کیا ریاست میں ریاست صرف فاٹا ہے ؟ اور حکومتی رِٹ کی ضرورت صرف فاٹا میں ہے ؟

پاکستان کے ہر صوبے بلکہ ہر ضلع میں ریاست میں ریاست [state within state] موجود ہے اور جہاں حکومتی عملداری [writ] کا فُقدان ہے ۔ ریاست میں ریاست کہاں کہاں ہے اور حکومتی عملداری کی کہاں زیادہ ضرورت ہے ؟ یہ ہے وہ سوال جو میرے جیسے عوام کے دل و دماغ پر ہر وقت چھایا رہتا ہے مگر زبان پر لانے کی توفیق نہیں ہو رہی ۔ اس پر بات بعد میں ہو گی پہلے صورتِ حال کا کچھ بیان

آجکل انگریزی یا انگریزی ملی اُردو بولنے والے ہموطنوں کی محفل میں جائیں تو اکثر کچھ اس طرح کی گفتگو سننے میں آتی ہے
“ان ایکسٹرِیمِسٹس [extremists] یعنی قبائلیوں نے اسٹیٹ اِن سائیڈ اسٹیٹ [state inside state] بنا رکھی ہے”
“دنیا کے کسی ملک میں دِس اِز ناٹ دیئر [this is not there] ”
“حکومت کی رِٹ [writ] قائم ہونا چاہیئے ۔ جو نہیں مانتا چلا جائے”

اِن اپنے تئیں دانشوروں مگر عقل سے پیدل لوگوں سے کون کہے کہ بات کرنے سے قبل تاریخ جغرافیہ کا مطالع تو کر لیا کریں ۔ لیکن وہ تو فیشن کے لوگ ہیں اور آجکل ایسی ہی باتوں کا فیشن ہے ۔ وفاقی حکومت کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ [FATA] میں پاکستان بننے سے لے کر آج تک کسی نے نہ حکومتی عملداری [government’s writ] قائم کرنے کی کوشش کی اور نہ کبھی وہاں رہائش پذیر لوگوں کو پاکستان کا حصہ سمجھا ورنہ وہاں باقی پاکستان کے قانون کی بجائے ہندوستان پر قابض انگریز حکمرانوں کا بنایا ہوا فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن [FCR] اب تک نافذ نہ ہوتا ۔ اس علاقہ کے لوگوں نے انگریزوں کی تابعداری قبول نہ کی لیکن پاکستان بننے کے بعد اپنے آپ کو پاکستانی سمجھا اور پاکستان کی شمال مغربی حدود کی 60 سال حفاظت کی ہے ۔ شاید امریکا ان کو اسی کی سزا دینا چاہتا ہے جو اِنہی کے ملک کے حکمرانوں کے ذریعہ دی جا رہی ہے ۔

دوسرے ممالک میں ریاست کے اندر ریاستیں

یہ کہنا غلط ہے کہ دنیا کے کسی ملک میں ریاست کے اندر ریاست نہیں ہے ۔ دُور کیا جانا بھارت میں ایسی ایک سے زیادہ ریاستیں موجود ہیں جن میں ناگا قبائل کا ذکر تو آئے دن ہوتا رہتا ہے ۔ کینڈا اور ریاستہائے متحدہ امریکا [USA] میں بھی ایسی کئی ریاستیں موجود ہیں ۔ ان قبائل میں سے سب سے مشہور لوگ اَیمِش [Amish] کہلاتے ہیں ۔ یہ کینڈا اور امریکا کی کئی ریاستوں میں گروہوں کی صورت میں رہتے ہیں ۔ ان کے علاقے میں ملکی قوانین کی جگہ ان کے اپنے قوانین چلتے ہیں ۔ میں کسی اور حوالے سے اَیمِش عورت کی تصویر دسمبر 2006ء میں شائع کر چکا ہوں ۔ اَیمِش لوگوں کے متعلق جاننے کیلئے یہاں کلک کیجئے ۔

