تعلیم ۔ انگریزی اور ترقی پر نظرِ ثانی

میں نے پچھلے سال 16 مئی کو “تعلیم ۔ انگریزی اور ترقی” پر لکھا تھا جسے القمر آن لائین پر اسی ہفتہ دوہرایا گیا ۔ اس پر ایک ہماجہتی تبصرہ کی وجہ سے یہ تحریر ضروری سمجھی ۔

اعتراض کیا گیا ” آپ نے اپنے اردو کے مضمون میں بے شمار خود بھی انگریزی کے الفاط استعمال کئے ہیں ۔جیسے میڈیکل کالج ۔ ریٹائرڈ ۔ جرنیل ۔ میڈیم ۔ جرمنی ۔ فرانس ۔ جاپان ۔ کوریا ۔ سکول ۔ ٹیسٹ وغیرہ وغیرہ آپ جانتے ہیں یہ سب انگلش الفاظ ہیں ۔ جاپانی اپنی زبان میں جاپان نہیں کہتا؟

میں بھی اسی معاشرہ کا ایک فرد ہوں ۔ ساری زندگی معاشرہ کی جابر موجوں کے خلاف لڑتا قریب قریب تھک گیا ہوں اور اُردو میں انگریزی لکھنا میری مجبوری بن گیا ہے کیونکہ صحیح اُردو لکھوں تو اُردو بولنے والے قارئین کی اکثریت منہ کھولے رہ جاتی ہے اور مجھے برقیے آنے شروع ہو جاتے ہیں کہ “اُردو سمجھ میں نہیں آئی”۔

بہر کیف متذکرہ الفاظ میں چار ممالک کے نام ہیں جو ہند و پاکستان میں ایسے ہی بولے جاتے ہیں ۔ میڈیکل کالج ۔ کُلیہ طِبی ۔ ۔ ریٹائرڈ۔ سُبک دوش ۔ ۔ جرنیل۔ سالار ۔ ۔ میڈیم ۔ وسیلہ یا ذریعہ ۔ ۔ سکول ۔ مدرسہ ۔ ۔ ٹیسٹ ۔ پرَکھ یا کَسوَٹی یا امتحان یا معیار یا تمیز ۔ ۔ ممالک کے نام یہ ہیں ۔ جرمنی ۔ المانیہ ۔ ۔ جاپان ۔ نپوں ۔

سوال کیا گیا کہ ٹیلی ویذن۔ ریڈیو۔گلاس ۔کمپیوٹر ۔ ریل ۔ بس ۔ وغیرہ وغیرہ کی اردو کرکے تو بتائیں کہ ہم ان کی جگہ کون سے الفاظ استمعال کریں ؟ پھر سائینس ۔ میڈیکل ۔ ٹیکنکل ۔ انجنئیرنگ کی دنیا الگ پڑی ہے وہاں کون کون سے الفاظ لگائیں گے ؟”

پہلی بات تو یہ ہے کہ میں مترجم نہیں ہوں ۔ دوسری یہ کہ اعتراض کرنے والے کو پہلے متعلقہ مخزن الکُتب یعنی لائبریری سے رجوع کرنے کے بعد ایسے سوال کرنا چاہیئں ۔ خیر میرے جیسا دو جماعت پاس بھی جانتا ہے کہ ریڈیو کا ترجمہ مذیاع ہے ۔ بس کا ترجمہ رکاب ۔ گلاس کی اُردو شیشہ ہے ۔ پانی پینے والا برتن جسے گلاس کہا جاتا ہے اس کا نام آب خورہ ہے ۔ گلاس انگریزی کا لفظ نہیں تھا ۔ یہ المانی لفظ تھا جو کہ انگریزی میں گلِیس تھا لیکن اس کا مطلب شیشہ ہے ۔ جب شیشے کے آب خورے بننے لگے تو فلاں مشروب کا گلاس یا فلاں مشروب کا گلاس انگریزی میں مستعمل ہوئے کیونکہ مختلف قسم کی شرابوں کے آب خوروں کی شکل مختلف تھی ۔ بعد میں ابتدائیے غائب ہو گئے اور صرف گلاس رہ گیا ۔ اسی طرح کئی لوگ اُردو میں شیشے کی بنی چیز کو شیشہ یا شیشی کہتے ہیں ۔

ٹیکنیکل سے کیا مراد لی گئی ہے یہ میری سمجھ میں نہیں آیا ۔ ٹیکنیکل جس کا اُردو فنّی ہے کوئی بھی چیز ہو سکتی ہے ۔ سائنسی علوم جن میں طِب یعنی میڈیکل اور ہندسہ یعنی انجنیئرنگ بھی شامل ہیں پاکستان میں کم از کم دسویں جماعت تک اُردو میں پڑھائے جاتے رہے ہیں اور میڈیکل اور انجنیئرنگ کو چھوڑ کر باقی تمام مضامین گریجوئیشن تک اُردو میں پڑھائے جاتے رہے ہیں ۔ اب پاکستان کے ایک شہر اسلام آباد میں ایک اُردو یونیورسٹی ہے اور ہندوستان کے شہر حیدرآباد میں عرصہ دراز سے ایک اُردو یونیورسٹی ہے ۔ ان یونیورسٹیوں میں تمام مضامین اُردو میں پڑھائے جاتے ہیں ۔

لکھا گیا کہ “اُردو زبان مکمل زبان نہیں اس میں انگریزی اردو فارسی ہندی عربی وغیرہ وغیرہ زبانیں شامل ہیں “۔

پہلی بات یہ کہ اُردو زبان کی ابتداء براہمی عربی اور فارسی کے آمیزے سے ہوئی تھی ۔ بعد میں تُرکی شامل ہوئی جس کے بہت استعمال ہونے والے الفاظ پلاؤ ۔ کباب اور سیخ ہیں ۔ اُردو میں انگریزی کا بیجا استعمال احساسِ کمتری کے نتیجہ میں ہوا ۔ ہندی کوئی زبان نہیں ہے ۔ اُردو کو ہی ہندی کہا جاتا تھا کیونکہ یہ ہند کی زبان تھی ۔ جب ہند کے مسلمانوں نے الگ وطن کا نعرہ لگایا تو کٹّر ہندوؤں نے ردِ عمل کے طور پر اُردو کو سنسکرت رسم الخط میں لکھنا شروع کیا ۔ پاکستان بننے کے بعد اس میں سنسکرت کے الفاظ بھی شامل کئے گئے اور بہت سے اُردو الفاظ کا حُلیہ بگاڑ دیا گیا ۔

