Monthly Archives: August 2008

ظُلم اورکیاہوتاہے

حکومت کی طرف سے قبائلی علاقوں اور سوات میں جو فوجی کاروائی جاری ہے اس کے نتیجے میں سینکڑوں لوگ بشمول بوڑھے ۔ بچے اور عورتیں ہلاک ہو چکے ہیں ۔

کیا یہ سب دہشتگرد تھے ؟

ان لوگوں کو جن میں اکثریت غریب و مسکین لوگوں کی تھی ہلاک کرنے سے پاکستان یا پاکستانی قوم کو کیا فائدہ ہوا ؟
یہ درست مان بھی لیا جائے کہ ان علاقوں میں کچھ دہشتگرد موجود تھے یا ہیں تو اُن کی شناخت کون کرے گا ؟
توپوں ۔ ہیلی کاپٹروں اور ہوائی جہازوں سے بمباری کر کے جن سینکڑوں پاکستانیوں کو اپنی ہی فوج نے ہلاک کیا ہے ان میں سے کتنے دہشتگرد ثابت ہوئے ہیں ؟

کیا اس قتلِ عام کا حکم دینے والے اور یہ قتلِ عام کرنے والے جانتے ہیں کہ بغیر جرم ثابت کئے کسی کو قتل کرنا جرم ہے اور گناہِ عظیم بھی ؟
کیا مارنے والے اگر مسلمان ہیں تو یہ جانتے ہیں کہ بلاقصور مرنے والے شہید ہوتے ہیں اور مارنے والے سیدھے جہنم میں جائیں گے ؟
کیا مارنے والے جانتے ہیں کہ جس امن کا وہ ڈھنڈورہ پیٹ رہے ہیں اس فوجی کاروائی کے نتیجہ میں امن کی بجائے پورے ملک میں انتشار پھیلے گا ؟

آخر اُن پانچ لاکھ سے زائد لوگوں کا کیا قصور ہے جو اس اندھا دھند بمباری کے نتیجہ میں اپنا گھر اور ساز و سامان چھوڑ کر اپنے ہی ملک میں مہاجر ہو گئے ہیں ؟

ان پانچ لاکھ میں سے زیادہ تر کھلے آسمان کے نیچے نہ صرف بلا کی گرمی کا مقابلہ کر رہے ہیں بلکہ پہروں بھوکے رہتے ہیں اور ان کے کمسن بچے بلکتے رہتے ہیں ۔

عوام سے کمائے ہوئے ٹیکسوں پر اللے تللے کرنے والے حکمران اپنی عیاشیاں ختم کر کے ان مسکینوں کے نان و نفقہ اور رہائش کا بندوبست کیوں نہیں کرتے ؟

اب نمعلوم کس وجہ سے صرف رمضان کے مہینہ میں فوجی کاروائی روکنے کا اعلان کیا گیا ہے ۔ آخر یہ فوجی کاروائی جس کا نہ ملک کو فائدہ ہے نہ قوم کو وہ ختم کیوں نہیں کر دی جاتی ؟

نواز شریف کا گانا

نواز شریف آجکل اگر سامنے نہیں تو غُسلخانہ میں گاتا ہو گا

سب کچھ سیکھا ہم نے نہ سیکھی ہوشیاری
یہ سچ ہے دُنیا والو کہ ہم ہیں اناڑی

اب بات واضح ہو گئی ہے کہ امریکہ کی سرپرستی میں آصف زرداری اور پرویز مشرف کے درمیان معاہدہ ہوا ۔ اب تک جو کچھ ہو چکا ہے اس معاہدے کے تابع ہے اور آئیندہ جو ہو گا وہ بھی اسی معاہدہ کے تحت ہو گا ۔ 3 نومبر 2007ء کے غیر قانونی اور غیر آئینی اقدامات کو مکمل تحفظ دیا جا رہا ہے اور کل وزیرِ قانون فاروق حمید نائیک نے برملا کہا کہ 3 نومبر 2007ء کے اقدامات آئینی اور قانونی ہیں ۔

نواز شریف کو بیوقوف بنانا بھی اسی معاہدہ کا حصہ تھا کیونکہ امریکہ اور پرویز مشرف کے حُکم کے تحت نواز شریف کا کردار عوام کے سامنے مسخ کر کے اُسے سیاست سے باہر کرنے کا منصوبہ تھا جو شاید نواز شریف کی کسی نیکی کے باعث کامیاب نہ ہو سکا اور وہ حکومتی اتحاد سے بدیر سہی لیکن باہر آ گیا ۔

آج کی دنیا میں جس جمہوریت کا چرچا ہے وہ بغیر سیاست کے قائم نہیں ہو سکتی ۔ سیاست کے لئے ہوشیاری اشد ضروری ہے ۔ ہوشیاری کا عملی مطلب ہے ۔ اپنی مطلب براری کیلئے دوسرے سے کام لینا جس میں جھوٹ ۔ مکاری ۔ دھوکہ ۔ وغیرہ سب کچھ جائز ہے ۔ اگر کوئی شخص پینترا بدلنا اور دوسرے کو زچ کرنا نہیں جانتا یا ایسا کرنا مناسب نہیں سمجھتا تو وہ سیاست میں کامیاب نہیں ہو سکتا ۔

