کیا ملک میں مارشل لاء نہیں ؟

اگر آپ اب بھی سمجھتے ہیں کہ ہمارے ملک میں مارشل لاء نہیں تو یہ خبر پڑھ لیجئے ۔

حکومت ایک آرڈیننس جاری کر رہی ہے جس کے بعد آرمی ایکٹ کے تحت شہریوں کاکورٹ مارشل کیاجاسکے گا ۔ آرمی ایکٹ میں مجوزہ ترمیم کے تحت انٹیلی جنس ایجنسیوں کو مزید اختیارات بھی مل جائیں گے اور وہ شہریوں کوکوئی الزام عاید کئے بغیرغیر معینہ مدت تک عبوری حراست میں رکھ سکیں گی ۔ [خیال رہے چند دن قبل کہا گیا تھا کہ وزیراعظم نے ایجنسیوں کے اختیارات کم کرنے کا حکم دیا ہے ]

اس بات کی تصدیق اٹارنی جنرل آف پاکستان نے بدھ کے روز دی نیوز سے گفتگوکرتے ہوئے کی ۔ انہوں نے آرڈیننس کے آئندہ چندروز میں سامنے آنے کی تصدیق کرتے ہوئے کہاکہ شہریوں کو آرمی ایکٹ کے دائرہ کا ر میں لانے کیلئے اس میں کچھ نئے جرائم کو شامل کیا جا ئیگا ۔ اٹارنی جنرل کے مطابق آرمی ایکٹ میں مجوزہ ترمیم میں ایجنسیوں کو عبوری حراست سے متعلق مزید اختیارات دیکر ان کے کردارکا ازسرنو تعین کیا جائیگا ۔ آرمی ایکٹ میں مزید جرائم کی شمولیت کے حوالے سے گفتگوکرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ان میں اغواء ہتھیاروں کا استعمال ۔ دہشتگردی اور دیگر جرائم شامل ہیں ۔ ایک سوال کاجواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ترمیمی ایکٹ یقینی طورپر قبائلی جنگجوؤں اور دیگر لوگوں پر لا گو ہوگا ۔ تاہم ڈی جی آئی ایس پی آر نے اس معاملے سے اپنی لاعلمی کا اظہارکیا۔

سیکرٹری دفاع نے بدھ کے روز شائع ہونے والی رپورٹ میں اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے کہاکہ انہوں نے یہ نہیں کہاتھاکہ ایجنسیاں کسی مخصوص مدت تک کسی بھی مشتبہ شخص کو کوئی الزام عائد کئے بغیر حراست میں رکھ سکیں گی ۔ انہوں نے کہا کہ وہ دراصل امریکا اور برطانیہ کی مثال دے رہے تھے جہاں انسداددہشتگردی کے قانون کے تحت اس طرح کی حراست کیلئے مخصوص مدت کا تعین کیا گیا ہے ۔

وزارت دفاع کے ایک اوراعلی اہلکار نے سیکرٹری کے نکتہ نظر کی توثیق کرتے ہوئے مزید انکشاف کیاکہ آرمی ایکٹ میں مجوزہ ترمیم سے انٹیلی جنس ایجنسیوں کو وسیع تر اختیارات حاصل ہوجائیں گے جن کے تحت یہ ایجنسیاں مشتبہ افرادکو محض مخصوص مدت تک ہی حراست میں رکھنے کی پابند نہیں رہیں گی ۔ 1977ء کے بعد یہ دوسرا موقع ہے جب آرمی ایکٹ میں شہریوں کو شامل کرنے کیلئے موجودہ قانون میں ترمیم کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ کورٹ مارشل کے مقدمات سے نمٹنے والے ایک وکیل نے بتایا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے آرمی ایکٹ میں اس طرح کی ترمیم کو لاہورہائی کورٹ غیرقانونی قرار دے چکی ہے ۔

This entry was posted in خبر on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

4 thoughts on “کیا ملک میں مارشل لاء نہیں ؟

  1. راشد کامران

    حضرت ہمارے ملک میں کب مارشل اللہ نہیں تھا۔ فوج کے جوان ، بوڑھے اور بچے جب چاہیں “بلڈی سویلین” کی جیسے چاہیں عزت افزائی کرسکتے ہیں اور انکو خدا پوچھے تو پوچھے ملک میں اور کوئی نہیں پوچھ سکتا۔ اب اگر ایک کاغذی ترمیم کرکے اسکو قانونی چھتری مہیا کی جارہی ہے تو شاید استعمال میں وسعت لانے کا ارادہ ہوگا جیسا کے آپ کا بھی گمان ہے اور خبر سے بھی یہی محسوس ہوتا ہے۔۔ باقی رہیں ایجنسیاں تو وہ تو خفیہ تھیں، خفیہ رہیں گی، صرف انکے کارنامے منظر عام پر مظلوم شہریوں کی شکل میں دستیاب ہونگے۔۔

  2. راہبر

    میں روؤں نہیں تو کیا کروں؟؟؟ :cry:
    سمجھ نہیں آتا کہ حالات بہتری کی طرف کس طرح جاسکتے ہیں۔۔۔۔۔؟ :???:

  3. میرا پاکستان

    جنرل صاحب کا دور تو ایسے ہے جیسے مارشل لا کی کڑوی گولی پر جمہوریت کی شوگر کوٹنگ کردی جائے۔
    ہم اکثر اس دعوے پر حیران ہوتے ہیں کہ ملک میں‌اسمبلیاں‌پہلی بار اپنی مدت پوری کررہی ہیں۔ یہ دعویٰ تو ایسے ہی ہوا جیسے کسی قیدی کے بارے میں کہا جائے کہ اس نے اپنی عمر قید بغیر کسی مزید جرم کے پوری کرلی۔
    مارشل لا کیا ہے یک شخصی حکومت اور ملک میں اب تک تو شخصی حکومت ہی رہی ہے اسلیے کامران صاحب کی بات سچ ہے کہ ملک میں مارشل لا تو پہلے سے ہی ہے۔

  4. اجمل Post author

    راشد کامران ۔ رہبر اور میرا پاکستان صاحبان
    ہر پاکستانی کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ گھُل گھُل کر اذیّت کے ساتھ بار بار مرنا چاہتا ہے یا سینہ تان کر مقابلہ کرتے ہوئے ایک ہی بار ۔ دوسری صورت میں عزت کے ساتھ بچ بھی سکتا ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.