Monthly Archives: October 2007

تصنیف اور صحافت

یہ دیباچہ ہے اس سلسلہ تحریر کا جو میں قارئین کی فرمائش پر انشاء اللہ جلد شروع کرنے والا ہوں ۔ میں نے اپنے بزرگوں سے سنا تھا کہ مضامین لکھنے کی عادت مجھے اس وقت سے ہے جب میں نے فقرے لکھنا سیکھے تھے لیکن مجھ میں وہ خوبی پیدا نہ ہو سکی جو مصنف یا صحافی کہلانے کیلئے شائد ضروری ہوتی ہے ۔ چار دہائیاں پرانی بات ہے کہ میں نے عمیق تحقیق کے بعد ایک مقالہ لکھا جو ایک دوست کے مشورہ پر ایک مشہور رسالے میں چھابنے کیلئے بھیجا چند ہفتے بعد رابطہ کرنے پر بتایا گیا کہ میرا مضمون ان کے معیار پر پورا نہیں اُترتا ۔ دو تین ماہ بعد میں کسی کے گھر میں بیٹھا تھا ۔ وقت گذارنے کیلئے میز پر پڑے رسالے کو اُٹھایا اور پڑھنے لگا ۔ دیکھتا کیا ہوں کہ میرا مضمون اس میں من و عن چھپا ہے لیکن کسی اور کے نام سے ۔

ساٹھ کی دہائی میں فالتو وقت [Part-time ] میں انجیئرنگ ڈپلومہ کلاسز کو کچھ مضامین پڑھاتا تھا ۔ پھر جب میں مشین گن ڈویلوپمنٹ پراجیکٹ [Machine Gun Development Project] میں بہت مصروف ہو گیا تو یہ کام چھوڑ دیا ۔ ایک کولیگ [colleague] میرے پاس آیا اورکہنے لگا “مجھے تھیوری آف مشینز [Theory of Machines] کے اپنے نوٹس [notes] دیدیں میں نے پرچہ بنانا ہے ۔ دو تین دن میں واپس کر دوں گا”۔ تھیوری آف مشینز مشکل مضمون ہے اور میں نے بڑی محنت سے اس کے نوٹس تیار کئے تھے ۔ ایک ہفتہ کے اندر واپسی کے وعدہ پر میں نے نوٹس ان کو دیدئیے ۔ وہ نوٹس باوجود بار بار مطالبہ کرنے کے واپس نہ ملے ۔ کچھ عرصہ بعد مجھے معلوم ہوا کہ موصوف نے میرے نوٹس اپنے نام سے چھپوا کر مال کمایا ۔

میں نے اپنا پہلا بلاگ ستمبر 2004 میں اور دوسرا مئی 2005 میں شروع کیا ۔ پچھلے سال سرفنگ [surfing] کرتے اپنے کچھ مضامین دوسرے بلاگز پر لکھے پائے مگر میرا حوالہ موجود نہ تھا ۔ متعلقہ بلاگرز سے استفسار کیا ۔ سوائے ایک کے کسی نے جواب دینے کی تکلیف گوارا نہ کی اور اس نے بھی یہ کہا “مجھے پسند آیا تو میں نے لکھ دیا”۔

ایک دن میں نے اپنے اردو بلاگ کے تبصرہ میں لکھا پایا “ہم آپ کا فلاں مضمون اپنے رسالہ میں چھاپ رہے ہیں۔ وقت کی کمی کے باعث آپ سے اجازت نہ لی ۔ سپیشل نمبر نکل رہا تھا ۔ اُمید ہے آپ اجازت دے دیں گے”۔ دو ماہ قبل پھر ایک اسی طرح کا تبصرہ اپنے بلاگ پر دیکھ کر میں نے تبصرہ نگار کو ای میل بھیجی کہ کم از کم اپنا اور اپنے مجلہ کا نام تو بتا دیں ۔ انہوں نے ایک امیج [image] بھیجا جسے کھولنے کی میرے پاس سافٹ ویئر [software
] نہ تھی ۔ بڑی مشکل سے ڈھونڈ ڈھانڈ کر سافٹ ویئر نصب کی ۔ اتفاق سے اس پر ان کا ٹیلیفون نمبر بھی درج تھا ۔ ان سے رابطہ کرنے پر معلوم ہوا کہ میرا ایک مضمون وہ کچھ ماہ قبل بھی چھاپ چکے ہیں ۔ میں نے صرف اتنا عرض کیا کہ مجھے ان دونوں پرچوں کی ایک ایک کاپی بھیج دیں ۔ انہوں نے میرا پتہ لے لیا اور بھیجھنے کا وعدہ کیا ۔ دو ماہ گذرنے کے بعد بھی مجھے کچھ نہیں ملا ۔ ہو سکتا ہے ان صاحب نے میرے مضامین اپنے نام سے چھاپ دیئے ہوں ۔ گویا میرے بلاگ پر لکھ کر انہوں نے اپنا گناہ معاف کرا لیا ۔

اللہ کے اچھے بندے بھی اسی دنیا میں پائے جاتے ہیں ۔ میرے انگریزی بلاگ پر کسی نے لکھا کہ انہیں میری کچھ پوسٹس پسند آئی ہیں اسلئے وہ اپنے بلاگ پر ان کا اپنی زبان میں ترجمہ شائع کرنا چاہتے ہیں اور میری اجازت چاہیئے ۔ میرا دل بلیوں اُچھلا اور میں فوراً ان کے بلاگ پر پہنچ گیا ۔ زبان سمجھ نہ آئی ۔ دماغ پر زور دینے سے معلوم ہوا کہ انڈونیشیا ہے ۔ میں نے اجازت دیتے ہوئے بڑی خوشی کا اظہار کیا ۔ کچھ عرصہ بعد میں نے ان کے بلاگ پر اپنے متعلق ایک مضمون دیکھا جس کی مجھے صرف اتنی سمجھ آئی کہ انہوں نے میرا اور میرے بلاگ کا تعارف کرایا ہوا تھا ۔ اس کے بعد میری ایک پوسٹ انڈونیشی زبان میں لکھی تھی اور اس پوسٹ کا میرے بلاگ سے ربط دیا تھا ۔

بھی اللہ کے بندے ہیں ۔ میں نے ایک فورم پر علم کے ایک موضوع بارے اپنی کم مائیگی کا اظہار کیا تو دو جوانوں نے مجھ سے میرا ڈاک کا پتہ مانگا ۔ ایک راولپنڈی میں رہتے ہیں ۔ ہمارے علاقہ میں راولپنڈی سے آنا ہو تو دو تین بار گاڑی بدلنا پڑتی ہے اور اس کے باوجود پیدل بھی چلنا پرتا ہے ۔ وہ بچارے نمعلوم کس طرح میرے گھر پہنچے اور تین کتابوں کا تحفہ دے گئے ۔ دوسرے صاحب کراچی میں رہتے ہیں ۔ انہوں نے ٹی سی ایس کے ذریعہ پانچ کتابیں مجھے بھیج دیں ۔ سبحان اللہ کیسے کیسے اچھے لوگ بھی پائے جاتے ہیں ہمارے وطن میں ۔ کاش میں بھی کبھی ان جوانوں کے کام آ سکوں ۔

