مِٹا سکے تو مِٹا لے دنیا

مِٹا سکے تو مِٹا لے دنیا ۔ بنانے والا بنا ہی دے گا ۔

پیر 18 فروری 2008 کو سب نے اللہ کی قدرت کی ایک ہلکی سی جھلک دیکھی ۔ پرویز مشرف اور اس کے حواریوں کی سر توڑ کوششوں کے باوجود اللہ سُبحانُہُ بعددِ خلقِہِ نے آمریت مخالف قوتوں کو لا سامنے کھڑا کیا ۔

آج اللہ کے دِین اور اللہ کے بندوں کو مِٹانے کی جو کوششیں ہو رہی ہیں بہت ہیں اور ہر طرف سے ہیں لیکن یہ کوئی پہلا موقع نہیں بلکہ ازل سے شیطان کے پیروکاروں کا وطیرہ ہے اور جب بھی دِیندار اللہ کے احکامات کو پسِ پشت ڈال کر دنیا کی ظاہری چکاچوند میں گم ہونے لگے اہل شیطان نے دین کو مٹانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا ۔

شاعرِ مشرق علامہ اقبال جو کہ ایک فلسفی بھی تھے نے یونہی نہیں فرمایا

نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بُجھایا نہ جائے گا

تاریخ متذکرہ بالا خیال کی مثبت پُشت پناہی کرتی ہے ۔ اللہ کا دین کبھی مِٹ نہیں سکتا اور اللہ کے بندے جس دن مِٹ گئے میرا یقین ہے کہ اس کے بعد جلد ہی قیامت برپا ہو جائے گی اور یومِ حساب قائم ہو جائے گا ۔

جب روس نے مشرقی یورپ میں مسلم آبادی والی ریاستوں پر قبضہ کیا تو تمام علماء کو شہید کردیا اور تمام مساجد ختم کر دی تھیں ۔ مسلمانوں کا لباس پہننا اور عربی نام رکھنا ممنوع قرار دے دیا گیا ۔ جس کے متعلق معلوم ہوتا کہ مسلمان ہے اسے قتل کر دیا جاتا یا بقیہ عمر کیلئے قید خانہ میں ڈال دیا جاتا ۔ کامل مُخبری اور سخت گیری کے نتیجہ میں روسی حکومت کے اہلکار مطمعن تھے کہ مسلمان اور اسلام دونوں ختم ہو گئے ۔

اس سلسلہ میں ایک واقعہ ماضی قریب کا ہے ۔ آج سے تین دہائیاں قبل روسی اشتراکی ممالک کا اتحاد [U,S,S,R] دنیا کی ایک بہت بڑی طاقت تھی جسے توڑنے کا تمغہ آج کی بڑی طاقت ریاستہائے متحدہ امریکا [U.S.A] خود اپنے سینے پر سجاتا ہے ۔ درست کہ امریکا نے بھی اپنی سی کوشش کی لیکن بر سرِ پیکار اور در پردہ بھی مسلمان ہی تھے جنہوں نے اس برفانی ریچھ کو واپس برفوں تک ہی محدود کر دیا ۔ افغانستان میں مسلمانوں کے اعلانِ جہاد سے تو سب واقف ہیں لیکن مشرقی یورپ کی ریاستوں میں اسلام کے شیدائی یکدم کہاں سے آ گئے اس سے بہت ہی کم لوگ واقف ہیں ۔

میرے ایک دوست محمد اختر صاحب الیکٹریکل انجیئر تھے ۔ وہ 1974ء میں چیکوسلواکیا ایک خاص قسم کی تربیّت کیلئے گئے ۔ ان کے ساتھ جو واقع پیش آیا وہ اُنہی کی زبانی نقل کر رہا ہوں ۔

“مجھے اور ایک نوجوان انجنیئر کو 1974ء میں تربیت کیلئے چیکوسلوکیا کی ایک فیکٹری میں بھیجا گیا ۔ اس فیکٹری میں ہم دو ہی پاکستانی تھے اور ہمارے خیال کے مطابق صرف ہم دو ہی مسلمان تھے ۔ دوپہر کا کھانا فیکٹری ہی میں ہوتا تھا ۔ ہم دونوں کیفیٹیریا کے ایک کونے میں ایک میز پر بیٹھتے تھے ۔ کیفیٹیریا میں بہت سے مقامی نوجوان ہوتے تھے ۔ ایک ماہ سے زیادہ گذر جانے کے بعد ایک دن میرا ساتھی بیمار ہونے کی وجہ سے فیکٹری نہ جا سکا ۔ اس دن میں نے کیفیٹیریا میں ایک مقامی نوجوان کو عجیب حرکات کرتے دیکھا ۔ وہ اِدھر اُدھر دیکھتا ۔ پھر اچانک میری طرف دیکھتا ۔ پھر اِدھر اُدھر دیکھتا اور پھر اپنے سامنے کی طرف دیکھنے لگ جاتا ۔ ایسا اُس نے کئی بار کیا ۔

