Monthly Archives: December 2008

اسرائیل غزہ اور اقوامِ متحدہ

جب ہم سکول میں پڑھتے تھے تو ہمیں بتایا گیا تھا کہ یو این او [UNO] مخفف ہے یونائٹڈ نیشنز آرگنائزیشن [United Nations Organization] کا جو اسی طرح کے کاموں کیلئے بنائی گئی لیگ آف نیشنز [League of Nations] کی ناکامی کے بعد معرضِ وجود میں لائی گئی تھی ۔ پچھلے 60 سال کے مشاہدہ سے واضح ہوا ہے کہ یو این او دراصل مخفف ہے یونائٹڈ ناسٹی نَیپوٹِزم آرگنائزیشن
United Nasty-nepotism Organization
کا ورنہ اس کے پروردہ دہشتگردوں کے ہاتھوں مسلسل یہ قتل و غارتگری کیوں ہوتی

_45329291_rafahcar_afp466
_45329607_wounded_afp466
_45330118_3tankssufagetty466
gaza1
gaza5
gaza7
gaza8
gaza9
gaza10
gaza11
gaza12

مسلمانوں کا المیہ

حقائق پر مبنی تحریر جو مسلمانوں بالخصوص پاکستانیوں کیلئے ایک تازیانے سے کم نہیں

ممبئی میں حالیہ دہشتگردی کے واقعات کے بعد بھارت کی ایما پر امریکہ نے پاکستان کو بغیر کوئی عذر دیئے اپنی کٹھ پتلی اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کے ذریعے جماعت الدعوة اور دو دوسری پاکستانی رفاہی اور دینی تنظیموں کو دہشتگردقرار دے دیا جبکہ ان تنظیموں سے منسلک کچھ افراد کو عالمی دہشتگردوں کی فہرست میں بھی شامل کر دیا ۔ اقوام متحدہ کی اس کارروائی کے ساتھ ہی حکومت پاکستان نے ان تنظیموں بالخصوص جماعت الدعوة کے دفاتر کو ملک بھر اور آزادجموں کشمیر میں مقفل کر دیا اور اس کے کئی عہدیداروں اور رہنماؤں کو گھروں میں نظر بند کر دیا یا گرفتار کرلیا اور ان کے بنک اکاؤنٹس بھی منجمد کر دیئے گئے۔

ہمارے صدر، وزیراعظم اور دیگر اعلیٰ حکومتی اہلکار بار ہا یہ بات کہہ چکے ہیں کہ ابھی تک بھارت نے ہمیں ممبئی دہشتگردی کے حوالے سے ایسے شواہد فراہم نہیں کئے جن سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ پاکستان کی کوئی تنظیم ان واقعات میں ملوث ہے اور نہ ہی اقوام متحدہ کی طرف سے کوئی ایسے شواہد پیش کئے گئے۔ لیکن ہم نے بغیر کوئی ثبوت دیکھے جماعت الدعوة جو پاکستان بھر میں اپنے رفاہی کاموں کی وجہ سے اچھی شہرت رکھتی ہے اور جس نے خاص طور پر زلزلہ زدہ علاقوں بشمول آزادکشمیر، بالاکوٹ، مانسہرہ اور بلوچستان میں کافی کام کیا ہے اس طرح دھاوا بول دیا جیسے ہمیں یقین ہے کہ یہ ایک دہشتگرد تنظیم ہے۔ ہمارے وزیر دفاع کا کہنا ہے کہ اگر حکومت پاکستان جماعت الدعوة کے خلاف ایکشن نہ لیتی تو خطرہ تھا کہ پاکستان کو ہی دہشتگرد ملک قرار دے دیا جاتا۔ کیا جناب احمد مختار ضمانت دے سکتے ہیں کہ اب پاکستان کو دہشتگرد ممالک میں فہرست میں شامل نہیں کیا جائے گا۔

بغیر کسی منطق اور جواز کے ہم کتنی آسانی سے ہر بیرونی حُکم کی بجا آواری کرتے جا رہے ہیں۔ 9/11 کے بعد پہلے ہی ہم نے اپنی قومی عزتِ نفس کو تار تار کرتے ہوئے امریکہ بہادر کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے سب کچھ کر ڈالا خواہ وہ قانونی تھا یا غیر قانونی خواہ وہ پاکستان دشمنی اور اسلام دشمنی کے مترادف تھا یا کہ نہیں اور اب ہم ماضی سے کچھ سبق سیکھے بغیر سب کچھ بھارت کے لئے کرنے پر تیار ہیں۔یہ سب کرنے کے باوجود امریکہ ہم سے آج تک خوش نہیں ہوا جبکہ بھارت نے ابھی سے do more-do more کی رٹ لگا رکھی ہے۔ اگر سلسلہ اسی طرح چلتا رہا تو نجانے ہمارا کل کیسا ہو گا۔ پہلے ہی امریکہ کی نظر میں پاکستان دنیا بھر کے لئے دہشت گردوں کا ٹھکانہ ہے۔ آج بھارت بھی امریکہ کی زبان بولتے ہوئے پاکستان کو دہشت گردوں کا مرکز [epicentre] گردانتا ہے۔ بیرونی قوتوں کے کہنے پر اگر ہم آج اپنی تنظیموں اور اپنے لوگوں کو دہشت گرد قرار دے کر ان کے خلاف کارروائی کریں گے تو کیا اس سے ہم آنے والے خطرات سے جان چھڑا پائیں گے۔

