتحان میں اُمیدوار کی جوابی کاپی کی کسی بھی صورت میں دوبارہ پڑتال نہیں کی جائے گی“۔ درخواست فارم پر مزید درج تھا کہ ”کاپیاں دوبارہ چیک کرنے کو ان کی دوبارہ پڑتال ہرگز نہ سمجھا جائے“۔ ان ہدایات سے یہ بھی واضح تھا کہ کاپیوں کی دوبارہ چیکنگ میں صرف اس بات کا اطمینان کیا جائیگا کہ
1 ۔ جوابی کاپی کے ابتدائی صفحے پر مجموعی نمبروں میں کوئی غلطی نہیں
2۔ سوالات کے مختلف حصوں میں دیئے گئے نمبروں کو صحیح طریقے سے جمع کیا گیا ہے اور انہیں ہر سوال کے آخر میں صحیح طریقے سے لکھا گیا ہے
3 ۔ تمام کل نمبروں کو جوابی کاپی کے ابتدائی صفحے پر صحیح طریقے سے جمع کرکے تحریر کیا گیا ہے
4 ۔ جواب کا کوئی حصہ بغیر نمبروں کے نہیں رہ گیا
5 ۔ جوابی کاپی میں درج نمبر مارک شیٹ سے مطابقت رکھتے ہیں
6 ۔ امیدوار کی ہاتھ کی لکھائی جوابی کاپی جیسی ہی ہے ۔

اگلے ہی روز جب فرح حمید ڈوگر نے فیڈرل بورڈ میں ایک اور درخواست دائر کی تو اس وقت کے چیئرمین ریٹائرڈکموڈور محمد شریف شمشاد نے اپنی ہینڈ رائٹنگ میں فارم پر لکھا کہ ”میں ان کی کاپیاں بذات خود بھی دیکھنا چاہتا ہوں“۔ فائل پر ان کے ریمارکس یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ اس معاملے میں ذاتی طور پر دلچسپی رکھتے تھے۔ عام طور پر ری چکینگ کے معاملے جو ہزاروں کی تعداد میں بورڈ میں آتے ہیں ایف بی آئی ایس ای کا متعلقہ خفیہ ونگ نمٹتا ہے ۔

اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ ملک بھر میں ایک ہی وقت میں 30 انٹر میڈیٹ بورڈز نے ہزاروں طلبہ کا امتحان لیا 21 اضافی نمبروں کا مطلب یہ ہے کہ اس ایک اقدام سے کم از کم مذکورہ طالبہ کو ایک لاکھ طلبہ پر فوقیت دی گئی لیکن چیف جسٹس کی صاحبزادی کے معاملے میں ان کے 6 پرچے ایف بی آئی ایس ای کے قواعد کے تحت ری چیکنگ کمیٹی کے سامنے پیش کئے گئے جس نے 30 اگست کو صرف ایک نمبر بائیولوجی کے مضمون میں دینے کی سفارش کی کیونکہ نمبر درست طور پر جمع نہیں کئے گئے تھے ۔ بائیولوجی کے ممتحن نے لکھا کہ ”ری چیک کرلیا ہے اور دیئے گئے نمبر سختی کے ساتھ مارکنگ اسکیم کے مطابق ہیں لیکن سوال نمبر چار میں صرف ایک نمبر کا اضافہ کیا گیا ہے کیونکہ نمبروں کو جمع کرنے میں غلطی ہوگئی تھی اور اب حاصل شدہ نمبر 13 میں سے 12 ہیں۔ لہٰذا اب مجموعی نمبر 70 ہیں“۔