میں ابھی سکول میں پڑھتا تھا کہ کسی شخص کے متعلق ایک بزرگ نے کہا “وہ ماہرِ سیاست ہے”۔ میں چونکا اور پوچھا ” وہ الیکشن لڑتے ہیں ؟” بزرگ نے مسکرا کر کہا “تم چھوٹے ہو ۔ تم نہیں سمجھتے”۔ وقت گذرنے کے ساتھ مجھے معلوم ہوا کہ جس شخص کو ماہرِ سیاست کہا گیا تھا وہ اپنا مطلب نکالنے کے لئے ہر کسی کی وقتی طور پر تابعداری کر لیتا تھا اور اپنے فائدے کے لئے جھوٹ بولنے اور دھوکہ دہی کا بھی ماہر تھا ۔ شاید اسی لئے شاعر نے کہا تھا

مغربی سیاست کے انڈے ہیں گندے

جمہوریت کی فی زمانہ بہت تعریف کی جاتی ہے ۔ تین جمہوری ممالک کا عام طور پر حوالہ دیا جاتا ہے ۔ امریکہ ۔ بھارت اور اسرائیل ۔ ان تینوں ممالک کا جتنا غیر انسانی گھناؤنا کردار ہے اس سے شاید روس بھی شرماتا ہو ۔

امریکہ کو خوش رکھنے کے لئے قبائلی علاقوں اور سوات میں مسلمان ہموطنوں کا بے دریغ خون بہایا جا رہا ہے ۔ مہنگائی سے عام آدمی کا دم گھُٹنے کو ہے اور حکومتی اہلکاروں کے اللے تللے شاہانہ یا اس سے بھی کچھ اُوپر ہیں ۔ ان بے معنی اخراجات کو پورا کرنے کیلئے ٹیکس پر ٹیکس لگایا جا رہا ہے ۔ یہ کون نہیں جانتا کہ فی زمانہ حُکمرانی کا طور یہودی فلسفہ ہے کہ جس پر حُکمرانی کرنا ہو اُس کی معیشت کمزور کر کے مکمل سُودی بنا دو اور ان کے مُلک میں اندرونی خلفشار پیدا کر دو ۔ سو یہ دو حالتیں وطنِ عزیز کے حُکمرانوں کی وساطت سے حاصل کی جا چکی ہیں ۔

دارچینی

دارچینی (Cinnamon) کو کون نہیں جانتا مگر اکثریت یہی جانتی ہے کہ یہ پلاؤ میں استعمال ہوتی ہے یا گرم مصالحہ کا ایک جزو ہے ۔ کچھ لوگ کہیں گے کہ یہ ایک خاص قسم کے قہوہ میں بھی ڈالی جاتی ہے ۔ درست لیکن اللہ سبحانُہُ و تعالٰی نے دارچینی کو ایک خطرناک انسانی بیماری کا تریاق بنایا ہے ۔ فی زمانہ کھانے یا قہوہ میں دارچینی کے استعمال کی وجہ اس کی مہک ہے ۔

امریکہ کے ماہرینِ طب اس بات پر بہت پریشان تھے کہ مشرقی دنیا میں بسنے والے روکھی سوکھی کھانے کے باوجود زیادہ صحتمند ہوتے ہیں اور ان کی عمریں بھی لمبی ہوتی ہیں جبکہ یورپی اور امریکی باشندے جنہیں اُن کے خیال کے مطابق ہر نعمت میسّر ہے وہ بیماریوں مین مبتلا رہتے ہیں اور ان کی عمریں بھی کم ہوتی جا رہی ہیں ۔ گذشتہ ایک صدی میں جب مشرق قریب کے لوگوں نے کھانے پینے میں یورپ اور امریکہ کی نقل شروع کی تو ان میں یورپ اور امریکہ کی بیماریاں بڑھیں اور اور ان کی عمریں بھی کم ہونا شروع ہوئیں ۔

ان حالات کے زیرِ اثر امریکہ کے سائینسدانوں نے مشرقِ بعید کے لوگوں کے خورد و نوش کی اشیاء پر تحقیق شروع کی ۔ سالہا سال کی تحقیق سے واضح ہوا کہ مشرق بعید کے لوگوں کی صحت اور لمبی عمر کا راز اُن جڑی بوٹیوں میں ہے جو وہ روز مرّہ خوراک میں استعمال کرتے ہیں ۔ اس سے قبل میں سبز چائے یا قہوہ ۔ سؤنف ۔ سفید زیرہ اور کالی مرچ کے متعلق لکھ چکا ہوں ۔ آج اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی دی ہوئی ایک اور مسلّم نعمت دارچینی کا ذکر ۔ میرا خیال ہے کہ میں زکام اور حساسیت کا عام خوراک سے علاج بھی لکھ چکا ہوں