اُردو سیکھے بغیر اُردو کو نامکمل کہنا مُستحسن نہیں ۔ اُردو کم از کم انگریزی سے زیادہ وسیع اور جامع ہے ۔ میں اُردو میں روزمرّہ مستعمل کچھ الفاظ اور افعال درج کرتا ہوں ۔ ان کا مُنفرد انگریزی ترجمہ ڈھونڈنے سے احساس ہو جاتا ہے کہ انگریزی وسیع ہے یا کہ اُردو ۔

تُو ۔ تُم ۔ آپ ۔ جناب ۔ جنابعالی ۔ حضور ۔ حضورِ والا ۔ دام اقبال ۔ روح پرور ۔ روح افزاء ۔ روح قبض ۔ روح دِق ۔ روح فرسا ۔ سوہانِ روح ۔ طالبِ خیریت بخیریت ۔ الداعی الخیر ۔ مُتمنّی ۔ آؤ ۔ آئیے ۔ تشریف لایئے ۔ قدم رنجہ فرمائیے ۔ خیر ۔ احسان ۔ احسانمند ۔ شکر گذار ۔ متشکّر ۔ ممنون ۔ لیٹ جاؤ ۔ لیٹ جائیے ۔ دراز ہو لیجئے ۔ استراحت فرما لیجئے ۔ کھاتا ہے ۔ کھاتی ہے ۔ کھاتے ہیں ۔ کھاتی ہیں ۔ کھاتے ہو ۔ کھا تا ہوں ۔ کھاتی ہوں ۔ کھاؤ ۔ کھائیے ۔ تناول فرمائیے ۔

دنیا میں سب سے زیادہ لوگ چینی بولتے ہیں ۔ اس سے کم لوگ عربی بولتے ہیں ۔ اس سے کم انگریزی ۔ اس سے کم ہسپانوی اور اس سے کم اُردو بولنے والے ہیں ۔ باقی زبانیں ان کے بعد آتی ہیں ۔

یہ استدلال درست نہیں ہے کہ “دنیا کے کمپیوٹر کسی بھی زبان میں ہوں مگر ان کے نیچے انگلش زبان ہی کی پروگرامنگ ہوتی ہے”۔

کمپیوٹر کی بُنیادی زبان کے حروف ایک قدیم زبان لاطینی سے لئے گئے ہیں جو بڑے سے بڑے انگریزی دان کو بھی سمجھ نہیں آئیں گے ۔ صرف اُسے سمجھ آئے گی جو اس زبان کا ماہر ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جرمنی میں آئین کہا جاتا ہے جلا ہوا یا انگریزی کے آن کو اور آؤس کہا جاتا ہے بجھا ہوا یا انگریزی کا آف ۔ آئین کا نشان یعنی سِمبل ہے جرمن یا انگریزی کا آئی اور آؤس کا نشان ہے اَو ۔ کمپیوٹر صرف یہ دو حرف سمجھتا ہے ۔ باقی جو کچھ لکھا جاتا ہے وہ وسیلہ ہیں ۔

یہ کسی حد تک صحیح قرار دیا جا سکتا ہے کہ وسیلہ انگریزی کو بنایا گیا ہے ۔ وجہ عیاں ہے کہ پچھلی ایک صدی سے انگریزی بولنے والوں کا راج ہے ۔ یہاں عرض کرتا چلوں کہ ایلوگرتھم جس کا اصل نام کُلیہ خوارزم ہے کمپیوٹر کا پیش رو تھا اور اس سے قبل موتی تختہ جسے آجکل ابیکَس کہتے ہیں بھی کمپوٹر کی بنیاد ہے ۔ کمپیوٹر المانیہ کے مہندسین یعنی جرمن انجنیئرز کی کاوش کا نتیجہ ہے ۔ ایلوگرتھم مسلمان ریاضی دان یعنی مَیتھے مَیٹِیشِیئن کی دریافت ہے جو کہ خوارزم کے رہنے والے محمد بن موسٰی الخوارزمی (وفات 840ء) تھے اور ابیکِس اصحابِ شینا یعنی چینیوں کی دریافت ہے ۔

دلیل پیش کی گئی “پاکستان میں نہ تو ہماری زبان مکمل اور نہ ہی ہم نے سائنس اور ریسرچ پر توجہ دی ۔ معمولی اسپرین بنانے کےلئے ہم یورپ کے محتاج ہیں ۔اب ہم کس زبان میں اپنے فارمولے یا کلیئے استمعال کریں ۔ہم سب مل کر صرف ایک خالص اردو کا مضمون نہیں لکھ سکتے” ۔

اگر میں یا دوسرے پاکستانیوں نے قوم کیلئے حتی کہ اپنی زبان کیلئے کچھ نہیں کیا تو اس میں اُردو زبان کا کیا قصور ہے ؟ اگر ہم خالص اُردو میں ایک مضمون نہیں لکھ سکتے تو کیا یہ اُردو کا قصور ہے یا کہ ہماری نا اہلی ؟

یہ خیال بھی غلط ہے کہ پاکستانیوں نے سائنسی تحقیق نہیں کی اور کچھ تخلیق نہیں کیا ۔ نظریں غیروں سے ہٹا کر اپنے ہموطنوں پر ڈالی جائیں تو بہت کچھ نظر آ جائے گا ۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسی تحقیق اور تخلیقات کرنے والوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا گیا ۔ ایسے بہت سے محسنِ ملت میں سے صرف کچھ زندوں میں چوٹی کے میٹالرجیکل انجیئر “ڈاکٹر عبدالقدیر خان” اور گذر جانے والوں میں چوٹی کے ریاضی دان پروفیسر عبدالرحمٰن ناصر اور مکینیکل انجنیئر پروفیسر سلطان حسین ۔ جن کے ساتھ جو کچھ کیا گیا نامعلوم پوری قوم مل کر بھی اس کا کوئی کفّارہ ادا کر سکتی ہے یا نہیں ۔ جو کچھ باقی پاکستانیوں نے کیا اس کی تفصیل میں جاؤں تو کئی دن صرف لکھنے میں لگیں گے ۔