مطالعہ پاکستان کے ممتحن نے لکھا کہ ”کاپی دوبارہ چیک کی گئی اور یہ پایا کہ دیئے گئے نمبر بالکل درست اور مارکنگ اسکیم کے مطابق ہیں ۔ مزید نمبر نہیں دیئے جاسکتے“۔ کیمسٹری کے ممتخن نے لکھا کہ ”کاپی دوبارہ چیک کی گئی اور یہ پایا کہ دیئے گئے نمبر بالکل درست اور مارکنگ اسکیم کے مطابق ہیں ۔ مزید نمبر نہیں دیئے جاسکتے“۔ تاہم دستاویزات اس بات کا انکشاف کرتے ہیں کہ 13 ستمبر کو انگلش کے پرچے کی پڑتال ایف جی کالج فار مین ایچ 9 اسلام آباد کے منیر حسین انجم نے کی اور امیدوار کی کاپی میں دیئے گئے نمبروں کو 58 سے بڑھا کر 67 کردیا ۔ اردو کی کاپی کی پڑتال ایف جی سرسید کالج راولپنڈی کے ڈاکٹر آلِ اظہر انیس نے کی اور 62 نمبروں کو 67 کردیا ۔ فزکس کا پرچہ کی پڑتال کرنے والے اعجاز احمد نے 32 نمبروں کو بڑھا کر 38 کردیا ۔ اس غیر معمولی پڑتال کے بعد فائل کو چیئرمین کی منظوری کیلئے ایک دفتر سے دوسرے دفتر بھیجا گیا ۔ چیئرمین سے سفارش کی گئی تھی کہ ” مذکورہ بالا تبدیلی کے باعث، نمبر بڑھ گئے ہیں اور نتیجے کی صورتحال پہلے کے 640 مجموعی نمبروں کی بجائے 661 نمبر ہوگی ۔ زیر غور نمبروں کا یہ معاملہ منظوری کیلئے آگے بڑھایا جارہا ہے اور ہدایت کے مطابق موجودہ قواعد [وولیم 2] میں رعایت دیکر نمبر 640 سے بڑھا کر 661 کردیئے گئے ہیں“۔ 15 ستمبر کو چیئرمین نے اس کی منظوری دیدی جس کے بعد چیئرمین کی ہدایت پر اُمیدوار کو اسی دن تبدیل شدہ نمبروں کی مارک شیٹ جاری کردی گئی

اس وقت کے کنٹرولر منظور احمد سے جو ا بھی ایف بی آئی ایس ای میں خدمات انجام دے رہے ہیں اور چیئرمین شمشاد کے تحت کام کر چکے ہیں نے تصدیق کی کہ چیئرمین نے فرح حمید ڈوگر کے پرچوں کی ازسرنو پڑتال کا حکم دیا تھا ۔ احمد نے یہ تصدیق بھی کی کہ قواعد ایسی کسی از سرنو پڑتال کی اجازت نہیں دیتے لیکن انہوں نے اصرار کیا کہ مجاز حکام کے احکامات کی پیروی کی گئی ۔ ایک ذریعے کے مطابق قائم مقام ڈائریکٹر جاوید اقبال ڈوگر نے اس معاملے میں سہولت بہم پہنچانے میں بہت اہم کردار ادا کیا ۔ اگرچہ ڈوگر کا دعوی تھا کہ وہ اس معاملے کے متعلق کچھ نہیں جانتے لیکن ایک بہت قابل بھروسہ ذریعے نے بتایا کہ وہ کچھ اعلی عدالتی حکام اور اس وقت کے چیئرمین ایف بی آئی ایس ای کے مابین رابطہ کار رہا ہے اور انہیں اسلام آباد میں کچھ اہم جگہوں پر لے کر گیا ہے ۔ رابطہ کرنے پر بورڈ کے اس وقت کے ڈپٹی کنٹرولر طارق پرویز نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ قواعد میں کاپیوں کی دوبارہ پڑتال کی اجازت نہیں البتہ فرح حمید ڈوگر کے معاملے میں فیڈرل بورڈ کے چیئرمین کے فیصلے کے تحت ایسا کیا گیا تھا۔ فرح ڈوگر کے نمبروں میں اضافہ کرنے والے ممتحنوں میں سے ڈاکٹر آلِ اظہر انیس نے اعتراف کیا کہ انہوں نے بورڈ کے کہنے پر اردو کے پرچے کی از سرنو پڑتال کی تھی اور اس کیلئے بورڈ کے چیئرمین نے تحریری طور حکم جاری کیا تھا۔