کیا یہ حقیقت نہیں کہ امریکہ بھارت اور اسرائیل کا اصل نشانہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت ہے، کیا ہم بھول گئے کہ یہی ممالک ہمارے ملک کی فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف انتہائی سنگین الزامات لگاتے رہے ہیں اور اب بھی لگا رہے ہیں تا کہ ان اداروں کو کمزور کر کے اس ملک میں انتشار کی صورتحال پیدا کی جائے جس سے پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر بیرونی قبضے کا جواز پیدا کیا جا سکے۔ اپنی نااہلی اور بزدلی کی وجہ سے یقیناً ہم اپنے ملک کو دشمن قوتوں کے پھیلائے گئے جال میں آہستہ آستہ پھنسا رہے ہیں۔المیہ یہ ہے کہ دنیا میں کوئی امریکہ بھارت اور اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی اور اس کے نتیجے میں لاکھوں مسلمانوں کی عراق، افغانستان، کشمیر، فلسطین اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں شہادت پر انگلی نہیں اٹھاتا۔ اس ریاستی دہشت گردی پر تو اقوام متحدہ بھی خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے جبکہ تمام اسلامی ممالک کو اپنی اپنی پڑی ہوئی ہے۔ اتحاد و یگانگت سے بیگانہ سب ایک دوسرے کی تباہی کا تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ کوئی بھارت سے نہیں پوچھتا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود وہ کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کیونکر جمائے ہوئے ہے۔ امریکہ افغانستان اور عراق میں لاکھوں مسلمانوں کی جانیں لینے کے باوجود ابھی بھی مسلمانوں کے خون کا پیاسا ہے۔ مگر اب بھی مسلمانوں کی آنکھیں بند ہیں اور ان کی عقل پر پردے پڑے ہوئے ہیں۔

ہم زبان سے تو اللہ تعالیٰ کو اپنا رب مانتے ہیں اور اسی سے ڈرنے کا اظہار کرتے ہیں لیکن حقیقت میں ہمارے دلوں میں امریکہ کا خوف اور ڈر بیٹھا ہوا ہے۔ ہم دنیا کو اور حتٰی کہ اپنے آپ کو اور اپنے لوگوں کو امریکہ کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ آج ہم اپنے مذہب کے متعلق اس حد تک معذرت خواہانہ رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں کہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہوئے جھجھکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کی بجائے ہم اپنی مسلمانیت کو اس طرح پیش کرنے کے جتن کر رہے ہیں جس سے امریکہ ہم سے خوش ہو جائے۔ لیکن یہ کبھی نہیں ہو سکتا کیونکہ یہی میرے اللہ کا وعدہ ہے۔ اگر ہم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ، اس کے رسول اور اس کی کتاب قرآن پاک پر ایمان رکھتے ہیں تو اپنے رب کے واضح احکامات کے باوجود ہم کیسے یقین کر سکتے ہیں کہ کافر اور یہود و نصاریٰ مسلمانوں کے دوست اور خیرخواہ ہو سکتے ہیں۔ ہم جو یہود و نصاریٰ کو راضی کرنے کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں کیا اللہ تعالیٰ کا وہ فرمان بھول گئے جس کا مفہوم ہے یہ [یہودونصاریٰ اور کفار] تم [مسلمانوں] سے اس وقت راضی ہوں گے جب تم اپنے دین پر اُلٹے پاؤں پھر جاؤ گے یعنی کہ دین اسلام کو چھوڑ دو گے۔ کیا ہم قرآن کی اس بات کو بھول سکتے ہیں کہ ان [یہودونصاریٰ اور کفار] کی زبانوں سے کہیں زیادہ ان کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف بغض چھپا ہوا ہے۔

دین اسلام کی نظر میں جو ہمارے خیر خواہ نہیں ہو سکتے جو ہمارے بدترین دشمن ہیں انہی کو ہم نے اپنا آقا تسلیم کر لیا ہے اور ان کے ہر حکم پر اپنا سر تسلیم خم کر دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جن قوموں کو مغضوب [ہمیشہ غضب میں رہنے والی] اور بھٹکے ہوئے کہا ہم آج کے مسلمان ان کی پیروی پر لگے ہوئے ہیں۔ کل افغانستان میں روسی فوجوں کے خلاف جنگ کو جہاد اور اس میں حصہ لینے والوں کو مجاہدین کہنے والوں نے آج افغانستان میں قابض امریکی اور نیٹو افواج کے خلاف برسرپیکار طالبان کو دہشت گرد اور انتہا پسند قرار دے دیا اور ہم مسلمان بھی انہی کا راگ الاپ رہے ہیں۔ جہاد چاہے وہ افغانستان، کشمیر یا عراق میں ہو اس کو ہم نے دہشت گردی سے جوڑ دیا ہے۔ ان حالات میں مسلمان کے مقدر میں ذلت اور رسوائی کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے۔
انصار عباسی نے جنگ کیلئے لکھا اور 15 دسمبر 2008ء کو شائع ہوا

جنہیں اقوامِ متحدہ نے دہشتگرد قرار دیا ہے

یہ وقت سوچنے کا ہے کہ کیا ہم امریکہ اور اقوامِ متحدہ کا کہا مان کر درُست سمت میں جا رہے ہیں ؟ وہ اقوامِ متحدہ جس کے ہر مُسلم کُش فیصلے پر طاقت کے زور سے عمل کروایا جاتا ہے اور جس کی سکیورٹی کونسل کی جموں کشمیر کے مسلمانوں کے حق میں منظور کی گئی 17 قرادادوں پر آج تک بھارت نے عمل نہیں کیا اور فلسطین کے حق میں منظور کی گئی سکیورٹی کونسل کی 131 اورجنرل اسمبلی کی منظور کردہ 429 قراردادیں اسرائیل نے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیں اور کسی کے ماتھے پر بَل بھی نہ آیا ؟