دارچینی اِنسُولِین کا بہترین اور زیادہ مؤثر نعم البدل ہے ۔ اس لئے دارچینی کا مناسب استعمال ذیابیطس پر قابو رکھتا ہے ۔ ذیابیطس کی دو قسمیں بتائی جاتی ہیں ۔ قسم 1 جو عام ذیابیطس ہے اور اس کا علاج اِنسُولِین سے کیا جاتا ہے ۔ اور قسم 2 جس کا علاج ایلوپیتھی میں ابھی تک صحیح دریافت نہیں ہوا ۔ دارچینی کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ نہ صرف ذیابیطس قسم 1 بلکہ قسم 2 کا بھی مؤثر علاج ہے ۔

دارچینی زکام کے علاج کیلئے مجرب نسخہ ہے اور آرتھرائٹس میں بھی مفید ہے ۔ اگر دارچینی کو پانی میں ڈال کر خُوب اُبال لیا جائے پھر اس میں سبز چائے جسے عام طور پر چائینیز ٹی کہا جاتا ہے ڈال کر چولہے سے اُتار لیا جائے ۔ یہ قہوہ روزانہ رات کے کھانے کے بعد پیا جائے تو نہ صرف معدے میں گیس بننے سے روکتا ہے بلکہ کولیسٹرال کو اعتدال میں لاتا ہے اور کئی قسم کے سرطان سے بچاتا ہے ۔

آج کی ترقی یافتہ دنیا میں 170 ملین یعنی 17 کروڑ لوگ ذیابیطس کے مرض میں مبتلاء ہیں جو یورپ اور امریکہ کی بہت مہنگی دوائیاں استعمال کرتے وہ اس سادہ اور سستے نسخہ سے فیضیاب ہو سکتے ہیں

شہید اور زعفران

میں نے بچپن میں سُنا تھا کہ شہید کا جسم مرنے کے بعد گلتا سڑتا نہیں اور اس سے زعفران کی خوشبو آتی ہے ۔ یہ بات مجھے یاد آئی حریت رہنما شیخ عبدالعزیز کی شہادت پر جو مقبوضہ جموں کشمیر میں پیر 11 اگست 2008ء کے روز “مظفرآباد مارچ” کے دوران فوج کی فائرنگ سے شہید ہونے ۔ شیخ عبدالعزیز کا شمار تحریک آزادی جموں کشمیر کے ممتاز رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ وہ بہت عزت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے ۔ وہ کل جماعتی حریت کانفرنس کی ایگزیکیٹو کونسل کے رکن تھے۔

شیخ عبدالعزیز کا تعلق مقبوضہ جموں کشمیر کے ضلع پلوامہ سے تھا جہاں وہ 1952ء میں پامپور قصبے میں پیدا ہوئے۔ پامپور کا علاقہ زعفران کی پیداوار کے لئے مشہور ہے ۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم پامپور کے سکول میں ہی حاصل کی اور میٹرک کے بعد وہ کھیتی باڑی میں اپنے والد کا ہاتھ بٹانے لگے۔

شیخ عبدالعزیز ابھی نوجوان ہی تھے جب سرینگر میں حضرت بَل کے مزار سے پیغمبرِ اسلام سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کے موئے مبارک کی چوری کے بعد ایک عوامی احتجاج شروع ہو گیا جس نے بہت جلد مزاحمتی رنگ اِختیار کر لیا اور اس سے متاثر ہو کر شیخ عبدالعزیز سمیت آزادی کے طلبگار کشمیریوں کی ایک پوری کھیپ تیار ہو گئی ۔ یہ حریت پسند اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں جموں کشمیر کے لوگوں کے حقِ خود ارادیت کے حامی تھے۔

شیخ عبدالعزیز کشمیر میں شورش کے دوران شیخ عبدالعزیز متعدد بار گرفتار ہوئے اور انہیں نے پندرہ سال سے زائد عرصہ جیل میں گزارنا پڑا۔ پہلی بار وہ 20 سال کی عمر میں گرفتار ہوئے جب ان پر بدنامِ زمانہ نیشنل سکیورٹی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ وہ کل جماعتی حریت کانفرنس کے معتدل مزاج دھڑے سے وابستہ رہے جو بات چیت کے ذریعے کشمیر کے مسئلے کی حل کی حمایت کرتا ہے ۔ حالیہ دنوں میں ان کی اہم سیاسی کامیابی شری امرناتھ شرائن بورڈ کے مسئلے پر کل جماعتی حریت کانفرنس کے دونوں دھڑوں کو قریب لانا تھا۔

جُرمِ عظیم ہے مؤمن اور ذہین ہونا

ڈاکٹر عافیہ صدیقی پاکستانی سائنسدان ہیں جنہیں تین کمسن بچوں سمیت امریکی حکومت نے 30 مارچ 2003ء کو اغوا کیا اور ساڑھے پانچ سال سے غیرقانونی طور پر قید رکھ کر درندگی کا نشانہ بنا رہی ہے ۔ بچوں کی عمریں اُس وقت ایک ماہ سے چار سال تھیں ۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی ذہین ۔ محنتی اور باعمل مسلمان خاتون ہیں اور یہی جُرمِ عظیم ہے آج کی انسانی حقوق کی دلدادہ کہلوانے والی نام نہاد آزاد دنیا میں ۔

ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر امریکی فوجیوں یا ایف بی آئی والوں نے کیا کیا ظُلم نہ کئے ہوں گے ۔ اس کیلئے ماضی کی ہلکی سی جھلک

In addition, the May 10-17, 2004 issue of Newsweek said that yet-unreleased Abu Ghraib abuse photos “include an American soldier having sex with a female Iraqi detainee and American soldiers watching Iraqis have sex with juveniles.”