سوال کیا گیا کہ “ہم کس زبان میں اپنے کُلیئے استعمال کریں ؟”

تین دہائیاں قبل مقتدرہ قومی زبان کے نام سے ایک ادارہ بنایا گیا تھا جس کا کام مفید علوم جو دوسری زبانوں بالخصوص انگریزی میں موجود ہیں اُن کا ترجمہ کرنا تھا جو کام اس ادارہ نے خوش اسلوبی سے شروع بھی کر دیا تھا لیکن 1988 میں اس ادارہ کو غیر فعال کر دیا گیا ۔ اُردو میں ترجمہ بہت مشکل نہیں ہے ۔ اللہ کی مہربانی سے عربی اور فارسی میں اکثر تراجم موجود ہیں جہاں سے ایسے الفاظ آسانی سے اپنائے جا سکتے ہیں جن کا اُردو میں ترجمہ نہ ہو سکے ۔

سوال کیا گیا کہ ” آخر انگلش سیکھنے میں نقصان ہی کیا ہے ؟”

میں انگریزی یا المانی یا شینائی یا دوسری زبانیں سیکھنے کا مخالف نہیں اور نہ ہی میں نے اس قسم کا کوئی تاثر اپنی متذکرہ تحریر میں دیا بلکہ میں زیادہ سے زیادہ زبانیں سیکھنے کا حامی ہوں ۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ جو لوگ اپنی زبان اور اپنے مُلک کیلئے کچھ نہیں کر سکے اُنہیں اپنی زبان اور اپنے مُلک کو بُرا یا ادھورہ کہنا زیب نہیں دیتا ۔

This entry was posted in تاریخ, تجزیہ, روز و شب, معاشرہ on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

22 thoughts on “تعلیم ۔ انگریزی اور ترقی پر نظرِ ثانی

  1. محمد شاکر عزیز

    مسئلہ یہ ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کی زبان انگریزی ہے۔ لوگ تعلیم حاصل کرنے کے لیے اسے سیکھتے ہیں پھر انگریزی کے الفاظ ان کی روزمرہ کا حصہ بن جاتے ہیں۔ زبان کو بچانے کے لیے منظم کوششیں نہ ہوں تو کچھ نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے ایک مقتدر ادارہ ہونا چاہیے جو ترجمہ کرے، زبان کے فروغ کا انتظام کرے تب ہی اردو کو اردو بنایا جاسکتا ہے ورنہ یہی حال ہوتا رہے گا۔

  2. اظہرالحق

    انکل جی بہت اچھا لکھا ہے ، اور بہت ہی زیادہ سچا لکھا ہے شاید کچھ لوگوں کو یہ آسانی سے ہضم نہ ہو ، میں چونکہ کمپیوٹر فیلڈ سے ہوں اسلئے ، میں اپنا ایک تجربہ بیان کرتا چلوں ، 1992-1993 میں ، میں نے ایک سافٹ وئیر اردو میں بنایا تھا جس میں اردو مبتہ کو استعمال کر کے اردو کا ایک دفتر (ڈیٹا بیس) بنایا تھا جسے ایک انعام بھی ملا تھا اور اخبارات میں انٹرویو بھی آئے تھے ، مگر جب اسے کمپیوٹر کے “ناخداؤں” کے سامنے پیش کیا تو کہا گیا کہ اردو تو اب مرتی ہوئی زبان ہے ۔ ۔ ۔ اس میں کام کا کوئی فائدہ نہیں ۔ ۔ ۔ مگر میں نے کہا تھا کہ ایک دن یہ ہی زبان ترقی کی زبان ہو گی اور کمپیوٹر پر بھی لکھی پڑھی جائے گی ۔ ۔ تو سب لوگوں نے اسے دیوانے کا خواب کہا تھا ۔ ۔ ۔ مگر آج ۔ ۔ یہ حقیقت ہے ۔ ۔ اردو ۔ ۔ اپنا آپ منوا رہی ہے ۔ ۔ بہت کچھ کہا جا سکتا ہے مگر ۔ ۔ ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ

    اردو ہے جسکا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
    سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے

  3. اجمل Post author

    محمد شاکر عزیز صاحب
    جیسا کہ میں نے لکھا ہے ادارہ مقتدرہ قومی زبان کے نام سے موجود ہے ۔ اس کا صدر دفتر اسلام آباد کے سیکٹر ایچ 8 ۔ 4 میں پطرس بخاری روڈ پر واقع ہے ۔ اس کے موجودہ سربراہ فتح محمد ملک صاحب ہیں ۔ ای میل پتہ اور ویب سائٹ درج ذیل ہیں
    niapak@apollo.net.pk
    http://www.nla.gov.pk

  4. اجمل Post author

    اظہرالحق صاحب
    آپ نے بالکل درست کہا ہے ۔ اسے نیم انسانی معاشرے کی خُو یہی ہے ۔ اللہ ہم پر رحم فرمائے اور سیدھی راہ دکھائے

  5. میرا پاکستان

    دراصل جب حکمران ہی انگریزی کو اردو پر ترجیح دینے لگیں‌تو پھر اردو کو یتیم ہونے میں‌زیادہ دیر نہیں‌لگے گی۔ دراصل انگریزی کو عام کرنا غیرملکی طاقتوں کی ایک چال ہے جس کی بنا پر وہ باقی دنیا کو اپنے رنگ میں‌رنگنے کی کوشش کررہے ہیں۔

  6. زیک

    شینا؟

    اردو ترکی، عربی اور فارسی کا مرکب نہیں ہے البتہ ان کے بہت سے الفاط اردو میں شامل ہیں۔ فارسی سے اردو کچھ حد تک متاثر ہے۔ ویسے اردو برِ صغیر کی زبان ہے اور اس کی گرامر وغیرہ ان دوسری زبانوں سے کافی مختلف ہیں۔

    اردو زبان ختم ہونے کے بالکل قریب نہیں ہے کہ ابھی بھی اردو بولنے اور لکھنے والے بہت لوگ ہیں۔ ہاں اردو میں تبدیلیاں ضرور آ رہی ہیں کہ زندہ زبانیں وقت کے ساتھ بدلتی رہتی ہیں۔

