فرق صرف سوچ کا ہے

زندگی 10 فیصد وہ ہے جو کوئی شخص بناتا ہے اور 90 فیصد وہ جو اس شخص کی سوچ ہوتی ہے ۔

ایک شخص کا بیان کردہ واقعہ جس نے اس کی زندگی کو خوشگوار بنا دیا

میں ایک دن گھر سےکسی کام کیلئے نکلا ۔ ٹیکسی لی اور منزلِ مقصود کی طرف چل پڑا ۔ ٹیکسی شاہراہ کے بائیں حصے پر دوڑتی جا رہی تھی کہ بائیں طرف سے شاہراہ میں شامل ہونے والی ایک پتلی سڑک سے ایک گاڑی بغیر رُکے اچانک ٹیکسی کے سامنے آ گئی ۔ ٹیکسی ڈرائیور نے پوری قوت سے بریک دباتے ہوئے ٹیکسی کو داہنی طرف گھمایا اور ہم بال بال بچ گئے گو میرا کلیجہ منہ کو آ گیا تھا ۔

بجائے اس کے کہ دوسری گاڑی کا ڈرائیور اپنی غلطی کی معافی مانگتا ۔ کھُلے شیشے سے سر باہر نکال کر ہمیں کوسنے لگا ۔ میرا خیال تھا کہ ٹیکسی ڈرائیور اُسے تُرکی بہ تُرکی جواب دے گا لیکن اس نے مُسکرا کر بڑے دوستانہ طریقہ سے ہاتھ ہلایا ۔

میں نے ٹیکسی ڈرائیور سے کہا “اُس نے تو تمہاری ٹیکسی کو تباہ کرنے اور ہم دونوں کو ہسپتال بھیجنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی اور تم نے مُسکرا کر اُسے الوداع کہا ؟”

ٹیکسی ڈرائیور کہنے لگا “کچھ لوگ محرومیوں یا ناکامیوں یا کُوڑ مغز ہونے کی وجہ سے بھرے ہوئے کُوڑے کے ٹرک کی طرح ہوتے ہیں ۔ جب اُن کے دماغ میں بہت زیادہ کُوڑا اکٹھا ہو جاتا ہے تو جہاں سے گذرتے ہیں گندگی بکھیرتے جاتے ہیں ۔ اور بعض اوقات اچھے بھلے لوگوں پر بھی یہ گندگی ڈال دیتے ہیں ۔ ایسا ہونے کی صورت میں ناراض ہونے کا کوئی فائدہ نہیں ۔ اپنے اُوپر بُرا اثر لئے بغیر گذر جانا چاہیئے ۔ ورنہ آپ بھی اُس سے لی ہوئی گندگی اپنے ساتھیوں پر اُنڈیلنے لگیں گے ۔ ”

میں نے اُس دن سے ایسے لوگوں کے بے جا سلوک پر کُڑھنا چھوڑ دیا ہے اور میرے دن اب بہتر گذرتے ہیں ۔ یہ مجھ پر اُس ٹیکسی ڈرائیور کا احسان ہے ۔

This entry was posted in روز و شب on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

21 thoughts on “فرق صرف سوچ کا ہے

  1. محمد ریاض شاہد

    اولیاے کرام بھی لوگوں کی صرف توجہ کا رخ مثبت کر دیتے ہیں ۔ انگریز سرکار کے دور میں بھی کسی شخص کو اعلی عہدے پر رکھتے وقت یہ دیکھا جاتا تھا کی وہ ہر طرح کے حالات میں پر امید رہتا ہے یا نہیں۔ میرے خیال میں ہر کام کو اللہ کی طرف معنون کرنے سے آسانی پیدا ہوتی ہے۔

  2. معراج خٹک

    واہ، بہت عمدہ۔

    اللہ سبحانہ تعالی ہمیں بھی اس سے سبق لینے کی توفیق عطا کرے۔ امین

  3. احمد

    بہت سبق آموز ہے
    یہ چیز انفرادی معاملات میں لازم ہے ایسا رویہ اپنانے سے گوناگوں مسلائل سے جان چھڑائی جاسکتی ہے مگر قومی سطح پر غلطی پر قانونی محاسبہ لازم ہے

    محمد ریاض شاہد صاحب کی بات درست ہے کہ ہر کام کو اللہ کی طرف معنون کرنے سے آسانی پیدا ہوتی ہے۔

  4. مکی

    اس قسم کی حرکتوں پر خاموشی اختیار کرنا ایسے لوگوں کو مزید شہہ دینے کے مترادف ہے.. یہ صاحبان تو بچ گئے کوئی اور شاید نہ بچ سکتا؟! تو کیا ایسے پاگلوں کو معاشرے میں دندنانے کے لیے کھلا چھوڑ دیا جائے..؟؟.. برائی کو اگر ہاتھ سے نہ روکا جاسکے تو پھر زبان سے یا کم سے کم اسے دل میں برا ضرور جاننا چاہیے جو کہ اضعف الایمان ہے..

    مجھے اس بے وقوف ٹیکسی ڈرائیو سے اتفاق نہیں..