انسان دوست ہیں تو آگے بڑھیئے

ہمارے ملک میں انسانیت کے غم خوار تو سب ہی ہیں اور رفاہِ عام یا بہبودِ عامہ [welfare] کا ڈھنڈورہ بھی بہت پیٹا جاتا ہے ۔ کچھ عرصہ قبل میں نے ایک محفل کے ارکان اور قارئین کو آسان سی بہبودِ عامہ کی دعوت دی تھی جو انہوں نے میرے لئے نہیں بلکہ اپنے لئے کرنا تھی لیکن کسی ایک نے بھی حامی نہ بھری ۔ آج میں انسانیت کے سینے پر ایک رِستے ناسُور کو لے کے حاضر ہوا ہوں ۔ بنیادی طور پر میرے مخاطب راولپنڈی اور اسلام آباد میں رہنے والے ہیں البتہ دوسرے شہروں میں بسنے والوں کو بھی دل و جان سے خوش آمدَید کہا جائے گا ۔

کسی جگہ گاڑی روکیں تو کوئی بچی یا بچہ اپنے منہ کی طرف اشارہ کر کے ہاتھ پھیلا دیتا ہے ۔ اُس کے چہرے سے اس کا خالی پیٹ عیاں ہوتا ہے ۔ انسانیت دوستی کے علمبردار سامراجی مُلک بچوں سے مزدوری کے خلاف مہم چلا کر اس بہانے پاکستان سے اپنے ملکوں میں درآمدات پر تو پابندی لگا دیتے ہیں لیکن یہ نہیں بتاتے کہ یہ بچے اپنا پیٹ کیسے بھریں ؟ کہاوت مشہور ہے کہ کسی نے ایک بھوکے سے کہا کہ ایک اور ایک کتنے ہوتے ہیں تو اُس نے جواب دیا “دو روٹیاں”۔ ہم نے دیکھا ہے کہ کاروں والے ایک پھول تو دس روپے میں خرید لیتے ہیں مگر ان محروم بچوں کو دھتکار دیتے ہیں ۔ ایسے بچوں کو کوڑے سے گلی سڑی اشیاء اُٹھا کر کھاتے بھی دیکھا گیا ہے ۔

ایک اہلِ دِل نوجوان نے خود ہی اپنے ذمہ لیا کہ وہ ان بچوں کی تعلیم کا بندوبست کرے گا اور ان بچوں کے کوائف اکٹھا کرنا شروع کئے جن سے ظاہر ہوا کہ حقیقی محروم بچوں کی اکثریت اُن بے کس افغان مہاجرین کی اولاد ہے جو راولپنڈی اور اسلام آباد کے کنارے خیمہ بستیوں میں آباد ہیں اور مزدوری کرتے ہیں ۔ یہ نوجوان ان بچوں کے والدین تک پہنچا اور انہیں سمجھایا کہ اگر یہ بچے پڑھ لکھ لیں گے تو ان کا مستقبل اچھا ہو گا اور انہیں بھیک نہیں مانگنا پڑے گی ۔ والدین کا خدشہ تھا کہ جو روکھی سوکھی روٹی ان بچوں کو مل رہی ہے وہ اس سے بھی محروم نہ ہو جائیں ۔ اس نوجوان نے انہیں قائل کیا کہ بچوں کی تعلیم کے دوران ان کی روٹی کا بھی بندوبست کیا جائے گا ۔ پھر اپنی محنت اور کوشش سے اس نوجوان نے چند بچوں کی تعلیم کا بندوبست اسلام آباد کے ایک افغانی سکول میں کیا ۔ ایک بچے کی ماہانہ فیس 350 روپے ہے اور بس کا کرایہ 200 روپے ۔ان بچوں کو روزانہ ایک وقت کے کھانے کے طور پر ایک روٹی اور پاؤ دودھ کی ڈبیہ دی جائے تو خرچ 550 روپے ماہانہ آتا ہے ۔ یعنی فی بچہ کُل خرچ 1100 روپے ماہانہ ہے ۔

اس جوان کی اَن تھک محنت اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کو پسند آئی اور اب ایسے 47 بچے جمع ہو گئے ہیں جن کی تعلیم کے خرچہ کے علاوہ انہیں کم از کم ایک وقت کا کھانا بھی مہیا کرنے کا بندوبست کیا جانا ہے تاکہ یہ ننھے پھول سڑکوں کی گرد و غُبار سے مرجھانے کی بجائے پڑھ لکھ کر کسی گلستان کی زینت بنیں ۔ اگر اس منصوبہ کو احسن طریقہ سے چلایا جائے تو بچوں کی تعداد اور بڑھے گی ۔ متذکرہ نوجوان اس ایک نجی کمپنی میں معمولی ملازم ہے اور دو چار بچوں سے زیادہ کا انتظام کرنے سے قاصر ہے ۔

مجھ سے جو کچھ ہو سکتا ہے میں کروں گا ہی ۔ میری تمام قارئین سے التماس ہے کہ آگے بڑھیں اور اس رفاہِ عام کے کام میں عملی حصہ لے کر انسانیت دوستی کا ثبوت دیں ۔ امدادکے مختلف پہلو ہیں ۔

اوّل ۔ کوئی رفاہی ادارہ کم از کم ان بچوں کی تعلیم کا مناسب بندوبست اپنے ذمہ لے لے ۔ ویسے تو صرف اسلام آباد میں این جی او کے نام سے 40 سے زائد ادارے ہیں لیکن وہ غیر مُلکی امداد جمع کرنے کے ماہر ہیں ۔ ایدھی ٹرسٹ جیسے اداروں کے پاس پہلے ہی بہت کام ہے اسلئے اُن پر مزید بوجھ ڈالا مناسب نہیں ۔

دوم ۔ تعلیم کا کوئی سستا بندوبست ہو سکے لیکن خیال رہے یہ بچے فارسی اور پشتو بولتے ہیں ۔

سوم ۔ انفرادی طور پر قارئین سے جو کچھ بھی ہو سکے جسمانی یا مالی یا دونوں طرح امداد کریں