    ان میں وہ تبدیلیاں بھی ہیں جو لوگ انگریزی کے عجیب و غریب تڑکے اردو میں لگا رہے ہیں اور ان میں وہ خالص اردوعربی‌دان بھی ہیں جو اردو میں عجیب اور مشکل فارسی اور عربی شامل کرنے کے درپے ہیں۔ اس دوسری قسم کی مثالیں آپ اردو وکیپیڈیا پر دیکھ سکتے ہیں۔

    المانیہ؟ جرمنی کا یہ نام تو شاید لاطینی زبانوں میں ہے۔

  7. راشد کامران

    اجمل صاحب میری ناقص رائے میں‌تو اگر کوئی اس بات پر اعتراض کرے کے آپ نے اپنے مضمون میں انگریزی کے الفاظ کیوں استعمال کیے ہیں‌تو شاید لوگ اس بات کو فراموش کردیتے ہیں‌کے یہ بھی اردو کا اعجاز ہے کے کئی زبانوں‌کے الفاظ نہ صرف یہ کے استعمال ہوجاتے ہیں بلکہ انہیں بولنے میں بھی کوئی دشواری نہیں ہوتی۔۔۔ ویسے بھی مضمون اکثریت کی سمجھ کی خاطر لکھے جاتے ہیں نہ کے قصہ چہار درویش سنانے کے لیے ۔ آپ کے مضامین کی اردو تو بہت مناسب ہے۔۔ اور یہی جدید اردو ہے۔ انگریزی کا میگزین بھی تو عربی کے ماخذین سے آیا ہے تو کیا خالص انگریزی میں میگزین کا استعمال نہیں ہوگا؟‌

  8. ابوشامل

    موضوع تو آپ کا کا خوب ہے لیکن جو بات واضح ہو کر سامنے آ رہی ہے وہ صرف یہ ہے کہ جب تک سرکاری سطح پر اردو کی اصطلاحات ترتیب دے کر انہیں رواج نہیں دیا جائے گا یا اس حوالے سے میڈیا کو اردو اصطلاحات کا پابند بنانے کے لیے سرکاری احکامات جاری نہیں ہوں گے تب تک اردو ایک عام شخص کی زبان نہیں بن سکتی۔ اب آپ یہیں دیکھ لیجیے، جو لوگ مخلصانہ کوششیں کر رہے ہیں انہیں بھی طنز کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ حضور اردو وکیپیڈیا کو دیکھ لیجیے وہاں کس طرح کی اردو استعمال ہو رہی ہے، کیا بہتر یہ نہیں کہ وہاں آ کر دلائل کے ذریعے اردو کی بہتری کے لیے کام کیا جائے؟۔ بہرحال ساتھ ساتھ خوشی اس امر کی بھی ہے کہ اردو کم از کم کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی سطح پر حقیقی دنیا سے بہت آگے ہے۔

  9. اجمل Post author

    افضل صاحب
    اگر عوام کی اکثریت مطلب پرست یا کوتاہ اندیش نہ ہو تو حکمران خراب نہیں ہو سکتے ۔ جہاں تک مغربی دنیا کا معاملہ ہے وہ تو اس کوشش میں بھی ہیں کہ نعوذ باللہ خالق و مالکِ دنیا بھی اُن کی مرضی کا ہو ۔

    زکریا بیٹے
    شینا ۔ کوئی عجیب لفظ نہیں ہے ۔ انگریزوں کا دنیا پر راج ہونے سے قبل یہی نام لیا جاتا تھا ۔ اب کسی نہ کسی پرانی کےاب میں لکھا مل جائے گا اگر انگریزی بولنے والوں نے اُس کی ترمیم نہیں کر دی ۔ جن لوگوں نے بیجنگ کو پیکنگ ۔ ہند کو انڈیا ۔ المانیہ کو جرمنی ۔ نیدرلاند کو ہالینڈ ۔ ہسپانیہ کو سپین ۔ جبل الطارق کو جبرالٹر ۔ چاء کو پہلے ٹاؤ ۔ پھر ۔ ٹی ۔ مصر کو ایجپٹ بنا دیا ۔ کیا وہ اتنے ہی قابل اور ذہین ہے جو اُن کی ہر بات مانی جائے؟
    یہ درست ہے کہ اردو صرف ترکی ۔ عربی اور فارسی کا مرکب نہیں ہے البتہ ان کے بہت سے الفاظ اردو میں شامل ہیں ۔ میں نے تو آویز صاحب کے جملے کا جواب لکھا تھا ۔ کسی زبان کادوسری زبانوں میں سے مناسب الفاظ کا جذب کرنا خوبی گنا جاتا ہے لیکن جس طرح سے کچھ لوگ انگریزی کو اُردو میں گھسی رہے ہیں یہ بڑھائی نہیں بلکہ احساسِ کمتری کا نتیجہ ہے ۔ اپنی زبان کو رد کرنا اگر بے غیرتی نہیں تو نااہلی ضرور ہے ۔
    بنیادی طور پر جرمنی کا نام المانیہ ہی ہے جو کہ لاطینی زبان کا لفظ ہے اور بیسویں صدی کے شروع تک ساری دنیا میں رائج رہا ۔

    بوجوہ وکی پیڈیا کو میں مستند اور آزاد ویب سائیٹ نہیں سمجھتا ۔

    راشد کامران صاحب
    آپ کا خیال درست ہے ۔ حوصلہ افزائی کا شکریہ

    ابو شامل صاحب
    آپ کا خیال درست ہے ۔ ہر ملک میں اپنا جھنڈا ۔ اپنی ثقافت اور زبان بہت اہم سمجھے جاتے ہیں اور ان پر خاص توجہ دی جاتی ہے ۔ بدقسمتی میں ان تینوں کی مٹی پلید ہے اور وجہ صرف احساسِ کمتری ہے ۔ اگر پڑھے لکھے اُردو بولنے والے ہی اس طرف خلوصِ نیت سے توجہ دیں تو حکومت کو سرپرستی پر مجبور کیا جا سکتا ہے ۔ جج صاحبان کے معاملہ میں وکلاء کی تحریک ایک عمدہ مثال ہے ۔
    عجب بات تو یہی ہے کہ اعتراض کرنے والے صاحب کو اُردو کی وسعت کا علم ہی نہیں ۔

