Monthly Archives: November 2008

قانونِ قدرت

سیب یا ناشپاتی میں آٹھ دس تخم یا بِیج ہوتے ہیں اور ایک درخت پر سو سے پانچ سو تک سیب یا ناشپاتیاں لگتے ہیں ۔ کبھی آپ نے سوچا کہ اتنے زیادہ بیج کیوں ہوتے ہیں جبکہ ہمیں بہت کم کی ضرورت ہوتی ہے ؟

دراصل اللہ سُبحَانُہُ و تَعَالَی ہمیں بتاتا ہے کہ سب بیج ایک سے نہیں ہوتے ۔ کچھ اُگتے ہی نہیں ۔ کچھ پودے اُگنے کے بعد سوکھ جاتے ہیں اور کچھ صحیح اُگتے ہیں اور پھل دیتے ہیں ۔ اِس سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ

ایک ملازمت حاصل کرنے کے لئے درجنوں انٹرویو دینا پڑتے ہیں
ایک اچھا آدمی بھرتی کرنے کے لئے درجنوں اُمیدواروں کو انٹرویو کرنا پڑتا ہے
ایک گھر یا کار بیچنے کے لئے درجنوں لوگوں سے بات کرنا پڑتی ہے
ایک اچھا دوست بنانے کے لئے بہتوں سے دوستی کرنا پڑتی ہے

جتھے آوے دا آوا

پنجابی میں ایک کہاوت ہے “اٹ تے رہی اٹ جتھے آوے دا آوا ای وگڑیا ہوے اوتھے کوئی کی کرے”۔ یعنی بھٹے میں اگر کچھ اینٹیں خراب ہوں تو کوئی چارہ جوئی کی جا سکتی ہے لیکن بھٹے کی سب اینٹیں ہی خراب ہوں تو بہتری کیسے ہو سکتی ہے . میں وطن عزیز کی ایک اعلی سطح کی نجی کمپنی کا حوالہ بطور نمونہ تاجراں دے چکا ہوں ۔ آج حکومت کے اعلی اہلکاروں کا ایک نمونہ پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں لیکن پہلے گذشتہ حوالے کی مزید وضاحت ضروری سمجھتا ہوں ۔

میں نے 30 سال کی سرکاری ملازمت کے بعد 53 سال کی عمر ہونے سے قبل ملازمت چھوڑی اور بعد میں 5 سال دو مختلف نجی اداروں کی ملازمت کی اس کے علاوہ بہبود عامہ کے ایک ادارہ کا 16 سال بلامعاوضہ کام کیا ۔ اس سارے تجربہ نے مجھے سکھایا کہ کوئی اکیلا شخص خواہ وہ کتنا ہی بااثر ہو بڑے پیمانے پر غلط کام کر نہیں سکتا ۔ جو بھی روپیہ ملک سے باہر بھیجا گیا ہے ضروری ہے کہ اس میں اعلی عہدے پر فائیز سرکاری افسران اور بااثر سیاسی رہنما شامل ہوں گے   

خبر ۔ ذرائع کے مطابق سوئی ناردرن گیس میں گزشتہ ایک سال کے دوران گیس لاسز اوگرا کے دیئے گئے ہدف سے بڑھ گئے جس کے نتیجہ میں گزشتہ مالی سال میں 2 ارب روپے سے زائد کی گیس چوری ہو گئی ۔ اس صورتحال پر کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے گیس چوری پر قابو پانے اور گیس چوروں کے خلاف آپریشن کی ہدایت کی۔ جب سے ملک میں بڑی تعداد میں سی این جی اسٹیشن لگنا شروع ہوئے تب سے گیس چوری کے اعداد و شمار تیزی سے بڑھے ۔ بالعموم گیس سٹیشنوں کے مالکان حاضر سروس و ریٹائرڈ فوجی اور سول افسران اور سیاستدان ہیں جس کے باعث انہیں ہاتھ ڈالنا مشکل ہے۔ تاہم بگڑتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر کمپنی نے گیس چوری میں ملوث سی این جی سٹیشنوں اور دیگر صنعتی یونٹوں کے خلاف آپریشن شروع کیا۔ اس دوران متعدد بار بااثر افراد کے سی این جی سٹیشنوں کے کنکشن کاٹ دیئے گئے جس پر سخت ردعمل سامنے آیا۔ آپریشن کے دوران شیخوپورہ میں سوئی ناردرن کے عملہ پر تشدد کیا گیا جبکہ ایک سابق ایم این اے کے سی این جی اسٹیشن کا کنکشن کاٹنے پر ایک وفاقی وزیر نے اس کا کنکشن بحال کرنے پر زبردست دباؤ ڈالا ۔ اس سلسلہ میں اب تک ہونے والے پرچے اور جرمانہ بھی واپس لینے کے لئے زبردست سیاسی دباؤ آ رہا ہے۔ دوسری طرف ہفتہ کے روز اس آپریشن کے انچارج افسر پر فائرنگ کے بعد کارکنوں نے کام کرنا چھوڑ دیا اور افسران نے اعلیٰ انتظامیہ سے تحفظ کا مطالبہ کر دیا