ریاستہائے متحدہ امریکا میں ایک اور گروہ بھی ریاست کے اند ریاست کا درجہ رکھتا ہے جنہیں انڈین کہتے ہیں ۔ اس میں کئی قبائل ہیں جن میں چروکی [Cherokee] ۔ شوشون [Shoshones] ناواجو [Navajo] مشہور ہیں ۔ ان تین گروہوں میں کئی چھوٹے قبائل شامل ہو چکے ہیں ۔ چاکٹا [Chakta] ۔ کرِیک [Creek] ۔ اِرو قوئیس [Iroquois] وغیرہ چروکی میں شامل ہو چکے ہیں ۔ پائیئوٹس [Paiutes] شوشون میں شامل ہو چکے ہیں اور زُونی [Zuni] ۔ ہوپی [Hopi] وغیرہ ناواجو میں شامل ہو چکے ہیں ۔ ان قبائل کی آبادیوں میں بھی ان کے فیصلے ان کے اپنے قوانین کے مطابق ہوتے ہیں ۔

پاکستان میں ریاست کے اندر ریاست کی کچھ مثالیں

ریاست میں ریاست کی تفصل تو بہت طویل ہے ۔ نمونہ کے طور پر صرف 8 اقسام کا مختصر ذکر کروں گا اور آٹھویں قسم پاکستان کے اندر سب سے بڑی اور انتہائی طاقتور درجنوں ریاستیں ہیں ۔

1 ۔ اسلام آبادمیں ایک گاؤں نور پور ہے جہاں شاہ عبداللطیف کا مقبرہ بھی ہے ۔ اس گاؤں میں کچھ سرکاری زمین پر با اثر لوگوں کا قبضہ ہے جو غریب بے گھر خاندان سے بیس سے تیس ہزار روپیہ لے کر اُنہیں ایک کمرہ بنانے کیلئے زمین دیتا ہے ۔ کبھی کبھی کیپیٹل ڈویلوپمنٹ اتھارٹی کو جوش آتا ہے تو تجاوزات قرار دے کر ان غریبوں کے مکان گرا دیتا ہے ۔ اُس وقت ہر خاندان سے زمین کا بیس تیس ہزار روپیہ لینے والا اُن کی مدد کو نہیں آتا ۔ کیا یہ قبضہ گروپ ریاست میں ریاست نہیں ؟ اور کیاحکمومتی عملداری صرف غریبوں کو نقصان پہنچانا ہے ؟

2 ۔ اسلام آباد ہی میں لال مسجد سے ملحقہ قانونی طور پر قائم جامعہ حفصہ کی توسیع کو تجاوز قرار دے کر سینکڑوں بیگناہ یتیم اور بے سہارا بچیوں کو ہلاک کرنے کے بعد عمارت کو مسمار کر دیا گیا اور حکومتی عملداری [writ] قائم ہو گئی ۔ اس جامعہ سے سوا کلو میٹر کے فاصلہ پر اسلام آباد کے وسط میں ایک برساتی نالے کے کنار ے ایک کمیونٹی نے سرکاری زمین پر قبضہ کر کے اپنے درجنوں مکانات بنائے ہوئے ہیں ۔ اسے لوگ فرنچ کالونی کہتے ہیں ۔ ان لوگوں کو حکومتی اہلکار کچھ کہنے کی بھی جراءت نہیں کر سکتے ۔ کیا یہ ریاست میں ریاست نہیں ؟ اور اس سلسلہ میں حکومتی عملداری [writ] کہاں چلی گئی ہے ؟

3 ۔ جنوبی پنجاب اور سندھ میں وڈیرے کا ناجائز حُکم نہ ماننے والی لڑکی یا عورت کے کپڑے پھاڑ کر اُسے برہنہ یا نیم برہنہ حالت میں بازاروں میں گھسیٹا جاتا ہے ۔ مگر ان ظُلم کرنے والوں کو حکومت آج تک کوئی سزا نہیں دے سکی ۔ کیا یہ ظالم لوگ ریاست کے اندر ریاست نہیں ؟ اور کہاں چلی جاتی ہے حکومتی عملداری اس سلسہ میں ؟