میں یہ کام کرنے والے نیک دل نوجوان کا پتہ نہیں لکھ رہا کہ اپنی ملازمت کے علاوہ وقت نکال کر وہ رفاہِ عام میں مصروف ہے ۔ اس کے پاس ای میل پڑھنے کا بھی وقت نہیں ہو گا ۔ خواہش مند قارئین تبصرہ کے خانے میں اپنے کوائف لکھ سکتے ہیں یا مجھے بذریعہ ای میل مطلع کر سکتے ہیں ۔ ای میل پتہ معلوم کرنے کیلئے اُوپر رابطہ پر کلِک کیجئے ۔

سائنس کی ترقی

آج بڑا چرچہ ہے کہ سائنس بہت ترقی کر گئی ہے ۔ میں 27 جولائی 2005ء کو ایک قاری کے سوالوں کے جواب میں اسی سلسلہ میں لکھ چکا ہوں ۔ اب ایک اور جہت سے کچھ حقائق بیان کروں گا ۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج سے پانچ سات سو سال قبل بھی انسان سائنسی ترقی کا علمبردار تھا ۔ گو میرے اس نظریہ کو بیوقوفی یا کم علمی پر محمول کیا جائے گا لیکن میرے پاس ایسے دلائل موجود ہیں کہ جن کو آج تک منطقی طور پر کوئی رد نہ کر سکا ۔

مجھے 1952ء میں زکام اور گلا خراب ہونے کی شکائت شروع ہوئی ۔ ایلوپیتھک علاج جسے انگریزی علاج کہا جاتا تھا شروع کیا ۔ والدین نے ایک سے ایک اچھا اور ماہر ڈاکٹر چُنا ۔ مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی ۔ 1957ء میں ایک دوائی کا ردٍ عمل ہوا تو میں والدین کی دعاؤں کے نتجہ میں مرنے سے بچ گیا البتہ میری پڑھائی کے دو سال ضائع ہو گئے ۔ گلا خراب اور زکام نے میرا پیچھا نہ چھوڑا ۔ آخر ایک ای این ٹی سپیشلسٹ جو میرا علاج پچھلے تین سال سے بڑی جانفشانی سے کر رہے تھے 1972 میں کہنے لگے “میں آپ کو مزید اینٹی بائیوٹک نہیں دینا چاہتا ۔ اگر آپ وعدہ کریں کہ کسی کو میرا نہیں بتائیں گے تو میں اس کا دیسی علاج بتاتا ہوں”۔ میں نے فوراُ وعدہ کر لیا ۔ علاج انتہائی سادہ اور سستا تھا ۔ اللہ کی مہربانی ہو گئی ۔ اس کے بعد سے میں نے پکوڑے ۔ اچار ۔ آئس کریم ۔ کوکا کولا ۔ پیپسی ۔ چاٹ وغیرہ جو میرے لئے 19 سال ممنوع رہے کھانا شروع کر دئیے ۔

مجھے 1984 میں شدید سر درد ہوا جسے مِیگرین کہتے ہیں ۔ پہلے چند ماہ بعد ہوتا تھا پھر ہر مہینے شروع ہوا تو نیورو سرج اور نیورو فزیشن کے علاج شروع کئے ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ درد ہر دس پندرہ دن بعد ہونے لگا ۔ پہلے ایک دو دن میں ٹھیک ہو جاتا تھا پھر پانچ پانچ دن رہنے لگا ۔ نوبت بہ ایں جا رسید کہ ایک بار میں 25 دن بستر پر رہا ۔ اس کے بعد میں نے علاج بند کر دیا ۔ 1996ء میں ایک صاحب نے بتایا کہ انہیں 1970 سے مِیگرین [Migraine] کا عارضہ تھا ۔ دو سال قبل ایک سادہ اور سستا دیسی علاج کیا اور ٹھیک ہو گیا ۔ میں نے بھی وہی علاج کیا اور اللہ نے مہربانی کر دی ۔

زکام اور گلا خراب کا علاج جس کا دورانیہ 6 ماہ تھا یہ ہے ۔ [1] مرچ مصالحے نہیں کھانے ۔ [2] تیز گرم چائے نہیں پینا [3] فرج کا یا برف والا پانی نہیں پینا ۔ [4] پیپسی ۔ کوکا کولا ۔ سیون اپ وغیرہ نہیں پینا ۔ [5] تیل کی تلی ہوی چیز نہیں کھانا ۔ [6] نہانا اسطرح کہ شروع میں پانی تیز گرم ہو جو جسم نہ جلائے جو بتدریج ٹھنڈا کرتے جائیں حتٰی کہ آخر میں پانی ٹھنڈا ہو مگر یخ نہیں ۔ [7] دہی جو کھٹی نہ ہو آدھ پاؤ دوپہر کے کھانا کے ساتھ اور آدھ پاؤ رات کے کھانے کے ساتھ کھانا ۔ [8] گرمیوں اور برسات میں لیموں کی تازہ سکنجبین نمک اور چینی ڈال کر پینا لیکن پانی فرج کا یا برف والا نہ ہو ۔ اگر ذیابیطس کی شکائت ہو تو چینی نہ ڈالیں ۔ جب زکام ہو تو دن میں ڈھائی تین لٹر سکنجبین پینا ۔ [9] جب زکام ہو تو نیم گرم پانی میں نمک ڈال کر غرارے کرنا اور ناک میں بھی یہ پانی کم از کم 3 بار ڈانا(10) روزانہ ورزش کرنا اس طرح کہ پسینہ آ کر ہوا لگنے کا خدشہ نہ ہو ۔ بہترین ورزش پانی میں تیرنا ہے ۔

سر درد کا علاج جس کا دورانیہ 6 ماہ یہ ہے کہ سوئف اور سفید زیرہ برابر مقدار میں لے کر علیحدہ علیحدہ پیس کر اچھی طرح ملا لیا جائے (الیکٹریکل گرائنڈر میں نہ پیسیں)۔ اس کی ایک چھوٹی چمچی پڑوپی کی طرح بھر کے دوپہر اور رات کے کھانے کے بعد کھائیں ۔ اگر ناشتہ حلوہ پوری یا پراٹھے کا کیا جائے تو پھر ناشتے کے بعد بھی کھا لیں ۔

کولیسٹرال کو قابو میں کرنے کیلئے چائنیز گرین ٹی زیادہ سے زیادہ پیجئے ۔ بے شک اس میں چینی نہ ملائیں ۔ اگر 14 کپ روزانہ پیئے جائیں تو کولیسٹرال دو تہائی رہ جاتا ہے ۔ چائے بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ پانی اُبال کر چولہا بند کر دیں پھر پتی پیالی میں ڈال کر پانی پیالی میں ڈالیں ۔ اُبلتے پانی میں پتی ڈالنے سے اس کے کچھ اجزاء ضائع ہو جاتے ہیں ۔ عمدہ قسم کی چائے استمعال کیجے چاہے  بازار سے عمدہ قسم کی کھُلی گرین ٹی لے لیں ۔

