Monthly Archives: October 2008

لگاہےمصرکابازار

لگا ہے مصر کا بازار دیکھو
نئی تہذیب کے یہ آثار دیکھو

سکنڈے نیوین ممالک کے متعلق تو عرصہ دراز سے سنتے آ رہے تھے لیکن کم از کم نام کے مسلمان ایک ملک کے متعلق جس نے سید قطب جیسے جید مسلمان پیدا کئے 3 روز قبل ایک خبر پڑھ کر جھٹکا کا سا لگا ۔

منگل 28 اکتوبر کے گلف نیوز میں صفحہ 18 پر خبر ہے کہ مصر میں ایک ایسے قحبہ خانہ کا انکشاف ہوا ہے کہ 44 باقاعدہ شادی شدہ جوڑے جس کے ارکان ہیں اور وہ جنسی تفریح کے طور پر ایک رات کیلئے ایک دوسرے سے اپنی بیویاں تبدیل کرتے ہیں ۔

پولیس نے ان کی باہمی منصوبہ بندی کی ای میلز پڑھنے کے بعد کھوج لگا کر اس قحبہ خانھ کے چلانے والے جوڑے کو گرفتار کر لیا تو انہوں نے بتایا کہ انٹرنیٹ پر ان کا اتفاقیہ طور پر عراق میں اسی طرز پر قحبہ خانہ چلانے والے ایک یہودی کرد سے ہوا ۔ اس نے انہیں اس کے فوائد پر قائل کیا ۔

کمال تو یہ ہے کہ جب پولیس نے انہیں گرفتار کیا تو انسانی حقوق کے گروہ نے اس عمل کو ذاتی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے احتجاج شروع کر دیا ۔

خیال رہے کھ مصر امریکی حکومت کے زیر اثر ہے اور وہاں کے قانون کے مطابق قحبہ خانہ چلانے کی سزا صرف 3 سال قید ہے

ثقافت اور کامیابی

ثقافت کا غوغا تو بہت لوگ کرتے ہیں لیکن ان کی اکثریت نہیں جانتی کہ ثقافت ہوتا کیا ہے اور نہ کسی کو معلوم ہے کہ ہماری قدیم تو بہت دُور کی بات ہے ایک صدی قبل کیا تھی ۔ ثقافت [culture] کہتے ہیں ۔ ۔ ۔

1 ۔ خوائص یا خصوصیات جو کسی شخص میں اس فکر یا تاسف سے پیدا ہوتی ہے کہ بہترین سلوک ۔ علم و ادب ۔ ہُنر ۔ فَن ۔ محققانہ سعی کیا ہیں
2 ۔ وہ جو علم و ادب اور سلوک میں بہترین ہے
3 ۔ ایک قوم یا دور کے تمدن ۔ تہذیب یا شائستگی کی شکل
4 ۔ دماغ کی تعلیم و تربیت کے ذریعہ ترقی ۔ نشو و نما ۔ تکمیل یا اصلاح
5 ۔ کسی گروہ کا ساختہ رہن سہن کا طریقہ جو نسل در نسل چلا ہو
6 ۔ طور طریقہ اور عقائد جو کسی نظریاتی گروہ یا صحبت کی نمایاں صفت ہو

1. The quality in a person or society that arises from a concern for what is regarded as excellent in arts, letters, manners, scholarly pursuits, etc
2. That which is excellent in the arts, manners, etc.
3. A particular form or stage of civilization, as that of a certain nation or period:
4. Development or improvement of the mind by education or training
5. The behaviors and beliefs characteristic of a particular social, ethnic, or age group
6. The sum total of ways of living built up by a group of human beings and transmitted from one generation to another.