انتہائی تابعداری کے ساتھ ہمارے حکمرانوں نے جماعت الدعوہ پر پابندی لگا کر اس کے تمام حسابات منجمد کر دیئے ہیں اور کئی خدمتگاروں کو پابندِ سلاسل کر دیا ہے جس کے نتیجہ میں اُن کی سرپرستی میں پاکستان کے طول و عرض میں چلنے والے طبی امداد کے مراکز ۔ 340 سکول ۔ کئی کالج اور ایک یونیورسٹی بند ہو جانے خدشہ ہے جو نادار پاکستانیوں کو بلا امتیاز مذہب ۔ رنگ و نسل طِبی امداد پہنچاتے تھے اور اُن کے بچوں تک تعلیم کی روشنی پہنچانے کا کام کر رہے تھے ۔ یہ طبی مراکز اور تعلیمی ادارے پاکستانیوں کی مالی اعانت ہی سے چل رہے تھے ۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے اپنے آپ کو اس قابل ثابت نہیں کیا کہ مُخیّر پاکستانی اپنی امدادی رقوم رفاہی کاموں کیلئے حکومتی اداروں کے حوالے کریں

قارئین کی یاد دہانی کیلئے اپنی 28 اکتوبر 2005ء کی تحریر نقل کر رہا ہوں جس میں بی بی سی کے نمائندے کی چشم دِید صورتِ حال نقل کی گئی تھی

صدر پرویز مشرف نے 20 اکتوبر کو یہ کہا تھا کہ حکومت نے زلزلہ زدہ علاقوں میں جہادی تنظیموں کے فلاحی کام پر کڑی نظر رکھی ہوئی ہے تاہم وہ مصیبت کی اس گھڑی میں کالعدم یا واچ لسٹ پر موجود تنظیموں کو مصیبت زدگان کی مدد سے نہیں روکیں گے۔

صدر کے اس بیان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ فوج اور حکومت کی جانب سے زلزلہ زدگان کی فوری اور موثر امداد میں سست روی کا خلا جہادی تنظیمیں خاصے موثر انداز میں پُر کر رہی ہیں اور اس کام میں دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں ان تنظیموں کی تجربہ خاصا مددگار ثابت ہورہا ہے۔

مثلاً جماعت الدعوہ کے نیٹ ورک کو ہی لے لیں جو زلزلہ زدہ علاقوں میں غالباً سب سے منظم ڈھانچوں میں شامل ہے ۔ اس وقت جماعت الدعوہ کے کوئی 1000 کل وقتی اور سینکڑوں جز وقتی رضاکار امدادی سرگرمیوں میں حصہ لے رہے ہیں

مجھے مانسہرہ میں جماعت کے مرکزی ریلیف کیمپ میں جانے کا موقع ملا ۔ تین گوداموں کے علاوہ کیمپ کے کھُلے حصے میں کپڑوں، گدیلوں اور کمبلوں کا ایک پہاڑ سا ہے ۔ اسی کیمپ سے تمام متاثرہ علاقوں تک امدادی رسد بھیجی جاتی ہے

مظفرآباد اور نیلم ویلی کے وہ علاقے جہاں فی الحال ہیلی کاپٹروں تک رسائی ہے، جماعت الدعوہ پہاڑوں پر پھنسے ہوئے متاثرین تک سامان پہنچانے اور زخمیوں کو نیچے لانے کے لئے ایک سو خچر استعمال کررہی ہے ۔ بالخصوص کشمیر کے علاقے پتیکا، سری کوٹ اور شہید گلی کے دشوار پہاڑی علاقوں میں خچر سروس کے ذریعے اب تک بیس ٹن رسد پہنچائی جا چکی ہےاور جن علاقوں میں خچر استعمال نہیں ہوسکتے وہاں پر رضاکار دو ڈنڈوں کے درمیان رسیاں یا گدیلے جوڑ کر بنائے جانے والے سٹریچروں کی مدد سے زخمیوں کو نیچے لا رہے ہیں

اسکے علاوہ کشمیر میں دھن مائی کے علاقے کے تئیس کٹے ہوئے دیہاتوں سے زخمیوں اور متاثرین کو لانے کے لئے گذشتہ دو ہفتوں سے موٹر بوٹ سروس جاری ہے۔اس موٹربوٹ سروس سے اب تک پچاس ٹن امدادی سامان دریائے جہلم کے پار مظفر آباد سے کٹے ہوئے دیہاتوں تک پہنچایا جا چکا ہے

ستائیس اکتوبر کو جب میں مظفر آباد میں جماعت الدعوہ کے قائم کردہ فیلڈ ہسپتال پہنچا تو آغاخان ہسپتال کے ڈاکٹروں کی ایک بتیس رکنی ٹیم انڈونیشیا کی میڈیکل ٹیم کی جگہ لے رہی تھی ۔ اس فیلڈ ہسپتال میں دو سرجیکل یونٹ ہیں جن میں 120 بڑے آپریشن کئے جاچکے ہیں ۔ ان میں برین سرجری سے لے کر ریڑھ کی ہڈی کے آپریشن تک شامل ہیں ۔ جبکہ اب تک 3500 چھوٹے آپریشن ہوچکے ہیں

اس فیلڈ ہسپتال کے قریب ایک گودام میں جو اشیائے خوردونوش بھری ہوئی تھیں ان میں خوراک کے سینکڑوں ڈبے ایسے بھی تھے جن پر یو ایس اے لکھا ہوا تھا ۔ یہ امریکہ کی حکومت کا عطیہ ہیں ۔ استفسار پر معلوم ہوا کہ یہ امریکی رسد عالمی ادارہِ خوراک کے توسط سے جماعت کو متاثرین میں تقسیم کرنے کے لئے دی گئی ہے