اگر یہ درست ہے

ایف آئی اے نے کروڑوں ڈالر بیرون ملک منتقل کرنے کے الزام میں منی ایکسچینج کمپنی کے مالک مناف کالیا . یوسف کالیا اور ان کے ساتھیوں کو گرفتار کرلیا ہے ۔ ذرائع کے مطابق مناف کالیا اور ان کے ساتھیوں پر دس ارب ڈالر غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک منتقل کرنے کا الزام ہے ۔ ذرائع کے مطابق دیگر گرفتار شدگان میں کمپنی کے پارٹنر انیس راجپوت . ڈائریکٹر جاوید خانانی اور سلیم یوایس شامل ہیں ۔ مناف کالیا سے ایف آئی اے ہیڈکوارٹر میں تفتیش کی جارہی ہے ۔ تاہم انتظامیہ اس بارے میں تفصیلات بتانے سے گریز کررہی ہے ۔ 

6 نومبر کا قتل عام ۔ دوسری قسط

پہلے واقع کے تین دن بعد يعنی 9 نومبر کو ایک ادھیڑ عمر اور ایک جوان خاتون اور ایک سترہ اٹھارہ سال کی لڑکی آئے ۔ جوان خاتون کی گردن میں پچھلی طرف ایک انچ چوڑا اور کافی گہرا زخم تھا جس میں پیپ پڑ چکی تھی ۔ یہ لوگ جموں میں ہمارے محلہ دار تھے ۔ لڑکی میرے ہم جماعت لڑکے ممتاز کی بڑی بہن تھی جوان خاتون اُس کی بھابھی اور بڑی خاتون اُس کی والدہ تھیں ۔ اُن کا پورا خاندان 6 نومبر والے قافلہ میں تھا ۔ انہوں نے دیکھا کہ جوان لڑکیوں کو اُٹھا کر لے جا رہے ہیں ۔ وہ بس سے نکل بھاگے ۔ ممتاز کی بھابھی اور دونوں بہنوں نے اغواء سے بچنے کے لئے نہر میں چھلانگیں لگائیں ۔ چھلانگ لگاتے ہوئے ایک کافر نے نیزے سے وار کیا جو بھابھی کی گردن میں لگا ۔ خون کا فوارہ پھوٹا اور وہ گر کر بیہوش ہوگئی ۔ پھر گولیاں چلنی شروع ہو گئیں ۔ ممتاز کی والدہ گولیوں سے بچنے کے لئے زمین پر لیٹ گئیں اس کے اُوپر چار پانچ لاشیں گریں اُس کی ہڈیاں چٹخ رہی تھیں مگر وہ اُسی طرح پڑی رہی ۔ اُس نے دیکھا کہ ایک بلوائی نے ایک شیرخوار بچے کو ماں سے چھین کر ہوا میں اُچھالا اور نیزے سے ہلاک کر دیا ۔