4 ۔ ملک کے مختلف حصوں میں زبردستی کی شادی پر رضامند نہ ہونے والی لڑکی کو کاری یا کالی قرار دے کر ہلاک کر دیا جاتا ہے جس کا فیصلہ با اثر وڈیرے کی تابعدار پنچائت کرتی ہے ۔ کیا یہ وڈیرہ اور اس کی پنچائت ریاست کے اندر ریاست نہیں ہے ؟ اور کہاں ہوتی ہے حکومتی عملداری [writ] ؟

5 ۔ سندھ ۔ سرحد اور بلوچستان میں وِنی یا سوارا کی ایک رسم ہے جس کے تحت کمسِن بچی کی شادی ساٹھ ستر سالہ بوڑھے سے کر دی جاتی ہے اور وہ ساری زندگی ایک زرخرید لَونڈی کی طرح گذارتی ہے ۔ کیا یہ ریاست میں ریاست نہیں اور کہاں ہے حکومتی عملداری [writ] ؟

6 ۔ چند ماہ قبل بلوچستان کے علاقہ نصیرآباد میں تین لڑکیوں اور دو عورتوں کو زندہ دفن کر دیا گیا ۔ اس جُرم میں ایک حکومتی کارندے کا نام بھی لیا جا رہا ہے ۔ کیا یہ ریاست میں ریاست نہیں ؟ اور کیا اس سلسلہ میں حکومت کی عمداری قائم ہو گئی ہے ؟

7 ۔ پورے ملک میں دن دھاڑے ڈاکے پڑتے ہیں اور گاڑیاں ۔ موبائل فون ۔ نقدی اور زیورات چھینے جاتے ہیں ۔ کہاں ہے حکومتی عملداری [writ] ؟

8 ۔ آخری قسم سب سے زیادہ طاقتور ہے اور پاکستان میں سرطان کی طرح پھیلتی چلی جا رہی ہے ۔ یہ ہے فوجی چھاؤنیاں [cantonments] ۔ ہندوستان پر قابض انگریز حکمران اپنے آپ کو حکمران اور ہندوستان کے باشندوں کو غلام سمجھتے تھے اُنہوں نے چھاؤنیاں اس لئے بنائی تھیں کہ وہ غلاموں پر قابو رکھ سکیں اور اُنہیں اپنے سے دور رکھ سکیں ۔ پاکستان بننے کے بعد ان چھاؤنیوں کو ختم ہو جانا چاہیئے تھا لیکن وہ کئی گنا زیادہ ہو گئی ہیں اور ان کی تعداد بڑھتی ہی جا رہی ہے ۔ صرف ضلع راولپنڈی میں آدھی درجن چھاؤنیاں قائم ہیں ۔

پورے مُلک میں جنرل پرویز مشرف نے ضلعی نظام قائم کیا لیکن تمام چھاؤنیوں میں فوجی ڈکٹیٹرشپ آج تک قائم ہے ۔ ہر چھاؤنی کا سرپراہ سٹیشن کمانڈر ہوتا ہے جو ایک حاضر سروس کرنل یا بریگیڈیئر ہوتا ہے ۔ ان چھاؤنیوں میں بسنے والے غیر فوجی شہری بہت سے حقوق سے محروم ہوتے ہیں ۔

یہی کم نہ تھا کہ ڈی ایچ اے نام کی ایک اور بیماری جو کئی دہائیاں قبل کراچی میں شروع ہوئی تھی لاہور سے ہوتے ہوئے پرویز مشرف کی سرپرستی میں اسلام آباد بھی پہنچ گئی ۔ ڈی ایچ اے اسلام آباد کو ایسا آئینی تحفظ دیا گیا ہے کہ اس کے خلاف پاکستان کا وزیرِ اعظم بھی کوئی کاروائی نہیں کر سکتا اور اس کے قوانین کو پاکستان کی پارلیمنٹ بھی تبدیل نہیں کر سکتی ۔