جماعت الدعوہ کا کہنا ہے کہ وہ مختلف زلزلہ زدہ علاقوں میں پانچ پانچ سو خیموں کی چھ عارضی بستیاں قائم کررہی ہے جن میں متاثرین کو کم ازکم چھ ماہ تک رکھا جائے گا ۔ اسکے علاوہ متاثرین کو 1000 گھر تعمیر کرنے کے لئے سامان بھی فراہم کیا جارہا ہے

کالعدم جیشِ محمد کے کارکن الرحمت ٹرسٹ کے نام سے متاثرین کو خوراک، کپڑے اور ادویات پہنچا رہے ہیں ۔ الرحمت ٹرسٹ کے بڑے ریلیف کیمپ ہری پور اور بالا کوٹ سے ذرا پہلے بسیاں کے مقام پر ہیں ۔ میں نے بالا کوٹ سے آگے سفر کے دوران اس ٹرسٹ کے رضاکاروں کی پیدل میڈیکل ٹیمیں بھی دیکھیں

یہ ٹیم بنیادی طور پر فرسٹ ایڈ کے سامان سے مسلح دو دو رضاکاروں پر مشتمل ہوتی ہے اور پہاڑی راستوں پر نیچے آنے والے زخمیوں کو سڑک کے کنارے فرسٹ ایڈ دیتی نظر آتی ہیں۔جبکہ مظفر آباد میں جیش کا ریلیف کیمپ متاثرین کو خوراک اور ضروریات کی دیگر چیزیں فراہم کررہا ہے

بالا کوٹ کے نزدیک بسیاں کے ریلیف مرکز میں جب میں نے الرحمت ٹرسٹ کے کیمپ انچارج سے دیگر علاقوں میں ریلیف سرگرمیوں کی تفصیلات جاننا چاہیں تو انہوں نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ وہ اسکی تشہیر مناسب نہیں سمجھتے

اسی طرح حزب المجاہدین بھی ریلیف کے کاموں میں جُتی ہوئی ہے ۔ مظفر آباد میں حزب کے کارکن متاثرین کے لئے ایک بڑا لنگر چلارہے ہیں ۔ جبکہ خیمہ بستیاں بنانے کے سلسلے میں وہ جماعتِ اسلامی کے ذیلی ادارے الخدمت کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں

ایک اور تنظیم البدر مجاہدین الصفہ فاؤنڈیشن کے نام سے سرگرم ہے ۔ بالاکوٹ میں جتنا بڑا اسکا کیمپ ہے اتنا ہی بڑا بینر بھی ہے ۔ یہاں کوئی ایک سو رضاکار متاثرین کو خوراک پہنچانے اور زخمیوں کو نیچے لانے کا کام کررہے ہیں

البدر کے مردان سے آئے ہوئے پچاس کارکنوں نے بالاکوٹ کے علاقے میں ملبے میں دبی ہوئی لاشیں نکالنے میں بھی خاصی مدد کی
اسکے کارکن دو دو دن کی پہاڑی مسافت طے کرکے متاثرین تک رسد پہنچا رہے ہیں ۔ کیمپ انچارج شیخ جان عباسی کے بقول کام اتنا ہے کہ ہمیں نہانے دھونے کی بھی فرصت نہیں اور ہمارے کپڑوں میں جوئیں پڑ چکی ہیں

شیخ جان عباسی جو بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں بھی تین برس تک مسلح کاروائیوں میں شریک رہے ہیں انکا کہنا ہے کہ انکے کارکنوں کی سخت جان جہادی تربیت زلزلے کے متاثرین کو دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں امداد پہنچانے میں خاصی کام آ رہی ہے۔

میں نے پوچھا کہ بندوق کی جگہ پھاوڑا ہاتھ میں پکڑنا کیسا لگ رہا ہے۔شیخ جان عباسی کا جواب تھا کہ انہوں نے بندوق بھی لوگوں کی مدد کے لئے اٹھائی تھی اور اب پھاوڑا بھی اسی مقصد کے لئے پکڑا ہے ۔ وہ بھی جہاد تھا یہ بھی جہاد ہے ۔ میں نے پوچھا حکومت کی جانب سے کوئی وارننگ ملی ۔ کہنے لگے کہ آج ہی پولیس نے ایک فارم بھرنے کو دیا ہے کیونکہ حکومت ہماری فلاحی سرگرمیوں کی تفصیلات جاننا چاہتی ہےاسکے علاوہ ابھی تک کچھ اور مطالبہ سامنے نہیں آیا

الرشید ٹرسٹ جو اسوقت امریکی واچ لسٹ پر ہے اسکی ایمبولینسیں بھی متاثرہ علاقوں میں مستقل متحرک ہیں ۔ بالاکوٹ کے قریب قائم الرشید کیمپ کے انچارج عبدالسلام نے بتایا کہ انکے رضاکاروں نے وادی کاغان کے اب تک کٹے ہوئے علاقوں میں کوئی 2500 خاندانوں کو پیدل راشن پہنچایا ہے جبکہ 1000 زخمیوں کا علاج کیا گیا ہے

تاہم جوں جوں زلزلہ زدہ علاقوں میں حکومت اور فوج کی امدادی گرفت مضبوط ہورہی ہے ان جہادی تنظیموں پر کڑی نظر رکھنے کا کام بھی شروع ہوگیا ہے

الرشید ٹرسٹ کیمپ کے عہدیدار کا کہنا ہے کہ فوجی حکام نے انہیں بٹل کے علاقے میں دو خیمہ بستیاں قائم کرنے سے روک دیا اور ٹرسٹ کے بینرز بھی انتظامیہ نے اتار دئیے ۔ تاہم کاغان کے علاقے میں فوج کو اس تنظیم کے کام پر فی الحال کوئی اعتراض نہیں کیونکہ یہ وادی اب تک مواصلاتی طور پر باقی ملک سے منقطع ہے

