میری یادیں 1947ء کی ۔ دوسری قسط

Flag-1
پہلی قسط یہاں پر کلِک کر کے پڑھیئے

ہمارے ہمسایہ عبدالمجید ریاست کی فوج میں کرنل تھے اور اُن دنوں اُن کی تعیناتی برفانی علاقہ گلگت بلتستان میں تھی ۔ اکتوبر 1947 کے وسط میں پتہ چلا کہ ان کے بیوی بچے ستواری (جموں چھاؤنی) جا رہے ہیں ۔ ہمارے بزرگوں کے کہنے پر وہ لوگ ہم بچوں کو ساتھ لے جانے کو تیار ہو گئے ۔ ہمارے ساتھ اس کوٹھی میں کوئی بڑا مرد نہیں رہ رہا تھا ۔ ہم کل 5 لڑکے تھے ۔ سب سے بڑا 18 سال کا اور سب سے چھوٹا میں 10 سال کا ۔ نلکے میں پانی بہت کم آتا تھا اس لئے 6 نومبر 1947 کو بعد دوپہر ہم لڑکے قریبی نہر پر نہانے گئے ۔ ہم نے دیکھا کہ نہر کے پانی میں خون کے لوتھڑے بہتے جا رہے ہیں ۔ ہم ڈر گئے اور اُلٹے پاؤں بھاگے ۔ ہمارے واپس پہنچنے کے کوئی ایک گھنٹہ بعد کسی نے بڑے زور سے دروازہ کھٹکھٹایا ۔ جونہی کُنڈی کھولی ایک 6 فٹ کا نوجوان دروازے کو دھکا دیکر اندر داخل ہوا ۔ سب مر گئے کہہ کر اوندھے منہ گرا اور بیہوش ہو گیا ۔ اسے سیدھا کیا تو لڑکوں میں سے کوئی چیخا “بھائی جان ؟ کیا ہوا ؟” اُس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے ۔ وہ ہوش میں آ کر پھر چیخا سب مر گئے اور دوبارہ بیہوش ہو گیا ۔ وہ لڑکا خاتون خانہ کے جیٹھ اور ہمارے ساتھی لڑکوں کے تایا کا بیٹا تھا ۔

ہوش میں آنے پر اُس نوجوان نے بتایا کہ ہمارے جموں سے نکلنے کے بعد گولیاں چلتی رہیں اور جو کوئی بھی چھت پر گیا کم ہی سلامت واپس آیا ۔ جموں کے نواحی ہندو اکثریتی علاقوں سے زخمی اور بے خانماں مسلمان جموں پہنچ رہے تھے اور مسلمانوں کے ہندوؤں سکھوں اور بھارتی فوج کے ہاتھوں بیہیمانہ قتل کی خبریں سنا رہے تھے ۔ جموں کے دو اطراف درجن سے زیادہ گاؤں جلتے رات کو نظر آتے تھے ۔ نیشنل کانفرنس کے کرنل ریٹائرڈ پیر محمد کی طرف سے 4 نومبر 1947 کو سارے شہر میں اعلان کیا گیا کہ جس نے پاکستان جانا ہے وہ پولیس لائنز پہنچ جائے وہاں بسیں پاکستان جانے کے لئے تیار کھڑی ہیں ۔ 24 اکتوبر 1947 کو مسلمانوں کی طرف سے جنگ آزادی کے شروع ہونے کی خبر بھی پھیل چکی تھی ۔ مسلمانوں نے سمجھا کہ یہ بندوبست مسلمان شہریوں کی حفاظت کے لئے ہے ۔ دوسرے مسلمانوں کے پاس راشن تقریبا ختم تھا ۔ سو جموں شہر کے مسلمان پولیس لائنز پہنچنا شروع ہو گئے ۔