ذیابیطس کے علاج کیلئے ایک گرام دارچینی روزانہ بغیر پکائے پیس کر کیپسول میں ڈال کرکھائیے یا اسے چائنیز گرین ٹی میں ڈالا جا سکتا ہے لیکن مقدار زیادہ کرنا ہو گی ۔

چین میں اب بھی جسم کے کچھ حصوں میں سوئیاں چبھو کر بغیر بیہوش کئے جراحی کی جاتی ہے جس میں دماغ کی جراحی بھی شامل ہے ۔ یہ بات آج کے ترقی یافتہ امریکا کے جراحوں کی سمجھ میں نہیں آتی ۔

آزادی آزادی آزادی

ستم شعار سے تجھ کو چھڑائیں گے اک دن
میرے وطن تیری جنت میں آئیں گے اک دن

ٹھیک آج سے 60 سال قبل جموں کشمیر کے مسلمانوں نے اپنے وطن پر بھارت کے طاقت کے بل پر ناجائز قبضہ کے خلاف اعلانِ جہاد کیا جو کہ ایک لاکھ سے زائد جانوں کی قربانی دینے کے باوجود آج تک جاری ہے ۔ انشاء اللہ یہ قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی ۔

کہتے ہیں ہر دم یہ جموں کشمیر کے مسلماں ۔ اے وطن تیری آزادی تک چین سے نہیں بیٹھیں گے

ایک نظم

سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے ۔ ۔ ۔ دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
کرتا نہیں کیوں دوسرا اس پہ کچھ بات چیت ۔ ۔ ۔ دیکھتا ہوں میں جسے وہ چپ تیری محفل میں ہے
اے شہیدِ مُلک و ملت میں تیرے اُوپر نثار ۔ ۔ ۔ اب تیری ہمت کا چرچہ غیر کی محفل میں ہے
وقت آنے دے بتا دیں گے تجہے اے آسمان ۔ ۔ ۔ ہم ابھی سے کیا بتائیں کیا ہمارے دل میں ہے
کھینج کر لائی ہے سب کو قتل ہونے کی اُمید ۔ ۔ ۔ عاشقوں کا آج جمگھٹ کوچۂ قاتل میں ہے
ہے لئے ہتھیار دشمن تاک میں بیٹھا اُدھر ۔ ۔ ۔ اور ہم تیار ہیں کھُلا سینہ لئے اپنا اِدھر
خون سے کھیلیں گے ہولی گر وطن مشکل میں ہے ۔ ۔ ۔ سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
ہاتھ جن میں ہو جنوں کٹتے نہیں تلوار سے ۔ ۔ ۔ سر جو اُٹھ جاتے ہیں وہ جھُکتے نہیں للکا ر سے
اور بھڑکے گا جو شعلہ سا ہمارے دل میں ہے ۔ ۔ ۔ سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
ہم جو گھر سے نکلے ہی تھے باندھ کے سر پہ کفن ۔ ۔ ۔ جان ہتھیلی پر لئے ہوئے لے چلے ہیں یہ قدم
زندگی تو اپنی مہمان موت کی محفل میں ہے ۔ ۔ ۔ سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
یوں کھڑا مقتل میں قاتل کہہ رہا ہے بار بار ۔ ۔ ۔ کیا تمناءِ شہادت بھی کِسی کے دِل میں ہے
دل میں طوفانوں کی تولی اور نسوں میں انقلاب ۔ ۔ ۔ ہوش دشمن کے اڑا دیں گے ہمیں روکو نہ آج
دُور رہ پائے جو ہم سے دم کہاں منزل میں ہے ۔ ۔ ۔ سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
وہ جِسم بھی کیا جِسم ہے جس میں نہ ہو خونِ جنوں ۔ ۔ ۔ طوفانوں سے کیا لڑے جو کشتی ساحل میں ہے
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے ۔ ۔ ۔ دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے

نظم ۔ بسمل عظیم آبادی

دہشتگرد کون ہے ؟ خود فیصلہ کیجئے

ایپی گاؤں پر بمباری 1937ء میں بھی ہوئی تھی ۔ اُس وقت برطانوی ایئر فورس کے طیاروں نے بمباری کی تھی ۔ 2007ء میں پاکستان ایئر فورس نے بمباری کی لیکن فرق یہ ہے کہ برطانوی ایئر فورس نے پہلے اشتہار گرائے اور خبردار کیا کہ 12 اپریل کو کھجوری اور سیدگی کے درمیان بمباری ہو گی لہذا مقامی لوگ کہیں اور چلے جائیں جبکہ 7 اکتوبر 2007ء کو میر علی اور آس پاس کے علاقوں پر پاکستان ایئر فورس نے بغیر کسی اطلاع کے اچانک بمباری کی ۔

پاکستان کی حکومت نے دعویٰ کیا کہ اس بمباری کا مقصد غیر ملکی دہشت گردوں کو ہلاک کرنا تھا لیکن کسی ایک غیر ملکی کی لاش میڈیا کے سامنے نہیں لائی گئی ۔

وزیرستان میں بھڑکائی جانے والی آگ کو لاہور اور کراچی تک پھیلنے سے روکنا آسان نہ ہو گا   :?: 

مشہور صحافی حامد میر جنہوں نے عید الفطر کوہاٹ میں وزیرستان کی بمباری سے زخمی ہونے والے شہریوں میں گذاری لکھتے ہیں ۔

عید کا دوسرا دن تھا۔ بنّوں شہر کے ایک اسکول کی عمارت میں پناہ لینے والے شمالی وزیرستان کے مہاجرین مجھے اپنی تباہی کی داستانیں سنا رہے تھے۔ اکثر مہاجرین کا تعلق شمالی وزیرستان کی تحصیل میر علی سے تھا۔ عید سے چند دن پہلے میر علی کے مرکزی بازار اور آس پاس کے قصبوں پر ہونے والی بمباری سے سیکڑوں لوگ مارے گئے اور ہزاروں لوگ خوف و ہراس کے عالم میں محفوظ مقامات کی طرف بھاگے۔ دس اکتوبر کو میر علی کے قریب ایک گاؤں ایپی میں پچاس افراد کی نمازہ جنازہ پڑھی گئی۔ ایپی کا ایک زخمی بچّہ مجھے بنّوں کے ڈسٹرکٹ ہاسپیٹل میں ملا۔ چھ سات سال کے اس بچّے کا چہرہ بم کا ٹکڑا لگنے سے بُری طرح متاثر ہوا تھا۔ ساتھ والے بستر پر ایک زخمی بزرگ پڑا ہوا تھا۔ اس بزرگ نے مجھے بتایا کہ اس بچّے کا نام عبداللہ ہے اور یہ بول چال سے قاصر ہے۔ اس بچّے کا باپ بمباری میں مارا گیا، زخمی ماں اسے اٹھا کر یہاں تک پہنچی اور چند گھنٹوں کے بعد چل بسی۔