بُش مار جُوتوں کیلئے 370000 جوڑوں کا آرڈر

خبر ہے کہ عراقی صحافی نے امریکی صدر بش کو نیوز کانفرنس کے دوران جو جوتا مارا تھا اُسے تیار کرنے والی ترکی کے شہر استنبول میں قائم بیدان شوز کا کاروبار خوب چل نکلا ہے اور اس نے اپنے گاہکوں کی مانگ کو پورا کرنے کے لئے 100 مزید ہُنرمندوں کی خدمات حاصل کرلی ہیں ۔ اب تک بیدان شوز کو 370000 جوڑوں کے آرڈر مل چکے ہیں ۔ کمپنی کے مطابق عام طور پر اس ماڈل کے سال میں 15000 جوتے فروخت ہوتے تھے ۔

اس جوتے کے آرڈر عراق ۔ مشرق وسطیٰ کے ممالک اور امریکا سمیت پوری دنیا سے موصول ہو رہے ہیں ۔ اس جوتے کے امریکیوں نے 19000 جوڑے بھیجنے کی فرمائش کی ہے ۔ اس جوتے کا ماڈل نمبر 271 تھا لیکن اب تبدیل کرکے اس کا نام بش شوز رکھ دیا گیا ہے ۔ کمپنی کے مالک نے کہا ہے کہ “کمپنی جوتے کی مانگ بڑھنے کی وجہ سے زیادہ منافع نہیں کمارہی اور اس کی پہلے والی قیمت یعنی 27 ڈالر ہی رکھی ہے لیکن ہمارے لئے یہی بات کافی ہے کہ ہماری کمپنی خوب نام کما رہی ہے”

بھارت اور بھارتی ۔ ایک واقعہ جس کا میں شاہد ہوں

اُن دنوں [1976ء سے 1983ء تک] میں حکومت پاکستان کی طرف سے لِبیا کا الخبِیر لِلمنشآت صناعیہ تعینات تھا انگریزی میں Advisor, Industrial Planning and Development ۔ اس دور میں مجھے اپنی حکومت کی طرف سے دو بلامعاوضہ ذمہ داریاں بھی سونپی گئی تھیں ۔
ایک ۔ لبیا میں موجود پاکستان کی تربیّتی ٹیموں اور لِبیا کے متعلقہ عہدیداران کے درمیان رابطہ افسر
دوسری ۔ لِبیا میں ذاتی طور پر آئے ہوئے پاکستانیوں کے مسائل اور کردار پر نظر رکھنا ۔ اُن کا تدارک کرنا اور سفیر صاحب کو باخبر رکھنا

جس لِیبی ادارے کے ساتھ میں کام کرتا تھا اُس میں بہت سے اہلکار مخابرات [Military Intelligence] سے تعلق رکھتے تھے ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی خاص مہربانی ہوئی کہ اس ادارے میں مجھے ایک سال کے اندر ہی بہت عزت مل گئی باوجویکہ میں نے وہاں کے افسروں کے ساتھ کئی بار تکرار کر کے پاکستانی بھائیوں کے سرکاری اور ذاتی کام کروائے ۔ ایک لِیبی افسر جس کا تعلق مخابرات سے تھا سمجھدار ۔ ہوشیار اور باخبر تھا میرا دوست بن گیا

شائد 1978ء کا واقعہ ہے کہ اُس لِیبی افسر نے آ کر مجھے بتایا “میں نے سُنا ہے کہ ایک پاکستانی نرس ایک لِیبی جوان کے ساتھ قابلِ اعتراض حالت میں پکڑی گئی ہے ۔ آپ سفارتخانہ کے ذریعہ کچھ کر لیں تاکہ معاملہ رفع دفع ہو جائے”۔
میں نے کہا “میں اس طرح منہ اُٹھائے تو سفیر کے پاس نہیں جاؤں گا ۔ مجھے کچھ تفصیلات لا کر دیں”۔
وہ افسر بولا “میں تو کسی ضروری کام سے شہر سے باہر جا رہا ہوں ۔ جس نے مجھے بتایا ہے اُسے آپ کے پاس بھیجتا ہوں”۔

کچھ دیر بعد ایک رئیس العُرفا جسے ہمارے ہاں صوبیدار میجر کہتے ہیں میرے پاس آیا اور پوچھنے لگا کہ کیا کام ہے ۔ میں اُسے بھی جانتا تھا ۔ اُس کا بھی مخابرات سے تعلق تھا ۔ اُسے میں نے کہا کہ مجھے فوری طور پر اس نرس کا نام ۔ لبیا اور پاکستان میں اُس کا پتہ اور پاسپورٹ نمبر وغیرہ چاہئیں ۔ دوسرے دن وہ میرے پاس آیا اور کہنے لگا “میں کل اُسی وقت اُس پولیس افسر کے پاس گیا اور تمام تفصیل پوچھیں ۔ اُس نے بتایا کہ نرس اُن کی کسی بات کا جواب نہیں دیتی تھی پھر اُنہوں نے بھارت کے سفارتخانہ سے رابطہ کیا تو سفارتخانہ کے اہلکار نے کہا کہ نرس پاکستانی ہے ۔ اس کے بعد نرس بھی کہنے لگ گئی کہ وہ پاکستانی ہے اور لاہور کی رہنے والی ہے ۔ کل بعد دوپہر بڑی مشکل سے نرس نے طرابلس میں اپنی رہائش کا پتہ بتایا جس پر پولیس نے نرس کی رہائش گاہ کی تلاشی لی اور وہاں سے نرس کا پاسپورٹ مل گیا جس کے مطابق وہ جنوبی بھارت کی رہنے والی ہندو ہے”۔