بسوں کا پہلا قافلہ 5 نومبر کو روانہ ہوا اور دوسرا 6 نومبر کو صبح سویرے ۔ وہ نوجوان اور اس کے گھر والے 6 نومبر کے قافلہ میں روانہ ہوئے ۔ جموں چھاؤنی سے آگے جنگل میں نہر کے قریب بسیں رُک گئیں وہاں دونوں طرف بھارتی فوجی بندوقیں اور مشین گنیں تانے کھڑے تھے ۔ تھوڑی دیر بعد جے ہند اور ست سری اکال کے نعرے بلند ہوئے اور ہزاروں کی تعداد میں مسلحہ ہندوؤں اور سکھوں نے بسوں پر دھاوہ بول دیا ۔ جن مسلمانوں کو بسوں سے نکلنے کا موقع مل گیا وہ اِدھر اُدھر بھاگے ان میں سے کئی بھارتی فوجیوں کی گولیوں کا نشانہ بنے اور بہت کم زخمی یا صحیح حالت میں بچ نکلنے میں کامیاب ہو ئے ۔ وہ جوان اور اس کے گھر والے بس کے دروازے کے پاس بیٹھے تھے اس لئے بس سے جلدی نکل کر بھاگے کچھ نیزوں اور خنجروں کا نشانہ بنے اور کچھ گولیوں کا ۔ اس جوان نے نہر میں چھلانگ لگائی اور پانی کے نیچے تیرتا ہوا جتنی دور جا سکتا تھا گیا پھر باہر نکل کر بھاگ کھڑا ہوا ۔ کچھ دیر بعد اسے احساس ہوا کہ وہ جموں چھاؤنی سے دور بھا گ رہا تھا ۔ وہ اُلٹے پاؤں واپس بھاگنا شروع ہو گیا اور جس جگہ حملہ ہوا تھا وہاں پہنچ گیا ۔ حملہ آور جا چکے تھے ۔ اس نے اپنے گھر والوں کو ڈھونڈنا شروع کیا مرد عورت بوڑھوں سے لے کر شیرخوار بچوں تک سب کی ہزاروں لاشیں ہر طرف بکھری پڑی تھیں ۔ اسے اپنے والدین کی لاشیں ملیں ۔ اس کی ہمت جواب دے گئی اور وہ گر گیا ۔ ہوش آیا تو اپنے باقی عزیزوں کی لاشیں ڈھونڈنے لگا اتنے میں دور سے نعروں کی آوازیں سنائی دیں اور اس نے پھر بھاگنا شروع کر دیا ۔ نہر کے کنارے بھاگتا ہوا وہ ہمارے پاس پہنچ گیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ [جاری ہے]

This entry was posted in آپ بيتی on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

10 thoughts on “میری یادیں 1947ء کی ۔ دوسری قسط

  1. Messna02

    In tamaam batoon kay bawajood jab in logon ko pachaanay kay leeay jihad shroo kia gia to maudoodi sahib nay jihad e kashmir ko haram qarar dia.

  2. Messna02

    Pakistan kee tareekh paradoxes say bharee paree hai. Samajh nahain aatee kis ko thek kahain kis ko galt. Aur aagay mustaqbal ka bhee kuch pata nahian kia ho. Mazrat kay saath, buzurg genration, aglee nasloon kay leeay koi wazeh rah mutayan nahain karsakay.

  3. اجمل

    میسنا 2 صاحب
    جموں کشمیر کے لوگوں نے اپنی جدوجہد کو جنگِ آزادی کا نام دیا تھا ۔ اسلئے جہاد پر مودودی صاحب کے فتوٰی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ آپ نے مودودی صاحب کا فتوٰی خود سنا تھا یا سنی سنائی باتوں پر ڈھنڈورہ پیٹ رہے ہیں ۔ آپ کی عمر 1947 میں کیا تھی ؟ میرا خیال ہے کہ آپ اس وقت پیدا بھی نہیں ہوئے تھے ۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تھا کہ کسی آدمی کے جھوٹا ہونے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ایک بات سنے اور بغیر تصدیق کے کسی دوسرے سے کہہ دے ؟

    آپ کو سب پاکستانیوں سے شکائت ہے ۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ سوائے بیجا نکتہ چینی کے آپ نے آج تک پاکستان کی کیا خدمت کی ہے ؟ یہ آپ کا خیال غلط ہے کہ پچھلی نسل یا آج کے بوڑھے لوگوں کو آپ کیلئے راہ مقرر کرنا چاہئیے تھی ۔ ہر شخص اپنی راہ خود مقرر کرتا ہے ۔ اور اگر آپ تھوڑا سا غور کرنے کی زحمت گوارا کریں تو مسلمانوں کیلئے سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک واضح راستہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے حُکم سے مقرر کر گئے ہیں ۔ کیا آپ اس پر عمل کرتے ہیں ؟ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے غیبت کو سگے بھائی کی مردہ لاش کا گوشت کھانے کے برابر قرار دیا ہے ۔ غیبت کا مطلب ہے کسی کی برائی اس کی عدم موجودگی میں بیان کرنا ۔ اور اگر کسی کی ایسی خامی بیان کی جائے جو اس میں نہ ہو تو اسے بہتان کہا جاتا ہے جو غیبت سے پڑا خرم ہے ۔ کیا آپ نے سوچا کہ آپ اگر بہتان نہیں تو غیبت کے مرتکب ہو رہے ہیں ؟