ثقافتی لحاظ سے ساری دنیا کا حال ابتر ہے ۔ جھوٹ ۔ فریب ۔ مکاری ۔ خودغرضی ثقافت بن چکی ہے ۔ خودغرضی میں کوئی جتنا زیادہ دوسرے کو ۔ یا جتنے زیادہ لوگوں کو بیوقوف بنا لے وہ اتنا ہی زیادہ ذہین اور ہوشیار سمجھا جاتا ہے ۔ جدید ثقافت یہ ہے کہ جھوٹ بولتے جاؤ بولتے جاؤ ۔ اگر کوئی 10 فیصد کو بھی مان لے تو بھی پَو بارہ یعنی 100 فیصد فائدہ ہی فائدہ ۔

ہماری موجودہ ثقافت کیا ہے ؟ یہ ایک مُشکل سوال ہے ۔ متذکرہ بالا ثقافت کی 6 صفات میں سے پہلی 5 صفات تو ہمارے ہموطنوں کی اکثریت کے قریب سے بھی نہیں گذریں ۔ البتہ چھٹی تعریف پر ہماری قوم کو پَرکھا جا سکتا ہے یعنی ہمارے ہموطنوں کی اکثریت کے نمایاں طور طریقے اور عقائد کیا ہیں ؟

وہ وعدہ کر لینا جسے ایفاء کرنے کا ارادہ نہ ہو ۔ جھوٹ ۔ غیبت ۔ بہتان تراشی ۔ رشوت دینا یا لینا ۔ خودغرضی کو اپنا حق قرار دینا ۔ اللہ کی بجائے اللہ کی مخلوق یا بے جان [افسر ۔ وڈیرہ ۔ پیر۔ قبر ۔ تعویز دھاگہ] سے رجوع کرنا۔ وغیرہ ۔ ہموطنوں کی اکثریت کے یہ اطوار ہیں جن کو ثقافت کی چھٹی تعریف کے زمرے میں لکھا جا سکتا ہے ۔ اِن خوائص کے مالک لوگوں کی ظاہرہ طور پر ملازمت میں ترقی یا تجارت میں زیادہ مال کمانے کو دیکھ کر لوگ اِن خوائص کو اپناتے چلے گئے اور غیر ارادی طور پر ناقابلِ اعتبار قوم بن گئےہیں ۔

پچھلی چند دہائیوں پر نظر دوڑائی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ثقافت شاید ناچ گانے اور بے حیائی کا نام ہے ۔ اس میں پتگ بازی اور ہندوآنہ رسوم کو بھی ہموطنوں نے شامل کر لیا ہے ۔ شادیاں ہوٹلوں اور شادی ہالوں میں ہوتی ہیں ۔ شریف گھرانوں کی لڑکیوں اور لڑکوں کا قابلِ اعتراض بلکہ فحش گانوں کی دھنوں پر ناچنا شادیوں کا جزوِ لاینفک بن چکا ہے جو کہ کھُلے عام ہوتا ہے ۔

جنرل پرویز مشرف نے حکومت پر قبضہ کرنے کے بعد جس کام پر سب سے زیادہ توجہ اور زور دیا اور اس میں خاطر خواہ کامیابی بھی حاصل کی وہ یہی جدید ثقافت ہے اور حکومت بدلنے کے باوجود اس پر کام جاری ہے ۔

کچھ ایسے بھی ہموطن ہیں جو سمجھتے ہیں کہ اُن کی ثقافت ناچ گانے کے بغیر مکمل نہیں ہوتی ۔ انتہاء یہ ہے کہ وہ لوگ جو اپنی ساری عمر سیدھی راہ کی تبلیغ میں گذار گئے کبھی ناچ گانے کے قریب نہ گئے اُن کی قبروں پر باقاعدہ ناچ گانے کا اہتمام کیا جانا بھی ثقافت کا حصہ بن چکا ہے ۔ اگر اُن نیک لوگوں کی روحیں یہ منظر دیکھ پائیں تو تڑپ تڑپ کر رہ جائیں ۔