اس بزرگ نے کپکپاتے ہونٹوں اور پُرنم آنکھوں کے ساتھ کہا کہ 1937ء میں وہ اس معصوم بچّے کی عمر کا تھا اس وقت بھی ایپی گاؤں پر بمباری ہوئی تھی، اس وقت بھی کئی لوگ مارے گئے تھے لیکن فرق یہ ہے کہ 1937ء میں ایپی گاؤں پر برطانوی ایئر فورس کے طیاروں نے بمباری کی اور گاؤں والوں نے بڑے حوصلے اور فخر سے اپنے شہداء کو دفن کیا لیکن 2007ء میں ایپی گاؤں پر پاکستان ایئر فورس نے بمباری کی اور جب شہداء کو دفن کیا جا رہا تھا تو جذباتی نوجوان برطانوی سامراج کی بجائے پاکستانی فوج کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔

بنّوں شہر کے مختلف علاقوں میں شمالی وزیرستان کے مہاجرین کی حالت زار دیکھنے اور ہاسپیٹل میں زخمیوں کی عیادت کے دوران مجھے بار بار لبنان یاد آتا رہا۔ پچھلے سال جولائی میں اسرائیل نے لبنان پر حملہ کیا تو عذر پیش کیا کہ حزب اللہ کے گوریلے جنوبی لبنان کے سرحدی علاقوں سے اسرائیلی فوج پر حملے کرتے ہیں لہذا اسرائیل نے پورے جنوبی لبنان کو بمباری سے تباہ و برباد کر دیا۔ جنوبی لبنان کے مہاجرین اپنے ہی وطن میں بے گھر ہو کر بیروت کے مغربی اور مشرقی علاقوں میں پہنچے جہاں انہوں نے اسکولوں کی عمارتوں میں پناہ لی۔ ان اسکولوں میں پناہ لینے والے لبنانی مہاجرین کی کہانیوں اور بنّوں کے اسکولوں میں پناہ لینے والے شمالی وزیرستان کے مہاجرین کی کہانیوں میں زیادہ فرق نہیں تھا۔ لبنانی مہاجرین اسرائیل اور حزب اللہ کی لڑائی میں تباہ ہوئے اور شمالی وزیرستان والے پاکستانی فوج اور مقامی طالبان کی لڑائی میں تباہ ہو رہے ہیں۔ بیروت کے اسپتالوں میں زخمی عورتوں اور بچّوں کی دیکھ بھال کرنے والوں میں ریڈ کراس کے علاوہ عبدالستار ایدھی بھی نظر آتے تھے لیکن بنّوں میں شمالی وزیرستان کے تباہ حال مہاجرین کی خبر گیری کرنے والوں میں جماعت اسلامی اور الرحمت ٹرسٹ کے علاوہ کوئی تیسرا نظر نہیں آیا۔ جماعت اسلامی والوں نے بنّوں شہر میں مہاجرین کے تین کیمپ قائم کئے۔

جماعت اسلامی ضلع بنّوں کے امیر مطیع اللہ جان ایڈووکیٹ سے میں نے پوچھا کہ شمالی وزیرستان کے منتخب رکن قومی اسمبلی کا تعلق جمعیت علماء اسلام (ف) سے ہے لیکن ان کی جماعت کہیں نظر نہیں آ رہی۔ یہ سوال سن کر مطیع اللہ جان نے نظریں جھکا لیں اور موضوع بدلتے ہوئے کہنے لگے کہ ان متاثرین کا تعلق شمالی وزیرستان کے داوڑ قبیلے سے ہے جو میر علی کے گرد و نواح میں آباد ہے، یہ بڑے غیرت مند لوگ ہیں اور مشکل ترین حالات میں بھی کسی سے مدد نہیں مانگتے، لہذا یہ بمشکل دو تین دن ہمارے کیمپوں میں ٹھہرتے ہیں اور پھر اپنا انتظام کر کے آگے کوہاٹ اور کرک کی طرف چلے جاتے ہیں۔

شمالی وزیرستان میں بمباری کے متاثرین کی اکثریت یہ تسلیم کرنے کیلئے تیار نہ تھی کہ ان کی تباہی کے ذمہ دار غیر ملکی عسکریت پسند یا طالبان ہیں۔ یہ سب متاثرین اپنی تباہی کی ذمہ داری امریکی صدر جارج ڈبلیو بش پر ڈال رہے تھے۔ جنرل پرویز مشرف کا نام بہت کم سننے میں آیا۔ کافی دیر کے بعد مجھے پتہ چلا کہ داوڑی لوگ اپنے اصلی دشمن کا نام زبان پر لانا پسند نہیں کرتے۔

ڈگری کالج میر علی میں فورتھ ایئر کے ایک طالب علم نے کہا کہ سات اکتوبر سے پہلے وہ عسکریت پسندی کے سخت خلاف تھا اور دن رات اپنی تعلیم میں مگن تھا لیکن سات اکتوبر کی بمباری کے بعد اسے تعلیم میں کوئی دلچسپی نہیں رہی کیونکہ اب اسے اپنے چھوٹے بھائی کے قتل کا بدلہ لینا ہے جو بمباری میں مارا گیا۔ اس نے چیختے ہوئے کہا کہ میرا بھائی صبح سحری کے وقت میر علی بازار میں دہی لینے گیا تھا اور بمباری سے مارا گیا، وہ غیر ملکی دہشت گرد نہیں تھا صرف بارہ سال کا سٹوڈنٹ تھا جو ہر وقت کرکٹ کھیلتا تھا اور شاہد آفریدی کی تصاویر جمع کرتا تھا، میرے بھائی کے قتل کا ذمہ دار سب سے بڑا دہشت گرد ہے اور اب میں اس سے بھی بڑا دہشت گرد بن کر دکھاؤں گا۔ یہ سن کر میرے جسم میں خوف کی ایک لہر دوڑ گئی اور میں سوچنے لگا کہ کیا لاہور اور کراچی کے دانشور نفرت کی اس نئی آگ کا ادراک رکھتے ہیں جس پر آئے دن مزید تیل ڈالا جا رہا ہے؟