منافق کی پہچان

منافق بڑے پُر اعتماد طریقہ سے جھوٹ بولتا ہے ۔ اس طرح کہ اُسے اچھی طرح نہ جاننے والا اگر سب نہیں تو اُس کی بہت سی باتوں پر یقین کر لیتا ہے ۔

منافق پر جب مکمل بھروسہ کر لیا جائے تو وہ دغا دے جاتا ہے

اگر اس کے پاس کوئی امانت رکھی جائے یا اُسے روپیہ یا کوئی اور چیز مستعار دی جائے تو واپس نہیں کرتا یا واپس کرنے میں بلاجواز لیت و لعل کرتا ہے

لڑائی جھگڑے میں سب آداب بھول جاتا ہے ۔ توہین آمیز رویّہ اختیار کرتا ہے یا شیطانیت پہ اُتر آتا ہے

حقوق انسانی ۔ ماضی اور حال

رومی صاحب نے ایک اچھا نظریہ پیش کیا ہے کہ انسانیت کے تحفظ کے لئے کام کیا جائے ۔ امید ہے قارئین رومی صاحب کے منصوبے کواپنی ذاتی کاوشوں سے عملی جامہ پہنائیں گے اور اسے اس پیرائے میں نہیں لیں گے جس میں آجکل اسی طرح کے اعلانات کو لیا جاتا ہے جو کھوکھلے نعرے اور ٹی پارٹی یا ڈنر کے سوا کچھ نہیں ہوتے

ہمارے موجودہ معاشرہ کو دیکھا جائے تو سائینس کا یہ اصول سامنے آتا ہے کہ جس چیز پر زیادہ زور ڈالا جائے وہ ٹوٹ جاتی ہے ۔ میرے خیال میں اس اصول کا اطلاق ہر عمل پر ہوتا ہے ۔ دور حاضر میں انسانی حقوق اور ان کی حفاظت پر اتنا زور ڈالا گیا ہے کہ انسانیت کا جنازہ ہی نکل گیا ہے ۔ اسے اعتراض نہ سمجھئے گا میں صرف وضاحت کی کوشش کر رہا ہوں ۔

دنیا کی ترقی کے ساتھ علم وسیع ہوا اور اس کی ان گنت شاخیں بن گئیں ۔ پہلے ناک کان اور گلے کی بیماریوں کا
ایک ہی طبیب ہوتا تھا تو مریض جلدی فارغ ہو جاتا تھا ۔ پھر ہر ایک کا الگ یعنی تین طبیب ہو گئے اور مریض کو دو یا تین گنا وقت دینا پڑا ۔ سنا ہے کہ اب ناک کے بائیں حصے کا الگ ہے اور داہنے حصے کا الگ ۔ :lol:

آپ سوچ رہے ہونگے کہ کیا الا بلا لکھ رہا ہوں ۔ محترم ۔ بات یہ ہے کہ دور حاضر کا انسان ستائشی ہے اور دور حاضر کے اجارہ داروں نے انسانیت کی بھی متعدد تعریفیں بنا دیں ہیں ۔ اسی لئے رومی صاحب کو لکھنا پڑا

“ہم صرف انسانوں کا ہی نہیں ، جانوروں ، بے جان اشیا اور پودوں کا بھی تحفظ چاہتے ہیں”

دد اصل ۔ انسان ہوتا ہی وہ ہے جو ہر جاندار اور بے جان کے حقوق کی حفاظت ذاتی خواہشات پر مقدم رکھتا ہے ۔ اسی کا نام ہے تحفظ حقوق انسانی ۔

جب میں بچہ تھا اس زمانہ میں اگر چیونٹیاں زمین پر چلتی نظر آ جائیں تو ہمارے بزرگوں میں سے کوئی کہتا کہ ایک چٹکی آٹا لے کر چیونٹیوں کے قریب ڈال دو تاکہ انہیں خوراک کیلئے پشیماں نہ ہونا پڑے ۔ قریب ہر گھر کی چھت پر دو ڈبے یا رکابیاں لٹکی ہوتیں ایک میں دانہ یا چوگا اور دوسرے میں پانی تا کہ پرندے بھوکے پیاسے نہ رہیں ۔ علی ہذا القیاس ۔ اس زمانہ میں انسانی حقوق کا رولا نہیں تھا ۔ اب انسانی حقوق کا رولا ہر طرف ہے مگر چونٹیاں تو چونٹیاں انسانوں کو بھی روندا اور مسلا جا رہا ہے ۔