میں ایک دن قبل سفیر صاحب کو اس افواہ کی خبر دے چکا تھا اسلئے اُسی وقت دفتر کی کار لے کر سفارتخانہ پہنچا جہاں سفیر صاحب کو اپنا مُنتظر پایا ۔ اُنہیں صورتِ حال بتا کر درخواست کی پاکستانی کرتا دھرتا لوگوں کو بُلا کر اس معاندانہ پروپیگنڈہ کا توڑ کیا جائے ۔ اگلے دن وہ لوگ سفارتخانہ آ گئے اور سفیر صاحب نے اُنہیں ہدایات دے دیں ۔ مگر ان تین دنوں میں پورے طرابلس میں یہ خبر پھیل چکی تھی کہ پاکستانی نرس ایک لِیبی کے ساتھ پکڑی گئی ۔ میرے علاوہ دوسرے کئی محبِ وطن پاکستانیوں نے اس کا شدت سے توڑ کیا اور ساتھ ہی افواہ کا منبع تلاش کرتے رہے ۔ جہاں جہاں سے بھی یہ غلط خبر ملی تھی اُس کی جڑ بھارتی سفارتخانہ ہی میں نکلی ۔

لِیبی مخابرات کے افسر کی بروقت اطلاع ۔ پاکستانی سفیر امیر علی شاہ صاحب کی ذاتی دلچسپی اور پاکستانیوں کی کوشش اور اللہ کے فضل و کرم سے لِبیوں کی نظر میں پاکستانی سُرخرُو ہوئے اور بھارتی نرسوں کی نگہداشت کی جانے لگی ۔

ننگِ دین ننگِ قوم ننگِ وطن کیا انہی لوگوں کو کہا گیا تھا ؟

سلامتی کونسل کی وہ قرارداد جو امریکہ نے جولائی یا اس سے قبل پیش کی تھی اور چین نے پاکستان کا ساتھ دیدتے ہوئے ویٹو کر دی تھی وہ 10 دسمبر کو کیونکر منظور ہو گئی اور پاکستان کے نامور رفاہی اداروں پر پابندی لگ گئی ۔ چین کا یہ عمل مجھے پریشان کئے ہوئے تھا ۔ میں نے ایک باخبر شخص سے بُدھ یا جمعرات یعنی 17 یا 18 دسمبر 2008ء کو اپنی پریشانی کا اظہار کیا تو میں دنگ رہ گیا تھا جب اُس نے کہا “صدر زرداری نے امریکہ کے دباؤ کے تحت چین سے درخواست کی تھی کہ اب اُس قرارداد کو ویٹو نہ کیا جائے”۔ اس انکشاف نے مجھے شدید شش و پنج میں مبتلا کئے رکھا تھا کہ آج یہ بات اخبار کی زینت بن گئی

سلامتی کونسل کی ایک پندرہ رکنی کمیٹی کی جانب سے 10دسمبر کو پاکستان کے تین افراد اور تین تنظیموں کو دہشت گرد قرار دے کر ان پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ قومی، سیاسی اور مذہبی حلقوں میں اب تک موضوع گفتگو بنا ہوا ہے اور یہ امر بھی ان کے لئے خاصا حیران کن ہے کہ چین جو اب تک اس نوع کی قراردادوں کو 7 مرتبہ ویٹو کر چکا ہے اس نے اس نازک مرحلے پر پاکستان کی حمایت سے دست کشی اختیار کر کے اس قرارداد کے متفقہ طور پر منظور کئے جانے کی راہ کیوں ہموار کی۔ اقوام متحدہ کے سفارتی حلقوں نے انکشاف کیا ہے کہ چین کے بارے میں یہ تاثر کہ اس نے پاکستان کے ساتھ اپنی ہمالہ سے زیادہ بلنداور سمندر سے زیادہ گہری دوستی کے تمام تر دعووں اور ہر دو ممالک کی دیرینہ دوستی کے تقاضوں کو پس پشت ڈال کر مغرب کا ساتھ دیا، کسی طرح درست نہیں اور حقائق یہ ہیں کہ بیجنگ نے یہ قدم بھی اسلام آباد سے باقاعدہ مشورے اور اس کی طرف سے کئے جانے والے اصرار کے بعد ہی اٹھایا ہے اس لئے اسے یہ الزام ہرگز نہیں دیا جا سکتا کہ اس نے پاکستان کے ساتھ اپنے روایتی تعلقات کو کسی طرح زک پہنچائی ہے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ سلامتی کونسل کی مذکورہ کمیٹی قرارداد نمبر 1267 کے تحت کوئی 9 سال پیشتر قائم کی گئی تھی لیکن جب بھی وہ انسداد دہشت گردی کے تناظر میں کوئی فیصلہ کرنے کے لئے بیش رفت کرتی تو چین ہر مرتبہ اس کے راستے میں حائل ہو جاتاکیونکہ وہ کسی صورت یہ پسند نہیں کرتا تھا کہ پاکستان کسی طرح اس کی زد میں آئے اور یوں اس سلسلے میں ہونے والی ساری پیش رفت بے نتیجہ ہو کر رہ جاتی اور سب کچھ ٹھپ ہو کر رہ جاتا۔ امریکہ اور بھارت نے گزشتہ مئی میں اس بارے میں اپنی سفارتی کوششوں میں تیزی لانے کا آغاز کیا اور اپنی جدوجہد کو نہایت مربوط طریقے سے آگے بڑھانے میں لگے رہے