What also has not been revealed to the American public is that the sexual humiliation of Islamic prisoners and rape of women detainees is actually an Israeli Jewish practice used by the Zionists against the Palestinians.

. . . investigators and intelligence officers keep video tapes of the raping to blackmail the female detainees

On May 12, 2004 an Iraqi female professor revealed that U.S. soldiers in Iraq have raped, sexually humiliated and abused several Iraqi female detainees in the notorious Abu Ghraib prison. Professor Huda Shaker, a political scientist at Baghdad University, said an Iraqi young girl was raped by a U.S. military policeman and became pregnant.

صدیقی نے امریکا کی معروف یونیورسٹی ایم آئی ٹی سے وراثیات [genes] میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی ۔ 2002ء میں پاکستان واپس آئیں مگر ملازمت نہ ملنے کی وجہ امریکہ ملازمت ڈھونڈنے کے سلسلہ میں دورہ پر گئیں۔ اس دوران میری لینڈ میں ڈاک وصول کرنے کے لئے پوسٹ بکس کرائے پر لیا اور 2003ء کے شروع میں کراچی ۔ پاکستان ۔ واپس آ گئیں کیونکہ وہ اُمید سے تھیں ۔ ایف بی آئی نے الزام لگایا کہ پوسٹ بکس القاعدہ سے تعلق رکھنے والے کسی شخص کے لئے کرائے پر لیا گیا ۔ امریکی ذرائع ابلاغ کو جو ہر لمحہ مسلمان دُشمن پروپیگنڈہ کیلئے تیار رہتے ہیں سنسنی پھیلانے کا موقع مل گیا اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت عافیہ صدیقی کی بطور دہشت گرد تشہیر کی گئی ۔

اتوار 30 مارچ 2003ء کو عافیہ صدیقی اپنے تین بچوں سمیت راولپنڈی جانے کے لئے ٹیکسی میں کراچی ایئر پورٹ کی طرف روانہ ہوئیں مگر راستے میں پاکستانی خفیہ ادارے نے بچوں سمیت آپ کو اغوا کر کے امریکی ایف بی آئی کے حوالے کر دیا۔ اس وقت ان کی عمر 30 سال تھی ۔ 31 مارچ 2003ء کے مقامی اخباروں میں آپ کی گرفتاری کی خبر شائع ہوئی مگر اس وقت کے وزیرِ داخلہ فیصل صالح حیات نے کہا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کسی سرکاری ادارے کی تحویل میں نہیں ہے ۔ امریکی نیٹ ورک این بی سی نے خبر لگائی کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو اُسامہ بن لادن کیلئے چندہ بھیجنے کے الزام میں پاکستان میں گرفتار کر لیا گیا ہے ۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بلا جواز گرفتاری پر واویلا کرنے والی ماں بیگم عصمت صاحبہ کو خطرناک انجام کی دھمکیاں دی گئیں ۔ 

گمشدگی کے فوراً بعد امریکی اور پاکستانی خفیہ اداروں نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی گرفتاری کی تصدیق کی تھی تاہم بعد میں ان کے بارے میں سرکاری سطح پر لا علمی کا اظہار کیا جاتا رہا ۔ 2 اپریل 2003ء کو فیصل صالح حیات نے بیان دیا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی مفرور ہے ۔ 30 دسمبر 2003ء کو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ اس وقت کے ایک وزیر اعجاز الحق کو ساتھ لے کر وزیرِ داخلہ فیصل صالح حیات کے پاس گئیں تو فیصل صالح حیات نے کہا “ڈاکٹر عافیہ کو رہا کر دیا گیا ہے ۔ آپ گھر جا کر اُس کی کال کا انتظار کریں”۔

معلوم ہوا ہے کہ 2002ء میں ایف بی آئی والے جب ڈاکٹر عافیہ صدیقی امریکہ میں تھیں تو ایف بی آئی والے اُن کے خاوند کو لے گئے تھے ۔ میاں بیوی دونوں کے متعلق چھان بین کی گئی اور کچھ ثبوت نہ ملنے پر انہیں چھوڑ دیا ۔ امریکی ذرائع کے مطابق ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے خاوند نے اُسے طلاق دے دی تھی اور پھر ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے خالد شیخ کے بھتیجے یا بھانجے سے شادی کرلی تھی ۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اور دوسرے گھر والے اسے غلط بیانی قرار دیتے ہیں ۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کا خاوند بھی ایف بی آئی کے زیرِ حراست ہے ۔

ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی خفیہ اداروں سے رہائی کی درخواست پچھلے سال 3 نومبر سے پہلے والی عدالتِ عظمٰی میں دائر کی گئی تھی جو پرویز مشرف کے 3 نومبر کے غیر آئینی اقدام کی وجہ سے اب تک شنوائی کے انتظار میں ہے

ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے مطابق انہوں نے امریکی اہلکاروں سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کیا تو انہوں دھمکی دی گئی تھی کہ اگر عافیہ کی زندگی چاہتے ہو تو اپنی زبان بند رکھو ۔ اُنہیں جان سے مارنے کی بھی دھمکیاں دی جاتی رہیں ۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے عزیز و اقارب حالات کی ستم ظریفی کے باعث ڈاکٹر عافیہ کی واپسی سے مایوس ہو کر خاموش ہو گئے تھے ۔ پھر جولائی 2008ء کے پہلے ہفتہ میں اچانک ان کے دبے ہوئے احساس پھر بھڑک اُٹھے جب ایک برطانوی صحافیہ نے بگرام کے کنسنٹریشن سینٹر [Concentration Centre] میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی موجودگی کا خدشہ ظاہر کیا

ایک برطانوی صحافیہ وون رِڈلی صاحبہ [Yvonne Ridley] جو انسانی حقوق کیلئے کام کر رہی ہیں افغانستان کے دورہ پر گئیں اور وہاں جیلوں میں قیدیوں کے حالات معلوم کرنے کی کوشش کے دوران اُنہیں رہا ہونے والے قیدیوں نے بتایا کہ امریکیوں کے زیرِ انتظام بگرام کنسنٹریشن سینٹر جو کہ صرف مردوں کیلئے ہے میں ایک قیدی نمبر 650 عورت ہے اور رات کے وقت اُس کی چیخوں اور آہ و بقا کی آواز یں سنی جاتی ہے ۔ رِڈلی صاحبہ کو یہ بھی معلوم ہوا کہ عورت قیدی نمبر 650 وہاں 4 سال سے زیادہ عرصہ سے قید ہے ۔

کچھ دن بعد صحافیہ وون رِڈلی پاکستان آئیں اور 6 جولائی 2008ء کو عمران خان کے ساتھ ایک پریس کانفرنس میں بگرام جیل میں موجود ایک قیدی عورت کیلئے مدد مانگی جو صحافیہ کے خیال میں پانچ سال قبل حراست میں لی جانے والی ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہو سکتی ہیں ۔ صحافیہ نے کہا کہ وہ اُسے گرے لیڈی [Grey Lady] کا نام دیتی ہیں کیونکہ اُس پر اس قدر تشدد کیا گیا ہے کہ وہ ذہنی توازن کھو چکی ہے ۔ اور اُسے بھوت سے تشبیہ دی جس کی کوئی شناخت نہیں ہے لیکن اسکی چیخیں ان لوگوں کا پیچھا کرتی رہتی ہیں جو انہیں ایک بار سننے کا تجربہ کر چکے ہیں ۔

جولائی 2008ء کے شروع میں اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ اور لاپتہ افراد اور خواتین کے خلاف تشدد کے حوالے سے قائم دیگر بین الاقوامی اداروں کو بھیجی جانے والی یادداشت میں دعوی کیا گیا تھا کہ اس بات کے کافی شواہد ملے ہیں کہ بگرام جیل کی قیدی نمبر 650 ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہی ہیں ۔ رپورٹ میں برطانوی رکن پارلیمنٹ لارڈ نذیر احمد کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ اس خاتون کو جیل کے عملے کی جانب سے مسلسل جنسی زیادتی کا شکار بنایا جاتا ہے اور قیدی نمبر 650 کے نام سے مشہور اس خاتون کو نہانے اور دیگر ضروریات کے لئے مردانہ غسل خانہ استعمال کرنا پڑتا ہے جس میں پردے کا کوئی بندوبست نہیں ہے ۔

ایشیائی ہیومن رائٹس کمیشن نے اقوام متحدہ اور حقوق انسانی کی دیگر تنظیموں سے مطالبہ کیا کہ وہ بگرام جیل کی قیدی نمبر 650 کی شناخت اور حالات کو منظر عام پر لانے کے لئے مداخلت کریں ۔ جب کچھ معلومات نجی پاکستانی ذرائع ابلاغ تک پہنچی تو چاروں طرف شور مچ گیا اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور اس کے تین کمسِن بچوں کی باز یابی کا مطالبہ زور پکڑ گیا ۔ اس پر امریکیوں نے نیا ڈرامہ رچایا اور 27 جولائی 2008ء کو اعلان کیا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو 17 جولائی 2008ء کو افغانستان سے گرفتار کر کے نیویارک پہنچا دیا گیا ہے تاکہ اس پر امریکی فوجیوں پر گولیاں چلانے کا مقدمہ چلایا جا سکے ۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے امریکی کہانی کو ناقابلِ یقین کہا ہے اور حقیقت میں یہ کہانی بے ڈھنگ کا جھوٹ ہے ۔ کس طرح ایک چھوٹے قد کی نحیف لڑکی امریکی مسلح فوجیوں کی قید میں ہوتے ہوئے ایک فوجی سے بندوق چھین کر ان پر گولی چلا سکتی ہے ؟