یہ سب ریاست کے اندر ریاستیں نہیں تو اور کیا ہے ؟ اور حکومتی عملداری ان درجنوں ریاستوں میں کیوں قائم نہیں کی جاتی ؟ دراصل حکومتی عملداری کیلئے صرف غریب عوام ہی رہ گئے ہیں خواہ وہ قبائلی علاقہ میں ہوں یا ترقی یافتہ علاقوں یعنی کراچی لاہور یا اسلام آباد میں ۔

This entry was posted in روز و شب, معاشرہ on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

16 thoughts on “کیا ریاست میں ریاست صرف فاٹا ہے ؟ اور حکومتی رِٹ کی ضرورت صرف فاٹا میں ہے ؟

  1. اظہرالحق

    انکل جی اتنا تو مزاخ نہ کیا کریں ۔ ۔ ۔ ہنستے ہنستے پیٹ میں بَل پڑ گئے ہیں اور آنکھ سے پانی نکل آیا

    امریکہ کے بارے میں آپ کی انفارمیشن کیونکہ گورمنٹ آف پاکستان سے منظور شدہ نہیں ہے لہذا قابل اعتبار ہی نہیں‌ ،، ،

    باقی جو اسلام آباد کی باتیں ہیں ۔ ۔ ۔ تو بھئی میں تو اندھا ہوں بہرا ہوں اور گونگا بھی ہوں ۔ ۔ اس معاملے میں ۔ ۔ ۔

    ہم پڑھے لکھے جاہل ہیں اور کچھ جاہل بھی عالم ہوتے ہیں ۔ ۔ ۔ مگر کیا کریں ۔ ۔ ۔ اللہ نے ہمارے دلوں پر مہریں لگا دیں ہیں ۔ ۔ ۔

    اللہ ہم پر اپنا رحم کرے آمین

  2. ڈفر

    ہمیں تو اس وقت سے ڈر لگتا ہے جب ای کرائمز کے بل پر عملدرآمد کرتے ہوئے گورنمنٹ ہمارے بلاگز پر اپنی رٹ قائم کرے گی اور بہت ممکن ہے ہم پر بھی

  3. محمد ریاض شاہد

    محترم بھوپال صاحب
    مجھے آپ کے بلاگ کی تحریر سے مکمل اتفاق ہے۔مگر چھاونیوں کے مسٰلے پر مجھے اتفاق نہیں ہے۔ والد صاحب کی ملازمت کے دوراں ہمیں بعض دفعہ ان چھاونیاں میں قیام کا موقع ملا اور فوجیوں کے نقطہ نظر کو سننے کا بھی موقع ملا۔ میں کسی لمبے سوال اور جواب الجواب میں الجھنے کی بجاے دست بستہ یہی عرض کروں گا کہ شہر چھاونیوں میں در آے ہیں نہ کہ چھاونیاں۔ مثلا اوکاڑہ چھاونی شہر سے کوی چالیس کلو میٹر دور تھی مگر آج کا پھیلتا ہو شہر اسے نگل رہا ہے۔ یہی حال ملیر چھاونی کا ہے۔ ڈی ایچ اے کی شہرت اور قیمت کی وجہ کسنٹرکشن کمپنیوں کی صرف منافع کماو پالیسی ہے جس میں وہ پلاٹ بیچنے کے بعد صارف سے کوی رابطہ نہیں رکھتے۔ البتہ بحریہ ٹاون کے ریا ض صاحب نے بہت ہمت اور دیانتداری سے کام لیا ہے۔ اگر ان کی یہی رفتار رہی تو لوگ ڈی ایچ اے کو شایدبھول جایں ۔ رہی بات ڈکٹیٹر کی تو ڈکٹیٹر کی طاقت بندوق نہیں عوام کا خوف اور ان کی لیڈر شپ کی ضمیر فروشی ہوتا ہے۔اور ڈکتیٹر صرف فوجی ہی نہیں منتخب لیدر بھی ہو سکتا ہے۔ دیکھ لیں کہ وکلا کی تحریک کی کمند کہاں آ کر ٹوٹ گںی۔