اور بہت سے عوامل ہیں جو لکھتے ہوئے بھی مجھے شرم محسوس ہوتی ہے ۔ ان حالات میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ بے حیائی ہماری ثقافت بن چکی ہے ۔ کل کا مؤرخ لکھے گا کہ مسلمان ہونے کے ناطے اپنا ملک حاصل کرنے والے چند ہی دہائیوں کے بعد ہوٹلوں ۔ گھروں اور بازاروں میں اپنے ہی دین کی دھجیاں اُڑاتے رہے اور اتنے کمزور ہو گئے کہ جو چاہتا اُن پر چڑھ دوڑتا ۔

بلا شُبہ ۔ ہموطنوں میں شریف لوگ بھی موجود ہیں جن کی اکثریت ایک جرمن پادری کے قول پر پورا اُترتی ہے جسے ہٹلر کے نازی فوجیوں نے جنگِ عظیم دوم کے دوران قید کر لیا تھا ۔ یہ پادری لکھتا ہے ۔ ۔ ۔

” نازی پہلے کمیونسٹوں کو پکڑنے آئے تو میں کچھ نہ بولا کیونکہ میں کمیونسٹ نہ تھا ۔ پھر وہ یہودیوں کو پکڑنے آئے تو میں کچھ نہ بولا کیونکہ میں یہودی نہ تھا ۔ پھر وہ عیسائی کیتھولکس کو گرفتار کرنے آئے تو بھی میں کچھ نہ بولا کیونکہ میں پروٹسٹنٹ تھا ۔ پھر وہ مجھے پکڑنے آئے ۔ مگر اس وقت تک کوئی بولنے والا ہی باقی نہ بچا تھا “۔

ہِپو کریسی اور منافقت Hypocrisy

منافقت جسے انگریزی زبان میں ہِپوکریسی [hypocrisy] کہہ کر ہم ہلکے پھُلکے ہو جاتے ہیں بالکُل اسی طرح ہے کہ پیشاب کو یُورِین [urine] کہہ کر سمجھ لیا جائے کہ اس کی بُو اور ناپاکی ختم ہو گئی ۔ اگر ہِپوکریسی [hypocrisy] کے معنی پر میرے ہموطن غور کریں تو وہ اس سے فوری اجتناب کریں اور ہماری قوم ایک مثالی قوم بن جائے ۔ مگر یہ عام غلط فہمی ہے کہ ِ ہِپوکریسی کو منافقت سمجھنے کی بجائے ایک عام سی بے ضرر عادت سمجھا جاتا ہے ۔

ہِپو کریسی کے معنی یہ ہیں

اپنے اور دوسروں کیلئے الگ الگ اصول
اپنے تئیں اپنی اصلیت سے بڑھ کر اپنا معیارِ زندگی جتانا یا اصولوں کا معیار بتانا
کسی کی بات یا کسی معاملہ کو دل سے نہ مانتے ہوئے ظاہر کرنا کہ مان لیا ہے ۔
کہنا کچھ اور کرنا کچھ اور
عمل ظاہر کچھ کرنا لیکن کرنا بتائے گئے کی بجائے کچھ اور
اپنے آپ کو وہ ظاہر کرنا جو نہیں ہے

کاش کہ سمجھے کوئی

اگر 2004ء میں قبائلی علاقوں میں فوج بھیجنے کے بعد وہاں ہلاکت خیز فوجی کاروائی کی بجائے سکول ۔ ہسپتال اور سڑکیں بنائی جاتیں تو شاید آج حالات مختلف ہوتے ۔