ایک بے قصور تعلیم یافتہ مگر کمزور خاتون ساڑھے پانچ سال سے امریکی درندوں کے قبضہ میں ہے اور وہ اس پر بے پناہ ظُلم ڈھاتے رہے ہیں ۔ اس کا ذمہ دار کون ہے ؟
مختصر سا جواب ہے جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف جس نے اپنی کتاب میں فخریہ انداز میں لکھا کہ اس نے پانچ سو سے زیادہ لوگ پکڑ کر امریکا کے حوالے کئے اور ان کے بدلے میں ڈالر حاصل کئے اور اُس کے ماتحت بے غیرت اہلکار ۔

کتنی بدقسمت ہے وہ قوم جس کا صدر بردہ فروش ہو ۔ بردہ فروش کی سزا موت ہے ۔ کیا پرویز مشرف کو پانچ چھ سو بار موت کی سزا دی جائے گی ؟
یہ ایک بڑا سوال ہے جو تمام پاکستانیوں کا منہ چڑھا رہا ہے ۔

کہاں ہیں حقوقِ نسواں اور محافظتِ نسواں کے نام پر تقریریں کرنے والے اور ٹی وی کیمروں کے سامنے احتجاج کرنے والے ؟
کہاں ہیں عورت کو آزادی دلانے کیلئے شور مچانے والے ؟
کہاں ہیں اسلامی قوانین کو ظالمانہ قرار دینے والے ؟
کہاں ہے وہ عاصمہ جہانگیر جو آزادی نسواں کا بلند پرچم اُٹھانے کی دعویدار ہے ؟

یہ سب کچھ صرف اسلئے کہ ایک طرف ان حقوقِ نسواں کے نام نہاد علمبرداروں کا اَن داتا امریکا ہے اور دوسری طرف اللہ کی بندی باعمل مؤمنہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی ۔

بلاشبہ مہنگائی ۔ اور بجلی کی آنکھ مچولی سے پِٹے ہوئے عوام کی کافی تعداد اپنی تکلیف بھُول کر قوم کی ہونہار بیٹی کے غم میں مبتلا ہو کر اپنی نحیف آواز اُٹھا رہے ہیں ۔ اُمید ہے کہ یہ آواز بہت جلد زور پکڑ جائے گی ۔ جماعتی سطح پر احتجاج میں پہل قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے ارکان پارلیمنٹ اور جماعتِ اسلامی نے کی ۔

خون کی ندیاں آج بھی بہتی ہیں

میرے وطن جموں کشمیر میں آج بھی آہنسا پرمودما کے پُجاری میرے مسلمان بھائوں کا خون بہا رہے ہے ۔ پچھلے دنوں ایک بار پھر مقبوضہ کشمیر کی سڑکوں اور گلیوں کو مسلمانوں کے خون سے رنگ دیا گیا

پیر اور منگل یعنی 11 اور 12 اگست 2008ء کے روز مقبوضہ کشمیر کے مختلف علاقوں سے لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے “مظفر آباد چلو” مارچ میں حصّہ لیا ۔ بھارتی فوج اور نیم فوجی دستوں اور ریاستی پولیس کے اہلکاروں نے مظاہرین پر اشک آور گیس کے شیل پھنکے اور گولیوں کی بوچھاڑ کر دی جس کے نتیجے میں مذاکرات کے ذریعہ معاملات کو حل کرنے کے حامی سرکردہ حریت رہنما شیخ عبدالعزیز اور ایک خاتون سمیت کم از کم 20 افراد شہید ہو گئے اور 100 سے زیادہ افراد زخمی ہوئے ۔ بھارتی سیکورٹی فورسز کی طرف سے طاقت کے استعمال اور مُظاہرین پر فائرنگ کا کوئی جواز نہیں تھا ۔ حکومت کا یہ اقدام کسی منطق کا نہیں بلکہ سراسر بوکھلاہٹ نتیجہ ہے

تنازعہ کیسے شروع ہوا

ریاست جموّں و کشمیر کے مسلم اکثریتی صوبہ کشمیر میں ہندوٴوں کی ایک مقدس غار واقع ہے ۔ جسے “امرناتھ گھپا” کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ ہر سال بھارت کی مختلف ریاستوں سے ہندو عقیدت مند امرناتھ غار کی یاترا کیلئے آتے ہیں مگر کبھی ان کی رہائش کلا مسئلہ پیدا نہیں ہوا ۔ حال ہی میں ایک ہندو نجی ادارہ تشکیل دیا گیا اور ریاست کی حکومت نے یاتریوں کی سہولت کے نام پر 800 کنال زمین اس نجی ادارے کے نام منتقل کرنے کا فیصلہ کیا ۔ یہ زمین دراصل مسلمانوں کے مقدس مقامات کی ملکیت ہے ۔