  4. افتخار اجمل بھوپال Post author

    محمد ریاض شاہد صاحب
    تبصرہ کا شکریہ ۔ میں نے چھاؤنیوں کی تعداد بڑھنے کا لکھا ہے ویسے کچھ چھاؤنیاں رقبہ میں بھی بڑھی ہیں مثال کے طور پر راولپنڈی چھاؤنی ۔ چک لالہ چھاؤنی ۔ ٹیکسلا چھاؤنی وغیرہ ۔ اصل مسئلہ چھاؤنیوں میں قوانین اور طرزِ حکومت کا ہے ۔
    میں نے اگست 1994ء تک زندگی کے 33 سال چھاؤنی میں گذارے اور اس کے بعد بھی مختلف چھاؤنیوں میں اپنے عزیز و اقارب سے ملنے جاتا رہتا ہوں ۔

  5. محمد ریاض شاید

    محترم بھوپال صاحب
    آپ کو ایک دلچسپ بات بتاتا ہوں جو کہ میں نے جنرل مٹھا کی کتاب میں پڑھی۔ مٹھا لکھتے ہیں کہ قوانین کے تحت کینٹ میں کوئی غیر سرکاری عمارت ایسی قیمتی تعمیر نہیں ہو سکتی جوکہ فوج یا فوجی افسران کی کرائے کی استطاعت سے باہر ہو۔ جس زمانے میں مٹھا لاہور میں جنرل عبدالحمید کے سٹاف افسر تھے۔ مٹھا نے لاہور کینٹ میں جنگل کی طرح بنتی عمارتوں کو دہکھ کر عبدالحمید کو نوٹ لکھا ۔ عبدالحمید نے قانون کے مطابق اتفاق کیا اور مزید ایسی عمارتوں کی تعمیر ممنوع قرار دے دی گیی۔ ایوب کا زمانہ تھا۔ یار لوگوں نے صدر کی کلی مروڑی اور نتیجتا” عبدالحمید کی تبدیلی ہو گئی اور مٹھا کا اندراج ایوب کی سرخ حرفوں والی کتاب میں ہو گیا۔

  6. روسی شہری

    لگتا ہے کبھی کراچی میں نہیں اے یے اپ ورنہ :roll: یہا ں‌ بھی اپ ریا ست کے اند ر ریاست کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے ۔کس ظرح اس نے بے قصو ر مہا جروں کو مروایا اور پھر اڑن چھو ہو گیا ۔

    دیکھے ریا ست کے اند ر ریاست کا عملی نمونہ
    http://www.dufferistan.com/?p=136

    ہر سا ل 12 مئی بھی اتی ہے اور نو اپریل بھی ۔سیدھی سی بات ہےہم کراچی والےہے اس سے زیادہ کا علم نہیں‌

  7. راشد کامران

    اجمل صاحب کیا آپ ‌سمجھتےہیں کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں‌ مقامی باشندوں کی آبادیاں یا انڈین ریزرویشنز کو ریاست میں ریاست کہنا درست ہے؟‌ اصطلاحا ریاست میں‌ ریاست کسی فرد یا گروہ کی طرف سے ریاست کے قوانین سے بغاوت یاریاست کے خلاف مسلح جدوجہد یا قوانین کے متوازی قوانین کا نفاذ جیسے اٹلی اور پاکستان میں مختلف مافیاذ کی ماورائے قانون ٹیکس وصولی کے لیے استعمال کی جاتی ہے جبکہ امریکہ کے مقامی باشندوں کی آبادیاں وفاقی مانی جاتی ہے اور انہیں‌ انڈین ریزرویشنز کے مختلف قوانین کے تحت خود مختاری دی گئی ہے اور یہ ریاست کے نظام کا حصہ ہے ۔۔ آپ کی کچھ مثالیں سنگین قانون شکنی کے ذمرے میں‌ آتی ہیں‌ انہیں ریاست میں ریاست کہنا اس اصطلاح کی حدود بہت وسیع کردے گا ۔۔ ایم کیو ایم کا ذکر آپ کی پوسٹ میں کہیں نہیں جو عملی طور پر یونٹ آفسسز کے نام پر ایک متوازی ریاست چلاتی ہے اور سوات وغیرہ کے علاقوں کے مقامی مولوی جو تحریک طالبان کے نام سے عملی طور پر ریاست کے قوانین معطل کرکے شریعت کے نام پر اپنے قوانین کا اطلاق کرتے ہیں۔۔۔ امید ہے ان پر کچھ روشنی ڈالیں گے تاکہ اصطلاح کی بہتر تعریف وضع ہوسکے۔