شور شرابا ختم ہونے پر اُس خاتون کو خیال ہوا کہ بلوائی چلے گئے ۔ بڑی مشکل سے اُس نے اپنے آپ کو لاشوں کے نیچے سے نکالا اور اپنے پیاروں کو ڈھونڈنے لگی ۔ لاشوں پر اور اپنی بے چارگی پر آنسو بہاتی رہی ۔ اچانک بہو اور بیٹیوں کا خیال آیا اور دیوانہ وار نہر کی طرف بھاگی ۔ بہو نہر کے کنارے پڑی ملی اس کے منہ میں پانی ڈالا تو اس نے آنکھیں کھولیں ۔ تھوڑی دیر بعد بڑی بیٹی آ کر چیختی چلّاتی ماں اور بھابھی کے ساتھ لپٹ گئی ۔ اُس نے بتایا کہ چھوٹی بہن ڈوب گئی ۔ وہ نہر کی تہہ میں تیرتی ہوئی دور نکل گئی تھی اور واپس سب کو ڈھونڈنے آئی تھی ۔

ماں بیٹی نے زخمی خاتون کو سہارا دے کر کھڑا کیا اور اس کے بازو اپنی گردنوں کے گرد رکھ کر چل پڑے ۔ ایک نامعلوم منزل کی طرف ۔ رات ہو گئی تو جنگلی جانوروں سے بے نیاز وہیں پڑ رہیں ۔ صبح ہوئی تو پھر چل پڑیں ۔ چند گھنٹے بعد دور ایک کچا مکان نظر آیا ۔ بہو اور بیٹی کو جھاڑیوں میں چھپا کر بڑی خاتون مکان تک گئی ۔ کھانے کو کچھ نہ لائی ۔ جیب خالی تھی اور مانگنے کی جرأت نہ ہوئی ۔ جموں چھاؤنی کا راستہ پوچھا تو پتا چلا کہ ابھی تک سارا سفر غلط سمت میں طے کیا تھا ۔ چاروناچار اُلٹے پاؤں سفر شروع کیا ۔ بھوک پیاس نے ستایا تو جھاڑیوں کے سبز پتے توڑ کے کھا لئے اور ایک گڑھے میں بارش کا پانی جمع تھا جس میں کیڑے پڑ چکے تھے وہ پی لیا ۔ چلتے چلتے پاؤں سوج گئے ۔ مزید ایک دن کی مسافت کے بعد وہاں پہنچے جہاں سے وہ چلی تھیں ۔ حد نظر تک لاشیں بکھری پڑی تھیں اور ان سے بدبو پھیل رہی تھی ۔ نہر سے پانی پیا تو کچھ افاقہ ہوا اور آگے چل پڑے ۔ قریب ہی ایک ٹرانسفارمر کو اُٹھائے ہوئے چار کھمبے تھے ۔ ان سے ایک عورت کی برہنہ لاش کو اس طرح باندھا گیا تھا کہ ایک بازو ایک کھمبے سے دوسرا بازو دوسرے کھمبے سے ایک ٹانگ تیسرے کھمبے سے اور دوسری ٹانگ چوتھے کھمبے سے ۔ اس کی گردن سے ایک کاغذ لٹکایا ہوا تھا جس پر لکھا تھا یہ ہوائی جہاز پاکستان جا رہا ہے ۔

چار ہفتوں میں جو 6 نومبر 1947 کی شام کو ختم ہوئے بھارتی فوج ۔ راشٹریہ سیوک سنگ ۔ ہندو مہا سبھا اور اکالی دل کے مسلحہ لوگوں نے صوبہ جموں میں دو لاکھ کے قریب مسلمانوں کو قتل کیا جن میں مرد عورتیں جوان بوڑھے اور بچے سب شامل تھے ۔ سینکڑوں جوان لڑکیاں اغواء کر لی گئیں اور لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو پاکستان کی طرف دھکیل دیا ۔ تیس ہزار سے زائد مسلمان صرف نومبر کے پہلے چھ دنوں میں ہلاک کئے گئے ۔