  5. ڈفر

    بات تو مکّی صاحب کی بھی ٹھیک ہے، پر جاہلوں کے منہ لگنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
    آپ انکو زبان سے رک سکتے ہیں نا ہاتھ سے

  6. افتخار اجمل بھوپال Post author

    مکی صاحب
    گستاخی معاف ۔ آپ نے یہ حدیث غلط مقام پر ثبت کر دی ہے ۔ آپ ذرا سوچیئے تو سہی کہ ٹیکسی ڈرائیور دوسرے کی برائی کو کیسے روکتا ؟ اُسے گالی دے کر یا مُکا دِکھا کر ؟ ایسی صورت میں اور تو کوئی طریقہ نظر نہیں آتا

    سُورت ۔41 ۔ فُصِّلَت / حٰم السَّجْدَة ۔ آیات ۔ 34 تا 36 کا ترجمہ آپ کی میں پیش کر رہا ہوں ۔ فیصلہ آپ خود ہی کر لیجئے

    اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہو سکتے ۔ اور برائی کو بہتر (طریقے) سے دور کیا کرو سو نتیجتاً وہ شخص کہ تمہارے اور جس کے درمیان دشمنی تھی گویا وہ گرم جوش دوست ہو جائے گا
    اور یہ [خوبی] صرف اُنہی لوگوں کو عطا کی جاتی ہے جو صبر کرتے ہیں ۔ اور یہ [توفیق] صرف اسی کو حاصل ہوتی ہے جو بڑے نصیب والا ہوتا ہے
    اور اگر شیطان کی وسوسہ اندازی سے تمہیں کوئی وسوسہ آجائے تو اﷲ کی پناہ مانگ لیا کرو ۔ بے شک وہ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے

  7. افتخار اجمل بھوپال Post author

    ڈفر صاحب
    ہماری قوم کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم قرآن شریف کے نزول کا مقصد ہی سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے ۔ قرآن شریف ایک دستور ہے زندگی گذارنے کیلئے جس کے کسی حکم پر عمل کرنا بہت مشکل نہیں ہے ۔

  8. مکی

    آپ کی بات بجا ہے برائی کو بہتر طریقے سے دور کیا جانا چاہیے.. اگر اسی بات پر بھی قائم رہا جائے تو ٹیکسی ڈرائیو کو کم از کم مہذب انداز میں اسے اس کی غلطی کا احساس تو دلانا چاہیے تھا..!! بے وقوفوں کی طرح سلام کرکے آگے بڑھ جانا کون سی عقلمندی ہے..؟!

    ویسے بھی آج کل جو حالات ہیں شرافت کی بات پر کوئی کان دھرتا بھی نہیں.. اسے چاہیے تھا کہ اس کا منہ توڑ دیتا تاکہ آئندہ وہ ایسی حرکت کرنے سے پہلے دس مرتبہ سوچتا.. کہ ہر بِل میں ہاتھ ڈالنا اچھا نہیں ہوتا..

    میرے خیال سے ٹیکسی ڈرائیو اوپر مذکور آیتِ کی بھی پابندی نہ کرسکا..

  9. احمد

    مکی صاحب!
    اصل میں اسکول میں ڈنڈا سسٹم نے ہمارے زہن میں ہربات کا یہی علاج رکھا ہے
    افتخار اجمل صاحب کی بات درست ہے کہ جہاں انسان کا واسطہ ہی نا سمجھ اور پاگل سے پڑے وہاں بھلا نصیحت کیا کام دے گی؟
    چند جگہ نصیحت نہیں دعا ہی کام آتی ھے
    1۔منافق کے معاملے میں
    2-جس کے دل پر مہر لگی ہو کے معاملے میں
    3-پاگل کے معاملے میں
    4۔مغرور کے معاملے میں
    5-جو دوسروں کو عزت نہ دے کے معاملے میں
    وغیرہ۔۔۔

  10. افتخار اجمل بھوپال Post author

    مکی صاحب
    آپ کے تبصرے سے یہ خیال اُبھرتا ہے کہ میری تحریر اتنی واضح نہیں ہے کہ کوئی قاری اسے سمجھ سکے
    ٹیکسی ڈرائیور کا رویّہ بیوقوفانہ نہیں بلکہ دانشمندانہ اور لمبے تجربے کا غماز تھا ۔
    وہ کس طرح دوسری گاڑی کو روک کر اُس کے خود سَر ڈرائیور کو مہذب طریقہ سے سمجھاتا ؟
    آپ کے مطابق آجکل شرافت کی بات کوئی نہیں سُنتا اسلئے ٹیکسی ڈرائیور کو چاہیئے تھا کہ خود سر ڈرائیور کا منہ توڑ دیتا لیکن آپ نے یہ نہیں سوچا کہ اگر خود سَر ڈرائیور ٹیکسی ڈرائیور کی ہڈی پسلی توڑ دیتا تو کیا یہ اچھا ہوتا ؟
    آپ کا یہ استدال بھی سمجھ میں نہیں آیا کہ ٹیکسی ڈرائیو اوپر مذکورھ آیات کی پابندی کیوں نہ کرسکا

    محترم ۔ آپ میری تحریر کے پہلے فقرے کو ذرا غور سے پڑھیئے ۔ شاید بات آپ کی سمجھ میں آ جائے

  11. مکی

    میں اس قسم کی کسی بحث کا قائل نہیں جس کا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوسکے..

    میں اپنے سارے الفاظ واپس لیتا ہوں..

    وقت سب کو سمجھا دے گا..

  12. Pingback: فرق صرف سوچ کا ہے | میں کیا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ What Am I

  13. Pingback: » » فرق صرف سوچ کا ہے

  14. سیما آفتاب

    عمدہ ۔۔۔ کیچڑ دیکھ کر اس سے بچ کے نکلنے کی کوشش کی جاتی ہے نہ کہ اس میں جان بوجھ کے کودا جائے۔

    عمدہ نصیحت

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.