دیانتدار اور بے خوف قلم کار بہت کم ہیں .ایسے قلمکار امریکا میں بھی موجود ہیں جو اپنے ہی ملک کے خفیہ اداروں کے انسانیت دشمن منصوبوں کو ادھیڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ رون سسکنڈ بھی ایک ایسا ہی امریکی صحافی ہے جس نے اپنی کتاب ”دی وے آف دی ورلڈ“ میں افغانستان میں اقوام متحدہ کے سابق نمائندے ٹام کوئننگز [2005ء تا 2007ء] کے بارے میں لکھا ہے کہ ایک دن اُسے پاکستان کے قبائلی علاقوں کے عمائدین کا ایک وفد ملنے آیا ۔ وفد کے ارکان نے ٹام سے کہا کہ کیا وہ پاکستان کے قبائلی علاقوں کو افغانستان میں شامل کرانے کے لئے کوئی کردار ادا کر سکتا ہے؟ ٹام نے ان قبائلی عمائدین سے کہا کہ وہ اس سلسلے میں کچھ نہیں کر سکتا ۔ یہ سن کر ایک بزرگ بولا کہ وہ لکھ پڑھ نہیں سکتا اور اس کا پوتا بھی لکھ پڑھ نہیں سکتا لیکن اب قبائلی لکھنا پڑھنا سیکھنا چاہتے ہیں تاکہ وہ بھی دنیا کے ساتھ چل سکیں لیکن ان کے علاقوں میں اسکول نہیں ۔

رون سسکنڈ مزید لکھتا ہے کہ ایک معمولی واقعے نے اسلامی شریعت کے متعلق ٹام کی سوچ کو بدل دیا ۔ ہوا یوں کہ ٹام کے بنگالی ڈرائیور نے ایک دن کابل میں ایک افغان کو کار کے حادثے میں مار ڈالا ۔ بنگالی ڈرائیور حادثے کے بعد مرنے والے کے ورثاء کے پاس چلا گیا اور ان سے کہا کہ وہ بھی مسلمان ہے اور مرنے والا بھی مسلمان تھا اس سے غلطی ہوگئی ہے کیا اسے معافی مل سکتی ہے ؟ مرنے والے کے باپ نے کہا کہ تم نے جسے مار ڈالا وہ ہمارے خاندان کا واحد سہارا تھا وہ تو چلا گیا لیکن آج سے تم ہمارا سہارا بن جاؤ ۔ اور یوں بنگالی ڈرائیور کو معافی مل گئی ۔ ٹام کو اس واقعے کا پتہ چلا تو اسے احساس ہوا کہ اسلامی قوانین مظلوم کو فوری انصاف مہیا کرتے ہیں لہٰذا اس جرمن سفارت کار نے اقوام متحدہ کو یہ سمجھانا شروع کیا کہ افغانستان کے لوگوں کو اسلامی قوانین کے صحیح نفاذ سے انصاف فراہم کرنا زیادہ آسان ہوگا ۔

یہ سب کچھ اقوامِ متحدہ کا ایک غیر مسلم نمائندہ جس کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں وہ تو سمجھ سکتا ہے لیکں صد افسوس کہ ہمارے حکمرانوں اور ہموطنوں کی سمجھ میں یہ سادہ سی بات نہیں آتی ۔ اللہ ہمارے حکمرانوں اور ہموطنوں کو چشمِ بِینا اور انسان کا دِل عطا کرے ۔ آمین

پورا مضمون یہاں کلک کر کے پڑا جا سکتا ہے

سُہانہ خواب

خواب تین قسم کے ہوتے ہیں

ایک جو آدمی سوتے میں دیکھتا ہے اور عام طور پر بھول جاتا ہے
دوسرا جو آدمی جاگتے میں دیکھتا ہے اور وہ کم کم ہی پورے ہوتے ہیں
تیسرا وہ واقعہ جو گذر جانے کے بعد ایسے محسوس ہوتا ہے کہ ایک سُہانا خواب دیکھا تھا اور ایسے خواب کو خیال کے پردہ سیمیں پر دُہراتے رہنے کو جی چاہتا ہے

میرے پچھلے دو ہفتے ۔ دو گھنٹوں کی طرح بہت مصروف اور شاداں گذر گئے ۔ آج میں اِن دو ہفتوں کے ہر ایک لمحے کو یاد کر رہا ہوں اور سوچتا ہوں کہ کتنا حسِین کتنا سُہانہ خواب تھا ۔