  10. زیک

    مگر شینا جینی زبان کا لفظ نہیں ہے۔ نہ ہی المانیہ جرمن کا۔ ہسپانیہ بھی لاطنیی زبان میں کہتے ہیں نہ کہ سپینش میں۔ ملکوں اور علاقوں کے نام مختلف زبانوں میں مختلف ہوتے ہیں۔ عربی میں پاکستان نہیں باکستان ہوتا ہے۔ ضروری نہیں کہ ہم عربی یا انگریزی یا لاطینی ہی کے نام اپنائیں۔

  11. اجمل Post author

    زکریا بیٹے
    جس زبان کے بھی یہ لفظ ہیں بیسویں صدی کے اوائل تک یہ بُلائے جاتے رہے ہیں ۔ دو صدیاں پہلے مختلف زبانوں میں ناموں میں تلفظ کے لحاظ سے فرق ہو جاتا تھا لیکن بنیادی طور پر نام وہی رہتے تھے ۔ تلفظ تبدیل ہونے کی وجہ عام طور پر وہ حرف یا آواز متعلقہ زبان میں موجود نہ ہونا ہوتی ۔ انگریزوں نے فتوحات کے بعد نام بدلنے کی رسم ڈالی ۔

  12. شاہدہ اکرم

    محترم اجمل انکل جی
    السلامُ عليکُم
    اُمّيد ہے آپ بخيرہوں گے،ہميشہ کی طرح بہترين بلاگ ہے انکل ، زبان ہمارے لۓ ايک مُقدس چيز کی طرح ہوتی ہے بالکُل اُسی طرح جيسے اپنے مُلک کے لۓ ہم پيار کے جزبات رکھتے ہيں اسی طرح کی مُحبت ہميں اپنی زبان سے بھی ہوتی ہے ليکن جس طرح ايک حديث ہے کہ „علم حاصل کرو خواہ اُس کے لۓ چين بھی جانا پڑے„ تو ظاہر ہے چين جائيں گے تو اپنی زبان کے ساتھ اُن کی زبان بھی سيکھنا ہوگی ايسے ميں کُچھ نا کُچھ الفاظ تو مُشترک ہو ہی جائيں گے ويسے بھی اُردُو کو ايک لشکری زبان يُونہی تو نہيں کہا گيا گو ميری معلُومات آپ سب محترمين کے مُقابلے ميں انتہائ کم اور ناقص ہيں ليکن بالکُل اُسی طرح جيسے مُختلف مُمالک ميں ساتھ رہنے والوں کے رہن سہن يا عادات و اطوار ميں مُماثلت ہو جاتی ہے توزبانوں ميں الفاظ کی شمُوليت ايک عام بات ہوگی ليکن جہاں تک انگلش سيکھنے يا انگلش کے الفاظ کي ہماری زبان ميں شامل ہونے کی بات ہے تو واقعی انکل جيسا کہ آپ نے لکھا اکثر کئ ايسے الفاظ ہوتے ہيں جن کا مُتبادل جب اُردُو ميں بتاياجاتا ہے تو سامنے والا پريشان ہوجاتا ہے ليکن اس ميں دوش انگلش کا تو نا ہُوا اب ديکھيں دوش بھی تو شايد ہماری زبان کا لفظ نہيں ہے بہر حال آپ جس طرح زبان کے لۓ اور ہمارے جيسے لوگوں کی سمجھ کے لۓ کام کر رہے ہيں اُس پر دُعاگو ہُوں کہ اللہ تعاليٰ آپ کو جزاۓ خير دے اور صحت اور تندرُستي والي طويل زندگي عطا کرے،آمين
    اپنا خيال رکھيۓ گا
    خير انديش
    شاہدہ اکرم

  13. اجمل Post author

    شاہدہ اکرم صاحبہ ۔ السلام علیکم
    وہ الفاظ جو زبان میں موجود نہ ہوں انہیں زبان میں جذب کرنا اچھی بات ہے لیکن اردو میں موجود الفاط کی جگہ دوسری زبان کے الفاظ بولنا مناسب نہیں ۔

  14. Pingback: اردو اور ترقی | اُردوجہاں

  15. حیدرآبادی

    السلام علیکم! معذرت کہ کافی دیر سے تبصرہ کر رہا ہوں۔ اردو میں‌ انگریزی متبادل الفاظ کی شمولیت کا یہ مسئلہ ابھی پچھلے دنوں (ہندوستانی) حکومت کے قائم کردہ سرکاری تعلیمی ادارے کے ایک حکم پر اردو اخبارات میں خوب زور و شور سے اچھالا گیا ہے۔ اردو کے بہت سارے تکنیکی الفاظ کو انگریزی میں کر دینے کا اعلان کیا تھا اس ادارے نے۔ مثلاً ” آلۂ حرارت” کو تھرمامیٹر وغیرہ وغیرہ۔
    یہ حقیقت بھی ہے کہ وہ اردو جو ہم نے ستر کی دہائی میں اپنے بزرگوں سے سنی تھی وہ آج سننے میں نہیں آتی۔ بہت سے الفاظ کھو گئے ہیں اور بہت سے نئے شامل ہوئے ہیں۔ ہم جب کالج میں پڑھتے تھے تو صرف ایک لفظ سے مفہوم ادا کر لیتے تھے ، یعنی ‫:
    کیا اسٹائل ہے یار ‫!
    ہمارے والد صاحب نے بلا کر سمجھایا تھا کہ اردو میں بولا کرو اور پھر اسی ایک لفظ “اسٹائل” کے اتنے اردو مترادف سمجھائے مثلاً : انداز ، طریقہ ، طرز ، رنگ ، رہن سہن ، شان ، اسلوب ، نمونہ ، قسم ۔۔۔۔ اور پھر یہ الفاظ جس جس جملے میں مختلف طریقے سے استعمال ہوتے ہیں ، ان کے بارے میں بھی تفصیل سے بتایا۔
    فلم “مغل اعظم” دیکھئے گا ، اس میں جو اردو استعمال ہوئی ہے آج اس کو “آثار قدیمہ” سمجھا جاتا ہے اور سنا ہے کہ اس پر کوئی طالب علم پی۔ایچ۔ڈی کا تھیسس لکھ رہا ہے۔