امریکہ ممبئی میں ہونے والی دہشت گردی کو کس طرح نظر انداز کر سکتا تھا اس لئے اس نے اپنی وزیر خارجہ کونڈا لیزا رائس کو بھارت کے ہنگامی دورے پر روانہ کر دیا جہاں سے واپسی پر وہ 4 دسمبر کو اچانک اسلام آباد وارد ہوئیں اور صدر زرداری سے ایک اہم ملاقات میں دوٹوک انداز میں دہشت گردی کے خلاف نئی دہلی سے مکمل، شفاف اور عملی تعاون کی خواہش کرتے ہوئے یہ مطالبہ بھی کیا کہ پاکستان اپنے دوست ملک چین سے سلامتی کونسل کی دہشت گردی کے خلاف قرارداد پر کئی ماہ سے لگایا گیا ٹیکنیکل ہولڈ ختم کرنے کے لئے کہے تاکہ اس قرارداد کے پاس ہونے کی راہ ہموار ہو سکے۔

اس امریکی مطالبے کی پذیرائی اس رنگ میں ہوئی کہ ایوان صدر سے چین کو فوراً یہ پیغام پہنچایا گیا کہ وہ اقوام متحدہ میں پاکستان کی خاطر لگایا گیا ”ٹیکنیکل ہولڈ“ ہٹا لے، سو چین نے اگلے ہی روز یعنی 5 دسمبر کو اپنے سفارتکاروں کو یہ ہدایت کر دی کہ وہ اس پابندی کو جاری و ساری رکھنے کے سلسلے میں کسی سرگرمی کا مظاہرہ نہ کریں۔ 6 اور 7 دسمبر کو اقوام متحدہ میں ہفتہ وار تعطیل تھی اور پھر پاکستان کے سفارتی مشن کو 7دسمبر کو نیویارک میں اقوام متحدہ سے محترمہ بے نظیر بھٹو کے لئے حقوق انسانی کے ایوارڈ کی وصولی کی تیاریاں بھی کرنی تھیں اس لئے وہ ادھر جُت گیا اور سلامتی کونسل کی کمیٹی کے سیکرٹریٹ کا عملہ اس قرارداد کو بغیر کسی ادنیٰ رکاوٹ کے پاس کرانے کے لئے متحرک رہا اور چونکہ اب کسی بھی رُکن ملک کو اس پر کوئی اعتراض نہیں رہا تھا اس لئے اسے متفقہ فیصلے کے طور پر جاری کر دیا گیا۔

یہ بات بہت حیرت انگیز ہے کہ پاکستان کی جانب سے چین سے ٹیکنیکل ہولڈ ہٹا لینے کی جو درخواست کی گئی اس کا نہ تو وزارت خارجہ کو کوئی علم ہوا اور نہ ہی نیو یارک میں پاکستانی مشن کو اس کی کوئی خبر ہو سکی اور سب کچھ مبینہ طور پر امریکہ اور ایوان صدر کے درمیان بالا بالا ہی طے کر لیا گیا۔

ممبئی دہشتگردی ۔ اصل مُجرموں کی پردہ پوشی

مندرجہ ذیل خبروں سے ثابت ہوتا ہے کہ ممبئی میں جو ڈرامہ بظاہر 26 نومبر 2008 کو شروع ہوا اُس کی تیاری 15 نومبر سے بھی پہلے شروع ہو چکی تھی اور یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ دہشتگرد کون تھے ؟ ان حقائق کی نظر سے دیکھا جائے تو کوئی بھارتی خفیہ ادارہ بھی اس میں ملوث ہو سکتا ہے ۔ اسی لئے حقائق پر پردہ ڈال کر سارا ملبہ پاکستان پر گرایا جا رہا ہے تاکہ عوام کا دھیان اس دہشتگردی کے حقائق کی طرف نہ جانے پائے جس میں بھارتی پولیس کا ایک زیرک اعلٰی عہدیدار بھی مارا گیا ۔

سی بی سی نیوز [کنیڈین برادکاسٹنگ کارپوریشن]
ایک آزاد صحافی ارون اشتھانا نے نریمان گیسٹ ہاؤس کے باہر سے سی بی سی سے ٹیلیفون پر بات کرتے ہوئے کہا “کہا جاتا ہے کہ عسکریت پسندوں نے حملوں سے 15 یوم قبل گیسٹ ہاؤس میں قیام کیا اور اُن کے پاس بہت زیادہ بارود اسلحہ اور خوراک تھی”

برطانیہ کا گارجین یا گارڈین
مقامی لوگوں نے بتایا کہ نریمان ہاؤس کے مالک ایک اسرائیلی یہودی خاندان ہے جو اس کے فلیٹ مذہبی یہودیوں کو کرائے پر دیتے تھے”

مِڈ ڈے نیوز
اس حملہ ڈرامہ میں نریمان ہاؤس کا کردار پریشان کن ہے ۔ گذشتہ رات [نریمان ہاؤس کے] رہائشیوں نے لگ بھگ 100 کلو گرام گوشت اور کھانے کی دوسری اشیاء منگوائیں جو کہ ایک فوج کیلئے یا پھر چند لوگوں کی 20 دن کیلئے کافی تھا ۔ اس کے کچھ دیر بعد 10 کے قریب عسکریت پسند [نریمان ہاؤس میں] داخل ہوئے ۔ ظاہر ہے کہ یہ اشاء خوردنی اُن کی آمد کو مدِ نظر رکھکر منگوائی گئی تھیں

ڈی این اے انڈیا
موکوند شلکے جو کولابا مارکیٹ میں دکاندار ہے نے بتایا کہ اُن لوگوں نے نریمان ہاؤس میں داخل ہونے سے قبل کافی خوردنی سامان خریدا جو ان کیلئے 3 ہفتوں کیلئے کافی تھا ۔ اُنہوں نے دو پیٹیاں مرغی کا گوشت کوئی 25000 روپے کی شراب کولابا کی دو دکانوں سے خریدے ۔