میرا بڑا بیٹا زکریا ۔ بہو بیٹی اور میری پیاری پوتی امریکہ سے پونے تین سال بعد دو ہفتے کی چھٹی آئے تھے اور آج صبح صادق سے قبل واپس روانہ ہو گئے ۔ بیٹے اور بہو کی ہمارے پاس موجودگی بھی کچھ کم فرحان و شاداں نہ تھی لیکن میری پوتی جو ماشاء اللہ اب خوب بولنا سیکھ چُکی ہے کی پیاری پیاری باتوں اور معصوم کھیلوں نے ہمیں وقت کا پتہ ہی نہ چلنے دیا ۔ چوبیس گھنٹوں میں اٹھارا بیس گھنٹے جاگ کر بھی ہمیں تھکاوٹ محسوس نہ ہوئی ۔ اب اُن کے جانے کے بعد ایک ایک لمحہ گذارنا مُشکل ہو رہا ہے ۔

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی اُنہیں جہاں رکھے شاد و آباد رکھے اور ہماری ملاقات کراتا رہے ۔ آمین یا رب العالمین آمین

معاملہ فہمی یا منافقت ؟

آج تو دنیا کا تقریبا سارا کارو بار ہی [نجی ہو یا اجتماعی] منافقت کے دوش پروان چڑھ رہا ہے ۔ غربت کو ختم کرنے کے نام پر غریب کو ختم کیا جا رہا ہے ۔ دہشت گردی ختم کرنے کے بہانے کھُلے عام اصول پرستوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے ۔

یار لوگوں نے منافقت کا رُوپ ہی بدل دیا ہے ۔ اب اس کا نام “معاملہ فہمی”۔ “حکمت عملی”۔ فراست”۔ “چھریرا پن”۔ “ذہانت” وغیرہ رکھ دیا گیا ہے ۔ اور جو کوئی منافقت نہ کرے اسے “بیوقوف” اور بسا اوقات “پاگل” کا خطاب دیا جاتا ہے ۔ حال بایں جا رسید کہ دفتر ہو تو منافق کامیاب اور جلد ترقیاں پانے والا ۔ سیاست ہو تو سب سے بڑا منافق سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرتا ہے

کچھ استثناء تو بہر حال ہوتا ہی ہے۔

علامہ اقبال فلسفی تھے ۔اُنہیں منافقت پسند نہ تھی ۔ اُن وقتوں میں تو شاید اتنی منافقت نہ تھی ۔ انہوں نے ستّر برس پہلے جو تحریر کیا ۔ یوں لگتا ہے کہ آج کے لئے لکھا تھا ۔ جواب شکوہ سے اقتباس

ہاتھ بے زور ہيں’ الحاد سے دل خوگر ہيں
اُمتی باعث رسوائی پيغمبر ہيں
بُت شکن اُٹھ گئے’ باقی جو رہے بُت گر ہيں
تھا براہيم پدر اور پسر آزر ہيں

فرقہ بندی ہے کہيں اور کہيں ذاتيں ہيں
کيا زمانے ميں پنپنے کي يہی باتيں ہيں
کون ہے تارک آئين رسول مختار؟
مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معيار؟
کس کی آنکھوں ميں سمايا ہے شعار اغيار؟
ہوگئی کس کی نگہ طرز سلف سے بيزار؟
قلب ميں سوز نہيں’ روح ميں احساس نہيں
کچھ بھی پيغام محمد کا تمھيں پاس نہيں

کیا ریاست میں ریاست صرف فاٹا ہے ؟ اور حکومتی رِٹ کی ضرورت صرف فاٹا میں ہے ؟

پاکستان کے ہر صوبے بلکہ ہر ضلع میں ریاست میں ریاست [state within state] موجود ہے اور جہاں حکومتی عملداری [writ] کا فُقدان ہے ۔ ریاست میں ریاست کہاں کہاں ہے اور حکومتی عملداری کی کہاں زیادہ ضرورت ہے ؟ یہ ہے وہ سوال جو میرے جیسے عوام کے دل و دماغ پر ہر وقت چھایا رہتا ہے مگر زبان پر لانے کی توفیق نہیں ہو رہی ۔ اس پر بات بعد میں ہو گی پہلے صورتِ حال کا کچھ بیان