  8. افتخار اجمل بھوپال Post author

    محمد ریاض شاہد صاحب
    یہ مُلک کا قانون نہیں ہے بلکہ فوج کا بنایا ہوا ہے اور ابھی تک موجود ہے لیکن اب اس کے برعکس ریٹارڈ اور حاضر سروس فوجیوں کی بیش قیمت عمارتیں موجود ہیں مگر کسی غیرفوجی کو چھاؤنی میں ایسی عمارت بنانے کی اجازت نہیں ۔

  9. افتخار اجمل بھوپال Post author

    روسی شہری صاحب
    میرے کئی بہت قریبی عزیز اور دوست کراچی کے مقیم ہیں اور میں کراچی جاتا رہتا ہوں ۔ صرف کراچی کے اندر ایک سے زائد ریاستیں ہیں اور ان میں سب سے زیادہ طاقتور الطاف حسین کی جماعت ہے ۔

  10. افتخار اجمل بھوپال Post author

    راشد کامران صاحب
    ریاست کے اندر ریاست وہ علاقہ ہوتا ہے جہاں ریاست کے قوانین کی بجائے کچھ یا سب مختلف قوانین پر عمل روا رکھا جائے ۔ ریاست کے خلاف مسلح جدوجہد بغاوت ہوتی ہے اور میں بغاوت کی بات نہیں کر رہا ۔ اگر ایمِش کے علاقہ میں کوئی شخص جُرم کر کے قبیلے کے سربراہ یا بڑے پادری کے سامنے پیش ہو کر اپنے جُرم کا اقرار کرے اور آئیندہ ایسا نہ کرنے کا وعدہ کرے تو اُسے معاف کر دیا جاتا ہے اور یہ سہولت ملک کے قانون میں موجود نہیں ہے ۔ کئی عمل ایسے بھی ہیں جو دوسرے امریکیوں کیلئے جُرم نہیں ہیں لیکن ایمِش کیلئے جُرم ہیں ۔ اسی طرح لاکھوں امریکی بغیر شادی کے جنسی عمل کرتے ہیں اور اس طرح لاکھوں بچے پیدا ہوتے ہیں ۔ ان ناجائز بچوں کے والدین امریکی قانون کے مطابق مُجرم نہیں لیکن انڈین لوگوں میں اگر اس طرح کوئی لڑکی حاملہ ہو جائے تو متعلقہ لڑکے کو اس لڑکی سے شادی کرنا پڑتی ہے ۔ میری معلومات دو دہائیاں پرانی ہیں ۔ ہو سکتا ہے اب حالات کچھ بدل گئے ہوں لیکن ان لوگوں کی ریاستیں جوں کی توں موجود ہیں

    ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں‌ مقامی باشندوں کی آبادیوں کا موازنہ پاکستان کے قبائلی علاقہ سے کیا جائے تو یہ امریکی آبادیاں ریاست کے اندر ریاست ہیں جبکہ پاکستان کے قبائلی علاقے ریاست کے اندر ریاست نہیں ہیں کیونکہ وہاں نافذ فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن حکومتِ پاکستان کا بنایا ہوا ہے اور قبائلی علاقہ میں اس قانون کے مطابق سزائیں دی جاتی ہیں اور پاکستان کے دوسرے علاقوں کا قانون قبائلی علاقہ میں نافذالعمل نہیں ہے

    قبائلی علاقہ اور سوات میں موجودہ کیفیتِ جنگ ہماری حکومت کی غلط پالیسیوں اور معلومات سے بے بہرہ عوام کے رویّے کا نتیجہ ہے ۔ یہ صورتِ حال صرف چار سال قبل پیدا کی گئی ۔