بنّوں میں شمالی وزیرستان کے مہاجرین کی دکھ بھری کہانیاں سننے کے بعد میں بکا خیل کی طرف روانہ ہوا۔ بکا خیل سے شمالی وزیرستان کی سرحد شروع ہوتی ہے۔ میر علی میں کرفیو ختم ہونے کے باوجود میرانشاہ بنّوں روڈ پر مہاجرین کی آمد کا سلسلہ جاری تھا۔ یہ مہاجرین میر علی سے نہیں بلکہ دتّہ خیل سے آ رہے تھے۔ دتّہ خیل سے آنے والے بتا رہے تھے کہ ان کے علاقے میں پاکستانی فوج بکتر بند گاڑیاں اور توپیں لیکر پہنچ گئی ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ میر علی کے بعد اگلا آپریشن دتّہ خیل میں ہو گا۔ کچھ لوگ بنّوں سے واپس میر علی بھی جا رہے تھے لیکن ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنا سامان لیکر واپس جائیں گے۔ اب انہیں کسی امن معاہدے پر اعتماد نہیں کیونکہ حکومت اپنی ضرورت کے مطابق معاہدہ کرتی ہے اور ضرورت کے مطابق توڑتی ہے، ہمارے مفاد کا کسی کو خیال نہیں۔

بکا خیل میں کھلے آسمان تلے ایک چٹان پر بیٹھے ہوئے تباہ حال خاندان کے ایک فرد نے کہا کہ ہمارے بزرگ انگریزوں کے ظلم کی جو داستانیں ہمیں سناتے تھے اب تو وہ بھی ماند نظر آتی ہیں۔ انگریز ہمیشہ بمباری سے قبل اعلان کرتے، ہوائی جہاز سے ہینڈ بل گراتے اور بمباری کا وقت اور جگہ بھی بتاتے تھے تاکہ فقیر ایپی کے مجاہدین کے ساتھ لڑائی میں عام لوگوں کا نقصان نہ ہو۔ فقیر ایپی پر ڈاکٹر فضل الرحمان کی کتاب میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ 9 اپریل 1937ء کو برطانوی ایئر فورس نے دتّہ خیل اور میر علی کے آس پاس اشتہار گرائے اور خبردار کیا کہ 12 اپریل کو کھجوری اور سیدگی کے درمیان بمباری ہو گی لہذا مقامی لوگ کہیں اور چلے جائیں۔ اس کتاب کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ وزیرستان میں آج بھی انگریزوں کے طریقے استعمال کئے جا رہے ہیں لیکن انداز انگریزوں والا نہیں ہے۔

سات اکتوبر 2007ء کو میر علی اور آس پاس کے علاقوں پر کسی اطلاع کے بغیر بمباری کی گئی۔ حکومت نے دعویٰ کیا کہ اس بمباری کا مقصد غیر ملکی دہشت گردوں کو ہلاک کرنا تھا لیکن کسی ایک غیر ملکی کی لاش میڈیا کے سامنے نہیں لائی گئی ۔ 1937ء کی بمباری نے انگریزوں کے خلاف فقیر ایپی کی تحریک کو مزید آگے بڑھایا تھا اور 2007ء کی بمباری نے شمالی وزیرستان کے عسکریت پسندوں کو غصّے اور نفرت کی آگ میں جلتے ہوئے نوجوانوں کی ایک نئی کھیپ مہیا کی ہے۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ ہمارے ارباب اختیار شمالی وزیرستان میں وہی غلطیاں کر رہے ہیں جو امریکہ نے عراق اور بھارت نے کشمیر میں کیں۔ نجانے ان ارباب اختیار نے لال مسجد آپریشن سے کوئی سبق کیوں نہیں سیکھا؟ چند لبرل فاشسٹوں کی خوشی کیلئے لال مسجد آپریشن کیا گیا جس نے مزید تشدد اور خودکش حملہ آور پیدا کئے۔ لبرل فاشسٹوں کو خوش کرنے کا سلسلہ جاری رہا تو شمالی وزیرستان میں بھڑکائی جانے والی آگ کو لاہور اور کراچی تک پھیلنے سے روکنا آسان نہ ہو گا

فوج کی تباہی کا منصوبہ

اپنے وزراء کی تندوتیز گفتگو سننے کے بعد جنرل پرویز مشرف نے اپنے لب کھولے اورکہاکہ “میں جانتا ہوں کہ بے نظیر بھٹو میرے ساتھ وفا نہیں کرے گی لیکن مجھ پر ”عالمی برادری“ کا بہت دباؤ تھا کہ بے نظیر بھٹو کو کچھ سہولتیں دوں”۔

یہ وہی ”عالمی برادری“ ہے جس کی خوشنودی کے لئے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی کے حوالے کرنے کی بات کی جاتی ہے۔ اس عالمی برادری کو مطمئن کرنے کیلئے کہاجاتا ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو امریکی فوج کو پاکستان میں کارروائی کی اجازت دی جاسکتی ہے۔ یہی وہ بیانات ہیں جس کے سامنے آنے کے بعد ”عالمی برادری“ نے جنرل پرویز مشرف کو بے نظیر بھٹو کے ساتھ سمجھوتہ کرنے پر مجبور کیا۔

صدارتی انتخاب میں کامیابی پر جن شخصیات نے جنرل پرویز مشرف کو مبارکباد دی ان میں اسرائیل کے صدر شمعون پیریز بھی شامل ہیں۔ اسرائیلی صدر نے جنرل پرویز مشرف کو باقاعدہ خط لکھا ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے مزید پانچ سال کے لئے صدر بننے پر مسرت کا اظہار کیا۔ جواب میں جنرل پرویزمشرف نے بھی اپنا شکریہ شمعون پیریز کو پہنچا دیا ہے لیکن جنرل مشرف ذرا سوچیں کہ اسرائیل اور پاکستان کے مابین سفارتی تعلقات نہیں ہیں، اسرائیلی صدر انہیں مبارکباد کا خط لکھ رہا ہے اور خط کا متن میڈیاکو بھی جاری کررہا ہے۔ آخر کیوں؟