آجکل انگریزی یا انگریزی ملی اُردو بولنے والے ہموطنوں کی محفل میں جائیں تو اکثر کچھ اس طرح کی گفتگو سننے میں آتی ہے
“ان ایکسٹرِیمِسٹس [extremists] یعنی قبائلیوں نے اسٹیٹ اِن سائیڈ اسٹیٹ [state inside state] بنا رکھی ہے”
“دنیا کے کسی ملک میں دِس اِز ناٹ دیئر [this is not there] ”
“حکومت کی رِٹ [writ] قائم ہونا چاہیئے ۔ جو نہیں مانتا چلا جائے”

اِن اپنے تئیں دانشوروں مگر عقل سے پیدل لوگوں سے کون کہے کہ بات کرنے سے قبل تاریخ جغرافیہ کا مطالع تو کر لیا کریں ۔ لیکن وہ تو فیشن کے لوگ ہیں اور آجکل ایسی ہی باتوں کا فیشن ہے ۔ وفاقی حکومت کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ [FATA] میں پاکستان بننے سے لے کر آج تک کسی نے نہ حکومتی عملداری [government’s writ] قائم کرنے کی کوشش کی اور نہ کبھی وہاں رہائش پذیر لوگوں کو پاکستان کا حصہ سمجھا ورنہ وہاں باقی پاکستان کے قانون کی بجائے ہندوستان پر قابض انگریز حکمرانوں کا بنایا ہوا فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن [FCR] اب تک نافذ نہ ہوتا ۔ اس علاقہ کے لوگوں نے انگریزوں کی تابعداری قبول نہ کی لیکن پاکستان بننے کے بعد اپنے آپ کو پاکستانی سمجھا اور پاکستان کی شمال مغربی حدود کی 60 سال حفاظت کی ہے ۔ شاید امریکا ان کو اسی کی سزا دینا چاہتا ہے جو اِنہی کے ملک کے حکمرانوں کے ذریعہ دی جا رہی ہے ۔

دوسرے ممالک میں ریاست کے اندر ریاستیں

یہ کہنا غلط ہے کہ دنیا کے کسی ملک میں ریاست کے اندر ریاست نہیں ہے ۔ دُور کیا جانا بھارت میں ایسی ایک سے زیادہ ریاستیں موجود ہیں جن میں ناگا قبائل کا ذکر تو آئے دن ہوتا رہتا ہے ۔ کینڈا اور ریاستہائے متحدہ امریکا [USA] میں بھی ایسی کئی ریاستیں موجود ہیں ۔ ان قبائل میں سے سب سے مشہور لوگ اَیمِش [Amish] کہلاتے ہیں ۔ یہ کینڈا اور امریکا کی کئی ریاستوں میں گروہوں کی صورت میں رہتے ہیں ۔ ان کے علاقے میں ملکی قوانین کی جگہ ان کے اپنے قوانین چلتے ہیں ۔ میں کسی اور حوالے سے اَیمِش عورت کی تصویر دسمبر 2006ء میں شائع کر چکا ہوں ۔ اَیمِش لوگوں کے متعلق جاننے کیلئے یہاں کلک کیجئے ۔

ریاستہائے متحدہ امریکا میں ایک اور گروہ بھی ریاست کے اند ریاست کا درجہ رکھتا ہے جنہیں انڈین کہتے ہیں ۔ اس میں کئی قبائل ہیں جن میں چروکی [Cherokee] ۔ شوشون [Shoshones] ناواجو [Navajo] مشہور ہیں ۔ ان تین گروہوں میں کئی چھوٹے قبائل شامل ہو چکے ہیں ۔ چاکٹا [Chakta] ۔ کرِیک [Creek] ۔ اِرو قوئیس [Iroquois] وغیرہ چروکی میں شامل ہو چکے ہیں ۔ پائیئوٹس [Paiutes] شوشون میں شامل ہو چکے ہیں اور زُونی [Zuni] ۔ ہوپی [Hopi] وغیرہ ناواجو میں شامل ہو چکے ہیں ۔ ان قبائل کی آبادیوں میں بھی ان کے فیصلے ان کے اپنے قوانین کے مطابق ہوتے ہیں ۔