    میرے خیال میں یہ مسئلہ صرف اردو کا نہیں ، ہر زبان کا ہے۔ کلج کے دنوں میں تو خود ہمیں انگریزی میں شیکسپئر کو پڑھنے میں دقت اس لئے بھی ہوتی تھی کہ اس وقت کی جو اخباری انگریزی کے ہم واقفکار تھے ، وہ انگریزی ملٹن اور شیکسپئر کو سمجھنے میں کام نہیں آتی تھی۔ بالکل یہی مسئلہ ہندی زبان میں بھی محسوس کیا جا رہا ہے۔

  16. افضال احمد

    اردو ہماری قومی زبان ہے۔کہا جاتا ہے کہ زبان کی ترقی معاشرے اور قوم کی ترقی ہوتی ہے اور یہ ایک پیمانہ ہے جس سے قومی ترقی کی پیمائش کی جا سکتی ہے جتنی کسی قوم کی زبان ترقی یافتہ ہو گی اْتنی ہی وہ قوم بھی ترقی یافتہ ہو گی۔اس کے ساتھ ساتھ ساری دنیا کے ماہرین تعلیم اس بات پر متفق ہیں کہ مؤثر تدریس صرف مادری زبان ہی میں ممکن ہے۔لیکن ان ارباب اختیار کا کیا کریں جو انگریزی کی زْلفوں کے اسیر ہیں اور انگریزی کو ناگزیر سمجھتے ہیں۔انگریزوں کی تو یہ ضرورت تھی کیونکہ انہیں عوام اور حکمران کے درمیان ایک فاصلہ رکھنا تھا کیا اب بھی ہمارے حکمران طبقہ کی یہی ضرورت ہے؟ قیام پاکستان کے وقت اردو کو ہماری قومی زبان قرار دیا گیا تھا لیکن حقیقت یہ ہے اب بھی اردو اپنے دیس میں پردیسن ہے، جس کے بارے میں قائد اعظم نیفرمایا تھا ” اردو آپ کی قومی زبان ہے اور یاد رکھیں اگر اس سلسلے میں کوئی آپ کو گمراہ کرنا چاہے تو وہ آپ کا کھلا دشمن ہے” اردو کے بارے میں 1973ء کے آئین میں قوم سے یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ چند سالوں میں اسے قومی زبان کے طور پر دفتری زبان بنا دیا جائے گا لیکن اس کی بجائے بتدریج انگریزی کا نفاذ ہوتا چلا گیا ، پہلے تدریسی کتب میں اردواصطلاحات کے ساتھ ساتھ انگریزی اصطلاحات داخل کی گئیں لیکن پھراگلے مرحلے میں اردو اصطلاحات کو نکال باہر کیا گیا۔ پھر حال ہی میں سرکاری سکولوں میں انگریزی کے علاوہ ریاضی اور سائنس کو بھی مکمل طور پر انگریزی میں پڑھایا جانے لگا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پہلے پہل انگریزی کو چھٹی جماعت سے پڑھایا جاتا تھا تا کہ طلبہ کے بنیادی تصورات مادری زبان میں تشکیل پا جائیں اور پھر انہیں ثانوی زبان پڑھائی جائے اور پھر زبان کی جو اہمیت تہذیب و ثقافت کے نقطہ ء نظر سے ہے وہ بھی متاثر نہ ہو۔لیکن اب انگریزی زبان پہلی جماعت سے پڑھائی جانے لگی ہے۔ یہ اِسی قومی رویے کا ثمر ہے کہ آج کا پڑھا لکھا نوجوان خالصتاً کسی ایک یعنی انگریز ی یا اردو زبان میں اظہار خیال کے قابل نہیں۔ وہ پہلے اردو میں بات شروع کرتا ہے ، پھر بات کو مؤثر بنانے کے لیے انگریز ی کا سہارا لیتا ہے لیکن جب وہ انگریزی سے بھی اپنا دامن تنگ پاتا ہے تو پھر اردو میں پناہ لیتا ہے الغرض اس میں مافی الضمیر کو بیان کرنے کی وہ صلاحیت ہی نہیں جو حیوان ناطق ہونے کے ناطے سے اس میں ہونی چاہیے۔مجھے بحیثیت زبان انگریزی پڑھانے پر کوئی اعتراض نہیں لیکن یہ ذہن میں رہے کہ کوئی زبان سیکھنا محض زبان سیکھنے تک محدود نہیں رہ سکتا کیونکہ زبان اپنے بولنے والوں کی تہذیب و ثقافت سے سیر شدہ ہوتی ہے اور سیکھنے کے دوران یہ عناصر قدرتی طور پر سیکھنے والوں میں سرایت کرتے چلے جاتے ہیں تو کیا ہم بطور مسلمان اس تہذیب و ثقافت کے متحمل ہو سکتے ہیں جو انگریزی زبان سے وابستہ ہے۔ ہمارے طلبہ پیدا ہونے پر مادری زبان سیکھتے ہیں ، پھر وہ مذہبی شناخت اور عبادت کے لیے عربی سیکھتے ہیں ، پھر انہیں اردو بطور قومی زبان سیکھنا پڑتی ہے ، پھر انہیں بین الاقوامی زبان انگریزی سیکھنا پڑتی ہے ، تو زبانوں کی ان بھوْل بھلیوں میں ان کی تمام صلاحتیں اور توانائیاں صرف ہو کررہ جاتی ہیں اور وہ زبان دانی ہی کو علم سمجھ کر ساری زندگی اسی کی زلفیں سیدھی کرتے رہتے ہیں اور علم کی سرحد میں داخل بھی نہیں ہو پاتے کیونکہ زبان علم حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔بذات خود مقصد نہیں۔ – See more at: http://www.rawalpinditimes.com/urdu-columns/item/2752-article-by-afzal-ahmed#sthash.AI48ct2Z.dpuf