مِڈ ڈے نیوز
اس علاقہ کے ایک ماہی گیر وِتھال ٹنڈل نے کہا “بدھ [26 نومبر] کے روز شام کے وقت میں نے چھ سات کشتیاں آتے دیکھیں جن میں سے کوئی دس آدمی بہت زیادہ سامان کے ساتھ اُترے اور اُن کو آہستہ آہستہ نریمان ہاؤس کے اندر لے گئے ۔ اس عمارت [نریمان ہاؤس] میں کافی کمرے ہیں جو مسافروں کیلئے گیسٹ ہاؤس کے طور پر استعمال ہوتے ہیں ۔ ہم میں سے کسی کو اُن لوگوں کے نام معلوم نہیں ہیں ۔

ایک ٹی وی صحافی ورندرا گھناوت بدھ سے نریمان ہاؤس پر نظر رکھے ہوئے تھا ۔ پولیس والے بھی اس سلسلہ میں گم سم تھے

برطانیہ کا گارجین یا گارڈین
وہ سمندر کے راستے سے آئے اور اندھیرے میں قدیم کولابا کی تنگ گلیوں سے گذرتے ہوئے چہ منزلہ عمارت نریمان ہاؤس میں چلے گئے ۔ یہ بندوق بردار لوگ وہاں رہے اور بعد میں اندر سے محاصرہ کر لیا

دی نیو یارک ٹائیمز
جب دہشتگرد دھانور کی کشتی کے قریب اُترے تو وہ نریمان ہاؤس کی تنگ گلی سے صرف تین عمارتیں دور تھے ۔ پانچ منزلہ عمارت نریمان ہاؤس جس میں ایک جوان ربی گافریل ہولٹسبرگ اور اس کی بیوی رفقہ جو نیو یاکر سے آئے ہوئے ہیں ایک یہودی سینٹر چلاتے ہیں

برطانیہ کا گارجین یا گارڈین
ایک پولیس مین جس نے نریمان ہاؤس میں داخل ہونے کی کوشش کی بتایا ۔ گذشتہ رات میں عمارت کے اندر گیا ۔ میں یہ جان کر دنگ رہ گیا کہ وہ لوگ سفید فام ہیں ۔ میرا خیال تھا کہ وہ ہماری طرح کے ہوں گے ۔

بی بی سی
مشرہ کی یاد داشت کے مطابق “پھر غیر ملکی سفید فاموں نے مار دھاڑ جاری رکھی” ۔

مسٹر امیر نے کہا “وہ ہندوستانی نہیں لگتے تھے ۔ وہ غیر ملکی تھے ۔ جہاں تک مجھے یاد ہے ایک سنہرے بالوں والا تھا ۔ دوسروں نے واہیات طریقہ سے بال بنائے ہوئے تھے”

ڈی این اے انڈیا
نریمان ہاؤس کے سامنے والی عمارت کے رہائشی انند راؤرین نے جب پولیس کے سربراہ [جو تفتیش کر رہا تھا] کے مارے جانے کی خبر ٹی پر آئی تو ہم نے فلیٹ [نریمان ہاؤس] سے شور سنا جیسے لوگ خوشی کا اظہار کرتے ہیں

یوروشلم پوسٹ
نینی [آیا] جس نے دوسالہ موشے ہولٹز برگ کو ممبئی کے چاباد ہاؤس سے جمعرات کو بچایا وہ جمعرات کو اسرائیل پہنچ رہی ہے ۔ اس نے خواہش ظاہر کی تھی کہ وہ موشے کے ساتھ اس خصوصی پرواز پر اسرائیل واپس آنا چاہتی ہے جو اسرائیل کی فضائیہ نے بھیجی ہے ۔
بچہ جمعہ کو اپنے دادا دادی کے پاس پہنچ گیا ۔ اسرائیل کے وزیرِ خارجہ نے کہا کہ “اس کی وزارت آیا کو اسرائیل لانے کیلئے کام کر رہی تھی اور اس نے وزارتِ داخلہ کو درخواست کی ہے کہ آیا کو اسرائیل میں رہنے دیا جائے ۔

خیال رہے کہ جب نریمان ہاؤس بھارتی سکیورٹی فورسز کے محاصرہ میں تھا ۔ نریمان ہاؤس کے مالکوں کے بچے کی آیا [جو کہ بھارتی ہے] اُن کے بچے کو ساتھ لئے ہوئے باہر نکل آئی تھی جس پر یہی باور کیا جا سکتا ہے کہ اُسے بحفاظت باہر بھیجا گیا ۔

انڈین ایکسپرس
دو سالہ موشے اور اس کی آیا ساندرا سیموئل اپنے نانا نانی کے ساتھ اسرائیل کے خصوصی فوجی طیارہ میں آج رات اسرائیل چلے گئے

دی انڈیا ٹیلی گراف
یکم دسمبر ۔ اسرائیل بھارتی آیا کو رہائشی اجازت نامہ دے رہا ہے ۔ اسرائیل کے وزیرِ خارجہ نے کابینہ کو بتایا کہ اس کی وزارت آیا ساندرا سیموئل کو رہائشی ویزہ دلوانے کا انتظام کر رہا ہے ۔

دی انڈیا ٹیل گراف
اسرائیل نے بھارت سے درخواست کی ہے کہ نریمان ہاؤس میں مارے جانے والے اسرائیلی باشندوں کا پوسٹ مارٹم نہ کیا جائے ۔ اسرائیلی مشن کے مطابق مارے جانے والے 9 افراد میں سے 7 اسرائیلی تھے ۔

سوچنے کی بات ۔ دو تو نریمان ہاؤس کے مالک پولیس مقابلہ میں مارے گئے ہوں گے ۔ باقی 5 اسرائیلی کہاں سے آئے ؟
گذارش ۔ میں اُن نوجوانوں کا تہہ دل سے مشکور ہوں جنہوں نے یہ خبریں اکٹھا کرنے میں میری مدد کی ۔