پاکستان میں ریاست کے اندر ریاست کی کچھ مثالیں

ریاست میں ریاست کی تفصل تو بہت طویل ہے ۔ نمونہ کے طور پر صرف 8 اقسام کا مختصر ذکر کروں گا اور آٹھویں قسم پاکستان کے اندر سب سے بڑی اور انتہائی طاقتور درجنوں ریاستیں ہیں ۔

1 ۔ اسلام آبادمیں ایک گاؤں نور پور ہے جہاں شاہ عبداللطیف کا مقبرہ بھی ہے ۔ اس گاؤں میں کچھ سرکاری زمین پر با اثر لوگوں کا قبضہ ہے جو غریب بے گھر خاندان سے بیس سے تیس ہزار روپیہ لے کر اُنہیں ایک کمرہ بنانے کیلئے زمین دیتا ہے ۔ کبھی کبھی کیپیٹل ڈویلوپمنٹ اتھارٹی کو جوش آتا ہے تو تجاوزات قرار دے کر ان غریبوں کے مکان گرا دیتا ہے ۔ اُس وقت ہر خاندان سے زمین کا بیس تیس ہزار روپیہ لینے والا اُن کی مدد کو نہیں آتا ۔ کیا یہ قبضہ گروپ ریاست میں ریاست نہیں ؟ اور کیاحکمومتی عملداری صرف غریبوں کو نقصان پہنچانا ہے ؟

2 ۔ اسلام آباد ہی میں لال مسجد سے ملحقہ قانونی طور پر قائم جامعہ حفصہ کی توسیع کو تجاوز قرار دے کر سینکڑوں بیگناہ یتیم اور بے سہارا بچیوں کو ہلاک کرنے کے بعد عمارت کو مسمار کر دیا گیا اور حکومتی عملداری [writ] قائم ہو گئی ۔ اس جامعہ سے سوا کلو میٹر کے فاصلہ پر اسلام آباد کے وسط میں ایک برساتی نالے کے کنار ے ایک کمیونٹی نے سرکاری زمین پر قبضہ کر کے اپنے درجنوں مکانات بنائے ہوئے ہیں ۔ اسے لوگ فرنچ کالونی کہتے ہیں ۔ ان لوگوں کو حکومتی اہلکار کچھ کہنے کی بھی جراءت نہیں کر سکتے ۔ کیا یہ ریاست میں ریاست نہیں ؟ اور اس سلسلہ میں حکومتی عملداری [writ] کہاں چلی گئی ہے ؟

3 ۔ جنوبی پنجاب اور سندھ میں وڈیرے کا ناجائز حُکم نہ ماننے والی لڑکی یا عورت کے کپڑے پھاڑ کر اُسے برہنہ یا نیم برہنہ حالت میں بازاروں میں گھسیٹا جاتا ہے ۔ مگر ان ظُلم کرنے والوں کو حکومت آج تک کوئی سزا نہیں دے سکی ۔ کیا یہ ظالم لوگ ریاست کے اندر ریاست نہیں ؟ اور کہاں چلی جاتی ہے حکومتی عملداری اس سلسہ میں ؟

4 ۔ ملک کے مختلف حصوں میں زبردستی کی شادی پر رضامند نہ ہونے والی لڑکی کو کاری یا کالی قرار دے کر ہلاک کر دیا جاتا ہے جس کا فیصلہ با اثر وڈیرے کی تابعدار پنچائت کرتی ہے ۔ کیا یہ وڈیرہ اور اس کی پنچائت ریاست کے اندر ریاست نہیں ہے ؟ اور کہاں ہوتی ہے حکومتی عملداری [writ] ؟