دوسرے دن پھر میرا ساتھی فیکٹری نہ گیا ۔ اس دن بھی کیفیٹیریا میں وہ نوجوان اُسی میز کے ساتھ بیٹھا تھا اور تین بار وہی حرکت کرنے کے بعد وہ تیزی سے میرے پاس آیا اور اشارے سے میرے پاس بیٹھنے کی اجازت مانگی ۔ میں نے مسکرا کر اُسے بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔ بیٹھنے کے بعد اس نے ادھر اُدھر دیکھا اور پھر میرے کان میں کہا “لا اِلٰہَ “۔ میں سمجھا کہ پوچھ رہا ہے ” تم مسلمان ہو ؟” میں نے ہاں میں سر ہلایا تو اس نے مدھم آواز میں کہا “الحمدللہ” ۔ پھر اس نے اشاروں ہی سے پوچھا “تمہارا ساتھی بھی ۔ لا اِلٰہَ “۔ میں نے ہاں میں سر ہلایا تو اس نے نفی میں سر ہلا کر مجھے اشارے سے سمجھایا کہ وہ شراب پیتا ہے ۔ اس کے بعد کے دنوں میں جب بھی کیفیٹیریا میں زیرِ تربیت لوگوں کے علاوہ کوئی نہ ہوتا تو وہ نوجوان میرے پاس آ کر بیٹھ جاتا اور مدھم آواز میں قرآن شریف کی تلاوت کرتا رہتا ۔ ایک دن اس نے مجھے پوری سورت بقرہ سنادی ۔ ایک دن میں نے اشاروں میں اس سے پوچھا کہ “اس شہر میں تم جیسے کتنے ہیں ؟” تو اس نے انگلیوں سے سمجھایا کہ 1200 ۔ میں نے پوچھا “تم کو قرآن پڑھنا کس نے سیکھایا ہے ؟” اس نے سمجھایا کہ ایک بوڑھا استاد ہے ۔ میں نے پوچھا کہ “تم کہاں قرآن شریف پڑھتے ہو ؟” تو اس نے سمجھایا کہ زیرَ زمین اور کسی کو نہیں معلوم ۔ اگر معلوم ہو جائے تو ہمیں جان سے مار دیا جائے گا ۔”

محمد اختر صاحب وفات پاچکے ہیں ۔ ذہین ۔ شریف النفس اور باعمل مسلمان تھے ۔ اُنہوں نے 1947ء میں ہندو اور سکھ طلباء کے مقابلہ میں انجنئرنگ کالج لاہور میں داخلہ لیا اور وہاں سے بی ایس سی الیکٹریکل انجنیئرنگ پاس کی ۔ اللہ انہیں جنت الفردوس میں عمدہ مقام مرحمت فرمائے ۔

This entry was posted in تاریخ, روز و شب on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

8 thoughts on “مِٹا سکے تو مِٹا لے دنیا

  1. Meesna02

    isee ziman main

    ترکی: احادیث کی از سر نو تشریح

    ترکی میں ایک دستاویز کی اشاعت کی تیاری کی جا رہی ہے جس میں اسلام کی از سر نو تشریح اور مذہب کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی بات کی گئی ہے۔ اس دستاویز کو انقلابی کہا گیا ہے۔

    ترکی کی حکومت کے خیال میں بہت سی احادیث متنازعہ ہیں اور ان سے معاشرے میں منفی اثر پڑ رہا ہے اور ان کی از سر نو تشریح کرانے کی ضرورت ہے۔ ان کے خیال میں ان احادیث سے اسلام کی اصل اقدار بھی دھندلا گئی ہیں۔

    http://www.bbc.co.uk/urdu/regional/story/2008/02/080227_turkey_islam_fz.shtml

  2. اجمل Post author

    میسنا 02 صاحب
    آپ کے تبصرہ کا میری مندرجہ بالا تحریر کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے ۔

  3. i love pakistan

    ماشااللہ
    اللہ رب العزت کی تدبیر یں ان سب کی حیلوں سے بڑھکر ہے۔

  4. عدنان زاہد

    اسلام علیکم،
    روس کو تباہ کرنے کا دعوی کرنے والی سپر طاقت انشاءاللہ بہت جلد طالبان اور عراقی مجاہدین کے ہاتھوں تباہ ہونے والی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.