    شرعی قوانین کا ذکر آپ نے کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل صورتِ حال کا آپ کو علم نہیں ۔ بینظیر بھٹو کے دوسرے دور میں صوبہ سرحد کی اسمبلی نے ان علاقوں میں اسلامی شریعت کے نفاذ کا قانون منظور کیا تھا بعد میں جس کی منظوری پرویز مشرف کی حکومت نے بھی دے تھی مگر اسے نافذ نہ کیا گیا ۔ وہاں کے لوگ تین سال اس کے نفاذ کا مطالبہ رہے اس کے بعد الٹیمیٹم دیا کہ اگر فلاں تاریخ تک نفاذ نہ کیا گیا تو لوگ ازخود اس پر عمل کرنے لگیں گے پھر الٹیمیٹم کی تاریخ گذرنے کے کئی ماہ بعد اس پر عمل شروع کیا

    ایم کیو ایم کا ذکر میں نے اسلئے نہیں کیا کہ اُن کی اجارہ داری صرف ایک صوبہ کے دو یا تین شہروں تک محدود ہے گو اُن کا کردار سب سے زیادہ بھیانک ہے

  11. راشد کامران

    اجمل صاحب شاید “تعریف”‌ کے ابہام کی وجہ سے دو مختلف تعبیرات سامنے آرہی ہے ۔۔ میری ناقص رائے بہر حال یہی ہے کہ قوانین کے مطابق دی گئی خود مختاری جیسے امریکن انڈین ریزرویشنز اور پاکستانی فاٹا کو ریاست میں ریاست کہنا درست نہیں‌۔ لیکن سوات، کراچی، بھارت، اٹلی اور سری لنکا جہاں باغی گروہ اور مافیاز کی اجارہ داری ہے وہ ریاست میں ریاست کہلائیں گے۔۔ آپ کی بیان کردہ تعریف کے مطابق تو بھارت کا ہر صوبہ اور امریکہ کی ہر اسٹیٹ ہی ریاست میں ریاست ہے جو کے مثبت بات ہے اور اکائیوں کی خود مختاری کو ظاہر کرتی ہے ۔۔ جبکہ “ریاست میں ریاست” ایک منفی اصطلاح ہے اور بہت بڑے انتشار کے لیے استعمال ہوتی ہے۔۔خیر شاید دو مختلف مکتبہ فکر ہوں اس سلسے میں

  12. افتخار اجمل بھوپال Post author

    راشد کامران صاحب
    جو کچھ پاکستان کے مختلف شہروں میں ہونے کا میں نے ذکر کیا وہ تو جیسا آپ نے کہا ریاست میں ریاست کی مانند ہے ۔ خالص علمی لحاظ سے نہ امریکہ میں کوئی ریاست میں ریاست ہے نہ پاکستان کے قبائلی علاقہ یا سوات میں ۔ قبائلی علاقہ اور سوات میں جنگ صرف اور صرف امریکہ کی تابعداری میں لڑی جا رہی ہے ۔ اس کے شواہد حکومت یا کم از کم فوج کے پاس موجود ہیں کہ سوات میں سکول جلانے والے اور پاکستان میں بم دھماکے کرنے والے امریکہ اور بھارت کے ایجنٹ ہیں ۔ پرویز مشرف کے دور میں بھی ایسے لوگ پاکستانی فوجی چوکی پر حملہ کے دوران مارے گئے تھے جن کے ختنے نہیں ہوئے تھے اور پچھلے مہینوں میں بھی ایسی خبریں آئی تھیں ۔ سب سے اہم ثبوت یہ ہے کہ ان دہشتگردوں کو بے تحاشہ ڈالر اور جدید اسلحہ کون دے رہا ہے اور پانچ لاکھ یا زائد قبائلی کیوں قبائلی علاقہ میں اپنے گھر اور کاروبار چھوڑ کر اپنے ملک ہی میں مہاجر بن گئے ہیں ؟

  13. احمد

    برزگو!
    آپ نے تو بات سمجھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور بات بھی ٹھیک ھی کی ھے مگر ہم کراچی والے اتنا آسانی سے نہیں مانتے :lol:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.