5 ۔ سندھ ۔ سرحد اور بلوچستان میں وِنی یا سوارا کی ایک رسم ہے جس کے تحت کمسِن بچی کی شادی ساٹھ ستر سالہ بوڑھے سے کر دی جاتی ہے اور وہ ساری زندگی ایک زرخرید لَونڈی کی طرح گذارتی ہے ۔ کیا یہ ریاست میں ریاست نہیں اور کہاں ہے حکومتی عملداری [writ] ؟

6 ۔ چند ماہ قبل بلوچستان کے علاقہ نصیرآباد میں تین لڑکیوں اور دو عورتوں کو زندہ دفن کر دیا گیا ۔ اس جُرم میں ایک حکومتی کارندے کا نام بھی لیا جا رہا ہے ۔ کیا یہ ریاست میں ریاست نہیں ؟ اور کیا اس سلسلہ میں حکومت کی عمداری قائم ہو گئی ہے ؟

7 ۔ پورے ملک میں دن دھاڑے ڈاکے پڑتے ہیں اور گاڑیاں ۔ موبائل فون ۔ نقدی اور زیورات چھینے جاتے ہیں ۔ کہاں ہے حکومتی عملداری [writ] ؟

8 ۔ آخری قسم سب سے زیادہ طاقتور ہے اور پاکستان میں سرطان کی طرح پھیلتی چلی جا رہی ہے ۔ یہ ہے فوجی چھاؤنیاں [cantonments] ۔ ہندوستان پر قابض انگریز حکمران اپنے آپ کو حکمران اور ہندوستان کے باشندوں کو غلام سمجھتے تھے اُنہوں نے چھاؤنیاں اس لئے بنائی تھیں کہ وہ غلاموں پر قابو رکھ سکیں اور اُنہیں اپنے سے دور رکھ سکیں ۔ پاکستان بننے کے بعد ان چھاؤنیوں کو ختم ہو جانا چاہیئے تھا لیکن وہ کئی گنا زیادہ ہو گئی ہیں اور ان کی تعداد بڑھتی ہی جا رہی ہے ۔ صرف ضلع راولپنڈی میں آدھی درجن چھاؤنیاں قائم ہیں ۔

پورے مُلک میں جنرل پرویز مشرف نے ضلعی نظام قائم کیا لیکن تمام چھاؤنیوں میں فوجی ڈکٹیٹرشپ آج تک قائم ہے ۔ ہر چھاؤنی کا سرپراہ سٹیشن کمانڈر ہوتا ہے جو ایک حاضر سروس کرنل یا بریگیڈیئر ہوتا ہے ۔ ان چھاؤنیوں میں بسنے والے غیر فوجی شہری بہت سے حقوق سے محروم ہوتے ہیں ۔

یہی کم نہ تھا کہ ڈی ایچ اے نام کی ایک اور بیماری جو کئی دہائیاں قبل کراچی میں شروع ہوئی تھی لاہور سے ہوتے ہوئے پرویز مشرف کی سرپرستی میں اسلام آباد بھی پہنچ گئی ۔ ڈی ایچ اے اسلام آباد کو ایسا آئینی تحفظ دیا گیا ہے کہ اس کے خلاف پاکستان کا وزیرِ اعظم بھی کوئی کاروائی نہیں کر سکتا اور اس کے قوانین کو پاکستان کی پارلیمنٹ بھی تبدیل نہیں کر سکتی ۔

یہ سب ریاست کے اندر ریاستیں نہیں تو اور کیا ہے ؟ اور حکومتی عملداری ان درجنوں ریاستوں میں کیوں قائم نہیں کی جاتی ؟ دراصل حکومتی عملداری کیلئے صرف غریب عوام ہی رہ گئے ہیں خواہ وہ قبائلی علاقہ میں ہوں یا ترقی یافتہ علاقوں یعنی کراچی لاہور یا اسلام آباد میں ۔