حکومت میں شامل بھارت نواز پارٹی نے بھی اس فیصلہ سےمشتعل ہو کر حکومت سے علیحدگی کا اعلان کر دیا ۔ شدید دباؤ کے پیش نظر ریاستی حکومت نے زمین منتقل کئے جانے کا فیصلہ واپس لیا لیکن اس فیصلے کے خلاف ریاست کے صوبہ جموّں میں ہندوٴوں کی طرف سے احتجاجی مظاہرے شروع کئے گئے ۔ ہر گُذرتے دن کے ساتھ ریاستی وزیر اعلیٰ غلام نبی آزاد پر سیاسی دباؤ بڑھتا ہی چلا گیا اور بالآخر 7 جولائی 2008ء کو وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے ۔ مگر ہندو تنظیموں نے اسی پر بس نہ کی اور پندرہ بیس دن قبل 294 کلو میٹر طویل جموّں سے سری نگر قومی شاہراہ کی مکمل ناکہ بندی کردی اور اشیاء ضروری کی سپلائی کشمیر نہیں پہنچنے دی اور نہ ہی مسلمانوں کے باغوں میں پیدا ہونے والے پھل گذرنے دئیے جو کہ گل سڑ گئے ۔

باغات کے مالکان اور تاجران نے اس غیرقانونی اور غیر انسانی ناکہ بندی سے مجبور ہو کر اپنا مال مظفر آباد اور راولپنڈی کی منڈیوں میں فروخت کرنے کا ارادہ کیا ۔ اس پر “مظفر آباد چلو” کا نعرہ لگایا گیا ۔ مقبوضہ ریاست جموں کشمیر کے مسلم اکثریتی علاقے صوبہ کشمیر میں پھلوں کی پیداوار سے منسلک فروٹ گروئرز ایسوسی ایشن ۔ تاجروں کی انجمنوں ۔ سول سوسائٹی کے اتحاد [کولیشن آف سول سوسائٹی] ۔ کل جماعتی حریت کانفرنس ۔ یہاں تک کہ بھارت نواز جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے بھی مارچ کی حمایت کی گئی ۔

ایک طرف بھارت اور پاکستان کی حکومتیں سری نگر ۔ مظفر آباد روڑ سے تجارت شروع کرنے کی باتیں کررہے ہیں اور دوسری طرف مظفر آباد میں اپنا مال فروخت کرنے کی خواہش ظاہر کرنے پر بھارتی حکومت نے ہندوؤں کی طرف سے کی گئی غیرقانونی ناکہ بندی کو ختم کرانے کی بجائے کرفیو لگا کر علاقے کو فوج کے حوالے کر دیا ۔

یہ سب کچھ اس بھارتی حکومت کی ایماء پر اور سرپرستی میں ہو رہا ہے جو بھارت کو مذہبی تفریق سے آزاد جمہوریت قرار دیتی ہے اور امن امن کا راگ الاپتی رہتی ہے ۔

آج اپنے آپ کو مسلمان کہنے والے ڈیڑھ ارب انسان کہاں ہیں ؟ انسان دوستی کے راگ گانے والے اربوں جمہوریت پسند کہاں ہیں جن کا دعوٰی ہے کہ وہ کسی جانور کو بھی مرتا نہیں دیکھ سکتے ؟

اپنے 16 کروڑ پاکستانی کہاں ہیں ؟

وہ ہموطن کہاں ہیں جو بھارتی ہندؤوں سے پیار کی پینگیں بڑھانے کے گیت گاتے رہتے ہیں ۔

وہ مظلوموں کے دُکھ کا ساتھی ہونے کا دعوٰی کرنے والا الطاف حسین کونسا برطانوی نشہ پی چکا ہے کہ اُسے مسلمان کا خون نظر نہیں آتا ؟

باسٹھواں یوم آزادی

 آؤ بچو ۔ سیر کرائیں تم کو پاکستان کی
جس کی خاطر دی ہم نے قربانی لاکھوں جان کی
پاکستان زندہ باد ۔ پاکستان زندہ باد

آج آنے والی رات کو 11 بج کر 57 منٹ پر سلطنتِ خداداد پاکستان کو معرضِ وجود میں آئے پورے 61 سال ہو جائیں گے ۔ میں کئی دن سے سوچ رہا تھا کہ میں آزادی کی سالگرہ مبارک تو ہر سال ہی لکھتا ہوں اور اب یہ الفاظ ہی حالات نے پھیکے پھیکے کر دئیے ہیں ۔ آزادی کے 61 سال بعد بھی ہم پسماندگی اور پریشانی کا شکار کیوں ہیں ؟ اس پر غور کر کے ہمیں اپنی خامیاں دور کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ جتنی جلد یہ خامیاں دور ہوں گی اتنی ہی تیز رفتاری سے ہمارا ملک ترقی کرے گا ۔ الحمدللہ ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے ہمارے مُلک کو ہر قسم کی نعمت سے مالامال کیا ہے لیکن ہموطنوں کی ناسمجھی کی وجہ سے قوم تنزل کا شکار ہے ۔

اندرونِ وطن

سب حقوق کا راگ الاپتے ہیں اور حقوق کے نام پر لمبی لمبی تقاریر اور مباحث بھی کرتے ہیں لیکن دوسروں کا حق غصب کرنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں ۔ سڑک پر اپنی گاڑی میں نکلیں تو دوسری گاڑیوں میں سے اکثریت کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ وہ کسی طرح آپ سے آگے نکل جائیں یا آپ سے پہلے مُڑ جائیں ۔ چوراہے پر بتی ابھی سبز ہو نہیں پاتی کہ لوگ گاڑیاں بھگانے لگتے ہیں ۔ سڑک کے کنارے کھڑے کو کوئی سڑک پار کرنے نہیں دیتا