نام نہاد امن کے پجاریوں نے چند گھنٹوں میں ایک لاکھ مسلمان قتل کئے

آج کے دن سیکولرزم کا پرچار کرنے والوں نے دنیا کی تاریخ کی بدترین خونی تاریخ رقم کی ۔ ریاست جموں کشمیر کے ضلع جموں کی صرف ایک تحصیل جموں توی میں ایک لاکھ سے زائد مسلمان مرد عورتیں جوان بوڑھے اور بچے صرف چند گھنٹوں میں تہہ تیغ کر دئیے اور نعرہ لگایا کہ ہم نے ان کا پاکستان بنا دیا ہے

وسط اکتوبر 1947 عیسوی کو مجھے اور میری دو بہنوں کو ہمارے ہمسایہ کے خاندان والے اپنے ساتھ جموں چھاؤنی ستواری لے گئے تھے ۔ ہمارے ساتھ اس کوٹھی میں کوئی بڑا مرد نہیں رہ رہا تھا ۔ ہم کل 5 لڑکے تھے ۔ سب سے بڑا 18 سال کا اور سب سے چھوٹا میں 10 سال کا ۔ نلکے میں پانی بہت کم آتا تھا اس لئے 6 نومبر 1947 عیسوی کو بعد دوپہر ہم لڑکے قریبی نہر پر نہانے گئے ۔ ہم نے دیکھا کہ نہر کے پانی میں خون کے لوتھڑے بہتے جا رہے ہیں ۔ ہم ڈر گئے اور اُلٹے پاؤں بھاگے ۔ ہمارے واپس پہنچنے کے کوئی ایک گھنٹہ بعد کسی نے بڑے زور سے دروازہ کھٹکھٹایا ۔ جونہی کُنڈی کھولی ایک 6 فٹ کا نوجوان دروازے کو دھکا دیکر اندر داخل ہوا ۔ سب مر گئے کہہ کر اوندھے منہ گرا اور بیہوش ہو گیا ۔ اسے سیدھا کیا تو لڑکوں میں سے کوئی چیخا “بھائی جان ؟ کیا ہوا ؟” اُس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے ۔ وہ ہوش میں آ کر پھر چیخا سب مر گئے اور دوبارہ بیہوش ہو گیا ۔ وہ لڑکا خاتون خانہ کے جیٹھ اور ہمارے ساتھی لڑکوں کے تایا کا بیٹا تھا ۔

ہوش میں آنے پر اُس نوجوان نے بتایا کہ ہمارے جموں سے نکلنے کے بعد گولیاں چلتی رہیں اور جو کوئی بھی چھت پر گیا کم ہی سلامت واپس آیا ۔ جموں کے نواحی ہندو اکثریتی علاقوں سے زخمی اور بے خانماں مسلمان جموں پہنچ رہے تھے اور مسلمانوں کے ہندوؤں سکھوں اور بھارتی فوج کے ہاتھوں بیہیمانہ قتل کی خبریں سنا رہے تھے ۔ جموں کے دو اطراف درجن سے زیادہ گاؤں جلتے رات کو نظر آتے تھے ۔ نیشنل کانفرنس کے کرنل ریٹائرڈ پیر محمد کی طرف سے 4 نومبر 1947 کو سارے شہر میں اعلان کیا گیا کہ جس نے پاکستان جانا ہے وہ پولیس لائنز پہنچ جائے وہاں بسیں پاکستان جانے کے لئے تیار کھڑی ہیں ۔ 24 اکتوبر 1947 کو مسلمانوں کی طرف سے جنگ آزادی کے شروع ہونے کی خبر بھی پھیل چکی تھی ۔ مسلمانوں نے سمجھا کہ یہ بندوبست مسلمان شہریوں کی حفاظت کے لئے ہے ۔ دوسرے مسلمانوں کے پاس راشن تقریبا ختم تھا ۔ سو جموں شہر کے مسلمان پولیس لائنز پہنچنا شروع ہو گئے ۔