  17. افتخار اجمل بھوپال Post author

    افضال احمد صاحب
    آپ کی تحریر سے یہ تاءثر ملتا ہے کہ آپ قوی قومی جذبہ رکھتے ہیں ۔ کچھ جواب طلب باتیں ہیں اور تفصیلی جواب مانگتی ہیں ۔ ان میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں ۔ آپ اگر اجازت مرحمت فرمائیں تو میں اپنے خیالات اور عِلم کو بطور ایک کھلی تحریر کے شائع کروں تاکہ دوسرے قارئین بھی مستفید ہو سکیں ۔ میں مُلک سے باہر ہوں اسلئے شاید واپسی (28 جولائی) تک ممکن نہ ہو سکے ۔ لکھنے پر میں اِن شآء اللہ بذریہ ای میل آپ کو مطع کر دوں گا
    ان ارباب اختیار کا کیا کریں جو انگریزی کی زْلفوں کے اسیر ہیں اور انگریزی کو ناگزیر سمجھتے ہیں
    اب بھی اردو اپنے دیس میں پردیسن ہے
    اردو کے بارے میں 1973ء کے آئین میں قوم سے یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ چند سالوں میں اسے قومی زبان کے طور پر دفتری زبان بنا دیا جائے گا لیکن اس کی بجائے بتدریج انگریزی کا نفاذ ہوتا چلا گیا ، پہلے تدریسی کتب میں اردواصطلاحات کے ساتھ ساتھ انگریزی اصطلاحات داخل کی گئیں لیکن پھراگلے مرحلے میں اردو اصطلاحات کو نکال باہر کیا گیا۔ پھر حال ہی میں سرکاری سکولوں میں انگریزی کے علاوہ ریاضی اور سائنس کو بھی مکمل طور پر انگریزی میں پڑھایا جانے لگا ہے
    ہمارے طلبہ پیدا ہونے پر مادری زبان سیکھتے ہیں ، پھر وہ مذہبی شناخت اور عبادت کے لیے عربی سیکھتے ہیں ، پھر انہیں اردو بطور قومی زبان سیکھنا پڑتی ہے ، پھر انہیں بین الاقوامی زبان انگریزی سیکھنا پڑتی ہے ، تو زبانوں کی ان بھوْل بھلیوں میں ان کی تمام صلاحتیں اور توانائیاں صرف ہو کررہ جاتی ہیں اور وہ زبان دانی ہی کو علم سمجھ کر ساری زندگی اسی کی زلفیں سیدھی کرتے رہتے ہیں اور علم کی سرحد میں داخل بھی نہیں ہو پاتے
    محترم ۔ میری متذکرہ تحریر شائع ہونے تک میری یکم مئی 2014ء کی تحریر بعنوان ” اُردو زبان کی ابتداء اور ارتقاء:“ اور اس میں دیئے حوالاجات پر نظر ڈال لیجئے گا ۔ ربط یہ ہے
    https://theajmals.com/blog/2014/05/01

  18. Beenai

    جناب افتخاراجمل صا حب،
    السلام وعلیکم،
    آپ کے ہر بلاگ کی طرح زیرَنظر بلاگ(برقی مضمون) بے حد دلچسپ اور معلومات سے بھرپورہے۔
    یہ میرا پسندید ہ موضو ع ہے جس پہ اکثر دوستوں سے گفتگو رہتی ہے۔

    میں آپ کے تمام خیالات سے حر ف حرف متفق ہوں۔۔۔
    میرے مشاہدے میں یہ آیا ہے کہ اردو کو کم تر سمجھنے والے دراصل خود احساس َ کمتری کے مر یض ہیں۔
    غلط انگر یزی بولنا باعث شان ہے مگر صحیح اردو بولنا باعث خفت و ندامت ٹھہرا۔

    لاؤڈ اسپیکر کہنا آسان اور آلہ مکبر الصوت کہنا مشکل لگتا ہے۔
    اردو زبان جتنی زر خیز ہے ، انگریزی اس کا مقا بلہ نہیں کر سکتی۔
    انگریزی کی خوبی محض اتنی ہے کہ اس کے وفادار زیادہ ہیں۔۔۔
    اردو کو اس کے اپنے دھوکہ دے رہے ہیں۔

    غا لب کے کسی لاجواب شعر کا مفہوم انگریزی میں سمجھانے کی کو شش کر لی جائے کبھی اس لاجوابی کا مقابلہ نہیں کر سکے گی جو اصل اردو میں ہے ۔۔۔

    میں نے ایک کتاب میں فارسی اشعار کا اردو اور انگر یزی تر جمہ ساتھ ساتھ لکھا دیکھا۔۔۔
    جس فصا حت کے ساتھ اردو نے فارسی اشعار کا حق تر جمہ ادا کیا۔۔۔انگر یز ی اس کے عشر عشیر کو بھی نہ پہنچ سکی ۔۔۔کئی جگہ سعدی شیرازی اور انگر یزی تر جمہ دو مختلف باتیں کہہ جاتے۔۔۔۔

    القاب و تخاطب میں اردو کا مقابلہ نہیں ۔۔۔میں اپنے سے برابر والے کو تم ،اپنے سے بڑے کو آپ اور اپنے ر ب کو تو کہہ کے مخاطب کر سکتی ہوں ۔۔۔
    انکل کے لئے چچا، پھپھا، ما موں ، تایا اور خا لو کے الفا ظ ہیں تو پھپھی ، چچی ، ممانئ، خالہ اور تائی یا بڑی امی کے تخاطب ہیں۔۔۔انگر یزی ایک ٹکا سا انکل آنٹی دے مارتی ہے ۔۔۔
    انکل آنٹی آپ راہ چلتے کو بھی کہیں اور سگے ما موں خالہ کو بھی ۔۔۔

    صرف آلات کے معا ملے میں انگر یزی زر خیز ہے اور اردو اب تک ان کے متبادل موجود ہونے کے باوجود مستعمل نہیں ہے۔۔۔جیسے ریڈیو، ٹی وی ، لاؤڈ اسپیکر، کمپیوٹر، مائیکرو ویواوون ، مائیکرو چِپ وغیرہ۔

    بندی نے ایک بار یونیورسٹی اسا ئنٹمنٹ کے سلسلے میں جناب جمیل جالبی سے ان کی رہائش گاہ نارتھ ناظم آباد ، بلاک ایچ میں ملاقات کی اور اسی موضوع پر سیر حا صل گفتگو کی۔۔۔