  4. Messna02

    Ajmal Sahib, maududi sahib kay fatwa walee baat main kai jaga par chukka hoon lekin uskee tardeed kahin nahain dekhee. Chand din pehlay Abdul Qadir Hassan nain apnay column main bhee is ka zikr kia. Qadir Sahib Jamaat Islami say bhee taaluq rakhtay hain aur siasat ka bhee wasee tajrebba rakhtay hain isleey inkee baat mutabbar maaloom hotee hai.

  5. محب علوی

    میسنا صاحب ،

    مودودی صاحب نے ایک فتوی یہ دیا تھا کہ جہاد خلیفہ کی مرضی سے ہوتا ہے اور اس کی قیادت میں صحیح ہوتا ہے ورنہ نہیں مگر یہ اقدام جہاد ہوتا ہے جس میں کسی اور خطے پر حملہ آور ہونا ہو جبکہ اگر آپ کی سرزمین پر حملہ ہوتا ہے تو پھر کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ آپ پر حملے کا آغاز ہوگیا ہے ۔ کشمیر میں بھارتی فوج کے داخلے کے بعد جہاد کے لیے اجازت کی ضرورت اہل کشمیر کو کسی فتوی سے نہیں چاہیے تھی کہ یہ اب اپنے آپ ان پر فرض ہوگیا تھا۔

    ویسے آپ کوشش کریں کہ مودودی صاحب کی اس بات کو پورے سیاق و سباق سے تلاش کریں کیونکہ ان سے ایسی بات ثابت نہیں ہے۔

  6. Messna02

    muhib alwee sahib, main yahan ikhtilaf karoon ga. yahan kisee khitay waghaira main dakhil honay ka swaal nahain aur galban Maududi sahib ko bhee yehee galtee lagee. Quran main saaf saff aya hai kay tum apnay un bhai bhenoon kee madad kion nahain kartay jo kuffar kay mazalam ka shikaar hain. kashmirioon pay badtareen mazaalam kay bawajood kisee ka (maududid sahib samait) sharee itebaar say iskee mukhalfat cheh maynee?

    jahaan tak durust siaq-o-sibaq ka taalaq hai, mujhay nahain lagta kay Abdul Qadir Sahib apnee hee jamaat kay baanee jin ka wo diffah farma rahay thy kay maamlay main durust siaq-o-sibaq kee ahmiyat say bekhabar hon gay.

  7. اجمل

    میسنا 2 صاحب
    یہ بحث فضول ہے کہ مودودی صاحب نے کیا کہا ۔ میرے رزنامچہ میں جو لکھا جائے مجھے اس سے غرض ہے ۔ میں نے جو آپ کے پہلے تبصرہ کا جواب دیا وہ شائد آپ نے نہیں پڑھا ۔
    مزید آپ شائد جانتے ہی ہوں کہ جب کوئی شخص مر جاتا ہے تو اس کا حساب کتاب اللہ تعالٰی کے ہاں شروع ہو جاتا ہے ۔ مرے ہوئے شخص کی جائز تعریف کرنا تو خوش اخلاقی ہے مگر اس کی برائی کرنا مسلمان کو زیب نہیں دیتا ۔
    آپ مجھے عبدالقادر حسن صاحب کے اس کالم کا حوالہ دیدیجئے جس میں آپ کے مطابق انہوں نے لکھا تھا کہ مودودی صاحب نے کشمیر کے جہاد کو ناجائز قرار دیا تھا ۔

    باقی جہاد کے بارے میں اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کا حکم مندرجہ ذیل ربط پر پڑھ لیجئے
    http://iftikharajmal.wordpress.com/2007/04/14/

  8. Messna02

    Amal Sahib, Qadir Sahib ka column pichlay 2-3 week main Express main shaya hua…main waqt nikaal kay kisse waqt dhoondoon ga.

  9. Pingback: میری یادیں 1947ء کی ۔ تيسری اور آخری قسط | میں کیا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ What Am I

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.