بسوں کا پہلا قافلہ 5 نومبر کو روانہ ہوا اور دوسرا 6 نومبر کو صبح سویرے ۔ وہ نوجوان اور اس کے گھر والے 6 نومبر کے قافلہ میں روانہ ہوئے ۔ جموں چھاؤنی سے آگے جنگل میں نہر کے قریب بسیں رُک گئیں وہاں دونوں طرف بھارتی فوجی بندوقیں اور مشین گنیں تانے کھڑے تھے ۔ تھوڑی دیر بعد جے ہند اور ست سری اکال کے نعرے بلند ہوئے اور ہزاروں کی تعداد میں مسلحہ ہندوؤں اور سکھوں نے بسوں پر دھاوہ بول دیا ۔ جن مسلمانوں کو بسوں سے نکلنے کا موقع مل گیا وہ اِدھر اُدھر بھاگے ان میں سے کئی بھارتی فوجیوں کی گولیوں کا نشانہ بنے اور بہت کم زخمی یا صحیح حالت میں بچ نکلنے میں کامیاب ہو ئے ۔ وہ جوان اور اس کے گھر والے بس کے دروازے کے پاس بیٹھے تھے اس لئے بس سے جلدی نکل کر بھاگے کچھ نیزوں اور خنجروں کا نشانہ بنے اور کچھ گولیوں کا ۔ اس جوان نے نہر میں چھلانگ لگائی اور پانی کے نیچے تیرتا ہوا جتنی دور جا سکتا تھا گیا پھر باہر نکل کر بھاگ کھڑا ہوا ۔ کچھ دیر بعد اسے احساس ہوا کہ وہ جموں چھاؤنی سے دور بھا گ رہا تھا ۔ وہ اُلٹے پاؤں واپس بھاگنا شروع ہو گیا اور جس جگہ حملہ ہوا تھا وہاں پہنچ گیا ۔ حملہ آور جا چکے تھے ۔ اس نے اپنے گھر والوں کو ڈھونڈنا شروع کیا مرد عورت بوڑھوں سے لے کر شیرخوار بچوں تک سب کی ہزاروں لاشیں ہر طرف بکھری پڑی تھیں ۔ اسے اپنے والدین کی لاشیں ملیں ۔ اس کی ہمت جواب دے گئی اور وہ گر گیا ۔ ہوش آیا تو اپنے باقی عزیزوں کی لاشیں ڈھونڈنے لگا اتنے میں دور سے نعروں کی آوازیں سنائی دیں اور اس نے پھر بھاگنا شروع کر دیا ۔ نہر کے کنارے بھاگتا ہوا وہ ہمارے پاس پہنچ گیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ [جاری ہے]

ہِپوکریسی کی جڑیں

ہِپوکریسی یا منافقت کا بیج یا جڑ یا بنیاد جھوٹ بولنا ہے ۔ سچ کو جھوٹ کہنا یا سچ کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا بھی جھوٹ بونا ہی ہوتا ہے ۔
بہت سے لوگ ایسے ہیں جو بنیادی طور پر جھوٹے نہیں ہوتے لیکن کسی ذاتی مفاد کی خاطر سچ کو جزوی یا کُلی طور پر چھُپاتے ہیں یا جھوٹا بیان تراش لیتے ہیں ۔
ایسے لوگ جھوٹے یا منافق ہوتے ہیں ۔
دراصل جھوٹ اور منافقت میں بہت تھوڑا فرق ہے ۔

کچھ لوگوں کا کچھ منافق لوگوں کے متعلق خیال ہے کہ وہ دیانتدار یا قابلِ اعتماد ہیں ۔ یہ تو اسی طرح ہوا کہ چور چونکہ چوری کی گئی رقم آپس میں برابر تقسیم کرتے ہیں اسلئے وہ دیانتدار ہیں ۔ کچھ لوگ یوں بھی کہتے ہیں “ٹھیک ہے فلاں شخص جھوٹ بولتا ہے لیکن وہ دیانتدار ہے”۔ یہ درست ہے کہ جھوٹ بولنے والے ہمیشہ جھوٹ نہیں بولتے اور بعض ایسے ہیں کہ وہ عام حالات میں جھوٹ نہیں بولتے لیکن جہاں فائدہ نظر آتا ہو جھوٹ بول دیتے ہیں ۔
آخر ایسے لوگوں پر کیسے اعتماد کیا جا سکتا ہے ؟
اور اس کی کیا ضمانت ہے کہ وہ کسی خاص وقت بددیانتی نہیں کریں گے یا جھوٹ نہیں بولیں گے ؟