آج اس جنگ کے نام پر شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان میں آئے دن بمباری کی جارہی ، اگر پانچ عسکریت پسند مارے جاتے ہیں تو ان کے ساتھ پچاس بے گناہ عورتیں اور بچے بھی بمباری کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ جس ”عالمی برادری“ کی خوشی کو جنرل مشرف ہر وقت مقدم رکھتے ہیں وہ پاکستان میں لگی ہوئی آگ بجھانے کی بجائے یہ آگ پھیلانے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے کیونکہ اس برادری کی سرخیل عالمی طاقتوں کا اصل نشانہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام ہے جب تک پاکستان کی فوج قائم ہے ایٹمی پروگرام بھی قائم ہے لہٰذا ایٹمی پروگرام کو تباہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے فوج کو تباہ کیا جائے۔اس وقت پاکستان کی شمال مغربی سرحدوں پر جوکھیل جاری ہے اس کا اصل مقصد پاکستانی فوج اورپاکستان کے ایٹمی پروگرام کو غیرمحفوظ بنانا ہے۔ان خطرات سے نکلنے کا واحد راستہ قبائلی علاقوں کے ناراض نوجوانوں سے مفاہمت ہے، اس مفاہمت کیلئے عالمی برادری“ کی ناراضی کو خاطر میں نہ لایا جائے کیونکہ یہ نام نہاد عالمی برادری پاکستانی قوم اور اس کے اثاثوں کو پاکستانی حکمرانوں کے ذریعے تباہ کرنا چاہتی ہے لہٰذا حکمرانوں کوچاہئے کہ غیروں کی نہیں بلکہ اپنوں کی ناراضی کا خیال کریں۔ عیدالفطر پر شمالی وزیرستان میں بمباری بند کردی جائے۔ قبائلی عمائدین اور علماء کے ذریعے جنگ بندی کی جائے اوربمباری سے تباہ شدہ علاقہ امدادی سرگرمیوں کیلئے کھولا جائے تاکہ شمالی وزیرستان کے باسیوں کو احساس ہو کہ کسی کو ان کی عید کی بھی فکر ہے۔ان کی ناراضی دور نہ کی گئی تو پھر ”امارات اسلامیہ وزیرستان“ کا راستہ ہموار ہوگا اور جب یہ ہوگا تو جنرل پرویز مشرف کی محبوب ”عالمی برادری“ خوشی سے پھولے نہ سمائے گی۔

حامد میر کے قلم کمان سے اقتباس ۔ بشکریہ جنگ

سرسیّد سے غامدی تک

دوسری صدی ہجری میں خوارج اور معتزلہ نے سنّت سے انکار کا فتنہ اُٹھایا ۔ سبب یہ تھا کہ سنّت خوارج کے انتہاء پسندانہ نظریات کے پرچار کی راہ میں ایک مضبوط فصیل کی طرح حائل تھی جبکہ معتزلہ کم علمی یا ایمان کی کمزوری کی وجہ سے عجمی اور یونانی فلسفوں سے متاثر ہو کر دین اسلام کو شک کی نظر سے دیکھنے لگے تھے ۔ یہ دونوں فتنے کچھ مدت بعد اپنی موت آپ مر گئے جس کی بڑی وجوہ محدثین کا زبردست تحقیقی کام ۔ اہلِ عِلم کی طرف سے قرآن کی تصریحات اور اُمت کا اجتماعی ضمیر تھیں ۔ تیسری صدی ہجری کے بعد پھر صدیوں تک یہ فتنہ سر نہ اُٹھا سکا ۔

دوسری بار اس فتنے نے تیرہویں صدی ہجری [اُنیسویں صدی عیسوی] میں عراق میں سر اُٹھایا اور پھر ہندوستان میں اس کی بنیاد سر سیّد احمد خان [1817 تا 1898] نے ڈالی ۔ اُن کے بعد مولوی چراغ علی ۔ مولوی عبداللہ چکڑالوی ۔ مولوی احمد دین امرتسری اور مولوی اسلم جیراج پوری یکے بعد دیگرے اس کے علمبردار بنے ۔ آخرکار اس کی ریاست چوہدری غلام احمد پرویز [1903 تا 1986] کے ہاتھ آئی جس نے اسے ضلالت کی انتہاء تک پہنچا دیا ۔ فی زمانہ اس کام کا بیڑہ جاوید احمد غامدی نے اُٹھایا ہوا ہے ۔ یہ صاحبان بھی معتزلہ کی طر ح یورپی اور امریکی فلسفہ سے متاثر لگتے ہیں ۔

دین میں ان حضرات نے کتنا غلو کیا ۔ اس کے متعلق علماء دین مفصل لکھ چکے ہیں ۔ دین اسلام کے علماء کی جو چند کتابیں میں نے ان صاحبان کے خیالات کے متعلق دیکھی ہیں ان میں زیادہ زور سنّت کی حیثیت پر دیا گیا ہے ۔ مودودی صاحب کی سنّت کی آئینی حثیت میں غلام احمد پرویز کے ایک پیروکار کے خطوط اور ان کے جامع جوابات رقم کئے ہیں اور اس سلسلہ میں تمام اعتراضات اور واقعات کا مختصر مگر جامع تجزیہ بھی کیا ہے ۔

میں چونکہ انجنیئرنگ سائنس کا طالب علم ہوں اسلئے اسی لحاظ سے مطالعہ کرتا ہوں ۔ مجھے ان منکرینِ حدیث میں سے سرسیّد احمد خان ۔ غلام احمد پرویز اور جاوید احمد غامدی صاحبان کی تحاریر پڑھنے کا موقع ملا ۔ ان صاحبان نے اصلاح معاشرہ کی بجائے تجدیدِ دین کا بوجھ اپنے کندھوں پر ڈال کر دین اسلام کو جدید دنیا کے مطالبات کے تابع بنانے کی کوشش کی ہے ۔ حدیث کی کُتب کو متنازع بناتے ہوئے یہ حقیقت نظرانداز کر دی گئی کہ جس ذریعہ سے ہمارے پاس سنّت یا حدیث کا بیان پہنچا ہے قرآن شریف بھی ہمارے پاس اسی ذریعہ سے پہنچا ہے ۔ پھر جب وہ اس بات کو مانتے ہیں کہ قرآن شریف اصلی ہے تو مستند احادیث کیسے غلط ہو گئیں ؟ مزید یہ کہ اللہ نے قرآن شریف کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے اور اللہ سُبحانُہُ و تعالی کا یہ بھی فرمان ہے کہ سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی خواہش سے کوئی بات نہیں کہتے [سورت النَّجْم] ۔ جب سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی خواہش سے کوئی بات نہیں کہی تو پھر اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی ہی کی خواہش ہم تک پہنچائی تو کیا اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کو اس کی حفاظت منظور نہ تھی ؟

حدیث کو متنازعہ بنانے کے علاوہ مجھے زمانۂ جدید کے ان مفکرین کی تحاریر میں دو باتیں نمایاں نظر آئیں ۔ ایک عورتوں کے پردہ کا نظریہ اور دوسرا جہاد کا جنہیں مغربیت کا لباس پہنانے کیلئے ان صاحبان نے قرآن شریف کی متعلقہ کچھ آیات کو صرف رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی حیاتِ طیّبہ کیلئے مخصوص کر دیا اور کچھ کا شانِ نزول اور سیاق و سباق سے قطع نظر جدید دور کے مطالبات کے مطابق اپنی مرضی کا ترجمہ کر لیا ۔ گویا پچھلی 14 صدیوں میں پیدا ہونے والے سینکڑوں اہلِ عِلم سے یہ صاحبان زیادہ عقل و فہم رکھتے ہیں ۔ سُبحان اللہ ۔ غور کیا جائے تو ان صاحبان کا مقصد مغربیت زدہ لوگوں کو جواز کج روی مہیا کرنے کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا ۔