    جمیل جالبی نے کہا۔ کسی زمانے میں پی ٹی نیوز والے جمیل جالبی کو فون کر کے پوچھتے تھے کہ خبر نامے میں ہم پرائیوٹائزیشن کو کیا کہیں؟ جالبی صا حب نے اسے “نج کاری “ کا نام دیا ۔۔۔
    جو آج بھی مستعمل ہے۔۔۔
    بندی نے ایڈورٹائزنگ کی اردو معلوم کی تو جالبی صا حب نے فر ما یا“اشتہار کاری“۔

    یعنی ڈھونڈنے اور بولنے کا تہیہ کر لیا جائے تو انگریزی کے ہر لفظ کا متبادل موجود ہے۔

  19. افتخار اجمل بھوپال Post author

    بینائی صاحبہ ۔ وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ
    حوصلہ افزائی کا شکریہ ۔ کچھ پڑھنے لکھنے کے قابل ہو جانے والوں کی اکثریت احساسِ برتری میں مبتلا ہے جو دراصل احساسِ کمتری ہے ۔ آپ نے ایڈورٹائزنگ کا ترجمہ اشتہار کاری درست لکھا ہے ۔ اسی طرح پروپیگنڈہ کا ترجمہ اشتہار بازی ہے ۔ ایک دلچسپ واقعہ ۔ ہم نے ایک نئی ملازمہ رکھی ۔ اُسے میری بیگم نے کہا ”باورچی خانہ سے فلاں چیز لے آؤ“۔ وہ پریشان کھڑی رہی ۔ چند منٹ بعد بیگم نے پھر کہا تو نحیف آواز میں بولی ”کہاں سے ؟“ بیگم نے کہا ”باورچی خانہ سے ۔ جہاں کام کرتی ہو ۔ کھانا پکاتی ہو“۔ بولی ” کِچن سے“۔ وہ بیچاری کیا کرے ۔ مکمل اَن پڑھ ۔ جہاں پہلے کام کرتی تھی وہ کِچن کہتے ہونگے ۔ اصل میں باورچی خانہ بھی اُس دور میں کہا جانے لگا جب کھانا پکانے کیلئے ملازم رکھنے کا یا ہوٹلوں کا رواج ہوا ۔ اُردو میں اس کا نام ” رَسَوئی“ تھا ۔ سونے کے کمرے کو ”پسار“ کہتے تھے ۔ ایک اور دلچسپ حقیقت ۔ اب بیٹھک کو ڈرائنگ روم کہا جاتا ہے ۔ یہ نام انگریزی میں اُس دور میں مستعمل ہوا جب مصوّری کا رواج عام ہوا تو لوگ تصویریں بنا کر یا خرید کر ایک کمرے میں لگاتے اور جو مہمان آتا اُسے اُس کمرے میں لیجا کر پہلے تصاویر دکھاتے پھر وہیں بٹھاتے تاکہ وہ تعریف کرے ۔ مصوّری کو انگریزی میں ڈرائنگ کہا جاتا تھا اسلئے اس کمرے کا نام ڈرائنگ روم پڑ گیا ۔ مجھے ایک مضحکہ خیز واقعہ یاد آیا ۔ میں انجنئرنگ کالج لاہور میں پڑھتا تھا ۔ قیام ہوسٹل میں تھا ۔ ہوسٹل میں ایک دن انگریزی کی بڑھائی پر ایک لڑکے نے بات کی تو بحث چل پڑی ۔ ایک لڑکا بولا ” کسُن مار کے بُتھاڑ وِچ چِب پا دیاں گا ۔ اس کا انگریزی میں ترجمہ کر دو تو میں ہار مان لوں گا ورنہ تم پھر کبھی اپنا منہ نہ کھولنا“۔ یہ ایک علاقے کی پنجابی تھی جس کی شُستہ اُردو ہو گی ” مُکا مار کے جبڑا توڑ دوں گا “۔

  20. Beenai

    افتخاراجمل صاحب،
    آپ کا جواب بے حد دلچسپ ہے اور ساتھ ہی یہ نئی بات معلوم ہوئی کہ ڈرائنگ روم ، ڈرائنگ روم کیسے بنا؟
    دراصل ہم نے کچھ اردو کے الفاظ کا استعمال کسی ایک حوالے سے کر کے بھی خود اردو کو محدود کر دیا ہے۔
    مثال کے طور پہ میرے بھانجے نے پوچھا۔ خالہ یہ زمین کا انتقا ل کیسے ہوتا ہے؟ کیا زمین مر جاتی ہے ؟
    میں نے اس کو سمجھایا کہ انتقال کامطلب ہے منتقل ہونا ۔۔۔ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا۔
    انسان چونکہ ایک دنیا سے دوسری میں منتقل ہوجاتا ہے اس لئے اسے انتقال کہتے ہیں۔
    مگر وہ نہ سمجھا۔
    کہنے لگا۔ خالہ چاکلیٹ پہلے میرے ہاتھ میں تھی، اب میرے پیٹ میں ہے تو کیا چاکلیٹ کا انتقال ہوگیا؟
    کوئی بتلائے کہ ہم بتلا ئیں کیا؟

  21. افتخار اجمل بھوپال Post author

    بینائی صاحبہ
    فعل نقل کا اسم فائل انتقال اور اسم مفعول منتقل ہے. پٹواری جب زمین ایک مالک سے دوسرے کے نام کرتا ہے تو اسے انتقال کہتے ہیں. آپ نے درست کہا کہ ہم نے الفاظ کو محدود کر دیا ہے. وجہ ہمارا علم دوست نہ ہونا ہے. مسئلہ انگریزی کا لفظ تھیوری ہوتا ہے مگر ہم اسے مشکل کی جگہ استعمال کرتے ہیں. جسے ہم مشکل کہتے ہیں وہ دراصل صعب ہے. دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم لفظ صعوبتیں استعمال کرتے ہیں. وجہ میں نہیں جانتا لیکن بچپن سے میری عادت کھوج لگانے یا بال کی کھال اتارنے کی ہے یعنی جب تک مجھے چیز کا سبب یا منبع معلوم نہ ہو جائے مجھے چین نہیں آتا. سکول اور کالج کے زمانے میں میں ہم خیال لڑکوں کے ساتھ تبادلہ خیال اور دریافتی مقابلہ کیا کرتا تھا جس سے بہت سی چیزیں واضح ہو جاتی تھیں. اسی عادت نے مجھ انجنیئر بنایا.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.