ہموطنوں کی اکثریت کو ہر چیز غیرملکی پسند ہے ۔ اپنے وطن کی بنی عمدہ چیز کو وہ حقیر جانتے ہیں اور دساور کی بنی گھٹیا چیز کو عمدہ سمجھ کر خریدتے ہیں ۔ کئی بار میرے مشاہدے میں آیا ہے کہ کوئی صاحب دساور کی بنی چیز زیادہ دام دے کر خرید لائے اور بعد میں پتہ چلا کہ وہ پاکستان کی بنی ہوئی ہے اور کم قیمت پر ملتی ہے ۔ مقامی دکاندار جب گاہکوں کی نفسیات تبدیل کرنے میں ناکام رہے تو انہوں نے مال پر فرانس ۔ جرمنی ۔ جاپان یا چین کا بنا ہوا لکھوانا شروع کر دیا ۔ میں اور دفتر کا ساتھی بازار کچھ خرید کرنے گئے وہاں ایک چیز پر چینی یا جاپانی زبان میں کچھ لکھا تھا ۔ اتفاق سے قریبی دکان سے دو جاپانی کچھ خرید رہے تھے ۔ میرا ساتھی وہ چیز لے کر ان کے پاس گیا اور پوچھا کہ کیا یہ جاپان کا بنا ہوا ہے تو وہ مسکرا کر کہنے لگے کہ یہ لکھا ہے پاکستان کا بنا ہوا

ملبہ یا کُوڑا کرکٹ بنائی گئی جگہ کی بجائے اپنے گھر کے قریب جہاں بھی خالی پلاٹ یا جگہ ہو وہاں انبار لگا دینا اپنی خُوبی سمجھا جاتا ہے ۔ قومی یا دوسروں کی املاک کو نقصان پہنچانا شاید بہادری سمجھا جاتا ہے اور بجلی کی چوری کئی ہموطنوں کی فطرت ہے اور وہ اسے اپنی عقلمندی یا چابکدستی سمجھتے ہیں ۔ دکاندار مال کا عیب گاہک کی نظروں سے اوجھل کر کے عیب دار مال بیچتے ہیں

میرے ہموطن ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں پاکستان میں کیا رکھا ہے ؟ یا کہہ دیں گے یہ بھی کوئی ملک ہے ۔ اپنے ہموطنوں کے متعلق کہیں گے کہ سب چور ہیں ۔ اس وقت وہ بھول جاتے ہیں کہ وہ اپنے آپکو بھی چور کہہ رہے ہیں

بیرونِ وطن

بیرونِ وطن ہموطنوں کی اکثریت بھی پاکستان اور پاکستانیوں کو نیچا دِکھانے پر تُلے رہتے ہیں ۔ گو اپنا یہ حال کہ عمر برطانیہ میں گذاری مگر صحیح انگریزی بولنا اور لکھنا نہ سیکھا ۔ سعودی عرب میں بیس پچیس سال رہے اور قرآن شریف صحیح طور پڑھنا نہیں آتا ۔

ایک صاحب جو برطانوی شہری ہیں پاکستان آئے ۔ ایک پتلون مجھے دکھا کر کہنے لگے “یہ میں نے لندن سے خریدی ہے ۔ ایسی اچھی کوئی پاکستان میں بنا سکتا ہے ؟” میں نے پتلون پکڑ کر دیکھی تو خیال آیا کہ یہ کپڑا تو وطنِ عزیز میں ملتا ہے ۔ میں نے پتلون بنانے والی کمپنی کا نام ڈھونڈنا شروع کیا ۔ پتلون کے اندر کی طرف ایک لیبل نظر آیا جس پر انگریزی میں لکھا تھا “پاکستان کی بنی ہوئی”۔

کچھ سالوں سے ایک نیا موضوع مل گیا ۔ “پاکستان خطرناک مُلک ہے ۔ وہاں روزانہ دھماکے ہوتے ہیں ۔ جان کو ہر وقت خطرہ رہتا ہے”۔ جس کو دیکھو وہ ہر باعمل مسلمان کو دہشتگرد قرار دے رہا ہے ۔

میں پاکستان سے باہر درجن بھر ملکوں میں گیا ہوں اور آٹھ دس دوسری قوموں سے میرا واسطہ رہا ہے ۔ میں نے کسی کے منہ سے اپنے ملک یا قوم کے خلاف ایک لفظ نہیں سُنا لیکن جس ملک میں بھی میں گیا وہاں کے پاکستانی یا جن کے والدین پاکستانی تھے کو پاکستان اور پاکستانیوں کے خلاف وہاں کے مقامی لوگوں کے سامنے باتیں کرتے سنا ۔

کاش ہموطن ایک قوم بن جائیں اور ہم صحیح طور سے یومِ پاکستان منا سکیں