سنّت کے اتباع کی سند

سورت ۔ 3 ۔ آل عمران ۔ آیت 31 و 32 ۔ اے نبی لوگوں سے کہہ دو “اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو ۔ اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں سے درگذر فرمائے گا ۔ وہ بڑا معاف کرنے والا رحیم ہے”۔ اُن سے کہو “اللہ اور رسول کی اطاعت قبول کر لو”۔ پھر اگر وہ تمہاری یہ دعوت قبول نہ کریں تو یقیناً یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ ایسے لوگوں سے محبت کرے جو اس کی اور اس کے رسول کی اطاعت سے انکار کرتے ہوں ۔

ورت ۔ 4 ۔ النّسآء ۔ آیت 13 و 14 ۔ یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں ۔ جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا اُسے اللہ ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور ان باغوں میں وہ ہمیشہ رہے گا اور یہی بڑی کامیابی ہے ۔ اور جو اللہ اور اُس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کی مقرر کی ہوئی حدوں سے تجاوز کرے گا اُسے اللہ آگ میں ڈالے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اُس کیلئے رسواکُن سزا ہے ۔

سورت ۔ 53 ۔ النَّجْم ۔ آیات 1 تا 3 ۔ قسم ہے ستارے کی جب وہ گرے کہ تمہارے ساتھی [سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم] نے نہ راہ گُم کی ہے نہ وہ ٹیڑھی راہ پر ہے اور نہ وہ اپنی خواہش سے کوئی بات کہتا ہے

سنّت کیا ہے ؟

سنّت کے لغوی معنی ہیں روِش ۔ دستور ۔ عادت ۔ لیکن دین میں سنّت کا مطلب ہے رسول اللہ سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی روِش [جو انہوں نے کیا] یا مسلمانوں کو کرنے کا کہا یا مسلمانوں کو کرنے کی منظوری دی ۔

حدیث کے بنیادی معنی ہیں خبر یا بیان ۔ اسی سے حدوث ۔ حادثہ ۔ حادث جیسے لفظ بنے ہیں ۔ لیکن مسلم آئمہ کرام کے مطابق یہ لفظ رسول اللہ سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قول فعل یا تقریر کیلئے مختص ہے ۔

سنّت کی تین اقسام ہیں ۔ قولی ۔ وہ فعل جو سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کرنے کا کہا ۔ عملی ۔ وہ فعل جو سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کیا اور تقریری ۔ وہ فعل جو سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے اصحابہ رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے کیا اور انہوں نے منع نہ فرمایا ۔

کشادہ نظری سے دیکھا جائے تو سنّت اور حدیث ایک ہی چیز ہے ۔ اسلامی شریعت میں قرآن شریف کے بعد حدیثِ نبوی کو نص مانا جاتا ہے ۔ وہی حدیث قابلِ اعتبار سمجھی جاتی ہے جبکہ اس کے اسناد میں راویوں کا غیر منقطع سلسلہ موجود ہو ۔ راوی قابلِ اعتماد ہوں جس کا قیاس ان کی زندگی کے عوامل سے لگایا گیا ہے ۔ حدیث کی صحت پر چودہ صدیوں سے امت کا اجتماع چلا آ رہا ہے سوائے سر سیّد احمد خان ۔ چراغ علی ۔ عبداللہ چکڑالوی ۔ احمد دین امرتسری ۔ اسلم جیراج پوری ۔ غلام احمد پرویز اور جاوید احمد غامدی صاحبان کے ۔ خوارج اور معتزلہ کی تحریک تو دوسری صدی ہجری میں اُٹھی اور دم توڑ گئی تھی ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان صاحبان کے پاس کونسی سند ہے جس کی بنیاد پر پچھلی 14 صدیوں میں ہونے والے سینکڑوں اعلٰی معیار کے علماء دین کو یہ غلط قرار دے رہے ہیں ۔

حدیث کی تاریخ

آغازِ اسلام میں سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حدیث کی کتابت سے منع فرمایا تھا جس کا مقصد یہ تھا کہ قرآن شریف کے ساتھ کسی اور شے کا امتزاج و التباس نہ ہونے پائے لیکن جب قرآن و حدیث کی زبان میں امتیاز کا ملکہ راسخ ہو گیا تو آپ صلعم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حدیث لکھنےکی اجازت دے دی اور حدیث کی کتابت کا آغاز سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حیاتِ مبارک ہی میں ہو گیا ۔

حدیث کی سند تصحیح اور کتابی شکل دینے کے متعلق پڑھئیے ۔ دائرہ معارفِ اسلامیہ جلد 7 ۔ صفحات 962 سے 981 تک ۔
یہ تحقیقی مجموعہ پنجاب یونیورسٹی کے قابل اساتذہ کی تیس چالیس سالہ محنت کا ثمر ہے جو 1950ء میں شروع ہوئی تھی ۔ پہلی جلد کی طباعت 1980ء میں ہوئی اور آخری جلد کی 1990ء میں ۔ مجھے دائرہ معارفِ اسلامیہ کے تحریر اور مرتب کرنے والے سب دانشوروں کی مکمل فہرست اور ان کی تعلیمی درجہ کا مکمل علم نہیں ہے ان میں سے چند یہ ہیں

ڈاکٹر محمد شفیع ۔ ایم اے [کینٹب] ۔ ڈی او ایل [پنجاب] ۔ ستارۂ پاکستان
ڈاکٹر محمد وحید میرزا ۔ ایم اے [پنجاب] ۔ پی ایچ ڈی [لندن]
ڈاکٹر محمد نصراللہ احسان الٰہی رانا ۔ ایم اے ۔ پی ایچ ڈی [پنجاب] ۔ پی ایڈ [کینٹب]
سیّد محمد امجد الطاف ۔ ایم اے [پنجاب]
سیّد نذیر نیازی
نصیر احمد ناصر ۔ ایم اے [پنجاب]
عبدالمنّان عمر ۔ ایم اے [علیگ]

دراصل سرسیّد احمد خان ۔ غلام احمد پرویز اور جاوید احمد غامدی صاحبان سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حدیث کو ایک انسان کا قول و فعل فرض کرتے ہوئے اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے فرمان کو بھول جاتے ہیں اور اس اہم حقیقت کو بھی نظر انداز کر دیتے ہیں کہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے جو احکام قرآن شریف میں ہیں ان میں سے بیشتر پر عمل کرنے کی خاطر سنّت [حدیث] سے مدد لئے بغیر ان کو سمجھنا ناممکن ہے ۔