دہشتگردی کے خلاف جنگ کے فوائد ؟ ؟ ؟

امریکی حکمرانوں کی نام نہاد “دہشتگردی کے خلاف جنگ” میں وطن عزیز کی حکومت کی شمولیت کے باعث پچھلے پانچ سال میں کئی ہزار شہری ( عورتیں ۔ بوڑھے ۔ جوان اور بچے ) ہلاک ہو چکے ہیں اور ہزاروں خاندان بے گھر ہوچکے ہیں ۔

مزید اس جنگ کے نتیجہ میں وطن عزیز معاشی لحاظ سے انحطاط کی عمیق کہرائی میں پہنچ چکا ہے ۔ بالآخر وزارت خزانہ نے اپنی ایک دستا ویز میں اعتراف کیا ہے کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ سے ملکی معیشت کو حالیہ پانچ برسوں میں تقریباً 21 کھرب ( 2100 بلین ) روپے یعنی 28 بلین امریکی ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا ہے ۔

وزارت خزانہ کی دستاویز کے مطابق دہشتگردی کے خلاف جاری عالمی جنگ سے پاکستان کی معیشت کو جولائی 2004 تا جون 2005ء میں 260 ارب روپے نقصان ہوا ۔ جولائی 2005 تا جون 2006ء میں 301 ارب روپے ۔ جولائی 2006 تا جون 2007ء میں 361 ارب روپے ۔ جولائی 2007 تا جون 2008ء میں 484 ارب روپے اور جولائی 2008ء سے اب تک 678 ارب روپے کا نقصان ہو چکا ہے

اس دستاویز کے مطابق اس عالمی مہم کی وجہ سے پاکستان کے کریڈٹ رسک میں بہت اضافہ ہوا ۔ جس کی وجہ سے مارکیٹ میں مہنگے قرضے لینا پڑے ۔

وزارت خزانہ کے مطابق ان حالات کے باعث امن و امان کی خراب ترین صورتحال بھی درپیش رہی اور عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ کے سلسلے میں جن علاقوں میں کارروائی کی گئی ان علاقوں میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہوا جبکہ مسلسل بم دھماکے ۔ امن عامہ کی خراب ہوتی ہوئی صورتحال اور مقامی آبادی کی نقل مکانی سے ملک کی معاشی و سماجی صورتحال بھی شدید متاثر ہوئی ہے۔

تاویز میں یہ بھی کہا گیا ہے گیارہ ستمبر کا واقعہ پیش آنے کے بعد پاکستان کو سیکیورٹی فورسز کیلئے مختص بجٹ کو بھی مسلسل بڑھانا پڑا۔

قانونِ قدرت

سیب یا ناشپاتی میں آٹھ دس تخم یا بِیج ہوتے ہیں اور ایک درخت پر سو سے پانچ سو تک سیب یا ناشپاتیاں لگتے ہیں ۔ کبھی آپ نے سوچا کہ اتنے زیادہ بیج کیوں ہوتے ہیں جبکہ ہمیں بہت کم کی ضرورت ہوتی ہے ؟

دراصل اللہ سُبحَانُہُ و تَعَالَی ہمیں بتاتا ہے کہ سب بیج ایک سے نہیں ہوتے ۔ کچھ اُگتے ہی نہیں ۔ کچھ پودے اُگنے کے بعد سوکھ جاتے ہیں اور کچھ صحیح اُگتے ہیں اور پھل دیتے ہیں ۔ اِس سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ

ایک ملازمت حاصل کرنے کے لئے درجنوں انٹرویو دینا پڑتے ہیں
ایک اچھا آدمی بھرتی کرنے کے لئے درجنوں اُمیدواروں کو انٹرویو کرنا پڑتا ہے
ایک گھر یا کار بیچنے کے لئے درجنوں لوگوں سے بات کرنا پڑتی ہے
ایک اچھا دوست بنانے کے لئے بہتوں سے دوستی کرنا پڑتی ہے

جتھے آوے دا آوا

پنجابی میں ایک کہاوت ہے “اٹ تے رہی اٹ جتھے آوے دا آوا ای وگڑیا ہوے اوتھے کوئی کی کرے”۔ یعنی بھٹے میں اگر کچھ اینٹیں خراب ہوں تو کوئی چارہ جوئی کی جا سکتی ہے لیکن بھٹے کی سب اینٹیں ہی خراب ہوں تو بہتری کیسے ہو سکتی ہے . میں وطن عزیز کی ایک اعلی سطح کی نجی کمپنی کا حوالہ بطور نمونہ تاجراں دے چکا ہوں ۔ آج حکومت کے اعلی اہلکاروں کا ایک نمونہ پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں لیکن پہلے گذشتہ حوالے کی مزید وضاحت ضروری سمجھتا ہوں ۔

میں نے 30 سال کی سرکاری ملازمت کے بعد 53 سال کی عمر ہونے سے قبل ملازمت چھوڑی اور بعد میں 5 سال دو مختلف نجی اداروں کی ملازمت کی اس کے علاوہ بہبود عامہ کے ایک ادارہ کا 16 سال بلامعاوضہ کام کیا ۔ اس سارے تجربہ نے مجھے سکھایا کہ کوئی اکیلا شخص خواہ وہ کتنا ہی بااثر ہو بڑے پیمانے پر غلط کام کر نہیں سکتا ۔ جو بھی روپیہ ملک سے باہر بھیجا گیا ہے ضروری ہے کہ اس میں اعلی عہدے پر فائیز سرکاری افسران اور بااثر سیاسی رہنما شامل ہوں گے   

خبر ۔ ذرائع کے مطابق سوئی ناردرن گیس میں گزشتہ ایک سال کے دوران گیس لاسز اوگرا کے دیئے گئے ہدف سے بڑھ گئے جس کے نتیجہ میں گزشتہ مالی سال میں 2 ارب روپے سے زائد کی گیس چوری ہو گئی ۔ اس صورتحال پر کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے گیس چوری پر قابو پانے اور گیس چوروں کے خلاف آپریشن کی ہدایت کی۔ جب سے ملک میں بڑی تعداد میں سی این جی اسٹیشن لگنا شروع ہوئے تب سے گیس چوری کے اعداد و شمار تیزی سے بڑھے ۔ بالعموم گیس سٹیشنوں کے مالکان حاضر سروس و ریٹائرڈ فوجی اور سول افسران اور سیاستدان ہیں جس کے باعث انہیں ہاتھ ڈالنا مشکل ہے۔ تاہم بگڑتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر کمپنی نے گیس چوری میں ملوث سی این جی سٹیشنوں اور دیگر صنعتی یونٹوں کے خلاف آپریشن شروع کیا۔ اس دوران متعدد بار بااثر افراد کے سی این جی سٹیشنوں کے کنکشن کاٹ دیئے گئے جس پر سخت ردعمل سامنے آیا۔ آپریشن کے دوران شیخوپورہ میں سوئی ناردرن کے عملہ پر تشدد کیا گیا جبکہ ایک سابق ایم این اے کے سی این جی اسٹیشن کا کنکشن کاٹنے پر ایک وفاقی وزیر نے اس کا کنکشن بحال کرنے پر زبردست دباؤ ڈالا ۔ اس سلسلہ میں اب تک ہونے والے پرچے اور جرمانہ بھی واپس لینے کے لئے زبردست سیاسی دباؤ آ رہا ہے۔ دوسری طرف ہفتہ کے روز اس آپریشن کے انچارج افسر پر فائرنگ کے بعد کارکنوں نے کام کرنا چھوڑ دیا اور افسران نے اعلیٰ انتظامیہ سے تحفظ کا مطالبہ کر دیا